فتح پور سیکری ریاست آگرہ سے 35 کلو میٹر دورواقع ہے ۔ اس شہر کو ترک و مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے فرزند کی پیدائش پر تعمیر کروایا تھا اور اس کو اپنادارالحکومت بناناچاہتا تھا لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے اس نے دارالحکومت پہلے لاہور اور پھر آگرہ منتقل کردیا۔ اس طرح اکبراعظم کا یہ خوابوں کا شہر شرمندہء تعبیر نا ہو سکا لیکن اس کی شاندار عمارتیں آج بھی جوں کی توں حالت میں ہیں۔ 1569 میں تعمیرکردہ یہ شہر 1571سے 1585تک مغل حکومت کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر کا نام پہلے سیکری گڑھ تھا جو آخری راجپوت راجہ مہاراجہ سنگرام سنگھ کے قبضہ میں تھا۔ اکبر نے چتوڑ اور رنتھبور پر اپنی فتوحات کی یاد میں اس شہر کا نام فتح پور سیکری رکھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اکبر نے جب صحرامیں مقیم صوفی سنت حضرت سلیم چشتیؒ کی خانقاہ میں حاضری دی تو انہوں نے بشارت دی کہ اکبر کا ہونے والا بیٹا اس کی سلطنت کو نہ صرف وسعت دے گا بلکہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک عظیم بادشاہ ہوگا۔ 1569میں اکبر کے یہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ،اس نے اپنے بیٹے کا نام سلیم چشتیؒ کے نام پر سلیم رکھا جو بعد میں شہنشاہ جہانگیر کھلایا۔ اس کی پیدائش پر ہی اکبر نے صوفی حضرت سلیم چشتی کے اعزاز میں یہاں کے ایک شہر کی بنیاد ڈالی۔
حضرت سلیم چشتیؒ کی درگاہ اسی مقام پر سنگ مرمر سے بنائی گئی ہے۔ جب اکبر نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنایاتو اس کا نام فتح آباد تھا۔ یہاں اکبراعظم کی جانب سے تعمیر کروائے گئے محلات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔فتح پور سیکری کے شاہی محلات دو میل لمبے اور ایک میل چوڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے 3 اطراف میں 5 میل لمبی دیوار بنائی گئی۔ شاہی محلات کے علاوہ اس علاقہ میں کچھ اور بھی عمارتیں ہیں جوکھنڈر بن گئی ہیں۔ نوبت خانہ کے قریب پرانے شہر میں بازاروں کے باقیات موجود ہیں۔ نوبت خانہ آگرہ روڈ پر شہر کا باب الداخلہ ہے۔ نیا شہر اس کامپلکس کے مغربی سمت میں بسایا گیا ہے۔ 7ہزار کی آبادی والا یہ شہر تعمیری مزدوروں اور سنگتراشوں کیلئے شہرت رکھتا ہے جس وقت فتح پورسیکری تعمیر کیا گیا تھااس شہر کے 3 طرف دیوار تھی اور ایک طرف جھیل تھی یہ جھیل اب باقی نہیں ہے۔ سرخ پتھر سے بنی عمارتیں مقامی طور پر دستیاب پتھروں سے بنائی گئی ہیں اس کامپلکس کے دروازوں میں دہلی گیٹ، لال گیٹ،آگرہ گیٹ، چندن پال گیٹ ،گوالیار گیٹ، سہرا گیٹ، چور گیٹ اور اجمیر گیٹ شامل ہے۔
درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ اور جامع مسجد فتح پور سیکری میں درگاہ حضرت سلیم چشتی کامپلکس میں داخل ہونے کیلئے بلند دروازے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دروازے کو شہنشاہ اکبر نے 1601میں تعمیر کروایا تھا۔ 43میٹر بلند اس دروازے کو اکبر کی گجرات اور اتر پردیش میں فتوحات کی یاد میں تعمیر کروایاتھا۔ اس کی کمان پر قرآنی آیات کنندہ ہیں اس دروازے تک پہنچنے کیلئے 42 سیڑھیاں ہیں۔ یہ دروازہ 35 میٹرچوڑا ہے۔ دروازے کی چھت پر 13 چھتری نما گنبد ہیں۔ دروازہ 3 کمانوں پر مشتمل ہے۔ بلند دروازے سے داخل ہوتے ہی اس کے بائیں طرف ایک کنواں ہے اور سامنے درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ اور جامع مسجدہے۔ اس دروازہ میں داخل ہونے کی ایک اور نکلنے کی 3 کمانیں ہیں۔یہ درگاہ جو مکمل سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے حضرت سلیم الدین چشتی (1478تا 1572) کی آخری آرامگاہ ہے۔ سنگ مرمر میں انتہائی باریک اور نفیس انداز سے تراشی ہوئی جالیوں سے اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حضرت سلیم چشتیؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ انہوں نے مہارانا پرتاپ کے خلاف ایک جنگ میں اکبرکی فوج کے شیخ زادہ دستے کی قیادت بھی کی تھی۔
تاریخ کے مطابق اکبراعظم لاولد تھا۔ 14 سال کی عمر میں ہی تخت پر بیٹھنے والے اکبر کو رقیہ بیگم سے ایک لڑکی (1561)ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھاگیا لیکن وہ نومولود ہی فوت ہوگئی۔ اس کے بعد دو بیٹے ہوئے جن کا نام حسن اور حسین رکھا گیا (1564) لیکن وہ بھی ایک ماہ میں چل بسے۔ اس کے بعد اکبر نے آگرہ سے سیکری تک کا پیدل سفر کیا اور حضرت شیخ سلیم الدین چشتی ؒ کی بارگاہ میں درخواست کی کہ وہ نرینہ اولاد کیلئے دعا کریں۔ ان کی دعاسے اکبرکے یہاں بیٹا ہوا جس کا نام نور الدین محمد سلیم رکھا گیا۔ اس مقبرے کے بائیں طرف مشرق کی سمت اسلام خان اول کا مقبرہ ہے جو حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے پوتے شیخ بدر الدین چشتی کے فرزند تھے۔ شیخ بدر الدین چشتی، جہانگیر کی فوج میں جنرل تھے۔ اس مقبرے پر 36 چھوٹی چھتریاں بنائی گئی ہیں جو گنبد کی شکل میں ہے یہاں کئی نامعلوم افراد کی قبور ہیں یہ تمام قبور شیخ سلیم چشتیؒ کے افراد خانہ کی بتائی جاتی ہیں۔
جامع مسجد 15711 میں حضرت سلیم چشتیؒ کی نگرانی میں مکمل کی گئی۔ اس وقت مولوی مکرم احمد اس شاہی مسجد کے امام ہیں جن کو بھی شاہی امام کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو اسلامی فن تعمیر کے طرز پر تعمیر کیا گیا۔ اس پر 5 چھتری نما گنبد ہیں۔ دیوان خاص: یعنی خاص محل یہ ایک چارکونی سادہ عمارت ہے جس کی چھت پر چاروں طرف چھتری نما گنبد بنائے گئے ہیں۔ لیکن یہ ایک درمیانی ستون کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ستون چار کونی بنیاد پر ہے اور اس پر خوبصورت بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر ایک پلیٹ فارم ہے جہاں اکبربیٹھا کرتا تھا یہ پلیٹ درمیان میں معلق ہے اور اس کو چاروں کونوں سے ایک راستے کے ذریعہ ملایاگیاہے۔ یہاں اکبر کا خاص دربار لگتا تھا۔دیوان عام اور نوبت خانیعنی عام دربار لگانے کی جگہ۔ یہ دربار ہر قلعہ میں ملتا ہے۔ فتح پور سیکری کا دیوان عام ایک کھلے میدان میں اسٹیج کے نمونے کا بنایا ہوا ہے جس پرکمانیں بنی ہوئی ہیں۔ دیوان عام کے جنوبی مغرب میں ترکی کے مشہور حمام بنے ہوئے ہیں۔ عبادت خانہ اکبر اعظم نے 1575میں یہ عبادت خانہ خاندانی