زرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
ہمارے زمانے کے دستور آج کے دور کی نسبت کچھ نرالے ہوا کرتے تھے ،یعنی آج کے دور کی طرح نرسری یا پری نرسری سے بچّوں کو اسکول بھیجنے کا کوئ تصوّر تک نہیں تھا بلکہ یہ نام ہی ہمارے لئے بیگانے تھے،اس زمانے کےرواج میں شامل تھا کہ بچّہ گھر سے تیسری یا چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرچکا ہو تب اسکول میں داخلہ دلوایا جائے اور یہ بات معاشرتی اعتبار سے بڑی مستحسن جانی جاتی تھی ,,میری والدہ ان دنوں مجھے تیسری جماعت کا کورس گھر پر پڑھا رہی تھیں اور میرا داخلہ اسکول میں نہیں ہواتھا اور میرے اندرکی جستجو نےکیا ہے ؟ کیوں ہے جیسے سوالوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا شوق واضح ہونے لگے تھے ،
اور پھر بچپن کے شوق کے کیا کہنے جبکہ فطرت میں شوق کی تکمیل کی خاطر اندر ہی اندر نافرمانی کا جزبہ موجزن ہو ،بچپن کی ایسی ہی جھلمل یادوں کے درمیان کبھی میرا زہن ہر سوچ سے دامن بچا کر بچپن کے اس دورمیں جا نکلتا ہے جہان میں اسی عمر میں سفر کرتی ہوں جو میرے بچپن کا انوکھا دور تھا اور پھر شیریں و تلخ یادوں کی برسات کی رم جھم میں میرا دل جھومتا چلا جاتا ہے ،میرے بچپن کی انوکھی یادون میں مجھے اپنا سیلابی پانی سے بھری ندّی کے کنارے جانا اور دیر تک ندّی کے پانی کا بہاوُ دیکھتے رہنا آج بھی اچھّی طرح سے یاد ہے میں ندّی کو بہتا دیکھ کر سوچتی تھی کہ آخر اتنا پانی آتا کہاں سے ہے ،
اس موسم میں میری صبح بہت جلدی ہو جایا کرتی تھی کیونکہ میری بے قرار فطرت کے سبب میری والدہ مجھ پر خاص نگاہ سرپرستی رکھتی تھیں ،لیکن وہ ہے ناں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا چنانچہ ایک صبح ایسا ہوا کہ رات کوبرسنے والی گھنگھور گھٹا وُں نے ساری فضاء کو جل تھل کر رکھّا تھا اور میں صبح سویرے گھرکے افراد سے آنکھ بچا کر ندّی کے کنارے پہنچ کر سیلابی پانی کو دیکھنے میں محو کھڑی تھی ،ندّی کناروں تک لبالب بھری ہوئ تھی اور پانی طغیان کھاتا ہواغرّا تا ہوا ندّی کے کناروں پر سر پٹختا ہوا چلا جا رہا تھارہا تھا،
،اچانک مجھے اپنی پشت پر ایک بڑی مردانا ہیبت ناک آواز سنائ دی اس کے بعد اس نے میرے قریب آکر میری گردن دبوچ لی اور مجھ سے غراتے ہوئے بولا دیکھ ادھر اس نے جس جانب اشارہ کیا تھا میں اسی جگہ کچھ دیر پہلے کھڑی ندی کا نظارہ کر رہی تھی اور پھر میں نے دیکھا اسی جگہ سے کچھ پیچھے زمین کا کنارہ کٹنے لگا تھا جو زرا سی دیر میں ندی میں جا گرا وہ پر میری گردن چھوڑتے ہوئے بولا اگر میں تجھے ابھی نا ہٹاتا تو تو ابھی ندی میں بہ جاتی اب اگر تو یہاں نظر آئ تو تجھے مارڈالوں گا -دفع ہو وہ دھاڑا اور میں نے گرتے پڑتے گھر کی جانب دوڑ لگا دی -چپکے سے گھر میں داخل ہوئ تو سامنے امی جان نظر آئیں صبح 'صبح کا وقت تھا اس لئے امی جان خاموش رہیں لیکن ان کی نگاہوں سے سخت ترین خفگی کا اظہار ہو رہا تھا
پھر جب دوپہر ہوئ تو امی جان نے مجھے کچن میں بلایا اور انگاروں پر رکھا ہوا لوہے کا دست پناہ جس سے وہ توے پر روٹیاں الٹنے کا کام لیتی تھیں اسے مجھے دکھایا جو انگاروں سے نکل کر سرخ ہو کر دہک رہا تھا امی جان نے مجھ سے کہا اگر اب تم نے دوبارہ یہ حرکت کی تو میں تمھارے دونوں پیر داغ دوں گی 'پھر شام ہو گئ ابا جان بنک سے واپس آ کر کھانا چکے تب ہمارے دروازے پر کسی نے آ کر ابا جان کو آواز دے کر باہر بلایا جب کچھ دیر کے بعد ابا جان گھر کے اندر واپس آئے تب مجھے معلوم ہوا کہ جس شخص نے میری جان بچائ تھی وہ ابا جان کے دوست تھے اور انہوں نے اباجان سے میری کارگزاری کی شکائت کی تھی -ابا جان نے بھی مجھے کافی سخت تنبیہ کی تھی پھر میں نے بھی کبھی دوبارہ ندی جانے کا ارادہ نہیں کیا
حب ندی کا پاٹ بہت چوڑا تھا اور جب ندی اس پاٹ میں لبا لب بھری چلتی تھی تو یہ منظر دل کو بڑا لبھا تا تھا
جواب دیںحذف کریں