جمعہ، 1 مارچ، 2024

اضطراب (انگزائٹی ) کا کیا علاج ہے؟

  

 ہمارے ہی معاشرے میں کچھ لوگوں کے مزاج میں ایسی بے چینی سی گردش کرتی رہتی ہے جسے کوئ نام نہیں دیا جا سکتا ہے -اور یہی بے چینی ان کو مستقل طور پر مضطرب رکھتی ہے -آج کے ماڈرن معاشرے نے اس بیماری کو ڈپریشن یا انگزائٹی کا نام دیا ہے اس بیماری کی بنیا د انسان کے ناقابل حل مسائل سے جڑا ہوتا ہے -لیکن کبھی 'کبھی انسان اپنے اوپر بلاوجہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اپنے زہن پر اس طر ح سوار کر لیتا جس سے وہ اس نادیدہ مرض کے شکنجے میں آجاتا ہے ۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی طبیعت جینز کے ذریعے وراثت میں بھی مل سکتی ہے۔ تاہم وہ لوگ بھی جو قدرتی طور پر ہر وقت پریشان نہ رہتے ہوں اگر ان پر بھی مستقل دباو  پڑتا رہے تو وہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھار گھبراہٹ کی وجہ بہت واضح ہوتی ہے اور جب مسئلہ حل ہوجائے تو گھبراہٹ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کچھ واقعات اور حالات اتنے تکلیف دہ اور خوفناک ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ واقعات کے ختم ہونے کے طویل عرصے بعد تک جاری رہتی ہے۔ یہ عام طور پر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں جن میں انسان کی جان کو خطرہ ہو۔ مثلاً کار یا ٹرین کے حادثات اور آگ وغیرہ۔ ان واقعات میں شامل افراد مہینوں یا سالوں تک گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار رہ سکتے ہیں ۔ یہ علامات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں پائی جاتی ہیں۔ انگزائٹی یا گھبراہٹ کی چند نمایاں علامات ،دل کی دھڑکن محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا،پٹھوں میں کھنچاو¿ اور درد ہونا،سانس کا تیزی سے چلنا،سر چکرانا،بے ہوش ہو جانے کا ڈر ہونا،بدہضمی، بری خبر، ڈرامہ فلم سے گھبراہٹ ہونا ، خاموش رہنا یا بلا ضرورت گفتگو کرنا، ہر وقت پریشانی کا احساس،تھکن کا احساس،توجہ مرکوز نہ کرپانا،چڑچڑے پن کا احساس،نیند کے مسائل۔

 گھبراہٹ کا شکار افراد ان علامات کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی شدید جسمانی بیماری ہو گئی ہے، گھبراہٹ سے ان علامات میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھبراہٹ کے غیر متوقع اچانک دورے پینک (Panic)کہلاتے ہیں۔ اکثر گھبراہٹ اور پینک کے ساتھ ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے بھی گھبراہٹ ہوسکتی ہے اکثر بچے کبھی نہ کبھی کسی وجہ سے ڈر جاتے ہیں۔ نشوونما کے دوران یہ معمول کی بات ہے۔ مثلاً چھوٹے بچے اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے وہ ان سے الگ ہوجائیں تو بچے بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ بہت سے بچے اندھیرے یا فرضی وجود (جن بھوتوں)سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف عام طور پر بڑے ہونے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اور بچوں کی زندگی یا ان کی نشوونما کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اسکول کے پہلے دن جیسے اہم واقعات کے بارے میں خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔انگزائٹی اور ڈیپریشن کے نفسیاتی علاج موجود ہیں -

گر روحانی اور سوشل علاج سے بہتر اور موثر کوئی علاج نہیں۔ ہم خیال اور شفیق دوسروں اور رشتے داروں کی صحبت اختیار کریں۔ گپ شپ اور مثبت گفتگو کریں۔ ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے سے گریز کریں۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانے سے بچیں۔ نفسیاتی امراض کا بہترین ٹوٹکہ شکر گزاری ہے۔ جو پاس ہے اس پر راضی ہو جائیں اور جو چھن گیا اس پر صبر کریں اور جو نہیں مل سکا اس کے لئے بے چین اور پریشان ہونا چھوڑ دیں۔تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا واحد علاج صبر اور شکر ہے۔ رب سے تعلق جوڑنے سے بڑا نسخہ اور علاج کوئی نہیں۔ اور رب سے تعلق جوڑنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ ہر مشکل مصیبت پریشانی پر دل سے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں اور ہر نعمت کامیابی اور خوشی پر بھی دل سے رب کا شکر ادا کرنا شروع کر دیں۔یاد رکھیں تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا محور دل اور دماغ ہے۔ دل اور دماغ کو پرسکون کر لیں تمام قلبی روحانی جسمانی نفسیاتی مسائل اور بیماریوں پر قابو پا لیں گے-

۔ اور یہ بھی یاد رکھیں موت کے علاوہ کوئی مصیبت مشکل امتحان رب کی طرف سے نہیں بلکہ بندے کی اپنی کوتاہیوں غلطیوں اور خلاف سنت زندگی گزارنے کے سبب ہے۔سنت کے مطابق شب و روز گزارا جائے تو نہ بلڈ پریشر شوگر انگزائٹی ڈیپریشن اور دیگر امراض لاحق ہوں گے اور نہ ادویات ڈاکٹر ہسپتال کی ضرورت پیش آ ئے گی۔ جسمانی ورزش کم اور وقت پر صحتمند غذا کھانا سونا صحت کی ضمانت ہے۔پہلے زمانے کے بزرگ سادگی اور سنت کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور طویل صحتمند زندگی گزار کر مرتے تھے اور آج نسلیں زندگی نہیں گزار رہیں بلکہ زندگی انہیں گھسیٹ رہی ہے۔ نوجوانوں کا طرز زندگی دیکھو جوانی میں بیمار نظر آتے ہیں۔ منشیات سگریٹ نوشی رات بھر جاگنا باہر سے آرڈر پر غیر صحتمند غذا کھانا ، بے صبری عدم برداشت نا شکری اور محبت کی بجائے شارٹ کٹ تلاش کرنا جیسے انداز زندگی نے جوانوں کو مریض بنا دیا ہے۔

بچے اور نوجوان بھی انگزائٹی ڈیپریشن اور فوبیا کا شکار ہو رہے ہیں۔ صبر اور شکر سے مظبوط تعلّق بھی اضطراب دور کرنے کا بہترین زریعہ ہیں انسان اللہ تعالیٰ سے انسان جتنی دوری اختیار کرتا ہے اور اپنی کوششوں پر بھروسہ کرتا ہے اتنا زیادہ بے چینی کا اوراضطراب کا شکار ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو۔ بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔



جمعرات، 29 فروری، 2024

جمشید نسروانجی 'کراچی کے پہلے مئر


 (پیدائش:7 جنوری، 1886ء - وفات :8 اگست، 1952ء)   کراچی کے پہلے منتخب میئرجمشید نسروانجی مہتاکراچی کے معمار  وں میں سے تھے۔ ان کی محبت کا محور کراچی کی فلاح تھی جس کے لئے وہ دن رات کوشاں رہتے تھے-وہ  کراچی شہر میں غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پارسی ربادی اسکول اور این جے وی اسکول کراچی سے حاصل کی اور پھر 1900ء میں مزید تعلیم کے لیے ڈی جے کالج کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ 1914ء میں کراچی میونسپلٹی کے رکن بنے اور 1933ء تک اس کے رکن رہے۔ اس دوران 1922ء سے 1933ء تک گیارہ سال تک مسلسل کراچی میونسپل کمیٹی کے صدر اور پھر کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1933ء سے 1934ء پہلے میئر منتخب ہوئے ۔ انھوں نے اپنی میئرشپ کے زمانے میں کراچی کی توسیع کے متعدد منصوبے بنائے۔ کھلی سڑکیں، باغات اور کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے ۔ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی جس کے نتیجے میں وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ 

جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے - یہ یقیناً کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب ’کراچی کی کہانی‘ میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔

 تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے"۔ جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اُسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جمشید یادگاری کمیٹی کی 1954 میں چھپی کتاب میں لکھا ہے کہ جمشید ہر صبح کو یہ دعا کرتے تھے؛ اے خدا میں ہر روز تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں اے خدا مجھے کارآمد بنا اے خدا مجھے بے ضرر بنا اے خدا مجھے شفاف رکھ اے خدا مجھے اپنا ذریعہ بنا میں یہی دعا کرتا ہوں جئے سندھ تحریک کے بانی علیحدگی پسند رہنما سائیں جی ایم سید اپنی کتاب 'جنب گزریم جن سیں' (میری زندگی کے ہم سفر) کے صفحہ نمبر 116 پر جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ جداگانہ انتحابات کی وجہ سے کامیابی کے لیے ان کا انحصار ہندو ووٹرز پر ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ 

سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937 میں وہ ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں اسمبلی کے رکن رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہندو اراکین نے چھوٹی بڑی باتوں پر حکومت کی حمایت اور مخالفت شروع کی۔ چوں کہ وہ ہندو ووٹرز کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے ان سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ ہندو اراکین کی حمایت کریں۔ اس بات پر ناراض ہو کر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت کی سندھی سیاست میں یہ بڑی اہم بات تھی۔ اکثر مسلم اراکین ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کی قربانی دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ خصوصاََ زچگی کے حوالے سے۔ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام کوارٹرز (علاقوں) میں زچّہ بچّہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس معاملے میں پہل انھوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔ اس کے علاوہ دیگر افراد سے چندہ لے کر میٹرنیٹی ہوم بنوائے اُن کی پوری زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو ہی تبدیلی کا ذریعہ مانتے تھے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔  

بدھ، 28 فروری، 2024

کیلگری شہر کو چلئے

 

 

 اپنے پروگرام کے مطابق سات بجے شام کے وقت کیلگری ائر پورٹ کی فضاوں میں طیارہ داخل ہوا میں نے جہاز کی کھڑ کی سے باہر کا نظارہ کیا تو بے اختیار زبان پر الفاظ آ گئے سبحان تیری قدرت -ہوائ اڈّا شب عروسی کا لباس پہنے ہزارہا روشنیوں سے مزیّن تھا -ابھی میری حیرت کچھ اور سوا ہوتی کہ طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا اور سب مسافر اپنی اپنی سیٹ بیلٹ کھولنے لگے جی ہاں اب میں کیلگری کا تعارف کروانا چاہوں گی -کیلگری    باغات'  گھنے جنگلات  اور  پہاڑوں کا       شہر  ہے-جس میں  تا حد نظردلکش نظارے  ہیں تو سردیوں میں ہڈّیوں کو گلا دنے والی سردی بھی ہے لیکن پھر بھی  مشرق کی جانب سے مغرب کی جانب ہجرت چلی آ رہی ہے - کیلگری  مغربی صوبے البرٹا کا شہر ہے جو راکی ماؤنٹینز کے نزدیک واقع ہے۔ یہ شہر دو کینیڈین شہروں سے انڈیکس میں اپنے استحکام کے باعث بہتر ہے ۔یہاں کے رہائشیوں کے مطابق  یہ  ایک ایسا  شہر ہے جہاں  کینیڈا کےتمام بڑے شہروں کی سہولیات موجود ہیں -اور یہ کینیڈا کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں رہائش کے لیے قدرے سستا ہے۔کینیڈا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کےسبب یہاں ایک مخصوص دلکشی ہے، 

 یہاں کے دوستانہ مقامی افراد، کمیونٹی کو فروغ دینے والی ذہنیت اور فارمرز' مارکیٹس (جہاں تازے پھل اور سبزی کھیتوں سے براہِ راست آتے ہیں) کے باعث ہے۔موسم گرما اور موسم بہار میں کیا کہنے کہ ’لوگ یہاں تفریح کی غرض سے گھروں سے باہر جاتے ہیں۔ ان موسموں میں یہاں گھروں کے ساتھ صحن   بھی   تفریح گاہ بن جاتے ہیں  اور ریستورانوں میں بھی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ یہاں کے ٹوور آپریٹر کہتے ہیں  کہ اگر آپ  ریستوران میں غروبِ آفتاب کے وقت بکنگ کروائیں تو آپ شہر کے پہاڑی سے نظر آنے والے دلکش نظارے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔موسم  بہار میں اورموسم گرما میں یہاں کے لوگ اکثر اپنی گاڑیوں کے بیک سائڈ پر اپنی اپنی بوٹس لئے فشنگ کے لئے جاتے ہوئے نظر آئیں گے‘کینیڈا کے دیگر شہروں کی طرح اس شہر میں بھی زندگی گزارنے کے معیار میں اضافے کی وجہ پرفضا مقامات اور قدرت سے قربت ہے۔

  البرٹا کا پہلا عوامی   پارک،  یہ منفرد پارک ہر کسی کے لیے کھلا ہے اور یہ ایک ایسی پناہ گاہ ہے جو کمیونٹی، خاندان اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی حمایت کرتا ہے۔ یہ کیلگری کا پہلا کمیونٹی پر مبنی دماغی صحت کا مرکز ہے جو نوجوانوں کے لیے فطرت سے عکاسی کرنے، صحت یاب ہونے اور جڑنے کے لیے ہے۔ پارک کی خصوصیات میں چڑھنے کا ڈھانچہ، اسپورٹ کورٹ، پویلین، کمیونٹی کے راستے، جھولتے بینچ، اور مراقبہ کے لیے جگہ، گروپ کی سرگرمیاں، باغبانی اور بہت کچھ شامل ہے۔ثقافتی فیسٹیول اور یہاں کی بہترین نائٹ لائف بھی۔‘ یہ شہر آبادی کے اعتبار سے خاصا متنوع بھی ہے اور کینیڈا میں یہ تیسرا سب سے متنوع شہر ہے جہاں 240 سے زیادہ قومیتوں کے لوگ اور 165 زبانیں بولی جاتی ہیں

شہر میں آئل اور گیس کی صنعت کے سبب یہاں وائٹ کالر  جابس کرنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے -سردیوں میں بھی تمام شہر میں سرما کے کھیلوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے جیسے سکیئنگ، سکیٹنگ، ٹیوبنگ، سنوشوئنگ اور آئس بائیکنگ جیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ شہر نے سنہ 1988 میں ونٹر اولمپکس کی میزبانی کی تھی، یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی مکمل انفراسٹرکچر موجود ہے۔ یہاں سردیاں طویل اور سرد ہوتی ہیں  کیلگری ٹرانسپورٹ :کیلگری میں پیدل چلنے کے لیے طویل فٹ پاتھ اور سائیکل چلانے والوں کے لیے ٹریکس موجود ہیں۔ ا ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل یہ راستے پورے شمالی امریکی میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔بالخصوص سائیکل ٹریک کو بہت محفوظ بنایا گیا ہے ’شہر میں سائیکل چلاتے ہوئے میں  ایسے دلکش نظارے اور مقامات بھی دیکھنے کو ملیں گے جو عام طور پرنظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں، ان نظاروں کو  روزانہ باہر جا کر دنیا دیکھنے کی جو خوشی نصیب ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے

  مایا دیوی جو سسکیچوان  سے کیلگری چند برس پہلے شفٹ ہوئی ہیں ، کہتی ہیں کہ ’کیلگری دولتمند شہر ہے اور یہاں کے لوگوں کے پاس بھی دولت ہے  بلکل ایسے جیسے کہ انڈیا کے جنوبی شہرحیدر آباد والے دولت مند ہیں کیونکہ ان کا صوبہ بھی پہلے سے دولت مند ہے اس لئے کیلگری کے لوگوں کے پاس دولت ہےاور یہاں کے لوگوں کے دل بھی بڑے ہیں - اس کا مطلب یہ ہے کہ موسمِ گرما کے مہینوں میں شہر کے وسطی اور اس کے اردگرد کے علاقو میں رش ملے گا -ہر سال کیلگری سٹیمپیڈ نامی فیسٹیول جولائی کے پہلے جمعے کو شروع ہوتا ہے اور دس روز تک چلنے والی اس تقریب میں   یہ فیسٹیول پوری دنیا سے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔




  


    

منگل، 27 فروری، 2024

راشد منہاس شہید -قوم کا کمسن ہیرو

    


اپنی جان نذر کروں

اپنی وفا پیش کروں

اعزازِ نشان حیدر حاصل کرنے والے پائلٹ آفیسر۔ کراچی میں پیدا ہوئے۔ منہاس راجپوت   گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 1968ء میں سینٹ پیٹرک اسکول کراچی سے سینئر کیمبرج کیا۔ خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھوں نے بھی اپنا آئیڈیل فوجی زندگی کو بنایا۔ اور اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید سے جذباتی وابستگی کی بنا پر فضائیہ کا انتخاب کیا۔ تربیت کے لیے پہلے کوہاٹ اور پھر پاکستان ائیر فورس اکیڈیمی رسالپور بھیجے گئے۔ فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لا، ملٹری ہسٹری، الیکڑونکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی۔ ایس۔ سی کیا۔ بعد ازاں تربیت کے لیے کراچی بھیجے گئے۔ اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔20 اگست 1971ء کو 11 بجے کے قریب پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنے T-33 جیٹ ٹرینر پراپنی دوسری سولو فلائٹ کیلئے تیار تھے۔ انہوں نے طیارے کا انجن سٹارٹ کیا اور تمام آلات کو چیک کیا۔ گراؤنڈ سٹاف نے انہیں اُڑان بھرنے کا اشارہ دیتے ہوئے سلیوٹ کیا کون جانتا تھا کہ یہ بہادر جنگجو کو ملنے والی آخری سلامی تھی۔ راشد منہاس نے اپنے طیارہ ابھی رن وے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ ان کا بنگالی فلائٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے ٹیکسی وے پر آ کر انہیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ راشد منہاس نے  کسی انسٹرکشن کے خیال سے طیارہ روک دیا۔ مطیع الرحمن انسٹرکٹر اچانک اچھل کر سیٹ پرآن بیٹھا۔ طیارے نے اُڑان بھری اور اس کا رُخ بھارت کی جانب ہو گیا۔

 ا س کے تھوڑی دیر کے بعد راشد منہاس نے مسرور کنٹرول ٹاور کو آگاہ کیا کہ ان کے جہاز کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔فلائنگ آفیسر راشد منہاس ۲۰ اگست ۱۹۷۱ کو معمول کے مطابق ٹی ۳۳ ٹرینر جیٹ کو اڑانے والے تھے کہ ان کا بنگالی انسٹرکٹر فلائٹ لفٹینٹ مطیع الرحمان زبردستی ان کے جہاز میں سوار ہوگیا۔

طیارے میں سوار ہوتے ہی غدار وطن نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ تم میرے اہل خانہ کو لے کر بھارتی ہائی کمیشن چلے جاو میں جودھپور جارہا ہوں۔ راشد منہاس نے فوری طور پر کنٹرول ٹاور کو مطلع کیا ۔  مطیع الرحمان نے راشد مہناس کو ضرب لگائی اور کلوروفارم سونگھا دیا۔غدار کے پاس کچھ خفیہ دستاویزات تھیں جو وہ بھارت لے کر جانا چاہتا-گیارہ بج کر ا کتیس منٹ پر طیارے کا رخ بھارت کی جانب تھا تاہم راشد منہاس نے ہوش میں آنے کے بعد گیارہ بج کر تینتس منٹ پر اطلاع دی کہ مجھے طیارے سمیت اغوا کیا جارہا ہے۔اس کے بعد طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا اب راشد منہاس کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔جوان سال پائلٹ نے جب یہ دیکھا کہ ہندوستانی سرحد صرف ۳۲ میل دور رہ گئ ہے تو انہوں نے جہازکا رخ زمین کی طرف کردیا۔یوں پاکستان کے شاہین نے اپنی جان قربان کرکے غدار وطن اور ہندوستان کے تمام ناپاک ارادے خاک میں ملادئے۔

۲۱ اگست کو راشد منہاس کو پورے فوجی اعزازکے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا یہ کم سن مرد مومن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا اورآج قوم کے اس بیٹے کا ۲۱ اگست یوم شہادت منایا جاتا ہے۔۔پاکستان ائیر فورس کے شاہین راشد منہاس کو نشان حیدر سے نوازا گیا وہ اب تک کہ سب کم عمر ترین شہید ہیں جن کو یہ اعزاز ملا۔۲۰ اگست ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جب قوم کے شاہین نے اپنی جان اس وطن پر وار دی لیکن اس ملک کی سالمیت پر حرف نہیں آنے دیا۔راشد منہاس نے اپنی ڈائری میں یہ رقم کیا تھا کہ کسی شخص کے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوا کہ اپنی جان ملک کے لئے قربان کردینا اور انہوں نے یہ ہی کردکھایا۔اللہ تعالی شہید فلائنگ آفیسر راشد منہاس کے درجات بلند کرے ۔قومی ہیرو راشد منہاس شہید کی بہادری اورعظیم قربانی کے یوم شہادت  دن پر پوری قوم پاکستان کے اِس بہادربیٹے کو سلام ِعقیدت پیش کرتی ہے۔

17 فروری 1951ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد منہاس دوران تعلیم ہی انتہائی محنتی اور ہوابازی میں دلچسپی رکھتے تھے۔راشد منہاس نے امتیازی حیثیت سے (اے لیول) کا امتحان پاس کیا اور1971 میں پاک فضائیہ میں بحیثیت جی ڈی پائلٹ کمیشن حاصل کیا، جبکہ ابتدائی تربیت کے بعد بحیثیت پائلٹ آفیسر لڑاکا تربیت اور کنورژن کیلئے مسرورایئر بیس بھیجا گیا۔۱۹۷۱ میں راشد منہاس نے بطور جنرل ڈیوٹی پائلٹ گریجوٹ کیا اور انکی پوسٹنگ پی اے ایف بیس مسرور  میں ہوگئ۔اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال تھی جب انہوں نے لڑاکا طیاروں کو اڑانے کی تربیت کا آغاز کیا۔وہ کوئی عام نوجوان نہیں تھے بہت ذہین اور فطین تھے۔مطالعے کے شوقین تھے جس میں انگریزی جغرافیہ موسمیات اور  تاریخ ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔اور وہ کم سنی میں پاکستان کی عسکری    تاریخ کا زندہء جاوید ہیرو بن گئے

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

اتوار، 25 فروری، 2024

وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیْ

   


 اللہ رب العزت نے اپنے محبوب،باعث تخلیق کائنات ،فخر موجودات کےاطمینان قلب کی خاطر آیت مبارکہ نازل فرما کر ایک عظیم الشان تحفہ عطا کرنے کا وعدہ فرمایا،’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیْ‘‘ ،عنقریب آپ کا رب آپ کو وہ عطاکرے گا کہ آپ فوراًراضی ہو جائیں گے۔ذہن انسانی سوچ میں پڑگیا کہ قادر مطلق اپنے حبیب کو سب کچھ عطا کردینے بعد وہ کون سی انتہائی عظیم المرتبت شے دینے کا وعدہ فرما رہا ہے کہ جو اس نے ابھی تک اپنے پیارے رسول سے پوشیدہ رکھی ہے۔ بشریت حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ ایک دن قاصد ایزدی مژدۂ جانفزا لے کر آن پہنچا، ’’اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ‘‘،میرے حبیب،ہم نے آپ کو الکوثر عطا کر دی۔’’قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاَ ‘‘ کا حکم دینے والے معبود نے ہر وقت شکر ادا کرتے رہنے والے رسول اعظم کو اگلا فرمان جاری کیا، ’’فَصَلِّ لِرَبّکَ وَانْحَرْ‘‘میرے حبیب اس عطائے گرانقدر کا شکرانہ ا دا کیجئے۔وہ عظیم المرتبت تحفہ جوخداکا ا پنے محبوب ر سول سے محبت کی انتہا ہے ،تمام جلیل القدر مفسرین کرام کے مطابق،

’’اَلْفَاطِمَہْ ھِیَ الْکَوْثَرْ الْمُعْطِیْ لِرَسُوْلَ اللّٰہ‘‘

ملکۂ ملک سخاوت،مطلع چرخ کرامت،سرچشمۂ صبر ورضا،ام شہیدان وفا،بنت رسول اکرم، نشانی ء خدیجہ معظمہ ،سیدہ ،طیبہ،طاہرہ، مخدومۂ کونین حضرت فاطمہ الزہراء کی ذات عالیہ ہے جو ’’ھَدْیَۃُالْمَنّانْ وَالْکَوْثَرْ اَلْقَیّمْ فِیْ الْقُرْآن ‘‘ ہے جو اللہ کی طرف سے رسول اللہ کے لئے ہدیہ ہے ،جوخدا کا رسول کے لئے تحفہ ہے ۔کُل کائنات دے کر اللہ رب العزت نے جس عظیم ہستی کے لئے لفظ عطا استعمال فرمایا ہے وہ سیدۃالنساء العٰلمین کی ذات والا صفات ہے۔اللہ رب العزت نے جب اس لفظ کوثر کو مجسم فرمایا تو صورت فاطمہ   میں سامنے آیا اور جب فضائل و خصائل زہراء کو سمیٹا تو الکوثرکا نام دیا۔ طیبہ،طاہرہ،عابدہ،زاہدہ،بنت خیرالوریٰ،سیدہ فاطمہ  صالحہ،راکعہ،ساجدہ،نور شمس الضحیٰ،سیدہ فاطمہ 

راضیہ،مرضیہ،صائمہ،عاصمہ،نیرہ،انورہ،ناظمہ،ناصرہ زاکیہ،ازکیہ،اکرمہ،اعظمہ،عکس ظل کاملہ،اکملہ،صادقہ،اصدقہ،عالمہ،فاضلہ،راحمہ،راشدہشاہدہ،شافعہ،قاسمہ،آمنہ،عذراالنساء،ہادیہ،مہدیہ،جیدہ،ناصحہ،مکیہ،مدنیہ،قرشیہ،سرورہمشفقہ،محسنہ،ذاکرہ،زاہرا،حافظہ،حامدہ، فاطمہ قائمہ،دائمہ،ماحیہ،ماجدہ،خازنہ،حاکمہ،صابرہ،شاکرہحاذقہ،قائدہ،احسنہ،افضلہ،وارثہ،پارسا،سیدہ فاطمہ واعظہ،واصفہ،شافیہ،کافیہ،رہبرہ،فائقہ،واقفہ،عارفہ عالیہ،اشرفہ،قاطعہ،ساطعہ،عاقلہ،اطہرہ،سیدہفاطمہ امجدہ،اجملہ،مخلصہ،تارکہ،ثابتہ،ثاقبہ،خاشعہ،خالدہ ان کے القاب صائم ہوں کیسے بیاں،خرد سے ماوریٰ سیدہ فاطمہ 

اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ:

ہر تحفۂ ایزدی ، اللہ رب العزت نے اپنے رسول کے لئے خودروانہ فرمایامگر اس عظیم الشان تحفہ کو عطا کرنے کے لئے پیارے مصطفٰی کو عرش علیٰ کی دعوت دی۔شب معراج، مہمان ربانی فردوس بریں کی سیر کو تشریف لے گئے اور قصر ام المومنین خدیجہ الکبریٰ میں داخل ہوئے ۔قصر خدیجہ کا معائنہ فرماتے ایک نورانی درخت پر لگے سیب پر آپ کی نظر مبارک ٹھہری جسے دست قدرت نے آمد مصطفٰی سے تین لاکھ سال پہلے خلق کیا تھا۔حکم الٰہی پر آپ نے وہ نورانی سیب تناول فرمایا اور حجاب قدرت سے نور عصمت ،صلب رسالت میں منتقل ہوا۔واپس تشریف لائے تو اس تحفۂ خداوندی کو محبوب زوجہ خدیجہ الکبریٰ کی آغوش محبت کی زینت بنایااورعطائے الٰہی اور خدیجہ طاہرہ نے مل کر رحل رسالت پر قرآن فاطمہ نازل کر دیا۔

سیدہ طاہرہ 20جمادی الثانی،5نبوی ،17مارچ 614ء ،بروزجمعہ المبارک ،قصر خدیجہ میں جلوہ فرما ہوئیں۔ نور زہراء کا ظہور ہوا تو زمیں سے لے کر آسمان تک ذرہ برابر جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں اس نور مبارکہ کی تجلی نے روشنی نہ پھیلائی ہو۔آپ خیر کثیر کا مصدر ہیںاور جہاں جہاں خیر کثیر کا ذکر ہوا ہے وہ اللہ رب العزت نے در زہرا سے صادر فرمایا ہے۔آپ کا اسم گرامی ذات قدرت نے ’’فاطمہ‘‘رکھا۔آپ اہل سماء میں’’منصورہ ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہیں کیوں کہ اللہ رب العزت نے آپ کو نصر اللہ قرار دیا ہے۔

 شہر مدینہ میں ترویج علم میں بی بی فاطمہ زہرا کا کردار 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم اپنی بیٹی کی تربيت کے لئے اپنی تمام تر كوششيں بروئے كار لائے یہاں تک کہ وہ صنف نسواں كے لئے نمونہ عمل بنیں۔ آپ نے اپنی بيٹی كی اس طرح تربيت كی کہ حضرت فاطمہ ؑ ،سيدۃ نساء عالمين كے لقب کی مستحق بنیں۔ آپؑ کے سارے کمالات صرف چند فضیلتوں پر منحصر نہیں کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور علی ؑ کی زوجہ اور حسنین ؑ کی ماں ہیں، بلکہ آپ میں بہت سے کمالات تھے جن کی وجہ سے آپ مذکورہ فضیلتوں کی مالکہ بنیں، آپ میں کچھ ایسے کمالات تھے جنہوں نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ ان تین نسبتوں (دختر رسول، ہمسر علی و مادر حسنین )بنیں ۔ شیعہ سنی کتابوں میں آپؑ کی عظمت و فضلیت میں بہت سی روایات ملتی ہیں ۔آپ کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ رحمت للعالمین نے آپ کو (سیدة نساءالعالمین) عالمین کی عورتوں کے لئے سردار قرار دیا

 

   

جمعہ، 23 فروری، 2024

حضرت"امام مہدی (عج)"ولادت با سعادت


 اللہ رب العزت نے چمنستان نبو ت میں جب اپنے محبوب،باعث تخلیق کائنات ،فخر موجودات کی بیٹی کے گھر میں پہلا  مولود امام حسن علیہ السّلام کی صورت اتارا اورعلی علیہ السّلام نے اپنے صاحبزادے حسن کی طرف دیکھا اور فرمایاکہ میرا یہی بیٹا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کہا،   میرے اسی فرزند کے پشت سے ایک  امام پیدا ہوگا جس کا    نام لوح میں لکھا جا چکا ہے، وہ اخلاق اور عادات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے   مشابہ     ہوگا  - آپ امام کی پیش گوئ کے مطابق- آپ امام زمانہ  255 ہجری میں پیدا ہوئے اور بروائت پانچ یا چھ برس کی عمر میں پردہ ء غیب میں چلے گئے اگر آپ کو بھی  ظاہری حیات ملتی تو پچھلے گیارہ اماموں کی مانند شہید  کر دئے جاتے اس لئے تب سے لے کرآج تک غیب کے پردے میں ہیں،جب قیامت قریب ہو گی تب آپ اہل دنیا پر ظاہر ہو کر اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آپ کا سب سے مشہور لقب "مہدی" ہے۔ انہیں "امام مہدی (عج)" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت مبارک: امام زمانہ (عج) عباسی خلیفہ معتمد کے دور میں 15 شعبان 255 ہجری کو سامرہ میں پیدا ہوئے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے  کئ ہزار روٹیاں اور  کئ  ہزارپکا ہوا  گوشت تقسیم کیا اور تین سو بھیڑ یں  عقیقہ کے طور پر ذبح کئے۔

اپنے والد کی شہادت کے وقت امام زمانہ علیہ السلام کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن میں نبوت عطا فرمائی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارہ میں اپنا رسول بنایا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عمر کے امام کو چھوٹی عمر میں امامت کا منصب عطا فرمایا۔ اس نے کلام کی فصل کو برکت دی اور اسے پوری دنیا کے لیے اپنا ثبوت اور نشان قرار دیا۔ "انتظار امام مہدی" کے عنوان سے لکھے گئے باب میں لکھا ہے کہ اسلام میں امام مہدی (ع) اور ان سے متعلق تمام امور پر ایمان لانے کی پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت اور شیعہ کے نزدیک قابل اعتماد احادیث نبوی موجود ہیں۔   ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ آخری وقت میں اہل بیت میں سے مہدی نام کی ایک شخصیت ظہور کرے گی جو دین کی مدد اور حمایت کرے گی اور عدل و انصاف کی بات کرے گی۔  وہ پوری دنیا پر حکومت کرے گی اور اسے انصاف سے بھر دے گی 

غیبت صغری: اس پہلی غیبت میں امام مہدی علیہ السلام چند خاص لوگوں کے علاوہ تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور ان کا شیعوں سے رابطہ اپنے نمائندوں اور سفیروں کے ذریعے تھا۔ سفیر شیعہ خطوط امام مہدی تک پہنچائے گا۔ امام مہدی (عج) کے سوالات اور خطوط کے جوابات متعلقہ لوگوں تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ذمہ داری تھی۔ مختلف احادیث، تاریخی، مذہبی منابع اور دعاؤں اور زیارتوں میں شیعوں کے بارھویں امام آل رسول کو بہت سے القابات اور کنیتوں سے متعارف کرایا گیا ہے۔محدث نوری نے اپنی کتاب نجم الثقیب میں تقریباً 182 نام اور القاب ذکر کیے ہیں۔ محدث نوری نے یہ نام اور القاب ذکر کیے ہیں: مہدی، قائم، بقیع اللہ، منتقم، مواد، صاحب الزمان، خاتم الوصیہ، منتظر، حجت اللہ، منتقم، احمد، ابوالقاسم، ابو صالح، خاتم الائمہ، خلیفۃ اللہ، صالح، صاحب الامر۔ . محدث نوری النجم الثقیب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے تمام معتبر ناموں اور القابات کو جمع کیا ہے۔ اسی طرح نام نامہ حضرت مہدی (ع) نامی کتاب میں 310 ناموں اور القابات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بارہویں امام (ع) کے نام اور القاب بھی اہل سنت کے منابع میں نقل ہوئے ہیں

امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کو عام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ . نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "صاحب الامر کی ولادت مخلوق سے پوشیدہ ہے، اگرچہ وہ ظاہر ہو جائے، پیدائش بھی مخفی ہے تاکہ کوئی ان کی بیعت نہ کرے۔" ولادت کو خفیہ رکھنا تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت کو بھی اس لیے خفیہ رکھا گیا تھا کہ بادشاہ کے ہاتھوں ان کے قتل ہونے کا اندیشہ تھا۔ یا قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات 7 تا 13 میں موسیٰ بن عمران کی ولادت کی خوشی کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی پیدائش کو خفیہ رکھا گیا تھا۔امام زمانہ زیارت-آپ پر سلام ہو جو خدا کی زمین میں اس کی حجت ہیں آپ پر سلام ہو جو خدا کی مخلوق میں اس کی آنکھ آپ پرسلام ہو جو خدا کے وہ نور ہیں جس سے ہدایت چاہنے والے ہدایت پاتے ہیں اور جس سے مومنوں کو کشادگی ملتی ہے آپ پر سلام ہو جو نیک طینت ڈرنے والے ہیں - آپ پر سلام ہو اے خیر خواہ و سرپرست آپ پر سلام ہو اے کشتی نجاتہیں  آپ پر سلام ہو اے چشمہ حیات آپ پر سلام ہو خدا کی رحمت ہو آپؑ پر اورآپکے پاک و پاکیزہ اہل بیتؑ پر-

 آپ پر سلام ہو خدا اس امر کے ظہور اور نصرت میں جس کا وعدہ اس نے آپ سے-کیا ہے آپؑ پر سلام ہو اے میرے سردار میں آپ کا غلام ہوں آپ کے آغاز و انجام سے واقف ہوں میں خدا کا قرب چاہتا ہوں آپ کا اور آپکے خاندان کے وسیلے سے- اور انتظار کرتا ہوں آپکے ظہوراورآ پکے ہاتھوں حق کے ظہور کا اور خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ محمد و آل محمد پر رحمت فرمائے-اور آپکے سامنے شہید ہونے والے آپکے دوستوں میں سے قرار دے۔ اے میرے آقا اےصاحب زماںؑ آپ پر اور آپؑ کے اہل بیتؑ پر خدا کی رحمتیں ہوں۔ یہ جمعہ کا دن ہے جوآپؑ کا دن ہے جس میں آپؑ کے ظہوراور آپؑ کے ذریعے مومنوں کی آسودگی کی توقع ہے اور آپ کی تلوار سے کافروں کے قتل کی امید ہے- اور اےمیرے آقا میں آج کے دن آپ کی پناہ میں ہوں اور اے میرے آقا آپ کریم اور کریموں کی اولاد سے ہیں-اور مہمان رکھنے اور پناہ دینے پر مامور ہیں پس مجھے مہمان کیجیے اور پنا ہ دیجئے۔ آپ اور آپ کے پاک و پاکیزہ اہلبیتؑ پرخدا تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔سید بن طاؤس کہتے ہیں میں اس زیارت کے بعد اس شعر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور امام زمانہ ﴿عج﴾ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوںنزیلک حیث ماا تحھت رکابی وضیفک حیث کنت من البلاد میری سواری مجھے جہاں بھی لے جائے میں آپ ہی کا مہمان ہوں اور شہروں میں سے جس شہر میں رہوں وہاں بھی آپکا مہمان ہوں


 

 

گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات

 

گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات

کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان گندھارا آرٹ ایک ثقافتی اشتراک ہے، جس کا ارتقاء وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔ گندھارا آرٹ دراصل یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت فروزاں نظر آتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں بھی اس کے آثار ملتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں دوہزار سال پرانا مانکیالہ اسٹوپا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ڈبلیو ایف سیرو (W F Cero) کی کتاب ’’گندھاراکی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلی ہوئی گندھارا تہذیب کی آخری سرحد مانکیالہ کا اسٹوپا تھی۔

گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات موریاعہد سے گپتاخاندان کے عروج کے زمانے میں فن سنگ تراشی کے نئے دبستان وجود میں آئے۔ متھرا کے مجسموں کی یہ خصوصیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوتم بدھ کو انسانی شکل (مجسمہ) میں پیش کیا گیا، جو مدتوں مقبول رہا۔ اس فن میں گندھارا اسکول نے سب سے زیادہ ترقی کی، چنانچہ بر صغیر کے اکثر علاقوں میں گندھارا آرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے نمونے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے بعض مقامات پر بھی ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔  تمام نمونے گوتم بدھ کی زندگی یا بدھ مذہب کی روایات پر مشتمل ہیں۔ گندھارا فن کے سب سے قابل تعریف نمونے ہمیں گوتم بدھ یا بدہستوا کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ گندھارا آرٹ نے کشن حکمرانوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ یہی سبب ہے کہ یہ آرٹ چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ مشرقِ بعید تک پہنچ گیا تبھی ان علاقوں کی تہذیب پر ہمیں گندھارا آرٹ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ ٹیکسلا کے دھرم راجیکا کے اسٹوپے میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔اسٹوپے-گوتم بدھ کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج عام ہو گیا ۔یہ روایت مشہور ہو گئی کہ گوتم بدھ نے چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ، جہاں بدھ پیدا ہوئےتھے۔ دوسرا گیا کے قریب درخت، جس کے نیچے اُنہیں گیان حاصل ہوا تھا۔ تیسرا بنارس کا ہرن باغ، جہاں اُنھوں نے مذہب کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی۔ چوتھا کشی نگر، جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔

 اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا، اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے۔ ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے گئے، ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بدھ راہب مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے وہار (مندر) بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی گئی۔ گوتم بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی، اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کروا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک 84ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی، چنانچہ ان اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپے مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میں پتھریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں، جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔منظم شہری تہذیب صوابی، مردان روڈ سے ایک سڑک اسوٹا شریف اور شیوکلی کی طرف جاتی ہے، جہاں سے ایک سڑک نوگرام گائوں کی طرف جاتی ہے۔ نوگرام کے ملحقہ پہاڑوں پر رانی گٹ بدھ دور کی دنیا کی بڑی تہذیب ہے۔ یہ کھنڈرات بلند و بالا پہاڑ پر واقع ہیں جس پر پہنچنے کے لیے جاپان ،یونیسکو اور حکومت پاکستان کے مشترکہ تعاون سے سیڑھیاں اور ریلنگ تعمیر کر دی گئی تھی۔ رانی گٹ کھنڈرات 168کنال رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں جس تک پہنچنے کے لیے3540فٹ کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سطح زمین سے اس کی اونچائی 900فٹ ہے۔ بڑی بڑی سیاہ چٹانوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ رانی گٹ کے جنوبی حصہ میں سنگ تراشی ہواکرتی تھی۔

 مورتیوں کے لیے پتھر اونٹوں کے ذریعے لائے جاتے تھے۔ پہاڑ کھود کر ایک کمرہ بھی بنایا گیا تھا جہاں سنگ تراشی کا ماہر بیٹھا کرتا تھا۔ گوتم بدھ کے پیروکار یہاں سے تعلیم حاصل کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے مذہب کی تعلیم دینے جاتے تھے۔ کھنڈرات کے داخلی راستے میں ایک بورڈ پر رانی گٹ کی مختصر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ سائوتھ سائیکلر بلڈنگ ایریامیں بدھ کے بڑے اسٹوپے کے ساتھ لاتعداد چھوٹے چھوٹے اسٹوپے ہیں۔ مشرق کی جانب چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن پر چھت نہیں ہے۔ شاگردوں کے بیٹھنے کے لیے دیواروں کے ساتھ نشست گاہیں بنائی گئیں۔ یہ کمرے ایک ساتھ تعمیر کیے گئے تھے۔ قریب ہی سات آسمانوں اور زمین کے فلسفہ کو فنِ سنگ تراشی میں پیش کیا گیا ہے۔ گندھاریوں کا پہلا تذکرہ رگ وید میں ایک ایسے قبیلے کے طور پر ملتا ہے جس کی اچھی اون والی بھیڑیں ہوتی ہیں۔گندھارا ایک قدیم ہند آریائی تہذیب تھی جس کا مرکز موجودہ شمال مغربی پاکستان اور شمال مشرقی افغانستان کے کچھ حصوں سمیت تقریباً شمال مغربی برصغیر کے مضافات میں تھا۔ گندھارا کے علاقے کا مرکز وادی پشاور اور وادی سوات تھے،

 "گریٹر گندھارا" کا ثقافتی اثر دریائے سندھ کے پار پوٹھوہار میں ٹیکسلا کے علاقے تک اور مغرب کی طرف افغانستان کی وادی کابل تک پھیلا ہوا تھا، اور شمال کی طرف قراقرم کی حد تک تھا۔ گندھارا قبیلہ، جس کے نام پر اس تہذیب کا نام رکھا گیا ہے،بارہ سے پندرہ سو سال قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے، رگ وید میں اس کا ذکر ہے ۔ اس خطے کا ذکر زرتشتی اوستا میں کیا گیا ہے، کہ پر چھٹا سب سے خوبصورت مقام ہے۔ زمین اہورا مزدا نے بنائی۔گندھارا کا ذکر رامائن اور مہابھارت میں کثرت سے ملتا ہے۔ نام کی اصل سنسکرت کے لفظ گندھ سے ہے، جس کا مطلب ہے "عطر" اور "ان مصالحوں اور خوشبودار جڑی بوٹیوں کا حوالہ دینا جن کی مقامی باشندے تجارت کرتے تھے۔ گندھارا وہ خطہ تھا جو اب وادی پشاور، مردان، سوات، دیر، مالاکنڈ ، باجوڑ اور ٹیکسلا پر مشتمل ہے۔ اسی خطے میں  اتھرو وید میں، گندھاریوں کا ذکر مجاونت، آنگیوں کے ساتھ ملتا ہے۔ اور مگدھی ایک تسبیح میں بخار سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بیمار آدمی کے جسم کو چھوڑ دیں اور اس کے بجائے ان مذکورہ قبائل میں چلے جائیں۔ فہرست میں شامل قبائل سب سے زیادہ سرحدی قبائل تھے جن کو مدھیہ دیش میں جانا جاتا تھا، مشرق میں آنگیا اور مگدھی اور شمال میں مجاونت اور گندھاری۔ 6 ویں صدی قبل مسیح کے بعد تک، فارسی سلطنت کے بانی سائرس نے میڈیا، لیڈیا اور بابل کی فتح کے فوراً بعد گندھارا کی طرف کوچ کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ سائرس نے صرف پشاور کے آس پاس سندھ کے پار سرحدی علاقوںکو فتح کیا تھا جو گندھارا سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پکوساٹی ایک طاقتور بادشاہ رہا جس نے باقی گندھارا اور مغربی پنجاب پر اپنی حکمرانی برقرار رکھی۔ 327 قبل مسیح میں، سکندر اعظم نے گندھارا کے ساتھ ساتھ فارسی سلطنت کے ہندوستانی علاقوں کو بھی فتح کیا۔ سکندر کی مہمات کو اس کے درباری مورخین اور اس واقعے کے کئی صدیوں بعد دوسرے تاریخ نگاروں نے ریکارڈ کیا ۔  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر