حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا اس کو بھی شہید کر دياکا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا س ا
کوفیوں کے خطوط امام حسین کے نام سے مراد کوفیوں کے وہ خطوط ہیں جو کوفہ کے رہنے والوں نے معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کے بعد، یزید کے تخت نشین ہونے پر فرزند رسول حضرت امام حسین کو لکھے ۔کوفہ کے بزرگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد یہ خطوط اس وقت امام حسین کو لکھے جب آپ مکہ میں قیام پزیر تھے اور ان خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی نیز ان خطوط میں اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ان خطوط کے لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور رفاعہ بن شداد جیسے کوفہ کے اشراف اور شیعہ شامل تھے۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے کوفہ میں آنے کے بعد کوفہ کے لوگوں پر نہایت سختی گیری کی اور کوفہ میں خوف وہراس کو پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے امام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے نتیجے میں واقعۂ کربلا رونما ہوا اور فرزند رسول کو ان کے اہل خانہ اور ان کے اصحاب کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے امام حسینؑ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم حسین بن علی علیہما السلام کے نام، سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور شیعیان و مؤمنین و مسلمینِ کوفہ کی طرف سے۔سلام ہو آپ پر اور ہم آپ کی طرف حمد و ثناء کرتے ہیں اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے امّا بعد، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے مختص ہیں جس نے اس امت پر حملہ کیا اور خلافت کو غارت کر دیا اور امت کے اموال کو غصب کر دیا اور ان کی رضا کے بغیر ان کی فرمانروائی پر قبضہ کیا، بعد ازاں اس نے اس امت کے نیک انسانوں کو قتل کر دیا اور اشرار اور برے انسانوں کو مسلط کر دیا اور اللہ کے مال کو ظالموں اور صاحبان ثروت کے درمیان بانٹ دیا۔ پس دور رہے اللہ کی رحمت سے جس طرح کہ قوم ثمود خدا کی رحمت سے دور ہو گئی۔بے شک ہمارے اوپر کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، پس ہماری طرف آئیں شاید اللہ آپ کے واسطے سے ہمیں حق کے گرد متحد کرلے اور نعمان بن بشیر امارت کے محل میں ہے اور ہم نہ تو جمعہ کے دن اس کے ساتھ نماز بجا لاتے ہیں اور نہ ہی عید میں اس ک
ے ساتھ باہر نکلتے ہیں؛ اور جب بھی خبر ملے کہ آپ ہماری طرف
آئے ہیں تو ہم اس کو شہر سے نکال باہر کریں گے حتی کو اس کو شام کی طرف روانہ کریں۔
ان شاء اللہ۔ انھوں نے خط عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وائل کے ہاتھوں
روانہ کیا ۔ وہ تیزرفتاری سے روانہ ہوئے
حتی کہ 10 رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ پہنچے۔پہلے خط کے دو روز بعد اہلیان کوفہ نے قیس
بن مسہر صیداوی، عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی اور عمارہ بن عبد سلولی کو امام حسینؑ
کے پاس روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں تقریبا 150 خطوط ارسال کیے۔ ان خطوط میں بعض ایک
ایک شخص کی طرف سے تھے اور بعض دو اور چار افراد نے مل کر لکھے تھےدوسرا خط
بھجوانے کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو امام حسینؑ کی طرف
روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:بسم اللہ
الرحمن الرحیم-یہ خط ہے حسین بن علی کے نام، آپ کے پیروکاروں کی جانب سے جو مؤمنین
اور مسلمین میں سے ہیں۔ہماری طرف آئیے کیونکہ لوگ آپ کا
انتظار کر رہے ہیں اور سب آپ کے آنے پر متفق ہیں، ! والسلام۔
چوتھا خط-شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے امام حسینؑ کو خط لکھا کہ اغات ہرے بھرے ہیں اور پھل پکے ہوئے ہیں، پس جب بھی ارادہ کریں ہماری طرف آجائیں کیونکہ یہاں تیار سپاہی آپ کی نصرت کے لیے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ والسلام۔کوفیوں کے قاصدین سب امام حسین ؑ کے ہاں جمع ہوئے اور آپؑ نے سب کے خطوط پڑھ لیے اور قاصدوں سے لوگوں کا حال پوچھا۔ اور پھر ایک خط لکھا اور ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں ـ جو کوفیوں کے آخری قاصد تھے ـ، اہل کوفہ کے لیے روانہ کیا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین
بن علی کی طرف سے مسلمین اور مؤمنین کی جماعت کے نام۔اما بعد، ہانی اور سعید
تمہارے خطوط لے کر میرے پاس آئے اور یہ دو افراد تمہارے آخری ایلچی تھے جو میرے
پاس آئے اور میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اور جس چیز کا تم نے ذکر کیا
اور تمہاری اکثریت کا بیان کہ: ہمارا کوئی امام نہیں ہے پس ہماری طرف آؤ تاکہ شاید
خداوند متعال تمہارے سبب ہمیں حق کے گرد متحد کر دے۔ اب میں اپنے بھائی اور چچا
زاد اور میرے خاندان کے قابل اعتماد فرد کو تمہاری جانب روانہ کررہا ہوں؛ چنانچہ،
اگر وہ میرے لیے لکھے کہ تمہاری اکثریت کی رائے اور تمہارے دانا افراد اور اکابرین
کی رائے مطابقت رکھتی ہے اس چيز کے ساتھ جو میں نے تمہارے خطوط میں پڑھا، بہت جلد
تمہاری طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ میری جان کی قسم! امام کوئی بھی نہیں ہے
سوا اس فرد کے جو کتاب خدا کے مطابقت حکم کرے اور فیصلہ کرے اور عدل و انصاف کی
خاطر قیام کرے اور دین حق کا پابند ہو اور اور اپنے آپ کو اللہ کے کلام اور اس کے
احکام کا پابند کر دے۔ والسلام۔اس کے ساتھ اما م عالی مقام نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنی جانب سے سفیر کی حیثیت سے روانہ کیا تاکہ وہ تمام حالات سے آگاہ کریں اور یہ ابتداء تھی کربلا کے سانحہ کو وقوع پذیر ہونے کی