اتوار، 20 اکتوبر، 2024

ہالو وین-دو ہزار سال پرانا تہوار

      دراصل   اس تہوار کے منائے جانے میں  اس  کا تعلق بد روحوں،چڑیلوں، مُردوں، شیطان، اور ہر  طرح کی غیر روحانی مخلوقات سے جوڑا جاتا ہے-بتایا جاتا ہے  کہ امریکہ میں اس کی ابتدا1921ء میں شمالی ریاست مینسوٹا سے ہوئی، پھر اسی سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا، پھر آہستہ آہستہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا،  اس  تہوار  میں ا کتوبر کی آخری شام کو امریکہ اور کینیڈا   میں    گھروں  کے باہر عوامی مقامات کو بھوت پریت، چڑیلیوں کے ڈراؤنے ڈھانچوں سے سجایا جاتا ہے-  اس رات  کو    ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور   ٹرک اند ٹریٹ  صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور اور حسب مقدور  کھانے کی  میٹھی اشیاء دے کر رخصت کردیتے ہیں۔


 

   اس دن  لوگ اپنے گھروں کے باہر ہڈیاںِ، ڈھانچے، کتبے اس لئے لگاتے ہیں کہ بد روحیں یہ سمجھیں کہ یہ پہلے سے ہی بد روحوں کا مسکن ہے ، یہاں انسان نہیں رہتے اور دھوکا کھا کر واپس چلی جائیں ہا لووین کا   تہوار  قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔ہالووین کی موجودہ رسوم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے- ہالووین کے  موقعہ پر ہر سال لاکھوں ، کروڑوں ڈالر کے چاکلیٹس کے علاوہ کاسٹیومز، کھوپڑیاں، ڈھانچے اور لا محدود قسم کے لوازمات بکتے ہیں۔



 ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ہالو وین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ موسم گرما کے اختتام کے ساتھ یعنی31اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور امریکہ میں تو25اکتوبر سے شروع ہوجاتا ہے یورپ و امریکہ میں اس دن کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کدو یعنی پمپکن  کے پیٹ سے بیج نکال کر اس میں دیئے رکھ کر روشنی کی جاتی ہے کدو  کو مختلف اشکال میں ڈھالا جاتا ہے۔ لوگ بھیس بھی اسی لئے بدلا کرتے ہیں  کہ شیطان اورارواح خبیثہ انہیں پہچان نہ پائیں۔ بچوں میں کھانے کی چیزیں بانٹنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ شیطان اور چڑیلیں بچوں کو خوش کرنے کی وجہ سے اہل خانہ سے دور رہیں۔


 انیسویں صدی کے آخر تک امریکہ میں ہالو وین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے۔ ان پارٹیوں میں کھانے کے علاوہ چہرے پر خوفناک ماسک چڑھائے جاتے، اب بھی یہ تہوار زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹس، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈرائونے چہروں اور خوفناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر کدو پیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈرائونے ڈھانچے کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ جب ان کے قریب سے گزریں تو خوفناک دل دہلانے والا قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ کہا جائے کہ اس تہوار کو خوف و ہراس سے منسوب کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، بھلے اس کاروباری قسم کے تہوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں،۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ہیبت ناک قسم کی سچویشن سوٹ نہیں کرتی، اسے عام طریقے سے منایا جائے تو بہتر ہے۔

ہفتہ، 19 اکتوبر، 2024

شہاب ثاقب کیا ہوتے ہیں !


بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ الواقعۃ آیت نمبر 74،75،76

لہذا (اے پیغمبر ﷺ) تم اپنے عظیم پروردگار کا نام لے کر اس کی تسبیح کرو۔

اب میں ان جگہوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں جہاں ستارے گرتے ہیں۔ (1)

اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی زبردست قسم ہے۔ (2)

تفسیر: یہاں قرآن کریم کی حقانیت اور اس کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کا بیان فرمانا مقصود ہے، مکہ مکرمہ کے کافر لوگ بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذاللہ) دراصل کاہن ہیں، اور یہ قرآن کاہنوں کا کلام ہے، کاہنوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیشین گوئیوں میں جنات اور شیطانوں سے مدد لیتے تھے، اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ شیطانوں کو آسمان کے قریب جاکر وہاں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے، اور اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو شہاب ثاقب سے مار بھگایا جاتا ہے (دیکھئے سورة حجر ١٥: ١٨ اور سورة صافات ٣٧: ١٠)  قرآن کریم نے ستاروں کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو شیاطین سے حفاظت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے (دیکھئے سورة صافات ٣٧: ٧ اور سورة ملک ٦٧: ٥) لہذا جب جنات اور شیاطین کی آسمان تک رسائی نہیں ہے تو وہ کبھی ایسا مستحکم اور سچا کلام پیش نہیں کرسکتے جیسا قرآن کریم ہے،اس مناسبت سے یہاں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے کہ اگر ان کی حقیقت پر غور کرو تو صاف پتہ چل جائے گا کہ قرآن کریم ایسا باوقار کلام ہے جو کوئی کاہن بناکر نہیں لاسکتا ؛ کیونکہ یہ ستارے اسے عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔2: بیچ میں یہ جملہ معترضہ ہے جس میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھانے کی اہمیت کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے۔ ایک تو اس قسم سے یہ جتایا جا رہا ہے کہ ستارے گرنے کے یہ مقامات خود بتا رہے ہیں کہ کوئی کاہن یہ کلام بنا کر نہیں لایا، دوسرے جس طرح ان ستاروں کا نظام انتہائی مستحکم نظام ہے جس میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا، 


دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا، جنات کا ان سے ہلاک ہونا، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوانانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گزر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہو گئے، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا۔سورۃ الأحقاف کی آیت «‏وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ» ‏ [46-الأحقاف:29] ‏ میں اس کا پورا بیان گزر چکا ہے۔ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی ایک خوفناک علامت تھی، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئیے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور عموماً انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا۔سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمان میں بیٹھے  فرشتوں کی آپس کی باتیں  سن  کر آتے تھے  اور کاہنوں کو بتاتے تھے ۔


1908ء میں سائبیریا میں شہاب ثاقب کے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس سے تقریباًً دوہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ تباہ ہو گیا تھا۔ بیسیویں صدی کے دوران زمین پر دو بڑے شہاب گرے تھے۔ ان میں سے ایک کا وزن 60 ٹن تھا۔ 27 ستمبر 1969 ء کو مرچی سن، آسٹریلیا میں ایک شہاب گرا تھا۔ اس کے وزن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچوں کی پٹی سے وجود میں آیاتھا2013ءدوسرے مہینے میں وسطی روس میں یورل کے پہاڑوں پر شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش کے باعث تقریباًً سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔شہاب ثاقب دراصل سیارچوں  یا دم دار ستاروں سے خارج ہونے والے ٹھوس پتھر ہوتے ہیں جو کر ہ ارض کا احاطہ کرنے والی فضا سے گزر کر سطحِ زمین تک پہنچتے ہیں۔


عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے 2020 تک کل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں۔9 جنوری 2020 کی شام کو بلوچستان کے علاقے ڑوب میں زوردار دھماکوں کے ساتھ تقریباً 18.9 کلوگرام جسامت کا ایک بڑا شہابِ ثاقب اور ساتھ بہت سے چھوٹے پتھر گرے جنھیں مقامی افراد نے اپنی  تحویل میں لے لیا۔ہمارے نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے خلائی پتھر جنہیں ’’ سیارچے ‘‘ (Asteroids) کہا جاتا ہےبعض اوقات زمین کی طرٖف آجاتے ہیں اور زمین کی فضا سے رگڑ کھانے سے ان میں اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں


قرآن میں شہاب ثاقب کا ذکر ان سے آسمانوں کی حفاظت کا کام لینے کے طور پر آیا ہے ۔ سورۃ الجن میں جنوں کا بیان ہے:”اور یہ کہ : ہم پہلے سن گن لینے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر جا بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جو کوئی سننا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ایک شعلہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ (الجن ، آیت 9)ص مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت آپ کی آسمانی وحی کی حفاظت کے لئے اس سلسلہ کو اس طرح بند کردیا گیا کہ جب کوئی شیطان یہ خبریں سننے کے لئے اوپر آتا تو اس کی طرف شہاب ثاقب کا انگارہ پھینک کر اس کو دفع کردیا جاتا ۔،  

جمعرات، 17 اکتوبر، 2024

دیواربرلن : آخر بنائ کیوں گئ ؟

 


  ایک سو پچپن کلومیٹر کی یہ دیوار  بتدریج مکمل ہو سکی ۔ پہلے 1961ء میں خاردار تار لگائے گئے   ۔ پھر ان خاردار تاروں کو مضبوط اور محفوظ بنایا گیا ۔پھر  باقاعدہ طور پر ایک پختہ دیوار کا آغاز کیا گیا جو 1975ء تک جاری رہا۔ چوتھا اور آخری مرحلہ 1975ء سے شروع ہو کر 1989ء تک جاری رہا۔ اس آخری مرحلے کے دوران کنکریٹ سے بنی ساڑھے تین میٹر اونچی یہ دیوار باقاعدہ طور پر بارڈر وال میں بدل دی گئی۔ اس دیوار کے ذریعے غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کیلئے مشرقی جرمنی کی طرف سے بارہ ہزار کے لگ بھگ محافظ تعینات تھے جنہیں یہ ہدایات جاری کر رکھی تھیں کہ غیر قانونی  دیوار پھلانگنے والے کو فی الفور گولی مار دی جائے۔-اور لاتعداد  نوجوانوں کا لہو  اس دیوار کے محافظوں کے ہاتھوں  اس دیوار کی بنیادوں میں جذب ہوتا رہا  کیونکہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ما بین لاتعداد خاندان منقسم ہو چکے تھے  -اس طرح اس کا نام دیوار نفرت  کہنا زیادہ بہتر ہوگا 


دیوارِ برلن کے انہدام کے 30 برس مکمل ہونے پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر اینگلا مرک لدیوار برلن کی تعمیر:دراصل ہوا یوں کہ   1950ء سے 1960ء کی دہائی میں جرمنی دو حصوں میں تقسیم تھا تو اگست کی ایک صبح شہریوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری جب انہوں نے دیکھا کہ سوویت کے زیر کنٹرول مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے درمیان خاردار باڑ لگا کر عملاً انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا ہے۔ 13اگست 1961ء کو مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت نے اگرچہ یہ کہہ کر اس دیوار کی تعمیر کا آغاز کیا کہ ان کا مقصد مغربی فاشسٹوں کو مشرقی جرمنی میں داخل ہونے اور سوشلسٹ ریاست کو کمزور کرنے سے روکنا تھا جبکہ درحقیقت اس دیوار کی تعمیر کا مقصد مشرقی جرمنی سے اس کثیر نقل مکانی کو روکنا تھا جو کمیونسٹ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آ کر مغربی جرمنی کا رخ کر رہی تھی۔ نے کہا ہے کہ 'ہر وہ دیوار جو لوگوں کو تقسیم کرے اور ان کی آزادیوں پر پابندی لگائے وہ اتنی بلند نہیں ہو سکتی کہ اسے توڑا نہ جا سکے۔'سرد جنگ کے دور میں دیوارِ برلن سوویت یونین کے زیر انتظام مشرقی برلن کو مغربی برلن سے جدا کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کی تعمیر سنہ 1961 میں شروع ہوئی۔سنہ 1989 میں اس کے انہدام کو لبرل جمہوریت کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے انہدام کے ایک برس بعد منقسم جرمنی کا اتحاد بحال ہوا تھا۔


’دیوار برلن کا انہدام ایک خواب کی تعبیر تھا‘سنیچر کے روز اینگلا مرکل نے متبنہ کیا کہ آزادی، جمہوریت، مساوات، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق جیسی قدریں جن پر یورپ کی بنیاد رکھی گئی وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں تاہم ان قدروں کا تواتر کے ساتھ دفاع اور انھیں تقویت پہنچانا بہت ضروری ہے۔دیوارِ برلن کے میموریل ہر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمیں آزادی اور جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے حیلے بہانوں سے دور رہنا چاہیے۔'بہت سے یورپی ممالک میں حال ہی میں دائیں بازو کی سیاست میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ چند یورپی ممالک جیسا کہ پولینڈ اور ہنگری پر قانون کی بالادستی کو کمزور کرنے کے الزامات بھی لگے ہیں۔سنہ 1989 میں وسطی اور مشرقی یورپ میں برپا ہونے والے انقلاب کے دوران دیوار برلن کو گرا دیا گیا تھا۔ اس انقلاب کے دوران عوامی احتجاج اور سیاسی تحریکوں کے باعث بہت سی سوویت نواز کمیونسٹ حکومتوں کا تختہ پلٹا گیا۔


جرمنی کے صدر فرینک والٹر نے جرمنی کے ہمسایہ ممالک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'پولینڈ، ہنگری، چیک ریپبلک اور سلواکیہ کی آزادی کی خواہش کے بغیر مشرقی یورپ میں انقلاب اور جرمنی کا اتحاد ناممکن تھا۔'جرمنی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یورپ میں طاقت کا محور بدل رہا ہے اور آمرانہ طرز حکومت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگرچہ امریکی وزیر خارجہ اس تقریب میں موجود نہیں تھے تاہم رواں ہفتے کہ آغاز پر انھوں نے برلن کا دورہ کیا تھا۔جمعہ کو اپنی ایک تقریر میں انھوں نے بھی متنبہ کیا کہ 'آزادی کی ضمانت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔' چین اور روس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'آج آمرانہ طرز حکومت ایک مرتبہ پھر اپنا سر اٹھا رہی ہے۔'دیوارِ برلن کا انہدام کیسے ممکن ہوا؟دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اس وقت کے سوویت یونین اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مابین تقسیم ہو گیا تھامشرق یورپ کو مغربی یورپ سے دور رکھنے کے لیے سوویت یونین نے 'آہنی پردے' لگانے کا کام شروع کیااس عمل سے جرمنی منقسم ہو گیا، مشرقی جرمنی پر سوویت یونین کا قبضہ ہوا جبکہ مغربی جرمنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے قبضے میں آیادیوار برلن کی تعمیر سنہ 1961 میں شروع ہوئی اور اس کا مقصد مشرقی جرمنی سے بھاگ کر مغربی جرمنی جانے والے افراد کو روکنا تھا


سنہ 1989 میں برپا ہونے والے انقلابوں سے مشرقی یورپ میں کئی سوویت نواز حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور عوام نے آزادی کا مطالبہ کیااس سلسلے میں مشرقی جرمنی میں سلسلہ وار عوامی مظاہرے ہوئے جن کے تحت ہزاروں افراد دیوار برلن کی سرحد پر پہنچے اسے ہتھوڑوں کی مدد سے توڑا اور عبور کیا-دیوار برلن کی لمبائی 155 کلو میٹر تھی-دیوارِ برلن چار مراحل میں مکمل ہوئی۔ سنہ 1961 میں خاردار تار لگائی گئی اور سنہ 1962 سے سنہ 1965 تک خاردار تار کو مزید مستحکم کیا گیا، تیسرے مرحلے میں دیوار کھڑی کی گئی جبکہ سنہ 1975 سنہ 1989 تک چوتھے اور آحری مرحلے میں بارڈر وال مکمل کی گئیوار برلن‘‘  یہ سرد جنگ کے طویل دور کی نشانی کے طور پر 28سال قائم رہی، دوسری طرف یہ راتوں رات مشرقی اور مغربی جرمنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا باعث بھی بنی۔ دیوار برلن کی یادگار کے طور پر اس کا صرف تین کلومیٹر لمبا حصہ محفوظ رکھا گیا ہہے

بدھ، 16 اکتوبر، 2024

چائے کی پیالی میں تخت بلقیس کا سفر

 


نام  تو اس کا  لینارڈ تھا  لیکن  اسلام  قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی  ہو گیا-یہ سچی کہانی  ایک ایسے انگریز بچّے     لینارڈ کی ہے جو   انگلینڈ  کے  ایک  شاہی خاندان  میں پیدا ہوا  لیکن وہ  بچپن ہی سے وہ  اطراف و جوانب میں بسنے والے مسلمانوں  سے اپنے دل میں خاص انسیت رکھتا  تھا  -یہاں تک کہ وہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہو گیا اور اس نے مسلمانوں کی تبلیغی  جماعت   سے وابستگی اختیار کر لی   اور ساتھ ہی دین اسلام میں داخل ہو گیا -اس کے بعد اس نے قران پاک کی تفسر پر قرانی  تعلیمات  کا بغور مطالعہ شروع کیا   اور اپنے مطالعاتی سفر میں جب وہ حضرت سلیمان  علیہ السّلام  اور  ملکہ بلقیس کے قصّہ  تک پہنچا تو سخت استعجاب میں پڑ گیا   کہ    حضرت سلیمان  علیہ السلام  کے  وزیر   آصف برخیا نے ملکہ بلقیس کا اسی گز لمبا اسی گز چوڑا    اور    اسی گز اونچا تخت جو  سات کمروں میں مھفوظ کیا  گیا تھا  کس طرح پلک جھپکنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر دربار میں پیش کر دیا تھا  


اس  واقعہ  نے اسے  وادی حیرت  میں مبتلا کر دیا اور  اس نے  پاکستان  میں  تبلیغی جماعت کے علمی افراد سے ٹیلیفون رابطے میں سوال کیا کہ    یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے..... وہ    کون سی ایسی طاقت یا زریعہ   ہے جس سے یہ  معاملہ  رونما ہواایک وسیع عریض تخت کیونکر پلک جھپکنے  اور کھلنے کی مدّت  کے درمیان  حضرت سلیمان علیہ السّلام کے  دربار تک آن پہنچا -اس  واقعہ  نے اسے  وادئ حیرت  میں غوطہ زن کر دیا  تھا  اور وہ سوال کا جواب چاہتا تھا  اس نے اپنے اطراف و جوانب کے مسلمانوں سے رابطہ کر کے  بس ایک ہی سوال دہرایا کہ تخت بلقیس کیونکر اتنی زرا سی دیر میں  کوسوں دور سے آن پہنچا  وہ لوگ  جب اس نو آموز مسلم کو  مطمئین  نہیں کر سکے تو کچھ نے کہا کہ  تم پاکستان  چلے جاؤ تمھیں  اپنے سوال کا  شافی جواب مل  جائگا  اور وہ پاکستان  کے دل  شہر لاہور آ گیا  پاکستا  ن میں اس  کے میزبان  کے گھر اس کی خوب مدارات ہو ئ اور  جگہ جگہ تایخی مقامات دکھائے گئے   پھر  ایک دن جب اس کے میزبان کی گاڑی داتا  دربار کے سامنے سے گزری اور اس نے وہاں عام لوگوں کا جمّ غفیر دیکھا    تو  اس نے  وہاں کے  ہجوم کے بارے میں اپنے میزبان سے سوال کیا  کہ اتنی بڑی تعداد میں یہاں لوگ کیوں جمع ہیں –


میزبان نے بتایا کہ یہ ایک اللہ والے کا مزار ہے اس نے   میزبان  سے کہ کر گاڑی رکوائ اورگاڑی سے اتر کر  مزار کے احاطہ میں داخل ہو گیا  احاطے سے ہو کر وہ اور آگے بڑھااب اس کے سامنے ایک بزرگ کھڑے تھے جن کے  ایک ہاتھ میں  چائے کی  پیالی اور دوسرے  ہاتھ میں گرم چائے کی کیتلی  تھی –بزرگ نے اس کو دیکھتے ہی سوال کیا چائے پیو گے لینارڈ نے کہا ضرور اور بزرگ نے لینارڈ کوکیتلی سے چائے نکال کر دی  اور چائے کی پیالی  ہاتھ میں لینے  کے ساتھ ہی لینارڈ بے ہوش ہو کر گر گیا  جب اس کے میزبان اسے ہوش میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے لینارڈ سے  بے ہوشی کا سبب پوچھا  تولینارڈ نے بتایا کہ   مجھے قرآن پاک  کی سچائی پر پورا یقین حاصل ہو چکا تھا  لیکن میں      ایسی تصدیق چاہتا تھا جو مجھے  روحانی طور   مطمئن کر سکے میں  اب پوری طرح جان گیا ہوں کہ تخت بلقیس کیونکر پلک جھپکنے اور کھلنے کی مدّت کے درمیان آیا ہو گا یعنی وہ عین الیقین کی منزل سے گزرنے کے ساتھ ہی معرفت الٰہی کی منزل پر پہنچ گیا -پھر اس نے چائے والے بزرگ کا پتا نشان دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا  کہ  وہ کب کے جا چکے کہاں سے آئے تھے  اور کہاں چلے گئے  کسی کو نہیں معلوم تھا -


پھر لینارڈ نے لوگوں کو اپنی بے ہوشی کا سبب بتاتے ہوئے  انکشاف کیا کہ اس کے انگلینڈ کے گھر کے اندر کمرے کے اندر  رکھے ہوئے چائے  کے  کپ  میں   مجھے بزرگ نے  چائےپیش کی  جسے دیکھتے ہی میں بے ہوش ہو گیا یعنی  چائے والے بزرگ نے لینارڈ کو معرفت کی منزل پر لاکھڑا کیا  اس کے بعد  اس انگریز  نے  واپس انگلستان جانے سے  انکار  کر دیا اور باقی ساری زندگی داتا گنج بخش کے مزار پر گزاری  اس کا انتقال  1945ء میں ہوا اور تدفین داتا گنج بخش کے مزار  کے احاطہ میں  موجود تہ خانے میں ہوئی جس کی لوح مزار  پرلینارڈ  افاروق احمد انگلستانی - آج      بھی اولیاء اللہ کی خدائی وابستگی کی شہادت دے رہی ہے لینارڈ کی قبول اسلام کی گھڑ ی سے لے کر اس کی وفات کی کہانی اگر دیکھئے تو معرفت الٰہی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے-اس کی دل کی خاموش پکار کو ازکار کرنے والی سماعت سنتی ہے۔ پھرساری کائنات زبانِ حال سے پکار اٹھتی ہے —  بے شک لینارڈ     وہ قابل رشک  انسان  تھاجس نے خدا کو پا لیا  

 

منگل، 15 اکتوبر، 2024

جاگیرداری نظام کا خونیں پنجہ اور پاکستان


جاگیردارانہ نظام  اگر منصفانہ نا ہو تو یہ  دنیا کا سب سے بدترین  غلامانہ  نظام ہے جس میں کچھ لوگ مراعات یافتہ ہوتے ہیں باقی ان کے  غلام ہو تے ہیں - اور آقا اور غلام  کا یہ رشتہ  معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام کو اپنے مظبوط  شکنجے میں جکڑے رہتا ہے  - یہ نظام  جدید حکومتوں کے قیام سے پہلے یورپ اور ایشیا کے اکثر ملکوں میں رائج تھا۔ اس نظام کی بعض خصوصیتیں یہ تھیں کہ بادشاہ کی طرف سے مختلف افراد کو ان کی خدمات کے صلے میں زمینوں کے وسیع رقبے جاگیر کے طور پر عطا کیے جاتے تھے۔ یہ جاگیردار اپنی جاگیر میں رہنے والے مزارعین سے زمینوں پر کام کراتے تھے۔ زمین کا لگان وغیرہ خود جاگیردار وصول کرتے تھے جس میں سے بادشاہ کو حصہ جاتا تھا۔ عام طور پر پیداوار کا ایک تہائ حصہ کسان کا ہوتا تھا، ایک تہائ جاگیردار کا اور آخری ایک تہائ بادشاہ کا۔ جاگیردار کی حیثیت مزارعین اور دیگر مقامی باشندوں کے لیے حکمران سے کم نہیں تھی۔ مزارعین جاگیردار کے ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہتے تھے۔ ان کو کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔انیسویں صدی میں ،یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد جاگیردارنہ نظام کو زوال آیا اور اس کی جگہ سرمایہ داررانہ نظام نے لے لی۔ اب یہ نظام یورپ سے بالکل ناپید ہو چکا ہے۔ لیکن افریقہ اور ایشیا کے بعض ملکوں میں کلی یا جزوی طور پر اب بھی اس کی علمداری ہے جبکہ پاکستان کو یہی ظالمانہ نظام مکمل طور پر اپنے خونخوار  پنجوں میں جکڑے ہوئے ہے 


  ہما را حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے سیاسی  اور مذہبی  اکابرین بھی جاگیر داری سسٹم کی معاونت کرتے نظر آتے ہیں جن میں نوابزادہ  خان لیاقت علی خان'مولانا مودودی 'میاں ممتاز دولتانہ'اور دیگر بڑوں   کا کہنا ہے کہ زمین کی   ملکیت قائم و ثابت ہونے کے لیے مقرر ہیں ان ساری شکلوں کے مطابق زمین بھی اسی طرح ایک آدمی کی ملکیت ہو سکتی ہے جس طرح کوئی دوسری چیز، اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ایک گز مربع سے لے کر ہزار ہا ایکڑ تک خواہ کتنی ہی زمین ہو، اگر کسی قانونی صورت سے آدمی کی ملک میں آئی ہے تو بہرحال وہ اس کی جائز ملک ہے۔ اس کے لیے خود کاشت کرنے کی قید بھی نہیں ہے جس طرح مکان اور فرنیچر کرائے پر دیا جاسکتا ہے اور تجارت میں شرکت کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین بھی کرائے پر دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی شرکت کے اصول پر زراعت ہوسکتی ہے۔ بلاکرایہ کوئی شخص کسی کو دے، یا بٹائی لیے بغیر کسی کو اپنی زمین میں کاشت کرلینے دے تو یہ صدقہ ہے، مگر کرایہ و لگان(۱) یا بٹائی پر معاملہ طے کرنا ویسا ہی ایک جائز فعل ہے جیسے تجارت میں حصہ داری یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر دینا۔ رہیں ’’نظام جاگیرداری‘‘ کی وہ خرابیاں جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں تو نہ وہ خالص زمینداری کی پیداوار ہیں اور نہ ان کا علاج یہ ہے کہ سرے سے زمین کی شخصی ملکیت ہی اڑا دی جائے، یا اس پر مصنوعی حد بندیاں عائد کی جائیں                                                                                              


 1949ء میں پاکستان مسلم لیگ نے پانچ رکنی زرعی کمیٹی بنائی جس کے صدر میاں ممتاز دولتانہ تھے اور اراکین میں شامل تھے بیگم شاہنواز، خان عبدالقیوم خاں  قاضی محمد عیسیٰ اور حاجی علی اکبر۔ یہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ مغربی پاکستان کے نمایاں اور بڑے زمیندار خاندانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کا شجرہ نسب 1857ء سے پہلے کے زمانے تک جاتا ہو۔ وہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ انکی جاگیریں اور زمینداری کلی طور پر انگریز راج کی نوازشات کا نتیجہ ہیں۔ الٰہی بخش ایک ایسا ہی کر دار ہے ۔ "Chiefs and Families of Noble in Punjab"میں اس کا تفصیلی تعارف موجود ہے ۔ 1857ء کے ’’غدر‘‘محاصرے میں وہ  دہلی  میں رہتے ہوئے  انگریزوں کو  انقلابیوں کی مکمل تفصیلات فراہم کر  نے پر مامور تھے -اپنی ان خدمات عالیہ کئ عوض 22830/-روپے سالانہ پنشن موروثی سے نوازا گیا۔ ان کے خاندان کو دہلی اور میرٹھ کے اضلاع میں کئی گائوں اور دیہات کے لگان اور موروثی ملکیت عطا کی گئی ۔ انہیں  آنریری مجسٹریٹ بھی بنایا گیا۔ ان کا ایک تعارف اور بھی تھا کہ  وہ حاجی اور حافظ قرآن بھی  تھے   ۔ لیاقت علی خاں جاگیردار طبقے کے نمائندے  اور محافظ بھی مانے جاتے تھے -حالانکہ انکا اپنا طرز زندگی بہت سادہ تھا -میاں ممتاز دولتانہ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ اپنے لوگوں کے لئے اسکول کیوں نہیں بناتے ہیں تو دولتانہ مرحوم نے جواب دیا تھا کہ اگر میں ان کے لئے اسکول بنا دوں تو ہماری زمینوں پر کام کون کرے گا  تو جناب یہ ہے ہمارا اور آپ کا پیارا پاکستان '


    ہم نے یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔افسوس ہمارے سیاستدانوں نے اس کو 76سالوں سے لوٹ لوٹ کر کنگال کرکے مقروض بنا دیا ہے اور عوام ہر 5سال کے بعد ان کو دوبارہ ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرکے پھر پچھتاتے ہیں ۔وہی سیاستدان آپس میں گٹھ جوڑکرکے دوبارہ نئے نئے طریقوں سے لوٹنے لگ جاتے ہیں ۔ہندوستان  میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کرپشن کی سطح ہم سے بہت کم ہے ۔اس کے برعکس وہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے عوام پڑھے لکھے ہوچکے ہیں وہ اب ان سیاستدانوں کو اچھی طرح جان چکے ہیں ۔سڑکوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اسی وجہ سے ہندایک دن بعد آزاد ہونے کے باوجود ہم سے بہت آگے جاچکا ہے۔جبکہ   پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ جاگیرداری کے خلاف کوئی قانون تو بہت بڑی با ت ہے زرعی ٹیکس لگانے کی بھی  جسارت  نہیں کر سکتی ہے


    ہندوستان  کی معیشت کو سنبھا لا دینے  میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اُن  کے ساتھیوں  نے بنیادی کردار صرف جاگیرداری کو ختم کرکے انجام دیا تھا جس کے باعث عوام میں تعلیم کا شعور پیدا ہوا،غربت بھی ہم سے کم سطح پر  ہے لیکن   افسوس ہمارے ملک سے جاگیر داری کو ختم کرنے کے بجائے اس کو مضبوط بنانے  کا گھناؤنا کردار آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے 70فیصد یعنی 2تہائی عوام آج بھی تعلیم سے محروم ہیں ۔اکثریت 76سال گزرنے کے بعد بھی گائوں ،دیہاتوں میں رہتی ہے اور یہی جاگیردار اُن سے اپنے مرضی سے ووٹ ڈلواکر اپنی بالادستی کو ثابت کرکے اس قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور جس نے بھی ان جاگیرداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی تو پورے ملک کے ہر صوبے سے انہوں نے مل کر اس کوشش کو ناکام بناکر نظام کو نہیں بدلنے دیا ۔یہی عوام کے تباہی کے ذمہ دار ہیں اور ان کو جاہل رکھ کر ان پر حکومت کررہے ہیں ۔

پاکستان پائیندہ باد


پیر، 14 اکتوبر، 2024

گریٹ رومن ایمپائر 'غلام کالونی پارٹ-2

    بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے

-اب دوسری قسط یہاں سے پڑھیئے۔جب تھوڑی دیر گزر گئی اور کچھ بھی نہ ہوا تو اینڈروکلس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو ایک عجیب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شیر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر لیٹا ہوا بے چارگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اینڈروکلس کو حیرت کے ساتھ ساتھ کچھ حوصلہ بھی ہوا اور وہ ہمت کرکے شیر کی طرف کھسکنے لگا۔ نزدیک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ شیر نے اپنا ایک پنجہ آگے کو کیا ہوا ہے اور اس میں ایک بڑا سا کانٹا چبھا ہوا ہے۔ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا اور یقینا شکار تک کرنے سے قاصر تھا۔ اینڈروکلس کا دل ہمدردی سے بھر آیا اور اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہاتھ بڑھا کر شیر کے پاؤں میں سے اس کانٹے کو باہر نکال کر شیر کو اس اذیت سے نجات دلادی جو وہ نہ جانے کب سے جھیل رہا تھا۔ تکلیف سے چھٹکارا ملنے پر شیر اینڈروکلس کو ممنون نظروں سے دیکھنے لگا-    

اس طرح اینڈروکلس اور شیر کی دوستی ہوگئی اور وہ دونوں آرام و سکون سے مل جل کر غار میں رہنے لگے۔ اسی طرح تین برس گزرگئے۔ بالآخر ایک دن اینڈروکلس نے فیصلہ کیا کہ اتنا طویل عرصہ گزرچکا ہے اب تک یقینا اس کا آقا اسے بھول گیا ہوگا۔ اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے جنگل سے نکل کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر پہنچ کر ابھی وہ بازار میں گھوم پھر ہی رہا تھا کہ ناجانے کیسے بازار میں گشت کرتے سپاہیوں کے ایک دستے کو اس پر شک گزرا۔ جب سپاہیوں نے اس سے اس کی شناخت طلب کی تو اینڈروکلس گھبرا گیا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو سپاہیوں کو یقین ہوگیا کہ وہ کوئی مجرم ہے۔ سپاہیوں نے تعاقب کرکے اس کو پکڑلیا۔ پکڑے جانے پر جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کی پشت پر داغی جانے والی مہر غلامی نے سارا راز فاش کردیا اور پتا چل گیا کہ وہ ایک مفرور غلام ہے۔ سپاہیوں نے اسے حوالۂ زنداں کیا جہاں اسے  موت کی سزا سنا دی گئی۔

اس زمانے میں سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور بے شمار تماشائیوں کی موجودگی میں شیر اس قیدی کی تکہ بوٹی کرکے اسے ہڑپ کرجاتا تھا۔ ایک جانب تو اینڈروکلس قید خانے  میں پڑا اپنی زندگی کے دن گن رہا تھا تو دوسری طرف بادشاہ کے شکاری جنگل میں جال لگا کر ایک نیا شیر پکڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ آخر کار ان کی مراد بر آئی اور ان کے جال میں ایک تندرست و توانا شیر پھنس گیا۔ شیر کو شہر لایا گیا اور تین دن تک اسے کھانے کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ تین دن بعد بادشاہ کے حکم سے سزائے موت کے مجرم  کی سزا پر عمل درآمدکرنے کے اعلان کی شہر بھر میں منادی کروادی گئی۔

مقررہ دن ساری خلقت اسٹیڈیم میں اس انسانیت سوز نظارے کو دیکھنے کے لیے موجود تھی۔ سپاہی قید خانے سے اینڈروکلس کو کھینچتے ہوئے اسٹیڈیم کے بیچ بنے میدان نما حصے میں لے آئے اور پھر ایک جانب رکھے شیر کے پنجرے کو کھول دیا۔ بھوک سے بے تاب درندہ ایک غضبناک دھاڑ کے ساتھ اچھل کر پنجرے سے باہر آیا اور لاغر و ناتواں اینڈروکلس کی طرف لپکا۔ لیکن پھر سب لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شیر جیسے ہی اینڈروکلس کے پاس پہنچا تو ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اسے سونگھنے لگا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا اور بادشاہ بھی انتہائی حیرت سے اینڈروکلس کے قدموں میں بیٹھے شیر کو اس کے پاؤں چاٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ درحقیقت یہ وہی شیر تھا جس کے پیر سے اینڈروکلس نے کانٹا نکالا تھا۔ ایک انسان کے احسان کو یاد رکھنے کی یہ   انوکھی سچی کہانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا   -بادشاہ اور اینڈروکلس کا آقا بھی  اس منظر سے بہت متاثر ہوئے اور اینڈروکلس کو رہائی کے ساتھ غلامی سے بھی ہمیشہ کے لئے آزاد کر دیا -غلام کے اس کردار کو دنیا میں بہت لوگوں نے اپنی کہانیوں کا کردار بنایا ہے

 میں نے  یہ تحریر  ایکسپریس نیوز سے عاریتاً لے کر اپنے بلاگ پر لکھی ہے  -بازنطینی سلطنت میں 1022ء میں اس ظالمانہ رسم کا خاتمہ ہو گیا    

اتوار، 13 اکتوبر، 2024

گریٹ رومن ایمپائر'غلام کالونی -پارٹ-1

  عظیم  رومن   ایمپائر  عبرت ناک زوال سے کیونکر دوچار ہوئ-زوال یافتہ جمہوریہ رومن ایمپائر کا اصل چہرہ  دیکھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ رومن دربار میں سیاست سفاکانہ تھی۔ کلاڈئیس اور میسالینا کو معلوم تھا کہ اگر  کلاڈئیس شہنشاہ نہ رہے تو انکی اور ملکہ کی موت یقینی ہے۔ اسی لیے وہ اقتدار سے چمٹے رہے،  ۔‘کلاڈئیس اور میسالینا اپنی پوزیشن کے فوری خطرات سے بہت باخبر تھے، کیونکہ انھوں نے اپنے پیشروؤں کو شاہی محل میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا تھا۔‘کارگل مارٹن نے بتایا کہ ’کیلیگولا کو اس وحشیانہ انداز میں مارا گیا کہ یہ افواہیں تھیں کہ لوگوں نے اسکے گوشت کے ٹکڑے کھائے تھے، اور اس کے ساتھ، انھوں نے اس کی بیوی اور جوان بیٹی کو بھی مار ڈالا تھا کیونکہ انھیں مستقبل میں ممکنہ خطرات کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔س حقیقت کے باوجود کہ میسالینا کا تعلق اس وقت کے سب سے معزز اور امیر خاندانوں میں سے ایک سے تھا، اس بات کا دور تک امکان نہیں تھا کہ وہ ملکہ بن جائیں گی۔کلاڈیئس بیمار، لنگڑے، ہکلانے والے، ناخوشگوار، عجیب و غریب اور روکھے انسان تھے۔


ایک طویل عرصے تک انھوں نے خود کو تاریخ کی کتابیں لکھنے کے لیے وقف کر دیا اور اقتدار سے باہر رہے یہاں تک کہ ان کے بھتیجے، شہنشاہ کیلیگولا نے انھیں قونصل اور سینیٹر مقرر کیا۔24 جنوری 41 کو کیلیگولا کے قتل کے بعد غیر متوقع طور پر اقتدار ہاتھ میں آیا تو ایک سپاہی نے کلاڈیئس کو محل میں کانپتے ہوئے پایا۔ اگلے دن انھیں پریٹورین گارڈ (شاہی خاندان کے دستے) نے شہنشاہ بنا دیا- یعنی رومنایمپائر اب شاہانہ سطوت سے نکل کر اپنی بقا ءکے لئے سازشوں کی بیساکھیوں پر لڑکڑا رہی تھی اور اس کی بیساکھیاں بے رحم  'جنسی بے راہ رو 'اقتدار کی بھوکی ملکہ  مہارانی والیریا میسالیناکے بازوّ ں میں تھیں ۔جو اپنے بادشاہ مجہول شوہر بادشاہ کو سہارا دئے کھڑی تھیں -ان دنوں کے بارےمیں بتایا جاتا ہے کہ اس سنگدِل سیاست کی غلام گرشوں میں  مشکوک اموات  ہونا عام بات تھی جس کے اوپر کوئ انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا اور اعلی درجے کی سازشوں کی اس دنیا میں   ملکہ  کی بدنام زمانہ شہرت نمایاں  نظر آتی تھی جب بھی نیکی اور دیانت کی جگہ ذاتی مفادات اور خواہشات آجائیں تو اس سے قومی کردار کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا بھی مخالف تھا کہ سیاست پر خاندانوں کا قبضہ رہے اور دوسرے باصلاحیت افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملیں۔ اس کی مثال وہ ریپبلکن دور میں خاندانی امراء اور بہادر طبقے سے دیتا تھا۔Marius جو Plebian یا عوام کا نمائندہ تھا اور بطور رومی جنرل اس نے کئی کارنامے سرانجام دیے تھے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی عظمت کی نشانی خاندانی شجرے نہیں بلکہ وہ زخم ہیں جو اس کے سینے پر ہیں۔


روم کی عظیم سلطنت  زوال کی جانب  جاتے ہوئے  ایک مورخ لکھتا ہے کہ ان  دنوں میں ایمپائر میں  ’’اینڈروکلس‘‘ (Androcles) نامی ایک غلام رہتا تھا۔ اس کا آقا، روم کے ایک افریقی مقبوضہ کی انتظامیہ میں روم کی حکومت کی طرف سے قونصل (سفیر) رہ چکا تھا۔ اس زمانے میں آقا کو غلام پر ہر طرح کا اختیار اور تصرف حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی بات پر قتل بھی کر دیتاتو اس سے اس جرم پر کوئی تعرض نہ کیا جاتا کیونکہ اس کا یہ عمل کوئی جرم ہی شمار نہیں ہوتا تھا۔ غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شخص بھی ایک بار غلام بنا لیا جاتا تو پھر اس کے لیے غلامی کی زندگی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔اس ماحول میں اینڈروکلس کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی اور وہ ہر وقت کے ظلم و ستم سے عاجز آچکا تھا۔ وہ مسلسل اس سوچ و فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا کہ کیسے اس غلامی سے نجات پائے؟ آخر جب اس کو اور کوئی راہ نہ سوجھی تو اس نے تنگ آکر وہاں سے فرار ہوجانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ آقاؤں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ غلام آزادی پانے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور اگر کوئی غلام یہ جسارت کرتا تھا توتمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس غلام کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر شومئی قسمت غلام پکڑا جاتا تو پھر اس کو اتنی خوفناک اور اذیت ناک   سزائیں دی جاتیں جودوسرے غلاموں کے لیے عبرت کا باعث ہوتیں تاکہ وہ فرار کا خیال بھی اپنے دل  میں نہیں لائیں 

 



یہ سب باتیں جاننے کے باوجود اینڈروکلس نے فرار ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا، کیونکہ آزادی کی خواہش انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ اینڈروکلس نے بھی سوچا کہ اگر اس کی کوشش کامیاب ہوگئی تو وہ آزادی حاصل کرے گا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو پھر روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دن اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ یوں ایک دن موقع ملنے پر اینڈروکلس وہاں سے فرار ہوگیا اور شہر سے دور نکل کر جنگل کے ایک ویران حصے میں واقع ایک غار میں جاچھپا۔ اسے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ قسمت ابھی اس کے ساتھ ایک اور مذاق کرنے والی ہے۔اس نے پناہ حاصل کرنے اورچھپنے کے لیے جس غار کا انتخاب کیا تھا وہ غار ایک خونخوار شیر کی کمین گاہ تھی۔ ابھی اینڈروکلس ک غار میں چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو غار کے دہانے کی طرف سے ایک شیر کی غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ اینڈروکلس نے سہم کر جب غار کے دہانے کی طرف دیکھا تو اسے ایک قوی الجثہ شیر لنگڑاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ شیر کو دیکھ کر اینڈروکلس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ڈر کے مارے اینڈروکلس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں مگر اس کا یہ عمل اضطراری تھا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مصیبت ٹل نہیںجاتی۔ بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر