کراچی میرے خوابوں کا شہر ہے اور اس شہر کا دل اس کی بندر گاہ ہے -لیکن وائے افسوس کہ کراچی کی یہ بندرگاہ جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے اب اپنی خستہ حالی کی آخری حدوں کو چھو چکی ہے خاص طور پر منوڑہ اور اور کیماڑی کی بندرگاہ کا سمندری روٹ جس کے لئے نا تو مناسب کشتیاں ہیں اور ناہی مسافروں کے لئے آسآنیاں ہیں ٹوٹی خستہ حال برتھیں اور تباہ حالی کا نوحہ پڑھتی ہماری بندرگاہ- میں جب سنہ دو ہزار سولہ میں کراچی گئ تھی تب کا نقشہ کھِیںچا ہے -پھرکراچی بار بار جانا تو ہوا لیکن کیماڑی جا کر دل کو دکھ سے آشنا کرنے کا دل نہیں چاہا -بہر حال اب ایک خوش خبری تو ملی ہے کہ ابو ظہبی کی گورنمنٹ نے --کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ ایک بڑی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو پاکستان میں بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ چلتی ہے۔ یہ حکومت پاکستان کی وزارتِ سمندری امور کی ملکیت ہے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام اپنے امور چلاتی ہے جبکہ یہ تقریباً قومی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے 60 فیصد حصے پر اپنا اثر رسوخ قائم کیے ہوئے ہے۔
کراچی پورٹ ایک قدرتی بندرگاہ ہے جو 18ویں صدی کے اوائل سے کام کر رہی ہے حالانکہ قدیم بندرگاہیں 8 ویں صدی عیسوی سے ہی مقامی حکمرانوں کے زیرِ تسلط رہی ہیں۔ آج یہ بندرگاہ 32 کلومیٹر طویل گھاٹیوں اور گودیوں پر قائم ہے جبکہ بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی ساحلی جگہ پر پانی کی گہرائی 16 میٹر ہے جس میں 41 برتھیں اور 8 گھاٹیاں تجارتی بحری جہازوں کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیں۔یہ بندرگاہ سالانہ 65.25 ملین ٹن کارگو اور 1.56 ملین ٹی ای یوز کو ہنڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کراچی پورٹ لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں کے لیے مغربی اور مشرقی گھاٹیوں میں 11 کلومیٹر کے چینل اور 2 زونز کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔ پورٹ ڈاکنگ جہازوں کے لیے 75,000 ٹن کی گنجائش کے ساتھ 3 مائع کارگو بحری جہاز، برتھ، شپ یارڈ اور جہازوں کی مرمت و بحالی کی ورکشاپس، 2 ڈرائی ڈاکس اور 3 کنٹینر ٹرمینلز کی سہولیات سے ہے۔کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل ویسٹ وارف پر 600 میٹر بریتھنگ اسپیس کے ساتھ پیانامیکس اور پوسٹ پینامیکس بحری جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کراچی پورٹ میں تجارتی سرگرمیوں کا عروج پڑوسی بندرگاہوں جیسے کہ پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل، گوادر پورٹ اور پورٹ قاسم کی تعمیر اور ترقی کا باعث بنا ہے۔ کورنگی فشنگ ہاربر کو کراچی فشنگ ہاربر کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔کراچی بندرگاہ پر ابوظہبی گروپ کی سرمایہ کاری کا 50 سالہ معاہدہ کیا ہے اور اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ کراچی کی بندرگاہ کی تاریخ کے لئے قرائن بتاتے ہیں کہ اس بندرگاہ کا پرانا نام دیبل تھا اور یہاں سے تمام دنیا سے تجارتی جہاز آتے اور جاتے تھے اس بندر گاہ کی خاص خوبی یہ کہ یہاں پر جوقدرتی کھاڑی ہے وہاں ہر قسم کے بڑے جہاز بھی بخوبی لنگر انداز ہو سکتے ہیں -اس وقت ہمارا وطن جن غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار ہمارے معاشی معاملات کو سہارا دینے میں آگے آئیں اس سلسلے سے ابو ظہبی نے کراچی کی بندرگاہ پر 50 سالہ معاہدہ کیا ہےد ن بہ دن سنگین ہوتے معاشی بحران کے دوران گذشتہ دنوں ایک بڑی پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب ابوظہبی کے ’اے ڈی پورٹس‘ گروپ کی جانب سے پاکستان میں بندرگاہوں کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ ابوظہبی گروپ کا یہ معاہدہ 50 سالوں کے لیے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ طے پایا ہے جس کے تحت یہ گروپ کراچی بندرگاہ پر ایک ٹرمینل کو ڈویلپ کرے گا۔اس کے علاوہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے درمیان ریل رابطے کے لیے بھی یہ گروپ سرمایہ کاری کرے گا اور ایک سپیشل اکنامک زون بھی اسی منصوبے کے تحت تعمیر کیا جائے گا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق ابو ظہبی گروپ کی جانب سے اس منصوبے کے لیے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں سب سے نمایاں ’کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ‘ کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ابوظہبی گروپ کی جانب سے پاکستان میں جہاز رانی اور بندرگاہوں کے شعبے میں اس سرمایہ کاری اور اس کے سلسلے میں معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور تمام دوسرے معاشی اشاریوں کی طرح ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی تیزی سے تنزلی ہوئی ہے۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے تازہ ترین حکومتی اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے گیارہ مہینوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری 21 فیصد کمی کے بعد محض 1.3 ارب ڈالر تک محدود ہو گئی ہے۔ ابوظہبی گروپ کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ ایک ایسے وقت میں بھی سامنے آیا ہے جب حکومت کی جانب سے اقتصادی بحالی کے منصوبے کے تحت سرمایہ کاری کے لیے ایک سہولت کاری کونسل بھی حال ہی میں قائم کی گئی ہے اور اس کی اپیکس کمیٹی میں ملک کے آرمی چیف بھی بطور رکن شامل ہے
وفاقی وزیر میری ٹائم افیئرزجنا ب فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ کراچی پورٹ کی 33 برتھیں ہیں جن میں سے صرف کچھ برتھیں ابو ظہبی گروپ کو دی گئی ہیں تاکہ وہ انھیں ڈویلپ کرنے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کریں۔ابو ظہبی گروپ اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا؟ابو ظہبی کے ’اے ڈی پورٹس گروپ‘ کی جانب سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ جو معاہدہ طے پایا اس کے بارے میں ابو ظہبی کے حکام نے بھی سرکاری طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس کے مطابق گروپ کا کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ کنٹینر ٹرمینل کے لیے پچاس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت گروپ کراچی پورٹ کے ’ایسٹ وہارف‘ میں برتھ چھ سے نو تک کراچی گیٹ وے کنٹینر ٹرمینل تعمیر کرے گا۔اس معاہدے کے تحت سرمایہ کاری انفراسٹرکچر اور سپر سٹرکچرز کی تعمیر میں کی جائے گی جس کے لیے بڑی سرمایہ کاری سنہ 2026 کے لیے ہو گی۔ اس منصوبے کے تحت برتھوں کی گہرائی زیادہ ہو گی اور کنٹینر سٹوریج میں توسیع کے ذریعے کنٹینر کپیسٹی (کنٹینر رکھنے کی صلاحیت) ساڑھے سات لاکھ سے دس لاکھ سالانہ ہو جائے گی۔اعلامیے کے تحت یہ توسیع و ترقی کراچی کی میری ٹائم سیکٹر میں پاکستان کی حیثیت کو مزید بڑھا دے گا۔ اس کے علاوہ ایک خصوصی اکنامک زون کا منصوبہ بھی ہے اور کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کےد رمیان ریل رابطے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔
واضح رہے کہ ابو ظہبی کا اے ڈی پورٹس گروپ 2006 میں قائم ہوا تھا جو ابو ظہبی کو دنیا کے دوسرے خطوں سے ملاتا ہے۔ گروپ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پورٹس، اکنامک سٹیز (شہروں) اور فری زونز کے کلسٹر چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گروپ دنیا بھر میں دس بندرگاہوں اور ٹرمینلز کو بھی آپریٹ کر رہا ہے۔کیا ابو ظہبی گروپ پاکستان میں کنٹینر ٹرمینل آپریٹ کرنے والا پہلا گروپ ہو گا؟پاکستان میں جہاز رانی کے شعبے کے ماہر عاصم اقبال نے اس معاہدے اور اس سے جڑے معاملات پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ابو ظہبی کا اے ڈی پورٹس گروپ پاکستانی بندرگاہوں پر ٹرمینل چلانے والا پہلا نجی گروپ نہیں ہے۔انھوں نے کہا جو برتھیں اے ڈی پورٹس گروپ کو دی جا رہی ہیں، اُن میں سے دو برتھیں پہلے ایک نجی گروپ ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے پاس تھیں۔ ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے ساتھ معاہدہ رواں برس 17 جون کو ختم ہو گیا تھا جس میں مزید توسیع نہیں کی گئی۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس گروپ کی جانب سے معاہدے میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی تاہم یہ درخواست قبول نہیں کی گئی۔عاصم کے مطابق حال ہی میں ہونے والے نئے معاہدے کے تحت ابوظہبی گروپ کے پاس اب ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے مقابلے میں دو برتھیں زیادہ ہوں گی۔ انھوں نے ابوظہبی گروپ سے پہلے دو کنٹینر ٹرمینلز چینی کمپنیاں چلا رہی ہیں جن میں سے ایک ساؤتھ ایشیا پورٹ ٹرمینل ہے اور دوسرا کراچی انٹرنینشل کنٹینر ٹرمینل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اِسی طرح پورٹ قاسم پر دبئی کا گروپ ’دبئی پورٹس‘ ایک ٹرمینل چلا رہا ہے-عاصم اقبال نے کہا ابوظہبی کا گروپ اور دبئی پورٹس ایک دوسرے کے ساتھ بندرگاہوں کے شعبے میں مسابقت کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دبئی پورٹس تو پہلے سے پاکستان میں موجود ہے اور اب ابو ظہبی کی ’اے ڈی پورٹس‘ نے بھی پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھ دیا ہے۔ابو ظہبی گروپ کے کراچی بندرگاہ پر کنٹینر ٹرمینل بنانے کے معاہدے کے بارے میں پاکستان کے بحری امور کے وفاقی وزیر فیصل سبزواری نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کراچی پورٹ کا ایک کنٹینر ٹرمینل چلانے کا معاہدہ ’پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل‘ کے ساتھ تھا جو 2002 میں 21 سال کی مدت کے لیے ہوا تھا، یہ معاہدہ اب ختم ہونے کے بعد ٹرمینل کراچی پورٹ ٹرسٹ کو مل گیا ہے۔انھوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ کراچی پورٹ کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ا بوظہبی پورٹ گروپ سے معاہدے میں کے پی ٹی کو فی کنٹینر 18 ڈالر کی رائلٹی ملے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاہدے سے ٹرمیینل سے ریونیو بھی مزید بڑھے گا۔پورٹس اور شپنگ کے ماہر عاصم اقبال نے کہا اس معاہدے سے سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہو گا کہ مجوزہ منصوبے کے تحت برتھوں کی گہرائی اور ٹرمینل میں توسیع کے بعد دو جہاز اس پر لنگر انداز ہو سکیں گے۔ انھوں نے کہ اس سے پہلے ایک ہفتے میں ایک جہاز آ رہا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ ’اب جب کہ اس ٹرمینل کو ٹرانشپمنٹ مرکز بنانے کی بات ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جہاں سے بڑا جہاز سامان لے جا سکے گا، جس کا مطلب ہے کہ دوسری بندرگاہوں سے چھوٹے جہازوں میں سامان یہاں لایا جائے گا اور پھر بڑے جہاز میں اسے لاد کر منزل مقصود پر لے جایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ٹرانسشپمنٹ کارگو دبئی اور جبل علی کے پورٹس میں بٹا ہوا ہے لیکن وہاں پر اب بہت زیادہ ہجوم ہو چکا ہے تو اگر ابوظہبی گروپ منصوبے کے بعد اسے ڈویلپ کرتا ہے تو ٹرانسشپمنٹ کے ذریعے پاکستان خطے کے دوسرے پورٹس سے آنے والے سامان کے لیے مرکز بن سکتا ہے، جس سے پاکستان کے بندرگاہوں کے شعبے کو فائدہ ہو گا۔پاکستان میں تجارتی شعبے کے ادارے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو زبیر موتی والا نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر منصوبے کے بعد ٹرانسشپمنٹ کارگو شروع ہوتا ہے تو اس کا پاکستان کے بیرونی تجارت کے شعبے کو تو فائدہ ہو گا بلکہ اس کے ساتھ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی فائدہ ہو گا۔انھوں نے کہا کہ فی الوقت چھوٹے جہازوں سے پہلے کارگو دبئی اور ابو ظہبی پہنچایا جاتا ہے جہاں پر اس وقت بہت زیادہ رش ہو چکا ہے اگر یہاں پر بڑا جہاز لنگر انداز ہوتا ہے تو اس کے فوائد پاکستان کو بیرونی تجارت کے شعبے میں ہو سکتے ہیں۔ابو ظہبی گروپ کی سرمایہ کاری اس وقت کتنی اہمیت کی حامل ہے؟جنا ب عاصم اقبال کے مطابق یہ سرمایہ کاری اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے جس کے بارے میں حکومت کہتی چلی آ رہی ہے کہ خلیجی ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری جلد ہو گی۔ انھوں نے کہا پہلے خلیجی ممالک کی جانب سے کیش امداد دی جاتی رہی ہے لیکن اب انھوں نے اس کا طریقہ کار بدل دیا ہے۔اب ایک فزیکل ایسٹ (پاکستان کا اثاثہ) اُن کے پاس ہو گا جس میں وہ سرمایہ کاری کریں گے۔‘انھوں نے کہا اس سے ایسوسی ایٹ بزنس بڑھے گا اور متعلقہ شعبے کو بھی فائدہ ہو گا -زبیر موتی والا کے مطابق ابوظہبی کی یہ سرمایہ کاری ایک مثبت پیغام دنیا بھر میں بھیجے گی کہ پاکستان میں حالات سرمایہ کاری کے لیے اتنے زیادہ خراب نہیں ہیں ۔ تاہم انھوں نے کہا اگر ابوظہبی کے گروپ کی جانب سے پاکستان میں ایک ایسے وقت میں سرمایہ کاری ہوئی ہے کہ جہاں رسک بہت زیادہ ہے تو اس کا فائدہ انھیں بھی ہو گا کیونکہ جہاں رسک زیادہ ہوتا ہے وہاں پر زیادہ فائدہ حاصل ہونے کا بھی موقع ہوتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں