یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب ٹی بی کا مرض لاعلاج ہوتا تھا اور مریض خون کی الٹیاں کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا ایسے میں ایک ماں بے بسی کے عالم میں دنیا چھوڑ گئ اور اس کے بیٹے نے سینی ٹوریم بنانے کا ارادہ کیا ۔ 1997ءمیں اسے گلوبل ٹی بی یونٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اورسارک ٹیوبرکلوسزسینٹر، نیپال نے ٹی بی کے علاج معالجے کے ضمن میں، سینٹر آف ایکسی لینس قراردیا۔ 2003ءمیں جب ڈاﺅ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیاگیا، تو اوجھا کو اس کا کیمپس بنادیاگیا۔ 1931 میں جب سکھرام داس نے حکمت کی اعلی ڈگری حاصل کی تو کراچی کے باسیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جس میں شہر میں بڑھتے ہوئے ٹی-بی کے مرض پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس مرض کے خلاف دونوں بھائیوں کی خدمات کو بھی بیحد سراہا گیا تھا۔ اسی تقریب کے موقع پر سکھرام داس اوجھا نے اپنے مرحوم بھائی دیپ چند اوجھا کے نام سے یہ تپ دق گھر (سینی ٹوریم) قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اوجھا سینی ٹورییم ٹی۔بی کے مریضوں کے لئے کراچی میں 1942 میں قائم ہوا۔ ابتداء میں یہ اٹھاون سنگل اور سات ڈبل کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سینیٹوریم تھا جو اُس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر مضافات میں ایک پُرفضا اور سرسبز مقام (موجودہ صفورہ گوٹھ) پر قائم کیا گیا تھا۔ جس کے لئے 150 ایکڑ زمین اور 50 ہزار روپے نقد شہر کے مخیر ہندو خاندان "اوجھا" نے ہی عطیہ کیے تھے۔
اس کا پورا نام "دیپ چند اوجھا سینی ٹورییم" ہے۔ دنیا اُس وقت دوسری عالمی جنگ کی دہشت سے گزر رہی تھی۔ جس میں برطانیہ ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اور ہماری سرزمین پہ برطانوی راج مسلط تھا۔ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً وہ دور ایمرجنسی کا تھا اس لیے کچھ عرصے کے لیے اس سینی ٹوریم کو جنگی قیدیوں کے لیے بطور کیمپ، پولینڈ کے یہودیوں کے لیے جو عالمی جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور تھے پناہ گزین کیمپ اور امریکی فوج کے اسٹیشن کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا تھا۔ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب حالات سازگار ہو گئے تو اکتوبر 1946 میں اس کو دوبارہ سے ٹی بی کے مریضوں کے علاج معالجے اور ان کے داخلے کے لیے کھول دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً اٹھارہ سال بعد 1965ء میں یہاں پر پانچ نئے وارڈز جن میں 200 بستروں کی گنجائش تھی اور لیبارٹری قائم کر کے اسے باقاعدہ ہسپتال کی شکل دے دی گئی۔ 1970 میں اوجھا سینیٹوریم کو صوبہ سندھ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ 1973
میں اس کو "سینیٹوریم" سے ترقی دے کر "انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز" کا درجہ دیا گیا جس میں ٹی-بی کی بیماری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا آغاز ہوا۔ 1994 میں "کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان" کی طرف سے یہاں پر کروائے جانے والے ڈپلومہ کورسز کو تسلیم کیا گیا۔ 1997 میں گلوبل ٹی-بی یُونِٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جینیوا، سارک، ٹیوبرکلوسز سینٹر کھٹمنڈو، نیپال نے "ٹی-بی" کی روک تھام اور اس کی تعلیم کے لیے کراچی کے اس انسٹیٹیوٹ کی خدمات کو بیحد سراہا۔ دسمبر 2003 میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تو "اوجھا" کو اس کا "کیمپس" بنا دیا گیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اب تک آٹھ ہزار سے زائد اسٹوڈنٹس اور بیس دوسرے انسٹیٹیوٹ کے ریزیڈنٹس کو بھی تعلیم و تربیت دے چکا ہے۔ یہاں پر اس وقت 850 فیکلٹی ممبرز کے علاوہ تقریباً تین ہزار کے قریب کارکن کام کر رہے ہیں۔"حکمت" اوجھا خاندان کا خاندانی پیشہ تھا۔ تاریخی طور پر اس خاندان کا تعلق ٹھٹھہ سے تھا۔
ٹھٹھ ماضی میں حکمت کے حوالے سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ سکھرام داس اوجھا کا شفا خانہ میری ویدر ٹاور کے قریب لکھمیداس اسٹریٹ میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خاص طور پر تپِ دق (ٹی بی) کے علاج کے ماہر تھے۔ طبی پیشے میں دلچسپی رکھنے والے افراد ان سے حکمت کی تعلیمات کے لیے رجوع کرتے تھے۔ یہ اُس زمانے کے ایک ماہر حکیم تھے-سینی ٹوریم کی توسیع-ٹی بی مرکز کے لیے حکومت نے دیھ صفوراں میں 127 ایکڑ پر محیط پلاٹ بطور عطیہ دیا۔ یونائیٹڈ مشن ٹیوبرکلوسز سینی ٹوریم آف معدناپالی، آندھرا پردیش کے میڈیکل سپرینٹینڈنٹ ڈاکٹر فریموٹ مولر نے اس کے ڈیزائن میں مدد فراہم کی اور پھر 16 جون 1939ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر نہال داس وزیرانی نے دیپ چند ٹی اوجھا کے نام پر بننے والے ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ عمارت کی تعمیر کا کام ویلجی ہرکا پٹیل اینڈ سنز کو سونپا گیا۔20 کمروں پر مشتمل ہسپتال، 3 کمروں پر مشتمل انتظامی بلاک، 2 رہائش گاہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا وید (یعنی آیور وید کے معالج) کے لیے بنائی گئیں، عملے کے لیے (ڈاکٹر کائی خوشرو اسپینسر کے اہل خانہ کی جانب سے عطیے کے طور پر) 4 کوارٹرز اور خادمین کے لیے 30 کمروں پر مشتمل بلاک کا تعمیراتی کام انجام دیا گیا۔ کمپلیکس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا جس میں مریضوں کے لیے 64 کاٹیجز ایک دوسرے سے 80 فٹ کے فاصلے پر موجود تھے، ان میں سے چند کاٹجز 2 کمروں پر مشتمل تھے۔ہر ایک یونٹ میں سونے کا کمرا، باورچی خانہ، لیٹرین اور برآمدہ بنا ہوا تھا۔ تمام کاٹجز عطیات کے ذریعے تعمیر کیے گئے تھے اور ہر ایک کاٹج پر ایک ہزار 400 روپے کی لاگت آئی -برآمدے میں عطیہ دینے والے اپنی تختی نصب کرتے۔ ایک تختی پر (انگریزی زبان میں) لکھا ہے کہ 'خان بہادر دادا بھائی منصف کی پاکیزہ یاد میں جنہوں نے 19 فروری 1910ء کو وفات پائی۔یہ عطیہ ان کی اہلیہ گل بانو ڈی منصف کی جانب سے دیا گیا'۔
ایک دوسری تختی پر رقم ہے کہ، 'بچو بائی نادرشا ایڈولجی ڈنشا کی پیاری یاد میں یہ ان کے بھائیوں کی جانب سے تعمیر کروایا گیا جو ان کی جدائی کو بھول نہیں پائے'۔ ایک تختی پر یہ تحریر ہے کہ، 'یہ سیٹھ جیون جی کریم جی مرسی والا نے اپنی زوجہ بائی امتل بائی کی یاد میں تعمیر کروایا'۔سیٹھ ڈونگرسی جوشی نے تفریحی سرگرمیوں کے لیے ہال عطیے کے طور پر تعمیر کروایا۔ سر ڈیوڈ سسون نے برقی جنریٹر فراہم کیا، جو پونا سے منگوایا گیا تھا اور پاور ہاؤس تعمیر کروایا۔ سکھ رام داس نے سینی ٹوریم میں اپنی وقتاً فوتاً رہائش کے لیے اپنے پیسوں سے بنگلہ تعمیر کروایا۔ انہوں نے ادارے کے اعزازی منیجرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ 8 جنوری 1942ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ لنلتھگو نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔ بعدازاں اس میں مسافر خانہ اور چھوٹا گرجا گھر کا اضافہ کیا گیا-دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج نے اس عمارت کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے امریکی آرمی کا بیس بنانے کے ساتھ جنگی قیدیوں اور پولش مہاجرین کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا۔ اس عمارت کو دوبارہ 1946ء میں دیپ چند ٹی اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم کے طور پر بحال کردیا گیا۔