منگل، 18 جولائی، 2023

معجزاتی کُرتا -حضرت امام حسین علیہ السّلام

 

 

شروعات محرّم-روائت ہے کہ امام حسین علیہ السّلام نے روز عاشورہ جو کرتا زیب تن کیا ہوا تھا یہی کرتا حضرت جبرئیل امیں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اس وقت پہنایا تھا جب نمرود نے آپ علیہ السّلام کو آگ میں پھینکنے کے لئے منجنیق میں ڈالا تھا حضرت ابراہیم علیہ السّلام اس وقت منجنیق کے گو پھن میں گھوم رہے تھے-اور اسی کرتے کے اعجاز سے آگ گل و گلزار ہو گئ تھی-پھر دوسری مرتبہ یہی کرتا حضرت یوسف علیہ السّلام کوحضرت جبرئیل امیں نے  اس وقت پہنایا تھا جب حضرت یوسف علیہ السّلام کو ان کے بھائیوں نے  کنوئیں میں پھینکا تھا-شہادت اما م حسین علیہ السّلام کے بعد یہ کرتا حضرت جبرئیل امیں عرش بریں پر لے کر چلے گئے اب یہ کرتامحرم کی چاند رات کو فرشتے بحکم پروردگار آسمان کے افقی کنارے پر آویزاں کر دیتے ہیں اورتمام کائنا ت غم حسین میں سوگوار ہو جاتی ہے

محرم کا مہینہ ہمارے سال کا اآغاز بھی ہے اور حزن و ملال کی ابتداء بھی ۔یہ مہینہ اپنے اندر جہاں‌بے تحاشہ غم و اندہ رکھتا ہے وہیں اس مہینہ میں ہزار ہا سبق بھی پوشیدہ ہیں ۔ اللہ اور اسکے نبی کی محبت کا جاوداں سبق بھی ہے اور اٰلِ رسول کی مظلومیت اور اُن پر کئے جانے والے ظلم کی انتہاء بھی ہے ہادئ دوجہاں حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے بے حد چہیتے نواسے حضرت امام حسین علیہالسّلام نے کربلا آباد کرنے کے لئے مدینے کےچالیس گھروں کے دو سو افراد پر مشتمل بنوہاشم قبیلے کو ساتھ لیا جس میں سب سے ننّھے مسا فرعلی اصغر صرف سولہ دن کے تھےاس جنگ کا عروج 10 محرم الحرام 61ھ کو ہوا جب حق اور باطل ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکر یوں جدا ہوئے جیسے دن اور رات کا فرق عیاں ہے۔ یہاں فتح و شکست کے معنیٰ بھی بدل گئے۔ ایسا عجب معرکہ ہوا کہ ہر قسم کا اسلحہ اپنی بھرپور قوت دکھا کر بھی شکستہ رہا اور بہتا ہوا لہو شمشیر پر غالب آگیا۔

یہ ایسی جنگ تھی جس کے بظاہر فاتحین اپنے مفتوحین کے سروں سے سجے پرچم اٹھا کر اپنی فتح کا اعلان کرنے چلے لیکن انہی مقدس سروں سے متعلق کچھ بے ردا عفت مآب ہستیوں نے فتح کا اصل معنیٰ سارے جہان کو کچھ اس انداز میں سمجھانا شروع کیا کہ دیگر مخلوقات کی مانند اب انسان بھی حقیقت سے آشنا ہوتا گیا۔ اور جس کو کربلا سمجھ میں آئ اس کی قسمت یاور رہی، وہ حسین علیہ السّلام  کا عزادار بنتا گیا، اسکی زندگی میں آنے والے تمام سال آغاز سے انجام تک غمِ حسینؑ کے سمندر سے متصل ہوتے گئےنام حسین علیہ السّلام  تو ھر دور میں حق و نجات کا ،نور اور اسلام کے پیامبر کا نام ھے ۔ حسین اور حسین علیہ اسلام کی حقانیت کی اس سے بڑي دلیل کیا ھوگی کہ صاحب تاج ومعراج ، وبراق ،شافع روز محشر نے فرمایا کہ اگر حسین نہ ھوتا تو میرا نسب نہ ھوتا اور اگر میں نہ ھوتا تو حسین کا نسب نہ ھوتا ، حسین مجھہ سے اور میں حسین سے ھوں۔امام حسین علیہ السلام نے زندگی و حیات، موت و شہادت، دنیا و آخرت، عزت و شرافت، ذلت و عظمت، آزادی و اسیری، شکست و فتح، طاقت و قدرت، سعادت و سیادت اور حق و باطل کے مفاہیم کو حقیقی معانی عطا کئے اور اپنے عمل و کردار سے ان کو تاریخ میں ہمیشہ کیلئے ثبت کر دیا۔

 تاریخ میں انسانیت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ مذکورہ مفاہیم کو سطحی اور بعض اوقات برعکس سمجھنا ہے۔زندگی و حیات کیا ہے؟، امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ یعنی زندگی کا حقیقی مفہوم عزت و شرافت کے ساتھ آزاد رہنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس ظاہری زندگی کو موت سے تعبیر کرتے ہیں جو ظلم کی حمایت اور ظالموں کے خلاف قیام سے عاری ہو۔ امام حسین علیہ السلام عزت و منزلت کو ظاہری اقتدار اور دنیوی طاقت میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ تلوار پر خون کی کامیابی اور آزادی و حریت کو عزت و منزلت سمجھتے ہیں۔آپ کے ہاں شکست و فتح کا تصور بھی یکسر مختلف ہے۔ آپ انسانوں کے لشکروں اور فوجی ساز و سامان کے ذریعے دشمن کے بدن کو ختم کر ” امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ “ فتح حاصل کرنے کو کامیابی نہیں سمجھتے بلکہ آپ قلب و ذہن کو شکست دے کر اور ان میں موجود باطل نظریات کو ختم کر کے ضمیر اور وجدان کی بیداری کو فتح اور کامیابی سمجھتے ہیں۔آپ کے ہاں آزادی اور اسیری کا مطلب انسانی بدن کی آزادی یا اسکا قید و بند میں ہونا نہیں ہے بلکہ آپ قلب و نظر کی آزادی اور حریت فکر کو حقیقی آزادی قرار دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پر آزاد ہونے کے باوجود فکری اور نظریاتی طور پر خودمختار نہ ہونے کو آزادی نہیں بلکہ اسیری سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

آپ نے کربلا کے میدان میں فتح و شکست اور عزت و شرافت کے جو معیار مقرر کئے ہیں اور اسکے جو حقیقی مظاہر سامنے لائے ہیں اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں یزید اور یزیدیت کو ایسی شکست فاش دی کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی کوئی اس ظاہری فاتح لشکر کے ساتھ شامل ہونے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب آج بھی ہر باضمیر انسان “یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزاً عظیماً” کا نعرہ بلند کر رہا ہے اور اس ظاہری شکست خوردہ لشکر میں شامل ہو کر عظیم کامیابی پر فائز ہونے کیلئے بے چین ہے۔کربلا کے لق و دق صحرا میں حسینی لشکر کے تمام افراد کی شہادت اور اہل خانہ کی اسیری آج بھی کیوں نمونہ عمل بنی ہوئی ہے؟، اس سانحے میں ایسے کونسے عوامل تھے جو اسے ہر آنے والے زمانے میں روشن سے روشن تر کر رہے ہیں؟۔تاریخ میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں جنگیں ہوں گی جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ کربلا میں صرف 72 افراد کی شہادت ہوئی۔ ان 72 افراد کی شہادت میں ایسا کونسا عامل پوشیدہ ہے کہ تاریخ کا ہر باضمیر انسان ان افراد کے ساتھ شامل ہونے کو اپنے لئے باعث فضیلت سمجھتا ہے اور ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتا ہے:

 

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ۔

 

ہائے حسین علیہ السّلام

 

 

 

اظہار غم ایک فطری عمل ہے اسی طرح اظہار مسرت بھی عین فطرت ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے قرآن قریم میں متعددجگہ گریہ کے متعلق ذکر ہے  اور اس کا درجہ بلند بتایا گیا ہے۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ انسان کامل تھے ان کی سیرت ہمارے لیے شمع ہدایت ہے اور طریق زندگی سنت۔آنحضرت نے بھی گریہ فرمایا ہے صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے انبیا ء علیہم السلام جسیے حضرت آدم علیہ السلام ہابیل کی شہادت پر بہت روتے تھے اور اپنی اولاد کو وصیت فرماگئے تھے یہی معلول جاری رکھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اس لیے روتے تھے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی تھی، زیادہ نوحہ کرنے کے سبب آپکا لقب نوح ہو گیا۔یعنی زیادہ نوحہ کرنے والا، حضرت ابراہیم کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وہ بہت حلیم اور آہ کرنے والے تھے۔ـ حضرت یعقوب  کا اپنے بیٹے کی جدائی پر گریہ کرنا:حضرت یوسف علیہ السّلام  کا پورا قصہ ایک غمگین داستان کی صورت میں اول سے آخر تک بیان ہو ہے۔ جب حسد کی آگ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائیوں کے دلوں میں جل رہی تھی تو اپنے بھائی کو کنویں میں پھینک دیا اور پھٹی ہوئی قمیص کر خون لگا کر لے آئے۔ اس واقعے پر حضرت یعقوب علیہ السّلام کا متاثر ہو کر بیٹے کی جدائی پر صبح و شام گریہ کرنا حتی کہ خداوند حضرت یعقوب کی زبان سے ایسے بیان کر رہے ہیں:َقَالَ يَأَسَفَي عَلَي يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ يوسف(6): 84کہا کہ ہائے افسوس بر یوسف اور حزن و غم کی وجہ سے انکی آنکھیں سفید ہو گئی وہ بہت صبر کرنے والے تھے۔

حضرت یعقوب علیہ السّلام   بیٹے کے غم میں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ زندہ ہے لیکن پھر بھی جدائی کی وجہ سے ان کی روح اذیت و غم میں تھی۔ اپنی روح کی تسکین کے لیے خداوند کی پناہ تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیںقَالَ إِنَّمَآ أَشْكُواْ بَثِّي وَحُزْنِي إِلَي اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَاتَعْلَمُونَ.يوسفعلیہ السّلام  : 86.اپنی شکایت اور غم کو خداوند کی بار گاہ میں عرض کرتا ہوں اور جو کچھ خدا وند کی طرف سے جانتا ہوں تم لوگ نہیں جانت-اس دلیل قرآنی سے خداوند کے اولیاء پر گریہ و زاری اور ظالموں کی شکایت خداوند کی بارگاہ میں کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیرت انبیاء کہ جو بعنوان دلیل محکم و قرآنی ہے، سے اصل عزاداری کا جائز و شرعی ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ گريه حضرت يوسف علیہ السّلام- ابن عبّاس راوی ہیں  کہ:عند ما خل السجن، يبكي حتّي تبكي معه جدر البيوت وسقفها والأبواب.حضرت يوسف السّلام علیہ جب زندان میں تھے اور گریہ کرتے تھے تو زندان کے در و دیواربھی ان کے ساتھ گریہ کرتے تھے۔تفسير قرطبي، ج 9،

مام صادق عليه السلام سے نقل نقل ہوا ہے کہ :البكّائون خمسه، آدم، و يعقوب و... و أمّا يوسف فبكي علي يعقوب حتّي تأذّي به أهل السجن، وقالوا: إمّا أن تبكي نهاراً وتسكت الليل، وإمّا أن تبكي الليل وتسكت النهار، فصالحهم علي واحد منهما. واقعہ عاشورا کے شہداء کا غم منانا اور ان پر عزاداری کرنا، سنہ 61 ہجری کے اس واقعے کےفورا بعد آغاز ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے-معصومینؑ کے دور میں عزاداری -واقعۂ عاشورا کے بعد امام علیہ السّلام  پر گریہ و زاری کرنے والی ہستیوں میں سب سے پہلے آپؑ کے فرزند امام زین العابدینؑ، آپؑ کی بہن زینب بنت علیؑ اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ان الفاظ میں نوحہ کیا جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:اے میرے نانا  صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم!  پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسینؑ کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جارہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کے گرد و غبار آن پڑا ہے۔ان کے علاوہ آپ  علیہ السّلام  کی بیٹیاں اور زوجۂ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پر  اور بعدازاں کوفہ  اور پھر شام  میں عزاداری او مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ شام میں وارد ہوا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں سے جب لوگوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور یزید اور اس کے کارندوں کے ظلم و ستم کا پتہ چلا -جب اسیران کربلا کا قافلہ شام سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو امام سجاد علیہ السّلام کے حکم پر بشیر بن جذلم نے اشعار کے ذریعے اہل مدینہ کو اہل بیتؑ کی آمد کی خبر دی تو اہل مدینہ نے اہل بیت کی مصیبت میں گریہ و زاری   کی۔ اسی طرح مدینے میں موجود اہل بیت کی خواتین نے عزاداری برپا کر کے مدینے میں سوگ منائیں جن میں زینب بنت عقیل ، ام البنین  اور رباب‌ شامل ہیں ۔

امام باقر علیہ السّلام اور امام صاد ق علیہ السّلام کے دور امامت میں کمیت اسدی  اور امام رضاکے دور امامت میں دعبل خزاعی نامور شیعہ مرثیہ گو شعراء میں سے تھے جنہوں نے امام حسین علیہ السّلام کی شان میں مرثیہ خوانی کی ہے -ریان بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا کی خدمت میں حاضر ہوا۔  فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم  کی حرمت کا خیال رکھا۔ انہوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرم  کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گااے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے اور اں کے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا، جن کی روئے زمیں پر کوئی مثال نہیں تھی۔ ان کے قتل پر ساتوں زمین و آسماں نے گریہ کیا. امام  علیہ السّلام کی نصرت کے لئے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انہوں نے امام کو مقتول پایا۔ اس وقت سے یہ فرشتے آپ علیہ السّلام  کی قبر پر پریشان اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہوں گے ظہور کے وقت یہ ان کے انصار میں سے ہوں گے اور ان کا نعرہ ہوگا’’یالثارات الحسین‘‘

اے ابن شبیب ! میرے بابا نے اپنے بابا امام موسی کاظم علیہ السّلام سے اور انہوں نے اپنے جد امجد امام محمد باقر علیہ السّلام سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین علیہ السّلام  کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔اے ابن شبیب! اگر تم حسین علیہ السّلام  پر اتنا گریہ و زاری کرو یہاں تک کہ تمہارے اشک رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔اے ابن شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس عالم میں ملاقات کرو کہ تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسین علیہ السّلام   کی زیارت کرو۔اے ابن شبیب ! اگر چاہتے ہو کہ جنت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم  کے ساتھ بنے ہوئے حجروں میں رہو، تو حسین علیہ السّلام  کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو ےتمہیں امام حسین علیہ السّلام   کے ہمراہ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب ملے تو جب بھی حسین علیہ السّلام  کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کرے گا ، اللہ اسے اسی پتھر کے ساتھ روز قیامت محشور کرے گا

ہفتہ، 15 جولائی، 2023

عرق گلاب کے فوائد

 عرق گلاب کے فوائد

گلاب  کا پھول  یہ انتہائی خوبصورت، خوشبودار پھول ہوتا ہے۔  جلد کے لیے اس پھول کا عرق جادؤئی کام کرتا ہےعرق گلاب آپ کی جلد کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ یہ جلد کی دیکھ بھال کا ایک لاجواب جزو بھی ہے جو جلد کی پرو اور سکون بخش خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے۔ قدیم زمانے سے، ہی عرق گلاب  ایک مقبول خوبصورتی والا جزو رہا ہے. ہمارے یہاں زیادہ تر خواتین کو صابن سے کپڑے اور برتن دھونے کی وجہ سے ہاتھوں کی خشکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ خشکی کافی الجھن کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہوتا ہے۔ہاتھوں کی خشکی کے لیے ایک لوش بنا لیں، لوشن بنانے کے لیے چار چمچ گلیسرین اور لیموں کا رس اور آٹھ چمچ عرق گلاب مکس کر لیں۔ اس مکسچر کو کسی بوتل میں محفوظ کر لیں۔ ہر بار برتن اور کپڑے دھونے کے بعد اس لوشن کو اپنے ہاتھوں پر لگا لیں۔ اس کے علاوہ نیل پالش کے مسلسل استعمال کی وجہ سے ناخنوں کا رنگ خراب ہو جاتا ہے، ناخنوں کی قدرتی رنگت وآپس لانے کے لیے عرق گلاب اور لیموں کے رس کو مکس کر کے ان پر لگائیں۔دن بھر کام کرنے یا کمپیوٹر سکرین پر بیٹھنے کی وجہ سے آنکھوں کی جلن اور سوزش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آنکھوں کی سوزش اور جلن سے بچنے کے لیے رات کے وقت روئی کو عرق گلاب میں بھگو کر آنکھوں پر لگائیں۔ اس سے آپ کو آنکھوں کو فوری طور پر سکون ملے گا۔عرق گلاب  خوبصورتی کی مصنوعات میں بہت اہمیت، آرام دہ اور پرسکون خصوصیات کی وجہ سے شامل کیا جاتا ہے۔ اس میں جراثیم کش خصوصیات بھی موجود ہوتی ہیں اور جلد کو چمکدار بنانے کے لیے اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ 

عرق گلاب جلد کو ہائیڈریشن فراہم کرتا ہے جو کہ اس کے بہترین فوائد میں سے ایک ہے۔ آپ کی جلد فوری طور پر پر سکون، نرم اور تازہ محسوس کرے گی۔ آپ اسے براہ راست استعمال کر سکتے ہیں یا اسے اپنے چہرے کے ماسک، کریم یا لوشن کے ساتھ ملا کر اپنی جلد میں اضافی نمی ڈال سکتے ہیں۔رق گلاب  جلد کو صحت مند چمک دیتا ہے اور ہائیڈریشن میں مدد کرتا ہے۔ تازگی محسوس کرنے کے لیے، اپنی موئسچرائزنگ کریم میں تھوڑی مقدار میں گلاب کا پانی ملا کر اپنے چہرے پر لگائیں۔ موئسچرائزر آسانی سے جلد میں داخل ہو جائے گا، اسے اندر سے ہائیڈریٹ کر دے گا۔جلد کی ٹوننگ جلد کی دیکھ بھال میں ایک اہم قدم ہوتی ہے۔ ٹونر جلد سے تیل، گندگی اور مردہ جلد کے خلیات کو دور کرتا ہے۔ عرق گلاب  آپ کی جلد کے لیے بہترین ٹونر کا کام کرتا ہے۔ یہ سوراخوں کو کھولتا ہے اور پی ایچ لیول کو بھی متوازن کرتا ہے۔ یہ جلد پر تیل وائٹ ہیڈز، بلیک ہیڈز اور ایکنی کا باعث بنتا ہے۔ عرق گلاب ایسے مسائل کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ات کوعرق  گلاب کے پانی کا ایک چھینٹا جلد کو تازگی بخشتا ہے۔ رات کے وقت جلد قدرتی طور پر خود کو ٹھیک کرتی ہے۔عرق  گلاب  جلد کو تروتازہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ صبح کے وقت، آپ کی جلد ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور چمکدار نظر آتی ہے۔ گلاب کی پنکھڑیوں میں بہت سے اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں۔ وہ جلد کے خلیوں کو نقصان سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ اینٹی آکسیڈنٹس لپڈز کے آکسیڈیشن کو روکتے ہیں جو خلیات کو نقصان سے بچاتے ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں  عرق  گلاب  جلد سے اضافی تیل اور گندگی کو دور کرتا ہے، اس سے مہاسوں کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ اس میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہیں، یہ پمپلز کو بننے سے روکتا ہے۔ اپنی جلد کی دیکھ بھال کے معمولات میں گلاب کے پانی کے اسپرے کو شامل کرنا آپ کو اس دنیا میں لے جائے گا جہاں پمپلز موجود نہیں ہیں۔۔خشک جلد سب سے بدترین جلد ہوتی ہے۔ یہ آپ کی جلد کو پھیکا اور بے جان بنادیتی ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی چمک واپس لانے کے لیے خشک جلد کے لیے عرق گلاب کا استعمال کریں۔ آپ کو فوری فرق نظر آئے گا۔ اس میں ہائیڈریٹنگ خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو اسے پیاسی جلد کے لیے بہت اچھا ثابت ہوتا ہے۔۔جلد کی جھریاں آپ کو مدد کے لیے پکار سکتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑھاپا سب سے فطری عمل ہے، ہم اس سے بچ نہیں سکتے، لیکن ہم عمر کو اچھے طریقے سے بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی جلد پر عرق گلاب کا استعمال اینٹی ایجنگ خصوصیات فراہم کرتا ہے۔آ پ کے چہرے پرجھریاں اس وقت ظاہر ہو سکتی ہیں جب آپ کی جلد لچک کھو دیتی ہے یا سورج کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہوجاتی ہے۔ اسے اکثر بیوٹی پروڈکٹس میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ بڑھاپے کو روکنے والی خصوصیات فراہم کی جا سکیں۔ اضافی فوائد کے لیے آپ اپنے گلاب کے پانی کے اسپرے میں تھوڑا سا وٹامن ای کا تیل بھی شامل کر سکتے ہیں۔۔ہماری جلد پر چھید بہت قدرتی ہوتے ہیں۔ وہ بہت سے لوگوں کو خوفناک لگ سکتے ہیں لیکن یہ بہت عام ہوتے ہیں۔ تاہم، اگر نظر انداز کیا جائے تو، زیادہ تیل اور گندگی کی وجہ سے ان کا سائز بڑھ سکتا ہے۔ چھید نظر آنے لگتے ہیں اور جلد کی عمر بڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔ چھیدوں کی ظاہری شکل کو کم کرنے اور ان کو کھولنے کے لیے عرق گلاب  بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس کا استعمال صبح اور شام آپ کی جلد کو وہ چمک دے گا جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔

جلد کو ٹائٹ کرنے کے لیے عرق گلاب  کا استعمال۔پھیکی اور ڈھیلی جلد ایک عام مسئلہ ہے۔ کولیجن کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ہماری جلد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی لچک کھو دیتی ہے۔ یہ آپ کی جلد کو میلا اور پھیکا لگنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ گلاب کے پانی کو یا تو سپرے کے طور پر استعمال کریں یا کھوئی ہوئی چمک دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے موئسچرائزر میں شامل کریں۔ اضافی فوائد کے لیے اسے مٹی کے ماسک اور دیگر ہائیڈریٹنگ ماسک میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین  جلد بڑھاپے کو روکنے کے لئے خاص ہدائت کرتے ہیں گلاب اور عرق گلاب سے بنی ہوئی چیزوں کو مردانہ کمزوری کا علاج بھی سمجھا جاتا ہے۔ عرق گلاب کے استعمال سے جنسی خواہشات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پرانے زمانے سے اس کو بہت سے جنسی مسائل کے علاج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔کھانے کا ایک چمچہ پانی یا شربت میں ایک مرتبہ استعمال کافی ہوتا ہے۔۔گلاب کا عرق جلد کے کئی مسائل کو حل کرتا ہے، یہ وٹامن سی، آئرن، کیلشیئم ،وٹامن اے اور وٹامن ای سے بھر پور ہوتی ہیں، اس عرق کے کچھ ایسے فوائد بھی ہیں جن کے بارے مین بہت کم لوگ واقف ہیں۔عرق گلاب جلد کی قدرتی نمی کو برقرار رکھتا ہے، اسے بطور ٹونر استعمال کرنے سے جلد ہائیڈریٹ رہتی ہے اور کئی مسائل سے محفوظ رہتی ہے۔ یہ جلد کو خشکی سے بچا کر جھریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔چھائیاں جلد کا سب سے عام مسئلہ ہے اور عرق گلاب اس مسئلے کا سب سے مؤثر علاج ہے، اس مقصد کے لیے 2 چمچ بیسن میں چٹکی بھر ہلدی اور تھوڑاسا عرق گلاب ملا کر استعمال کریں اور خشک ہونے پر دھولیں، اس طرح چھائیوں سے نجات مل جائے گی۔فی زمانہ لوگوں کی اکثریت دن کا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارتی ہے جس سے آنکھوں کے کئی مسائل جنم لینے لگتے ہیں، اس کا بہترین حل عرق گلاب ہے، روئی کو عرق گلاب میں بھگو کر آنکھوں پر رکھنے سے سکون اور راحت کا احساس ہوتا ہے۔عرق گلاب کو چہرے کو دلکشی بڑھانے کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے، چہرے کی رنگت نکھارنے کے لیے ایک چمچ ملتانی مٹی، لیموں کا رس، اور 2 چمچ عرق گلاب لے کر فیس ماسک تیار کریں اور اسے چہرے پر لگائیں، خشک ہونے پر ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔ گلاب کا عرق صرف خوبصورتی کو نکھارنے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے کئی طبی فوائد ہیں جو سنت میں ہمیں پہلے ہی بتا چکی ہے لیکنا ب سائنس بھی اس بات کا اعتراف کر رہی ہے۔ گلاب کا عر ق ہم نے چہرے کی خوبصورتی اور جلد کی ہر قسم کی پریشانی کو ختم کرنےکے لئے استعمال کیا ہے لیکن آج ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں گلاب کے عرق سے جگر کے مسائل کا علاج کیسے ممکن؟

  گلاب کا عرق اینٹی بیکٹریل، اینٹی انفلامیٹری اور وٹامن سی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں جگر اور گردوں کی صفائی کرنے والے عناصر کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب عرقِ گلاب چہرے پر استعمال کیا جاتا ہے تو وہ نہ صرف چہرے کی شادابی کا کام کرتا ہے بلکہ جلد کے اندرونی ٹشوز میں جا کر ان تمام رکاوٹوں کو اور جلد کی پرتوں کی گندگیوں کو دور کرتا ہے جو گردے یا جگر کی وجہ سے نمودار ہوتی ہیں۔  اس میں وٹامن اے، سی، ای اور فلوئیڈز پائے جاتے ہیں جو کسی بھی قسم کے انفیکشنز اور جراثیموں کو ختم کرنے میں کارآمد ہیں۔٭ جگر میں خرابی کی ایک علامت جسم میں خون کی کمی بھی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے استعمال کی جانے والی ادویات میں گلاب کا عرق اور اس کی پتیوں کا پاؤڈر شامل ہوتا ہے تاکہ وہ مزید ریڈ سیلز کو پیدا کریں۔ گلاب کا عرق دن میں کسی بھی وقت آدھا گلاس پینا آپ کی اندرونی اور بیرونی صحت کے لئے فائدے مند ہے۔ جسم میں ورم کا زیادہ ہونا جگر کی خرابی کی ایک عام علامت ہے اس تکلیف میں بھی گلاب کا عرق آپ کو نہ صرف ورم کو کم کرنے میں مدد دے گا بلکہ ورم کی وجہ سے جلد کے خراب ٹشوز کو بھی بھرنے کی کوشش کرے گا۔  اگر آپ جگر کی تکلیف میں اس کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو روزانہ نہارمنہ چار چمچ گلاب کا عرق پی لیں اور آدھے گھنٹے بعد ناشتہ کریں۔ لیکن اگر آپ کو شوگر ہے تو دن میں کھانے کے بعد استعمال کریں، نہارمنہ پینے سے گریز کریں۔٭ گلاب کا عرق پینے سے اگر گلے میں خراش محسوس کریں یا پھر آپ اس کے ذائقے کو برداشت نہ کر پائیں تو پتیوں کو چبا کر کھالیں یہ بھی یکساں مفید ہے۔ یومیہ خوراک دو'دو چمچ روزانہ صبح دوپہر شام استعمال کیجئے اور اپنی صحت کو خوبصورتی اور توانائ کا خزانہ فراہم کیجئے

 

منگل، 11 جولائی، 2023

حضرت نوح علیہ السّلام اور جھگّی کی بڑھیا

 

اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیتے ہیں القران-حضرت نوح علیہ السّلام کے اس قصّے میں ایمان والوں کے لئے ایک پر مسرت بات یہ ہے کہ مومن کو ہر حال میں اللہ پاک جہنم کے گڑھے میں گرنے نہیں دیتا ہے اوربچا لیتا ہے-قرآن کریم میں اللہ عزوجل نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ 

وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۚۖ(۳۶)وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ؕ(۳۸)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (پ12، ہود: 36-39)

ترجمۂ کنزالایمان : اور نوح کو وحی ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکےتو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سےاور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گےجیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گےکس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔

 رسول پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے- اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے تو وہ وحی کے ذریعہ اس عذاب کی آمد سے رسول کو مطلع کردیتا ہے اور اس عذاب سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول اور اس پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین اس عذاب سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السّلام کی بستی لوگ ہلاک کیئے گئے-حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں آپ پر ایمان لانے والوں میں ایک بڑھیا بھی شامل تھی -جب حضرت نوح علیہ السّلام نے بحکم الٰہی   کشتی بنانا شروع کی تو ایک مومنہ بڑھیا جو راستے سے گزر رہی تھی اس نے حضرت نوح سے پوچھا۔ ک

ہ آپ یہ کشتی کیوں بنا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایاائے ضعیفہ دنیا میں پانی کا عظیم سیلاب آنے والا ہے جس میں تمام  دنیا غرق ہو جائے گی اور اس میں سب کافر ہلاک ہو جائیں گے۔ اور مومن اس کشتی کے ذریعے بچ جائیں گے۔ بڑھیا نے عرض کیا حضور! جب طوفان آنے والا ہو تو مجھے خبر کر دیجئیے گا۔ تا کہ میں بھی کشتی میں سوار ہو جاؤں۔ بڑھیا کی جھونپڑی شہر سے باہر کچھ فاصلہ پر تھی۔ پھر جب طوفان کا وقت آیا تو حضور نوح علیہ السلام دوسرے لوگوں کو تو کشتی پر سوار کرنے میں مشغول ہو گئے مگر اس بڑھیا کا خیال نہ رہا حتٰی کہ خدا کا ہولناک عذاب پانی کے طوفان کی شکل میں آیا اور روئے زمین کے سب کافر ہلاک ہو گئے۔ اور جب یہ عذاب تھم گیا اور پانی اتر گیا اور کشتی والے کشتی سے اترے تب اللہ پاک کے حکم سے معزز فرشتے حضرت روح الامیں تشریف لائے اور حضرت نوح علیہ السّلام کو پیغام پہنچایا کہ اب وہ تمام نباتات زمین میں بو دیجئے جنہیں آپ نے کشتی میں محفوظ کر کے رکھّا تھا

 اب حضرت نوح علیہ السّلام نے نباتات بھی زمین میں بو دیں پھر آپ کو اچانک خیال آیا کہ ان کے پاس ایک مومنہ عورت کشتی میں سوار ہونے کی اجازت مانگنے آتی تھی اور وہ تو اس بڑھیا کو اپنی کشتی پر بلانا بھول گئےتھے تب وہ بڑھیا کی جھگّی پر آئے۔ اور اسے آواز دی آپ علیہ السّلام کی آواز کے جواب میں وہ بڑھِیا سو تے سے اٹھ کرچندھیائ ہوئ  آنکھیں ملتی ہو ئ جھگّی سے باہر آئ اور اس نے حضرت نوح علیہ السّلام کو دیکھتے ہوئے بے ا ختیار سوال کیا اللہ کے نبی کشتی تیّارہو گئ ہو تو آ جاوں  حضرت نوح علیہ السّلام نے بڑھیا سے کہا میں تو تم کو کشتی پر سوار کرنا ہی بھول گیا ۔ مگر تعجب ہے کہ تم زندہ کیسے بچ گئیں۔ بڑھیا نے حضرت نوح علیہ السّلام کو جواب دیا -جس خدا نے آپ کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ اسی خدا نے مجھے میری ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی ہی کے ذریعے بچا لیا۔اور قران کی پکار ہے وہ ایمان والے تھے جو عذاب سے بچا لئے گئے

(روح البیان ص ۸۵ جل ۲)

 

پیر، 10 جولائی، 2023

حضرت محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ

 

 

ہجرت کے دسویں سال ،حجۃ الوداع کے موقعہ پر مقام ذی الحلیفہ میں محمد بن ابوبکر بن ابو قحافہ کی ولادت  ہوئی۔آپ کی ماں کا نام أسماء بنت عميس الخثعمية تھا۔  آپ ا ن باشرف خواتین میں شامل ہیں کہ جنہوں حضرت جعفر بن أبي طالب(آپ   کے پہلے شوہر)  کے ساتھ حبشہ کی طرف مھاجرت  کی ۔ آپ کےحضرت جعفر بن أبي طالب سے تین بیٹے تھے جو حبشہ میں دوران ہجرت پیدا ہوئے جن کا نام: محمد، عبداللہ، اور عون ہے۔ جب حضرت جعفر بن أبي طالب جنگ موتہ میں شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر سے آپ کی شادی ہوگئی، اور حضرت ابوبکر سے  محمد کی ولادت ہوئی، اور جب  حضرت ابوبکر رحلت کرگئے تو حضرت علی ابن ابی طالب سے آپ کی شادی ہوئی اور حضرت علیؑ سے آپ کے بیٹے یحیٰ کی ولادت ہوئی-محمد نے امام علی  علیہ السلام کے گھر میں آپ ؑ کے زیرِسایہ تربیت پائی، اور جب جوانی کے دہلیز پر قدم رکھا تو آپؑ کے ہمراہ حق کے دفاع اور باطل کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں شرکت کی۔

 آپؑ شجاعت، جوانمردی، اور بہادری میں بے مثال تھے، آپ  جنگ کے مشکل لمحات اور اوقات  میں جب  تلواروں، نیزوں اور تیروں کے برسات ہورہے ہوتے تھے تو مظبوط چٹان کے مانند  اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن  کر اپنے عقیدے کے دفاع کے لیے باطل کے خلاف نبردآزما ہوتے ہیں ۔   آپ ان محمد کہلوانے والے باعظمت افراد میں سے بھی ایک تھے کہ جن کے بارے امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام ارشاد فرماتے ہیں:  بتحقیق محامد(محمدکی جمع، چند مخصوص افراد جن کا نام محمد تھا) نے کبھی بھی معصیت الٰہی نہیں کی ؛ اور وہ محمد بن جعفر، محمد بن ابو بکر، محمد بن ابو حذیفہ اور محمد بن حنفیہ تھے۔محمد بن ابی بکرنے اپنی ابتدائی زندگی سے لیکر مصر میں آپ کی شہادت تک امام علیؑ کی معیت میں ہمیشہ حق کے ساتھ دیا۔ امام علیؑ آپؓ کے خلوص، اور اطاعت کو خوب جانتے تھے اسی لیے آپؓ کو مصر کے گورنری عطا کی۔ مصر کی گورنری اس وقت کے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھی اور امام علیؑ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے محمد کو اہل سمجھتے تھے اسی لیے آپ نے ان کو گورنر بنا کر بھیجا۔ اس گورنری کی اہمیت کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین فرماتے ہیں: اے محمد! یاد رکھو کہ میں تم کو اپنے بہترین لشکر اہل مصر پر حاکم قرار دیا ہے۔

جنگ صفین کے واقع ہونے

کے بعد امیرشام نے مولیٰ کائنات حضرت امیرالمؤمنینؑ کے زیر تسلط اور زیرحکومت علاقوں پر جنگ مسلط کرکے قتل وغارت کا سلسلہ شروع  کیا،  آپؑ نے محمد بن ابوبکر جو مولیٰ علیؑ کی طرف سے پہلے سے ہی مصر کی گورنری کے منصب پر فائز تھے، ان کی  جگہ پر مالک اشترؓ کو بطور گورنر  منتخب کیا کیونکہ مالک اشتر، محمد کی نسبت عمر کے لحاظ سے زیادہ بزرگ اور جنگی امور میں زیادہ مہارت اور تجربہ رکھتے تھے،لیکن یہ تبادلہ محمد کی مولیٰ کی اطاعت میں  کسی سستی اور کوتاہی  کی وجہ سے  نہیں تھا؛ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ کی طرف سے محمد کو لکھے گئے خط میں تفصیلا بیان کیا گیا ہے، جب یہ خط محمد کو موصول  ہوا اور ان کو اپنے معزول کئیے جانے کی اطلاع موصول ہوئی ، اور انہوں نے جوابی نامہ ارسال کیا تو حضرت امیرالمؤمنینؑ نے  اس کے جواب میں فرمایا:  مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ کی جگہ مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب کرنے پر آپ ناراض ہو گئے  ،

 یہ کام اس لئے نہیں کیا گیا کہ تمہیں اپنے فرائض کی ادائگی میں سستی کرنے والا پایا ہوں یا یہ کہ تم سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہوں، بلکہ اگر تمہارے ہاتھوں سے حکومت چهینی گئی ہے تو یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جگہ کی حکومت سونپ دوں جس کے انتظامات تمہارے لئے آسان ہے اور وہاں پر حکمرانی کرنا تمہارے لئے زیادہ پسند ہے ۔تواس واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ ، محمد کو کسی اور شہر کے گورنر بنانا چاہتے تھے، اور ان کی کارکردگی سےآپ   راضی تھے اسی لیے آپ نے مالک اشتر کو گورنر بنانے کی وجہ بھی بیان فرمائی، اور یہ بھی واضح فرمایا کہ آپ ؑ ان سے راضی ہیں اور ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی ہے۔محمد عبادات اور نماز کی کثرت کی وجہ سے قریش کے عبادت گزاروں میں شمارہوتے تھے، ساتھ ساتھ آپ حضرت امیرالمؤمنینؑ  کی عظیم  درسگاہ کے فارغ تحصیل بھی تھے لوگ  حضرت امیرالمؤمنینؑ کی آپ سے بےپناہ محبت اور الفت کی وجہ سے آپ کو امام علی علیہ السلام کے فرزند کہہ کر پکارتے تھے، اور آپ بھی   امیرالمؤمنین ؑ کی آوروں کے مقابلے میں  فضیلت کے قائل تھے۔ امیرالمؤمنین ؑ آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے تھے: محمد ابوبکر کے صلب سے میرا فرزند ہے۔خدا آپ پر رحمت نازل کرے

ہفتہ، 8 جولائی، 2023

تاریخِ اسلام میں عید مباہلہ کی اہمیت

 

 

نجران یمن کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقع ایک خُوبصُورت اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے اس علاقے میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جو کہ مالی لحاظ سے بہت دولتمند اور خُوش حال بھی تھے۔فتح مکہ کے بعد اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ارد گرد کے تمام سرداروں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے کہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر جزیہ ادا کریں، آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا یہ پیغام نجران کے عیسائی سردار کے پاس پہنچا تو اس نے نجران کے بزرگ پادریوں کو بلایا اور حضور صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا وہ سبھی اس خط کو پڑھ کر سخت مشتعل ہوئے مگر انہوں نے جنگ سے بچنے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے مذاکرات کا مشورہ دیا، چنانچہ 14 بزرگ پادریوں پر مشتمل ایک قافلہ مدینہ منورہ روانہ کیا گیا جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور مسجد نبوی میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو رحمتِ عالَم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی طرف سے مُنہ پھیر لیا کیونکہ اُن کے لباس زرق برق اور فاخرہ تھے، اور وہ لوگ مسجد سے باہر نکل آئے، حضرت علی علیہ السلام نے اُن کو ملاقات نہ کرنے کی وجہ بتائی کہ آپ کے فاخرہ لباس سے غرور و تکبر اور ذہنی برتری کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور عام سادہ لباس پہن کر آنے کا مشورہ دیا، چنانچہ وہ لوگ سادہ لباس پہن کر آئے اور آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے کافی تفصیلی مذاکرات بحث مباحثہ اور سوال و جواب ہوئے،

 حضرت رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو لاکھ سمجھایا دلائل دیئے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خُدا کے بیٹے نہیں حضرت آدم علیہ السلام کی مثال دی مگر عیسائی نہ مانے بحث لمبی ہو رہی تھی اور عیسائی نہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ تھے اور نہ جزیہ دینے کو تیار تھے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 61 کا نزول ہوا ،بِسْمِ اللهِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِيْمِ * فَمَنْ حَأجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جأءَكَ مِنَ الْعِلْمِ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَأءَنَا وَ اَبْنَأءَكُمْ وَ نِسَأءَنَا وَ نِسَأءَكُمْ ثُمَّ نَتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلیَ الکَاذِبِینَ **آل عمران 61-پھر اے میرے حبیب! آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو آپ سے (حضرت عیسٰیؑ) کے بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اُن سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنی بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنی بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو، تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو تم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔عیسائی پادریوں نے یہ بات قبول کر لی، مقام اور جگہ کا تعین ہو گیا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو 24 ذوالحجہ 10 ہجری کی نمازِ فجر کے بعد ایک سرخ قالین اور چار لکڑیاں دے کر مقررہ میدان میں بھیجا، اور ایک سائبان کھڑا کرنے کا حکم دیا، اہلِ اسلام کے تمام بڑے اور نامی مفسرین سمیت علامہ زمخشریؒ، علامہ فخرالدین رازیؒ، علامہ جلال الدین سیوطی ؒنے تفسیر در منثور میں اور علامہ بیضاوی ؒنے جلاؤالعیون میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے گھر سے باہر نکلے کہ امام حسین علیہ السلام کو بغل میں اُٹھائے اور امام حسن علیہ السلام کو انگلی سے پکڑے ہوئے تھے جنابِ سیّدہ فاطمۃُ الزَّہرا سلام اللہِ علیہا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اور اور اُن کے پیچھے حضرت علی علیہ السلام تھے اور یہاں پر آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث بیان فرمائی صحیح بخاری سمیت دیگر حدیث کی کتب میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ جس طرح ہر نبی کے اہلبیت ہوتے ہیں یہ میرے اہلبیت ہیں، تو انہیں ہر بُرائی اور نجاست سے دور رکھ اور پاک و پاکیزہ فرما  جب آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے میدانِ مباہلہ میں پہنچے کہ زمین و آسمان ان ہستیوں کے نور سے روشن تھے تو نصاریٰ کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی

 عیسائی راہبوں کے سردار جس کا نام تاریخ نے عافث لکھا ہے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا۔واللہ  !  میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ اس پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا حکم دیں تو یقیناً ہٹ جائے گا، عافیت اسی میں ہے کہ مباہلہ سے ہاتھ اُٹھا لو ورنہ قیامت تک نسلِ نصاریٰ کا خاتمہ ہو جائے گااور یوں نجران کے نصاریٰ نے جزیہ دینا قبول کر لیا جلاء العیون میں علامہ بیضاوی ؒ لکھتے ہیں کہ جنابِ رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہیہ لوگ اگر مباہلہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں مسخ اور بگاڑ دیتا یہ میدان آگ بن جاتا اور نجران میں زندگی ختم ہو جاتی24- ذی الحجہ 9 ہجری کا یہ دن اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت سے اس کے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم فتح نصیب ہوئی تمام مسلمانوں کو بلا تفریق مذہب و مسلک اس دن کو عید کے طور پر منانا چاہیے اور اسلامی احکامات پر عمل کر کے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت ہمیں بھی حاصل ہو۔مباہلہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےمباہلہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےمباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔

مباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔سلامی کلینڈر میں ۲۴ ذی الحجہ کا دن روز مباہلہ کے عنوان سے معروف ہے۔ مباہلہ کا واقعہ نہ صرف پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپ کے ساتھ مباہلے کے لئے نکلنے والوں یعنی حضرت علی علیہ السّلام حضرت فاطمہ ﴿س﴾، حضرت امام حسین و حسین ﴿ع﴾ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ﴿ع﴾ آیہ مباہلہ کی رو سے نفس اور جانِ پیغمبر صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  کے مقام پر فائز ہیں۔ مباہلہ کا واقعہ ہجرت کے نویں سال ۲۴ ذی الحجہ کو پیش آیا۔ سورہ آل عمران کی آیہ ٦١ میں اس واقعے کا بیان آیا ہے۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ؛ پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار ۔ مباہلہ گزشتہ انبیا کے زمانے میں بھی رائج تھا جیسے کہ حضرت نوح کا اپنی قوم سے، حضرت موسی کا فرعون سے اور حضرت ابراہیم کا نمرود سے مباہلہ کہ جنہوں نے علم و منطق سے عبودیت کا تسلیم نہیں کیا اور درنہایت انبیا کے بدعا اور نفرین کی سبب ہلاک ہوگئے۔

 پیغمبر اکرم   صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ صدر اسلام کے ان واقعات میں سے ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے اور ان سے ساتھ نکلنے والوں یعنی یعنی حضرت علی علیہ السّلام حضرت فاطمہ   حضرت امام حسین و حسین   کی فضیلت اوران کی راہ و روش کی حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک واقعہ تھا کہ جسے رونما ہونا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پنجتن آل عبا کے حجت ہونے اور حق ہونے کا اعلان تمام دنیا والوں تک پہنچ جائے۔ شیعہ اور اہل سنت تواریخ میں اس واقعے کا بیان تسلسل کے ساتھ موجود ہے اس آیت کی رو سے حضرت امام علی علیہ السّلام  نفسِ پیغمبر ہیں۔  شیخ مفید کے بقول واقعہ مباہلہ میں حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت کے عالمگیر مقام کو روشناس کروایا گیا ہے چونکہ مد مقابل عیسائیت تھی اور عیسائی راہبوں اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم دو بچوں، ایک خاتون اور حضرت علی علیہ السّلام کے ساتھ مباہلے کے میدان کی طرف آرہے ہیں، انہوں نے یہ منظر دیکھتے ہیں پسپائی اختیار کی۔ مباہلہ کا واقعہ کہ جو حضرت علی علیہ السّلام ا ور اہل بیت کے مقام و فضیلت کو بیان کرتا ہے  یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلام کی گونج دنیا کے تمام گوشوں تک پہنچ چکی تھی اور پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  نے تمام ممالک کے سربراہان اور مختلف اقوام اور قبائل کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی تھی۔ انہی خطوط میں سے ایک خط نجران کے عیسائیوں کے لئے بھی تھا۔مباہلہ پیغمبر اکرم  صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےدر حقیقت مباہلہ کے واقعے میں اسلام کو قیصر روم کے نمائندوں پر ایک عظیم فتح نصیب ہوئی جو فتح خیبر اور مکہ کے بعد حاصل ہوئی۔ یہ فتح اسلام کے عالمگیر ہونے اور دوسرے ادیان کے خاتمے اور اسلام کے سامنے ان کے تسلیم ہونے کا مظہر ہے۔ دوسری جانب سے اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت ہر بڑی فتح کے موقع پر پیغمبر کے ہمراہ تھے اور ان کا کردار بنیادی تھا۔ مباہلہ دنیا والوں کو دین کے تسلسل کے لئے حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت کے تعارف کا تسلسل ہے اور ایک طرح سے اسلام کی علی اور اہل بیت کے ساتھ معیت کا عمومی اعلان ہے۔۔

جمعرات، 6 جولائی، 2023

شہر چھوڑو یا زہر کا پیالہ پی لو

 

شہر چھوڑو یا زہر کا پیالہ پی لو-قاضی نے فیصلہ کیا تو اس نے بھی بے دھڑک جواب دیا شہر نہیں چھوڑوں گا اور زہر کا پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا-سقراط اس مرد حر کا نام ہے جس نے جیتے جی زہر کا پیالہ پی کر اپنے نام کو امر کر لیا لیکن اپنے سچۤے نظریا  ت سے دستبردار نہیں ہوا سقراط نے جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے کوئی کتاب نہیں لکھی کیو نکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط دنیائے فلسفہ کاعظیم اور جلیل المرتبت معلم تھا، جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ سقراط 470 سال پہلے یونان کے معروف شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد ناپید ہیں۔ تاہم افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ ایک مجسمہ ساز تھا، جس نےحب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت پائی -سقراط انتہائی بد صورت تھا اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہوتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ با  پ مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی ۔سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ۔سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے۔"ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط   کوئی جواب نہیں دےرہا ہے تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر مجھ سے کہا۔ کیٹو مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش ہوگی"ایک دن افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا “آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا” سقراط نے مسکرا کر پوچھا “وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟” افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا “آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔!” اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا “تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں” افلاطون نے عرض کیا “میرے عظیم استاد! تین کی کسوٹی کیا ہے؟” سقراط بولا “کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟” افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط نے ہنس کر کہا “پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟” افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا “یہ پہلی کسوٹی تھی۔ اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ “مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟” افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ “جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!” سقراط نے مسکرا کر کہا “کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔۔؟” افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط بولا “گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی۔” افلاطون خاموش رہا۔۔! سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا “اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔۔؟” افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا “اُستاد محترم! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!” سقراط نے ہنس کر کہا “اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟” افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اُس کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔۔! 1۔ “کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟”، 2۔ “کیا یہ بات اچھی ہے؟” اور 3۔ “کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟” اگر وہ بات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی، تو وہ بے دھڑک بول دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہو جاتے تھے۔ ۔ تاہم اپنی علمی مساعی کی بدولت اُسے گھر بار اور خاندان سے تعلق نہ تھا۔احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتائوں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے   اسے موت کی سزاسنائی۔سقراط پر ایتھنز کی عدالت نے جو الزامات لگائے ، ان میں سر فہرست تھا کہ " تم ہمارے نوجوانوں کو بہکا رہے ہو"سقراط کے لڑکپن کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک واقعہ سقراط کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب کرائیٹو نے بیان کیا ہے۔ کرائیٹو کا کہنا ہے کہ میں اور سقراط ایک دن کمھار کے چاک کے پاس سے گزر رہے تھے۔ کمھار نے نرم نرم ملائم گیلی مٹی کا ایک گولہ چاک پر رکھا، چاک کو تیزی سے گھمایا اور مٹی کے گولے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کچھ اس طرح سے حرکت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت مرتبان مٹی کے گولے کی جگہ پر نمودار ہو گیا۔ سقراط نے کہا ابھی تو چاک پرمٹی کا گولہ تھا یہ خوبصورت مرتبان آخر کہاں سے آ گیا پھر خود ہی کہنے لگا ہاں یہ مرتبان کمہارکے ذہن میں تھا اور پھر ہاتھوں کے ہنر سے منتقل ہو کر اس چاک پر آ گیا۔ سقراط نے نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی بھی مادی چیز جیسے مکان، کرسی یا کوئی مجسمہ یا تصویر پہلے انسان کے ذہن میں آتی ہے، پھر انسان اپنے ذہن کے اس نقشے کو مادی شکل میں ڈھالتا ہے۔ یہ ایک زبردست اور غیر معمولی دریافت تھی۔ سقراط نے ہنر، فن اور تخلیق کے بارے میں جان لیا تھا۔ سقراط کے قریبی دوست فیڈو، کرائیٹو اور خاص شاگرد افلاطون کا کہنا ہے کہ سقراط پر بعض اوقات ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی،جس کو الفاظ میں پورے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔ سقراط کی زندگی کی سوانح پڑھتے ہوئے میں بذات خود اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ سقراط نے جب علم و آگہی کی دنیا میں قدم رکھّا وہ اسی لمحہ پتھّر سے تراشیدہ ان بتوں کی پوجا سے تائب ہ وگیا اور اس نے ان دیکھے خدا کی عبادت کا فلسفہ پیش کر دیا -فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطا ہیں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر