ایک بچے کی لاش برآمد کمرے میں اور دوسرے کی سیڑھیوں پر ملی......... ساتھ ہی سٹوری بک بھی....... کاربن مونو آکسائیڈ میرے بچوں کو کھا گئی.... انہیں پتہ بھی نہ چلا.... ایسی میٹھی نیند سلادیا....... میں خالی ہاتھ کہاں جارہا ہوں...... اپنے بچوں کی... اپنے حمزہ اور اسد کی لاشیں لے کر جارہا ہوں... وہ بار بار بار اپنے ہاتھ آگے کر رہا تھا اور کہتا جارہا تھا.... آنسو ہم سب کے رخسار بھگو چکے تھے.... ایسا کوئ حرفِ تسلی نہیں سوجھ رہا تھا جو اس تڑپتے ہوئے باپ کے زخموں پر رکھا جائے......... آپ نے تدفین یہیں کیوں نہ کی... کسی نے بےارادہ سوال کرلیا..... اسے دیکھ رہے ہیں آپ.... اس نے سرخ آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف سے اشارہ کیا.... ایسی نہیں تھی وہ.... پاگل بھی نہیں ہے... ڈاکٹر ہے ڈاکٹر.
.......... لیکن ماں ہے... کیسے لخت جگر یہاں چھوڑدوں.... وہیں دفن کریں گے.... قبر پہ جاکر باتیں تو کرلیا کریں گے.. وہ ہچکیوں سے رورہا تھا....... ساتھ ہی بیٹی بھی سامنے روتی نظر آرہی تھی لیکن ماں.... وہی گھمبیر چپ..... ایک آنسو نہیں ٹپکا... اسکا.... کچھ نہیں کھایا......... بس بمشکل پانی کے چند قطرے............ وہ باتیں کرتا رہا... سب دلجوئ کرتے رہے... جہاز منزل کے قریب پہنچنے کو تھا........ میں مستقل اس ماں کو ہی دیکھتی اور پوچھتی رہی تھی.......... لڑکی ماں کا ہاتھ تھام کر اٹھی اور اسے ریسٹ روم لے گئی.... باہر نکلی تو وہ آکر کھڑی ہوگئی...... ہم آمنے سامنے تھے میں اسے دیکھ رہی تھی اور وہ مجھے.......... میرے حمزہ اور اسد اچانک اس نے چیخ ماری اور مجھ سے لپٹ کر بلند آواز میں رونا شروع کردیا.. اسکے بین دل چیر رہے تھے.... چپ ٹوٹ گئی تھی..... وہ بے ہوش ہونے کو تھی... جہاز میں ڈاکٹر کی اناؤنسمنٹ شروع ہوگئی........ اسے سیٹ پرلٹا دیاگیا اور طبی امداد دے دی گی...مسافروں میں کئی ڈاکٹر مل گئے.
..... شوگر لیول ڈاؤن تھا سو ٹریٹمنٹ دے دیا گیا...... جہاز کچھ ہی دیر میں منزل مقصود پر اتر گیا اور سب سے پہلے وہیل چیئر منگا کر اس خانوادے کو جہاز سے د لاسوںآنسوؤں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا گیا....... مانچسٹر میں وہ تین دن بہت بھاری گزرے... اور پھر کافی عرصے تک یہ واقعہ ایک فلم کی طرح زہن میں چلتارہتا....اور میں سب سے کے بچوں اور اپنے بچوں کے لیے دعائے خیر کرتی کہ خدا ہر ناگہانی سے بچائے وقت کی گرد نے اس واقعہ کو دھندلا دیا تھا لیکن نوبیاہتا جوڑے کی وادئ ہنزہ میں ہوٹل میں قیام کے دوران ہیٹر کی گیس لیک ہونے سے ہونے والے ناگہانی حادثے اور ان کی جواں مرگی نے اس واقعے کو پھر سے تازہ کردیا... دل بھاری ہے اور آنکھیں اشکبار.
.....کبھی وہ مسافرفیملی یاد آتی ہے تو کبھی ان نوجوان بچوں کے والدین کا خیال آتا ہے جنہیں میں نے نہیں دیکھا لیکن ایک ماں ہونے کے ناطے جان سکتی ہوں کے بچے کیسے ارمانوں سے پال کر جواں کئے جاتے ہیں.... اور موت کا ظالم پنجہ جب کسی بھی بہانے سے ان کو چھین کے تو قرار آنا کتنا ناممکن ہے وہ تو خوش نصیب ہیں ہم کہ ہمیں غم حسین ع جیسی دولت نصیب ہے کہ جب کوئ غم کا اظہار پہاڑ ٹوٹتا ہے تو ہم مصائب حسین ع اور مصائب ِ محمد ص و آل محمد ص کو یاد کرتے روتے اور اپنا غم غلط کرتے ہیں.......... پروردگار سے دعا ہے کہ کہ مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور جوار معصومین ع میں جگہ عطا فرمائے شفاعت امام حسین علیہ السلام نصیب ہو اور ان کے اعزہ و اقربا...... ان کے لواحقین بالخصوص والدین کو صبر و سکون اور اس صدمے کو جھیلنے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.......ہر ماں کا کلیجہ ٹھنڈا رہے اور ہم سب کے بچوں کو.. اولادوں کو نوجوانوں کو پروردگار ہر طرح کی ناگہانی آفات سے بچائے... نگاہ بدو حسد سےمحفوظ اور اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین بحق معصومین