د ماغی کمزوری کسی بھی عمر کے کسی بھی فرد میں چاہے وہ بچہ ہو یا جوان ہو بوڑھا ہوصنفی لحاظ سے تقسیم کے بغیر دماغی کمزوری تما م دوسری جسمانی بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے۔ لیکن یہ بیماری بچوں میں زیادہ پائ جاتی ہے -جس کی کئ وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے جینیٹک یا پھر ماں کے شکم میں ہوتے ہوئے مناسب غذا کا نا ملنا وغیرہ 'وغیرہ- دماغی طور پر کمزور بچوں کی پہلی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ ارتکاز توجہ سے محروم ہوتے ہیں - ایسے بچے عام بچوں کی نسبت دیر سے چلتے ہیں'دیر سے بولتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں ہی ان کی دماغی نشونما میں کمی کی نشاندہی ہوتی ہے کمزور دماغی کیفیت والا بچہ محفل میں الگ ہی پہچانا جاتا ہے۔پھر جیسے جیسے یہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اگر گھر کے اندر اس کی اس کو اچھی میڈیکل توجہ اور غذائ توجہ اور وہ صحت مندانہ کھیل کود کے مقابلے کی فضا ء ملتی جاتی ہے اس کی یہ کمزوری دور ہوتی جاتی ہے اور وہ صحتمند بچوں کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے
لیکن اگر اس کو ان صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور رکھا گیا تو اس کی یہ کمزوری معذور ی پر آ کر ختم ہوتی ہے -اور پھر یہ دماغی کمزوری ایک ایسی لا علاج معذوری آ پہنچتی ہے جس میں بچہ اپنی دیکھ بھال نہیں کر سکتا اور اسے دوسروں کے سہارے اپنی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ اس ذہنی پسماندگی کا آغاز عام طور پر 18 سال کی عمر سے پہلے ہوتا ہے۔ذہنی معذوری کا شکار شخص کو روزمرہ کی زندگی میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہنر سیکھنے میں دشواری ہوتی ہے جو دوسرے لوگ آسانی سے انجام دے سکتے ہیں، جیسے کہ کپڑے پہننا اور اپنی ذاتی دیکھ بھال کرنا۔حفظان صحت ذہنی معذوری کی کچھ اقسام میں ڈاؤن سنڈروم اور دماغی فالج شامل ہیں۔ کچھ لوگوں میں ذہنی پسماندگی کی علامات مختلف ہوتی ہیں اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس شخص میں معذوری کتنی زیادہ ہے، کس قدر وہ اس بیماری کا شکار ہے۔ ذہنی معذوری کی علامات معذوری کی سطح کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں
ذہنی پسماندگی میں مبتلا شخص ذہنی طور پر نہ بہت زیادہ کم کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی بہت زیادہ بہتر حالت میں ہوتا ہے۔ اس حالت میں انسان اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کچھ اپنی مدد آپ کرتا ہے اور دوسروں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ شدید ذہنی پسماندگی ایسی انسان کی ایسی حالت ہوتی ہے جس میں مبتلا شخص کو مکمل طور پر دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وہ اپنا کوئی بھی کام خود سے نہیں کر پاتے۔ اسی طرح کی پسماندگی میں ایسے شخص کو اپنے کھانے پینے، کپڑے تک بدلنے میں دوسروں کی مدد کی ضروری ہوتی ہے۔گہری ذہنی پسماندگی انسان کی وہ حالت ہے جس میں جو ذہنی پسماندگی کی خطرناک قسم ہے جس میں مبتلا شخص کا دماغ 1 فیصد بھی کام نہیں کر پاتا اور اس طرح کے انسان کے ساتھ ہر وقت کوئی دوسرا اس کی مدد کے لیے موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اس طرح کے بچوں کے لئے اب جگہ جگہ اسکول کھولے گئے ہیں جہاں ان کے لئے ووکیشنل ٹریننگ کا بندو بست کیا گیا ہے تاکہ آ گے چل کر وہ سماج میں اپنی مدد آپ کے سہارے زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں اور ان کی زات میں رویے کے مسائل جیسے شدید غصہ وغیرہ کو بھی کھیل کود کی سر گرمی میں لگا کر کنٹرول کیا جاتا ہے ۔زاتی کاموں کی تھراپی- اسپیچ تھیراپی میں ایسے بچوں کو مختلف کہانیا ں سنا کر انہیں بھی کہانی سنانے پر تیار کرنا جس سے ان کے اندر بولنے کی مہارت پیدا ہوتی ہے۔زاتی کاموں کی تھراپی میں دماغی معذوری کے تمام علاج کے درمیان ذاتی کاموں کو سر انجام دینے کے لیے اس تھراپی میں مریض کو بامعنی اور بامقصد سرگرمیوں میں شامل کیا گیا ہے جیسا کہ خود کی دیکھ بھال جس میں گرومینگ، ڈریسنگ، کهانا کھلانا، نہانا، روزگار کی سرگرمیاں اور مہارتیں، تفریحی سرگرمیاں جیسے بننا اور کھیل کھیلنا اور گھریلو سرگرمیاں شامل ہیں۔ جیسے کھانا پکانا، صفائی کرنا اور کپڑے دھونا شامل ہے۔
اسپیچ تھراپی جس کا مقصد ذہنی پسماندگی کا علاج کرنا ہے اس میں مواصلات کی مہارت کو بنانا، زبان کی مہارتوں کا اظہار کرنا، تقریری بیان اور الفاظ کا استعمال شامل ہے-جسمانی تھراپی میں زیادہ سے زیادہ نقل و حرکت اور خود حرکت کے ذریعے مریض کے معیار زندگی کو بڑھانا، نقل و حرکت کے مسائل کے لیے ان کو کوئی نہ کوئی حل فراہم کرنا اور حسی انضمام کو بڑھانا شامل ہے۔ سائیکو تھراپی کا مقصد مختلف نفسیاتی امراض کا علاج کرنا ہے۔ تاہم، یہ معذوری کا علاج مکمل نہیں کر سکتا۔ سائیکو تھراپی کی کچھ خاص قسمیں ہیں جو ہلکے ذہنی امراض جیسے ڈپریشن میں مبتلا بچوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے ٹاک تھراپی مریض کی عملی، جذباتی اور زبانی صلاحیتوں پر زیادہ انحصار کرتی ہے اس طرح والدین اپنے کمزور دماغی بچوں کو معاشرے کا ایک بہترین رکن بنا سکتے ہیں
دماغی کمزوری کا شکار بچوں کو جس قر زیادہ علاج اور توجہ چاہئے اگر ان کو میسر ہو گی تو زیادہ جلدی سماج کا رکن بن جائیں گے
جواب دیںحذف کریں