Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
ہفتہ، 14 دسمبر، 2024
باکما ل لوگ ' لاجواب سروس -عہد ماضی کا پی آئ اے
جمعہ، 13 دسمبر، 2024
درہ بولان کی تاریخی اہمیت اور سیاحت -پارٹ -1
صدیوں سے سفر اور تجارت کے لیے استعمال ہونے والا درۂ بولان اور اس سے ملحقہ ریلوے لائنز تاریخی اہمیت کی حامل رہی ہیں -یعنی آ پ بزریعہ ریل گاڑی کر اچی سے سفر کر کے کوئٹہ اور کوئٹہ سے سفر کر کے افغانستان کے قلب قندھار تک پہنچ سکتے تھے ۔درہ بولان کی سرنگیں تعمیرات کا شاہکار ہیں -بلوچستان صدیوں سے ایران اور افغانستان سے آنے والے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ رہا ہے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق پندرہویں صدی میں آریا اقوام افغانستان سے چمن اور پھر درۂ بولان کے راستے سندھ میں داخل ہوئیں اور متعدد مرتبہ سندھ پر حملوں کے لیے یہی راستہ اختیار کیا گیا۔ صدیوں تک گھوڑوں کی ٹاپوں اور اونٹوں کے پیروں میں گھنگھرو بجنے کی آوازوں کے قافلوں کے آوازیں سننے والے بلوچستان کے باسیوں نے جب اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پہلی دفعہ ریل کے انجن کی آواز سنی اور انجن کا دیکھا تو وہ ششدر و حیرا ن ہو گئے تھے ۔
درۂ بولان کے اطراف ریلوے لائن کا آغاز کب ہوا؟
یہ انگریزوں کا بڑا احسان ہے کہ وہ اپنے غاصبانہ قبضے کے ایام میں یہاں کی اقوام کو بڑی بڑی سہولتیں دے گئے ورنہ تو آسمان گواہ ہے ہمارے حاکموں نے گزشتہ پچاس برس میں ہم کو پتھر کے دور میں پہنچا کر ہی دم لیا ہے لیکن انہوں نے یورپی ملکوں میں اپنے لئے جزیرے خرید کر وہاں عالیشان محلات کھڑے کر لئے ہیں ۔ ارے دیکھئے میرا قلم بہک گیا -میں پھر آتی ہو ں درے بولان کی جانب -اس تاریخی درے میں ریلوے لائن بچھانےکی تجویز سب سے پہلے 1857ء میں اس وقت کے ریلوے چیئر مین مسٹر ولیم پیٹرک اینڈریو نے دی۔ جو وفد اس بارے میں لارڈ پامرسٹسن سے ملنے گیا تھا، اینڈریو اس کے ترجمان تھے۔ 1878ء تک فوجی لحاظ سے پشین اور قندہار کو ریل کے ذریعے ملانے کی اہمیت بہت زیادہ تھی اور براستہ ہرنائی اور براستہ بولان پاس دونوں تجاویز زیرغور آئیں ۔1879ء میں اس علاقے میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی اور سن 1880 میں اسے وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چونکہ درہ بولان اونچے نیچے پر خم پہاڑی راستوں سے گزرتا ہے لہذا اطراف کے علاقے صرف ہلکے ٹریفک کے لیے ہی مناسب سمجھے گئے۔ مگر بعد ازاں اس علاقے میں شدید طوفانی بارشوں اور پہاڑی تودے گرنے کے باعث پرانی ریلوےلائن تقریبا معدوم ہو گئی اور نئے سرے سے براستہ ہرنائی نئی ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ راستہ بھاری ٹریفک کے لیے بھی موزوں تھا۔ تقریبا 4 سال کے عرصے میں یہ نئی ریلوے لائن مکمل ہوئی اور 1887ء میں پہلی ٹرین بولان کے اس راستے سے گزری جسے آج تک سفر اور تجارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں راستے بنانے کے لیے بلند اور سنگلاخ چٹانوں کو چیرا گیا، تقریبا نو مقامات پر یہ ریلوے لائن درۂ بولان کو عبور کرتی ہے۔ اس دوران کثرت سے آنے والی طویل سرنگیں ٹرین کے سفر کا لطف دوبالا کر دیتی ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں ہر سرنگ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما، سائمن مورو نے نانگا پربت کی چوٹی سَر کرنے کے بعد پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’’میں دنیا کا چپّہ چپّہ گھوم چکا ہوں، لیکن مَیں یہ بات پورے وثوق اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے خوب صورت علاقے پاکستان میں ہیں، کم از کم اس دنیا کے اور کسی ملک میں نہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں اتنی بڑی تعداد میں پہاڑی سلسلے ہیں، جن پر آج تک کسی انسان کے قدم ہی نہیں پڑے۔ یہاں کے لوگ بہت اچھے، ملن سار اور کھلے دل کے مالک ہیں اور آپ مقامی آبادی کے ساتھ بہت سکون سے سیاحت کر سکتے ہیں -لیکن ٹہرئے یہاں حکومت کی چشم پوشی کے سبب آپ کو کہیں کوئ سیاحتی سہولت نہیں ملے گی -آپ کو اپنے لئے ہر شے ساتھ لانا ہو گی
پیر غائب شاہ کا فضائی منظر
دّرہ بولان، کولپور سے شروع ہوکر بولان وہیر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ باہر سے جتنا خشک سنگلاخ اور پرخطر نظر آتا ہے، اندر سے اتنا ہی حسین و جمیل اور دل کش ہے۔ اونچے اونچے سربہ فلک پہاڑوں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتی ندی، صاف شفّاف نیلگوں پانی میں تیرتی ہمہ اقسام کی رنگین مچھلیاں اور تہہ سے جھانکتے چمک دار نوکیلے پتھر بولان کے قدرتی حسن کو چار چاند لگاتے ہیں۔ یوں تو پورا بولان ہی قدرتی حسن سے مزیّن ہے۔ تاہم، ان میں کچھ مقامات بین الاقومی طور پر بھی شہرت کے حامل ہیں، جن میں پیر پنجہ، دوزان چشمہ، کوہ باش، پرانا مچھ قابوی، گرم آپ، پیر غائب آب شار‘ کھجوری، بارڑی، گوکرت، پنجرہ پل، سراج آباد اور بولان وہیر شامل ہیں۔ یہاں پورا سال ہی سیّاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ سب ہی علاقے قدرتی حسن و دل کشی سے مالا مال ہونے کے باعث اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن درّے میں واقع سب سے سرسبز وشاداب اور دل فریب علاقہ ’’پیرغائب‘‘ ہے، جو صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کا نام ایک بزرگ ہستی کے نام پر رکھا گیا، جو برسوں پہلے اپنی بہن ’’بی بی نانی‘‘ کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے یہاں آئے تھے۔
یہاں کے لوگ بت پرست تھے۔ اس لیے ان دونوں کے دشمن ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہیں جان سے مارنے کے درپے تھے، تب بی بی نانی اپنے بچاؤ کے لیے بولان کی گھاٹیوں میں چھپ گئیں۔ جہاں کچھ عرصے بعد ان کی موت واقع ہوگئی، تو وہیں ان کا مزار بنا دیا گیا۔ بی بی نانی کا مزار بولان سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر پُل کے نیچے پہاڑ کے دامن میں موجود ہے، جب کہ پیر غائب چٹانوں کے درمیان چلے گئے، جس کے بعد سے ان کا کچھ پتا نہ چلا کہ کہاں گئے۔ مگر ان ہی کی وجہ سے یہ علاقہ ’’پیر غائب‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس جنّت نظیر وادی میں پہاڑوں کے عین درمیان سے ایک حسین آب شار جب دو مختلف حصّوں میں تقسیم ہوکر گرتی ہے، تو بڑا پرُلطف نظارہ پیش کرتی ہے۔ آب شار کے دونوں حصّوں کا پانی نشیب کی طرف بہتا ہوا ایک وسیع تالاب سے جاملتا ہے۔ قدرت کا کیا خوب کرشمہ ہے کہ انتہائی خشک، سنگلاخ پہاڑ سے ٹھنڈے، میٹھے پانی کا چشمہ صدیوں سے مسلسل پھوٹ رہا ہے۔ اگرچہ سردیوں میں بھی یہاں کا موسم معتدل
درہ بولان کے حسین و دل نشیں تفریحی مقامات -آبشار سے بھرنے والا تالاب-بلاشبہ، وطنِ عزیز فطرت کے تمام ہی حسین رنگوں سے مزّین ہے۔ ۔ صوبہ بلوچستان کے تاریخی درّے، درّئہ بولان کا شمار بھی ایسے ہی مقامات میں ہوتا ہے، جو دل کشی و خوب صورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں جس کو میں اگلی قسط میں آپ کی نذر کروں گی انشاللہ
جمعرات، 12 دسمبر، 2024
آوارہ کتے کیوں مار ڈالے'چلو جیل بھگتو
جی جناب آپ نے اور لاکھوں یو ٹیوب دیکھنے والوں نے جامشورو سندھ ہاسپٹل کے آرام دہ بستروں پر بڑے ہی آرام اور اطمینان کے ساتھ بے شمار کتوں کو محو آرام دیکھا ہو گا -یہ بستر مریضوں کے لئے بنائے گئے ہوں گے مگر ہمارے سیاسی صاحب عقل و دانش نے سوچا ہو گا کہ کہ ان آرام دہ بستروں کے مستحق تو کتے ہیں 'رہے پاکستانی عوام تو ان کی اوقات کہاں کہ وہ یہ بستر استعمال کر سکیں -اب آئیے زرالاڑکانہ میڈیکل کمپلیکس چلتے ہیں جہاں اس حسین عمارت میں ایک دو نہیں آوارہ کتوں کا پورا لاؤ لشکرآنے والوں کے استقبال کے لئے مستعد عمارت کے شرقاً غرباً دوڑتا بھاگتا نظر آتا ہے ا ب آئیے گلیوں اور سڑکوں پر عوام کو بنھبھوڑنے والے کتے ہیں جن کو میلی آنکھ سے دیکھنا منع ہے لیکن کچھ یوں ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو کبھی خواب و خیال میں بھی نہ تھا حکم آیا کہ تم نے پاگل، آوارہ، خارش زدہ، شہریوں کی جان کو خطرہ بنے، پاگل بن کر انسانوں میں افزائش کرنے والے کتے کیسے مار ڈالے، میرپور خاص کی یہ چونکا دینے والی خبر ہے اس شہر میں آوارہ، زخمی اور پاگل کتوں سے شہریوں کو نجات دلانے کے جرم میں جماعت اسلامی کے سیٹلائٹ ٹائون میرپور خاص سے منتخب کونسلر سید لیاقت شاہ اور کارکن جماعت اسلامی آصف صدیق آرائیں پر کتے ہلاک کرنے کا مقدمہ اور ان کی گرفتاری عمل میں آگئی۔ اُن کا جرم یہ قرار پایا کہ انہوں نے ان کتوں کو جو آئے روز شہریوں بالخصوص بچوں کو اچانک حملہ آور ہو کر بھنبھوڑ رہے تھے ان کو ہلاک کرکے شہریوں کے تحفظ کا سامان کیوں کیا؟ اس کارروائی نے یہ ثابت کردیا کہ پاگل اور آوارہ انسانوں کو کاٹ کھانے والے کتے ’’اشرف مخلوقات‘‘ انسان سے بڑھ کر حقوق کے حامل ہیں
اور حکومت و انتظامیہ کی دنیا تو بس پوش علاقوں تک محدود ہوتی ہے جبکہ کتا مار مہم تو ترجیحی طور پر غریب اور متوسط آبادیوں میں چلائی جانی چاہیے جہاں نہ صرف یہ کہ آوارہ کتوں کی بھرمار ہے بلکہ لوگوں کی بڑی تعداد پیدل اور موٹرسائیکلوں پر آتی جاتی ہے جن میں بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد سبھی شامل ہوتے ہیں جبکہ بچوں کا اکثر تنہا بھی باہر نکلنا ہوتا ہے اور یہ لوگ آوارہ کتوں کا نشانہ بنتے ہیں جب کہ پوش علاقوں میں صورت حال مختلف اور لوگ مقابلتاً محفوظ ہوتے ہیں، پھر امرا کے علاقوں میں آوارہ کتے بھی اتنی بڑی تعداد میں نظر نہیں آتے۔ بہرحال ٹیپو شریف کے کتوں کے لیے جذبہ ہمدردی پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہوئے ہم بس اتنا ہی عرض کریں گے کہ وہ چند کتوں کی موت پر دل چھوٹا نہ کریں۔ شہر کی کسی بھی غریب، متوسط بستی کی طرف نکل جائیں اور جس قدر درکار ہوں کتے لے آئیں۔ ہمیں یقین ہے، آپ کا دل کتوں کی خدمت اور دیکھ بھال سے اُوب جائے گا، کتے ختم نہیں ہوں گے۔
کراچی سمیت اندرون سندھ بلکہ سارے ملک میں ہی کتوں کا راج ہے۔ گلی محلوں میں دن رات آوارہ کتے، جن میں پاگل کتے بھی شامل ہوتے ہیں، دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ کتے لوگوں کو کاٹتے، بھنبھوڑتے رہتے ہیں، بچے ان کا خصوصی نشانہ ہوتے ہیں۔ان کی خون آشامی کا شکار زخمی اسپتال جاتے ہیں تو وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تواتر سے رپورٹیں آتی رہتی ہیں مگر حکم رانوں اور شہری انتظامیہ کی بے حسی اور غفلت ہے کہ ختم ہوکے ہی نہیں دیتی۔ کچھ عرصہ ہوا غالباً کسی سنگین واقعے پر زیادہ ہی شور شرابا ہوا تو حکومت سندھ یا شہری انتظامیہ کی جانب سے آوارہ کتوں کے خلاف آپریشن کا بس اشارہ ہی دیا گیا تھا کہ صوبہ سندھ پر قابض خاندان کی ایک بیٹی کی رگِ ہمدردی پھڑک اٹھی اور انھوں نے کتے مارنے کی مخالفت میں بیان دیا۔تب سے آوارہ کتوں کو مکمل چھوٹ مل گئ ہے ۔ انسان زخمی ہو رہے ہیں، ہوش وحواس کھو رہے ہیں، جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ دس بیس، سو پچاس کے باؤلے ہوجانے، دنیا سے اٹھ جانے سے ایسا کون سا فرق پڑ جائے گا، کتوں سے ہمدردی تو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا ایک سمبل ہے اسے بہرحال قائم و برقرار رہنا چاہیے۔
اب حال ہی میں آوارہ کتوں کے ایک اور ہمدرد اور بہی خواہ سامنے آئے ہیں اور وہ ہیں ٹی وی اداکار و گلوکار ٹیپو شریف۔ موصوف کراچی کے فیشن ایبل علاقے کلفٹن میں رہائش رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک موقر ہفت روزہ میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹیپو شریف نے گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو چلائی جس میں انھیں شہر کی انتظامیہ کی جانب سے مارے گئے کتوں کی موت پر روتے اور غصے کے عالم میں شہری انتظامیہ کو گالیاں دیتے بھی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ کے آپریشن کے دوران جو کتے مارے گئے تھے ان میں وہ چند کتے بھی تھے جنھیں دیکھ بھال کے لیے ٹیپو شریف نے اپنے گھر رکھا ہوا تھا، وہ کتے گھر سے نکل گئے اور انتظامیہ کی جانب سے گلی میں ڈالا گیا زہر کھا کر مر گئے۔ رپورٹ کے مطابق ٹیپو شریف نے بعد میں ایک اور ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وہ مردہ کتوں کو گاڑی میں ڈال کر لے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں انھوں نے کہا:''بہیمانہ انداز میں کتوں کو مارنے والے مسلمانوں کے لیے خدا نے الگ سے خصوصی جہنم بنائی ہوگی جس میں انھیں ڈالا جائے گا۔''
سندھ کی تاجدار پیدائشی شہزادی ہوں یا کلفٹن کے پرتعیش محلوں میں رہنے والے اداکار و گلوکار اور ان جیسے دیگر لوگ، ان کی ایسی باتوں کو ''بھرے پیٹ کی باتیں'' ہی کہا جاسکتا ہے ورنہ عام صورت حال یہ ہے کہ کراچی ہو یا اندرون سندھ اور پنجاب آوارہ اور پاگل کتوں نے بستیوں اور آبادیوں میں عوام الناس کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ آج ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ لودھراں میں آوارہ کتوں کی ایک ٹولی نے حملہ کرکے پانچ بچوں کو بری طرح بھنبھوڑ ڈالا ہے جنھیں شدید زخمی اور تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ اندرون سندھ اور کراچی سے بھی تواتر کے ساتھ ایسی ہی ہول ناک خبریں آتی رہتی ہیں۔ مگر حکومت والوں کے بچوں کی خیر ہو
اس مضمون کی تیاری میں روزنامہ جسارت اور روزنا مہ ایکسپریس کی تحریر بھی شامل ہے
اتوار، 8 دسمبر، 2024
زار شاہی کے دور حکومت میں انقلاب روس
23 فروری1917ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔جب خواتین لائنوں میں لگ کر کئی گھنٹے انتظار کر چکیں تب ان سے کہا گیا کہ گودام خوراک سے خالی ہو چکے ہیں مزید انتظار فضول ہو گا اس لئے گھروں کو لوٹ جائے، ۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ ء،سفید پوش ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے ۔27فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل، گولہ بارود، ریلوے اسٹیشن، ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل تھے۔
1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔مارچ تک طاقت سے محروم زار نکولاس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بلا لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے تنگ آ چکی تھی۔ انھیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔
پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔ آمرانہ طرز حکومت، اقتصادی کمزوری، بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ و غضب بالآخر ایک انقلاب کی صورت میں ڈھل گیاجس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی جنگ عظیم سے قبل سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر قیادت اقتدار سنبھالا۔ جولائی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا، جو سیاسی اصلاحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس (اسمبلی) سامنے لانا چاہتی تھی۔یہ انقلاب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔ جب کہ بادشاہ کی بالا دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں اب بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین، زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے جنھوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے میں بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی نہیں چاہتی تھی۔روس کی پارلیمنٹ میں امراء اورجاگیردار اپنا غلبہ اور بالادستی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے اپریل میں لینن کی فن لینڈ سے واپسی ہوئی، ریلوے اسٹیشن پر روسی انقلاب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکا تھی۔
اپریلکی 4 تاریخ تھی 1917ءکو مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں (پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کے دو اجلاسوں میں لینن نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے اپنا نکتہ نظر واضح کیا، اس میں لینن نے عبوری حکومت کی کوئی حمایت نہ کرتے ہوئے اسے سرمایہ داروں کی حکومت قرار دیا۔ -25 اکتوبر کو ہماری افواج نے سرما محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہری ساری رات امن سے سوئے رہے‘ انھیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن‘ ڈاک خانہ‘ تارگھر‘ پیٹروگراڈ‘ ٹیلی فون ایجنسی اور اسٹیٹ بینک‘ سب پر ہمارا قبضہ ہو چکا تھا۔ اسی شام جب ہم سوویتوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظار کر رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوائے کرسیوں کے۔ کسی نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔ شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لیے سرہانے لائی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔ جسم اور روح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا ہم مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔ وہ سرخ محافظوں‘ سپاہیوں اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا‘ جو شہر میں ہر جگہ لگے ہوئے تھے ” لینن کا کہنا تھا ”یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگ تاپ رہے ہیں“ وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔
لینن اس وقت دُنیا بھر میں چلنے والی سوشلسٹ تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’بین الاقوامی سوشل انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لینن دراصل کارل مارکس کے پیروکار تھے اور وہ سوشل ازم کو روس سے باہر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 1919 میں لینن اور کارل مارکس سے انسیت رکھنے والی دیگر شخصیات نے ’کمیونسٹ انٹرنیشل‘ کی بنیاد رکھیاس کے بعد سے اس کے اراکین کمیونسٹس کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن کمیون ازم کو پوری دنیا تک پھیلانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔روفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’کمیون ازم کی ترویج کا عمل سنہ 1918، 1919 اور 1920 میں جاری رہا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری میں بغاوت ہوئی۔ لیکن بالشویک کہیں اور زیادہ دنوں تک اقتدار میں نہیں رہ سکے۔‘بلا کون ہنگری کے ایک کمیونسٹ سیاستدان تھے جو 1919 میں کچھ عرصے کے لیے اقتدار میں آئے۔روفیسر جولین کہتی ہیں کہ ’لیکن یہ تمام انقلاب خون خرابے کی نذر ہو گئے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان تمام ممالک میں ایسے بہت سارے مسلح گروہ تھے جو کہ لینن کے گروہ اور نظریات کے مخالف تھے۔ن تمام وجوہات کے سبب لینن کا دنیا بھر میں سوشل ازم پھیلانے کاخواب پورا نہیں ہو سکا لیکن وہ سوویت یونین کی بُنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے، جو ایک ایسی سُپرپاور بنا جس نے اگلے 70 برسوں میں دُنیا کی بڑی طاقتوں کا ناک میں دم کئے رکھا
ہفتہ، 7 دسمبر، 2024
کرشن چندر برصغیر کے مشہور ناول نویس اور افسانہ نگار
زہین آنکھیں مسکراتا چہرہ خوش لباس' اپنی یاران محفل میں ایک الگ ہی شناخت 'جی ہاں یہی کرشن چندر ہیں برصغیر کے ممتاز ناول اور افسانہ نگار ۔ کرشن چندر پیدا ئشی ادیب تھے -انہوں نے اپنے ابتدائ دور میں رومان پرور کہانیاں تخلیق کیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ جب انہوں نےاپنے چاروں جانب سماجی ناہمواری کا مشاہدہ کیا تو ان کے دل کا درد ان کی تحریر وں میں در آ یا پھر انہوں نے اپنے قلم کو سماجی نشتر کے طور پر استعمال کیا کرشن چندر کا جنم 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ میں ہوا۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے جنہوں نے کرشن چندر کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔ کرشن چندر نے چونکہ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا اس لئے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور 1935 میں انگریزی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔چونکہ کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر کی آب و ہوا میں ہوش سنبھالا اور اسی دور کی افسانوں اور ناولوں میں رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اور ان کا قاری رومان کی دنیا کا اسیر ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد کے دور میں انہوں نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ قارئین کے ذہن میں اچھی خاصی جگہ بنا لیتی ہیں اور بار بار پڑھے جانے کے باوجود انہیں دوبارہ پڑھنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ ان کی خوبصورت زبان قاری کو آغاز میں ہی اپنے طلسم میں گھیر لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس طلسم سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی
کرشن چندر نے جب بالی ووڈ میں قدم رکھا تو یہاں بھی اپنی الگ شناخت بنائ اور کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘،’شرافت ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔کرشن چندر نے اپنی تحریری صلاحیتوں کو مختلف ذرائع سے لوگوں کے سامنے رکھا اور داد و تحسین حاصل کی۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانوں میں ’کالو بھنگی‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کہانی میں انہوں نے چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے کالو بھنگی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی پریشان حال زندگی اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں صرف کالو بھنگی کی پریشانیوں اور جدوجہد کو ہی پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے سماج کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے اور انہونے یہ سب اتنے بے باک انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کی تحریر دل کی گہرائ تک اترتی چلی جاتی ہے
انہوں نے ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ناول لکھے ہیں ان ناولوں میں سے ہی ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ میں انہوں نے ملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے کردار سے پورے سماج کو انتہائی دلچسپ انداز میں روبرو کرایا ہے۔اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردار ایک گدھا ہے جسے کرشن چندر نے ایک محنت کش اور مزدور طبقہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس گدھے کے ذریعہ انہوں نے عام آدمی کی موجودہ صورت حال کو عیاں کرتے ہوئے ملک کے نظام میں پوشیدہ خامیوں کو انتہائی چالاکی اور بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کرشن چندر نے ایک گدھے کا سہارا لے کر اس وقت کے حکمراں اور لیڈران کو کچھ اس انداز میں نشانہ بنایا ہے کہ وہ زخمی تو ہوتے ہیں لیکن مصنف پر کسی طرح کا الزام عائد نہیں کر پاتے۔ان کا یہ مزاحیہ ناول رسالہ ’شمع‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا اور لوگوں نے اسے کافی پسند کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ ختم ہو گئی تو لوگوں کا اصرار ہوا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ لوگوں کی گزارش کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرشن چندر نے ’گدھے کی واپسی‘ کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسراناول ’ایک گدھا نیفا میں‘ بھی تحریر کیا۔ ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو، ہندی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے
کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ افسانے ہندوستانی ادب میں انسانیت کی حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں اور قارئین کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔وہ اپنے ان خیالات کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔اور بالآخر بے مثال ادب تخلیق کرنے والا یہ بے مثل ادیب 8 مارچ 1977 کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا ۔
جمعرات، 5 دسمبر، 2024
بیٹیوں کے شادیوں میں تاخیر کے ہولناک نتائج
منگل، 3 دسمبر، 2024
ٹک ٹاک سلیبرٹی - جان کی بازی مت ہاریں
ٹک ٹاک کے جنون میں حال ہی میں امریکہ میں ایک 10 سال کی بچی کی موت واقع ہو گئ - 10 سال کی بچی ٹک ٹاک کے مشہور زمانہ چیلنج ہیش ٹیگ بلیک آؤٹ کا حصہ بنی۔ ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس چیلنج میں لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گلا دبا کر اپنی سانس کو اس حد تک بند کریں کہ وہ بے ہوش ہو جائیں۔اسی چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش کی 10 سال کی بچی نے اور اس حد تک اپنا گلا دبایا کہ جان سے گزر گئی۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ٹک ٹاک کمپنی نے کہا ہے کہ صارفین کے تحفظ کے لیے ہم ایسا تجربہ کرنے میں بہت محتاط ہیں جو کچھ ہم نے نوجوانوں کی حفاظت اور راز داری کے لیے اب تک کیا ہے اس کے بارے میں مزید جاننے کے منتظر ہیں -ٹک ٹاک کمپنی صارفین کی حفاظت کو ترجیح دیتی ہے -
نوبیاہتا دلہن ٹک ٹاک بناتے ہوئے ہلاک،فاطمہ کی شادی کو دو روز ہوئے تھے اور ابھی اس کے کمرے میں مسہری سجی ہوئی تھی اور اس کے پھولوں سے خوشبو بھی آرہی تھی۔ اس کی والدہ اور چھوٹی بہن اسے ملنے آئی تھیں۔ تینوں ایک ہی کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ اچانک فاطمہ کو خیال آیا کہ کیوں نا ان خوب صورت لمحات کی وہ ٹک ٹاک ویڈیو بنا لے۔ نئے آئیڈیا کی تلاش میں انہوں نے الماری میں سے ایک پستول نکالا جو غالباً اُن کے شوہر کا تھا۔دلہن نے پستول کو اپنی کنپٹی پر رکھا اور ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے ساتھ ایک گانا پلے کیا اور پستول کے ٹریگر کو دبا دیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری ٹک ٹاک ویڈیو ہے۔ فائر کی آواز کے ساتھ ہی فاطمہ خون میں لت پت مسہری پر ڈھیر ہو گئیں۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی فاطمہ کی عمر 17 یا 18 برس تھی۔ان کے والد محمد عباس نے روتے ہوئے بتایا کہ میری بیٹی کبھی کبھار ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو بنا لیتی تھی اور اس دن بھی وہ خوش تھی اور ویڈیو بنانا چاہتی تھی۔’تاہم اسے اندازہ نہیں تھا کہ پستول کو استعمال کیسے کرنا ہے، میری اہلیہ اور میری چھوٹی بیٹی بھی اس کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوا
۔ میں نے پولیس کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ ‘محمد عباس کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی تو چلی گئی میں دوسرے والدین کو کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو اس ٹک ٹاک جیسی لعنت سے دُور رکھیں، میں اس نقصان کو کبھی بھی پورا نہیں کر سکوں گا میں بہت تکلیف میں ہوں۔‘ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ۔گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ 21 مئی 2021 میں کبل (سوات) کے رہائشی حمید اللہ نامی ایک ٹک ٹاکر نے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے خود پر گولی چلا دی جس کے باعث وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ اسی طرح دسمبر 2019 میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ سیالکوٹ میں رونما ہوا۔ تین دوست ٹک ٹاک کے لیے ایک ویڈیو فلما رہے تھے کہ ایک دوست کو حقیقت میں گولی لگ گئی اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نومبر 2020 میں لاہور کے علاقے سُندر میں دو دوست پستول تھامے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بنا رہے تھے کہ اچانک گولی چل گئی، ایک دوست آنکھ میں گولی لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا دوست بازو میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔ جون 2020 کو کراچی میں 17 سال کا نوجوان ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گیا۔
فروری 2020 کو لاہور میں پانچ نوجوان رکشہ میں بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے، تین نوجوان ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے تھے۔ جنوری 2021 کو اِسی طرح ویڈیو بناتے ہوئے ریل سے ٹکرا کر ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔ شناخت کے بحران کا مسئلہ:پوری دنیا میں نفسیات دان سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک کے حوالے سے کافی زیادہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ خطرے کی حد تک حتیٰ کہ اپنی جان تک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ڈاکٹر ز کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی سائبر ایڈکشن ہے جس سے اس وقت نئی دنیا میں نوجوان نسل کے جنون کا سامنا ہےواسطہ پڑا ہے۔‘’اس سے پہلے نشہ صرف ڈرگز کا ہوتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشے کی طرح ہی دماغ کو ڈوپامین فراہم کرتا ہے جیسے نشے کی حالت میں کوئی اور نشہ کیا جائے ‘ کیونکہ اس کے اندر صرف چھوٹی ویڈیو کا استعمال کیا جاتا ہے اور چھوٹی سی ویڈیو کے اندر ہی کلائمیکس بھی ہوتا ہے، یعنی نفسیات کے اعتبار سے اس کے تمام جزئیات کسی ذہن کو اس کی لت ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔‘ماہر نفسیات ارم ارشاد کہتی ہیں کہ ’شناخت کا بحران سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ لوگ سوشل میڈیا پر جب کوئی چیز ڈالتے ہیں تو اس کے بعد جب دوسرے لوگ لائک کے بٹن سے یا اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں یا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا آپ کے ذہن پہ اثر ہوتا ہے۔’ٹک ٹاک نے بنیادی طور پر ہر ایک شخص کو ایک سلیبرٹی بنا دیا ہے -
اب یہ دنیا کے والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کس طرح اس جنون سے دور رکھ سکتے ہیں جو انکی اولاد کی جان کے درپئے ہے -ایک اور نوجوان جس کی وڈیو نیٹ پر موجود ہے ایک پر سکون بیٹھے ہوئے اونٹ کے قریب جا کر جیسے ہی وڈیو بنانا چاہتا ہے اونٹ اس دخل در معقولات کو ناپسند کرتے ہوئے نوجوان کے بال اپنے دانتوں میں لے کر کھڑا ہوتا ہے پھر اس نوجوان کو زمین پر پٹخنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ نوجوان یا تو مر جاتا ہے یا بے ہوش ہوجاتا ہے تب اونٹ اس کی جان چھوڑتا ہے -اب نوجوانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی جانوں سے نہیں کھیلیں اور والدین کا فرض ہےکہ وہ اپنی اولاد کی نگہداشت پر پوری توجہ رکھیں -اللہ ہم سب کا حامئ و ناصر ہو
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...