اتوار، 16 فروری، 2025

الوداع 'غلامان جنت الوداع

 


 خواجہ علی کاظم کی گاڑی کوحادثہ کیسے پیش آیا

معروف کمسن ثناء خواں خواجہ علی کاظم اور نوحہ خوان سید جان علی و زین ترابی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے، خواجہ علی کاظم کی اسکردو اور علی جان کی شگر میں تدفین کردی گئی-خواجہ علی کاظم، جو ایک ننھا سا معصوم پھول تھا، ابھی تو کھلنے والا تھا، ابھی تو اس نے خوشبو بکھیرنی تھی مگر تقدیر نے اسے ہم سے چھین لیا وہ نعت خوانی 'منقبت پڑھ کر مجمع پرسحر طاری کر دیتا   تھا  ۔خواجہ علی کاظم، جان علی رضوی اور زین ترابی کراچی جاتے ہوئے مانجھند نزد سہون شریف کے قریب ایک المناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے۔سہون میں انڈس ہائی وے پر دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں-(یہ خیانت ہے الفاظ کی) پولیس وین نے  سامنے سے رانگ سائڈ  سے ایک سو چالیس کی اسپیڈ سے آ کر ٹکر مار کر شہید کیا ہے ،) حادثے میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے، 6 زخمی ہیں، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔جاں بحق ہونے والوں میں کم عمر نعت خواں اور منقبت خواں خواجہ علی کاظم اور علامہ حسن ترابی کے بھائی زین علی ترابی بھی شامل ہیں۔کاظم خواجہ اپنے احباب کے ہمراہ انجمن حیدری خیرپور سے سالانہ جشنِ امامِ زمانہ میں شرکت کے بعد کراچی جا رہے تھے۔خواجہ علی کاظم نے اپنی موت سے قبل فیس بک پر کراچی آنے کی اطلاع اپنے چاہنے والوں کو دی تھی۔سوشل میڈیا پر لوگ خواجہ کاظم علی کے پڑھے ہوئے کلام کو شیئر کررہے ہیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت بھی کررہے ہیں۔


پولیس کے مطابق سہون میں سن کے قریب انڈس ہائی وے پر دو گاڑیوں میں تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں کار میں سوار 5 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے، جبکہ 6 افراد زخمی ہیں۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثہ کار ڈرائیور کی جانب سے غلط سائیڈ پر کراسنگ کرنے کے باعث پیش آیا، جاں بحق افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔جاں بحق ہونےوالوں کی شناخت خواجہ علی کاظم، زین علی ترابی،خواجہ ندیم، عبدالغنی اور جان علی شاہ کےناموں سے ہوئی، حادثے کی شکار کار سیہون سے حیدرآباد جا رہی تھی جان علی کاظم کی گاڑی کو رانگ سائڈ سے ۱یک سو چالیس کی اسپیڈ سے آنے والی پولیس وین نے کچل دیاگلگت بلتستان کے معروف نعت خواں کاظم علی خواجہ، سید جان علی اور شہید علامہ حسن ترابی کے فرزند زین ترابی ایک افسوسناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں، ان کی المناک حادثے میں وفات پر گلگت بلتستان بھرمیں سوگ کا سماں ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نعت خواں کاظم علی خواجہ، سید جان علی اور شہید علامہ حسن ترابی کے فرزند زین ترابی سندھ کے علاقے خیرپور میں منعقدہ میلاد کی تقریب میں شرکت کے بعد کراچی واپس جارہے تھے کہ جامشورو کے قریب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا،


 جس کے نتیجے میں تینوں موقع پر ہی جاں بحق ہوگئےمرحومین کے انتقال پر گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جارہا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کی مغفرت کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے، مختلف مذہبی و سماجی شخصیات نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے ننھے نعت خواں خواجہ علی کاظم جو اپنی آواز سے سماں باندھ دیتے تھے، وی نیوز مہمان بھی بن چکے ہیں۔وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، وہ جتنے اچھے نعت خواں ہیں اتنے ہی اچھے کرکٹر بھی ہیں۔،  انہوں نے ایک سوال کے جواب میں  بتایا کہ وہ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں،۔کیا یہ عجیب پُر اسرار حادثات نہیں۔۔؟ ایسے حادثے صرف ہمارے مقاومتی جوانوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں۔  


  22 جنوری 1998 کو علامہ عرفان حیدر عابدی بمعہ اہلیہ ٹریفک حادثے میں شہید ہو گئے جب وہ خیرپور سے سپر ہائی وے کے راستے کراچی آ رہے تھے۔علامہ شہنشاہ حسین نقوی کی گاڑی کا بھی اندرون سندھ میں خیرپور جاتے اسی مقام پر پراسرار حادثہ ہوا  مشہور نوحہ خواں عرفان حیدر و فرزند بھی کراچی سے خیرپور جاتے اسی مقام پر حادثے کا شکار ہوئ- علامہ سید سفیر شیرازی نجفی بھی اپنے گن مین و ڈرائیور کے ہمراہ پراسرار حادثے میں شہید کر دیئے گےشہید حسن ترابی جن پر دو مرتبہ بم دھماکہ سے حملہ کیا گیا آخری خودکش دھماکے میں آپ شہید ہوگئےاور اب آج صبح آپ کے عظیم مقاومتی جوان بیٹے زین ترابی اپنے مقاومتی ساتھیوں سمیت خیرپور سے کراچی جاتے اسی مقام پر بظاہر ٹریفک حادثے میں شہید کردئیے گےکیا سارے اتفاق ہیں ۔؟ اور ہم اہل عزاء  اپنے شہید وں ' علی کاظم اور علی نادم سید عزیز جان آغا     زین ترابی ان شاء الله ہم اس حادثے کی تحقیقات اب مولا امام زمانہ کے سپرد کرتے ہیں وہی ہماری آخری امید ہے۔۔۔ اب تعزیت   کے الفاظ ختم ہوچکے ہیں اورآخری الفاظ ہیں الوداع غلامان جنت الوداع '

ہفتہ، 15 فروری، 2025

موہٹہ پیلس 'کلفٹن کا جھومر

 

قیام پاکستان سے قبل کی بات ہے ایک  بہت اونچے درجے کے صنعت کار نے کلکتہ سے آکر کراچی میں آباد ہو نے کا فیصلہ کیا  یہاں آ کر انہوں نے ا اور انھوں نے صنعتی شعبے میں  جہاز رانی اور جہاز سازی کی صنعت میں قدم رکھا۔ اِس کے علاوہ  وہ شوگر اور سٹیل ملز کے بھی مالک تھے ۔  اُنہوں نے کراچی میں کئی گھر  بنائے  لیکن پھر یوں ہوا کہ شیورتن  کی   بیوی کو ایک مہلک مرض لاحق ہو گیا اور ان کے معالجین نے کہا کہ ان کی صحت یابی  صحت بخش  سمندری ہوا اور فضاء سے ممکن ہے  چنانچہ شیورتن نے کلفٹن کے علاقہ میں ایک وسیع عریض  راجستھانی طرز کا پیلس بنانے کا فیصلہ کیا -یہی وجہ تھی کہ اُن کی نظرِ انتخاب  اس وقت کے مایہ ء ناز آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین پر پڑی جو اُس وقت کراچی میونسپلٹی میں خدمات انجام دے رہے تھے، لیکن اُن کا زیادہ وقت راجھستان میں گزرا تھا۔آغا احمد حسین کو برِصغیر کے اولین مسلمان   آرکیٹکٹ میں شمار کیا جاتے تھے جو موہٹہ پیلس سے قبل کراچی کی دو اور مشہور عمارتوں ہندو جیم خانہ اور کراچی چیمبر آف کامرس کے نقشے تیار کر چکے تھے۔  1920ء کی دہائی میں تعمیر کروائے گئے اس پیلس کے لئےسینکڑوں گدھا گاڑیوں پر راجستھان کے مشہور گلابی پتھرجودھ پور سے کراچی لائے گئے تھے۔ جبکہ پیلے پتھر کراچی کے علاقے گزری سے لئے گئے تھے-


 موہٹہ پیلس کو پہلی بار دیکھیں تو  اس پر  راجستھان کے کسی محل  کا گمان ہوتا ہے۔پوری  بلڈنگ جے پور فنِ تعمیر کے زیراثر ڈیزائن کی گئی ہے جس میں مغل طرزِ تعمیر کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ عمارت کی خاص پہچان گنبد، محرابیں اور مینار ہیں جو موہٹہ پیلس کو اُس دور کے کراچی کی دیگر عمارتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ دو منزلہ محل میں سولہ کشادہ کمرے ہیں۔بیرونی دیواروں پر گُل بوٹوں اور پرندوں کی اشکال پتھر پر تراشی گئی ہیں۔ آغا احمد حسین مقامی تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے موہٹہ پیلس میں مکلی کے مزارات پر کندہ نقش استعمال کیے۔ برماٹیک لکڑی کے دروازے کھڑکیوں پر سٹین گلاس کا کام کیا گیا ہے۔محل کے اندر پوجا کے لیے شیو کا مندر بھی بنایا گیا تھا جس کا اب کوئی نشان موجود نہیں۔ عمارت کے اطراف خوب صورت اور وسیع باغیچہ تھا جس میں لگے فوارے آج بھی کام کرتے ہیں۔  میں تعمیر ہونے والا موہٹہ پیلس ہمیشہ اُن کا پسندیدہ رہا۔سیٹھ شیورتن موہٹہ نے پھر اپنے مستقل قیام کا فیصلہ کیا اور وہ اپنی بیمار بیوی کو لے کر اس محل نما عمارت میں آگئے -یہاں آنے بعد ان کی بیوی کی صحت لوٹ آئ  اور سیٹھ شیورتن  موہٹہ نے  ان کی صحت یابی کا   جشنِ صحت یابی منایا ۔ یہ  جشن   صحت کراچی  کا ایک یادگار جشن تھا  جس  میں شہر کی سرکردہ شخصیات کو دعوت دی گئی۔ کراچی کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی مہتہ بھی مہمانوں میں شامل تھے


موہٹہ پیلس کی بناوٹ -عمارت میں تین مرکزی دروازے مشرقی سمت میں ہیں ۔ مرکزی ہال دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جسے پوری عمارت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چھت پر ابھرا ہوا کاشی کاری کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے ۔ مرکزی ہال سے بائیں جانب ایک لمبا ہال موجود ہے جو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے فرش پر سرخ اور سبز ٹائل بچھائے گئے ہیں۔ بالائی منزل پر جانے کے لیے دو راستے ہیں جن کی 32, 32سیڑھیاں ہیں۔ سولہ سیڑھیوں کے بعد رنگین شیشے لگائے گئے ہیں اور چار ہوادار گنبد ہیں۔یہ  ایک وسیع و عریض قلعہ نما گلابی رنگ کی دو منزلہ عمارت ہے،جس کے چاروں کونوں پر گنبد اور چھت کے بیچ و بیچ پانچ گنبد تعمیر کیے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی گنبد دراصل اس عمارت کی خوبصورتی کا اصل راز بھی ہیں۔ یہ کراچی کی انتہائی خوبصورت اور پرُکشش عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا فن تعمیر آگرہ کے لال قلعہ ‘ لاہور کی بادشاہی مسجد ‘ دہلی کے مغل حکمرانوں کی عمارات کی یاد تازہ کرتا ہے۔عمارت میں تہہ خانہ کے علاوہ کئی بڑے بڑے دالان یا ہال ‘ کمرے ‘ کشادہ بارہ دری‘ نو گول اور دو لمبوترے گنبد ہیں۔ اس عمارت کی بارہ دری سے سمندر کا منظر بے حد دل آویز اور سحر آفریں ہوتا ہے۔


مسٹر موہٹہ اکثر یہاں حکام بالا اور شہر کے معزز افراد کے اعزاز میں پارٹیاں منعقد کرتےتھےاور غریبوں میں کھانا بھی تقسیم ہوتا تھا۔ ہندو برادری کے تہواروں ہولی‘ دیوالی‘ دسہرہ ا ور دیگر موقعوں پر یہاں رنگا رنگ تقریبات منعقد ہوتی تھیں، جن میں برصغیر کے نامور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ ان تقریبات میں مسٹر موہٹہ جب اپنے روایتی مارواڑی لباس کو زیب تن کر کے اور اپنے کانوں میں ہیرے کے بُندے پہن کر اسٹیج پر پرشکوہ انداز میں بیٹھتے تو وہ کسی ہندو راجہ مہاراجہ سے کم نہ لگتے ۔ اس عمارت میں مسٹر موہٹہ نے آغا خان سوئم سرسلطان محمد شاہ کے اعزاز میں بھی ایک پُروقار ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔جس میں تحریک پاکستان کی ممتاز رہنما لیڈی غلام حسین ہدایت اللہ نے بھی شرکت کی تھی۔

  یہ محل نما عمارت شیورتن موہٹہ کی پسندیدہ رہائش گاہ تھی۔لیکن  اس محل کی تعمیر کے 14 سال بعد ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنا لیا گیا، فیصلہ یہ ٹھہرا کہ جن کے پاس ایک سے زائد گھر ہیں، ان کا ایک گھر حکومت اپنے قبضے میں لے لے گی اور  ایک روز  شیورتن کو ایک با اثر شخصیت کی کال آئ کہ ان کا  موہٹہ محل حکومت پاکستان کو وزارت خارجہ کا دفتر بنا  نے کو درکار ہے  موہٹہ خاندان  پھر ہمیشہ کے لیے  کراچی  چھوڑ گیا- شیورتن موہٹہ کے بھارت چلے جانے کے بعد اس عمارت کو وزارت خارجہ کے حوالے کر دیا گیا۔

جمعہ، 14 فروری، 2025

تحقیق علمی کا میدان اورامام جعفر صادق علیہ السلام

 

مسلمانوں کو تعلیم  دینے کا  بندوست   بعد کربلا  امام زین العابدین نے  اپنے گھر سے ہی شروع کر دیا تھا  آپ علیہ السلام کے اس  خاموش مشن کو امام باقر علیہ السلام نے  آگے بڑھایا  لیکن حکومت وقت کی بندشوں کے باعث  امام  بہت آگے نہیں بڑھ سکے لیکن پھر خلافت عباسیہ میں اقتدار کی رسہ عروج پر پہنچی تب امام جعفر صادق علیہا   لسلام  مسند امامت پر براجمان ہوئے اور عباسی خلفاء کی آپس کی چپقلش  نے امام  کو علم  کے فروغ کا  موقع فراہم کیا اور آپ نے مدینہ میں ایک  عظیم الشان یونیورسٹی کی بنیاد رکھی   لیکن اس  دور کے بعد ساتویں امام موسیٰ  کاظم  کے حالات زندگانی آپ سب جانتے ہیں تمام عباسی خلفاء کا زور خاندان رسالت کو ختم کرنے میں  ہی صرف ہوا لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام  علمی میدان میں فکر و تدبر اور  تحقیق کے میدان   آباد کر گئے تھے   -اما م  کی اس یونیورسٹی میں اس وقت تمام دنیا سے آئے ہوئے چار ہزار طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے جن کا قیام و طعام امام  نے اپنے زمہ لے رکھا تھا     اس  مرکز علمی میں تعلیم کے حصول کے لئے دور دراز سے سفر طے کر کے  طالب علم آتے تھے،


یہ یونیورسٹی  ایک ایسا علمی مرکز تھی جہاں  جابر بن حیا ن جیسے شہرہء آفاق مسلم سائنس دانوں نے جنم لیا یہ ایک ایسا تدریسی مقام تھا جہاں تحقیق کی نئی جہتوں نے سانس لینا شروع کیا، یہ ایک ایسا مکتب تھا جہاں نئی سوچ نے پنپنا شروع کیا، یہ علم و دانش کا مرکز، صرف مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی معتبر و محترم تھا،  کسی خاص مذہب ، کسی خاص فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے نہیں  نا کسی آنے والے سے اس کا دین اور  دیگر کوائف معلوم کئے جاتے تھے  بس مادر علمی علم کے پیاسوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی تھی  بلکہ ہر طالب علم کا اس کی علمی تڑپ کی بنا پر اھلا وسھلا سے استقبال کرتی تھی  اما م کا دور ختم ہوا تو عباسی خلیفہ مامون  نے اس مرکز کو بند نہیں کیا بلکہ اپنی سرپرستی میں لے کر امام کا نام حذف کر کے اپنے  نام کے ساتھ  بیت الحکمۃ لگا کر   جوڑ لیا برطانیہ کی یونیورسٹی آف سرے کے پروفیسر جم الخلیلی کہتے ہیں کہ ‘ہمارے لیے یہ مکمل تفصیلات اہم نہیں ہیں کہ بیت الحکمت کہاں اور کب قائم کیا گیا تھا


۔ اس سے بہت زیادہ دلچسپ خود وہاں کے سائنسی نظریات کی تاریخ ہے اور یہ کہ اس کے نتیجے میں وہ کیسے پروان چڑھے۔’اب یہ دنیا کو کیا بتائیں کہ ہماری میراث پر اپنا لیبل کیوں اور کس نے لگایا  750ء جب شہر بغداد کی بنیاد رکھی گئی تو ساتھ ہی خلیفہ منصور نے دارالترجمہ کی بنیاد رکھی، جہاں دنیا بھر کی کتب کے عربی تراجم کرنے کا اہتمام و انصرام کیا گیا، آٹھویں صدی کے اوائل میں بیت الحکمة ہارون الرشید کا ذاتی کتب خانہ شمار کیا جاتا تھا بعد ازاں خلیفہ مامون کی علمی دوستی نے اسے عوامی مرکز کی صورت میں ڈھال دیا، ایک بلند و بالا عمارت کی تعمیر کی گئی جس مین مختلف شعبہ جات قائم کئے گئے۔مؤرخين اس کی تعمیر کو ایک نادر و نایاب شاہ کار قرار دیتے ہیں، اس کی آرائش و زیبائش کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس عمارت کو قیمتی فانوس اور روشن قندیلوں سے آراستہ کیا گیا تھا تاکہ متلاشیان علم و دانش رات کے وقت بھی علمی دریا میں غوطہ زن ہو سکیں، اس کے فرش پر قیمتی قالین سجائے گئے اس کے در و دیوار کو دبیز ریشمی پردوں سے مزین کیا گیا، یہ دنیائےعالم میں سرکاری سطح کا پہلا علمی ادارہ تھا جس کے اخراجات کا بیڑا حکومت وقت نے اٹھا رکھا تھا۔درس و تدریس کے لئے دنیا بھر سے ماہرین کا انتخاب کیا جاتا، اس بات کو یکسر فراموش کر کے کہ اس کا تعلق کس مذہب سے ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کی گراں قدر خدمات میں عیسائی، ہندوؤں اور پارسیوں کا بھی ہاتھ رہا۔


اس ادارے مین مختلف شعبہ جات کا قیام المامون کے دور میں ہوا جن میں رصد گاہ، ہسپتال، طبی، ریاضی، کیمیائی، جغرافیائی تحقیق کے شعبہ جات شامل ہیں، دنیا کے کونے کونے میں وفود بھیجے گئے جو  مسودات تلاش کر کے لائے اور ان مسودات کو عربی زبان میں ڈھال کر پیش کیا گیا، بیت الحکمة کی خدمات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اس کا قیام عمل میں نہ لایا جاتا تو آج بنی نوع انسان جدید سائنسی علوم سے نابلد نظر آتی۔بات اگر صرف تراجم تک محدود ہوتی تو شاید علوم کی نئی جہتیں متعارف نہ ہوتیں، بیت الحکمة میں صرف قدیم مسودات کے تراجم پر زور نہیں دیا بلکہ اس موجود مواد کی تحقیق بھی کی جاتی  ، یہی وجہ ہے کہ اس ادارے میں جدید علوم کی بنیادیں رکھی گئیں اب چاہے وہ علم ریاضی ہو یا علم فلکیات۔بیت الحکمة کی خاص بات یہ تھی کہ ان عہد ساز شخصیات کو جنم دیا جو اپنے شعبے کے ماہرین تھے اور جنہوں نے نئی ایجادات متعارف کروائیں۔’ صفر’ کے عدد کو دیکھ کر الخوارزمی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کہ جنہوں نے اسی ادارے میں بیٹھ کر الگورتھم اور الجبرا کی نئی اصطلاح متعارف کروائی، سنہ 821 میں الخوارزمی کو بیت الحکمت میں ماہرِ فلکیات اور چیف لائبریرین مقرر کیا گیا، جم الخلیلی کہتے ہیں ‘کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ بیت الحکمت بالکل بھی اتنا عظیم ادارہ نہیں تھا جتنا بعض لوگوں کی نظر میں ہے، لیکن اس ادارے کا الخوارزمی جیسے مفکروں سے تعلق، ریاضی، فلکیات اور جغرافیہ میں الخوارزمی کے کام سے تعلق میرے لئے کافی ثبوت ہے کہ بیت الحکمت صرف ترجمہ کی گئی کتابوں کی ایک لائبریری نہیں بلکہ علم و تحقیق کا ایک تقریباً مکمل ادارہ تھا۔’روشنی کے انعکاس کو اور سائنٹفک طریقہ پر روشنی کے عکس کو ابن الہیثم نے متعارف کروایا ان کا کہنا تھا کہ روشنی مرئیات سے پھوٹتی ہے اور یہ ایک انقلابی تحقیق تھی، ان کی مایہ ناز کتاب “المناظر” ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں “فریڈریک ریزنر” نے کیا ہے، علم مکینیات پر گراں قدر خدمات بنو موسی برادران نے سر انجام دیا۔ 


بیت الحکمة کو منگولوں نے 1258ء میں تباہ کردیا تھا اس میں موجود تمام تر عملی مواد کو دریائے دجلہ کی نذر کردیا گیا تھا، مؤرخین لکھتے ہیں کہ کتب کی تعداد اس قدر تھی کہ دریائے دجلہ کا پانی کالا ہوگیا تھا، تاہم اس ادارے مین ہونے والی تحقیقات کو وہ نہ مٹا سکے ان محقیقین کا نام آج بھی زندہ اور تابندہ ہے۔بیت الحکمة میں موجود کتب کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے موجودہ دور کی لندن کی برٹش لائبریری اور پیرس کی ببلیوتھک نیشنل لائبریری سے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے، اس ادارے نے ایک ایسے تہذیبی احیاء کا آغاز کیا جس نے ریاضی، فلکیات، طب، کیمسٹری، ارضیات، فلسفہ، ادب اور آرٹس کے علاوہ کیما گری اور علم نجوم کو جدیدت بخش دی اور بنی نوع کو ایک نئے میدان میں غوطہ زن ہونا سکھایا اور وہ میدان تحقیق کا میدان تھا۔


جمعرات، 13 فروری، 2025

امام زمانہ عج اللہ کی ولادت باسعادت مبارک ہو

  (ولادت 255ھ)، امام مہدی،دعائے امام زمانہ عجلہ اللہ فرجہ. بسم اللہ الرحمن الرحیم. اَللّہمَّ كُنْ لِوَلِيِّكَ الْحُجَّۃ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُكَ عَلَيْہ وَعَلى آبائِہ في ھذِہ السّاعَۃ وَفي كُلِّ ساعَۃ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً ...

تمام  عالمیں کی کُل مومن مخلوقات کو امام زمانہ کی ولادت باسعادت مبارک ہو 

زیارت امام العصر (عج)روز جمعہ

جمعہ:یہ حضرت صا حب الزمان ﴿عج﴾ کا دن ہے اور انہیں سے منسوب ہے اور یہ وہی دن ہے جس دن آپ ظہور فرمائیں گے آپ کی زیارت یہ ہے

(زیا رت حضرت صا حب الزمان ﴿عج

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ اللهِ فِی أَرْضِہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا عَیْنَ اللهِ فِی خَلْقِہِ 

آپ پر سلام ہو جو خدا کی زمین میں اس کی حجت ہیں آپ پر سلام ہو جو خدا کی مخلوق میں اس کی آنکھ ہیں 

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نُورَ اللهِ الَّذِی یَھْتَدِی بِہِ الْمُھْتَدُونَ وَیُفَرَّجُ بِہِ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْمُھَذَّبُ الْخائِفُ

آپ پرسلام ہو جو خدا کے وہ نور ہیں جس سے ہدایت چاہنے والے ہدایت پاتے ہیں اور جس سے مومنوں کو کشادگی ملتی ہے آپ پر سلام ہو جو نیک طینت ڈرنے والے ہیں

 اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْوَلِیُّ النَّاصِحُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَفِینَةَ النَّجاةِ،

 آپ پر سلام ہو اے خیر خواہ و سرپرست آپ پر سلام ہو اے کشتی نجات

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا عَیْنَ الْحَیَاةِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ، صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ بَیْتِکَ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ

 آپ پر سلام ہو اے چشمہ حیات آپ پر سلام ہو خدا کی رحمت ہو آپؑ پر اورآپکے پاک و پاکیزہ اہل بیتؑ پر

 اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ عَجَّلَ اللہُ لَکَ مَا وَعَدَکَ مِنَ النَّصْرِ وَ ظُھُورِالْاَمْرِ

 آپ پر سلام ہو خدا اس امر کے ظہور اور نصرت میں جس کا وعدہ اس نے آپ سے

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ أَنَا مَوْلاکَ عَارِفٌ بِٲُولاَکَ وَٲُخْرَاکَ أَتَقَرَّبُ إلَی اللهِ تَعَالَی بِکَ وَبِآلِ بَیْتِکَ

کیا ہے آپؑ پر سلام ہو اے میرے سردار میں آپ کا غلام ہوں آپ کے آغاز و انجام سے واقف ہوں میں خدا کا قرب چاہتا ہوں آپ کا اور آپکے خاندان کے وسیلے سے 

 وَأَنْتَظِرُ ظُھُورَکَ وَظُھُورَالْحَقِّ عَلَی یَدَیْکَ وَأَسْأَلُ اللهَ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

 اور انتظار کرتا ہوں آپکے ظہوراورآ پکے ہاتھوں حق کے ظہور کا اور خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ محمد و آل محمد پر رحمت فرمائے

 وَأَنْ یَجْعَلَنِی مِنَ الْمُنْتَظِرِینَ لَکَ وَالتَّابِعِینَ وَالنَّاصِرِینَ لَکَ عَلَی أَعْدائِکَ

 اور مجھے آپ کے انتظار کرنے والوں اور پیروی کرنے والوں اور آپ کے دشمنوں کےمقابل آپکے مددگاروں 

وَالْمُسْتَشْھَدِینَ بَیْنَ یَدَیْکَ فِی جُمْلَةِ أَوْلِیَائِکَ یَا مَوْلایَ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ صَلَواتُ اللهِ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ بَیْتِکَ،  

اور آپکے سامنے شہید ہونے والے آپکے دوستوں میں سے قرار دے۔ اے میرے آقا اےصاحب زماںؑ آپ پر اور آپؑ کے اہل بیتؑ پر خدا کی رحمتیں ہوں۔

ھٰذَا یَوْمُ الْجُمُعَةِ وَھُوَ یَوْمُکَ الْمُتَوَقَّعُ فِیہِ ظُھُورُکَ وَ الْفَرَجُ فِیہِ لِلْمُؤْمِنِینَ عَلَی یَدَیْکَ، وَقَتْلُ الْکافِرِینَ بِسَیْفِکَ،

 یہ جمعہ کا دن ہے جوآپؑ کا دن ہے جس میں آپؑ کے ظہوراور آپؑ کے ذریعے مومنوں کی آسودگی کی توقع ہے اور آپ کی تلوار سے کافروں کے قتل کی امید ہے

  وَأَنَا یَامَوْلایَ، فِیہِ ضَیْفُکَ وَجَارُکَ، وَأَنْتَ یَا مَوْلایَ کَرِیمٌ مِنْ أَوْلادِ الْکِرَامِ،

   اور اےمیرے آقا میں آج کے دن آپ کی پناہ میں ہوں اور اے میرے آقا آپ کریم اور کریموں کی اولاد سے ہیں

وَمَأْمُورٌ بِالضِّیافَةِ وَالْاِجَارَةِ فَأَضِفْنِی وَأَجِرْنِی صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْکَ وَعَلَی أَھْلِ بَیْتِکَ الطَّاھِرِینَ

اور مہمان رکھنے اور پناہ دینے پر مامور ہیں پس مجھے مہمان کیجیے اور پنا ہ دیجئے۔ آپ اور آپ کے پاک و پاکیزہ اہلبیتؑ پرخدا تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔

سید بن طاؤس کہتے ہیں میں اس زیارت کے بعد اس شعر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور امام زمانہ ﴿عج﴾ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوں نزیلک حیث ماا تحھت رکابی وضیفک حیث کنت من البلاد میری سواری مجھے جہاں بھی لے جائے میں آپ ہی کا مہمان ہوں اور شہروں میں سے جس شہر میں رہوں وہاں بھی آپکا مہمان ہوں امام زمانہ اور حجت بن الحسن کے نام سے مشہور شیعوں کے بارہویں اور آخری امام ہیں۔ آپؑ کی امامت 260ھ کو امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد شروع ہوئی جو آپ کے ظہور کے بعد تک جارے رہے گی۔ شیعوں کے مطابق آپ وہی مہدی موعود ہیں جو ایک طولانی عرصے تک غیبت میں رہنے کے بعد ظہور کریں گے۔شیعہ مآخذ کے مطابق امام حسن عسکریؑ کے دَور امامت میں عباسی حکومت کے کارندے آپؑ کے فرزند اور جانشین کی تلاش میں تھے اس لئے امام مہدیؑ کی ولادت خفیہ رکھی گئی یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا کسی کو آپؑ کا دیدار نصیب نہیں ہوا۔ جس کی بنا پر امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد بعض شیعہ امامت کے سلسلے میں تردد کا شکار ہوئے، 


   لیکن اس دوران آپؑ کی طرف سے شیعیان اہل بیت کے نام لکھی جانے والی توقیعات جو نواب اربعہ کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں، مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔ یہان تک کہ چوتھی صدی ہجری میں امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد وجود میں آنے والے مذاہب میں صرف شیعہ اثنا عشریہ باقی رہے۔آپ کے والد امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد آپ کی غیبت صغری شروع ہوگئی اور اس دوران نواب اربعہ کے ذریعے آپؑ کا رابطہ اپنے ماننے والوں کے ساتھ قائم رہا۔ لیکن جب سنہ 329ھ میں غیبت کبری کا آغاز ہوا تو آپ سے نواب اربعہ کے ذریعے ہونے والا رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔مذہب امامیہ کے مطابق امام مہدیؑ اب بھی غیب کے پردے میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں حضرت عیسیؑ کے ساتھ ظہور کریں گے۔ شیعہ علماء نے امام زمانہ کی طویل عمر کے علل و اسباب اور اس سے مربوط دوسرے موضوعات کے بارے میں مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں اور احادیث میں آپ کی غیبت کو بادل میں چھپے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے۔شیعہ عقیدے کے مطابق امام زمانہ زندہ ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے اور اپنے اصحاب کے ساتھ ایک عالمی حکومت قائم کر کے ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ اسلامی روایات میں مسلمانوں کو انتظار فرج کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ شیعہ امامیہ ان روایات کی رو سے امام زمانؑ کے ظہور کا انتظار کررہے ہیں۔


شیعہ مفسرین، معصومین سے منقول احادیث کی بنیاد پر بعض قرآنی آیات کو امام زمانہؑ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ائمہؑ سے متعدد احادیث امام زمانہؑ، آپ کی غیبت، ظہور اور حکومت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض حدیثی کتابیں انہی احادیث کو نقل کرنے اور ان کی جمع آوری کی غرض سے لکھی گئی ہیں۔ حدیث کی کتب کے علاوہ بہت سی دوسری کتب بھی امام زمانہؑ سے متعلق موضوعات کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔اہل سنت اپنے روائی منابع کی رو سے نسل پیامبر خدا میں سے مہدی نام کے ایک شخص کو آخر الزمان کا نجات دہندہ مانتے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت اب بھی یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ مہدی نام کا نجات دہندہ آخر الزمان میں پیدا ہوگا البتہ اہل سنت ہی کے بعض علما، جیسے سبط بن جوزی اور ابن‌طلحہ شافعی وغیرہ شیعوں کی مانند یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مہدی موعودؑ امام حسن عسکریؑ کے وہی بیٹے ہیں

کینسر ڈیویلپر' رنگ برنگے مزیدار گٹکے کی پڑیاں

 

کینسر ڈیویلپر' رنگ برنگے مزیدار گٹکے کی پڑیاں ‘  صرف ایک روپیہ میں- چھالیہ و گٹکا کا رس ہی کارسینو جینک ہے کیونکہ یہ مصنوعی و ٹیکسٹائل رنگوں سے بنتے ہیں۔ گٹکا کھانے والے سبھی ''میکوزل فائبروسس‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مرض میں منہ کی جھلی سوکھ جاتی ہے اور زبان میں لکنت محسوس ہوتی ہے۔ منہ کھلنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اسے پری کنڈیشنڈ کینسر بھی کہا جاتا ہے۔ گٹکا و چھالیہ کھانے والے افراد کے منہ پر ابتداً چھوٹا سا چھالا بنتا ہے۔ چھالا بننے کے بعد بتدریج منہ میں کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے اور پھر وہ چھالا بڑا ہو کر رسولی بن جاتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ جس مریض کو منہ کا کینسر ہو جائے یا اورل سرجری کے بعد اس کے دوست احباب منہ میں گٹکا چبائے اس کی خیریت دریافت کرنے آجاتے ہیں۔ مگر گٹکے کا استعمال نہیں چھوڑتے۔۔ ایک روپے میں ملنے والی رنگین میٹھی سپاری کے رنگ برنگے ریپرز، مین پوری کی واٹرپروف تھیلیاں اور گٹکے کے کاغذ اور شاپرز بڑی تعداد میں اور  ہر جگہ اڑتے مل جاتے ہیں ۔گٹکے کی تیاری میں  گائے کا خون بھی شامل کیا جاتا  جس میں کیڑے بھی پڑ جاتے ہیں اور پھر یہی کیڑے انسان کو کھا جاتے ہیں، ذمہ دار گٹکے بنانے والے ہیں جن کی فیکٹریوں کے مالکان کروڑپتی بن چکے ہیں، کیا حکومت واقعی اس زہر کو ختم کرنے کیلئے تیار ہے؟


 اپنی حالت اور گھروالوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے لیکن میں بے بس ہوں کچھ نہیں کرسکتا ۔میرے دوست میری حالت دیکھنے کے باوجود بھی گٹکے نہیں چھوڑتے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ عبرت کا نشان بننے سے پہلے گٹکا کھانا چھوڑدیں ۔حکومت گٹکے کے خلاف صحیح آپریشن کررہی ہے۔ نسرین (وحید خان کی ساس)میرا بیٹا بھی گٹکا کھاتا تھا۔داماد کی حالت دیکھ کر اس نے گٹکا کھانا چھوڑدیاہے۔ ہم حیدرآباد سے آئے ہیں ۔داماد وحید کی حالت دیکھ کر بہت رونا آتاہے۔وحید 10سال سے گٹکا کھارہا تھا۔ کئی مرتبہ سمجھایا لیکن وہ نہیں مانا۔میری بیٹی اپنے چھوٹے بچے اور شوہر کو دیکھ کر اداس رہتی ہے کسی سے کچھ نہیں کہتی ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وحید صحیح ہوجائے گا۔3مہینے سے کھانا بند ہے۔ نلکی کے ذریعے صرف پانی والی چیزیں دی جارہی ہیں۔ایک سال سے مرض میں شدت آگئی ہے۔ 10روز پہلے آپریشن ہواہے۔ مریض کے ساتھ ایک خاتون نے انکشاف کیا کہ میں نے گٹکا بنتے دیکھا ہے۔ اس میں تیزاب ،گائے کاخون ،چونا اور ایک سبز رنگ کا کیمیکل جس کو ناس بھی کہتے ہیں ڈالا جاتاہے جو خراب چھالیہ کو گلانے کیلئے ڈالا جاتا ہے ۔پھر مشینوں سے مکس کیاجاتاہے۔


ایک مریض نے بتایا کہ گٹکے میں افیون بھی ڈالی جاتی ہے۔ایک مریض کے رشتے دار محمد اصغر نے جس نے کچھ روز پہلے ہی مین پور ی کھانا چھوڑی ہے بتایا کہ گٹکے میں رکھے رکھے کیڑے پڑ جاتے ہیں جس میں کافور کی گولیاں ڈالی جاتی ہیں تاکہ بدبو دور کی جاسکے ۔ ضعیف خاتون نے اس موقع پر (روتے ہوئے) بتایا کہ میرے منہ میں کینسر ہوگیا ہے۔میں نسوار کھاتی تھی ،اب بہت تکلیف ہے۔حیدرآباد میں رہتی ہوں،اپنی بہن اور بیٹے کے ساتھ سول اسپتال آئی ہوں مگر میری تکلیف دیکھ کر بیٹا میرے ساتھ نہیں بیٹھتا،میں اندر وارڈ میں ہوتی ہوں جبکہ بہن اور بیٹا باہر زمین پر سوتے ہیں۔انہیں تکلیف میں دیکھ کر دل دکھتا ہے۔میرے بیٹے نے مجھے دیکھ کر مین پوری کھانا چھوڑ دی ہے۔اب پتہ نہیں میرا کیا ہوگا۔


گٹکا ،ایسا زہر ہے جسے کھانے والا مزے لیتا ہے اور پھ عمر بھر پچھتاتے ہوئے قبر تک جاپہنچتا ہے۔ سول اسپتال میں نصف منہ کٹے ،بدترین صورتحال سے دوچار مریض دیکھے تو گھر پہنچ کر کھانا تک نہیں کھایاگیا۔کافور،گائے کے خون اور تیزاب سے بنائے جانے والے گٹکے میں سڑنے کے بعد کیڑے پڑ جاتے ہیں  ں۔ڈاکٹر عاطف کہتے ہیں کہ گٹکا کھانے والااگر شروع میں ہی اسے چھوڑ دے تو بچ سکتا ہے ورنہ بعض اوقات ہمارے پاس کینسر کے ایسے مریض آتے ہیں جن کا علاج ہمارے لئے ممکن نہیں۔شہر کراچی میں گٹکے کیخلاف ’’بے سود‘‘ مہم جاری ہے مگر اس گٹکے کی فیکٹریوں کے کتنے ہی مالک کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ کیا حکومت واقعی اس زہر کو ختم کرنے کیلئے تیار ہے؟ گٹکے پر خصوصی رپورٹ بنانے سول اسپتال پہنچا تو ای این ٹی وارڈ کے باہر نوین کمار سے ملاقات ہوئی ۔ جس کا منہ سوجا ہوا تھا اور کینسر پھیل چکا تھا ۔نوین مایوس تھا ۔اس سوال پر کہ گٹکے کھانے کی وجہ سے آپ کو کینسرہوگیا، کیوں کھاتے تھے اور کبھی بنتے دیکھا ؟نوین کمار نے بتایا کہ گٹکے میں عجیب سا نشہ ہوتا ہے ۔15سال سے کھا رہا تھا۔ اس سے پہلے پان کھاتا تھا ،معلوم نہیں اس میں کیا ڈالتے ہیں جو ذائقے میں پان سے زیادہ اچھا ہوتا ہے ۔اس کو کبھی بنتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اگر دیکھ لیتا تو شاید نہ کھاتا ۔ گھر والوں نے بہت روکا لیکن چھپ چھپ کر کھاتے تھے ۔


بڑے بھائی بہت غصہ کرتے تھے کہ ہم نے کبھی سپاری تک نہیں کھائی اور تم یہ کیا کھارہے ہو؟ اب گھر والے بہت پریشان ہیں۔ اس بیماری کا کوئی حل ہی نظر نہیں آرہا۔ اب تک 4 مرتبہ کیموتھراپی کراچکا ہوں جس سے سرکے بال جھڑ جاتے ہیں۔ (اس دوران نوین کمار نے سر بھی دکھایا سارے بال جھڑ چکے تھے)۔بھائی بھی میرے ساتھ اسپتالوں کے چکر کاٹ کاٹ کر پریشان ہوگئے ہیں۔ بیوی بچے بھی افسردہ رہتے ہیں۔ اس حالت میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتا بڑاپریشان ہوں ۔میرے ا س سوال پر کہ گٹکہ کھانے سے نشہ ملتا ہے کیا کھاتے وقت گندگی محسوس نہیں ہوتی؟ نوین کمار نے کہا کہ اگر گندگی محسوس ہوتی یا بدبوہوتی تو چھوڑ نہیں دیتے؟ اس کو کھانے میں ایک مزا اور نشہ ہوتا ہے جسے کھانے والا چھوڑتا نہیں البتہ اگر اس کو بنتے دیکھ لیتے تو شاید چھوڑ دیتے ۔15 سال سے کھارہا ہوں ۔4 ماہ پہلے منہ میں ایک چھوٹا سا چھالہ ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے کینسر بن گیا ۔نوین کمار کے بھائی کشور لال نے بتایا کہ میں نے اسے گٹکا کھانے سے بہت روکا لیکن چھپ چھپ کر کھاتا تھا ۔اب علاج کیلئے مختلف اسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن کہیں بھی تسلی بخش علاج نہیں ہورہا۔ بڑے پریشان ہیں اس وقت کیمو تھراپی سے علاج ہورہا ہے ۔نوین کمار اپنے کئے پر بہت پشیمان ہے۔ راتوں کو اٹھ کر روتا ہے اور اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔اللہ ہر شخص کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔خاندان والے اس کی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ اس کے کھانے پینے کیلئے برتن الگ کردیئے ہیں تاکہ گھروالوں کو پریشانی نہ ہو

بدھ، 12 فروری، 2025

ایک زریں عہد تمام ہوا 'پرنس کریم آغا خان

  اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق پرنس کریم کا شجرۂ نسب براہِ راست پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہے۔ وہ 1936 میں یورپی ملک سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت افریقی ملک کینیا کے شہر نیروبی میں گزارا تھا۔ان کے دادا آغا خان سوم کے انتقال کے بعد 1957 میں انہیں افریقی ملک تنزانیہ میں اسماعیلی فرقے کا پیشوا بنایا گیا تھا۔ پرنس کریم کے دادا نے ان کے والد کی جگہ انہیں پیشوائی کے لیے نامزد کیا تھا۔جس وقت پرنس کریم آغاخان اپنی کمیونٹی کے پیشوا بنے تو ان کی عمر 20 برس تھی اور اس وقت وہ ہارورڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔پرنس کریم آغا خان پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے Le Rosey اسکول اور پھر 1959 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لی تھی۔ آغا خان سوم نے تیرہ سو برس کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے کو جانشین بنایا تھا۔پرنس کریم آغا خان 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے۔ انہوں نے 1957 میں 20 برس کی عمر میں امامت سنبھالی تھی۔


انہوں    نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہپرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں موروثی امام تھے:آغا خان اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق پرنس کریم کا شجرۂ نسب براہِ راست پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہےجس وقت پرنس کریم آغاخان اپنی کمیونٹی کے پیشوا بنے تو ان کی عمر 20 برس تھی اور اس وقت وہ ہارورڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھےپرنس کریم کے دادا سر آغان خان سوم پاکستان کے قیام کی تحریک چلانے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھےکریم آغا خان نے وراثت میں ملنے والی دولت کا بڑا حصہ انسانی خدمت کے منصوبوں پر لگایاشاہ رحیم الحسینی اپنے والد کی وصیت کے مطابق اسماعیلی کمیونٹی کے50ویں روحانی پیشوا مقرر ہوگئے ہیں۔آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم یورپی ملک پرتگال میں 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔پرنس کریم الحسینی ’آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ کے بانی تھے۔اسماعیلی کمیونٹی کی ویب سائٹ کے مطابق انتقال کرنے والے پرنس کریم کی وصیت کے مطابق ان کے سب سے بڑے بیٹے شاہ رحیم الحسینی آغا خان پنچم اسماعیلیوں کے 50 ویں امام یا مذہبی پیشوا مقرر ہوگئے ہیں۔


پرنس رحیم کی عمر 53 سال ہے اور انہوں نے امریکہ کی براؤن یونیورسٹی سے تقابلی ادب کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ آغا خان ڈیولپمنٹ بورٹ سے منسلک کئی اداروں کے بورڈز میں بھی شامل رہے ہیں -اسماعیلی کمیونٹی کی ویب سائٹ کے مطابق دنیا میں اسماعیلیوں کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ کے درمیان ہے اور ان کی بیش تر آبادی وسطی و جنوبی ایشیا، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں آباد ہے ۔پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے ان کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرنس کریم کی میراث ان کے دنیا بھر میں تعلیم، صحت اور ناقابلِ یقین ترقیاتی کاموں کے ذریعے ہمیشہ موجود رہے گی۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی ایک بیان میں پرنس کریم کو امن، رواداری اور ہمدردی کی علامت قرار دیا۔ پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم نے وراثت میں ملنے والی دولت کا بڑا حصہ انسانی خدمت کے منصوبوں پر لگایا۔ ان کے ترقیاتی کاموں اور دنیا میں رواداری کے فروغ کی کوششوں کی وجہ سے انہیں کینیڈا کی اعزازی شہریت بھی دی گئی۔


ان کے انتقال پر کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی ہمدرد رہنما تھے۔انہوں نے پرنس کریم کو ایک بہترین دوست قرار دیا۔پرنس کریم چہارم کے پاس برطانیہ اور پرتگال کی شہریت بھی تھی۔’اے پی‘ کے مطابق پرنس کریم الحسینی کو اسماعیلی فرقے کا پیشوا بننے کے دو ہفتوں بعد ہی جولائی 1957 میں ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم نے انہیں ’ہز ہائینس‘ کا خطاب دیا تھا۔پرنس کریم اکتوبر 1957 میں تنزانیہ میں اسی دارالسلام میں آغا خان چہارم بنے تھے جہاں ان کے دادا آغا خان سوم کو پیرو کاروں نے ان کے وزن کے برابر ہیرے ہدیہ کیے تھے۔وہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران بیمار دادا کے پاس آئے تھے لیکن جب 18 ماہ بعد ان کی واپسی ہوئی تو اس وقت وہ آغا خان چہارم بن چکے تھے۔انہوں نے 2012 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں اس وقت تعلیم حاصل کر رہا تھا اور جانتا تھا کہ مجھے زندگی میں کیا کرنا ہوگا۔اسماعیلی برادری کی قیادت لزبن میں مقیم ہیں جہاں یہ کمیونٹی خاصی تعداد میں آباد ہے۔’اے ایف پی‘ کے مطابق پرنس کریم چہارم مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات، مذہبی بنیاد پرستی یا فرقہ واریت پر بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔


سال 2017 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلام تنازعات اور سماجی انتشار کا نہیں امن کا مذہب ہے۔ان کا قائم کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بنیادی طور پر صحت، گھروں کی تعمیر، تعلیم اور دیہی علاقوں میں معاشی ترقی کے شعبوں میں کام کرتا ہے۔اس نیٹ ورک کے مطابق یہ لگ بھگ 30 ممالک میں خدمات انجام دے رہا ہے جب کہ اس کا سالانہ بجٹ لگ بھگ ایک ارب ڈالر ہے۔پرنس کریم کے دادا سر آغان خان سوم پاکستان کے قیام کی تحریک چلانے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھے۔ پرنس کرم کی قائم کردہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بھی کئی دہائیوں سے صحت، تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے تحت چار دہایوں سے قائم آغا خان یونیورسٹی اسپتال کو پاکستان میں سہولتوں کے اعتبار سے بہترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کھیلوں میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ اعلیٰ نسل کے گھوڑے رکھنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔انہوں نے 1964 کے ونٹر اولمپکس میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکنگ کے مقابلوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے زریعے انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصا ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات

بلو چستان کے حوالات میں کتاب کی فریاد

 

   بلو چستان کے حوالات میں کتاب کی فریاد۔کتاب اسٹال بند کرو- اور اس حکم کے تحت پولیس کے چوڑے سینے والے سپاہی آئے اور کتابوں اور ان کو فروخت کرنے والے معصوم طالبعلمو ں کو حوالات میں بند کر دیا تصاویر یہں موجود ہیں -بلوچستان کے شہر ڈیرہ مراد جمالی میں کتابوں کے اسٹال پولیس نے بند کروادیے۔یہی نہیں بلوچستان کے طول عرض میں معصوم طلباء کی کاوشوں سے کتاب میلہ کے تمام اسٹال جو غریب طلباء ریڑھیوں پر لگائے تھے انہیں اٹھا کر حوالات میں ڈال دیا یہ وہ طلبہ ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت علم کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سستے داموں کتابیں فروخت کر رہے ہیں تاکہ علم ہر کسی کے لیے آسانی سے میسر ہو۔ لیکن انہیں روک کر یہ کہا گیا کہ اوپر سے حکم ہے کہ بلوچستان میں کتاب کلچر کو فروغ نہ دیا جائے۔ریاستی اداروں کا یہ رویہ نوجوانوں کو ایک ایسے راستے پر دھکیلنے کے مترادف ہے جہاں وہ علم کے بجائے انتہا پسندی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو سکتے ہیں ضلعی انتظامیہ کا یہ عمل نہ صرف نوجوانوں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے ریاستی پالیسیوں کا یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو عوام سے چھینا جا رہا ہے۔طلبہ نے کتابیں ٹھیلے پر رکھ کر فروخت کرنا شروع کیں تاکہ علم کی روشنی عام ہو لیکن اس پر بھی انتظامیہ کو خوف لاحق ہو گیا ایک ایسا ملک جس کا آئین تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیتا ہے (آرٹیکل 25-A کے تحت) وہاں کتابوں کے فروغ کو روکنا کس آئینی جواز کے تحت ممکن ہے؟ یہ تو کھلی آمریت کی علامت ہے۔


پولیس دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام ہے جو معاشرے کے لیے حقیقی خطرہ ہیں لیکن ایک پُرامن اقدام جہاں نہ نعرے بازی ہے نہ سڑکیں بند کی جا رہی ہیں فوراً انتظامیہ کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے کیا یہ ریاست کی ترجیحات کی ناکامی کو ظاہر نہیں کرتا؟  پولیس اور انتظامیہ کی آج کی کارروائی بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ریاست اپنے ہی آئینی اصولوں سے منحرف ہو رہی ہے ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایک تعلیم یافتہ باشعور معاشرہ چاہتی ہے یا ایک ایسا سماج جہاں خوف و جبر اور نفرت پروان چڑھے کتاب کلچر کو ختم کرنے کی کوشش نوجوانوں میں مایوسی اور نفرت کو بڑھا دے گی نوجوانوں کو کتابوں سے دور رکھ کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھمانے کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں ریاست خود ان نفرتوں کو ہوا دے رہی ہے۔نوجوان پولیس کو آئینی طریقہ کار سمجھا رہے ہیں لیکن ضلعی پولیس سے آئینی بات کرنا بے سود ہے کیونکہ اکثر اہلکار سفارشی بنیادوں پر بھرتی ہوتے ہیں ان کو آئینی بات سمجھانا ایسا ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا مگر افسوس ان افسران پر ہے جنہوں نے یہ حکم دیا کہ کتاب کو عوام کے ہاتھوں سے چھینا جائے یہ عمل نہ صرف آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ جمہوریت کا مذاق بھی ہے۔


یہ وقت ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرے اگر آج   بلوچستانکی سڑکوں پر کتابیں چھینی جا رہی ہیں تو کل یہی نوجوان اپنے حقوق چھیننے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے کتاب سے خوفزدہ ہونے کے بجائے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتابیں تھمائی جائیں تاکہ وہ اس ملک کا روشن مستقبل بن سکیں تعلیم اور شعور ہی کسی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔بلوچستان میں اسٹوڈنٹس کو ریاست نے اتنا خوفزدہ کیا ہوا ہے وہ لائیبریری میں یا اپنے کلاس یا کوئی اور جگہ میں کتاب پڑھ نہیں سکتے کہ کوئی ریاستی اداروں کو معلوم ہو تو ان کو کتاب پڑھنے پر لاپتہ کیا جاتا ہے ،  بلوچستان میں کتابوں کا اسٹال لگانے والوں کو پولیس نے حوالات میں بند کر دیا -حب پولیس کی کتب میلہ پر دھاوا, زبردستی بُک اسٹال ختم کروادیا۔بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی حب زون کی جانب سے لسبیلہ پریس کلب کے سامنے لگائی دو روزہ کتب میلہ پر پولیس نے دھاوا بول کر وہاں موجود دوستوں کو ہراساں کرکے ان کی پروفائلنگ کی اور کتب میلہ کو زبردستی ختم کروایا دیا۔ ایک طرف معاشرے کے بچے کتب خریدنے دوردراز سے آئے ہوئے تھے اور کتابیں خریدرہے تھے جبکہ دوسری جانب پولیس کتابوں کو زبردستی غنڈہ گردی سے ہٹوانا انتہائی افسوسناک و شرمناک ہے۔


آج بُک اسٹال کا دوسرے دن پر پولیس کی بھاری نفری پریس کلب پر پہنچ کر کتب میلہ کو ختم کرنے پر مجبور کیا اور ان کو یہ کہہ کر زبردستی اسٹال ختم کراویا گیا کہ پریس کلب کے یہاں کتب میلہ لگانے کی اجازت نہیں۔ جب پولیس آفیسر کو پوچھا گیا کہ کوئی لٹر یا نوٹفیکشین دکھا دیں جہاں یہ لکھا ہو، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خود لیٹر ہیں۔یہی کتابیں پاکستان کے ہر شہر وا بک اسٹور پر آسانی دستیاب ہیں مگر بلوچستان میں کتب میلہ لگا کر علم پھیلانے پر قدغن ہے۔ یہ نہ صرف علم دشمنی ہے بلکہ یہ بلوچ علم دشمنی ہے، یہ ملک و سرکار نہیں چاہتی کہ بلوچ پڑھیں اور بلوچ معاشرے میں علم کی فضا قائم ہو۔پولیس کی جانب سے زبردستی کتب میلہ کو ختم کروانے اور ایسے غنڈہ گرد و علم دشمن رویوں کی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہیں، اور زمہ داران کو واضح کہنا چاہتے ہیں ہم بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلانے کی جدو جد  میں ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔مرکزی ترجمان بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی  کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ہاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک عدالت نے کتابوں کی سٹال لگانے کی بنیاد پر گرفتار کیے جانے والے چار طالب علموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔


گرفتار کیے جانے والے چاروں طلبا کی رہائی کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ ون کی عدالت میں ضمانت کی درخواستیں لگائی گئی تھیں جن کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے چالیس چالیس ہزار روپے کی ذاتی مچلکوں پر ان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان طلباء کو گزشتہ روز گوادر شہر میں ڈھوریہ سکول کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پولیس نے وہاں سٹال پر رکھی جانے والی کتابوں کو بھی تحویل میں لیا تھا۔جن چار طلباء کو گرفتار کیا گیا ان میں نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، شہریار اور چاکر بلوچ شامل ہیں۔ ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 149،147،188اور 153B کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔اس سلسلے میں پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا نے سٹال لگاکر انتشار پھیلانے والی کتابیں طلبا اور خواندہ لوگوں میں نافذ العمل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اجازت فروخت کرنے کی کوشش کی۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بلوچ سٹودنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا دیگر طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔


بلوچ یکجہتی کمیٹی، طلباء تنظیموں اور حق دو تحریک گوادر نے طلباء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے طلباء کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمے کے اندراج کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست شہریوں کے کتابیں پڑھنے اور علم بانٹنے کے عمل سے بھی خائف ہے۔‘بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے چیئرمین بالاچ قادر بلوچ نے کہا کہ ’جو کتابیں سٹالوں پر رکھی گئی تھیں وہ لاہور اور کراچی میں موجود پبلشرز کی جانب سے چھاپی گئیں اور یہ پاکستان کے دیگر شہروں میں فروخت ہورہی ہیں لیکن یہاں ان پر پابندی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف گوادر بلکہ اس سے قبل تربت، نصیر آباد اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی طلباء کو کتابوں کا سٹال نہیں لگانے دیا گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے اس عمل نے یہ واضح کر دیا کہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے-

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر