جمعرات، 14 مارچ، 2024

ایوب خان کا اسلام آباد'زندہ باد


کراچی میں سیاستدانوں کی دال نہیں گلنی تھی اس کے لئے مادر -پدر آزاد دارلخلافہ چاہئے تھا سو فیصلہ ہو گیا کہ اب ایوب خان کا اسلام آباد دارلخلافہ بنایا جائے گا -اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئی ۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں تھا ۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا ۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا ۔ ادھر ہی اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا ۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کوارٹرز بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے ۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے ۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انھیں لال کوارٹر کہا جاتا ہے ۔ 1961ء کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں نام کا یہ گاؤں موجود تھا ۔ اس کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی ۔ باگاں بعد میں دار الحکومت بن گیا مگر 1961ء کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا۔بری امامؒ کے والد گرامی سید محمود شاہ کاظمیؒ ہجرت کر کے اہل خانہ کے ساتھ اسی گاؤں میں آباد ہوئے تھے اور یہیں وہ مدفون ہیں ۔ شاہراہ کشمیر (سری نگر ہائی وے کہلاتی ہے) اور خیابان سہروردی کے بیچ گرین بیلٹ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے ۔ بری امامؒ کی والدہ ، بہن اور بھائی بھی یہیں دفن ہیں ۔ ماسٹر پلان کے نقشے میں سڑک مزار کے اوپر سے گذر رہی تھی ۔ اس مزار کے احترام میں ماسٹر پلان کو بدلتے ہوئے شاہراہ کشمیر کو روز اینڈ جیسمین گارڈن کی طرف موڑ کر گزارا گیا اور مزارات محفوظ رکھے گئے ۔ یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ دائیں بائیں سے سڑک اتنے فاصلے سے گذرے کہ اس مدفن اور اس سے ملحقہ تکیے کا سکون ممکن حد تک برقرار رہے ۔ آج بھی یہاں زائرین ہر وقت موجود ہوتے ہیں ۔ یہیں شمال کی جانب بوڑھ کے ایک اور گھنے درخت کے نیچے اسلام آباد کا پہلا بس اسٹاپ قائم کیا گیا۔

اسلام آباد کی باقاعدہ شروعات باگاں سے ہوئیں اور یہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹر بنا کر کراچی سے ملازمین کو یہاں بھیجا گیا ۔ ان ملازمین میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی ۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا ۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا ۔ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ مبارک دینے عبد الواحد کے گھر آئیں تو پوچھا بیٹی کا کیا نام رکھا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس کا نام آب پارہ ہے۔انہی دنوں باگاں گاؤں میں اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ تعمیر ہو رہی تھی ۔ سی ڈی اے نے یہ مارکیٹ اپنے اس بیٹی سے منسوب کر دی اور آج ہم اسے آب پارہ مارکیٹ کہتے ہیں ----

خطہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ نے پاکستان میں بے پناہ خوبصورتی اور بے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد جس کا شمار نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق لندن دنیا کا خوبصورت تریندارالحکومت ہے جس کے بعد اسلام آباد کا نمبر آتا ہے۔جس کو اللہ نے نعمتوں سے مالا مال کیا ہے اور خوبصورتی کے حساب سے تو وہ شہر اپنی مثال آپ ہے۔اس فہرست میں برلن تیسرے، واشنگٹن چوتھے، پیرس پانچویں، روم چھٹے، ٹوکیو ساتویں، بڈاپسٹ آٹھویں، اوٹاوا نویں جبکہ ماسکو دسویں نمبر پر ہے۔ اسلام آباد کی وجہ شہرت سرسبز و شاداب درخت، آسمان سے باتیں کرتے مارگلہ کے پہاڑ، آبشاریں، سواں کا موجیں مارتا دریا ہے۔1958 تک کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ لیکن اس کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی، معاشیات اور دفاعی اعتبار سے غیر معقول ہونے کی وجہ سے دارالحکومت کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا، اس ضمن میں کمیشن تشکیل دیا گیا اور ایسے خطے کی تلاش شروع کی گئی جو کہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے بھی محفوظ ہو۔ چنانچہ کمیشن نے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواں کے سنگم پر مارگلہ کے دامن میں واقع خطہ پوٹھوہار کا انتخاب کیا اور 1960 میں دارالحکومت کی تعمیر کی داغ بیل ڈالی گئی۔ شہر کی طرز تعمیر یونانی معمار ڈاکسی ایسوسی ایشن کمپنی نے کی۔ اس دوران راولپنڈی کو عارضی طور پر دارالحکومت کا درجہ دے دیا گیا۔جب بات آئی دارالحکومت کے نام رکھنے کی تو ایوب خان نے قوم سے تجاویز مانگی، اور پھر 24 فروری 1960 کو ایوب خان کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ زیادہ تر تجاویز میں مسلم آباد، جناح آباد اور اسلام آباد کے نام آئے، لہٰذا مشاورت کے بعد اس جگہ کا نام اسلام آباد رکھ دیا گیا۔ اسلام آباد کا نام ارب والا سے تعلق رکھنے والے 

ایک اسکول ٹیچر قاضی عبدالرحمن نے تجویز کیا۔ بعد ازاں اسلام آباد کے انتطامی امور کےلیے سی ڈی اے کا قیام عمل میں آیا۔تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو خطہ پوٹھوہار کی انسانی تاریخ 20 لاکھ سال پرانی ہے۔ اس کا ثبوت دریائے سوا کے کنارے سے ملنے والے پتھر کی کلہاڑی اور شاہ اعلیٰ وتا گاؤں میں موجود غار ہے جو کہ انسان کے پتھر کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ تاریخ اس بات کا پتہ بھی دیتی ہے کہ خطہ پوٹھوہار آریاں خاندان کے وسط ایشیا میں پہلا مسکن تھا۔اس کے علاوہ یہاں موجود گوردوارے، سرائے، مندر، بارہ دریاں اور ہزاروں سالوں پرانی زیارت گاہوں کے آثار اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان سے آنے والے جنگجو جس میں شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، سکندر اعظم، چنگیز خان اور مغل بادشاہ کا لشکر اس علاقے میں نہ صرف قیام کرتا تھا بلکہ یہاں سے برصغیر ہند پر حملہ آور بھی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں اولیاء کرام نے بھی ڈیرے ڈالے ہیں جن میں میر علی شاہ اور سید عبدالطیف کاظمی نے نور پور شاہ میں پڑاؤ کر کے اس خطے کے لوگوں کو اسلام کے نور سے منور کیا۔شہر اقتدار اسلام آباد کے محل وقوع کی تو اس کے شمال میں مری اور مارگلہ، مغرب میں ٹیکسلا اور مشرق میں راولپنڈیواقع ہے۔کسی بھی شہر کا موسم اس علاقے کی آب و ہوا میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اسلام آباد کے شہری 5 موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نومبر سے اپریل سردی، مئی جون گرمی، جولائی اگست مون سون، ستمبر اکتوبر خزاں کا موسم ہوتا ہے ۔ جب کے سب سے زیادہ گرمی جون اور سخت سردی جنوری کے موسم میں ہوتی ہے ۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری ہوتا ہے جو کہ دوسرے شہروں سے کم ہے؛ جس کی وجہ یہاں سرسبز و شاداب درختوں اور پہاڑی سلسلہ ہے۔اسلام آباد چونکہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، تو کوئی بھی علاقہ خوبصورت ہو اور اس میں تفریح مقامات نہ ہوں، یہ کیسے ممکن ہے۔شہر اقتدار اسلام آباد میں شکر پڑیاں، مونومینٹ میں جاسمین گارڈن، ایف 9 میں پارک، راول اے پارک، چڑیا گھر، پلے لینڈ، لوک ورثا کے علاوہ دامن کوہ پیر سواہا کے مقامات واقع ہیں اور 2011 کے بعد سینٹورس شاپنگ مال اسلام آباد بھی ایک خاص مقبولیت رکھتا ہے۔-

منگل، 12 مارچ، 2024

عورت دنیا کے آنگن کا مہکتا ہوا پھول ہے

 ایک بڑی خبر -انڈیا میں چنائے کے میونسپل  انتخابی نتائج حیران کرنے والے رہے جہاں دو درجن سے زائد مسلمان باحجاب خواتین نے الیکشن کی جیت اپنے باحجاب سر پر سجا لی ایک پیغام میں فاطمہ نے کہا کہ میں نے اللہ کے فضل سے الیکشن جیتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو ایک واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اللہ نے مجھے بڑی کامیابی سے نوازا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ایک اور حجاب پوش مسلم امیدوار علیمہ بیگم، جنہوں نے سوشل اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا، کوئمبٹور میونسپل کارپوریشن سے جیت حاصل کی۔مسلم سیاسی کارکنوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی 90 فیصد سے زیادہ مسلم خواتین حجاب پہنتی ہیں۔ یہ انتخابات 21 میونسپل کارپوریشنوں،138 میونسپلٹیوں اور490پنچایتوں کی12,607نشستوں کے لیے ہوئے تھے۔ 12,607 نشستوں میں سے 50 فیصد خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔22 سے زیادہ حجاب پہننے والی مسلم خواتین نے M H Jawahirullah کی سربراہی میں(Manithaneya Makkal Kachi (MMKپر مختلف مقامات سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان میں بینظیر جاسمین اور شکیلہ بانو تروورور میونسپلٹی سے ہیں۔سی پی ایم کی ایک امیدوار، جو حجاب بھی پہنتی ہیں، برکت نیسا نے کوٹا کوپم میونسپلٹی میں کامیابی حاصل کی۔یہ دراصل باحجاب خواتین کی سماجی فعالیت کی زندہ مثال ہے۔یہاں دیگر حجاب پہنے ہوئے امیدواروں کی تصاویر ہیں، جنہوں نے میونسپل انتخابات میں کامیابی حاصل کی ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماﺅں نے طے کیاتھا، نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور اسلام سے وابسطہ عوامل اور علامات کو متعصبانہ رویے کا سامنا مغربی میڈیا کی طرف ببانگ دہل ہورہاہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا حالانکہ اسکے جواب میں ایک بھرپور ردعمل کی توقع تھی کیونکہ مسلم ممالک کی قوت ان کا وہ احتجاج ہوتا جو سب ایک ہی ایجنڈے کے تحت کرتے تاکہ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب اور اقدار کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آتا۔ ہمارے آفاقی مذہب کی مثال دنیا دیتی ہے کیونکہ اس میں ہر چیز توازن اور انصاف کے دائرے میں گھومتی ہے،

 اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کسی سے ناانصافی نہیں کرتا اور ہرطبقہ فکر کے ساتھ ہرمذہب کے پیروکار کی معاشی سماجی اور مذہبی آزادی کو بروئے کار لانے کےلئے مدد فراہم کرتاہے۔دوپٹہ، چادر، حجاب ہماری تہذیب کا آئینہ ہے، عورت کی عصمت کی پہچان ہے اور یہ ہرگھر کے اسلاف کی روایت ہے، قرآن کریم میں لکھ دیاگیا کہ ”عورتیں اپنے سینوں پہ اوڑھنیاں ڈال لیں“ توپھر اسکے بعد اس سے انکار یا مختلف استعماری قوتوں کی یلغار کیا معنی، ہمارے مذہب اور تہذیب کو ہدف بنانا اور مسلمان بچیوں کے سروں سے حجاب کھینچنا کہاں کا انصاف ہے، عبائے اور نقاب کو حجاب اور سرڈھانپنے کو دہشت گردی سے جوڑنے کی شدید سازش کی جارہی ہے۔ وہ معاشرے جو بے حیائی کا سرچشمہ ہیں وہ حجاب اور دوپٹے کے تقدس کو کیا جانیں؟گلستان میں پھول کھلتے ہیں تو مالی انکی مکمل حفاظت کرتاہے ، پانی،دھوپ، روشنی، سایہ ہر چیز وقت پہ ضرورت کے تحت ان کو مہیا کرتاہے تاکہ وہ اپنے جوبن پہ آئیں اس کے چمن کو خوبصورت بنائیں انکی مہک سے اس کا باغ معطر ہو اسی طرح سے عورت بھی دنیا کے چمن کا پھول ہے اس کی حفاظت گھر والے اس طرح کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ زندگی بھر مہکے اور اس پر کسی کی ایسی بری نگاہ نہ پڑے کہ وہ مرجھا جائے۔ عورت جہاں محبت کی علامت ہے وہاں اسکی عصمت اور حیا بھی خاندان کا زیور ہوتی ہے جس طرح ایک عورت اپنے بھائی باپ، بیٹے اور شوہر کے ساتھ باہر نکلنے میں خود کومحفوظ سمجھتی ہے اسی طرح جب اسے کبھی تنہا اس کو چادر وحجاب میں لپٹ کر نکلے تو اسی حفاظت کا احساس اسے ہوتاہے، گویا حجاب اسے زمانے کی بری نگاہوں سے اسے بچاتاہے،

 عورت خوبصورتی اور کشش کا سرچشمہ ہے اگر وہ خود اس کی حفاظت نہیں کرتی اور بے پردہ ہوکر یا ایسا لباس پہن کر باہر نکلتی ہے جس سے اسکی نمائش ہو تو وہ عورت کی عظمت کے مینار سے پست ہوجاتی اور کسی بھی نامساعد حالات کی خود بھی اتنی ہی ذمہ دار ہوتی ہے جتنا کہ معاشرہ۔حجاب کوئی سماجی یا روایتی رویہ نہیں ہے یہ مذہبی اور خاندان نظام کی ناموس ہے، اسی دوپٹے اور حجاب کے ساتھ مسلمان خواتین ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں، محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھ لیں کیا دوپٹہ ان کی ترقی میں حائل تھا؟ کیا بے نظیر بھٹو جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں کیا دوپٹے نے ان کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کےلئے کام کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی؟ کیا مسز عبدالستار ایدھی کے سرڈھانپنے نے مستحقین کی امداد کرنے میں کوئی مشکل پیدا کی؟ آج بھی ہماری یونیورسٹیز، سکول اورکالجز میں طالبات حجاب لے کر آتی ہیں اور الحمدللہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی حجاب میں رہتے ہوئے چاہے وہ عبایا ہو دوپٹہ ہو سکارف ہو چادر دنیا کے مختلف کونوں میں جاکر کامیابی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتیں اور پاکستان کی پہچان بنتی ہیں،

آج تو پہلے کی نسبت حجاب کرنے کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسکے ساتھ ہی عورت کی عزت اور وقار میں بھی اضافہ ہواہے، حجاب پر پابندیاں عائد کرنے کی سازش ان اسلام اور تہذیب کے دشمن عناصر کی ہے جو ہمارے مضبوط باحیائ، باوقار خاندانی نظام اور سماجی بہبود کے استحکام کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں۔اس کا عمل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ آگے منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باحجاب عورت دوسری خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہے، اس کے خیالات، سوچ، اس کی زبان سے نکلے الفاظ، اس کے افعال اس کی تعلیم کے عکاس ہیں۔عورت حجاب کسی جبر، ظلم یا قید کی علامت سمجھ کر نہیں کرتی، بلکہ وہ اسے ایک ڈھال کی طرح سمجھتی ہے، حجاب اپنے آپ میں اس کی آزادی و حفاظت کا استعارہ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں حجاب کے سلسلے میں اپنی سوچ کے دائرے اور خیالات کے کینوس کو تھوڑا سا وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں حجاب صرف عورت کی پہچان اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔

عام طور پر حجاب کا تصور آتے ہی ایک باپردہ خاتون ذہن کے پردے پر ابھر تی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، لیکن معاشرہ صرف عورت سے ہی تو نہیں بنتا…؟ ایک معاشرے میں مردوزن دونوں کی ہی جگہ برابر اور مستحکم ہونا چاہیے  اور ان دونوں کی موجودگی ہی متوازن معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جس طرح عورت ومرد کی مثال گاڑی کے دو پہیوں سے دی جاتی ہے کہ دونوں کی نہ صرف موجودگی ضروری ہے، بلکہ توازن بھی برقرار رہے گا، تبھی گاڑی ٹھیک طرح اپنی منزل کی طرف رواں رہے گی۔رسال4ستمبر کا دن پوری دنیا میں عالمی یوم حجاب کے طور پر منایاجاتاہے، یہ دن فرانس میں حجاب پہ پابندی کے بعد لندن میں ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماﺅں نے طے کیاتھا، نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور اسلام سے وابسطہ عوامل اور علامات کو متعصبانہ رویے کا سامنا مغربی میڈیا کی طرف ببانگ دہل ہورہاہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا حالانکہ اسکے جواب میں ایک بھرپور ردعمل کی توقع تھی کیونکہ مسلم ممالک کی قوت ان کا وہ احتجاج ہوتا جو سب ایک ہی ایجنڈے کے تحت کرتے تاکہ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب اور اقدار کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آتا۔


پیر، 11 مارچ، 2024

جگرکو صحت مند رکھنے والی غذائیں

 

   جگر   کو صحت مند رکھنے والی غذائیں  - جیسا کہ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ جگر انسانی جسم کا انتہائی اہم عضو ہے جو غذا کو ہضم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جگر ہمارے بدن میں توانائی کا ذخیرہ رکھتا ہے، انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے اور زہریلے مادّوں کو جسم سے نکالتا ہے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کو سی غذائیں ہمارے جگر کو تندرست رکھنے میں معاون و مدد گار ہو تی ہیں - ٹماٹر  کینسر کے خلیات کی افزائش کو روکتا ہے،  ا‫ٹماٹر بھی جگر کے لیے صحت بخش ہوتے ہیں، ان میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس جگر کا ورم کم کرنے کے ساتھ انجری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں -ٹماٹر ایسی غذا ہے جسے سلاد کے طور پر کچا اور ہر سالن  میں استعمال کیا جاتا ہے ،، اس کی تاثیر ٹھنڈی اور اس کے استعمال سے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے، خون پتلا ہوتا ہے اور خون میں موجود لال خلیوں کی افزائش ہوتی ہے، خون کی کمی کی شکایت ۔صحت مند زندگی کے لئے ڈرائی فروٹ استعمال کریں‬‎۔ کاجوکینسرسے بچاؤ، صحت مند قلب، مضبوط ہڈیوں اور خوشگوار نیندکے لیے ضروری ہے۔ 

سبز پتوں والی سبزیاں قدرتی طور پر جگر کی صفائی میں مدد دیتی ہیں۔-گاجر اینٹی آکسائیڈنٹس، وٹامنز، منرلز اور غذائی فائبر موجود ہوتے ہیں اور اس کا جوس جگر میں ڈی ایچ اے، ٹرائی گلیسڈر اور مونو ان سچورٹیڈ فیٹی ایسڈز لیول کم کرتا ہے جبکہ جگر میں چربی چڑھنے اور زہریلے مواد سے ہونے والے نقصان سے بچنے میں بھی مدد دیتا ہے۔سبز چائے پینے کی عادت کے متعدد طبی فوائد ہیں اور اس میں موجود پولی فینولز جگر کے کینسر، جگر کے امراض اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گرین ٹی ایکسٹریکٹ جگر کی چربی چڑھنے کا باعث بننے والے انزائمر کا خطرہ کم کرتا ہے،جگر ہمارے جسم کا اہم اور حساس ترین اعضاء ہے جو خون بنانے، اس کی صفائی اور  پورے جسم میں ترسیل کا کام کرتا ہے، غذا کے ہضم ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مائع شکل کی غذائیت سب سے پہلے جگر میں جاتی جہاں جگر اسے پورے جسم میں پہنچانے سے پہلے خون کی شکل دیتا ہے اور صحت مند خون کی جسم میں ترسیل جبکہ گندے خون کو الگ کر دیتا ہے، اسی لیے انسان کی مجموعی صحت کا انحصار صحت مند جگر پر ہوتا ہے۔ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے قدرتی غذاؤں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے جبکہ پروسیسڈ غذاؤں سے اس پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،

 جگر کو صحت مند رکھنے اور کارکردگی بہتر بنانے اور کے لیے مندرجہ ذیل مشروبات کا استعمال نہایت مفید ہے -جگر کی صحت کے لیے گاجر کا کسی بھی شکل میں استعمال کیا جا سکتا ہے ، ، گاجر کے جوس میں پالک کا جوس اور تھوڑا پانی ملا ک ر پینے سے جگر توانا اور خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے ۔گاجر میں وٹامن اے، فلاوینائیڈز ، بیٹا کیروٹین اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کی مدد سے جگر کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے، گاجر کا روزانہ استعمال کرنا نہایت موزوں ثابت ہوتا ہے ۔گاجر ، بند گوبھی ، پھول گوبھی، کھیرا، کریلے ، کدو، چکندر اور پالک کا استعمال جگر کی صحت کے لیے نہایت مفید ہے، ان سبزیوں کو سلاد یا جوس بنا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، ہرے پتے والی سب ہی سبزیوں میں فائبر بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے جس سے جگر کی صفائی میں مدد ملتی ہے ۔سبز چائےماہرین کے مطابق کیفین اور دودھ والی چائے کے بجائے اگر سادہ سبز چائے کا استعمال کیا جائ تو اس کا جگر سمیت آپ کی مجموعی صحت پر نہایت مثبت اثر پڑتا ہے ، سبز چائے کینسر کے خطرات کو کم کرتی ہے ، وزن گھٹاتی ہے اور جسم میں موجود مضرِ صحت مادوں کو زائل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، کولیسٹرول متوازن رکھتی ہے جو کہ جگر کے لیے نہایت مفید ہے ۔

ہلدی کی چائےآسانی سے دستیاب قدری جڑی بوٹی ہلدی جگر کی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ، ہلدی کی چائے جگر کو پر سکون رہنے میں مدد دیتی ہے۔ایک گلاس پانی میں آدھا چمچ ہلدی ملا کر 10 منٹ ابالیں، اب اس چائے کو چھان کر اس میں حسب ضرورت لیموں اور ایک چٹکی کالی مرچ کا پاؤڈر ملا کر استعمال کریں۔ہلدی کی چائے کے استعمال سے جگر کے متاثر پٹھوں کو نئے سرے سے بننے میں مدد ملتی ہے، سوجن میں آرام آتا ہے ۔سٹریس فروٹوٹامن سی سے بھر پور سٹریس پھل جگر کی صفائی کے لیے بہترین پھل سمجھے جاتے ہیں ، ان پھلوں میں اینٹی آکسیڈنٹ پائے جانے کے سبب جگر کی صحت اور قوت مدافعت مضبوط ہوتا ہے۔بہتر نتائج کے لیے سٹریس پھل کینو، لیوں، کیوی، ٹماٹر ، چکوترے کا تازہ جوس نکال کر نہار منہ استعمال کریں۔چقندر کا استعماچکندر نا پسندیدہ سبزیوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر اس کے استعمال کے کئی فوائد ہیں ، اس کے استعمال سے خون میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ ہوتا اور انزائم کی کاکردگی بھی درست ہوتی ہے ، چکندر میں وٹامن سی اور فائبر بھاری مقدار میں پایا جاتا ہے۔چکند ر کے رس کا ذائقہ بہتر بنانے کے لیے اس میں لیموں اور پالک کا جوس ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے


مچھلی  جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مچھلی سے جسم کو امینو ایسڈز اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بھی ملتے ہیں جو کہ جگر میں نقصان دہ چربی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔گریپ فرو        ٹ پھل وٹامن سی اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جو جگر سے زہریلے مواد کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔ اے مختلف امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، بس ایک سیب روزانہ اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہےسیب بعض دیگر پھلوں کے مقابلے میں خاص طور پر فائبر سے بھرپور ہوتا ہے۔ وٹامنز، معدنیات، مرکبات اور غذائی اجزا کے اپنے منفرد امتزاج کی وجہ سے سے سیب جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے، ذیابیطس کے خطرے کو روکنے اور دماغ، دل اور یہاں تک کہ دانتوں کی صحت کو فروغ دینے میں کردار ادا کرتا ہے۔ ہر بڑا سیب ان غذائی اجزا پر مشتمل ہوتاہے۔-جگر کے مسائل میں سب سے عام نان الکحلک فیٹی لیور ڈیزیز ہے جس کی وجہ طرز زندگی کی خراب عادتیں ہوتی ہیں، مگر طبی سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ زیتون کے تیل کا استعمال کرتے ہیں، ان میں جگر کے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، زیتون کا تیل نقصان دہ کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں جبکہ انسولین کی حساسیت بڑھتی ہے۔



 ۔

اتوار، 10 مارچ، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میرا بچپن


-ہمالیہ کی وادی میں واقع  کے بارے میں برصغیر کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ لکھنو اس خطہ زمین پر بسنے والے شہر کا نام ہے  جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔۔ یہاں کے انتہائ با زوق حکمرانوں اور نوابوں اور راجاوں  نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔-وہ اس خطہ پر ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے-اس وقت لکھنو پر سادات کی سو سالہ حکمرانی تھی اور انہوں نے ہی میرے اجداد کو یہاں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی -میرے اجداد  قیمتی ہیروں کے تجارت کرتے تھے اور نہائت امارت کے حامل لوگ تھے انہوں نے لکھنو شہر میں وارد ہوتے ہی بڑی بڑی حویلیاں خرید کر اپنے خاندانوں کو اس میں بسا دیا تھا وہ کیونکہ خود بھی سادات کے قبیلے سے تھے اس لئے ان کی شاہی دربار میں خوب پذیرائ ہوئ تھی  -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی-ہر حویلی کے پچھلے حصے میں پائیں باغ لازمی ہوتا تھا ساتھ ہی حویلی کے پائیں باغ میں موٹے رسے کا جھولا -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی -

ساون بھادوں کے آتے جاتے موسموں میں بیسن کے پکوانوں کی خوشبو  -ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں میں منوں پھل اور اناج اترتے دیکھنا گھروں میں نوکروں کی ریل پیل کی گہما گہمی -صبح 'صبح گھر کی شادی شدہ خواتین  ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بناو سنگھار پر توجہ دیتی تھی اس سنگھار میں بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے پہننا تو جیسے شادی شدہ عورت پر واجب تھا -اس پر سے آنکھوں میں کاجل یا سرمے کی بہار-زیادہ تر سرمہ یا کاجل گھر میں بنایا جاتا تھا اور حویلی سے کچھ فاصلے پر ہاتھی یا ہاتھیوں کے رہنے کے بڑے بڑے کشادہ اور اونچی چھتوں والے مسکن ہوتے تھے جہاں وہ اپنے فیل بانوں کے ہمراہ رہا کرتے تھے -اور شاہی دربار سے جب بلاوہ آتا تھا فیل بان ہاتھیوں کو قیمتی ہو دج اور اس کے زیور سے آراستہ کر کے حویلی کے دروازے پر لا کر کھڑا کرتے تھے اور جب مرد حضرات ہاتھی پر سوار ہوجاتے تب فیل بان ان کو لے کر روانہ ہو جاتا -بڑی بوڑھیا ں سفید وائل  کے کرتے کے ساتھ سفید غرارہ زیب تن کرتی تھیں -

یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے نہ صرف خواتین کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ ان کی شادی شدہ زندگی میں بھی ایک خوشگوار رومانوں رنگ بھرنے کا سبب بنتے ہیں -لیکن یہ سب کچھ باہر کی دنیا سے مخفی رکھا جاتا تھا عورتوں کو کھلے بندوں باہر نکلنے کی ہر گز آزادی نہیں تھی-اگر کبھی آس پڑوس کے گاوں میں جانا ہوتا تھا توحویلی کے آخری سرے پر ڈیوڑھی ہوتی جہاں برقع پوش خواتین جمع ہوتی تھی اور پردے دار بگھیاں آ کر رکتی ہیں اور خواتین ان بگھیوں جا کر بیٹھتی تھیں -گھر کی لڑکیوں بالیوں کو چوڑیا ں پہنانے منہیارن آیا کرتی تھی کسی دن انہی بگھیوں پر کپڑے کے بے شمار تھان آجایا کرتے تھے-اگر گھر میں شادی کا موقع آتا تو یہ تھان بہترین  کمخواب اور زربفت کے ہوتے تھے-یعنی سونے اور چاندی کے تاروں کی آمیزش کے ساتھ بنایا ہوا قیمتی کپڑاہوتا تھا-پان کھانے کا رواجان کے لوازمات میں لونگ، الائچی، سونف اور مصری بھی شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ چھالیہ کترنے کے لئے ”سروتہ“ اور پیک تھوکنے کے لئے ”اگال دان“ بھی مغلوں ہی کی ”ایجاد“ تسلیم کی جاتی ہے۔

ہندوستان میں اس کا قدیم نام ”پٹارہ“ یا ”پٹاری“ تھا۔ چوں کہ یہ رواج سب سے پہلے راجستھان و مارواڑ کی راجپوت ریاستوں میں رائج ہوا تھا اور وہیں اسے یہ نام عطا کیا گیا۔ اسی وجہ سے اس خطے سے تعلق رکھنے والے باشندے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، ان میں پاندان کو آج بھی پٹاری ہی کہا جاتا ہے۔لفظ ”پاندان“ مغلوں کا رائج کردہ ہے۔ لفظ ”دان“ فارسی میں کسی بھی چیز یا علم کو محفوظ یا نصب رکھنے والی اشیاءیا افراد کے لئے مستعمل ہے۔ مثلاً، اگر دان، شمع دان، گل دان، تاریخ دان اور نفسیات دان وغیرہ۔ چناچہ مغلوں کی براہ راست عمل داری میں شامل شہروں اور دیگر مسلم ریاستوں میں ”پٹاری“ کی جگہ لفظ ”پاندان“ رائج ہوگیا۔ایک طرف گھر آئے مہمان کو پیش کرنا مہمان نوازی کی   علامت ہوا کرتا تھا ۔پان کی گلوری رواج پا گِئ  میں جب زرا بڑی ہوئ تو دادی جان کا حقّہ بھرنے کی زمّہ داری میری ہو گئ یقین جانئے حقّہ کی چلم میں بھری جانے والی تمباکو کی مہک میرے دماغ میں گھس کر ڈیرہ جما لیتی تھی اور میرا دل پھڑکنے لگتا تھا کہ کاش بس ایک دفع میں بھی حقّے کا کش لے سکوں -لیکن میرا رمان کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکا کیونکہ چھوٹے سے گھر میں یہ جسارت ممکن نہیں تھی-

میں نے ایک بار دادی جان سے پوچھا تھا کہ آپ حقّہ کیوں پیتی ہیں تو دادی جان نے بتایا تھا کہ ان کوشادی کے بعد گھر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی بس سج سنور کراپنی مسہری پر بیٹھ  جانا ہوتا تھا-اس جمود والی زندگی سے ان کو صحت کے مسائل لاحق ہوئے تو گھر کی طبیبہ نے حقّہ پینے کا مشورہ دیا اور ساتھ میں بتایا کہ تمباکو پینےسے بہت سے امراض کا علاج ہوتا ہے-یہ خوبصورت کہانیا ں سنتے ہوئے میں تصور کی دنیا میں کھو جایا کرتی تھی جب اپنے اجداد کے قصے اپنی نانی جان یا دادی جان کی    زبان سے سنتی تھی -پھر کچھ کچھ شعور آتے ہوئے میرا دل ان کہانیوں سے اوبھنے لگا اور میں سوچنے لگی کہ میں اس کھوئ ہوئ میراث کو کیسے حاصل کر سکتی ہوں -لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئ اونچی اڑان اڑتی محض سولہ برس کی عمر میں میری شادی ہو گئ -اور چوہا پہاڑ کے نیچے آ گیا 

قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی

   اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے نافرمان بندوں کی ہدائت کے واسطے اُسی قوم میں سے اپنے نبی مبعوث کر کے ان کی رہبری اور ہدائت کے وسیلے عطا کئے -اب جو قومیں راہ راست پر آ گئیں ان کو اللہ کریم نے اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی تو ان کے لئے عذاب الیم حاضر تھا -، قوم عاد جو تھی وہ بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، قوم عاد نے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کر گرمیوں اور سردیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ محلات تعمیر کیے تھے گرمیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں اور سردیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں رہتے اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے نافرمان بندوں کی ہدائت کے واسطے اُسی قوم میں سے اپنے نبی مبعوث کر کے ان کی رہبری اور ہدائت کے وسیلے عطا کئے -اب جو قومیں راہ راست پر آ گئیں ان کو اللہ کریم نے اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی تو ان کے لئے عذاب الیم حاضر تھا -


 ان لوگوں کو اپنی کثرت اور اور طاقت پر بڑا اعتماد تھا اوراپنے مال اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا  - آخر کار اللہ پاک ان سے خفا ہوا تومسلسل تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی کفر اور بداعمالیوں وبدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر الہی میں اس طرح گرفتار کررکھا تھا کہ جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اور ان کی قبروں کانشان بھی باقی نہ رہا، حضرت ہود علیہا لسلام کی قوم عذاب الہی کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکی، ۔حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے لوگ اناج کے ذرہ ذرہ کو ترس گئے،ان کو کھانے کے لیے ایک دانہ بھی نہ ملا۔


اس زمانے کا یہ طر یقہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت آئی تولوگ خانہ کعبہ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر جا کر دعائیں مانگتے تھے، جو بلائیں آتیں تھیں وہ ٹل جاتیں تھیں، چنانچہ ان کی ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص تھا جو مسلمان تھا، مگر وہ اپنے ایمان کو پوری قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک کعبہ معظمہ میں جا کر دعا مانگنی شروع کی، تو جو شخص مسلمان تھا اس کا جذبہ ایمانی بیدار ہوگیا اس نے اپنی پوری قوم سے کہا یعنی سمجھایا کہ تم لاکھ دعائیں مانگو پانی نہیں برسے گا، جب تک تم اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود علیہ ا لسلام پرایمان نہ لاؤ - مرثد بن سعد نامی شخص نے جب اپنا ایمان ظاہر کیا تو قوم کے لوگوں نے ان کو مارنا شروع کردیا قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ شریر اور گناہ گار تھے، 


حضرت مرثد بن سعدنامی شخص کو قوم عاد کےلوگوں نے الگ کردیا، اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں، جن کے رنگ مختلف تھے ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ، اس وقت آسمان سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد تم اپنے لیے ایک بدلی کو پسند کرلو، ان لوگوں نے اپنے لیے کالی بدلی کو پسند کیا، یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی چنانچہ وہ ابر قوم عاد کی طرف چل پڑا، قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔حضرتِ ہود علیہ ا لسلام نے فرمایا کہ اے میری قوم دیکھ لو عذابِ الہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے قوم عاد کے گستاخ لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلادیااور کہا کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب کہتے تھے ؟ کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لیے آیا ہے، یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف بڑھتا رہا،


 اور ایک دم ناگہانی اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگی کہ درختوں کو جڑوں س اکھاڑ کر لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کوجھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک آدمی تک باقی نہ رہا،  قوم عاد کے سارے لوگ اور بچے فنا ہوگئے، سات رات اور آٹھ دن کے بعد جب یہ آندھی ختم ہوگئی تو قوم عاد کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑھیں تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔پھر قدرت خداوندی کا حکم اس طرح ہوا کہ کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی قوم ایمان نہ لائی، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا، اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ان کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔



 

ہفتہ، 9 مارچ، 2024

فتح پور سیکری


 

 

فتح پور سیکری ریاست آگرہ سے 35 کلو میٹر دورواقع ہے ۔ اس شہر کو ترک و مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے فرزند کی پیدائش پر تعمیر کروایا تھا اور اس کو اپنادارالحکومت بناناچاہتا تھا لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے اس نے دارالحکومت پہلے لاہور اور پھر آگرہ منتقل کردیا۔ اس طرح اکبراعظم کا یہ خوابوں کا شہر   شرمندہء تعبیر نا ہو سکا  لیکن اس کی شاندار عمارتیں آج بھی جوں کی توں حالت میں ہیں۔ 1569 میں تعمیرکردہ یہ شہر 1571سے 1585تک مغل حکومت کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر کا نام پہلے سیکری گڑھ تھا جو آخری راجپوت راجہ مہاراجہ سنگرام سنگھ کے قبضہ میں تھا۔ اکبر نے چتوڑ اور رنتھبور پر اپنی فتوحات کی یاد میں اس شہر کا نام فتح پور سیکری رکھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اکبر نے جب صحرامیں مقیم صوفی سنت حضرت سلیم چشتیؒ کی خانقاہ میں حاضری دی تو انہوں نے بشارت دی کہ اکبر کا ہونے والا بیٹا اس کی سلطنت کو نہ صرف وسعت دے گا بلکہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک عظیم بادشاہ ہوگا۔ 1569میں اکبر کے یہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ،اس نے اپنے بیٹے کا نام سلیم چشتیؒ کے نام پر سلیم رکھا جو بعد میں شہنشاہ جہانگیر کھلایا۔ اس کی پیدائش پر ہی اکبر نے صوفی حضرت سلیم چشتی کے اعزاز میں یہاں کے ایک شہر کی بنیاد ڈالی۔


 حضرت سلیم چشتیؒ کی درگاہ اسی مقام پر سنگ مرمر سے بنائی گئی ہے۔ جب اکبر نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنایاتو اس کا نام فتح آباد تھا۔ یہاں اکبراعظم کی جانب سے تعمیر کروائے گئے محلات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔فتح پور سیکری کے شاہی محلات دو میل لمبے اور ایک میل چوڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے 3 اطراف میں 5 میل لمبی دیوار بنائی گئی۔ شاہی محلات کے علاوہ اس علاقہ میں کچھ اور بھی عمارتیں ہیں جوکھنڈر بن گئی ہیں۔ نوبت خانہ کے قریب پرانے شہر میں بازاروں کے باقیات موجود ہیں۔ نوبت خانہ آگرہ روڈ پر شہر کا باب الداخلہ ہے۔ نیا شہر اس کامپلکس کے مغربی سمت میں بسایا گیا ہے۔ 7ہزار کی آبادی والا یہ شہر تعمیری مزدوروں اور سنگتراشوں کیلئے شہرت رکھتا ہے جس وقت فتح پورسیکری تعمیر کیا گیا تھااس شہر کے 3 طرف دیوار تھی اور ایک طرف جھیل تھی یہ جھیل اب باقی نہیں ہے۔ سرخ پتھر سے بنی عمارتیں مقامی طور پر دستیاب پتھروں سے بنائی گئی ہیں اس کامپلکس کے دروازوں میں دہلی گیٹ، لال گیٹ،آگرہ گیٹ، چندن پال گیٹ ،گوالیار گیٹ، سہرا گیٹ، چور گیٹ اور اجمیر گیٹ شامل ہے۔

 درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ  اور جامع مسجد فتح پور سیکری میں درگاہ حضرت سلیم چشتی کامپلکس میں داخل ہونے کیلئے بلند دروازے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دروازے کو شہنشاہ اکبر نے 1601میں تعمیر کروایا تھا۔ 43میٹر بلند اس دروازے کو اکبر کی گجرات اور اتر پردیش میں فتوحات کی یاد میں تعمیر کروایاتھا۔ اس کی کمان پر قرآنی آیات کنندہ ہیں اس دروازے تک پہنچنے کیلئے 42 سیڑھیاں ہیں۔ یہ دروازہ 35 میٹرچوڑا ہے۔ دروازے کی چھت پر 13 چھتری نما گنبد ہیں۔ دروازہ 3 کمانوں پر مشتمل ہے۔ بلند دروازے سے داخل ہوتے ہی اس کے بائیں طرف ایک کنواں ہے اور سامنے درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ اور جامع مسجدہے۔ اس دروازہ میں داخل ہونے کی ایک اور نکلنے کی 3 کمانیں ہیں۔یہ درگاہ جو مکمل سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے حضرت سلیم الدین چشتی (1478تا 1572) کی آخری آرامگاہ ہے۔ سنگ مرمر میں انتہائی باریک اور نفیس انداز سے تراشی ہوئی جالیوں سے اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حضرت سلیم چشتیؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ انہوں نے مہارانا پرتاپ کے خلاف ایک جنگ میں اکبرکی فوج کے شیخ زادہ دستے کی قیادت بھی کی تھی۔

 تاریخ کے مطابق اکبراعظم لاولد تھا۔ 14 سال کی عمر میں ہی تخت پر بیٹھنے والے اکبر کو رقیہ بیگم سے ایک لڑکی (1561)ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھاگیا لیکن وہ نومولود ہی فوت ہوگئی۔ اس کے بعد دو بیٹے ہوئے جن کا نام حسن اور حسین رکھا گیا (1564) لیکن وہ بھی ایک ماہ میں چل بسے۔ اس کے بعد اکبر نے آگرہ سے سیکری تک کا پیدل سفر کیا اور حضرت شیخ سلیم الدین چشتی ؒ کی بارگاہ میں درخواست کی کہ وہ نرینہ اولاد کیلئے دعا کریں۔ ان کی دعاسے اکبرکے یہاں بیٹا ہوا جس کا نام نور الدین محمد سلیم رکھا گیا۔ اس مقبرے کے بائیں طرف مشرق کی سمت اسلام خان اول کا مقبرہ ہے جو حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے پوتے شیخ بدر الدین چشتی کے فرزند تھے۔ شیخ بدر الدین چشتی، جہانگیر کی فوج میں جنرل تھے۔ اس مقبرے پر 36 چھوٹی چھتریاں بنائی گئی ہیں جو گنبد کی شکل میں ہے یہاں کئی نامعلوم افراد کی قبور ہیں یہ تمام قبور شیخ سلیم چشتیؒ کے افراد خانہ کی بتائی جاتی ہیں۔

جامع مسجد 15711 میں حضرت سلیم چشتیؒ کی نگرانی میں مکمل کی گئی۔ اس وقت مولوی مکرم احمد اس شاہی مسجد کے امام ہیں جن کو بھی شاہی امام کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو اسلامی فن تعمیر کے طرز پر تعمیر کیا گیا۔ اس پر 5 چھتری نما گنبد ہیں۔ دیوان خاص: یعنی خاص محل یہ ایک چارکونی سادہ عمارت ہے جس کی چھت پر چاروں طرف چھتری نما گنبد بنائے گئے ہیں۔ لیکن یہ ایک درمیانی ستون کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ستون چار کونی بنیاد پر ہے اور اس پر خوبصورت بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر ایک پلیٹ فارم ہے جہاں اکبربیٹھا کرتا تھا یہ پلیٹ درمیان میں معلق ہے اور اس کو چاروں کونوں سے ایک راستے کے ذریعہ ملایاگیاہے۔ یہاں اکبر کا خاص دربار لگتا تھا۔دیوان عام اور نوبت خانیعنی عام دربار لگانے کی جگہ۔ یہ دربار ہر قلعہ میں ملتا ہے۔ فتح پور سیکری کا دیوان عام ایک کھلے میدان میں اسٹیج کے نمونے کا بنایا ہوا ہے جس پرکمانیں بنی ہوئی ہیں۔ دیوان عام کے جنوبی مغرب میں ترکی کے مشہور حمام بنے ہوئے ہیں۔ عبادت خانہ اکبر اعظم نے 1575میں یہ عبادت خانہ خاندانی 

جمعہ، 8 مارچ، 2024

سلو بوٹ پر* پُر سکون دنیا


زرا سوچئے زمانہ کہاں آن پہنچا ہے کہ زندگی کی ہمہ ہمی سے گھبرا کرانسان اب سمندر کے  اوپر کچھ پرسکون وقت گزانے کا خواہشمند ہےیہی کچھ ڈیزی اور ان کے بوائے فرینڈ لوئیس نکل کے ساتھ ہوا وہ دونوں اپنی اپنی توانائ کی آخری حدوں تک محنت کر رہے تھے تاکہ اپنے خاندان کی تکمیل سے پہلے' پہلے ایک چھوٹا سا ہی  صحیح لیکن اپنا اپارٹمنٹ لے سکیں--لوئیس ڈیزی سے زرا پہلے گھر آچکاتھا اور اب کچن میں الیکٹرک کافی میکر میں کافی بنا رہا تھا کہ اتنے میں ڈیزی بھی فیکٹری سے گھر آ گئ اس نے پرس بستر پر ڈالا اور تیزی سے آ کر لوئیس کے گلے میں باہیں ڈال دیں-کیا ہوا ؟ کیا کوئ معجزہ ہوا ہے جو اتنی خوش نظر آ رہی ہو -ہاں لوئیس معجزہ ہونے والا ہے اگر تم میرا ساتھ دو تو-میں قدم -قدم تمھارے ساتھ ہوں لوئیس نے بہت میٹھے لہجے میں  ڈیزی کی بات کا جواب دیا-لوئیس میری دوست نے اپنے مکان کی جمع پونجی لگا کر ایک سست بوٹ خرید کر اسے سمندر میں کرائے  دے دیا اور اب وہ باقاعدہ بڑا کرایہ لے رہی ہے -

ہم بھی ایسی ہی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اپنے مکان کی جمع پونجی سے-خیال اچھا ہے لیکن اس کی تفصیل تو کچھ بتاو لوئیس نے کہا پھر دو بڑے مگوں میں بلیک کافی لے کر لاونج میں آکر صوفے پر بیٹھ گئے اور ڈیزی نے بی بی سی اردو پر پرنٹ ہونے والی بوٹ کی تفصیل پڑھنا شروع کی- ۳۵ ہزار بوٹس کرائے پر دستیا ب ہیں- شمسی توانائ سے چلنے والی یہ بوٹس لوگ اور کمپنیاں ہفتے، مہینے یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے کشتیاں کرایہ پر دیتی ہیں،ان کشتیوں کو چلانے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے-چار میل فی گھنٹہ۔ جو کاروانا کے لیے یہ زندگی کی بہترین رفتار ہے۔ اور ایک طرح سے یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ ان کی تنگ سی کشتی اتنا ہی تیز سفر کر سکتی ہے برطانیہ میں دریاؤں اور نہروں کے لیے بنائی گئی ۔ہاں لوئیس میری دوست نے اپنے مکان کی جمع پونجی لگا کر ایک سست بوٹ خرید کر اسے سمندر میں کرائے پر دے دیا اور اب وہ باقاعدہ بڑا کرایہ لے رہی ہے -ہم بھی ایسی ہی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اپنے مکان کی جمع پونجی سے-

خیال اچھا ہے لیکن اس کی تفصیل تو کچھ بتاو لوئیس نے کہا پھر دو بڑے مگوں میں بلیک کافی لے کر لاونج میں آکر صوفے پر بیٹھ گئے اور ڈیزی نے بی بی سی اردو پر پرنٹ ہونے والی بوٹ کی تفصیل پڑھنا شروع کی     اپریل میں ان تنگ کشتیوں پر سفر کا مصروف سیزن شروع ہوتا ہے اور یہ ان مسافروں کے لیے بہترین وقت ہے جو اس طرزِ زندگی کو آزمانے کے شوقین ہیں۔چونکہ ان  کشتیوں میں سے نصف سے بھی کم، ان کے مالکان کے زیرِ استعمال ہوتی ہیں، اس لیے عام لوگوں کے لیے چھٹیوں کے دوران کرایے پر کافی کشتیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ کاروانا کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کشتیوں پر چھٹیاں گزارنے سے پہلے کچھ چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں سرِفہرست اس طرزِ زندگی کی سست رفتاری۔کاروانا کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ کشتی ملک میں سیر کرتے ہوئے ماحول دوست زندگی گزارنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔‘ ان اصل کا مقصد ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ رہنا چاہیں ان کشتیوں کو چلانے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے-چار میل فی گھنٹہ۔ جو کاروانا کے لیے یہ زندگی کی بہترین رفتار ہے۔

 اور ایک طرح سے یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ ان کی تنگ سی کشتی اتنا ہی تیز سفر کر سکتی ہے۔   سال کچھ عرصہ اس کشتی پر گزارتی ہیں۔زندگی گزارنے کا یہ طریقہ  کے بعد اس وقت تیزی سے مقبول ہوا جب لوگوں میں سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے گھومنے پھرنے کی خواہشات پیدا ہوئیں۔اب سوشل میڈیا پر بھی اس طرزِ زندگی کی مقبولیت میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے- اپریل میں ان تنگ کشتیوں پر سفر کا مصروف سیزن شروع ہوتا ہے اور یہ ان مسافروں کے لیے بہترین وقت ہے جو اس طرزِ زندگی کو آزمانے کے شوقین ہیں۔چونکہ ان   کشتیوں میں سے نصف سے بھی کم، ان کے مالکان کے زیرِ استعمال ہوتی ہیں، اس لیے عام لوگوں کے لیے چھٹیوں کے دوران کرایے پر کافی کشتیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ کاروانا کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کشتیوں پر چھٹیاں گزارنے سے پہلے کچھ چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں سرِفہرست اس طرزِ زندگی کی سست رفتاری۔کاروانا کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ کشتی ملک میں سیر کرتے ہوئے ماحول دوست زندگی گزارنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

‘ ان اصل کا مقصد ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ رہنا چاہیں۔’ اب سمندر کے اوپر خراماں 'خراماں چلتی ہوئ وہ  اپنی بوٹ کے زریعہ چھوٹی چھوٹی  محلَے نما کاونٹیز میں بھی جاتے ہیں اور مختلف لوگوں سے مل کر اپنی فیلنگز شئر کرتے ہیں  گریٹ بیڈوین سے کم نفوس پر مشتمل ایک کمیونٹی ہے۔ لندن سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ گاؤں شہر کی ہلچل سے دور ایک الگ دنیا ہے۔یہ زندگی گزارنے کا ایک شاندار طریقہ ہے۔‘ ان کا خیال ہے کہ وہ اس جگہ کو شاید ڈھونڈ نہ پاتیں اگر ان کے پاس ان کی کشتی نہ ہوتی - اب ڈیزی اور لوئیس نے اپنی زندگی پانی اور خشکی پر تقسیم کر لی ہے اور وہ اپنی اس دنیا میں خوش ہیں  وہ جانتی ہیں کہ یہ طرزِ زندگی ہر کسی کے لیے نہیں کہ ان کو اس بات کی عادت ڈالنی پڑی کہ یہ نقل و حمل کا ایک طریقہ نہیں ہے۔ ’ایک ایسا سفر جو آپ کار میں 10 منٹ میں طے کر سکتے ہیں اس سفر میں آپ کو اس کشتی پر دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔اور اب کہتی ہیں کہ کشتی پر رہنے سے ان کو سکون کا ایک نیا احساس اور استقامت کا سبق ملا ہے۔اس  طرزِ زندگی نے  مجھےصبر کرنا سکھایا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

   اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر