اتوار، 26 جنوری، 2025

بولان کے علاقے میں پیرغائب کا مزار مرجع خلائق


پاکستان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک خُوب صُورت ترین  مُلک ہے، جو ہر طرح کے قدرتی مناظر سے پہاڑوں سے دریاؤں سے  مالا مال ہے۔ گرچہ رقبے کے اعتبار سے مُلک کے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان میں سیّاحت کو زیادہ فروغ نہیں مل سکا، لیکن یہاں ایسے درجنوں تفریحی مقامات موجود ہیں، جو اپنی کشش اور دِل کَشی کے اعتبار سے پاکستان کے کسی مشہور تفریحی مقام سے کم نہیں۔ مُلک کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے بیش تر افراد بلوچستان کے تفریحی مقامات میں سے صرف زیارت سے واقف ہیں، حالاں کہ کوئٹہ، ہرنائی، خضدار، کچھی، گنداوا اور قلاّت میں بھی کئی دِیدہ زیب مقامات موجود ہیں۔


اگر کوئٹہ کے تفریحی مقامات کی بات کی جائے، تو وادیٔ اُڑک کے خُوب صُورت مقامات، ولی تنگی ڈیم اور ہنّہ جھیل کی سیر کے لیے سیّاح دُور دُور سے آتے ہیں۔ وادیٔ اُڑک کی ہنّہ جھیل قدرتی حُسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشرق میں کوہِ زرغون ہے۔ نیز، یہیں سے جونیپر کے جنگلات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو زیارت تک پھیلا ہوا ہے۔ پھلوں کے باغات سے آراستہ اس وادی کے بیچوں بیچ زندگی بخش، ہنّہ ندی رواں دواں ہے، جس کا پانی ہنّہ جھیل میں جمع ہوتا ہے اور جب کوہِ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہونے والا سورج ہنّہ جھیل کے گرد واقع پہاڑیوں میں غروب ہونے لگتا ہے، تو اس کی کرنیں نیلگوں پانی میں سنہرا رنگ بَھر دیتی ہیں۔ وادیٔ اُڑک میں ولی تنگی کے نام سے مشہور ایک چھوٹا سا ڈیم بھی واقع ہے۔ یہ کوئٹہ سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق میں سطحِ سمندر سے 8,350فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ولی تنگی ڈیم 1960ء میں پاک فوج نے کوئٹہ اور وادیٔ اُڑک کو پانی کی ترسیل کے لیے تعمیر کیا تھا۔ یہاں روزانہ ہزاروں سیّاح آتے ہیں اور اکثر مقامات پر مختلف کھانے تیار کرتےیا خوشی سے جھومتے گاتے، رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


بلوچستان میں  متعدد سیّاحتی و تفریحی مقامات   ہیں  جن میں  تاریخی ریلوے ٹریک، چمن کی مشہور خوجک ٹنل،  کھجوری، مچھ کی کوئلہ کانیں، ایشیا کا بلند ترین ریلوے اسٹیشن کان مہتر زئی، کیچ میں سسّی پنّوں کا قلعہ، لسبیلہ میں شیریں فرہاد کا مزار،  جبلِ نورالقرآن، اسپن کاریز اور لیاقت پارک جیسے مقامات شامل ہیں-پسنی کے سمندر میں واقع قدرتی جزیرہ استولہ، فاطمہ جناح پارک، نوری نصیر خان کمپلیکس میں قائم عجائب گھر،۔اور پیر غائب  رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک-کاش ہماری حکومت  ان سیاحتی مقامات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کروائے اور سیّاحوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کر کے سیاحت سے بے پناہ زرمبادلہ کمائے۔


پیر غائب: کوئٹہ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی سلسلے میں واقع وادئ بولان میں ایک پُرفضا سیّاحتی مقام ’’پیرغائب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کی زمین کھجور کے درختوں سمیت مختلف درختوں، جڑی بوٹیوں سے آباد ہے۔ نیز جا بجا چھوٹی بڑی آب شاروں سے مزیّن چشمے ہیں، جن کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہتا ہے۔ یہاں کے پُرفضا ماحول میں انسان قدرت کی رعنائیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ دل کشی میں اپنی مثال آپ،چھوٹی بڑی آب شاروں اورکھجور کے باغوں سے مزیّن یہ علاقہ سیّاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے لیےکوئٹہ سبّی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔ پیر غائب کے مقام پر پانی کا ایک قدرتی چشمہ برسوں سے جاری ہے،جس کے بارے میں روایت ہے کہ کسی زمانے میں پانی کی قلّت کے باعث یہاں کے باشندے ہجرت پر مجبور ہوگئے، تو اسی دوران ایک نیک بزرگ تشریف لائے۔ مقامی باشندوں نے اُن سے پانی کی قلّت کا ذکر کیا، تو بزرگ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی اور پہاڑ سے پانی کا چشمہ پُھوٹ پڑا، جو آج تک رواں دواں ہے۔ بزرگ کا مزار بھی اس چشمے کے قریب ہی موجود ہے۔ زائرین اور سیّاحوں کے ہجوم کے پیشِ نظر پیر غائب کے مقام پرفرنٹئیر کور (ایف سی) نےحکومت ِبلوچستان اور سدرن کمانڈ کے تعاون سے پختہ سڑکیں، مسجد، پارک اور ایک فُوڈ پوائنٹ بھی قائم کیا ہے۔پیرغائب  کے قریب کے مقام سے پہاڑ سے گرتے پانی کا خوب صورت منظر  دل کو   موہ لیتا ہے



بولان کے علاقے میں پیرغائب  کے مزار کی حالیہ تزئین نو سے اس مقام کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔کوئٹہ سے سبی جاتے ہوئے تقریباً 90 کلومیٹر کی دوری پر توبہ کاکڑ کی پہاڑی رینج میں واقع وادی بولان میں پر فضا سیاحتی مقام پیر غائب سیاحت کے شوقین افراد کے لئے راحت کی بڑی جگہ ہے۔یہ مقام پہاڑوں میں گھرے کھجور اور  مختلف درختوں اور جڑی بوٹیوں سے  بھرے  سرسبز مقام قدرتی چھوٹی بڑی آبشاروں اور ان سے جنم لینے والے چشموں سے مزین ہے کہ جن کا پانی گرمیوں میں قدرتی ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہتاہے، اس ماحول میں پہنچ کر انسان قدرت کی رعنائیوں میں کھو کر رہ جاتاہے۔ اور تم اپنےپروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے

 

دماغی طور پر کمزر بچے اور کچھ تجاویز

 د ماغی کمزوری  کسی بھی عمر کے کسی  بھی فرد میں چاہے وہ بچہ ہو یا جوان ہو بوڑھا ہوصنفی لحاظ سے تقسیم کے بغیر دماغی کمزوری تما م دوسری جسمانی   بیماریوں  کی طرح  ایک بیماری ہے۔ لیکن یہ بیماری بچوں میں زیادہ پائ جاتی ہے -جس کی کئ وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے جینیٹک  یا پھر ماں کے شکم میں ہوتے ہوئے مناسب غذا کا نا ملنا  وغیرہ 'وغیرہ- دماغی طور پر کمزور   بچوں کی پہلی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ ارتکاز توجہ سے محروم ہوتے ہیں - ایسے بچے  عام بچوں کی نسبت دیر سے چلتے ہیں'دیر سے بولتے ہیں  ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں ہی ان کی دماغی نشونما میں کمی کی نشاندہی ہوتی ہے کمزور  دماغی  کیفیت والا بچہ  محفل میں الگ ہی پہچانا جاتا ہے۔پھر جیسے جیسے یہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اگر گھر کے اندر اس کی  اس کو  اچھی میڈیکل توجہ اور غذائ توجہ  اور وہ صحت مندانہ   کھیل کود کے مقابلے کی فضا ء ملتی جاتی ہے اس کی یہ کمزوری دور ہوتی جاتی ہے اور وہ  صحتمند  بچوں کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے


  لیکن اگر اس کو  ان صحت مندانہ سرگرمیوں سے  دور رکھا گیا تو اس کی یہ کمزوری معذور ی پر آ کر ختم ہوتی ہے -اور پھر یہ  دماغی کمزوری ایک ایسی لا علاج معذوری  آ پہنچتی ہے جس میں  بچہ  اپنی دیکھ بھال نہیں کر سکتا اور اسے  دوسروں کے سہارے اپنی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔  اس ذہنی پسماندگی کا آغاز عام طور پر 18 سال کی عمر سے پہلے ہوتا ہے۔ذہنی معذوری کا شکار شخص کو روزمرہ کی زندگی میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہنر سیکھنے میں دشواری ہوتی ہے جو دوسرے لوگ آسانی سے انجام دے سکتے ہیں، جیسے کہ کپڑے پہننا اور اپنی ذاتی دیکھ بھال کرنا۔حفظان صحت ذہنی معذوری کی کچھ اقسام میں ڈاؤن سنڈروم اور دماغی فالج شامل ہیں۔ کچھ لوگوں میں ذہنی پسماندگی کی علامات مختلف ہوتی ہیں اور یہ اس بات پر  منحصر ہے کہ اس شخص میں معذوری کتنی زیادہ ہے، کس قدر وہ اس بیماری کا شکار ہے۔ ذہنی معذوری کی علامات معذوری کی سطح کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں


 ذہنی پسماندگی میں مبتلا شخص ذہنی طور پر نہ بہت زیادہ کم کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی بہت زیادہ بہتر حالت میں ہوتا ہے۔ اس حالت میں انسان اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کچھ اپنی مدد آپ کرتا ہے اور دوسروں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ شدید ذہنی پسماندگی ایسی انسان کی ایسی حالت ہوتی ہے جس  میں مبتلا شخص کو مکمل طور پر دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وہ اپنا کوئی بھی کام خود سے نہیں کر پاتے۔ اسی طرح کی پسماندگی میں ایسے شخص کو اپنے کھانے پینے، کپڑے تک بدلنے میں دوسروں کی مدد کی ضروری ہوتی ہے۔گہری ذہنی پسماندگی انسان کی وہ حالت ہے جس میں جو ذہنی پسماندگی کی خطرناک قسم ہے جس میں مبتلا شخص کا دماغ 1 فیصد بھی کام نہیں کر پاتا اور اس طرح کے انسان کے ساتھ ہر وقت کوئی دوسرا اس کی مدد کے لیے  موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔



  اس طرح کے بچوں  کے لئے اب  جگہ جگہ اسکول کھولے گئے ہیں جہاں  ان کے لئے ووکیشنل ٹریننگ  کا بندو بست  کیا گیا ہے تاکہ آ گے چل کر وہ  سماج میں اپنی مدد آپ کے سہارے زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں اور ان کی زات میں رویے کے مسائل جیسے شدید  غصہ وغیرہ کو بھی کھیل کود کی سر گرمی میں لگا کر کنٹرول کیا جاتا ہے ۔زاتی کاموں کی تھراپی- اسپیچ تھیراپی میں ایسے بچوں کو مختلف کہانیا ں سنا کر انہیں بھی کہانی سنانے پر تیار کرنا  جس سے ان کے اندر بولنے کی مہارت پیدا ہوتی ہے۔زاتی کاموں کی تھراپی  میں  دماغی معذوری کے تمام علاج کے درمیان ذاتی کاموں کو سر انجام دینے کے لیے اس تھراپی میں مریض کو بامعنی اور بامقصد سرگرمیوں میں شامل کیا گیا ہے جیسا کہ خود کی دیکھ بھال جس میں گرومینگ، ڈریسنگ، کهانا کھلانا، نہانا، روزگار کی سرگرمیاں اور مہارتیں، تفریحی سرگرمیاں جیسے بننا اور کھیل کھیلنا اور گھریلو سرگرمیاں شامل ہیں۔ جیسے کھانا پکانا، صفائی کرنا اور کپڑے دھونا شامل ہے۔


  اسپیچ تھراپی جس کا مقصد ذہنی پسماندگی کا علاج کرنا ہے اس میں مواصلات کی مہارت کو  بنانا، زبان کی مہارتوں کا اظہار کرنا، تقریری بیان اور الفاظ کا استعمال شامل ہے-جسمانی تھراپی میں زیادہ سے زیادہ نقل و حرکت اور خود حرکت کے ذریعے مریض کے معیار زندگی کو بڑھانا، نقل و حرکت کے مسائل کے لیے ان کو کوئی نہ کوئی حل فراہم کرنا اور حسی انضمام کو بڑھانا شامل ہے۔ سائیکو تھراپی  کا مقصد مختلف نفسیاتی امراض کا علاج کرنا ہے۔ تاہم، یہ معذوری کا علاج مکمل نہیں کر سکتا۔ سائیکو تھراپی کی کچھ خاص قسمیں ہیں جو ہلکے ذہنی امراض جیسے ڈپریشن میں مبتلا بچوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے ٹاک تھراپی مریض کی عملی، جذباتی اور زبانی صلاحیتوں پر زیادہ انحصار کرتی ہے اس طرح والدین اپنے کمزور دماغی بچوں کو معاشرے کا ایک بہترین رکن بنا سکتے ہیں 

جمعہ، 24 جنوری، 2025

صحا بی ء مولا علی علیہ السلام 'مالک اشتررحمۃ اللہ علیہ


آپ کا نام مالک بن حارث نخعی مذحجی ہے، آپ کی ولادت یمن میں ہوئی  آپ نے پیغمبر اکرم حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، اور زندگی بھر اسی دین مقدس کے بہترین پیروکار رہے۔ آپ نے اپنے قبیلہ (بنی نخع) کے  ساتھ  کوفہ کی طرف  ہجرت کی۔آپ  پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد  امام علی ؑ کے  قریب ترین ساتھی بنے ،آپؓ حضرت علیؑ اور آل ؑعلی ؑ سے شدید محبت رکھتے تھےاور امام علیؑ کے مخلص اور وفادار ساتھیوں میں سے تھے، جب ربذہ کے مقام پر پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم القدر صحابی حضرت ابوذر  غفاری ؓ عالم مسافرت میں بے یارومدگار وفات پاگئے توا ٓپ  نے  ان کی تجہیزوتکفین  میں شرکت کی ان کی نماز جنازہ  پڑھائی، یو ں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق آپ  نے یقینی طور پر مؤمن ہونے کا اعزاز پایا جیساکہ  انحضرت حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر ؓ کے بارے میں فرمایاتھا  : کہ تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے  رخصت کرے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔جناب مالکؓ کی صفات جناب مالک بلند قامت اور  وجیہ چہرے کے مالک تھےآپ بہت بڑے بہادر، عالم ، شاعر اور اپنی قوم اور قبیلے کے سردار اور رئیس تھے، آپ ؓ  ایمان قوی اور اخلاق حسنہ جیسی صفات کےحامل تھے، آپ زہد وتقوی اور عفت وپاکدامنی، علم وپرہیزگاری اور شجاعت وبہادری میں شہرت رکھتے تھے۔  آپ ؓ  حق کے راستے پر ثابت قدم تھے اور آپ نے راہِ الٰہی میں  ایک لمحہ کے لیے بھی سستی نہیں کی۔


جناب مالک ؓکی شجاعت وبہادری-جناب مالک ایک بہادر، نڈر، تجربہ کار اور بیباک لیڈر تھے، اور آپ نے بہت ساری  اسلامی جنگوں میں بھی شرکت کی، انہی جنگوں میں سے ایک یرموک کا معرکہ تھا کہ جس میں آپ ؓ کی ایک آنکھ میں تیر لگا  اسی  وجہ سے آپ کو اشتر کہا جاتا ہے۔ آپ جنگ جمل میں بھی شریک تھے۔ مالک اشتر معرکہ صفین میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام  کے لشکر کے سپہ سالار تھے اور ان  دونوں جنگوں میں آپ نے بہترین بہادری کا ثبوت دیا۔ آپ ؓ اس سے پہلے بھی اسلامی لشکروں کے سپہ سالاررہے تھے۔ آپ کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک کامیابی  ایک مضبوط قلعہ  کی فتح ہے، جس  کو فتح کرنے کی ذمہ داری اور سپہ سالاری آپ کو عطا کی گئی تھی۔ پس آپ اسلامی لشکر کے ساتھ جب  قلعہ کے دروازہ پر پہنچے اور قلعہ کا معایئنہ کرنے لگے تو قلعہ کے ایک محافظ نے آپ کو  دیکھ لیا ، آپ نے قلعہ کا دروازہ کھولنے کو  کہا ، تو اس نے انکار کیا۔ آپ نے اپنے ہمراہ موجود لشکر جس کی تعداد ایک ہزار افراد تھی ان کو حکم دیا کہ وہ سب یک زبان ہوکر نعرہ تکبیر بلند کریں، تو سب نے ایک زبان ہو کر نعرہ کبیر بلند کیا، تو ان کی آواز سن کر دشمنوں نے یہ خیال کیا کہ شاید دس ہزار افراد  پر مشتمل مسلمانوں کا  کوئی  لشکر ان سے لڑنے کے لیے  آیا ہے، وہ خوفزدہ ہوگئے اور  انہوں نے اپنے نمائندوں کو صلح کے لیے مالک کے بھیجا تاکہ بغیر جنگ کے یہ مسئلہ حل ہوجائے۔ آپ ؓ نے ان کے ساتھ صلح  کی، اور قلعہ میں داخل ہوگئے، جب ان لوگوں نے آپ کی اطاعت کی یقین دہانی کرائی تو آپ نے اپنے لشکر کو قلعہ سے نکلنے کا حکم دیا، یوں یہ عظیم فتح بغیر کسی جانی نقصان کے حاصل ہوئی۔


آپ ؓکی جلاوطنی -آپؓ کوامام علیؑ ابن ابی طالب  سے بے پناہ محبت،  اور الفت تھی اسی محبت اور الفت کی پاداش میں آپ ؓ کو  بہت سارے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آپؓ کو اسی محبت کے جرم میں کئی مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ  جلاوطن کیا گیا اور آپ ؓ کو  طرح طرح کی اذیتین دی گئیں۔ ان جلاوطن کیئے جانے والے ان افراد میں حضرت کمیل بن زیاد نخعیؓ، اور حضرت صعصعہ بن صوحان بھی تھے۔ آپ کو کوفہ کے گورنر سعید بن عاص کے کہنے پر خلیفہ سوئم نے کوفہ سے شام جلاوطن کیا، پھر امیر شام کی شکایت پر خلیفہ سوئم نے  دوبارہ کوفہ بھیجا، پھر سعید ابن عاص  نےشکایت کی توخلیفہ نے مالک اشتر کو حمص کی طرف جلاوطن کردیا، پھر کوفہ والوں نے  سعید ابن عاص کو کوفہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا، اور آپ کو خطوط لکھے کہ آپ کوفہ آجائیں، چنانچہ آپ کوفہ آئے اور سعید ابن عاص کو  کوفہ سے نکالنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔


جنگ جمل اور جنگ صفین-خلیفہ سوئم کے قتل کے بعد جب خلافت ظاہریہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کو ملی، تو مالک اشتر ہمیشہ آپؑ کی تائید اورنصرت میں پیش پیش رہے، اور کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہوئے۔ آپؑ کے ساتھ جنگ جمل اور صفین  دونوں میں شریک ہوئے۔  جناب مالک اشتر جنگ جمل میں امام علی علیہ السلام  کے لشکر کی میمنہ  کا سپہ سالار تھے۔  اورجنگ صفین میں  بھی امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام  کے لشکر کے سپہ سالار تھے اور جب  امیر شام   کو اپنی شکست اور امام علی علیہ السلام  کی کامیابی کے آثار نمایاں دکھائی دینے لگے تو اس نے امام علی ؑ کے سادہ لوح سپاہیوں کو فریب دینے کی خاطر قرآن کو نیزوں پر اٹھایا یوں امام علیؑ کے لشکر  نے دھوکہ کھایا ۔ اگر امام علیؑ کے لشکرصفین میں دھوکا نہ کھایا ہوتا تو امیر شام اور اس کے لشکر کی شکست یقینی تھی۔ جناب  مالک اشتر ان دونوں جنگوں میں امام علیؑ کی معیت میں ایک تجربہ کارسپہ سالار، اور حق کے مدافعت کار کے طور پر سامنے آئے۔ مالک اشترؓ  بحیثیت گورنر مصر-حضرت امام علی ؑ نے جناب  مالک اشتر کو نصیبین کا گورنر مقرر کیا تھا، اور   مصر کی گورنری کے فرائض محمد ابن ابوبکر ؓ انجام دے رہے تھے، لیکن  جب  مصر  میں سیاسی حالات زیادہ خراب ہوگئی، اور امن وامان کے حالات بدتر ہونے لگی تو امام علی ؑ نے  مالک اشتر   کو مصر کی گورنری پر فائز  کیا تاکہ مصر  میں  امن وامان کے حالات بہتر ہوجائیں،  


جب علی ابن ابی طالب ؑ نے مالک کو مصر کی گورنری کے لیے نامزد کیا، اور ان کے لیے  مشہور عہدنامہ تحریر کیا، اور انہیں مصر کی طرف  کوچ کرنے کا حکم دیا،  تو آپؑ اس انتظار میں تھے  کہ مالک مصر کے تفصیلی حالات سے آپ کو آگاہ  کریں گے، لیکن اس سے پہلے کہ مالک کی طرف سے کوئی خوشخبری ملتی، کسی خبر پہنچانے والے  نے خبر دی، کہ مالک کو مصر جاتے ہوئے راستے میں دشمن  نے اپنے کسی کارندہ کے ذریعہ شہد میں زہر ملا  کر دیدیا ہے اور اس  زہر کے نتیجہ میں آپؓ شہید ہوگئے ہیں۔  آپ کی شہادت سنہ ۳۸ ہجری  کو ہوئی، ۔


جب امام علیؑ تک آپؑ کے عظیم، بہادر اور باوفا  سپہ سالار صحابی کی موت کی خبر پہنچی تو تو آپؑ اس مصیبت سے بیحد رنجیدہ  اور غمگین ہوئے، اور مالک کی عظمت بیان فرماتے ہوئے لوگوں سے فرمایا:   مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے ۔ مالک کیا شخص تھا۔ خدا کی قسم اگر وہ پہاڑ ہوتا تو ایک کوہ بلند ہوتا، اور اگر وہ پتھر ہوتا تو ایک سنگ گراں ہوتا کہ نہ تو اس کی بلندیوں تک کوئی سم پہنچ سکتا اور نہ کوئی پرندہ وہاں تک پر مار سکتا۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایا: "إنا لله، وإنا إليه راجعون، والحمد لله رب العالمين. باراالٰہا! میں  مالک  کی شہادت پر تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں کیونکہ ان کی موت اس دہر کی مصیبتوں میں سے ہے، خدا یا! مالک پر اپنی رحمتیں نازل کرے وہ میرے لئے اسی طرح تھا جس طرح میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کیلئے تھا۔


لیکن جب امیر شام نے مالک کی موت کی یہ خبر سنی تو لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: "اما بعد، علی کے دو بازوں تھے ایک کو صفین میں قطع کیا گیا جو عمار یاسر تھا اور دوسرے کو آج قطع کیا گیا جو مالک اشتر تھا۔


 

جمعرات، 23 جنوری، 2025

ڈیٹنگ ایپس کی شادی -دھوکہ دہی یا ایمانداری

 


 زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا  ہمارے سماج میں ایک وقت وہ بھی تھا جب گھر والے کہتے تھے ہم تمھاری    فلاں 'فلاں سے شادی کر رہے ہیں اور بس شادی ہوگئ اوربڑی اچھی بات یہ تھی کہ  یہ   شادیاں تا حیات چلتی تھیں  اور اب یہ زمانہ آ گیا ہے کہ  شادیوں کے لئے رشتہ ایپس کی مدد لی جا رہی ہے -آخر  یہ نوبت کیوں آئ آ گے بی بی سی کا مضمون  پڑھئے-میں 35 برس کی ہوں۔ بہت عرصہ چلنے کے بعد جب میری منگنی گذشتہ سال اپریل میں ختم ہوئی تو کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں رشتہ ایپ جوائن کر کے اپنی قسمت آزماؤں کیونکہ رشتہ ایپ پر شادی کے لیے صرف سنجیدہ لوگ ہی آتے ہیں۔‘اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے ایک رشتہ ایپ انسٹال کی۔ یہ ایپ میں نے پانچ ماہ استعمال کی جس کے دوران مجھے بہت سے پروفائل پسند آئے۔ جب کسی سے ابتدائی رابطے کے بعد مجھے محسوس ہونے لگتا کہ بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے تو ہم فون نمبر کا تبادلہ کرتے تاکہ مزید جان پہچان ہو سکے۔‘


'ویسے تو اس ایپ کی مارکیٹنگ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ’ڈیٹ‘ نہیں کرتے بلکہ شادی کرتے ہیں تاہم پانچ ماہ میں مجھے اس ایپ پر ایسے کئی مرد ملے جنھوں نے شادی جیسے سنجیدہ رشتے کا مذاق بنایا ہوا تھا۔‘اپنے لیے رشتہ تلاش کرتے کرتے مجھے کم از کم پانچ مرد ایسے ملے جنھوں نے مجھے اپنی غلط معلومات کے ذریعے جھانسا دینے کی کوشش کی۔ مگر چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اسی لیے میں ملاقات کے خواہشمند ہر شخص کی ابتدائی چھان بین ان کے نام اور فون نمبر کی مدد سے اپنے طور پر کرتی جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ اشخاص جو ایپ پر اپنے آپ کو کنوارہ ظاہر کر رہے تھے وہ پہلے سے شادی شدہ تھے۔یہ کہانی 35 سالہ   (فرضی نام) نے بی بی سی کو سُنائی جو پاکستان کی اُن سینکڑوں خواتین میں شامل ہیں جو معاشرے میں رائج روایتی طریقوں کے بجائے رشتہ یا شادی ایپس کے ذریعے اپنے مستقبل کے شریک سفر کا تعین کرنا چاہتی ہیں۔


پاکستان جیسے معاشرے میں زیادہ تر رشتے والدین، رشتہ داروں اور رشتہ کروانے والی خواتین اور اداروں کے ذریعے ہی طے پاتے ہیں جبکہ حالیہ چند برسوں میں اس میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رشتہ ایپس استعمال کرنے والی بہت سی خواتین نے دعویٰ کیا کہ ان پلیٹ فارمز پر انھیں ایسے شادی شدہ مردوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جو نہ صرف اپنی غلط معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ متعدد دیگر طریقوں سے شادی کی خواہشمند خواتین کو پھنسانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکثر خواتین کے مخصوص گروپوں میں صارفین ایسے ہی معاملات پر بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی غیر شادی شدہ خواتین نے جذباتی تعلق بن جانے کے بعد ایسے مردوں کے جھوٹ کا پول کھلنے کی بات کی تو کچھ خواتین اپنے شوہروں کی رشتہ ایپس پر موجودگی اور انھیں دھوکہ دینے جیسے معاملات بھی زیر بحث لائیں اور مردوں کی جانب سے ان رشتہ ایپس کو ’ڈیٹنگ ایپ‘ کے طور پر استعمال کرنے کی بات بھی کی۔

’ایک صاحب کی 17 سالہ بیٹی تھی‘رشتہ ایپس پر اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے  ان صاحبہ نے بتایا کہ ’میں شادی کے لیے موزوں رشتہ ڈھونڈنے کے لیے رشتہ ایپس پر آئی مگر پتہ چلا کہ اگرچہ یہ رشتہ ایپس ہیں مگر یہاں موجود بہت سے مرد محض ’ڈیٹنگ‘ میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کچھ ایسے بھی ملے جو غلط معلومات دے کر محض وقتی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔‘حبہ نے بتایا کہ ’مجھے پانچ مرد ایسے ملے جنھوں نے شادی کے لیے سنجیدگی کا اظہار کیا تاہم یہ بتائے بغیر کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھے۔ ایک سے تو میری ملاقات بھی ہو چکی تھی، جبکہ ایک اور کیس میں بعدازاں معلوم ہوا کہ خود کو کنوارہ ظاہر کرنے والے ایک شخص کی اپنی 17 سال کی بیٹی تھی۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ میں ہم سفر کی تلاش میں ہوں لیکن مردوں کو خواتین کے جذبات سے کھیلنے سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔'ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں نے ایپ پر موجود ایک شادی شدہ مرد سے کھل کر بات کی اور پوچھا کہ وہ خود کو غیر شادی شدہ کیوں ظاہر کر رہے ہیں جبکہ یہاں ایپ پر خواتین شادی کے لیے موزوں رشتوں کی تلاش کے ارادے سے آتی ہیں۔‘

’میں نے کہا کہ اگر مجھے وقتی تعلق یا ڈیٹنگ میں دلچسپی ہوتی تو میں ’بمبل‘ یا ’ٹنڈر‘ پر چلی جاتی۔ میں مُز کیوں استعمال کرتی؟ جس پر اس شخص نے جواب دیا کہ ’کاش آپ مجھے بمبل پر ملی ہوتیں۔‘اگرچہ بیشتر رشتہ ایپس کی پالیسی کے مطابق رشتوں کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کر کے تصاویر تخلیق کرنا اور جعلی شناخت کے استعمال سے لے کر افسانوی زندگی کی کہانیاں گھڑنا اور ہراسانی سخت ممنوع ہے لیکن خواتین کو پھر بھی ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے-کسی بھی عورت سے نکاح کرنے میں چار باتوں کا لحاظ رکھنا اولی مستحب اور مستحسن ہے، نمبر1 مال کے اعتبار سے، نمبر2 حسب و نسب کے اعتبار سے، نمبر3 حسن و جمال کے اعتبار سے، نمبر 4 دینداری کے اعتبار سے، مگر ان چاروں چیزوں میں دین داری کو ترجیح دی جائے گی، مال کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے جہیز کا مطالبہ کیا جائے، بلکہ شوہر کی عدم موجودگی میں بیوی اپنے نان ونفقہ کے علاوہ اس کے مال کی حفاظت امانتداری کے ساتھ کرسکے، حسب و نسب کی توضیح یہ ہے کہ شوہر کا ذہن کسی اونچی حسب نصب والی عورت کی طرف منتقل نہ ہو، اور حسن و جمال کی وضاحت یہ ہے کہ شوہر کی نگاہ محفوظ رہے، مگر ان تمام چیزوں میں ترجیح تو دینداری کو ہی حاصل ہو گی.

مضمون تحریر کرنے میں  انٹر نیٹ اور بی بی سی  اردوکی مدد لی گئ


 


بدھ، 22 جنوری، 2025

ازبکستان میں اخروٹ کے جنگل کیسے پروان چڑھے پارٹ /2

 

 ازبکستان میں اخروٹ کے جنگل کیسے پروان چڑھےموسمِ بہار اور گرمیوں میں تیز بہتی دو آبشاریں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں لیکن یہاں ہر سال جو خزاں میں ہوتا ہے وہ قابل ذکر ہے۔ہر سال ستمبر میں ارسلان بوب سے بہت بڑی ہجرت ہوتی ہے اور تقریباً تین ہزار خاندان بلند پہاڑوں میں 385 مربع میل پر پھیلی ہوئی ان ڈھلوانوں کی جانب نکل پڑتے ہیں جن کا رخ جنوب کی جانب ہے۔گاؤں سے ایک گھنٹے کے پیدل فاصلے پر واقع یہ جنگل دنیا میں اخروٹ کے درختوں کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے’خشک میوے کھانے والے طویل عمر پاتے ہیں‘زیادہ تر ازبک برادری سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ اگلے دو ماہ کے لیے روایتی خیموں، مٹی کے مکانوں اور عارضی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ کم و بیش ہر دو ہفتے بعد راشن لینے کے لیے ایک بار اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں۔ یہ وہ روایت ہے جو یہاں کئی صدیوں سے جاری ہے۔


سکندر اعظم-ایک اور مقامی کہاوت کے مطابق دو ہزار سال سے بھی زائد عرصہ قبل سکندر اعظم کے دور میں اخروٹ کے درخت ارسلان بوب سے لا کر یورپی ممالک میں بھی کاشت کیے گئے تھے۔اس کہاوت کے مطابق سکندر اعظم کی فوج مشرقی ایشیا کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی کہ اس نے اس وادی میں قیام کا ارادہ ظاہر کیا۔جنگ کے مارے ہوئے زخمی سپاہیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکا۔ سکندر اعظم کی فوج ان سپاہیوں کو ارسلان بوب سے کئی کلومیٹر دور ایک گاؤں میں چھوڑ کر نکل گئی جسے اب ’یاردار‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، ازبک میں جس کے معنی ’زخمی‘ کے ہیں۔کچھ ماہ بعد ہی سکندر اعظم یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ وہی زخمی فوجی تروتازہ اور صحت مند ہو کر دوبارہ اس کی فوج کا حصہ بن گئے۔ان فوجیوں نے بتایا کہ جب انھوں نے خوراک کی تلاش میں جنگل کا رخ کیا تو انھوں نے بڑی تعداد میں وہاں اخروٹ، سیب اور دیگر پھل تلاش کر لیے۔ جب انھوں نے یہ پھل خوب کھا لیے تو پھر ان کی حالت بہتر ہو گئی اور وہ وہاں سے اپنے سپاہ سالار کے قافلے کا حصہ بن گئے۔اس سے سکندر اعظم اتنا خوش ہوا کہ جب وہ یورپ لوٹا تو اپنے ساتھ یہاں کے اخروٹ کے بیج بھی ساتھ لے گیا اور ان بیجوں کو یونان میں بونے کا حکم دیا۔


اخروٹ کی فصل-درختوں سے اخروٹ توڑنے کا آغاز اکتوبر سے ہو جاتا ہے۔ ستمبر کے وسط میں کئی خاندان اپنے مویشیوں سمیت یہاں سے اخروٹوں کے جنگلات کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اس مقام پر پہنچ کر یہاں درختوں سے 20 کلو گرام تک کے تھیلوں میں اخروٹ جمع کرتے ہیں۔یہ خاندان یہاں پہنچ کر مقامی محکمۂ جنگلات، جو ان باغات کا مالک ہے، سے کئی ایکڑ پر پھیلے اخروٹ کے باغ کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور پھر اگلے دو ماہ کے لیے یہ لوگ یہیں رک جاتے ہیں اور زمین پر کام کرتے ہیں۔درختوں سے اخروٹ اتارنے سے پہلے مقامی لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک مرغی یا کوئی چھوٹا مویشی ذبح کرتے ہیں تاکہ یہ سال بھی خوب پیداوار والا ہو۔ ان باغات میں کئی درخت کئی سو سال پرانے ہیں۔ اخروٹ کے ان درختوں کی زندگی ہزار سال تک کی ہوتی ہے اور اس کا قطر دو میٹر تک ہوتا ہے۔


درختوں پر چڑھنے والے ماہر لوگارسلان بوب کے لوگ صدیوں پرانے طریقے کے مطابق ان اخروٹوں کو اتارتے آ رہے ہیں جو کہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کوئی رسہ یا بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر ہرخاندان کا سربراہ یا کوئی اور شخص اخروٹ کے درخت کی شاخوں کو پکڑ کر چوٹی تک چڑھ جاتا ہے۔اوپر پہنچ کر وہ درخت کو زور زور سے ہلاتا ہے جس سے اخروٹ نیچے گرتے اور پھر انھیں خواتین اور بچے چنتے جاتے ہیں۔کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جنھیں خود درخت پر چڑھنے کا گُر نہیں آتا اور وہ اخروٹ توڑنے کے لیے کسی مزدور کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔یہ مزدور معمولی سا معاوضہ لیتے ہیں لیکن وہ بھی یہ کام اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر رہے ہوتے ہیں۔ مقامی جنگلات کے حکام کے مطابق ہر سال کم از کم ایک شخص کسی درخت سے گر کر مر جاتا ہے-کاشت کے دوران یہ بات اہم ہوتی ہے کہ دستیاب افراد کتنے ہیںدوران ہفتہ جب بچے گاؤں میں سکول جانے کے لیے اپنے دادا دای یا نانا نانی کے پاس ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کے والدین اکثرہرچھٹی والے دن گاؤں جا کر بچوں کو گھوڑوں پر بٹھا کر اپنے کیمپ والی جگہ لے آتے ہیں۔ارسلان بوب کے بچے اخروٹ توڑنے کے دوران بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کے پست قد پتوں میں گرے ہوئے اخروٹوں کو تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔خیاتیلا تاریکو ارسلان بوب کی ایک سیاحتی تنظیم کے رابطہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچے اپنے والدین سے زیادہ اخروٹ اکھٹے کر لیتے ہیں۔اچھے موسم میں اگر ایک خاندان تقریباً آٹھ ایکڑ زمین کرائے پر لے تو وہ تقریباً 300 کلو گرام اخروٹ چُن لیتا ہے-ارسلان بوب کی رہائشی مہابت تیمیروا اخروٹ توڑنے کے موسم سے خاص محبت رکھتی ہیں۔ وہ خزاں جیسے موسم میں جنگل میں ہی بسیرا کرتی ہیں۔صبح گاؤں میں دودھ دھونے کے بعد وہ لکڑیاں جلا کر دودھ ابال لیتی ہیں اور پھر اخروٹ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر گھر کی بنی روٹی، پھل اور تازہ ملائی کا ناشتہ کرتی ہیں۔اخروٹ چننے کا موسم ہی وہ خاص موسم ہوتا ہے جس میں لوگ جنگل کا رخ کرتے ہیں۔ اس عارضی قیام کے دوران زیادہ تر خاندان جنگل میں آلو کاشت کر لیتے ہیں، سیب چنتے ہیں اور سردی شروع ہونے تک اپنے جانوروں کو تازہ گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔جنگل کے کیمپوں میں رہتے ہوئے بھی، ہر خاندان اپنے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام خود کرتا ہے اور اس کے ساتھ اخروٹ سمیت وہ طرح طرح کے پھل فروٹ کھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ دودھ دہی اور چائے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ناشتے سے پہلے یہاں مقیم خاندان ایسی جگہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ گذشتہ رات کو گرنے والے اخروٹ چنتے ہیں۔ اس کے بعد اکثر سارا وقت وہ آلو کے کھیتوں میں گزارتے ہیں۔ دوپہر کے وقت وہ اپنے پڑوسیوں کی خبر لیتے ہیں اور ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس دوران وہ آگ تاپتے ہوئے یا آرام کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دلچسپ کہانیاں سناتے ہیں۔سورج ڈھلنے سے دو گھنٹے پہلے یہ لوگ پھر جنگل میں گرے ہوئے اخروٹ چننے نکل جاتے ہیں۔

اخروٹوں سے خریداری-اخروٹ چننے کے موسم میں ارسلان بوب کی دکانوں پر پیسوں کے بجائے اخروٹ دے کر خریداری ہوتی ہے۔ اخروٹ کے بدلے لوگ کھانے پینے کی چیزوں سمیت گھر کے لیے دیگر سامان کی خریداری کرلیتے ہیں جبکہ بچے بھی دکانداروں کو اخروٹ دیکر اپنی من پسند چاکلیٹ، کیک اور آئس کریم خرید لیتے ہیں۔قریب واقع اخروٹ کے جنگل میں 11 قسم کے اخروٹوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ اخروٹ جتنا بڑا ہوگا اس کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔مقامی بازار میں ان کی قیمت عموماً 500 سوم (تقریباً 7 ڈالر) سے شروع ہوتی ہے۔اکثرخریدار مقامی لوگوں سے اخروٹ تھوک کے بھاؤ خرید کر ترکی، روس، چین اور یورپ کی منڈیوں کو بھیج دیتے ہیں۔ جب تک یہ ان ملکوں میں دکانوں پر فروخت ہوتے ہیں، ان اخروٹوں کی فی کلو گرام قیمت تین گنا ہو جاتی ہے۔اخروٹ چننے والے اکثر خاندان اپنے لیے بھی اخروٹ ذخیرہ کر لیتے ہیں اور سال بھر اس سے اخروٹ کا دودھ اور کرغستان کی روائتی مٹھائی ’زنسک‘ بناتے ہیں جس میں اخروٹ کے علاوہ مکھن اور شہد ڈالا جاتا ہے۔تحفظِ جنگلات کی کوششیں-اس بات کا سہرا یہاں کے محکمۂ جنگلات اور مقامی لوگوں کو جاتا ہے کہ ارسلان بوب کے ارد گرد موجود اخروٹ کے جنگلات کئی صدیوں سے محفوظ ہیں اور پھل دے رہے ہیں۔ جب یہ خاندان مقامی حکومت سے زمین کا ٹکڑا ٹھیکے پر لیتے ہیں تو یہ ٹھیکہ 49 سال تک کا ہو سکتا ہے۔ اتنے زیادہ عرصے کے لیے پٹے پر زمین لینے والے یہ خاندان اکثر اپنے بہترین اخروٹوں کے بیج محکمۂ جنگلات کو عطیہ کر دیتے ہیں۔ محکمہ یہ بیج اپنی نرسری میں بو دیتا ہے اور پھر ان سے پھوٹنے والے بہترین پودے جنگل میں کسی دوسری جگہ لگا دیتا ہے۔


 یوں یہ جنگل اپنی بہترین شکل میں قائم رہتا ہے۔اخروٹ کے خشک درخت کی شاخیں کاٹنے کے لیے بھی محکمے سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص صحتمند درخت کی شاخیں کاٹتا ہوا پایا جائے تو اسے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس کے باوجود اخروٹ کے جنگلات کا مستقبل غیر یقینی ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے ارسلان بوب کے اخروٹ کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے، جس کی وجوہات موسمیاتی تبدیلی، مویشیوں کے چرنے اور غیر موسمی بارشوں اور برفباری سے ہونے والا زمین کا کٹاؤ ہیں۔ اس کے علاوہ اب زیادہ تر نوجوان روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور یہاں افرادی قوت میں کمی آ رہی ہے۔گذشتہ کچھ برسوں میں مقامی اداروں نے ایسے قوانین بنائے ہیں جن میں ان جنگلات کے تحفظ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے تعاون سے سائنسدان بھی یہاں تعلیمی ورکشاپوں کا اہتمام کر رہے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ اگر وہ کچھ اقسام کے اخروٹ نہ چنیں تو یہ جنگل مستقبل میں بھی بہترین معیار کے اخروٹ پیدا کرتا رہے گا۔بڑی دعوت اخروٹ کے جنگل سے منسلک ایک بڑی دعوت کی قدیم روایت ابھی تک زندہ ہے اور یہ کرغز ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔دو ماہ کے اخروٹ چننے کے سیزن کے اختتام پر ہونے والی اس دعوت میں ہر خاندان کھانے بناتا ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اس میں بلاتا ہے۔ اس موقع پر، اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ فضل کتنی اچھی رہی، مرغی یا بھیڑ ذبح کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دعوت میں روائتی پلاؤ، بھیڑ کا گوشت،روٹی، تازہ سلاد، پھل، دھی، مٹھائی اور تازہ ملائی پیش کی جاتی ہے۔کھانے کے بعد مہمان دعا کرتے ہیں کہ ان کے میزبان کو خدا اگلے سال اس سے بھی اچھی فصل سے نوازے۔-

زرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا-حب ندی اور میرا شوق

 

زرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

 ہمارے زمانے کے دستور آج کے دور کی نسبت  کچھ نرالے ہوا کرتے  تھے ،یعنی آج کے دور کی طرح نرسری یا پری نرسری سے بچّوں کو اسکول بھیجنے کا کوئ تصوّر تک نہیں تھا بلکہ یہ نام ہی ہمارے لئے بیگانے تھے،اس زمانے کےرواج میں شامل تھا کہ بچّہ گھر سے تیسری یا چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرچکا ہو تب اسکول میں داخلہ دلوایا جائے  اور یہ بات معاشرتی اعتبار سے بڑی مستحسن جانی جاتی تھی ,,میری والدہ ان دنوں مجھے تیسری جماعت کا کورس گھر پر پڑھا رہی تھیں اور میرا داخلہ اسکول میں نہیں ہواتھا  اور میرے اندرکی جستجو نےکیا ہے ؟ کیوں ہے  جیسے سوالوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا شوق واضح ہونے لگے تھے ،


 اور پھر بچپن کے شوق کے کیا کہنے جبکہ فطرت میں شوق کی تکمیل کی خاطر اندر ہی اندر نافرمانی کا جزبہ موجزن ہو ،بچپن کی ایسی ہی جھلمل یادوں کے درمیان کبھی میرا زہن ہر سوچ سے دامن بچا کر بچپن کے اس دورمیں جا نکلتا ہے جہان میں اسی عمر میں سفر کرتی ہوں جو میرے بچپن کا انوکھا دور تھا اور پھر شیریں و تلخ یادوں کی برسات کی رم جھم میں میرا دل جھومتا چلا جاتا ہے ،میرے بچپن کی انوکھی  یادون میں مجھے اپنا سیلابی پانی سے بھری ندّی کے کنارے  جانا  اور دیر تک ندّی کے پانی کا بہاوُ دیکھتے رہنا آج بھی اچھّی طرح سے یاد ہے میں ندّی کو بہتا دیکھ کر سوچتی تھی کہ آخر اتنا پانی آتا کہاں سے ہے ،


اس موسم میں میری صبح بہت جلدی ہو جایا کرتی تھی کیونکہ میری بے قرار فطرت کے سبب میری والدہ مجھ پر خاص نگاہ سرپرستی رکھتی تھیں ،لیکن وہ ہے ناں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا چنانچہ ایک صبح ایسا ہوا کہ رات کوبرسنے والی  گھنگھور گھٹا وُں نے  ساری فضاء کو جل تھل کر رکھّا تھا اور میں صبح سویرے  گھرکے افراد سے آنکھ بچا کر ندّی کے کنارے پہنچ  کر سیلابی پانی کو دیکھنے میں محو کھڑی تھی ،ندّی کناروں تک لبالب  بھری ہوئ تھی اور پانی طغیان کھاتا ہواغرّا تا ہوا ندّی کے کناروں پر سر پٹختا ہوا چلا جا رہا تھارہا تھا،


،اچانک مجھے اپنی پشت پر ایک بڑی مردانا ہیبت ناک آواز سنائ دی اس کے بعد اس نے میرے قریب آکر میری گردن دبوچ لی اور مجھ سے غراتے ہوئے بولا دیکھ ادھر اس نے جس جانب اشارہ کیا تھا میں اسی جگہ کچھ دیر پہلے کھڑی ندی کا نظارہ کر رہی تھی  اور پھر میں نے دیکھا اسی جگہ سے کچھ پیچھے زمین کا کنارہ کٹنے لگا تھا جو زرا سی دیر میں ندی میں جا گرا وہ پر میری گردن چھوڑتے ہوئے بولا اگر میں تجھے ابھی نا ہٹاتا  تو تو ابھی  ندی میں بہ جاتی اب اگر تو یہاں نظر آئ تو تجھے مارڈالوں گا -دفع ہو وہ دھاڑا اور میں نے گرتے پڑتے گھر کی جانب دوڑ لگا دی -چپکے سے گھر میں داخل ہوئ تو سامنے امی جان نظر آئیں صبح 'صبح کا وقت تھا اس لئے امی جان خاموش رہیں لیکن ان کی نگاہوں سے سخت ترین خفگی کا اظہار ہو رہا تھا


 پھر جب دوپہر ہوئ تو امی جان نے مجھے کچن میں بلایا اور انگاروں پر رکھا ہوا لوہے کا دست پناہ جس سے وہ توے پر روٹیاں الٹنے کا کام لیتی تھیں اسے مجھے دکھایا جو انگاروں سے نکل کر سرخ ہو کر دہک رہا تھا امی جان نے مجھ سے کہا اگر اب تم نے دوبارہ یہ حرکت کی تو میں تمھارے دونوں پیر داغ دوں گی  'پھر شام ہو گئ ابا جان بنک سے واپس آ کر کھانا چکے تب ہمارے دروازے پر کسی نے آ کر ابا جان کو آواز دے کر باہر بلایا جب کچھ دیر کے بعد ابا جان گھر کے اندر واپس آئے تب مجھے معلوم ہوا کہ جس شخص نے میری جان بچائ تھی وہ ابا جان کے دوست تھے اور انہوں نے اباجان سے میری کارگزاری کی شکائت کی تھی -ابا جان نے بھی  مجھے کافی سخت تنبیہ کی تھی پھر میں نے بھی کبھی دوبارہ ندی  جانے کا ارادہ نہیں کیا 


ازبکستان میں اخروٹ کے جنگل کیسے پروان چڑھے پارٹ /1


 ازبکستان میں اخروٹ کے جنگل کیسے پروان چڑھے- آئیے  یہ کہانی پڑھتے ہیں - ہر  سال ارسلان بوب کے ان باغوں سے ایک ہزار سے 15سو ٹن تک اخروٹ پیدا ہوتا ہے۔اپنی گہرے رنگ کی گِری کے لیے مشہور ان اخروٹوں کی پیداوار کیڑے مار ادویات سے پاک، قدرتی ماحول میں ہوتی ہے۔ یہاں کے اخروٹ دنیا کے بہترین اخروٹ سمجھے جاتے ہیں اور ہر سال یورپ اور ایشیا بھر کو برآمد کیے جاتے ہیں۔یہ چھوٹا سا قصبہ اس قدر اخروٹ کی پیداوار سے مالا مال کیسے ہوا اس بارے میں کئی داستانیں مشہور ہیں۔کچھ مقامی لوگوں کے خیال میں یہ بات پیغمبرِ اسلام کے دور سے شروع ہوئی جب انھوں نے ایک تجربہ کار مالی کو بیج دیا اور یہ نصیحت کی کہ وہ اسے کسی مناسب جگہ پر اس طرح کاشت کر ے کہ جنگل اُگ آئے۔وہ مالی، اس نصیحت کی روشنی میں، دور دراز سے سفر کرتے ہوئے ارسلان بوب پہنچا۔


مالی نے برفانی پہاڑیوں کے دامن واقع ایک ایسی جگہ تلاش کی جہاں کا موسم بہترین اور جہاں صاف ستھری بہتی ندیاں اور زرخیز زمین موجود تھی۔اس شخص کو یقین ہو گیا کہ یہ بہترین مقام ہے اور پھر اس نے پیغمبرِ اسلام کا دیا ہوا بیج بویا اور کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی یہاں اخروٹ کے جنگلات پھل پھول رہے ہیں۔یوں تو مغزیات کا استعمال صدیوں سے جاری ہے، مگر جدید سائنس کے ان کی افادیت پر مُہرِ تصدیق ثبت کرنے کے بعد سے ان سے استفادہ کیونکر کیا جاسکتا ہےجسمانی وزن میں کمی : اخروٹ میں کیلوریز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر اعتدال میں رہ کر اسے کھانے سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے کھانے کی اشتہا کم ہوتی ہے جس سے جسمانی وزن میں کمی لانا آسان ہوتا ہے۔ المختصر یہ کہ اخروٹ انسانی جسم کے جملہ افعال میں مفید ہے ۔


 اخروٹ کا روغن:اخروٹ میں تیل کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس تیل کی مالش سے دورانِ خون میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے سردی کے باعث جسم کے کسی بھی حصّے میں ہونے والے درد اور فالج و لقوے میں افاقہ دیکھا گیا ہے۔ اخروٹ کے چِھلکے:تازہ اخروٹ کے چِھلکوں سے تیار کردہ منجن دانتوں کو صاف و چمک دار بناتا اور مسوڑھے مضبوط کرتا ہے۔ اسی طرح پائیوریا کے لیے اخروٹ کی جڑ کی مسواک مفید ہے۔ نیز، اخروٹ کے درخت کی چھال سے تیار کردہ جوشاندے سے کُلّیاں کرنا دانتوں کی حسّاسیت کے لیے مؤثر ہے۔ چوٹ کا نشان:اخروٹ کے مغز کے لیپ سے چوٹ کا نشان بھی جاتا رہتا ہے۔٭ پیٹ کے کیڑے:دس گرام اخروٹ کے درخت کی چھال کو نصف گلاس پانی میں جوش دینے کے بعد چھان کر پلانے سے پیٹ کے کیڑے مَرجاتے ہیں-


ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید : ذیابیطس کے مریضوں یا بلڈ شوگر کے شکار افراد کو روزانہ اخروٹ کھانے سے امراض قلب میں مبتلا ہونے سے تحفظ ملتا ہے۔ روزانہ اخروٹ کھانے سے خون کی شریانوں کے افعال بہتر ہوتے ہیں جبکہ کولیسٹرول کی سطح کم ہوتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں ممکنہ مدد مل سکتی ہے۔ اس کے باقاعدگی کے استعمال سے مردوں میں بانجھ پن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اخروٹ کھانے سے مردوں کی تولیدی صحت بھی بہتر ہوتی ہے : اخروٹ کھانے سے اسپرمز کی صحت بہتر ہوتی ہے جس سے بانجھ پن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور : اخروٹ میں وٹامن ای، میلاٹونین اور پولی فینولز نامی نباتاتی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں۔غذا میں اخروٹ کو شامل کرنے سے تکسیدی تناو¿ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جس سے خون کی شریانوں کے امراض سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔


دل کی صحت : خون میں چکنائی یا کولیسٹرول کی مقدار بڑھنے سے امراضِ قلب، فالج اور دیگر طبی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔روزانہ کچھ مقدار میں اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے امراضِ قلب کا خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر کی روک تھام ہوتی ہے۔اخروٹ کے استعمال سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے، پیٹ نکلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ بلڈپریشر اور خون میں چکنائی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔کینسر سے تحفظ: اخروٹ کھانے کی عادت سے معدے کے کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔اخروٹ میں موجود پولی فینولز سے کینسر کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ازبکستان کی سرحد سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر مغربی کرغزستان کی ایک وادی میں تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل ارسلان بوب نامی قصبہ چاروں طرف سے بلندوبالا باباشاتا کی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر