پیر، 3 جولائی، 2023

حیدر علی سے ٹیپو سلطان تک -دو شیروں کی کہانی

 

حیدر علی سے ٹیپو سلطان  تک -دو شیروں کی کہانی

سولہویں صدی عیسوی میں برّ صغیر کے علاقے کلکتّہ میں دریائے ہگلی کے کنارے تجارتی کوٹھیوں سے نکل کر کمپنی بہادر نے پورے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے جو شروع کیئے تو وہ جنوبی ہندوستان کی سرحدوں تک آن پہنچی -لیکن جنوبی ہندوستان کے فرماں روا حیدر علی نے ان کو قدم بڑھانے سے روکے رکھا-یہاں پر کمپنی بہادر نے جنوبی ہندوستان کے اندر لالچی لوگوں کو خریدنے کا کام جو شروع کیا تو ایک جانب نظام دکن ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تو دوسری جانب مرہٹے بھی ان کی فوج سے جاملے -ابھی یہ معرکہ آرائ کسی نتیجہ پر نہیں تھی کہ حیدر علی کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ ان کا شیر دل بیٹا شیر میسور بن کر سریر آرائے سلطنت ہوا- ایسے وقت میں ٹیپوسلطان نے بڑے چیلنجز کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا- جنوبی ہند میں دو ایسے مجاہد پیدا ہوئے جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے۔

بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم انگریزوں کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا اور میدان جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکستیں دیں۔ انہوں نے جو مملکت قائم کی اس کو تاریخ میں سلطنت خداداد میسور کے نام سے یاد کیا جاتا سلطان حیدر علی نے میسور کے ہندو راجا کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن وہ اپنی بہادری اور قابلیت کی بدولت جلد ہی راجا کی فوجوں کے سپہ سالار بن گئے۔ راجا اور اس کے وزیر نے حیدر علی کے بڑھتے ہوئے اقتدار سے خوفزدہ ہو کر جب اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو حیدر علی نے میسور کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ راجا کو اس نے اب بھی برقرار رکھا، لیکن اقتدار پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی حکومت کا آغاز 1761ء سے ہوتا ہے۔ حیدر علی کواپنے 20 سالہ دور حکومت میں مرہٹوں، نظام دکن اور انگریزوں تینوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔

اگرچہ ان لڑائیوں میںان کو ناکامیاں بھی ہوئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے مالابارکے ساحل سے لے کر دریائے کرشنا تک ایک بہت بڑی ریاست قائم کرلی جس میں نظام دکن، مرہٹوں اور انگریزوں سے چھینے ہوئے علاقے بھی شامل تھے۔ انہوں نے میسور کی پہلی جنگ(1767ء تا 1769ء) اور دوسری جنگ(1780ء تا 1784ء)  میں انگریزوں کو کئی بار شکست دی۔ دوسری جنگ میں حیدر علی نے نظام دکن اور مرہٹوں کو ساتھ ملا کرانگریزوں کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا اور اگر مرہٹے اور نظام ان کے ساتھ غداری نہ کرتے اور عین وقت پر ساتھ نہ چھوڑتے تو کم از کم جنوبی ہند سے حیدر علی انگریزی اقتدار کا خاتمہ کردیتے۔ حیدر علی کی ان کامیابیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کو جدید ترین طرز پر منظم کیا اور ان کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا ابھی میسور کی دوسری جنگ جاری تھی کہ حیدر علی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ آپ کے بعد آپکا بیٹا فتح علی ٹیپو سلطان جانشیں ہوا۔ ٹیپو سلطان جب تخت نشین ہوئے تو آپ کی عمر 32 سال تھی۔ آپ ایک تجربہ کار سپہ سالار تھے اور والد کے زمانے میں میسور کی تمام لڑائیوں میں شریک رہ چکے تھے۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد آپ نے تنہا جنگ جاری رکھی کیونکہ مرہٹے اور نظام دکن انگریزوں کی سازش کا شکار ہو کر اتحاد سے علاحدہ ہو چکے تھے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو کئی شکستیں دیں اور وہ 1784ء میں سلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئ 

-ٹیپو سلطان ایک اچھا سپہ سالار ہونے کے علاوہ ایک مصلح بھی تھے۔ سلطان حیدر علی ان پڑھ تھے لیکن ٹیپو سلطان ایک پڑھے لکھے اور دیندار انسان تھے۔ نماز پابندی سے پڑھتے تھے اور قرآن پاک کی تلاوت آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کے عوام کی اخلاقی و معاشرتی خرابیاں دور کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ شراب اور نشہ آور چیزوں پر پابندی لگائی اور شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی فضول رسومات بند کرائیں اور پیری مریدی پر بھی پابندی لگائی۔ٹیپو سلطان نے ریاست سے زمینداریاں بھی ختم کردی تھیں اور زمین کاشتکاروں کو دے دے تھی جس سے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ ٹیپو سلطان نے کوشش کی کہ ہر چیز ریاست میں تیار ہو اور باہر سے منگوانا نہ پڑے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے کئی کارخانے قائم کیے۔ جنگی ہتھیار بھی ریاست میں تیار ہونے لگے۔ آپ کے عہد میں ریاست میں پہلی مرتبہ بینک قائم کیے گئے۔ ان اصلاحات میں اگرچہ مفاد پرستوں کو نقصان پہنچا اور بہت سے لوگ سلطان کے خلاف ہو گئے لیکن عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوا اور ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ میسور کی خوشحالی کا اعتراف اس زمانے کے ایک انگریز نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ٹیپو سلطان کے تحت میسور کی یہ ترقی انگریزوں کو بہت ناگوار گزری۔ وہ ٹیپو کو جنوبی ہند پر اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انگریزوں اور میسور کے درمیان صلح کو مشکل سے چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے معاہدے کو بالائے طاق رکھ کر نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حملہ کر دیا اور اس طرح میسور کی تیسری جنگ (1790ء تا 1792ء) کا آغاز ہوا۔

 اس متحدہ قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا، اس لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد اس کو صلح کرنے اور اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنگ میں یہ ناکامی ٹیپو سلطان کے لیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی آپ نے ہر قسم کا عیش و آرام ترک کر دیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے ملک کو نجات دینے کے طریقے اختیار کرنے پر صرف کر نے لگے۔لیکن قدرت کو آپ کی شہادت منظور تھی اس لئے آپ کی اپنی فوج میں غدار وطن میر صادق جیسا ننگ و طن نکلا اور دوسری جانب مرہٹوں کی پوری فوج اپنے کماندار کے حکم پر کمپنی سے جا ملی اس   غداری نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر مسلمان ریاست کو کمپنی کی جھو لی میں ڈال دیا اور قیامت تک کے لئے ننگ وطن کا داغ اپنے ماتھے پرثبت کر لیا

اتوار، 2 جولائی، 2023

اٹلی اور لیبیا میں پیش آنے والے کشتی حادثات

پاکستان  کے  نوجوانوں کے لیئے بڑا ہی کٹھن وقت وقت ہے ایک جانب پی ڈی ایم کی شکل میں ایک نا ختم ہونے والا عذاب مسلّط ہو چکا ہے تو دوسری جان   بےروزگاری اور مہنگائ نے کمر توڑی ہوئ ہے ان حالات میں وہ ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دے کر موت کو گلے لگانے خوشی خوشی چل دیتے ہیں ایسے ہی بےروزگاری کے سمندر سے نکلنے کے لئے وہ اٹلی کے سمندر میں ڈوب گئے-ا ٹلی  کے    سمند ر میں پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں۔کشتی کے حادثے میں ڈوبنےوالوں کو بچانے کے لیے جب امدادی کارروائیاں جاری ہیں اس وقت اسولا ڈی کاپو ریزوٹو قصبے کے ایک عارضی استقبالیہ مرکز میں کمبلوں میں لپٹے ہوئے افراد رو رہے تھے۔خیراتی ادارے میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے سرجیو ڈی داٹو کا کہنا ہے کہ 'وہ شدید صدمے کا شکار ہیں۔ ''کچھ بچوں نے اپنے پورے خاندان کو کھو دیا ہے۔ ہم انہیں ہر ممکن مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ "

 افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک 16 سالہ لڑکا ساحل پر اپنی 28 سالہ بہن کی لاش کے قریب بیٹھا ہوا ہے اور اس میں اپنے والدین کو بتانے کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو بتائے کہ ان کی بیٹی مر چکی ہے۔افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 43 سالہ شخص اپنے 14 سالہ بیٹے کے ساتھ زندہ بچ گیا، لیکن اس کی بیوی اور اس کے تین دیگر بچے، جن کی عمریں 13، 9 اور 5 سال تھیں، وہ زندہ نہیں رہے۔امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک غیر سرکاری تنظیم ایس او ایس میڈیٹیرینی کے ترجمان فرانسسکو کریزو نے کہا''یہ ایک اور المیہ ہے جو ہمارے ساحلوں کے قریب ہو رہا ہے۔ وسطی بحیرہ روم کہ یہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ بحیرہ روم ایک بہت بڑی اجتماعی قبر ہے، جس میں ہزاروں جانیں ہیں، اور یہ مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی اس وقت ڈوب گئی تھی جب خراب موسم میں یہ سمندر میں موجود پتھروں سے ٹکرائی جس کے بعد بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا

۔ویڈیو فوٹیج میں کشتی کا ملبہ ساحل پر دیکھا جا سکتا ہے-زندہ بچ جانے والوں کو کمبل لپیٹے دیکھا گیا جن کی مدد ریڈ کراس کے اہلکار کر رہے تھے۔ ان میں سے چند کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔قصبے کے میئر انتونیو کیراسو نے رائے نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ساحل ہر لوگ اترتے ہیں لیکن ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا۔‘کسٹم پولیس نے کہا ہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک فرد کو انسانی سمگلنگ کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔اطالوی وزیر اعظم جیورجیا میلونی، جو گذشتہ سال تارکین وطن کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے وعدے کے ساتھ منتخب ہوئی تھیں  ڈوبنے والے 90 افراد میں سے 32 پاکستانی ہیں جن میں سے 12 کی نعشیں مل گئی ہیں جبکہ بقیہ کی شناخت اور لاشیں نکالنے کا عمل جاری ہےلیبیا کے ساحل کے قریب سپین جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی کے حالیہ حادثے میں جو 90 افراد جان سے گئے ان میں سے 32 کا تعلق پاکستان سے تھا۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ان میں سے 18 کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ صرف 12 کی ہی لاشیں مل پائی ہیں اور باقی افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔وزارت خارجہ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق ڈوبنے والے افراد میں سے چار کا تعلق گجرات کے ایک ہی خاندان سے ہے۔بی بی سی نے ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا تو ان کے کزن بشیر چوہدری نے بتایا کہ کشتی میں دو بھائی، 35 سالہ رحمت خان اور 32 سالہ اسماعیل خان اپنی بیوی اور دو بچوں سمیت سوار تھے۔ان پانچ میں سے صرف رحمت خان ہی زندہ بچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت نے لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں 90 افراد کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد پاکستانی تھے۔کئی برسوں سے تارکین وطن لیبیا کو سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

واں برس جنوری میں وہاں 240 پاکستانی پہنچے جس کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا اگر موازنہ کیا جائے تو سمندر کے راستے جنوری 2017 میں فقط نو پاکستانی سمندر کے راستے اٹلی پہنچے تھے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ساحل پر ملنے والی دس لاشیں پاکستانیو ں  کی ہیں۔ لیبیا کشتی حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی لاشیں لاہور پہنچا دی گئیںلیبیا میں پیش آنے والے کشتی حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی لاشیں لاہور  پہنچا دی گئیں۔لیبیا کشتی حادثے میں جاں بحق افراد کی لاشیں تیونس سے براستہ جدہ لاہور لائی گئیں، اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے نمائندے نے لاشیں ورثا کے حوالے کر دیں۔اٹلی اور لیبیا میں کشتی حادثات میں 9 پاکستانی جاں بحق ہوئے: دفتر خارجہ لیبیا کشتی حادثہ: ایف آئی اے گجرات کی کارروائی، 2 انسانی اسمگلرز گرفتار-کشتی حادثے میں جاں بحق 7 افراد میں سے 6 کا تعلق گجرات سے ہے۔دو روز قبل اٹلی میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی میتیں لاہور لائی گئی تھیں۔یاد رہے کہ اٹلی اور لیبیا میں پیش آنے والے کشتی حادثات میں 32پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ 

جمعہ، 30 جون، 2023

پاکستان کا کھرب پتی داود خاندان

 

اس وقت  تمام دنیا سکتے میں آگئی جب اس کو معلوم ہوا کہ پندرہ کروڑفی مسافر  کا ٹکٹ خرید کر ایک آبدوز میں بحر اوقیانوس کی گہرائ کی جانب  سفر کرنے والے پانچ مسافر جان کی بازی ہار گئے ہیں -بعد ازاں آبدوز کی کہانی بھی منظر عام پر آ ئ جس کی بابت بتایا گیا کہ اس کے مالک ایک مہم جوشخصیت کے مالک تھے جنہوں نے آبدوز کی تکنیکی صلاحیتوں کو انڈر اسٹیمیٹ کیا  جس کے سبب یہ حادثہ پیش آیا -جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے- آئے دیکھتے ہیں کہ اس خاندان نے یہ مقام کس طرح حاصل کیا کہ آج وہ پاکستان کا کھرب پتی خاندان کا مقام حاصل کر سکا ہےداؤد فیملی کے سربراہ احمد داؤد کی پیدائش 1905 میں انڈیا کے صوبے کاٹھیاواڑ کے علاقے بانٹوا میں ہوئی۔ ان کے والد تاجر تھے۔ انھوں نے صرف تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھیں۔ بچپن میں ہی والد کی وفات ہوگئی جس کے بعد ان کی پروش کی ذمہ داری دادا پر آگئ-لیکن آج کے وہ نوجوان جو شارٹ کٹ راستوں سے پیسہ کمانے کی خواہش رکھتے ہیں  یہ بات ان کے لئے لمحہ ء فکریہ ہے کہ مھض سولہ برس کی عمر اور تین جماعت تک کی تعلیم نے اس بچے نے کتنی محنت کی ہو گی  

داؤد فیملی کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک یتیم نوجوان احمد داؤد نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگانا شروع کیے اور پھر بمبئی میں یارن کی دکان کھولی۔داؤد فیملی کا نام گذشتہ دنوں سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں زیر گردش ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے حادثے میں جن پانچ مسافروں کی ہلاکت ہوئی ان میں سے دو کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان اس آبدوز میں سوار تھے جو تفریحی مقاصد کے لیے بحر اوقیانوس میں ڈوبے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں گئی۔ مگر حکام کے مطابق اس دورے پر زیر آب دباؤ کی وجہ سے آبدوز دھماکے کا شکار ہوئی اور اس میں سوار پانچ مسافردنیا سے کوچ کر گئے

داؤد فیملی کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔مگر داؤد فیملی کا کاروبار ملک کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے جس کے علاوہ یہ خاندان صحت اور تعلیم جیسے سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔احمد داؤد نے 20ویں صدی کے اوائل میں پتھارے پر کپڑے کے تھان اور بمبئی میں یارن کی دکان کھولنے سے داؤد خاندان کے کاروبار کا آغاز کیاداؤد فیملی نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر کاروبار شروع کی-پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں شامل داؤد فیملی نے 20ویں صدی کے اوائل میں ایک پتھارے سے کاروبار کا آغاز کیا اور چند دہائیوں میں اس خاندان کا شمار خطے کے امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا۔

آج اس خاندان کی کئی درجنوں صنعتیں و تجارتی ادارے ہیں۔ ان کا کاروبار پاکستان سے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔۔احمد داؤد ایک پیکر اوصاف‘ نامی کتاب کے مصنف عثمان باٹلی والا لکھتے کہ احمد داؤد نے 16 سال کی عمر میں پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا جبکہ داؤد انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یتیم نوجوان احمد داؤد نے 1920 میں بمبئی میں یارن کی دکان کھولی تھی۔ثمان باٹلی والا، جو احمد داؤد سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ سیٹھ احمد بتاتے تھے کہ ان کی والدہ ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں۔ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا رہا۔میمن شخصیات پر کتاب کے مصنف عمر عبدالرحمان لکھتے ہیں کہ انھوں نے کاٹن جننگ پریسنگ فیکٹری کے علاوہ تیل کی مِل اور ویجیٹیبل آئل کی فیکٹری قائم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے داؤد فیملی کے دفاتر اور ان کی شاخیں کلکتہ، مدراس، کانپور، متھورہ، لدھیانہ اور دلی وغیرہ میں پھیل گئیں۔اور اس نوجوان نے بہت جلد اپنے تمام خاندان کے لئے کاروبار کی نئ سمتیں متعین کر کے ان کو بھی ارب پتی بننے کی صف مین شامل کر دیا 

عثمان لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے خوردنی تیل کا کارخانہ لگایا تو پھر ان کے کاروبار میں وسعت آئی اور یہ کامیابی سے چل پڑا۔ اس کاروبار میں ان کے بھائی سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد بھی شریک رہے۔برصغیر کے بٹوارے اور قیام پاکستان کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ رہے۔ بعد میں وہاں سے پاکستان آ گئے۔ انھوں نے مانچسٹر اور پاکستان میں داؤد پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی۔پاکستان میں فوجی جرنیلوں کے ابتدائی ادوار اور داؤد خاندان پاکستان کے فوجی ادوار داؤد فیملی کے لیے سازگار رہے، پھر چاہے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت ہو یا جنرل ضیالحق کی۔عثمان باٹلی والا لکھتے ہیں کہ احمد داؤد نے پاکستان میں کاٹن کی بروکری شروع کی۔ ایوب خان کے دور حکومت میں کراچی میں اور بورے والا میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں غیر فعال ہوگئیں جو سرکاری ادارے پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے زیر انتظام تھیں لیکن وہ انھیں چلا نہیں پا رہے تھے۔لہذا ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ اگر یہ فیکٹریاں احمد داؤد کو دی جائیں تو اچھا پرفارم کریں گی۔ انھیں یہ پیشکش کی گئی تو انھوں نے اور ان کے بھائیوں نے اس کو قبول کر لیا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ حالیہ نجکاری کے طریقہ کار کے مطابق ماضی میں اس کام کے لیے کوئی بولی وغیرہ نہیں لگی نہ نیلامی ہوئی۔ فیکٹریاں انھیں سپرد کی گئیں اور انھوں نے رقم ادا کی۔ اس سے قبل ان کے پاس لانڈھی میں داؤد کاٹن ملز موجود تھیں جو 1952 سے کام کر رہی تھی۔یاد رہے کہ داود کاٹن ملز  کا کپڑا   کراچی کی مارکیٹو ں  میں صف اول کا معیاری کپڑا ہوا کرتا  تھا 

مغربی پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان میں بھی قسمت آزمانے چلے گئے۔ یہ موقع بھی ایوب خان حکومت میں انھیں میسر ہوا۔ وہاں کرنافلی پیپر ملز اور کرنافلی ٹیکسٹائل ملز مزدوروں کے احتجاج اور دیگر معاملات کی وجہ سے غیر فعال ہوچکی تھیں۔عثمان باٹلی والا کے مطابق نواب آف کالا باغ نے سیٹھ احمد کو پیشکش کی کہ ان کو خرید لیں، انھوں نے اس کو قبول کیا اور محنت کی تو یہ بحال ہوگئیں۔ پیپر ملز اس وقت پاکستان کی واحد مل تھی جس میں بانس سے پیپر بنایا جاتا تھا۔17 جنوری 1969 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ ان کے پاس کاٹن، وولن، ٹکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے -تھے

باقی رہے نام اللہ کا -خدا ئے مہربان جانے والوں کی مغفرت فرمائے

بدھ، 28 جون، 2023

ابو ظہبی گروپ اور کراچی بندرگاہ معاہدہ ؟

     کراچی میرے خوابوں کا شہر ہے اور اس شہر کا دل اس کی بندر گاہ ہے -لیکن وائے افسوس کہ کراچی کی یہ بندرگاہ جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے اب اپنی    خستہ حالی کی آخری حدوں کو چھو چکی ہے خاص طور پر منوڑہ اور اور کیماڑی کی بندرگاہ کا سمندری روٹ جس کے لئے نا تو مناسب کشتیاں ہیں اور ناہی مسافروں کے لئے آسآنیاں ہیں ٹوٹی خستہ حال برتھیں اور تباہ حالی کا نوحہ پڑھتی ہماری بندرگاہ- میں جب سنہ دو ہزار سولہ میں کراچی گئ تھی تب کا نقشہ کھِیںچا     ہے -پھرکراچی بار بار جانا تو ہوا لیکن کیماڑی جا کر دل کو دکھ سے آشنا کرنے کا دل نہیں چاہا -بہر حال اب ایک خوش خبری تو ملی ہے کہ ابو ظہبی کی گورنمنٹ نے  --کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ  ایک بڑی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو پاکستان میں بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ چلتی ہے۔ یہ حکومت پاکستان کی وزارتِ سمندری امور کی ملکیت ہے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام اپنے امور چلاتی ہے جبکہ یہ تقریباً قومی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے 60 فیصد حصے پر اپنا اثر رسوخ قائم کیے ہوئے ہے۔

کراچی پورٹ ایک قدرتی بندرگاہ ہے جو 18ویں صدی کے اوائل سے کام کر رہی ہے حالانکہ قدیم بندرگاہیں 8 ویں صدی عیسوی سے ہی مقامی حکمرانوں کے زیرِ تسلط رہی ہیں۔ آج یہ بندرگاہ 32 کلومیٹر طویل گھاٹیوں اور گودیوں پر قائم ہے جبکہ بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی ساحلی جگہ پر پانی کی گہرائی 16 میٹر ہے جس میں 41 برتھیں اور 8 گھاٹیاں تجارتی بحری جہازوں کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیں۔یہ بندرگاہ سالانہ 65.25 ملین ٹن کارگو اور 1.56 ملین ٹی ای یوز کو ہنڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کراچی پورٹ لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں کے لیے مغربی اور مشرقی گھاٹیوں میں 11 کلومیٹر کے چینل اور 2 زونز کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔ پورٹ ڈاکنگ جہازوں کے لیے 75,000 ٹن کی گنجائش کے ساتھ 3 مائع کارگو بحری جہاز، برتھ، شپ یارڈ اور جہازوں کی مرمت و بحالی کی ورکشاپس، 2 ڈرائی ڈاکس اور 3 کنٹینر ٹرمینلز کی سہولیات سے ہے۔کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل ویسٹ وارف پر 600 میٹر بریتھنگ اسپیس کے ساتھ پیانامیکس اور پوسٹ پینامیکس بحری جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کراچی پورٹ میں تجارتی سرگرمیوں کا عروج پڑوسی بندرگاہوں جیسے کہ پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل، گوادر پورٹ اور پورٹ قاسم کی تعمیر اور ترقی کا باعث بنا ہے۔ کورنگی فشنگ ہاربر کو کراچی فشنگ ہاربر کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔کراچی بندرگاہ پر ابوظہبی گروپ کی سرمایہ کاری کا 50 سالہ معاہدہ کیا ہے اور اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ کراچی کی بندرگاہ کی تاریخ کے لئے قرائن بتاتے ہیں کہ اس بندرگاہ کا پرانا نام دیبل تھا اور یہاں سے تمام دنیا سے تجارتی جہاز آتے اور جاتے تھے اس بندر گاہ کی خاص خوبی یہ کہ یہاں پر جوقدرتی کھاڑی ہے وہاں ہر قسم کے بڑے جہاز بھی بخوبی لنگر انداز ہو سکتے ہیں -اس وقت ہمارا وطن جن غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار ہمارے معاشی معاملات کو سہارا دینے میں آگے آئیں اس سلسلے سے ابو ظہبی نے کراچی کی بندرگاہ پر 50 سالہ معاہدہ کیا ہےد ن بہ دن  سنگین ہوتے معاشی بحران کے دوران گذشتہ دنوں ایک بڑی پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب ابوظہبی کے ’اے ڈی پورٹس‘ گروپ کی جانب سے   پاکستان میں بندرگاہوں کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ ابوظہبی گروپ کا یہ معاہدہ 50 سالوں کے لیے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ طے پایا ہے جس کے تحت یہ گروپ کراچی بندرگاہ پر ایک ٹرمینل کو ڈویلپ کرے گا۔اس کے علاوہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے درمیان ریل رابطے کے لیے بھی یہ گروپ سرمایہ کاری کرے گا اور ایک سپیشل اکنامک زون بھی اسی منصوبے کے تحت تعمیر کیا جائے گا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق ابو ظہبی گروپ کی جانب سے اس منصوبے کے لیے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں سب سے نمایاں ’کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ‘ کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ابوظہبی گروپ کی جانب سے پاکستان میں جہاز رانی اور بندرگاہوں کے شعبے میں اس سرمایہ کاری اور اس کے سلسلے میں معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور تمام دوسرے معاشی اشاریوں کی طرح ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی تیزی سے تنزلی ہوئی ہے۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے تازہ ترین حکومتی اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے گیارہ مہینوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری 21 فیصد کمی کے بعد محض 1.3 ارب ڈالر تک محدود ہو گئی ہے۔ ابوظہبی گروپ کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ ایک ایسے وقت میں بھی سامنے آیا ہے جب حکومت کی جانب سے اقتصادی بحالی کے منصوبے کے تحت سرمایہ کاری کے لیے ایک سہولت کاری کونسل بھی حال ہی میں قائم کی گئی ہے اور اس کی اپیکس کمیٹی میں ملک کے آرمی چیف بھی بطور رکن شامل ہے

وفاقی وزیر میری ٹائم افیئرزجنا ب  فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ کراچی پورٹ کی 33 برتھیں ہیں جن میں سے صرف کچھ برتھیں ابو ظہبی گروپ کو دی گئی ہیں تاکہ وہ انھیں ڈویلپ کرنے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کریں۔ابو ظہبی گروپ اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا؟ابو ظہبی کے ’اے ڈی پورٹس گروپ‘ کی جانب سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ جو معاہدہ طے پایا اس کے بارے میں ابو ظہبی کے حکام نے بھی سرکاری طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس کے مطابق گروپ کا کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ کنٹینر ٹرمینل کے لیے پچاس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت گروپ کراچی پورٹ کے ’ایسٹ وہارف‘ میں برتھ چھ سے نو تک کراچی گیٹ وے کنٹینر ٹرمینل تعمیر کرے گا۔اس معاہدے کے تحت سرمایہ کاری انفراسٹرکچر اور سپر سٹرکچرز کی تعمیر میں کی جائے گی جس کے لیے بڑی سرمایہ کاری سنہ 2026 کے لیے ہو گی۔ اس منصوبے کے تحت برتھوں کی گہرائی زیادہ ہو گی اور کنٹینر سٹوریج میں توسیع کے ذریعے کنٹینر کپیسٹی (کنٹینر رکھنے کی صلاحیت) ساڑھے سات لاکھ سے دس لاکھ سالانہ ہو جائے گی۔اعلامیے کے تحت یہ توسیع و ترقی کراچی کی میری ٹائم سیکٹر میں پاکستان کی حیثیت کو مزید بڑھا دے گا۔ اس کے علاوہ ایک خصوصی اکنامک زون کا منصوبہ بھی ہے اور کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کےد رمیان ریل رابطے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔

واضح رہے کہ ابو ظہبی کا اے ڈی پورٹس گروپ 2006 میں قائم ہوا تھا جو ابو ظہبی کو دنیا کے دوسرے خطوں سے ملاتا ہے۔ گروپ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پورٹس، اکنامک سٹیز (شہروں) اور فری زونز کے کلسٹر چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گروپ دنیا بھر میں دس بندرگاہوں اور ٹرمینلز کو بھی آپریٹ کر رہا ہے۔کیا ابو ظہبی گروپ پاکستان میں کنٹینر ٹرمینل آپریٹ کرنے والا پہلا گروپ ہو گا؟پاکستان میں جہاز رانی کے شعبے کے ماہر عاصم اقبال نے اس معاہدے اور اس سے جڑے معاملات پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ابو ظہبی کا اے ڈی پورٹس گروپ پاکستانی بندرگاہوں پر ٹرمینل چلانے والا پہلا نجی گروپ نہیں ہے۔انھوں نے کہا جو برتھیں اے ڈی پورٹس گروپ کو دی جا رہی ہیں، اُن میں سے دو برتھیں پہلے ایک نجی گروپ ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے پاس تھیں۔ ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے ساتھ معاہدہ رواں برس 17 جون کو ختم ہو گیا تھا جس میں مزید توسیع نہیں کی گئی۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس گروپ کی جانب سے معاہدے میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی تاہم یہ درخواست قبول نہیں کی گئی۔عاصم کے مطابق حال ہی میں ہونے والے نئے معاہدے کے تحت ابوظہبی گروپ کے پاس اب ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے مقابلے میں دو برتھیں زیادہ ہوں گی۔ انھوں نے ابوظہبی گروپ سے پہلے دو کنٹینر ٹرمینلز چینی کمپنیاں چلا رہی ہیں جن میں سے ایک ساؤتھ ایشیا پورٹ ٹرمینل ہے اور دوسرا کراچی انٹرنینشل کنٹینر ٹرمینل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اِسی طرح پورٹ قاسم پر دبئی کا گروپ ’دبئی پورٹس‘ ایک ٹرمینل چلا رہا ہے-عاصم اقبال نے کہا ابوظہبی کا گروپ اور دبئی پورٹس ایک دوسرے کے ساتھ بندرگاہوں کے شعبے میں مسابقت کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دبئی پورٹس تو پہلے سے پاکستان میں موجود ہے اور اب ابو ظہبی کی ’اے ڈی پورٹس‘ نے بھی پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھ دیا ہے۔ابو ظہبی گروپ کے کراچی بندرگاہ پر کنٹینر ٹرمینل بنانے کے معاہدے کے بارے میں پاکستان کے بحری امور کے وفاقی وزیر فیصل سبزواری نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کراچی پورٹ کا ایک کنٹینر ٹرمینل چلانے کا معاہدہ ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے ساتھ تھا جو 2002 میں 21 سال کی مدت کے لیے ہوا تھا، یہ معاہدہ اب ختم ہونے کے بعد ٹرمینل کراچی پورٹ ٹرسٹ کو مل گیا ہے۔انھوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ کراچی پورٹ کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ا بوظہبی پورٹ گروپ سے معاہدے میں کے پی ٹی کو فی کنٹینر 18 ڈالر کی رائلٹی ملے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاہدے سے ٹرمیینل سے ریونیو بھی مزید بڑھے گا۔پورٹس اور شپنگ کے ماہر عاصم اقبال نے کہا اس معاہدے سے سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہو گا کہ مجوزہ منصوبے کے تحت برتھوں کی گہرائی اور ٹرمینل میں توسیع کے بعد دو جہاز اس پر لنگر انداز ہو سکیں گے۔ انھوں نے کہ اس سے پہلے ایک ہفتے میں ایک جہاز آ رہا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ ’اب جب کہ اس ٹرمینل کو ٹرانشپمنٹ مرکز بنانے کی بات ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جہاں سے بڑا جہاز سامان لے جا سکے گا، جس کا مطلب ہے کہ دوسری بندرگاہوں سے چھوٹے جہازوں میں سامان یہاں لایا جائے گا اور پھر بڑے جہاز میں اسے لاد کر منزل مقصود پر لے جایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ٹرانسشپمنٹ کارگو دبئی اور جبل علی کے پورٹس میں بٹا ہوا ہے لیکن وہاں پر اب بہت زیادہ ہجوم ہو چکا ہے تو اگر ابوظہبی گروپ منصوبے کے بعد اسے ڈویلپ کرتا ہے تو ٹرانسشپمنٹ کے ذریعے پاکستان خطے کے دوسرے پورٹس سے آنے والے سامان کے لیے مرکز بن سکتا ہے، جس سے پاکستان کے بندرگاہوں کے شعبے کو فائدہ ہو گا۔پاکستان میں تجارتی شعبے کے ادارے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو زبیر موتی والا نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر منصوبے کے بعد ٹرانسشپمنٹ کارگو شروع ہوتا ہے تو اس کا پاکستان کے بیرونی تجارت کے شعبے کو تو فائدہ ہو گا بلکہ اس کے ساتھ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی فائدہ ہو گا۔انھوں نے کہا کہ فی الوقت چھوٹے جہازوں سے پہلے کارگو دبئی اور ابو ظہبی پہنچایا جاتا ہے جہاں پر اس وقت بہت زیادہ رش ہو چکا ہے اگر یہاں پر بڑا جہاز لنگر انداز ہوتا ہے تو اس کے فوائد پاکستان کو بیرونی تجارت کے شعبے میں ہو سکتے ہیں۔ابو ظہبی گروپ کی سرمایہ کاری اس وقت کتنی اہمیت کی حامل ہے؟جنا ب  عاصم اقبال کے مطابق یہ سرمایہ کاری اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے جس کے بارے میں حکومت کہتی چلی آ رہی ہے کہ خلیجی ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری جلد ہو گی۔ انھوں نے کہا پہلے خلیجی ممالک کی جانب سے کیش امداد دی جاتی رہی ہے لیکن اب انھوں نے اس کا طریقہ کار بدل دیا ہے۔اب ایک فزیکل ایسٹ (پاکستان کا اثاثہ) اُن کے پاس ہو گا جس میں وہ سرمایہ کاری کریں گے۔‘انھوں نے کہا اس سے ایسوسی ایٹ بزنس بڑھے گا اور متعلقہ شعبے کو بھی فائدہ ہو گا -زبیر موتی والا کے مطابق ابوظہبی کی یہ سرمایہ کاری ایک مثبت پیغام دنیا بھر میں بھیجے گی کہ پاکستان میں حالات سرمایہ کاری کے لیے اتنے زیادہ خراب نہیں ہیں ۔ تاہم انھوں نے کہا اگر ابوظہبی کے گروپ کی جانب سے پاکستان میں ایک ایسے وقت میں سرمایہ کاری ہوئی ہے کہ جہاں رسک بہت زیادہ ہے تو اس کا فائدہ انھیں بھی ہو گا کیونکہ جہاں رسک زیادہ ہوتا ہے وہاں پر زیادہ فائدہ حاصل ہونے کا بھی موقع ہوتا ہے۔

منگل، 27 جون، 2023

اصفہا ن ۔نصف جہان

صوبہ اصفہان ایران کے مرکز میں  واقع شہر اصفہان  ایک ایسا نادر روزگار شہر ہےجو  محصولات بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے- صفوی فرمانرواوں نے اس شہر کو اپنے دور میں بہت ترقی دی - اس صوبے کا مرکزی شہر اصفہان  ہے جو  ایک قدیم شہر ہے اور ایران کے  مرکز اور زایندہ رود کے کنارے پر واقع ہے-  ایران کی تہذیب میں یہ شہر نصف جہان کے نام سے مشہور ہے- اصفہان، تہران اور مشہد کے بعد ایران کا سب سے گنجان آباد  شہر ہے- اس شہر میں بہت ساری تاریخی  عمارتیں موجود ہیں  جن میں سے بعض  کے نام تاریخی ورثے کے زیر عنوان یونسکو میں لکھے گئے ہیں- چہل ستون کا باغ شاہ عباس کے عہد میں بنایا گیا ہے جس کے درمیان چہل ستون کی عمارت موجود ہے- ہشت بہشت کی تاریخی عمارت صفوی بادشاہوں کا محل تھا جو 1080ھ میں بنایا گیا ہے- اس تاریخی جگہ کا باغ اپنی اصل حالت میں باقی نہیں  رہا مگر اس کا محل اب بھی دیکھنے کے قابل ہے- اس دہائی میں اس محل کے اردگرد ایک بڑا شاندار پارک بنایا گیا تھا جس نے اس محل کی خوبصورتی کو دگنا کر دیا ہے- عالی قاپو کی پانچ منزلہ عمارت کو  بارہویں صدی ہجری کی ابتدا میں شاہ عباس اول کے حکم پر بنایا گیا تھا اور بادشاہ اس محل میں سفیروں اور عالی مرتبہ مہمانوں سے ملتے تھے اور اسی محل کے تالار سے مہمانوں کے ساتھ چوگان، آتشبازی اور  چراغانی جیسے کھیلوں کو دیکھتے تھے- اصفہان کے مینار جنبان  کی شہرت اس کے دو میناروں کے لرزنے کی وجہ سے ہے- ایک مینار کے لرزنے سے پوری عمارت لرزنے لگتی ہے- ہر مینار کی لمبائی 17 میٹر ہوتی ہے- اس عمارت کا ایوان مغل معماری کی طرز پر بنائیا گیا ہے- ایسا کہا جاتا ہے کہ دو میناروں کو  اس میں  اضافہ کیا گیا ہے-ایوان میں چچا عبداللہ کے نام سے ایک قبر ہے جو مغل عہد کے ہمعصر تھے- اللہ وردی خان کا پل ایران کے پل بنانے کی معماری میں بڑا شہکار ہے- یہ پل سی و سہ (33) پل کے نام سے مشہور ہے اور 1005ہجری کو شاہ عباس اول کے عہد میں اللہ وردی خان کی زیرنگرانی میں زایندہ رود پر بنایا گیا ہے- اس پل کا طول 3000 میٹر ہے اور اس لحاظ سے زایندہ رود کا سب سے لمبا پل ہے- خوبصورتی اور عظمت کے لحاظ سے یہ پل بہت منفرد ہے- پل خواجو بھی تیموری دور میں بنایا گیا اور شاہ عباس دوم کے دور میں اس کی مرمت ہوئی اور آج کے روپ میں ڈھل گیا- شاہ کے عارضی قیام کے لیے اس پل کے بیچ میں ایک عمارت بنائی گئی جو بیگلر بیگی کے نام سے مشہور ہے- اس پل کا اصل نام شاہی پل ہے اور خواجو محلے کی مجاورت کی وجہ سے  یہ دو صدی میں پل خواجو کے نام سے مشہور ہو گیا ہے- صوبہ اصفہان کے دیگر تاریخی سیاحتی جگہوں کے نام حسب ذیل ہیں: آران اور بیدل نمک کا جھیل، سیلک کی پہاڑی، مارنان کا پل، ابیانہ گاۆں، گوگد کا گڑھ، شیخ بہائی کا گڑھ، توحید خانہ کی عمارت، وانک کا گرجا، زایندہ رود کا ڈیم، چار باغ کا مدرسہ، شیخ لطف اللہ کی مسجد، تخت فولاد اصفہان کا قبرستان، باقوشخانہ مینار، برسیان مینار، مرنجاب کا کاروانسرا، نیاسر کا جھرنا ایرانی صوبہ بہت عرصہ تک ہم سنتے رہے  اصفہان نصف جہان ہے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ اصفہان شہر فن تعمیرکے لحاظ سے ہے نفیس شہر شت بہشت محل (انگریزی: Hasht Behesht؛ فارسی: کاخِ ہشت بہشت اصفہان) اصفہان میں واقع ایک شاہی محل ہے جو 1669ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ محل شاہ عباس دوم کے دورِ حکومت میں تکمیل کو پہنچا۔


ہشت بہشت اصفہان میں سترہویں صدی میں تعمیر کیے جانے والے خوبصورت ترین محلات میں سے ایک ہے۔ ہشت بہشت کی تعمیر 1080ھ/ 1669ء میں تکمیل کو پہنچی۔ اِس محل کی چالیس شاہی عمارات میں سے صرف ایک باقی ہے جو محفوظ کرلی گئی ہے۔ یہ محل ادارہ برائے ثقافتی و وراثت و دستکاری و سیاحت ایران کی تحویل میں ہے اصفہان شہر اپنی دستکاری کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ دستکاری کے فنکار دنیا بھر میں شہرت یافتہ ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبہ اصفہان میں دستکاری کے فن پارے ایرانیوں اور غیر ملکی سیاحوں کے گھروں کی زینت ہیں ۔ اصفہان کے چاندی کے زیورات اپنی مثال آپ کسی بھی ملک کی شناخت اس کی قدیم تہذیب و ثقافت کی تاریخ سے اجاگر ہوتی ہے۔ ایران اپنی قدیم تہذیب کے توسط سے دنیا کی تاریخ میں تہذیب یافتہ ملکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔ ایرانی تہذیب کا مظہر ایرانی آباو اجداد کے فن پاروں سے پایا جاتا ہے ۔ ایران کی دستکاری کو اگر ہم مشاہدہ کریں تو ثقافت اور تاریخ کی گہری جڑیں پائی جاتی ہیں۔ قبل از اسلام اور بعد از اسلام کی تاریخ میں یہ فن پارے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایران کے صنعت دستکاری دنیا کے تمام ممالک سے الگ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دستکاری فنون لطیفہ کا ایک حصہ ہے ۔ ایران کی  سر زمین فنی ورثہ سے بہت غنی ہے ۔ ایران کے لوگ سچے فنکار ہیں جو تمام شعبوں جیسے فن تعمیر، مصوری، قالین سازی، لکڑی کی تراشی کاشی سازی (ٹائل) خطاطی میں بے مثال ہیں۔

اسلام کے بعد سامانیوں کے دور سے لے کر سلجوقی دور تک فن تعمیر کے بے مثال شاہکار نظر آتے ہیں۔ صنعت کو تاریخ اور تہذیب کا عکاس سمجھا جاتا ہے ۔ یہ صنعتیں در حقیقت لوگوں کی ثقافت اور ان کی صلاحیتوں اور مہارت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جو ملک کی معیشت پر بھی گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ ایران کی حکومت بھی دستکاری اور ثقافت کی سرپرستی کرتی ہے اور اس کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے ۔ ایران ہر سال دستکاری کے عالمی دن کی مناسبت سے روایتی اور ثقافتی  اشیاء کی نمائش کا اہتمام کرتا ہے ۔ ایران دستکاری کے شعبے میں چین اور ہندوستان کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے جو دستکاری کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ دستکاری کی عالمی فہرست میں ایران کا صوبے اصفہان رجسٹرڈ رپورٹ کے مطابق، مینیئیچر آرٹ ، خاتم کاری، مینا کاری، قلم زنی ، قلم کاری، معرق کاری ، منبت کاری ، خامہ بافی اور گلیم بافی وغیرہ کے بہترین نمونے اس نمائش میں پیش کئے گئے ہیں جہاں آرٹ اور ہنر کے دلدادہ افراد، ایرانی آرٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہاں پر پیش کئے جانے والے ایرانی آرٹ کے نمونوں میں فیروزے سے سجے اور تانبے سے بنے ایسے برتنوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جنہیں ایرانی اور غیرملکی سیاح دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں ۔

اس نمائش میں ڈیکوریشن کی اشیا کے علاوہ ایرانی آرٹ کو روزمرہ کے استعمال کے وسائل کی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے جس کا نوجوان نسل نے خصوصی طور پر خیرمقدم کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران کے دستکاری کے نمونوں کا دو تہائی حصہ اصفہان شہر اور اس کے مضافات میں تیار کیا جاتا ہے۔اس شہر میں موجود متنوع دستکاری کے پیش نظر سن دو ہزار پانچ میں اصفہان کو یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک میں شامل کیا گیا تھا اور دستکاری کی عالمی کمیٹی نے، مرکزی ایران میں واقع اس شہر کو دستکاری کا عالمی شہر قرار دیا تھا-ایرا نصنعت دستکاری میں دنیا کےدوسرے ممالک سے بہت آگے ہے۔ قالین بافی  ایران کی ایک بہت اہم صنایع دستی (دستکاری) ہے  جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہے ۔ ایرانی قالین سر زمین ایران کے تمدن و فرھنگ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ تقریباً ہزار سال سے ایرانی قالین بانی کا ہنر اس قوم میں پایا جاتا ہے۔ سر زمین ایران کے روایتی انداز سے بنے  ہوئے قالین تیزا ور شوخ رنگوں میں پھولوں کے ڈیزائنوں کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ایران کے شہر اور گاوں  میں بہت سارے ایسے افراد ہیں جو قالین بنانے مہارت  رکھتے ہیں اور ایسے مراکز ہیں جو یہ ہنر سکھاتے ہیں۔ مشہور ترین مراکز جہاں قالین بافی ہوتی ہے وہ کاشان، اصفہان، تبریز، مشھد، یزد، کرمان ہیں۔ شہر اور گاؤں میں سب سے مہنگا قالین ابر شیم سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ ایران کی قالین بافی  کی صنعت زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بھی ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ایرانی قالین کی بہت مانگ ہے ۔  تبریز قالینوں کے عالمی شہر کے طور پر بہت شہرت رکھتا ہے ۔ اور اس شہر کے ہاتھ سے بنے ہوئے قالین دنیا کی بہت ساری نمائیشوں میں رکھے گئے جنہیں شائقین کی طر ف  سے بہت زیادہ  پذیرائی ملی ہے۔اصفہان میں قائم ایک اور فن مینا کاری ہے۔ اس کے علاوہ شہر اصفہان خاتم کاری کے لئے بھی بہت شہرت رکھتا ہے ۔دستکاری  کی عالمی فہرست میں ایران کے صوبے اصفہان ایک سو تئیس سے زائد دستکاری کی مختلف اشیاء کے ساتھ پہلا شہر ہے  جو عالمی فہرست میں رجسٹرڈ ہے ۔ ایران کے  سارے  شہر کسی نہ کسی صورت میں دستکاری  کے شعبے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ دستکاری کی عالمی فہرست میں ایک اور ایرانی گاؤں صوبہ گیلان کا قاسم آباد ہے جو چادر شب  بافی کے لئے مشہور ہے ۔ چادر شب بافی  ایران میں بہت ہی مشہور  چادر ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر تحائف کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ جہیز میں بھی دی جاتی ہیں۔ ایران کا صوبہ ہمدان مٹی کی برتنوں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے  یہ مٹی کے برتن خوبصورت نقش و نگار کی وجہ سے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں اور فنکار کے لطیف احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اپنی خوبصورت رنگ آمیزی کی وجہ سے عاملی شہرت رکھتے ہیں۔

ایران کے مختلف صوبو ں میں کڑھائی کا کام بھی کیا جاتا ہے تاہم زبخان کی کڑھائی دوسرے شہر وں کی نسبت زیادہ قدیمی اور اصلی ہے ۔ سیر جان قالی نما گلیم کی  منفرد بافت اور ساخت کی وجہ سے عالمی شہر کے طور پر رجسٹرڈ کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان قالیچوں کو بننے کے لئے کئی افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ اسے دوسرے گلیموں کی طرح ایک آدمی بن نہیں سکتا۔ صوبہ خراسان میں بھی چاندی کے زیورات بنانے کا فن نمایا ں ہے ۔ ایرانی قوم کے  اپنے تخلیقی جذبے اور فنکاروں کی تخلیق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ ایران کی دستکاری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ فن مصوری ، ٹائل سازی، خاتم کاری، قالین بافی، مٹی کے برتن اور دستکاری کی دوسری اشیاء کے حوالے سے دنیا  بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ ایران دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ایرانی دستکاری کے فن پاروں کو دیکھ کر اس قوم کی فنی صلاحیتوں کی تعریف کیے بغیر انسان نہیں رہ سکتا ہے۔

ایران نے دستکاری کے شعبے سے وابستہ افراد کو عالمی مارکیٹوں تک رسائی دینے اور ان کی تیار کردہ اشیاء کی فروخت کو ممکن بنانے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کر رہا ہے۔  ایران کے دستکاری کے خوبصورت فن پارے اپنی شناخت آپ رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے دستکاری کے فن پاروں میں پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی خوبصورتی ، رنگ آمیزی اور نزاکت اپنے دور کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے ۔ ہر ملک کی دستکاری اُس کے ہنر کو اجاگر کرتی ہےاور دنیا میں اپنی شناخت کراتی ہے ۔ ایرانی کارمند، ہنر مند اپنی ہنر اور مہارت سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے رپورٹ کے مطابق، مینیئیچر آرٹ ، خاتم کاری، مینا کاری، قلم زنی ، قلم کاری، معرق کاری ، منبت کاری ، خامہ بافی اور گلیم بافی وغیرہ کے بہترین نمونے اس نمائش میں پیش کئے گئے ہیں جہاں آرٹ اور ہنر کے دلدادہ افراد، ایرانی آرٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہاں پر پیش کئے جانے والے ایرانی آرٹ کے نمونوں میں فیروزے سے سجے اور تانبے سے بنے ایسے برتنوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جنہیں ایرانی اور غیرملکی سیاح دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں ۔

اس نمائش میں ڈیکوریشن کی اشیا کے علاوہ ایرانی آرٹ کو روزمرہ کے استعمال کے وسائل کی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے جس کا نوجوان نسل نے خصوصی طور پر خیرمقدم کیا ہے۔قابل ذکر  بات یہ ہے کہ ایران کے دستکاری کے نمونوں کا دو تہائی حصہ اصفہان شہر اور اس کے مضافات میں تیار کیا جاتا ہے۔اس شہر میں موجود متنوع دستکاری کے پیش نظر سن دو ہزار پانچ میں اصفہان کو یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک میں شامل کیا گیا تھا اور دستکاری کی عالمی کمیٹی نے، مرکزی ایران میں واقع اس شہر کو دستکاری کا عالمی شہر قرار دیا تھا۔



اتوار، 25 جون، 2023

یونان کشتی حادثہ

 

یونان کشتی حادثہ  -انسانی اسمگلروں کا یہ تمام دنیا میں اتہائ منظّم طریقہ پر پھیلا ہوا وہ نیٹ ورک ہے جو یونان کشتی کوئ نِا حادثہ تو نہیں تھا چند مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا حادثہ تھا حکومتی کارندوں کی خفیہ سرپرستی میں سالانہ بنیادوں پر کئ ارب روپئے کا بزنس کر رہا ہے -ٹوٹی کشتیاں کرائے پر لے کر کسی بھی ملک کے نوجوانوں کو اپنےکمیشن پر رکھّے ہوئے ایجنٹوں کے زریعہ ورغلا کر لاکھوں روپے بٹور کر معصوم نوجوانوں کو موت کے غار میں دھکیل کر پھر اگلے شکار کرنے نکل پڑتا ہے- یہ وہی مافیا ہے جس کو اقوام متحدہ نے اپنے ایک کنونشن کے مطابق اس کو آرگنائز کرائم قرار دیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے ریزولیشن نمبر 54/212 میں تمام حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اس آرگنائز کرائم کے سرغنوں اور گینگز کو پکڑا جائے تاکہ ہیومن اسمگلنگ کا قلع قمع ہو - اس ضمن میں تمام ممالک کواپنی لاان فورسز ایجنسیزکو فعال کرنا ہو گاتاکہ اس مافیا کا خاتمہ ہوسکے۔

یونان کشتی کوئ نِا حادثہ تو نہیں تھا چند مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا حادثہ تھا -اس سے قبل چند ہفتوں کے کے فرق سے اٹلی کے پانیوں میں اور لیبیا کے سمندر میں بھی کافی بڑِ تعداد میں پاکستانی جاں بحق ہوئےلیکن مجال ہے جو کسی فرد یا کسی ادارے نے ان حادثات کا نوٹس لیا ہو-جہاں پائلوس کے جنوب میں 50کلو میٹر کے فاصلے پر یہ کشتی ڈوب گئی۔حادثہ کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ملاح تارکین وطن کو سمندر کے درمیان چھوڑ کر خود ایک چھوٹی کشتی میں فرار ہو گیا تھا۔ معلومات کے مطابق صوبہ پنجاب کے اضلاع منڈی بہائو الدین، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ کے نوجوان بھی اس کشتی میں سوار تھے یونان میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی ایک ٹیم یونانی حکام سے رابطے میں ہے اور ابتدائی معلومات کے بعد 12پاکستانیوں کو بچالیا گیا ہے ۔جن پاکستانیوں کو بچایا گیا ہے ان میں محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمن کا تعلق کوٹلی سے ہے ۔یونان کی عبوری حکومت نے کشتی کے اس بڑے حادثے کے پیش نظر ملک میں 3دن سوگ منانے کا اعلان کیا ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں خوشحال خان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کیل سیکٹر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والوں میں اُن کا بھتیجا شبہاز محمود اور تین پڑوسی چوہدری آزاد، چوہدری ناصر اور نبیل بٹ بھی شامل ہیں۔وہ یاد کرتے ہیں کہ شہباز کو ’اس کے والد نے منع کیا، والد ہی نہیں بلکہ سب جاننے والوں نے منع کیا تھا کہ یہ کام نہ کرو۔مگر وہ لگ بھگ دو ماہ پہلے سعودی عرب سے واپس (پاکستان) آیا، گھر میں صرف پانچ دن رہا اور پھر یورپ  سفر پر روانہ ہو گیا۔‘خوشحال کے مطابق ان کے بھتیجے شہباز کے دو بچے ہیں اور وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا۔انھوں نے کہا کہ ان کا بھتیجا بھی اُسی کشتی پر سوار تھا جسے یونان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ شہباز نے کشتی پر روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں کو اس بابت آگاہ کیا تھا۔یاد رہے کہ 14 جون کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جسے یورپ میں تارکین وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 104 افراد کو بچایا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے کہا کہ اس واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت لگ بھگ 500 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

یونان میں پاکستانی سفارتخانے کے اہلکاروں کے مطابق جس جگہ کشتی ڈوبی ہے وہاں سمندر انتہائی گہرا ہے۔بچائے جانے والے 104 افراد میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔رپورٹس کے مطابق اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں سے 100 کے لگ بھگ بچے سوار کیئے گئے تھے-یونان نے اسے تاریخ کے بڑے کشتی حادثوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔دوسری جانب یونان میں پاکستان کےسفارتخانے نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر یونانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انھوں نے ایسے تمام پاکستانیوں سے گزارش کی ہے کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا اس کشتی پر سوار تھا تو اس سے متعلق شناختی تفصیلات ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانے کو فراہم کی جائیں۔یونان میں کشتی حادثے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی کے کیل سیکٹر کے علاقے کے متعدد نوجوان سوار ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ اس بارے میں متفرق اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔تاہم بی بی سی نے کوٹلی میں تین ایسے خاندانوں سے رابطہ کیا جن کے قریبی رشتہ داروں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے اس کشتی پر سوار تھے اور اب وہ لاپتہ ہیں۔محمد مبشر کوٹلی کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے چچا آفتاب قاسم اور ایک قریبی عزیز انعام شفاعت ماہ رمضان کے بعد اٹلی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پہلے پاکستان سے لیبیا پہنچیں گے، جس کے بعد ان کی منزل اٹلی تھی۔ وہ کافی عرصے سے گھر سے نکلے ہوئے تھے اور گاہے بگاہے اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہے تھے۔‘محمد مبشر کے مطابق ’چند دن قبل ہمیں اطلاع ملی کہ اُن کو لیبیا میں مسائل کا سامنا ہے اور فی الحال وہ لیبیا ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پتا چلا کہ انعام شفاعت کشتی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ہیں جبکہ آفتاب قاسم ابھی بھی لیبیا میں ہیں۔ جب ہمیں اس حادثے کا پتا چلا تو ہم نے آفتاب قاسم سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ وہی کشتی ہے جس میں انعام شفاعت سوار تھے۔

محمد مبشر بتاتے ہیں کہ ان کے لیبیا میں موجود کزن آفتاب قاسم نے یہ بھی بتایا کہ اس کشتی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کیل سیکٹر کے کافی لوگ سوار تھے۔ انھیں تعداد کا اندازہ نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار کافی نوجوانوں کا تعلق ان ہی کے علاقے سے تھا اور وہ سب تقریباً ساتھ ہی اپنے علاقے سے نکلے تھے۔مبشر نے بتایا کہ گذشتہ دو روز سے ان کا لیبیا میں موجود آفتاب قاسم سے بھی رابطہ قائم نہیں ہو رہا ہے محمد مبشر کہتے ہیں کہ انھوں نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی ہے اور ان کو جو تفصیلات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق کیل سیکٹر کے ایک گاؤں سے کافی تعداد میں افراد یورپ جانے کے لیے نکلے تھے۔کوٹلی ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے مقصود نگڑیال نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس کشتی پر ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ علاقے کے دو درجن کے لگ بھگ افراد سوار ہو سکتے ہیں۔مقصود نگڑیال نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں حسیب اور عدنان بشیر کو بچا لیا گیا ہے۔ ’حسیب اور عدنان ہمارے ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘مقصود نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بچنے والے دونوں نوجوانوں سے بات ہوئی ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ ’ہمارے علاقے کے 30 نوجوان کشتی پر سوار تھے۔‘مقصود نگڑیال کا کہنا تھا کہ ان لاپتہ افراد میں ان کے خاندان کے پانچ قریبی لوگ موجود ہیں جن میں شہباز محمود (چچا زاد بھائی)، حمید حسین (داماد)، خادم حسین (تایا زاد)، یوسف حسین (چچا زاد بھائی) اور مسکین (تایا زاد بھائی) شامل ہیںاگر حکومت قانونی طریقے سے باعزت طور پر ان نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست کر ے تو اس سے نہ صرف ایسےحادثات سے بچا جاسکتا ہے بلکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی چوکھٹ پر ناک رگڑ نے سے بھی نجات مل سکتی ہے ۔اس کیلئے کوئی لمبا چوڑا بجٹ بھی درکار نہیں ۔ضرورت صرف اتنی ہے کہ نوجوانوں کو مختلف ممالک میں کار آمد ہنر سکھائے جائیں اور متعلقہ ممالک کی زبانیں سکھا کر سفارتی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ ہنر مندوں کو باہر بھیجا جائے ۔ جس طرح 2دہائیوں سے فلپائن ،بنگلہ دیش اور بھارت کر رہے ہیں۔ یقین رکھیں حکومت اگر اپنے نوجوانوں کا ہنر ایکسپورٹ کرنے کی منصوبہ بندی کرلے تو زرمبادلہ کے معاملہ میں خود کفیل ہو سکتی ہے۔۔

منگل، 20 جون، 2023

شہر لاہور میرے داتا کی نگری

  یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پرانے زمانے میں عوام النّاس  کی حفاظت کے لئے شہروں کے گرد فصیلیں تعمیر کی جاتی   تھیں قران پاک کے سورہ کہف میں بھی ایک شہر فصیل کا زکر ملتا ہے -جبکہ کراچی کی قدیم تاریخ میں جس فصیل کا زکر ہے اس کے دو دروازے تھے ایک کھارا در اور دوسرا میٹھا در -اب یہ نام باقی رہ گئے اور شہر فصیل معدوم ہو چکی ہے-اسی طرح لاہور شہر کے گرد تعمیر کردہ فصیل میں متعدد جگہوں پر دروازے بنائے گئے تھے۔ یہ علاقہ اب اندرون شہر کہلاتا ہے۔ مغلیہ دور میں قائم ہونے والے ان دروازوں کو دوبارہ تعمیر کی نیت سے انگریزوں کے دور میں گرا دیا گیا اور اْسی طرز پر پھر سے تعمیر بھی کیا گیا۔

یہ سب دروازے انیسویں صدی تک اپنی اصل حالت میں قائم تھے۔ مگر 1947ء کے فسادات میں کچھ دروازوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ بعدازاں کچھ دروازے شکست وریخت کا شکار ہو کر یا تو بالکل ختم ہوگئے یا کچھ کے محض آثار ہی باقی بچے ہیں۔ اب کتابوں میں صرف ان کے نام اور تاریخ ہی ملتی ہے۔ تاحال 13 میں سے صرف 6 دروازے ہی اب تک باقی ہیں۔ہمارا بظاہر قیام امریکہ میں ہے مگر ہمارا دل پاکستان کے دل داتا کی نگری شہر لاہور میں اٹکا رہتا ہے۔ اندرون شہر لاہور کی تفصیلی سیاحت تو شاید کبھی مکمل نہ ہو سکے البتہ ہر سال لاہور آمد پر اندرون شہر بلکہ اصل لاہور کا ایک پھیرا نہ لگا لیں۔ روح تشنہ رہتی ہے۔ دہلی دروازہ میں شاہی حمام بھی ایک تاریخی دریافت ہے جبکہ مسجد وزیر خان حقیقت میں تاریخی ورثہ ہے۔ بلند و بالا دیواریں اور شاندار گنبد ماہرین فن تعمیر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لاہور شہر کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم نشانی ’’مسجد وزیرخان‘‘ کے نام سے زمانے بھر میں معروف ہے۔ اس عظیم الشان مسجد اور تعمیر کے نادر نمونے کے بانی کا نام حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان ہے۔ حکیم صاحب شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔

حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان کی وجہ سے زمانے بھر میں معروف ہوئی ہی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام، مسجد نواب وزیر خان خود اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دہلی گیٹ کے علاوہ کھلی چھت کے رکشہ پر شام کی خوشگوار ہوائوں کے سنگ اندرون شہر کا چکر بھی لگایا۔

یکی گیٹ کا نام پہلے ذکی گیٹ ہوا کرتا تھا۔اور یہ نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر موجود ہیں۔ اکبری دروازہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر رکھا گیا۔جلال الدین اکبر نے ٹائون کے قریب ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی جس کا نام اکبری منڈی ہے اور یہ اب بھی ویسی ہی مقبول اور اعلیٰ معیار کی ہے جیسے پہلے تھی۔ یہ لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل کی مارکیٹ ہے۔ اکبری منڈی سے گڑ خریدا جس کا ذائقہ آج بھی ہمیں بچپن کی مٹھاس کی یاد دلاتا ہے۔ ٹیکسالی گیٹ اب موجود نہیں ہے لیکن یہاں کھانے بہت رنگ رنگ کے موجود ہیں جو کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ سکھوں کی مشہور مقدس عمارتیں پانی والا تالاب اور لال کھوہ یہیں واقع ہیں۔ شاہ عالمی گیٹ شہنشاہ بہادر شاہ کے نام پر رکھا گیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اسکا نام باقی ہے۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ بھاٹی گیٹ ایک بہت پرانے قبیلے بھٹی راجپوت کے نام پہ رکھا گیا۔ اسے لاہور کا چیلسی بھی کہا جاتا تھا۔ اسے علم و ادب کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ مغربی سمت میں واقع اس دروازے کا یہ نام اس لیے بھی پڑ گیا کہ جب شہر آباد ہونا شروع ہوا تو اس جگہ بھاٹ قوم آباد ہوئی۔ اصل دروازہ شکستہ ہونے پر انگریزوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔ بھاٹی گیٹ کی مشہور چیز اشیائے خوردنی کی مارکیٹ ہے اس کے علاوہ اس کی وجہ شہرت داتا علی ہجویری المعروف داتا صاحب کا دربار بھی ہے۔ یہاں علامہ اقبال کا بھی ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا جہاں وہ مطالعہ اور کتب بینی کے شغل کے لئے آتے تھے۔ کشمیری گیٹ کے نام کی بڑی وجہ اس کا رخ کشمیر کی طرف ہونا ہے۔

 کشمیری گیٹ کے اندر کشمیری بازار اور ایک خوبصورت گرلز کالج واقع ہے۔ کالج کی بلڈنگ مغل فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی سے سڑک نکل کر ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی مارکیٹ اعظم مارکیٹ کو جاتی ہے جو اس کی مشہوری کی خاص وجہ ہے۔ دہلی گیٹ بہت اہم دروازہ ہے جو شہنشاہ اکبر نے بنوایاتھا۔ یہ گیٹ دہلی کی طرف کھلتا ہے اس لئے اس کا نام دہلی گیٹ ہے۔ یہ کسی زمانے میں لاہور دہلی ٹرانسپورٹ کا واحد راستہ تھا۔ آزادی کی تحریک کے دوران ہونے والے فسادات میں اس کو بہت نقصان پہنچا مگر اس کی تعمیر نو نے اس کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ مستی گیٹ شاہی قلعہ کی پشت پر واقع ہے۔ یہاں کی خالص دودھ کی بنی اشیا لاہور بھر میں مشہور ہیں۔ لاہوری گیٹ لاہور کا سب سے قدیم گیٹ ہے۔ چونکہ اس علاقے میں بہت سے لوہار تھے اور انہوں نے اس دروازے پہ بہت سی دکانیں بنا رکھی تھیں اسلئے اس کو یہ نام دیا گیا

۔ اب لوہاری گیٹ کے کلچر میں کھانا ہی کھانا ہے۔ لوہاری گیٹ کے سامنے لاہور کا مشہور زمانہ انارکلی بازار واقع ہے۔ موچی گیٹ کولاہور کا دل کہا جاتا ہے۔ یہ بھی مغل فن تعمیر ہے۔ یہاں جوتوں کی مرمت اور مینوفیکچر کے بہت کارخانے موجود ہیں۔ اس کے بالکل دائیں ہاتھ پہ موچی باغ ہے جو پرانے وقت سے اب تک سیاسی جلسوں کی آماجگاہ ہے اور بہت مشہور ہے۔ موچی دروازہ کے اندر موجود مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی مغل فن تعمیر کی  خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ روشنائی گیٹ روشنیوں کا دروازہ مشہور تھا۔ یہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر