پیر، 7 اپریل، 2025

پاکستان اسٹیل ملز کا سنہرادور

 

  پاکستان اسٹیل ملز کا سنہرا دور-  پاکستان سٹیل ملز ، 19 ہزار 500 ایکڑ رقبے پر قائم  ایک مکمل صنعتی  زون  کا علاقہ تھی۔ اس کی پیداوار 11 لاکھ ٹن فولاد سے شروع ہوئی اور محض پانچ برسوں میں 33 لاکھ ٹن تک جا پہنچی تھی۔ 1990ء اور 1991ء میں عروج کے دور میں 24 ہزار ملازمین تھے۔ اس منافع بخش ادارے نے 1981ء سے 2007ء تک ملکی بنکوں سے لیا گیا 25 ارب روپے کا قرضہ واپس کرنے کے علاوہ 114 ارب روپے ٹیکسوں کی صورت میں بھی وفاقی حکومت کو ادائیگی کی تھی-پاکستان سٹیل ملز ، ایک عظیم منصوبہ-پاکستان سٹیل ملز میں فولاد سازی کے علاوہ 165 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کا تھرمل پاور پلانٹ بھی نصب کیا گیا تھا جس سے خارج ہونے والی بھاری گیسیں ، پاور پلانٹ میں منتقل کرکے سستی بجلی پیدا کی جاتی تھی۔

جب سو فیصدی پیداواری عمل جاری تھا تو چار ہزار گھروں پر مشتمل رہائشی کالونی اور تین ہزار سے زائد گھروں کی بجلی کی ضروریات بھی انھی پاور پلانٹس سے پوری کی جاتی تھی۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) کو بھی کئی سالوں تک بجلی فروخت کی جاتی رہی۔ اسی طرح یہاں کام کرنے والے آکسیجن گیس کا پلانٹ جوکہ تقریبا 15 سے 20 ہزار کیوبک فٹ آکسیجن پیدا کرتا تھا ، اس سے فرنس پلانٹ کی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہزاروں کیوبک گیس کی بچت بھی کی جاتی تھی جسے بعد میں آکسیجن سلنڈرز کی شکل میں کراچی کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو مفت فراہم کردیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ یہاں واحد (Liquid Gas)
بھی تیار کی جاتی تھی۔


پاکستان سٹیل ملز میں 110 ملین گیلن پانی ذخیرہ کرنے والا فلٹر پلانٹ بھی موجود تھا جوکہ پچاس کلومیٹر کی پائپ لائن کے ذریعے کینجھر جھیل سے پانی حاصل کرتا ہے۔ اس کا فلٹر کیا گیا پانی پلانٹ کے ساتھ رہائشی کالونی اور نجی صنعتوں کو فراہم کیا جاتا تھا۔پاکستان سٹیل ملز کی چار ہزار ایکڑ زمین کو مکمل انفراسٹریکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کے حوالے کیا گیا جہاں دیگر نجی شعبوں کی سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ موٹر کاریں بنانے والے ادارے بھی قائم تھے۔ اسی کے ساتھ یہاں ایک بہت بڑا ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی تھا جس میں 850 بڑی گاڑیوں سمیت 200 کے قریب ہیوی لوڈنگ والے ڈمپر اور ڈوزر بھی شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت کرنے کے لیے ورکشاپس بھی موجود ہیں جہاں ماہر مکینک اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک ریلوے ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں

۔پاکستان سٹیل ملز اور پورٹ قاسم پاکستان سٹیل مل کی طرف سے ملک سے باہر کچا لوہا درآمد کرنے کے لئے پورٹ قاسم سے جہازو  ں سے سیدھا ملز کے اندر لانے کے لئے ایک جیٹی بھی موجود ہے جہاں بحری جہازوں سے خام مال بنا کسی ٹرانسپورٹ کے اپنے کنویئر بیلٹ کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ یہ بیلٹ سات کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ پلانٹ میں فولاد بننے کے بعد جو سکریپ بچتا تھا ، وہ ملک کی دیگر کارخانوں کو بیچا جاتا تھا۔ سٹیل ملز کا اپنا ایک میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر (MTC) بھی تھا جہاں تربیت کے ذریعے لاکھوں ہنرمند تیار کیے گئے ہیں۔ جوآج دنیا کے مختلف ملکوں کے اندر سٹیل کے کارخانوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ملک کا ایسا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ ہے،

جس سے فولاد کے علاو ہ دیگر صنعتیں بھی منسلک ہیں۔ ان تمام تر وسائل کے ہونے کے باوجود بھی  پا پا کستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا   اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے - پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔

اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔سٹیل مل کے لیے روسی پیشکش پر غور کیا گیاپاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا-

اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔

اتوار، 6 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس -حصہ چہارم

 

کیا مطلب۔؟میں نے تلخی سے دریافت کیا۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی استانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشا آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر۔!جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر ان کی راکھ ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔!اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر۔!اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔!ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا۔ڈھاکہ سے جسیم الدین،جلیبی اور رس گلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا۔وہ سب یہ تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں ۔سال میں کئی بار سید ممتاز حسین شاہ بی۔اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فانٹین پین چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔

صرف ایک راجہ شفیع ہے ،جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی کھانے میں جا کر رکھ دیتا ہے۔کیونکہ نہ وہ شاعر ہے نہ ادیب فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔بات بلکل سچ تھی چناچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔عفت کو میرے دوستوں کے ساتھ بڑا انس تھا۔وہ ادیب پرست تھی اور ادب شناس بھی۔شاہنامہ اسلام کے سینکڑوں اشعار اسے زبانی یاد تھے۔حفیظ جالندھری کا وہ اپنے باپ کی طرح ادب کرتی تھی۔جوش صاحب کا۔یادوں کی بارات کی بھی مداح تھی۔ایک روز میں نے کہا۔میں جوش صاحب کی طرف جا رہا تھا چلو تم بھی ان سے مل لو۔تم جا، اس نے کہا۔میرے لئے جوش صاحب کے دور کے ڈھول ہی سہانے ہیں۔یحیی خان کے زمانے میں جب ہم انگلستان کے ایک چھوٹے سے گاں میں خاموشی سے اپنے دن گزار رہے تھے تو فیض احمدفیض لندن آئے۔وہاں سے انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں کل تمہارے پاس آ رہا ہوں، دوپہر کا کھانا تمہارے ہاں کھاں گا۔عفت نے بڑا اچھا کھانا پکایا، سردیوں کا زمانہ تھا۔شائد برف باری ہورہی تھی لندن سے ہمارے ہاں آنے کے لئے ایک گھنٹہ ریل کا سفر تھا۔


اس کے بعد آدھ گھنٹہ بس کا سفر، اور پھر کوئی پندرہ منٹ پیدل۔!ڈھائی تین بجے جب فیض صاحب گھٹنے گھٹنے برف میں دھنستے دھنساتے افتاں و خیراں ہمارے ہاں پہنچے تو عفت کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔کھانا گرم کرتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور بڑی عقیدت سے کہنے لگی۔ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔!وہ کیسے۔؟میں نے پوچھا۔ہمارے دور کا اتنا بڑا شاعر ایسے خراب موسم میں اتنی دور تم سے ملنے آیا ہے۔یہ فیض صاحب کی مروت ہے، میں نے کہا۔مروت نہیں، اس نے مجھے ٹوک۔یہ ان کی عظمت اور سخاوت ہے۔ہمارے اچھے سے اچھے دنوں میں اس کا ایک مرغوب مصرعہ یہ تھا۔ ۔۔۔۔ رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔اس پر اس نے غالبا اپنی طرف سے دوسرا مصرعہ یہ گانٹھ رکھا تھا۔
نہ زمیں ہو نہ زماں ہو ،آسماں کوئی نہ ہو،
بیماری کے دنوں میں وہ بار بار پڑھا کرتی۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی،
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔


اپنے تین سال کے بے وطنی کے زمانے میں ہمیں اکثر اوقات مالی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ایک دفعہ جب ہم تیسری چوتھی بار نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے تو اس نے بڑی محنت سے سامان باندھا۔اس کی تھکن اس کے بند بند سے یوں ٹپک رہی تھی جیسے شدید بارش کے بعد ٹوٹی ہوئی چھت ٹپکنے لگتی ہے۔میں نے اس کے پاں دبا کر کہا، عفت میری وجہ سے تمہیں کس قدر تکلیف ہورہی ہے۔ماں جی کی طرح وہ کبھی کبھی بہت لاڈ میں آکر مجھے۔کوکا کہا کرتی تھی، بولی۔!ارے کوکے۔!میں تو تیرے ساتھ بہت خوش ہوں لیکن بیچارے ثاقب پر ترس آتا ہے۔اس ننھی سی عمر میں یہ اس کا آٹھواں اسکول ہوگا۔ثاقب کی بات چھوڑو، میں نے کہا۔آخر ہمارا بیٹا ہے۔ہر نئے اسکول میں جاکر آسانی سے فِٹ ہوجاتا ہے لیکن تجھے اتنا تھکا ماندہ دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔تم ٹھیک تو ہونا۔؟ہاں۔!ٹھیک ہی ہوں۔اس نے اپنا سر میرے شانوں پر ٹیک کر کہا ۔مجھے اس کے بند بند سے غالب کا شعر آہ و زاری کرتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔

کہیں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔
میرا خیال ہے کہ اسی زمانے میں دربدری کی محنت و مشقت نے اسے وہ روگ لگا دیا جس نے انجام کا راستہ کنٹربری کے گورستان میں جا بسایا۔یہ خیال اب ہر وقت احساسِ جرم کا تازیانہ بن کر میرے ضمیر پر بڑے بے رحم کوڑے مارتا ہے۔اب میں کیا کروں ایک فقیر حقیر، بندہ پر تفسیر، اسیرِ نفس شریر کو بھی کیا کہہ سکتا ہے جی چاہتا ہے خاک سے پوچھوں 
کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیاکئے
شہاب نامہ سے اقتباس۔

ہفتہ، 5 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس۔ حصہ سو ئم

 

میں نے کہا۔!میڈم اٹھو۔!ہمارے ارد گرد جو بے شمار بچے کھیل کود رہے ہیں، وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں۔؟وہ چمک کر اٹھ بیٹھی اور حسبِ دستور مسکرا کر بولی، یہ لوگ یہی سمجھیں گے ناکہ کوئی بوالہواس بوڑھا کسی چھوکر ی کو پھانس لایا ہے۔کبھی تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے۔؟ہاں۔!روز ہی دیکھتا ہوں، میں نے کہا۔اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی۔:تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں۔میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر شیمپو کیا کرو لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے۔میں خاموش رہا۔اس نے مجھے گدگدا کر ہنسایا اور کہنے لگی۔تمہیں ایک مزے کی بات سناں۔؟ضرور سنا۔میں نے کہا۔وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگی، کوئی دو برس پہلے میں نسیم انور بیگ کی بیگم اختر کے ساتھ آکسفورڈ اسٹریٹ شاپنگ کے لئے گئی تھی۔وہاں اس کی ایک سہیلی مل گئی،


اس نے میرا تعارف یوں کرایا کہ یہ عفت شہاب ہے۔یہ سن کر اختر کی سہیلی نے بے ساختہ کہا۔ارے۔!ہم نے تو سنا تھا شہاب کا صرف ایک بیٹا ہے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اتنی بڑی بیٹی بھی ہے، دیکھا پھر۔!ہاں ہاں بیگم صاحبہ۔!دیکھ لیا۔میں نے جھینپ کر کہا،پانچ بجنے کو ہیں۔چلو۔!طارق کی سالگرہ پر بھی تو جانا ہے۔یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا۔اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں، دوستوں، یاروں اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی، ہا ہا کر لیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم نے اتنی دل جمعی کے ساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی۔یہاں تک کے جب میں نے سی ۔ایس۔پی سے استفعی دیا۔تو یوں ہی ایک فرض کے طور پر مناسب سمجھا کے اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرلوں۔


جب میں نے اسے بتایا کہ میں ملازمت سے مستفعی ہونا چاہتا ہوں تو وہ ثاقب کے اسکول جانے سے پہلے اس کے لئے آملیٹ بنا رہی تھی۔آملیٹ بنانے کا چمچہ ہاتھ سے چھوڑے بغیر اور میری طرف آنکھ اٹھائے بغیر وہ بولی۔اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے، تو بسم اللہ۔!ضرور استفعی دے دو۔اس کی اس شانِ استغنا سے جل کر میں نے شکایتی لہجے میں کہا، بیگم صاحبہ۔!آپ کی رضامندی کے بغیر میں ایسا قدم کیسے اٹھا سکتا ہوں۔؟اور ایک آپ ہیں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔اس نے چمچہ ہاتھ سے رکھ دیا  اور میری طرف یوں پیار سے دیکھا جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر بولی۔ارے یار۔!میں تجھے کیسے سمجھاں کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی۔مجھے یہ زعم تھا کہ میں خود فنا کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ عفت پہلے ہی اس مقام سے گزر چکی ہے۔جب وہ تابوت میں لیٹی ہوئی تھی، تو میں نے چپکے سے اس کے سر پر آخری بار ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔میرے اندر کے توہمات نے میرے سینے میں عجیب و غریب امیدوں کی موم بتیاں سجا رکھی تھیں لیکن ان میں سے کسی معجزے کی ایک بھی موم بتی روشن نہ ہوئی۔


وہ مر گئی تھی ! ہم نے اسے قبرستان میں لے جا کر دفنا دیا۔باقی اللہ اللہ خیر سللا۔یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں اور باہمی شکر رنجیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہییں لیکن ہماری اصلی بڑی لڑائی صرف ایک بار ہوئی۔اسلام آباد میں اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا۔میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور درمیان میں رنگین پھول تھے۔عفت نے اسے فورا یوں مسترد کر دیا جس طرح وہ کسی چالاک سبزی فروش کو الٹے ہاتھوں باسی پالک،مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو۔مجھے بڑا رنج ہوا، گھر آکر میں نے سارا دن اس سے کوئی بات نہ کی۔رات کو وہ میرے پہلو میں آکر لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھ کر کہنے لگی، دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے۔جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہےآج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے۔؟میں نے قالین کی بات اٹھائی۔قالین تو نہایت عمدہ ہے ،اس نے کہا۔لیکن ہمارے کام کا نہیں۔!وہ کیوں۔؟میں نے پوچھا۔دراصل بات یہ ہے۔جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے ان میں سے کوئی بھی ہمارے ہاں نہیں آتا۔


جمعہ، 4 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس۔حصہ دوم

 

جون کی تاریخ اور اتوار کا دن تھا۔چاروں طرف چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی عفت صبح سے ثاقب کے ساتھ ایک کیاری میں دھنیا، پودینہ، ٹماٹر اور سلاد کے بیج بوا رہی تھی۔پھر اس نے گلاب کے چند پودوں کو اپنے ہاتھ سے پانی دیا۔اس کے بعد ہم تینوں لان میں بیٹھ گئے۔عفت نے بڑے وثوق سے کہا۔:یہ کیسا سہانا سماں ہے۔!غالبا بہشت بھی کچھ ایسی ہی چیز ہوگی۔؟پتہ نہیں۔!میں نے کہا۔عفت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔یہ اس کا آخری بھرپور قہقہہ تھا جو میں نے سنا۔وہ بولی۔!تم مجھے کچھ نہیں بتاتے، ممتاز مفتی جو لکھتے ہیں، اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔آخر مجھے بھی تو کچھ بتا۔ میں نے کہا۔!تم ممتاز مفتی کو جانتی ہو۔؟بہت بڑا افسانہ نگار ہے، جو جی میں آئے لکھتا رہتا ہے، اس نے میرے سر پر سبز عمامہ باندھ کر اور اس پر مشک، کافور کا برادہ چھڑک کر مجھے ایک عجیب و غریب پتلا سا بنا رکھا ہے۔وہ دیدہ و دانستہ عقیدے سے بھاگتا اور عقیدے کا روگ پالتا ہے۔


اس کی کسی بات پر دھیان نہ دو۔وہ مسکرا کر بولی۔:یہ ممتاز مفتی بھی عجیب آدمی ہیں۔میرے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں۔ثاقب کے ساتھ گھنٹوں بچوں کی طرح کھیلتے ہیں لیکن وہ جب میرے ساتھ تمہاری باتیں کرکے جاتے ہیں تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے جیسے میں تمہاری بیوی نہیں بیوہ ہوں یہی تو اس کی افسانہ نگاری کا کمال ہے۔!میں نے کہا ۔وہ تنک کر بولی۔:مفتی جی کو گولی مارو۔!آ۔!آج ہم دونوں عیش کریں۔!اس ملک میں ایسی دھوپ روز روز تھوڑی نکلتی ہے۔یہ کہہ کر وہ اٹھی جلدی جلدی مٹر قیمہ پکایا۔کچھ چاول ابالے اور سلاد بنائی۔ہمیں کھانا کِھلا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنی، ڈھیر سارا میک اپ کیا اور جب خوب بن ٹھن کر نکلی تو ثاقب نے بے ساختہ کہا۔واہ واہ امی۔!آج تو بڑے ٹھاٹھ ہیں، اب تو ابو کی خیر نہیں۔زیادہ بک بک نہ کیا کرو۔!اس نے ثاقب کو ڈانٹا۔تم اپنی سائیکل نکالو اور خالد کے گھر چلے جاو۔شام کو طارق کی سالگرہ ہے۔

ہم بھی پانچ بجے تک پہنچ جائیں گے۔ثاقب نے گھڑی دیکھ کر شرارت سے کہا ،امی۔!ابھی تو صرف دو بجے ہیں۔!پانچ بجے تک آپ اکیلی کیا کریں گی۔؟ہم مزے کریں گے۔!عفت نے کہا، اب تم جاو۔!ثاقب اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر خالد کے ہاں چلا گیا ،میں نے عفت سے کہا، آج تو تم زبردست موڈ میں ہو، بولو کیا ارادہ ہے۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہنے لگی، اب میں تمہارے کسی کام کی نہیں رہی ،چلو پارک چلیں۔ہم دونوں ٹیکسی کرکے اس کے ایک پسندیدہ پارک میں چلے گئے۔چاروں طرف جوان اور بوڑھے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے تھے بہت سے فوارے چل رہے تھے ،گلاب کے پھول کِھلے ہوئے تھے۔چیری کے درخت گلابی اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔آس پاس ٹھنڈے دودھ اور رنگارنگ مشروبات کی بوتلیں بِک رہی تھیں ،ہم دونوں لکڑی کے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی۔!بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔؟پتہ نہیں۔!میں نے کہا۔تم مجھے کچھ نہیں بتاتے۔اس نے شکایت کی۔ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا۔ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو۔میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی۔

وہ بولی۔!یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا۔!کوئی کام کی بات کرو۔واقعی کروں۔؟اس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہ، برا تو نہیں منا گے۔؟بات کاٹو گے تو نہیں۔؟ٹالو گے تو نہیں۔؟بالکل نہیں۔میں نے اسے یقین دلایاوہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی۔سنو۔!جب میں مر جاں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینااس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔وہ بولتی گئی۔:یہ شہر مجھے پسند ہے۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے، یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں۔اس نے منہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔میری آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب امڈ رہا تھا۔اس نے اپنے جامنی رنگ کے ڈوپٹے کے پلو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا،


 اس ملک میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے، اس لئے میرے جنازے پر کسی کو نہ بلانا۔یہاں پر تم ہو، ثاقب ہے،خالد ہے ،زہرہ ہے، آپا عابدہ ہیں ،خالد کے گھر چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں۔بس اتنا کافی ہے۔!اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا، بزنس آخر بزنس ہے۔میں نے کہا، جرمنی سے تنویر احمد خاں اور پیرس سے نسیم انور بیگ شائد آجائیں۔ان کے متعلق کیا حکم ہے۔؟؟؟وہ آجائیں تو ضرور آجائیں، اس نے اجازت دے دی۔وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں، لیکن پاکستان سے کوئی نہ آئے۔!وہ کیوں۔؟میں نے پوچھا ۔وہ بولی، ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں ضرور آجائیں گے لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے لیکن آنہیں سکتے، خواہ مخواہ ندامت سی محسوس کریں گے۔ٹھیک ہے ناں۔؟میڈم۔!آپ کا اشارہ سر آنکھوں پر۔!میں نے جھوٹی ہنسی سے کہا ۔اور کوئی ہدایت۔؟میری قبر کے کتبے پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ضرور لکھوانا۔ضرور۔! میں نے کہا۔کوئی حکم۔۔۔؟؟؟ہاں۔!ایک عرض اور ہے۔!اس نے کہا۔اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو۔دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے۔!تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا۔۔۔یہ کہہ کر وہ اٹھی اپنا پرس کھولا، ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی لا، آج میں پھر تمہارے ناخن تراش دوں۔اس نے میرے ناخن کاٹے۔اس آخری خدمت گزاری کے بعد وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔مجھے اچھا تو بڑا لگا، کیونکہ اس سے پہلے ہم برسرِعام اس طرح کبھی نہ بیٹھے تھے لیکن اس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام چھلک رہا تھا اس نے مجھے بے تاب کردیا۔


جمعرات، 3 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس-حصہ اول

 


آج عفت مر گئی میں اسے مذاقا بڑھیا کہا کرتا تھا لیکن جب کنٹربری کانٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پر کرنا تھا اس میں مرحوم کی تاریخِ پیدائش بھی درج کرنا تھی۔جب میں نے اس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔اس کی عمر تو صرف 41 برس تھی۔لیکن میرے لئے وہ ہمیشہ " میری بڑھیا کی بڑھیا ہی رہی۔کنٹربری اسپتال میں ہم نے اسے گرم پانی میں آبِ زمزم ملا کر غسل دیا پھر کفنایا اور جب اسے قبلہ رو کرکے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں رکھا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا، ارے۔!یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔


بات بھی سچ تھی جب میں اسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ائیر سے نکلی تھی جب میں نے اسے دفنایا تو واقعی وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ابھی ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔درمیان کے اٹھارہ سال اس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاسکے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں۔سامان بک ہو چکا ہو ۔ٹرین کا انتظار ہو۔اس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی۔وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی ۔میری ٹرین لیٹ ہے، جب آئے گی میں بھی اس میں سوار ہوجاں گا لیکن سامان کا کیا ہوگا۔

جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اسے وصول کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا کیا ہے۔؟کچھ کاغذ، ڈھیر ساری کتابیں، کچھ کپڑے،بہت سے برتن اور گھریلو آرائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا اور ایک ثاقب۔!لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں ہوتا ہے نہ احباب میں۔یہ بارہ سال کا بچہ میرے لئے ایک دم بوڑھا ہو گیا۔کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا، تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے، بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔


ہمارے گھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، اسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے، نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔صد حیف۔!کہ اب میرے پاس وہ بچہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روں۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے۔
ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی۔ماں جی کے مرتے ہی فورا عفت نے ان کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔پتہ نہیں یہ ماں اور بیٹا کیسے لوگ ہیں۔؟


یہ خود تو صبر وشکر کا بادبان تان کر ہنسی خوشی زندگی اور موت کے سمندر میں کود جاتے ہیں اور مجھے بییارومددگار اکیلا ساحل پر چھوڑ جاتے ہیں جیسے میں انسان نہیں پتھر کی چٹان ہوں۔خیر، اللہ انہیں دونوں جہاں میں خوش رکھے میرا کیا ہے۔؟میں نہ اِس جہاں کے قابل نہ اس جہاں کے۔کوئی تنہائی سی تنہائی ہے ۔میرا خیال ہے کہ میری اس عجیب تنہائی کا احساس عفت کو بھی ضرور تھا۔بات تو اس نے کبھی نہیں کی لیکن عملی طور پر اس نے اِس بینام خلا کو پر کرنے کی بیحد کوشش کی۔یہ کوشش پورے اٹھارہ سال جاری رہی لیکن میرے لئے اس کا ڈرامائی کلائمیکس اس کی وفات سے عین پندرہ روز پہلے وقوع پذیر ہوا۔

۔۔

چترال میں گرم پانی کے چشمے قدرتی شفا باعث ہیں



وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا ﴿ؕ۲۷﴾

. ہم نے اس پر بلند و مضبوط پہاڑ رکھ دئیے اور ہم نے تمہیں (شیریں چشموں کے ذریعے) میٹھا پانی پلایا-لیکن یہاں ہم گرم پانی کے چشموں کی بات کریں گے کراچی  کے کے شہری جانتے ہیں کہ کراچی کے انتہائ شمال میں بھی لاتعداد  گرم پانی کے ایسے چشمے زمین کی اتھلی گہرائ پر موجود ہیں جن کے پانی سے نہانے سے لاتعداد بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں -در اصل یہ بھی اللہ کریم و کارساز کی حکمت ہے کہ جہاں طبی علاج فیل ہوتے ہیں وہاں سے خدا کی حکمت کا آغاز ہوتا ہے -سلفر یعنی گندھک کی آمیزش کے پانی قدرتی شفا بخش ہوتے ہیں   چترال کے گرم پانی  کے چشمے کسی قدرتی عجوبے سے کم نہیں اور اس تک پہنچنے کے لیے دریائے لٹکوہ کے ساتھ سفر کرنا اپنے آپ میں ایک خوشی ہے۔ 


 یہ قریب ترین شہر سے 5 گھنٹے کا آف روڈ اور 45 منٹ کا ٹریک ہے جہاں سے ابتدائی ندی شروع ہوئی تھی۔ یہ چشمہ دو پہاڑوں کے سنگم پر واقع تھا جو کئی سالوں سے پانی کی وجہ سے ختم ہو رہا تھا۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ علاج کے لیے اس چشمے کے پانی میں شفا ہے۔' اس چشمے سے جڑی کہانیوں کے مطابق اس کا پانی درد اور یرقان سمیت دیگر بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ اقبال حسین چشمے کے پاس ایک چھوٹے سے تالاب میں نہا رہے ہیں۔ اس نے، جن کا گھر چشمہ کے قریب تھا، آزاد اردو کو بتایا کہ اسے یرقان ہے، لیکن اس چشمے میں آکر یہاں نہانے اور نہانے سے ان کی بیماری ٹھیک ہوگئی۔ چشمے کے قریب ایک بڑی مسجد کو بھی یہاں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، لوگ اسے وضو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح نہانے کے لیے چشمے کے قریب باتھ روم ہیں جہاں لوگ علاج کے لیے آتے ہیں جب کہ ایک گھر میں لوگ آرام کر سکتے ہیں تاکہ ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آ سکے۔ چشمے کے ساتھ ایک دیوار بنائی گئی تھی



خواتین کے لیے  بھی  ایک مخصوص ہے جہاں وہ کپڑے دھو سکتی ہیں ۔ علاقے سے واقفیت رکھنے والے محبوب عالم نے بتایا کہ موسم بہار کی تاریخ کے بارے میں شاید ہی کوئی     جانتا ہو لیکن یہ چشمہ اسی جگہ واقع ہے۔' چشمے کا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اسے انڈوں میں ڈالیں گے تو وہ پک جائیں گے ۔' محبوب عالم کے مطابق گرم چشمہ چترال کے چند مشہور تفریحی مقامات میں سے ہے جہاں ملک بھر سے سیاح موجود ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس چشمے کا انتظام کون کر رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں، اس نے کہا کہ وہ یہاں غسل خانہ بنا رہے ہیں، وہ ہمیں استعمال کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ موسم بہار میں پانی گرم کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اردو نے اپنے مضمون کے لیے چشموں کی تحقیق پر کچھ سائنسی اور مقالات کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ چشمے زمین میں جتنے گہرے ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں۔


پریوں کا چشمہ بلوچستان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی جانب سے گرم پانی کے چشمے سے یہ مفروضہ جوڑا گیا ہے کہ اس مضمون میں پانی کا علاج موجود ہے تاہم سائنسی تحقیق سے یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ مضمون کے مطابق جب چشمے کا پانی زمین میں اتھلی گہرائی سے نکلتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہوتا ہے، جب کہ گرم چشموں میں، جہاں آتش فشاں کی سرگرمیوں کے زیادہ آثار ہوتے ہیں، وہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کی ویب سائٹ کے مطابق گرم چٹانوں کے اندر سے بھی گرم چشمے نکلتے ہیں جب کہ اب سائنسدان سمندر کے نیچے تقریباً تین کلومیٹر گہرائی میں موجود گرم چشموں سے دور ہیں جن کا درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ اسی تنظیم کے مطابق گرم چشموں سے نکلنے والے پانی میں نمکیات اور سلفر کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ سمندری حیات کے لیے فائدہ مند ہے۔پشاور(این آئی)اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے خیبرپختونخوا کے گلیات اور چترال بشکر کے گرم چشموں کو عالمی بایوسفیئر ریزرو کا درجہ دے دیا ہے۔


 زندگی، رہائش، محفوظ اور دیگر ماحول کا مؤثر تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ مقامات نہ صرف قدرتی حسن اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے اہم ہیں بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لیے قدرتی نشانات کے تحفظ، ترقی پسندی اور سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے بھی اہم ہیں۔ ایک تاریخی پیش رفت میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا عالمی تحفظ کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا ثبوت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگلی حیات اور قدرتی وسائل کا مزید تحفظ کرےاگرچہ چترال سے گرم چشمہ تک سڑک کا فاصلہ صرف چھپن کلومیٹر ہے لیکن پہاڑی علاقے اور خستہ حال سڑک کی وجہ سے گرم چشمہ تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں۔  اقوام متحدہ نے چترال میں گولیتھ اور گرم چشمہ کو عالمی بایوسفیئر ریزرو قرار دیا ہے۔ - مقامی لوگوں کے مطابق چشمے سے بہنے والا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اس میں انڈا ڈالیں گے تو وہ پک جائے گا۔ اس جگہ کا نام مولا چھوٹوک تھا (بلوچی میں چھوٹوک کا مطلب آبشار ہے)

منگل، 1 اپریل، 2025

اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی- 1 part


- اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی -پاکستان اسٹیل ملز   ایک عظیم الشان منصوبہ جسے پاکستان کے مگر مچھ کھا گئے -پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہو وہ عظیم الشان صنعتی تحفہ جو پوری دنیا میں پاکستا ن کی پہچان بنا تھا -جب نا اہلوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو اس کی بربادی کا آغاز ہو گیا   -قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کی جانب توجہ دی گئی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک میں موجود معدنی لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنے کی بنیادی صنعت لگانے کے لیے کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ 1956ء میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل پلانٹ لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی حکومت نے اس پیشکش پر بات چیت شروع کی اور 1968ء میں پاکستان اسٹیل ملز کو بطور ایک نجی کمپنی کے رجسٹر کیا گیا۔ یعنی قیام پاکستان کےبعد تقریباً 21 سال بعد ادارے کی رجسٹریشن ہوئی۔ آخر اس میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی متعدد وجوہات ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں وقت لگنے کی بڑی وجہ روس اور مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت لگانے کی پیشکش تھی۔ مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان میں صوبہ خبیر پختون خوا اور پنجاب سے ملحقہ علاقے کالا باغ میں فولاد سازی کا کارخانہ لگانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔



پاکستان  کی ترقی کے لیے ملک میں ایک بڑے فولاد سازی کے کارخانے کی ضرورت ہے جوکہ وطن عزیز کی زمین میں دفن 1.427 ارب ٹن خام لوہے کو فولاد میں تبدیل کرکے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ برآمدات کر کے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کماسکے۔یہ طرفہ تماشا دیکھیں کہ کراچی کے مضافات میں پورٹ قاسم سے ملحقہ ایک دوسرے کی دیوار سے جڑی دو اسٹیل ملز بند پڑی ہیں۔ اس کی مشینری کو سمندر کی نمکین ہوا زنگ آلود کررہی ہے۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان اسٹیل ملز اور دوسری نجی شعبے کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے قائم الطوقی اسٹیل ملز۔ان دونوں اسٹیل ملز کی صلاحیت معدنی لوہے یعنی آئرن اُور (Iron Ore) کو فولاد میں ڈھالنے کی ہے۔ مگر فولاد سازی کے یہ دونوں ادارے ملکی نظام میں اس ذہنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ملک کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا


 اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔پاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 11 لاکھ ٹن کی گنجائش اور بعد ازاں پیداواری گنجائش کو بڑھاتے ہوئے 22 لاکھ ٹن کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ مگر ملک میں سیاسی وجوہات اور درآمدی مافیاز اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں دلچسپی رکھنے والوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز 11 لاکھ ٹن کی گنجائش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا جبکہ افتتاح جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں کیا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے— پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا

 

اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے پاکستان اسٹیل سے متصل اسٹیل ٹاون شپ کے علاوہ گلشن حدید بھی بنایا گیا۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز سے منسلک اسٹیل ٹاون شپ کی قیمت پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر اس کو چلانے اور اس کی نجکاری تک تقریباً تمام ہی فیصلوں میں ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے ہر مقام پر غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹیل ملز قیام کے بعد سال 2005ء تک خسارے میں چل رہی تھی -پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفراسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان اور نااہلی کا شکار ہوئی اور قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررpart-3

    آپ کو اچھّی طرح معلوم ہئے ممّا کہ اس معاشرے میں ایک قانونی طور پر سمجھدار لڑکے اور لڑکی کو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنے کی اجازت ہئے س...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر