پیر، 11 مارچ، 2024

جگرکو صحت مند رکھنے والی غذائیں

 

   جگر   کو صحت مند رکھنے والی غذائیں  - جیسا کہ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ جگر انسانی جسم کا انتہائی اہم عضو ہے جو غذا کو ہضم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جگر ہمارے بدن میں توانائی کا ذخیرہ رکھتا ہے، انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے اور زہریلے مادّوں کو جسم سے نکالتا ہے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کو سی غذائیں ہمارے جگر کو تندرست رکھنے میں معاون و مدد گار ہو تی ہیں - ٹماٹر  کینسر کے خلیات کی افزائش کو روکتا ہے،  ا‫ٹماٹر بھی جگر کے لیے صحت بخش ہوتے ہیں، ان میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس جگر کا ورم کم کرنے کے ساتھ انجری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں -ٹماٹر ایسی غذا ہے جسے سلاد کے طور پر کچا اور ہر سالن  میں استعمال کیا جاتا ہے ،، اس کی تاثیر ٹھنڈی اور اس کے استعمال سے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے، خون پتلا ہوتا ہے اور خون میں موجود لال خلیوں کی افزائش ہوتی ہے، خون کی کمی کی شکایت ۔صحت مند زندگی کے لئے ڈرائی فروٹ استعمال کریں‬‎۔ کاجوکینسرسے بچاؤ، صحت مند قلب، مضبوط ہڈیوں اور خوشگوار نیندکے لیے ضروری ہے۔ 

سبز پتوں والی سبزیاں قدرتی طور پر جگر کی صفائی میں مدد دیتی ہیں۔-گاجر اینٹی آکسائیڈنٹس، وٹامنز، منرلز اور غذائی فائبر موجود ہوتے ہیں اور اس کا جوس جگر میں ڈی ایچ اے، ٹرائی گلیسڈر اور مونو ان سچورٹیڈ فیٹی ایسڈز لیول کم کرتا ہے جبکہ جگر میں چربی چڑھنے اور زہریلے مواد سے ہونے والے نقصان سے بچنے میں بھی مدد دیتا ہے۔سبز چائے پینے کی عادت کے متعدد طبی فوائد ہیں اور اس میں موجود پولی فینولز جگر کے کینسر، جگر کے امراض اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گرین ٹی ایکسٹریکٹ جگر کی چربی چڑھنے کا باعث بننے والے انزائمر کا خطرہ کم کرتا ہے،جگر ہمارے جسم کا اہم اور حساس ترین اعضاء ہے جو خون بنانے، اس کی صفائی اور  پورے جسم میں ترسیل کا کام کرتا ہے، غذا کے ہضم ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مائع شکل کی غذائیت سب سے پہلے جگر میں جاتی جہاں جگر اسے پورے جسم میں پہنچانے سے پہلے خون کی شکل دیتا ہے اور صحت مند خون کی جسم میں ترسیل جبکہ گندے خون کو الگ کر دیتا ہے، اسی لیے انسان کی مجموعی صحت کا انحصار صحت مند جگر پر ہوتا ہے۔ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے قدرتی غذاؤں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے جبکہ پروسیسڈ غذاؤں سے اس پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،

 جگر کو صحت مند رکھنے اور کارکردگی بہتر بنانے اور کے لیے مندرجہ ذیل مشروبات کا استعمال نہایت مفید ہے -جگر کی صحت کے لیے گاجر کا کسی بھی شکل میں استعمال کیا جا سکتا ہے ، ، گاجر کے جوس میں پالک کا جوس اور تھوڑا پانی ملا ک ر پینے سے جگر توانا اور خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے ۔گاجر میں وٹامن اے، فلاوینائیڈز ، بیٹا کیروٹین اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کی مدد سے جگر کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے، گاجر کا روزانہ استعمال کرنا نہایت موزوں ثابت ہوتا ہے ۔گاجر ، بند گوبھی ، پھول گوبھی، کھیرا، کریلے ، کدو، چکندر اور پالک کا استعمال جگر کی صحت کے لیے نہایت مفید ہے، ان سبزیوں کو سلاد یا جوس بنا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، ہرے پتے والی سب ہی سبزیوں میں فائبر بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے جس سے جگر کی صفائی میں مدد ملتی ہے ۔سبز چائےماہرین کے مطابق کیفین اور دودھ والی چائے کے بجائے اگر سادہ سبز چائے کا استعمال کیا جائ تو اس کا جگر سمیت آپ کی مجموعی صحت پر نہایت مثبت اثر پڑتا ہے ، سبز چائے کینسر کے خطرات کو کم کرتی ہے ، وزن گھٹاتی ہے اور جسم میں موجود مضرِ صحت مادوں کو زائل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، کولیسٹرول متوازن رکھتی ہے جو کہ جگر کے لیے نہایت مفید ہے ۔

ہلدی کی چائےآسانی سے دستیاب قدری جڑی بوٹی ہلدی جگر کی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ، ہلدی کی چائے جگر کو پر سکون رہنے میں مدد دیتی ہے۔ایک گلاس پانی میں آدھا چمچ ہلدی ملا کر 10 منٹ ابالیں، اب اس چائے کو چھان کر اس میں حسب ضرورت لیموں اور ایک چٹکی کالی مرچ کا پاؤڈر ملا کر استعمال کریں۔ہلدی کی چائے کے استعمال سے جگر کے متاثر پٹھوں کو نئے سرے سے بننے میں مدد ملتی ہے، سوجن میں آرام آتا ہے ۔سٹریس فروٹوٹامن سی سے بھر پور سٹریس پھل جگر کی صفائی کے لیے بہترین پھل سمجھے جاتے ہیں ، ان پھلوں میں اینٹی آکسیڈنٹ پائے جانے کے سبب جگر کی صحت اور قوت مدافعت مضبوط ہوتا ہے۔بہتر نتائج کے لیے سٹریس پھل کینو، لیوں، کیوی، ٹماٹر ، چکوترے کا تازہ جوس نکال کر نہار منہ استعمال کریں۔چقندر کا استعماچکندر نا پسندیدہ سبزیوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر اس کے استعمال کے کئی فوائد ہیں ، اس کے استعمال سے خون میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ ہوتا اور انزائم کی کاکردگی بھی درست ہوتی ہے ، چکندر میں وٹامن سی اور فائبر بھاری مقدار میں پایا جاتا ہے۔چکند ر کے رس کا ذائقہ بہتر بنانے کے لیے اس میں لیموں اور پالک کا جوس ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے


مچھلی  جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مچھلی سے جسم کو امینو ایسڈز اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بھی ملتے ہیں جو کہ جگر میں نقصان دہ چربی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔گریپ فرو        ٹ پھل وٹامن سی اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جو جگر سے زہریلے مواد کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔ اے مختلف امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، بس ایک سیب روزانہ اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہےسیب بعض دیگر پھلوں کے مقابلے میں خاص طور پر فائبر سے بھرپور ہوتا ہے۔ وٹامنز، معدنیات، مرکبات اور غذائی اجزا کے اپنے منفرد امتزاج کی وجہ سے سے سیب جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے، ذیابیطس کے خطرے کو روکنے اور دماغ، دل اور یہاں تک کہ دانتوں کی صحت کو فروغ دینے میں کردار ادا کرتا ہے۔ ہر بڑا سیب ان غذائی اجزا پر مشتمل ہوتاہے۔-جگر کے مسائل میں سب سے عام نان الکحلک فیٹی لیور ڈیزیز ہے جس کی وجہ طرز زندگی کی خراب عادتیں ہوتی ہیں، مگر طبی سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ زیتون کے تیل کا استعمال کرتے ہیں، ان میں جگر کے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، زیتون کا تیل نقصان دہ کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں جبکہ انسولین کی حساسیت بڑھتی ہے۔



 ۔

اتوار، 10 مارچ، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میرا بچپن


-ہمالیہ کی وادی میں واقع  کے بارے میں برصغیر کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ لکھنو اس خطہ زمین پر بسنے والے شہر کا نام ہے  جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔۔ یہاں کے انتہائ با زوق حکمرانوں اور نوابوں اور راجاوں  نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔-وہ اس خطہ پر ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے-اس وقت لکھنو پر سادات کی سو سالہ حکمرانی تھی اور انہوں نے ہی میرے اجداد کو یہاں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی -میرے اجداد  قیمتی ہیروں کے تجارت کرتے تھے اور نہائت امارت کے حامل لوگ تھے انہوں نے لکھنو شہر میں وارد ہوتے ہی بڑی بڑی حویلیاں خرید کر اپنے خاندانوں کو اس میں بسا دیا تھا وہ کیونکہ خود بھی سادات کے قبیلے سے تھے اس لئے ان کی شاہی دربار میں خوب پذیرائ ہوئ تھی  -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی-ہر حویلی کے پچھلے حصے میں پائیں باغ لازمی ہوتا تھا ساتھ ہی حویلی کے پائیں باغ میں موٹے رسے کا جھولا -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی -

ساون بھادوں کے آتے جاتے موسموں میں بیسن کے پکوانوں کی خوشبو  -ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں میں منوں پھل اور اناج اترتے دیکھنا گھروں میں نوکروں کی ریل پیل کی گہما گہمی -صبح 'صبح گھر کی شادی شدہ خواتین  ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بناو سنگھار پر توجہ دیتی تھی اس سنگھار میں بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے پہننا تو جیسے شادی شدہ عورت پر واجب تھا -اس پر سے آنکھوں میں کاجل یا سرمے کی بہار-زیادہ تر سرمہ یا کاجل گھر میں بنایا جاتا تھا اور حویلی سے کچھ فاصلے پر ہاتھی یا ہاتھیوں کے رہنے کے بڑے بڑے کشادہ اور اونچی چھتوں والے مسکن ہوتے تھے جہاں وہ اپنے فیل بانوں کے ہمراہ رہا کرتے تھے -اور شاہی دربار سے جب بلاوہ آتا تھا فیل بان ہاتھیوں کو قیمتی ہو دج اور اس کے زیور سے آراستہ کر کے حویلی کے دروازے پر لا کر کھڑا کرتے تھے اور جب مرد حضرات ہاتھی پر سوار ہوجاتے تب فیل بان ان کو لے کر روانہ ہو جاتا -بڑی بوڑھیا ں سفید وائل  کے کرتے کے ساتھ سفید غرارہ زیب تن کرتی تھیں -

یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے نہ صرف خواتین کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ ان کی شادی شدہ زندگی میں بھی ایک خوشگوار رومانوں رنگ بھرنے کا سبب بنتے ہیں -لیکن یہ سب کچھ باہر کی دنیا سے مخفی رکھا جاتا تھا عورتوں کو کھلے بندوں باہر نکلنے کی ہر گز آزادی نہیں تھی-اگر کبھی آس پڑوس کے گاوں میں جانا ہوتا تھا توحویلی کے آخری سرے پر ڈیوڑھی ہوتی جہاں برقع پوش خواتین جمع ہوتی تھی اور پردے دار بگھیاں آ کر رکتی ہیں اور خواتین ان بگھیوں جا کر بیٹھتی تھیں -گھر کی لڑکیوں بالیوں کو چوڑیا ں پہنانے منہیارن آیا کرتی تھی کسی دن انہی بگھیوں پر کپڑے کے بے شمار تھان آجایا کرتے تھے-اگر گھر میں شادی کا موقع آتا تو یہ تھان بہترین  کمخواب اور زربفت کے ہوتے تھے-یعنی سونے اور چاندی کے تاروں کی آمیزش کے ساتھ بنایا ہوا قیمتی کپڑاہوتا تھا-پان کھانے کا رواجان کے لوازمات میں لونگ، الائچی، سونف اور مصری بھی شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ چھالیہ کترنے کے لئے ”سروتہ“ اور پیک تھوکنے کے لئے ”اگال دان“ بھی مغلوں ہی کی ”ایجاد“ تسلیم کی جاتی ہے۔

ہندوستان میں اس کا قدیم نام ”پٹارہ“ یا ”پٹاری“ تھا۔ چوں کہ یہ رواج سب سے پہلے راجستھان و مارواڑ کی راجپوت ریاستوں میں رائج ہوا تھا اور وہیں اسے یہ نام عطا کیا گیا۔ اسی وجہ سے اس خطے سے تعلق رکھنے والے باشندے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، ان میں پاندان کو آج بھی پٹاری ہی کہا جاتا ہے۔لفظ ”پاندان“ مغلوں کا رائج کردہ ہے۔ لفظ ”دان“ فارسی میں کسی بھی چیز یا علم کو محفوظ یا نصب رکھنے والی اشیاءیا افراد کے لئے مستعمل ہے۔ مثلاً، اگر دان، شمع دان، گل دان، تاریخ دان اور نفسیات دان وغیرہ۔ چناچہ مغلوں کی براہ راست عمل داری میں شامل شہروں اور دیگر مسلم ریاستوں میں ”پٹاری“ کی جگہ لفظ ”پاندان“ رائج ہوگیا۔ایک طرف گھر آئے مہمان کو پیش کرنا مہمان نوازی کی   علامت ہوا کرتا تھا ۔پان کی گلوری رواج پا گِئ  میں جب زرا بڑی ہوئ تو دادی جان کا حقّہ بھرنے کی زمّہ داری میری ہو گئ یقین جانئے حقّہ کی چلم میں بھری جانے والی تمباکو کی مہک میرے دماغ میں گھس کر ڈیرہ جما لیتی تھی اور میرا دل پھڑکنے لگتا تھا کہ کاش بس ایک دفع میں بھی حقّے کا کش لے سکوں -لیکن میرا رمان کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکا کیونکہ چھوٹے سے گھر میں یہ جسارت ممکن نہیں تھی-

میں نے ایک بار دادی جان سے پوچھا تھا کہ آپ حقّہ کیوں پیتی ہیں تو دادی جان نے بتایا تھا کہ ان کوشادی کے بعد گھر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی بس سج سنور کراپنی مسہری پر بیٹھ  جانا ہوتا تھا-اس جمود والی زندگی سے ان کو صحت کے مسائل لاحق ہوئے تو گھر کی طبیبہ نے حقّہ پینے کا مشورہ دیا اور ساتھ میں بتایا کہ تمباکو پینےسے بہت سے امراض کا علاج ہوتا ہے-یہ خوبصورت کہانیا ں سنتے ہوئے میں تصور کی دنیا میں کھو جایا کرتی تھی جب اپنے اجداد کے قصے اپنی نانی جان یا دادی جان کی    زبان سے سنتی تھی -پھر کچھ کچھ شعور آتے ہوئے میرا دل ان کہانیوں سے اوبھنے لگا اور میں سوچنے لگی کہ میں اس کھوئ ہوئ میراث کو کیسے حاصل کر سکتی ہوں -لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئ اونچی اڑان اڑتی محض سولہ برس کی عمر میں میری شادی ہو گئ -اور چوہا پہاڑ کے نیچے آ گیا 

قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی

   اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے نافرمان بندوں کی ہدائت کے واسطے اُسی قوم میں سے اپنے نبی مبعوث کر کے ان کی رہبری اور ہدائت کے وسیلے عطا کئے -اب جو قومیں راہ راست پر آ گئیں ان کو اللہ کریم نے اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی تو ان کے لئے عذاب الیم حاضر تھا -، قوم عاد جو تھی وہ بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، قوم عاد نے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کر گرمیوں اور سردیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ محلات تعمیر کیے تھے گرمیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں اور سردیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں رہتے اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے نافرمان بندوں کی ہدائت کے واسطے اُسی قوم میں سے اپنے نبی مبعوث کر کے ان کی رہبری اور ہدائت کے وسیلے عطا کئے -اب جو قومیں راہ راست پر آ گئیں ان کو اللہ کریم نے اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی تو ان کے لئے عذاب الیم حاضر تھا -


 ان لوگوں کو اپنی کثرت اور اور طاقت پر بڑا اعتماد تھا اوراپنے مال اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا  - آخر کار اللہ پاک ان سے خفا ہوا تومسلسل تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی کفر اور بداعمالیوں وبدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر الہی میں اس طرح گرفتار کررکھا تھا کہ جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اور ان کی قبروں کانشان بھی باقی نہ رہا، حضرت ہود علیہا لسلام کی قوم عذاب الہی کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکی، ۔حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے لوگ اناج کے ذرہ ذرہ کو ترس گئے،ان کو کھانے کے لیے ایک دانہ بھی نہ ملا۔


اس زمانے کا یہ طر یقہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت آئی تولوگ خانہ کعبہ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر جا کر دعائیں مانگتے تھے، جو بلائیں آتیں تھیں وہ ٹل جاتیں تھیں، چنانچہ ان کی ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص تھا جو مسلمان تھا، مگر وہ اپنے ایمان کو پوری قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک کعبہ معظمہ میں جا کر دعا مانگنی شروع کی، تو جو شخص مسلمان تھا اس کا جذبہ ایمانی بیدار ہوگیا اس نے اپنی پوری قوم سے کہا یعنی سمجھایا کہ تم لاکھ دعائیں مانگو پانی نہیں برسے گا، جب تک تم اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود علیہ ا لسلام پرایمان نہ لاؤ - مرثد بن سعد نامی شخص نے جب اپنا ایمان ظاہر کیا تو قوم کے لوگوں نے ان کو مارنا شروع کردیا قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ شریر اور گناہ گار تھے، 


حضرت مرثد بن سعدنامی شخص کو قوم عاد کےلوگوں نے الگ کردیا، اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں، جن کے رنگ مختلف تھے ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ، اس وقت آسمان سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد تم اپنے لیے ایک بدلی کو پسند کرلو، ان لوگوں نے اپنے لیے کالی بدلی کو پسند کیا، یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی چنانچہ وہ ابر قوم عاد کی طرف چل پڑا، قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔حضرتِ ہود علیہ ا لسلام نے فرمایا کہ اے میری قوم دیکھ لو عذابِ الہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے قوم عاد کے گستاخ لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلادیااور کہا کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب کہتے تھے ؟ کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لیے آیا ہے، یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف بڑھتا رہا،


 اور ایک دم ناگہانی اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگی کہ درختوں کو جڑوں س اکھاڑ کر لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کوجھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک آدمی تک باقی نہ رہا،  قوم عاد کے سارے لوگ اور بچے فنا ہوگئے، سات رات اور آٹھ دن کے بعد جب یہ آندھی ختم ہوگئی تو قوم عاد کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑھیں تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔پھر قدرت خداوندی کا حکم اس طرح ہوا کہ کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی قوم ایمان نہ لائی، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا، اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ان کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔



 

ہفتہ، 9 مارچ، 2024

فتح پور سیکری


 

 

فتح پور سیکری ریاست آگرہ سے 35 کلو میٹر دورواقع ہے ۔ اس شہر کو ترک و مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے فرزند کی پیدائش پر تعمیر کروایا تھا اور اس کو اپنادارالحکومت بناناچاہتا تھا لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے اس نے دارالحکومت پہلے لاہور اور پھر آگرہ منتقل کردیا۔ اس طرح اکبراعظم کا یہ خوابوں کا شہر   شرمندہء تعبیر نا ہو سکا  لیکن اس کی شاندار عمارتیں آج بھی جوں کی توں حالت میں ہیں۔ 1569 میں تعمیرکردہ یہ شہر 1571سے 1585تک مغل حکومت کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر کا نام پہلے سیکری گڑھ تھا جو آخری راجپوت راجہ مہاراجہ سنگرام سنگھ کے قبضہ میں تھا۔ اکبر نے چتوڑ اور رنتھبور پر اپنی فتوحات کی یاد میں اس شہر کا نام فتح پور سیکری رکھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اکبر نے جب صحرامیں مقیم صوفی سنت حضرت سلیم چشتیؒ کی خانقاہ میں حاضری دی تو انہوں نے بشارت دی کہ اکبر کا ہونے والا بیٹا اس کی سلطنت کو نہ صرف وسعت دے گا بلکہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک عظیم بادشاہ ہوگا۔ 1569میں اکبر کے یہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ،اس نے اپنے بیٹے کا نام سلیم چشتیؒ کے نام پر سلیم رکھا جو بعد میں شہنشاہ جہانگیر کھلایا۔ اس کی پیدائش پر ہی اکبر نے صوفی حضرت سلیم چشتی کے اعزاز میں یہاں کے ایک شہر کی بنیاد ڈالی۔


 حضرت سلیم چشتیؒ کی درگاہ اسی مقام پر سنگ مرمر سے بنائی گئی ہے۔ جب اکبر نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنایاتو اس کا نام فتح آباد تھا۔ یہاں اکبراعظم کی جانب سے تعمیر کروائے گئے محلات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔فتح پور سیکری کے شاہی محلات دو میل لمبے اور ایک میل چوڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے 3 اطراف میں 5 میل لمبی دیوار بنائی گئی۔ شاہی محلات کے علاوہ اس علاقہ میں کچھ اور بھی عمارتیں ہیں جوکھنڈر بن گئی ہیں۔ نوبت خانہ کے قریب پرانے شہر میں بازاروں کے باقیات موجود ہیں۔ نوبت خانہ آگرہ روڈ پر شہر کا باب الداخلہ ہے۔ نیا شہر اس کامپلکس کے مغربی سمت میں بسایا گیا ہے۔ 7ہزار کی آبادی والا یہ شہر تعمیری مزدوروں اور سنگتراشوں کیلئے شہرت رکھتا ہے جس وقت فتح پورسیکری تعمیر کیا گیا تھااس شہر کے 3 طرف دیوار تھی اور ایک طرف جھیل تھی یہ جھیل اب باقی نہیں ہے۔ سرخ پتھر سے بنی عمارتیں مقامی طور پر دستیاب پتھروں سے بنائی گئی ہیں اس کامپلکس کے دروازوں میں دہلی گیٹ، لال گیٹ،آگرہ گیٹ، چندن پال گیٹ ،گوالیار گیٹ، سہرا گیٹ، چور گیٹ اور اجمیر گیٹ شامل ہے۔

 درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ  اور جامع مسجد فتح پور سیکری میں درگاہ حضرت سلیم چشتی کامپلکس میں داخل ہونے کیلئے بلند دروازے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دروازے کو شہنشاہ اکبر نے 1601میں تعمیر کروایا تھا۔ 43میٹر بلند اس دروازے کو اکبر کی گجرات اور اتر پردیش میں فتوحات کی یاد میں تعمیر کروایاتھا۔ اس کی کمان پر قرآنی آیات کنندہ ہیں اس دروازے تک پہنچنے کیلئے 42 سیڑھیاں ہیں۔ یہ دروازہ 35 میٹرچوڑا ہے۔ دروازے کی چھت پر 13 چھتری نما گنبد ہیں۔ دروازہ 3 کمانوں پر مشتمل ہے۔ بلند دروازے سے داخل ہوتے ہی اس کے بائیں طرف ایک کنواں ہے اور سامنے درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ اور جامع مسجدہے۔ اس دروازہ میں داخل ہونے کی ایک اور نکلنے کی 3 کمانیں ہیں۔یہ درگاہ جو مکمل سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے حضرت سلیم الدین چشتی (1478تا 1572) کی آخری آرامگاہ ہے۔ سنگ مرمر میں انتہائی باریک اور نفیس انداز سے تراشی ہوئی جالیوں سے اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حضرت سلیم چشتیؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ انہوں نے مہارانا پرتاپ کے خلاف ایک جنگ میں اکبرکی فوج کے شیخ زادہ دستے کی قیادت بھی کی تھی۔

 تاریخ کے مطابق اکبراعظم لاولد تھا۔ 14 سال کی عمر میں ہی تخت پر بیٹھنے والے اکبر کو رقیہ بیگم سے ایک لڑکی (1561)ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھاگیا لیکن وہ نومولود ہی فوت ہوگئی۔ اس کے بعد دو بیٹے ہوئے جن کا نام حسن اور حسین رکھا گیا (1564) لیکن وہ بھی ایک ماہ میں چل بسے۔ اس کے بعد اکبر نے آگرہ سے سیکری تک کا پیدل سفر کیا اور حضرت شیخ سلیم الدین چشتی ؒ کی بارگاہ میں درخواست کی کہ وہ نرینہ اولاد کیلئے دعا کریں۔ ان کی دعاسے اکبرکے یہاں بیٹا ہوا جس کا نام نور الدین محمد سلیم رکھا گیا۔ اس مقبرے کے بائیں طرف مشرق کی سمت اسلام خان اول کا مقبرہ ہے جو حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے پوتے شیخ بدر الدین چشتی کے فرزند تھے۔ شیخ بدر الدین چشتی، جہانگیر کی فوج میں جنرل تھے۔ اس مقبرے پر 36 چھوٹی چھتریاں بنائی گئی ہیں جو گنبد کی شکل میں ہے یہاں کئی نامعلوم افراد کی قبور ہیں یہ تمام قبور شیخ سلیم چشتیؒ کے افراد خانہ کی بتائی جاتی ہیں۔

جامع مسجد 15711 میں حضرت سلیم چشتیؒ کی نگرانی میں مکمل کی گئی۔ اس وقت مولوی مکرم احمد اس شاہی مسجد کے امام ہیں جن کو بھی شاہی امام کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو اسلامی فن تعمیر کے طرز پر تعمیر کیا گیا۔ اس پر 5 چھتری نما گنبد ہیں۔ دیوان خاص: یعنی خاص محل یہ ایک چارکونی سادہ عمارت ہے جس کی چھت پر چاروں طرف چھتری نما گنبد بنائے گئے ہیں۔ لیکن یہ ایک درمیانی ستون کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ستون چار کونی بنیاد پر ہے اور اس پر خوبصورت بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر ایک پلیٹ فارم ہے جہاں اکبربیٹھا کرتا تھا یہ پلیٹ درمیان میں معلق ہے اور اس کو چاروں کونوں سے ایک راستے کے ذریعہ ملایاگیاہے۔ یہاں اکبر کا خاص دربار لگتا تھا۔دیوان عام اور نوبت خانیعنی عام دربار لگانے کی جگہ۔ یہ دربار ہر قلعہ میں ملتا ہے۔ فتح پور سیکری کا دیوان عام ایک کھلے میدان میں اسٹیج کے نمونے کا بنایا ہوا ہے جس پرکمانیں بنی ہوئی ہیں۔ دیوان عام کے جنوبی مغرب میں ترکی کے مشہور حمام بنے ہوئے ہیں۔ عبادت خانہ اکبر اعظم نے 1575میں یہ عبادت خانہ خاندانی 

جمعہ، 8 مارچ، 2024

سلو بوٹ پر* پُر سکون دنیا


زرا سوچئے زمانہ کہاں آن پہنچا ہے کہ زندگی کی ہمہ ہمی سے گھبرا کرانسان اب سمندر کے  اوپر کچھ پرسکون وقت گزانے کا خواہشمند ہےیہی کچھ ڈیزی اور ان کے بوائے فرینڈ لوئیس نکل کے ساتھ ہوا وہ دونوں اپنی اپنی توانائ کی آخری حدوں تک محنت کر رہے تھے تاکہ اپنے خاندان کی تکمیل سے پہلے' پہلے ایک چھوٹا سا ہی  صحیح لیکن اپنا اپارٹمنٹ لے سکیں--لوئیس ڈیزی سے زرا پہلے گھر آچکاتھا اور اب کچن میں الیکٹرک کافی میکر میں کافی بنا رہا تھا کہ اتنے میں ڈیزی بھی فیکٹری سے گھر آ گئ اس نے پرس بستر پر ڈالا اور تیزی سے آ کر لوئیس کے گلے میں باہیں ڈال دیں-کیا ہوا ؟ کیا کوئ معجزہ ہوا ہے جو اتنی خوش نظر آ رہی ہو -ہاں لوئیس معجزہ ہونے والا ہے اگر تم میرا ساتھ دو تو-میں قدم -قدم تمھارے ساتھ ہوں لوئیس نے بہت میٹھے لہجے میں  ڈیزی کی بات کا جواب دیا-لوئیس میری دوست نے اپنے مکان کی جمع پونجی لگا کر ایک سست بوٹ خرید کر اسے سمندر میں کرائے  دے دیا اور اب وہ باقاعدہ بڑا کرایہ لے رہی ہے -

ہم بھی ایسی ہی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اپنے مکان کی جمع پونجی سے-خیال اچھا ہے لیکن اس کی تفصیل تو کچھ بتاو لوئیس نے کہا پھر دو بڑے مگوں میں بلیک کافی لے کر لاونج میں آکر صوفے پر بیٹھ گئے اور ڈیزی نے بی بی سی اردو پر پرنٹ ہونے والی بوٹ کی تفصیل پڑھنا شروع کی- ۳۵ ہزار بوٹس کرائے پر دستیا ب ہیں- شمسی توانائ سے چلنے والی یہ بوٹس لوگ اور کمپنیاں ہفتے، مہینے یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے کشتیاں کرایہ پر دیتی ہیں،ان کشتیوں کو چلانے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے-چار میل فی گھنٹہ۔ جو کاروانا کے لیے یہ زندگی کی بہترین رفتار ہے۔ اور ایک طرح سے یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ ان کی تنگ سی کشتی اتنا ہی تیز سفر کر سکتی ہے برطانیہ میں دریاؤں اور نہروں کے لیے بنائی گئی ۔ہاں لوئیس میری دوست نے اپنے مکان کی جمع پونجی لگا کر ایک سست بوٹ خرید کر اسے سمندر میں کرائے پر دے دیا اور اب وہ باقاعدہ بڑا کرایہ لے رہی ہے -ہم بھی ایسی ہی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اپنے مکان کی جمع پونجی سے-

خیال اچھا ہے لیکن اس کی تفصیل تو کچھ بتاو لوئیس نے کہا پھر دو بڑے مگوں میں بلیک کافی لے کر لاونج میں آکر صوفے پر بیٹھ گئے اور ڈیزی نے بی بی سی اردو پر پرنٹ ہونے والی بوٹ کی تفصیل پڑھنا شروع کی     اپریل میں ان تنگ کشتیوں پر سفر کا مصروف سیزن شروع ہوتا ہے اور یہ ان مسافروں کے لیے بہترین وقت ہے جو اس طرزِ زندگی کو آزمانے کے شوقین ہیں۔چونکہ ان  کشتیوں میں سے نصف سے بھی کم، ان کے مالکان کے زیرِ استعمال ہوتی ہیں، اس لیے عام لوگوں کے لیے چھٹیوں کے دوران کرایے پر کافی کشتیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ کاروانا کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کشتیوں پر چھٹیاں گزارنے سے پہلے کچھ چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں سرِفہرست اس طرزِ زندگی کی سست رفتاری۔کاروانا کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ کشتی ملک میں سیر کرتے ہوئے ماحول دوست زندگی گزارنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔‘ ان اصل کا مقصد ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ رہنا چاہیں ان کشتیوں کو چلانے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے-چار میل فی گھنٹہ۔ جو کاروانا کے لیے یہ زندگی کی بہترین رفتار ہے۔

 اور ایک طرح سے یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ ان کی تنگ سی کشتی اتنا ہی تیز سفر کر سکتی ہے۔   سال کچھ عرصہ اس کشتی پر گزارتی ہیں۔زندگی گزارنے کا یہ طریقہ  کے بعد اس وقت تیزی سے مقبول ہوا جب لوگوں میں سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے گھومنے پھرنے کی خواہشات پیدا ہوئیں۔اب سوشل میڈیا پر بھی اس طرزِ زندگی کی مقبولیت میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے- اپریل میں ان تنگ کشتیوں پر سفر کا مصروف سیزن شروع ہوتا ہے اور یہ ان مسافروں کے لیے بہترین وقت ہے جو اس طرزِ زندگی کو آزمانے کے شوقین ہیں۔چونکہ ان   کشتیوں میں سے نصف سے بھی کم، ان کے مالکان کے زیرِ استعمال ہوتی ہیں، اس لیے عام لوگوں کے لیے چھٹیوں کے دوران کرایے پر کافی کشتیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ کاروانا کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کشتیوں پر چھٹیاں گزارنے سے پہلے کچھ چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں سرِفہرست اس طرزِ زندگی کی سست رفتاری۔کاروانا کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ کشتی ملک میں سیر کرتے ہوئے ماحول دوست زندگی گزارنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

‘ ان اصل کا مقصد ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ رہنا چاہیں۔’ اب سمندر کے اوپر خراماں 'خراماں چلتی ہوئ وہ  اپنی بوٹ کے زریعہ چھوٹی چھوٹی  محلَے نما کاونٹیز میں بھی جاتے ہیں اور مختلف لوگوں سے مل کر اپنی فیلنگز شئر کرتے ہیں  گریٹ بیڈوین سے کم نفوس پر مشتمل ایک کمیونٹی ہے۔ لندن سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ گاؤں شہر کی ہلچل سے دور ایک الگ دنیا ہے۔یہ زندگی گزارنے کا ایک شاندار طریقہ ہے۔‘ ان کا خیال ہے کہ وہ اس جگہ کو شاید ڈھونڈ نہ پاتیں اگر ان کے پاس ان کی کشتی نہ ہوتی - اب ڈیزی اور لوئیس نے اپنی زندگی پانی اور خشکی پر تقسیم کر لی ہے اور وہ اپنی اس دنیا میں خوش ہیں  وہ جانتی ہیں کہ یہ طرزِ زندگی ہر کسی کے لیے نہیں کہ ان کو اس بات کی عادت ڈالنی پڑی کہ یہ نقل و حمل کا ایک طریقہ نہیں ہے۔ ’ایک ایسا سفر جو آپ کار میں 10 منٹ میں طے کر سکتے ہیں اس سفر میں آپ کو اس کشتی پر دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔اور اب کہتی ہیں کہ کشتی پر رہنے سے ان کو سکون کا ایک نیا احساس اور استقامت کا سبق ملا ہے۔اس  طرزِ زندگی نے  مجھےصبر کرنا سکھایا ہے

حضرت بل 'درگا ہ سری نگر کشمیر

 

حضرت بل 'درگا ہ سری نگر کشمیر-  ایک  علاقہ ہے جو شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر دور ہے ۔

حضرت بَل کا مطلب ہے مقدس جگہ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک مقدس جگہ ہے، بلکہ جموں و کشمیر بھر میں سَب سے مقدس جگہ تصور کی جاتی ہے۔ برفپوش پربتوں اور ڈل جھیل کے نیلم رنگ پانیوں کے ماحول میں سفید رنگ کی درگاہ حضرت بَل میں مُوئے مبارک موجود ہے، یعنی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک۔روایات کے مطابق مدینہ منورہ میں سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے سید عبداللہ 1635 میں ہندوستان میں حیدرآباد کے قریب بیجاپور منتقل ہوئے۔ وہ مُوئے مبارک اپنے ہمراہ لائے تھے۔ جب سید عبداللہ کا وصال ہو گیا تو مُوئے مبارک اُن کے صاحبزادے سید حامد کو ورثہ میں ملا۔علاقہ میں مغل یلغار کے دوران سید حامد سے تمام اثاثے چِھین لیے گئے۔ سید حامد کو جب اندازہ ہو گیا کہ اب وہ مُوئے مبارک کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہے اور اُن سے مُوئے مبارک چھین لیا جائے گا تو اُنہیں خواب یا استخارہ میں اشارہ ملا کہ موئے مبارک کو حکامِ سلطنت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ ایک اور ایمانت دار شخصیت خواجہ نُورالدین عیشائی کو دے دیا جائے، سلاطین چاہے مسلم ہی کیوں نہ ہوں وہ بے ادبی سے باز نہیں آتے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔جب مغل بادشاہ اورنگزیب کو مُوئے مبارک کی خبر ملی تو اُس نے مُوئے مبارک کو نورالدین عیشائی سے زبردستی چھین کر درگاہ اجمیر بھجوا دیا اور نورالدین عیشائی کو غیرسرکاری طور پر تبرکات رکھنے کے جرم میں دہلی میں قید کروا دیا۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ اورنگزیب کو اپنی بیوقوفی کا احساس ہو گیا، یہ الگ سے کرامت ہے۔ اُس نے حکم دیا کہ موئے مبارک نورالدین عیشائی کو واپس کر کے اُنہیں کشمیر بھجوا دیا جائے۔ مگر اُس وقت تک جیل میں نورالدین عیشائی کا وصال ہو چکا تھا۔ چناچہ موئے مبارک اُن کے اہلِ خاندان کو مل گیا اور وہ مُوئے مبارک بمع جسدِ نورالدین عیشائی سری نگر آ گئے۔

سَن 1700 میں نورالدین عیشائی کی صاحبزادی عنایت بیگم نے ڈل جھیل کے مغربی کناروں پر خواجہ نورالدین عیشائی کا مزار بنوایا اور اُس کے ایک حصے میں مُوئے مبارک کو محفوظ کر دیا۔ یہ مزار یا درگاہ حضرت بَل کہلائی۔ تب سے آج تک خواجہ نورالدین عیشائی کا خاندان اِس درگاہ کی حفاظت پر معمور ہے۔ وہ گدی نشین نہیں، محض امانت دار محافظین ہیں۔کچھ دہائیاں قبل 26 دسمبر 1963 کو موئے مبارک چُرا لیا گیا۔ پوری ریاست میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مظاہرے اتنے بڑھ گئے کہ 31 دسمبر 1963 کو قومی ریڈیو پر وزیرِاعظم جواہر لال نہرو نے قوم کو مُوئے مبارک کی گمشدگی کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا اور ڈھونڈنے کا وعدہ کیا۔ حالات سے اندازہ ہوا کہ اہلِ ہندوستان کے مسلمان مقدس چیزوں کے بارے میں کتنے گہرے احساسات رکھتے ہیں۔ چند دن بعد، 4 جنوری 1964 کو مُوئے مبارک بازیاب ہو گیا-اس علاقے میں ابتدائی آبادیاں ڈل جھیل کے کنارے آباد تھیں اور اس علاقے کی زیادہ تر آبادی ہنگی (ماہی گیر) کی ہے۔ یہ علاقہ حضرت بل کے مزار کی تعمیر کے بعد مشہور ہوا جہاں ہر سال لاکھوں لوگ آتے ہیں کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں اسلامی پیغمبر محمد سے متعلق بہت سے آثار ہیں۔اردو میں لفظ حضرت احترا م کی طرف مشیر ہے جبکہ بل کے معنی مقام کے ہیں۔ لہٰذا لفظ حضرت بل کا مطلب ہے وہ جگہ جو لوگوں میں بہت محترم ہے۔ ڈل جھیل اور اس کے آس پاس کی گھریلو کشتیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ شہر کا مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے ۔

 یہاں رہنے والوں کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار سیاحت پر ہے۔ شیخ محمد عبداللہ کی قبر بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے کا پوسٹل کوڈ 190006 -حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ امیرالامراء حضرت سید حسن الحسینی ہمدانیؒ کے فرزند اکبر اور عارفِ الزماں حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کے پوتے تھے.حضرت امیر سید شہاب الدینؒ آپ کے عمّ محترم اور حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ چچا زاد بھائی تھے، حضرت میر سید حُسین(سمنانی) الحسینی الہمدانیؒ آپ کے برادرِ اصغر تھے جن کا روضہ (زیارت) اہلسُنت کے زیرِ تولیت ہے. حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ امیرالامراء حضرت سید حسن الحسینی ہمدانیؒ کے فرزند اکبر اور عارفِ الزماں حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کے پوتے تھے.حضرت امیر سید شہاب الدینؒ آپ کے عمّ محترم اور حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ چچا زاد بھائی تھے، حضرت میر سید حُسین(سمنانی) الحسینی الہمدانیؒ آپ کے برادرِ اصغر تھے جن کا روضہ (زیارت) اہلسُنت کے زیرِ تولیت ہے.آپ کے ابتدائی حالات گوشہ اخفاء میں ہے لیکن اس سے آپ کی عظمت, شان و شوکت پر کوئی اثر نہیں پڑتا,میری دسترس میں ایسی کوئی تاریخ نہیں جس میں آپ کی بتدائی زندگی کا حال درج ہو.آپ کا ذکر کشمیر کی ہر قدیم تاریخ میں ملتا ہے.آپ کا شجرۂ نسب امام سیدالساجدین زین العابدین علیہ السلام سے جاملتا ہے.)سید تاج الدین بنِ الامیر سید حسن بنِ سید محمد الثالث بنِ سید علی بنِ سید یوسف بنِ سید محب بنِ سید محمد الثانی بنِ سید جعفر بنِ سید عبداللہ بنِ سید سید محمد الاول بنِ سید علی بنِ سید حسن المحدث بنِ حُسین الاصغر بنِ امام زین العابدینؑ بنِ امام حُسینؑ(

آپ کی ولادت 720ھ کے قریب شہرِ ہمدان میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ سے ہی حاصل کی جیسا کہ اس زمانہ میں دستور تھا کُتب اور اساتذہ سے پہلے گھر کے اہلِ خانہ نمونہ عمل تھے کیونکہ ایران کے مشہور شہر ہمدان میں آپ کا خانوادہ نہ صرف سیادت، شرافت، علم اور عمل کے لیے مشہور تھا بلکہ سیاست و شجاعت بھی اس خاندان کو ورثہ میں ملی تھی.حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ اور حضرت میر سید علی الحسینی ہمدانیؒ سے قبل اڑھائی سو سال پہلے آقائے خاقانیؒ نے آپ کے خانوادہ کی تمجید و توصیف میں کہا تھاحضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کی حیرت انگیز فعالیت اور ان کے کارنامے دیکھ کر اس بارے میں شبہ نہیں رہتا کہ آپ تمام علمی مدارج طے کرکے ایک بلند مقام پر فا-----کشمیری موٴرخ غلام نبی گوہر نے اس درگاہ کی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سترہویں صدی میں جب ہندوستان پر اورنگزیب کی حکومت تھی، اس دوران بیجاپور دکن سے تعلق رکھنے والا ایک تاجر پیغمبرِ اسلام سے منسوب ’موئے مقدس‘ کشمیر لایا اور دعویٰ کیا کہ انھیں یہ ایک عرب تاجر نے دیا تھا۔موئے مقدس کے بارے میں یہاں کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کی داڑھی کا ایک بال ہے۔ اس تبرک کو پہلے سرینگر کی ایک چھوٹی درگاہ خانقاہ نقشبندیہ میں رکھا گیا لیکن کشمیر کے کونے کونے سے لوگ وہاں پہنچنے لگے جس کے سبب جگہ کم پڑنے لگی۔غلام نبی گوہر لکھتے ہیں: ’اُن دنوں کشمیر پر افغان حکومت تھی۔ افغان حکمرانوں نے سرینگر کے مغرب میں جھیل ڈل کے کنارے سرسبز زمین کا وسیع رقبہ نئی درگاہ کے لیے وقف کر دیا اور وہاں درگاہ تعمیر کی گئی جہاں موئے مقدس کو منتقل کیا گیا۔‘

جمعرات، 7 مارچ، 2024

شہرِ گلاب کے گلابی مکین کہاں گئے

 

 قران پاک میں اللہ  کریم فرما رہا ہے 'زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسوں کیسوں کو ہلاک کر مارا -تو سوچئیے کہ  اس شہر میں بسنے والے کتنے جاہ و حشم والے ہوں گے جنہوں نے اتنے حسین نقوش اپنے نقش پا ءمیں چھوڑے-زرا چشم تصوّر میں دیکھئے آج کے انسان کے پاس کیا سہولتیں   اور کتنی لاتعداد آسانیاں ہیں جن کے بل بوتے پرانسان  نت نئ ایجادات میں منہمک رہتا ہے -تو ہزاروں سال پہلے کے انسان کے پاس بھی تو کوئ ایسی ٹکنالوجی ہو گی جو اس نے زمین کے سینے پر اتنے حسین نقوش  تراش کر چھوڑے -توآئیے اس مضمون میں ایک خوبصور ت قدیم شہر کی بات کرتے ہیں  -جی ہاں  کو تراش کر بنائے جانے والے محلات-دو ہزار سال قبل اردن کے بالائی صحرا میں واقع پہاڑوں میں پیازی و گلابی رنگت کے رسوبی پتھر کو تراش کر بنائے جانے والے محلات و مقابر انسانی ہاتھ کی کاریگری کا عظیم شاہکار کہلاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر آج کے انسان کو یقین نہیں آتا کہ قدیم دور کا انسان اس قدر   قابل  اور اختراع ساز تھا۔

  پترہ  میں عیسائیت تیسری اور چوتھی صدی میں آئی اور پھلی پھولی تاہم  ایک  زبر دست زلزلے کے بعد یہ شہرِ ویران  ہوگیااور ساتویں صدی کی ابتدائی اسلامی سلطنتوں کے رواج پانے پر یہاں عیسائیت کی اہمیت کم ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا، جسے سوئس کھوجی و مہم جو جوہان برک ہارڈٹ نے1812ء میں دوبارہ دریافت کیا۔اس وقت سے اب تک ماہرین آثار قدیمہ اس کی پراسراریت سےپردہ اٹھارہے ہیں۔ 2016ء میں سیٹیلائٹ امیجز کی مدد سے ایک یادگاری ڈھانچہ دریافت کیا گیا جو ریت میں مدفون تھا۔پترہ کی سحر انگیز تعمیرات کے باعث یہ بات تعجب انگیز نہیں ہے کہ اردن کا سب سے معروف سیاحتی مقام یہی ہے جسےیونیسکو کی جانب سےعالمی ورثے کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔

 پترہ عمان سے تین گھنٹے اور عقبہ کی بندرگاہ سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔اس کا رقبہ سو مربع میل سے زائد ہے،جو مین ہٹن سے چار گنا زائد ہے۔ اس خوبصورت شہر کی سیر ایک دن کا سودا نہیں، کم از کم ایک ہفتہ ٹہر کر آپ اس شہر خموشاں کے شاندار تعمیراتی ورثے کو ملاحظہ کرسکتے ہیں نپتھروں  کی تعمیرات پر مبنی یہ شہرِ گلاب  پترہ نامی علاقہ کبھی ماضی میں گم شدہ تہذیب کی عظمت کا نشان ہے، جو نبطی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ خانہ بدوش صحرائی نبطیوں کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں، جن کی سلطنت انہی چٹانوں اور پہاڑوں کے درمیان ابھری۔ لوبان اور دیودار کی تجارت سے انہوں نے بے تحاشا دولت حاصل کی، ان کے تجارتی روابط بحر روم اوربحر عرب کے درمیان اونٹوں کے کاروانوں کے ذریعےمصر سے شام اور یونان تک تھے۔

دیودار اور شیشم کی مضبوط لکڑی سے بنائے جانے والے بحری  بیڑوں کے باعث انہیں سمندروں پر کنٹرول حاصل تھا اور پہاڑوں کو تراش کر تعمیر سازی کی جادوئی صلاحیت نے انہیں صدیوں تک اس علاقےمیں بالادست اور ناقابل شکست حکمران بنائے رکھا۔63قبل مسیح میں رومیوں کے یہاں پہنچنے سےبڑی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ 6ہزار تماشائیوں کی گنجائش پر مبنی تھیٹر قائم کیا، ساتھ ہی شہر کے سامنے کے رُخ پر ایستادہ پہاڑوں کو تراش کرخزانہ گھر اور پوجاگھر قائم کیے، جن میں ہیلینیائی طرز تعمیر نمایاں رہا۔ ان میں تزئین و آرائش پر مبنی کارنتھیئن ستون، بیس ریلیف ایمیزونز اورفینسی ایکروٹیریا جیسے تعمیراتی کمالات سے فن تعمیر میں رومی رنگ کو نکھارا۔ پہاڑوں کو تراش کر بنائے جانے والے محلا  ت -پترہ  کی کنسٹرکشن انجینئرنگ کے کئی مظاہر آپکو اس جگہ واضح نظر آئیں گے،

جس میں  تر سیل آب کا نظام قابل دید تھا جو30ہزار رہائشیوں کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ اسے 12فٹ بلندی پر خمدار راستوں سے ترتیب دیا گیا تھا۔اس پانی کو قحط کے دنوں کے لیے بھی محفوظ رکھا جاتاتھا۔ پترہ کی تعمیراتی خوبصورتی یہاں آنے والے لاکھوں سیاحوں کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔ پورا شہر تعمیراتی فن پاروں کے نشانات سے بھرا پڑا ہے۔ہر ایک گھنٹے کے بعد یہاں کے پتھر اور مصوری کی کندہ کاری کے نمونے اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ شاندار سلک مقبرہ سرخ،نیلے اور گیروی رنگوں میں بدلتا رہتا ہےجبکہ نمایاں سنگ مر مر کی سیڑھیاں بازنطینی دور کے گرجا گھر تک جانے کے لیے موجود ہیں بطی سلطنت کے دارالحکومت پترہ کے ساتھ مدائن صالح کا ذکر کرنابھی ناگزیر ہے کہ یہ اس تہذیب اور تعمیراتی فن کی کڑی ہے۔ اس سلطنت کی سرحدیں بہت وسیع تھیں جن میں آج کے اردن، شام ، اسرائیل اور سعودی عرب آجاتے ہیں۔ سعدی عرب میں اسی تہذیبی ورثے کی باقیات مدائن صالح کے نام سے جانی جاتی ہیں۔یہ جگہ سعودی عرب کے انتظامی خطہ المدینہ کے علاقے العلی میں واقع ہے، جو ظہور اسلام سے قبل کا ایک انسانی معاشرہ اور تہذیب ہے۔

۔یہاں پر 'قوم ثمودآباد تھی، اسلامی عبارات اور معلومات کے مطابق قوم ثمود جس نے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے تھے۔ سعودی عرب کی حکومت 1972ء سے اس شہرکو اس کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحت و تفریح کی کشش کے لیے مدائن صالح کے طور سے فروغ دے رہی ہے اور اس کو قومی تہذیبی تشخص کی حیثیت سے محفوظ کیا گیا ہے۔ قدیم تہذیبی 'سلطنت نباطین کے انتہائی محفوظ حالت میں موجود خاص کر 131پتھروں کے تراشیدہ گھر اور ان کے بیرونی داخلی دروازوں کو 2008ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو نے اسے سعودی عرب میں عالمی ورثہ کی پہلی جگہ قرار دیا تھا۔یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم تھی جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگی عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر