دراصل اس تہوار کے منائے جانے میں اس کا تعلق بد روحوں،چڑیلوں، مُردوں، شیطان، اور ہر طرح کی غیر روحانی مخلوقات سے جوڑا جاتا ہے-بتایا جاتا ہے کہ امریکہ میں اس کی ابتدا1921ء میں شمالی ریاست مینسوٹا سے ہوئی، پھر اسی سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا، پھر آہستہ آہستہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا، اس تہوار میں ا کتوبر کی آخری شام کو امریکہ اور کینیڈا میں گھروں کے باہر عوامی مقامات کو بھوت پریت، چڑیلیوں کے ڈراؤنے ڈھانچوں سے سجایا جاتا ہے- اس رات کو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور ٹرک اند ٹریٹ صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور اور حسب مقدور کھانے کی میٹھی اشیاء دے کر رخصت کردیتے ہیں۔
اس دن لوگ اپنے گھروں کے باہر ہڈیاںِ، ڈھانچے، کتبے اس لئے لگاتے ہیں کہ بد روحیں یہ سمجھیں کہ یہ پہلے سے ہی بد روحوں کا مسکن ہے ، یہاں انسان نہیں رہتے اور دھوکا کھا کر واپس چلی جائیں ہا لووین کا تہوار قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔ہالووین کی موجودہ رسوم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے- ہالووین کے موقعہ پر ہر سال لاکھوں ، کروڑوں ڈالر کے چاکلیٹس کے علاوہ کاسٹیومز، کھوپڑیاں، ڈھانچے اور لا محدود قسم کے لوازمات بکتے ہیں۔
ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ہالو وین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ موسم گرما کے اختتام کے ساتھ یعنی31اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور امریکہ میں تو25اکتوبر سے شروع ہوجاتا ہے یورپ و امریکہ میں اس دن کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کدو یعنی پمپکن کے پیٹ سے بیج نکال کر اس میں دیئے رکھ کر روشنی کی جاتی ہے کدو کو مختلف اشکال میں ڈھالا جاتا ہے۔ لوگ بھیس بھی اسی لئے بدلا کرتے ہیں کہ شیطان اورارواح خبیثہ انہیں پہچان نہ پائیں۔ بچوں میں کھانے کی چیزیں بانٹنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ شیطان اور چڑیلیں بچوں کو خوش کرنے کی وجہ سے اہل خانہ سے دور رہیں۔
انیسویں صدی کے آخر تک امریکہ میں ہالو وین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے۔ ان پارٹیوں میں کھانے کے علاوہ چہرے پر خوفناک ماسک چڑھائے جاتے، اب بھی یہ تہوار زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹس، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈرائونے چہروں اور خوفناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر کدو پیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈرائونے ڈھانچے کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ جب ان کے قریب سے گزریں تو خوفناک دل دہلانے والا قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ کہا جائے کہ اس تہوار کو خوف و ہراس سے منسوب کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، بھلے اس کاروباری قسم کے تہوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں،۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ہیبت ناک قسم کی سچویشن سوٹ نہیں کرتی، اسے عام طریقے سے منایا جائے تو بہتر ہے۔