زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہمارے سماج میں ایک وقت وہ بھی تھا جب گھر والے کہتے تھے ہم تمھاری فلاں 'فلاں سے شادی کر رہے ہیں اور بس شادی ہوگئ اوربڑی اچھی بات یہ تھی کہ یہ شادیاں تا حیات چلتی تھیں اور اب یہ زمانہ آ گیا ہے کہ شادیوں کے لئے رشتہ ایپس کی مدد لی جا رہی ہے -آخر یہ نوبت کیوں آئ آ گے بی بی سی کا مضمون پڑھئے-میں 35 برس کی ہوں۔ بہت عرصہ چلنے کے بعد جب میری منگنی گذشتہ سال اپریل میں ختم ہوئی تو کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں رشتہ ایپ جوائن کر کے اپنی قسمت آزماؤں کیونکہ رشتہ ایپ پر شادی کے لیے صرف سنجیدہ لوگ ہی آتے ہیں۔‘اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے ایک رشتہ ایپ انسٹال کی۔ یہ ایپ میں نے پانچ ماہ استعمال کی جس کے دوران مجھے بہت سے پروفائل پسند آئے۔ جب کسی سے ابتدائی رابطے کے بعد مجھے محسوس ہونے لگتا کہ بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے تو ہم فون نمبر کا تبادلہ کرتے تاکہ مزید جان پہچان ہو سکے۔‘
'ویسے تو اس ایپ کی مارکیٹنگ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ’ڈیٹ‘ نہیں کرتے بلکہ شادی کرتے ہیں تاہم پانچ ماہ میں مجھے اس ایپ پر ایسے کئی مرد ملے جنھوں نے شادی جیسے سنجیدہ رشتے کا مذاق بنایا ہوا تھا۔‘اپنے لیے رشتہ تلاش کرتے کرتے مجھے کم از کم پانچ مرد ایسے ملے جنھوں نے مجھے اپنی غلط معلومات کے ذریعے جھانسا دینے کی کوشش کی۔ مگر چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اسی لیے میں ملاقات کے خواہشمند ہر شخص کی ابتدائی چھان بین ان کے نام اور فون نمبر کی مدد سے اپنے طور پر کرتی جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ اشخاص جو ایپ پر اپنے آپ کو کنوارہ ظاہر کر رہے تھے وہ پہلے سے شادی شدہ تھے۔یہ کہانی 35 سالہ (فرضی نام) نے بی بی سی کو سُنائی جو پاکستان کی اُن سینکڑوں خواتین میں شامل ہیں جو معاشرے میں رائج روایتی طریقوں کے بجائے رشتہ یا شادی ایپس کے ذریعے اپنے مستقبل کے شریک سفر کا تعین کرنا چاہتی ہیں۔
پاکستان جیسے معاشرے میں زیادہ تر رشتے والدین، رشتہ داروں اور رشتہ کروانے والی خواتین اور اداروں کے ذریعے ہی طے پاتے ہیں جبکہ حالیہ چند برسوں میں اس میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رشتہ ایپس استعمال کرنے والی بہت سی خواتین نے دعویٰ کیا کہ ان پلیٹ فارمز پر انھیں ایسے شادی شدہ مردوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جو نہ صرف اپنی غلط معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ متعدد دیگر طریقوں سے شادی کی خواہشمند خواتین کو پھنسانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکثر خواتین کے مخصوص گروپوں میں صارفین ایسے ہی معاملات پر بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی غیر شادی شدہ خواتین نے جذباتی تعلق بن جانے کے بعد ایسے مردوں کے جھوٹ کا پول کھلنے کی بات کی تو کچھ خواتین اپنے شوہروں کی رشتہ ایپس پر موجودگی اور انھیں دھوکہ دینے جیسے معاملات بھی زیر بحث لائیں اور مردوں کی جانب سے ان رشتہ ایپس کو ’ڈیٹنگ ایپ‘ کے طور پر استعمال کرنے کی بات بھی کی۔
’ایک صاحب کی 17 سالہ بیٹی تھی‘رشتہ ایپس پر اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان صاحبہ نے بتایا کہ ’میں شادی کے لیے موزوں رشتہ ڈھونڈنے کے لیے رشتہ ایپس پر آئی مگر پتہ چلا کہ اگرچہ یہ رشتہ ایپس ہیں مگر یہاں موجود بہت سے مرد محض ’ڈیٹنگ‘ میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کچھ ایسے بھی ملے جو غلط معلومات دے کر محض وقتی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔‘حبہ نے بتایا کہ ’مجھے پانچ مرد ایسے ملے جنھوں نے شادی کے لیے سنجیدگی کا اظہار کیا تاہم یہ بتائے بغیر کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھے۔ ایک سے تو میری ملاقات بھی ہو چکی تھی، جبکہ ایک اور کیس میں بعدازاں معلوم ہوا کہ خود کو کنوارہ ظاہر کرنے والے ایک شخص کی اپنی 17 سال کی بیٹی تھی۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ میں ہم سفر کی تلاش میں ہوں لیکن مردوں کو خواتین کے جذبات سے کھیلنے سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔'ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں نے ایپ پر موجود ایک شادی شدہ مرد سے کھل کر بات کی اور پوچھا کہ وہ خود کو غیر شادی شدہ کیوں ظاہر کر رہے ہیں جبکہ یہاں ایپ پر خواتین شادی کے لیے موزوں رشتوں کی تلاش کے ارادے سے آتی ہیں۔‘
’میں نے کہا کہ اگر مجھے وقتی تعلق یا ڈیٹنگ میں دلچسپی ہوتی تو میں ’بمبل‘ یا ’ٹنڈر‘ پر چلی جاتی۔ میں مُز کیوں استعمال کرتی؟ جس پر اس شخص نے جواب دیا کہ ’کاش آپ مجھے بمبل پر ملی ہوتیں۔‘اگرچہ بیشتر رشتہ ایپس کی پالیسی کے مطابق رشتوں کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کر کے تصاویر تخلیق کرنا اور جعلی شناخت کے استعمال سے لے کر افسانوی زندگی کی کہانیاں گھڑنا اور ہراسانی سخت ممنوع ہے لیکن خواتین کو پھر بھی ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے-کسی بھی عورت سے نکاح کرنے میں چار باتوں کا لحاظ رکھنا اولی مستحب اور مستحسن ہے، نمبر1 مال کے اعتبار سے، نمبر2 حسب و نسب کے اعتبار سے، نمبر3 حسن و جمال کے اعتبار سے، نمبر 4 دینداری کے اعتبار سے، مگر ان چاروں چیزوں میں دین داری کو ترجیح دی جائے گی، مال کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے جہیز کا مطالبہ کیا جائے، بلکہ شوہر کی عدم موجودگی میں بیوی اپنے نان ونفقہ کے علاوہ اس کے مال کی حفاظت امانتداری کے ساتھ کرسکے، حسب و نسب کی توضیح یہ ہے کہ شوہر کا ذہن کسی اونچی حسب نصب والی عورت کی طرف منتقل نہ ہو، اور حسن و جمال کی وضاحت یہ ہے کہ شوہر کی نگاہ محفوظ رہے، مگر ان تمام چیزوں میں ترجیح تو دینداری کو ہی حاصل ہو گی.
مضمون تحریر کرنے میں انٹر نیٹ اور بی بی سی اردوکی مدد لی گئ
ا للہ تعالیٰ ہی مسلمانوں کی ہدائت کا سامان کر سکتا ہے
جواب دیںحذف کریں