منگل، 16 مئی، 2023

القادر یونیورسٹی-سوہاوہ

 

یہ پاکستانی عوام کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو پہلا ایسا وزیراعظم ملا ہے جو علم دوست ہے۔ عمران خان پاکستان کے تدریسی نظام اور اس سے جنم لینے والے مسائل کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں اور اس کا تدارک ایک ایسے تعلیمی نظام کو قرار دیتے ہیں جہاں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جائے۔اپنے اسی خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، جہاں دنیاوی تعلیمات کو صوفی ازم اور سیرت النبی کے ساتھ نہ صرف ملا کر پڑھا جائے گا بلکہ اس پر ریسرچ بھی کی جائے گی۔اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ آکسفورڈ ریذیڈینشل کالج کی طرز پر طلبہ کو مینٹورز بھی اسائن کیے جائیں گے جو نہ صرف کلاس ختم ہونے کے بعد بھی طلبہ کے ساتھ ہوں گے بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کریں گے۔ اس جامعہ میں ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا گیا ہے جس میں طلبہ و طالبات کو جدید علوم قرآن و سنت کی روشنی میں نہ صرف سکھائے جائیں گے بلکہ اصل روح کے مطابق ان تعلیمات پر عمل کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔بطور وزیراعظم عمران خان کا یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو ان کے ریاست مدینہ کے تصور کی تکمیل کے لیے ایک عملی قدم ہے۔ گلوبل سکوپ رکھنے والی یہ ٹرسٹ بیسڈ یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں کی فیکلٹی کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔

القادر یونیورسٹی کی ایڈوائزری کمیٹی میں شیخ حمزہ یوسف، شیخ عبدالحکیم مراد، شیخ امین کھولوادیا اور ڈاکٹر رجب سینٹرک جیسے عالمی سطح پر مشہور نام شامل ہیں۔اس ٹرسٹ بیسڈ جامعہ کی فیکلٹی میں لمز، آئی بی اے اور کے ایس بی ایل جیسی پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ڈاکٹر ذیشان احمد، ڈاکٹر جمشید حسن خان، ڈاکٹر عارف زمان، ڈاکٹر انور خورشید اور ڈاکٹر عارف اقبال رانا شامل ہیں۔یہ ایک پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹی ہے اور اس کے انتظامات ایک ٹرسٹ کے تحت کیے گئے ہیں تاکہ حکومتوں کی تبدیلی کا اس پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اس پراجیکٹ کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ خاتون اول بشریٰ بی بی اس پراجیکٹ کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کے ڈین ڈاکٹر ذیشان احمد کا کہنا تھا: ’یہ پراجیکٹ خان صاحب کا ایک بہت پرانا خواب تھا کہ وہ ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جہاں سیرت اور صوفی تعلیم کو سائنسی علوم کے ساتھ ملا کر پڑھایا جائے۔ یہ پراجیکٹ نہ صرف وزیراعظم کا خواب ہے بلکہ خاتون اول کے دل کے بھی بہت قریب ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر عملی طور پر قردادِ مقاصد اور چند آئینی ترامیم کے علاوہ ایسے اقدامات نہیں کیے گئے، خاص طور پر جو چیز قوم میں داخل ہوتی ہے وہ ان کے نظام تعلیم اور میڈیا سے داخل ہوتی ہے مگر دونوں طرف دیکھیں تو واضح طور پر ایک دنیاوی اور سیکولر سوچ ہے جس میں اکثر اسلام کے آئیڈیاز شامل نہیں ہوتے۔ کم از کم مرکزی دھارے میں نہیں ہوتے تو ایک ایسی یونیورسٹی کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں ہم قرآن، سنت، سیرت، علما و مشائخ کے اقوال اور تصوف پر تحقیق کریں اور اس کو ماڈرن سائنس اور ریسرچ کے ساتھ ملائیں۔‘ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  

اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اکٹر ذیشان نے بتایا کہ ’کچھ اس طرح کے لوگ ہیں جو مجھے کہتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی چاہتے ہیں تو ہم انہیں کہاں بھیجیں۔ ابھی تک میرے پاس انہیں دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا، مگر اب میں انہیں کہوں گا کہ اپنے بچوں کو القادر یونیورسٹی بھیجیں۔‘

لمز یونیورسٹی چھوڑ کر القادر یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طالب علم عمار بشارت

 نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمرہ کرنے کے بعد میرا رجحان 

مذہب کی جانب زیادہ ہوگیا۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں نہ صرف دنیاوی

 بلکہ دینی تعلیم کی طرف بھی جاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ ایسی صحبت والی جگہ ہو

 جہاں تربیت بھی دی جائے۔ آپ کے ساتھ اساتذہ ہوں جو آپ کو سب 

کچھ بتائیں اور بتانے کےساتھ کرکے بھی دکھائیں اور القادر یونیورسٹی ایک ایسا

 ہی ادارہ ہے۔‘ڈسٹرکٹ نارووال شکر گڑھ سے تعلق رکھنے والی القادر یونیورسٹی

 سکی طالبہ اقصیٰ نصرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ایف ایس

سی میڈیکل کیا ہے اور یہاں اپنے شوق کی وجہ سے آئی ہیں۔ بقول اقصیٰ:

 ’میں پنے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں

کہ اپنے کیریئر کا راستہ میں خود بناؤں۔ جب میں نے القادر کا ویژن دیکھا تو اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘

القادر یونیورسٹی کے پہلے بیچ کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

 ابتدائی طور پر یونیورسٹی بی ایس آنرز (مینجمنٹ) کی ڈگری آفر کر رہی ہے اور

 پہلے بیج میں 16 طلبہ اور 21 طالبات یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

پیر، 15 مئی، 2023

بدھ مت تہذیب کے انمول شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

 

 

بدھ مت تہذیب کے انمول  شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

بُدھ مت کا بانی سدھارتھا گوتم قریباً 600 سال قبل از مسیح میں نیپال کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ جیسا کہ اُسکی کہانی بیان کرتی ہے وہ کسی حد تک بیرونی دُنیا سے انجان عیش و عشرت بھری زندگی بسر کررہا تھا ۔ اُس کے والدین کا مقصد اُسے مذہب کے اثر سے بچانا اور اُسے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُس کی آرام گاہ میں چھید ہو گیا اور اُس نے ایک عمر رسیدہ شخص، ایک بیمار شخص اور ایک لاش کے مناظر دیکھے ۔ چوتھے منظر میں اُس نے ایک پُرامن صوفی درویش(جو عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کو چھوڑ دیتا ہے) کو دیکھا ۔ درویش کی پُر امن حالت کو دیکھا کر اُس نے بھی درویش بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خودضبطی/ نفس کشی کے عمل کے وسیلے سے روشن خیالی کی تلاش کے لئےمال ودولت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ خودضبطی/ نفس کشی اور گیان دھیان کرنے کی مشق میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کا رہنما تھا۔ آخر کار اُس کی تلاش ایک خاص نکتے پر جا کر اختتام پذیر ہوگئی۔ ایک دن اُس نے ایک پیالہ چاول کھائے اور اس ارادے سے گیان دھیان کرنے کےلیے انجیر کے درخت(جسے بودھی درخت /مقدس درخت بھی کہا جاتا ہے)کے نیچے بیٹھ گیا کہ یا تو وہ اِس دھیان و گیان کی مشق کی بدولت" روشن خیالی " پا لے گا یا گیان دھیان کرتے کرتے مر جائے گا۔ اپنی تکلیفوں اور کئی ایک آزمائشوں کے باوجود اگلی صبح تک اس نے روشن خیالی حاصل کرلی ۔ اور اجنٹا کے غاروں میں بدھ مت کی پیدائش لے کر ان کے نروان تک کی تہذیب کو سمویا گیا ہے-اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا بے پناہ خوبصورت نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

 

جمعہ، 12 مئی، 2023

شاھ عبد اللطیف بھٹائی

 سندھ میں اولیائے کرام کی آمد جاری تھی انہی دنوں ایک عالی نسب سیّد زادے حبیب شاہ نے بھی سندھی کی پاکیزہ دھرتی پر قدم رکھے اور ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں اقامت گزیں ہوگئےشاھ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء، 1101ھ میں ہوئ۔۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔

سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبد اللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبد اللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشین گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی کےآباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب علی المرتضی اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398، -801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔

تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کےبعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد کو سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کردی۔چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا، اس لیے شادی کےبعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔ سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انہوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھاگیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے، ان بزرگوں میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبد الکریم بلڑی وارو، سیدہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں

شاہ عبد الطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔وہ یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ سندھی ،پنجابی،بروہی اور پشتو زبانوںپر بھی عبور رکھتا تھا۔ جوگیوںاور گائیکوں کی آواز میں گایا جانے والا شاہ لطیف کا کلام اس پر سحر طاری کردیتا تھا۔ حیدر آباد میںقیام کے دوران اس نے گنج شاہ لطیف کی نقل تیار کی اورریٹائرمنٹکے بعد جرمنی لے جا کر لیپزگ Leipzig سے شائع کرواکےاسے ’’شاہ کے پیغام‘‘ کانام دیا ۔بعض بنیادی نقائص کے باوجود یہ نسخہ سندھی دانشوروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔اس کی اشاعت کے فوری بعدعلامہ آئی آئی قاضی کی جرمن اہلیہ، ایلسا قاضی نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کرایا۔شاہ لطیف کے مجموعہ کلام کی جرمنی میں اشاعت کے بعد ہی پوری دنیا پر یہ آشکار ہوا کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ وہ عظیم ادبی شاہ کار ہے جسے دنیائے ادب میں بجاطور پر پیش کیا

 جا سکتا ہے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں بھی محفوظ ہے۔شاہ جو رسالو کا سندھی سےاردو ترجمہ ،معروف شاعر شیخ ایاز نے کیا، اور اس کام میں ان کی معاونت پروفیسر آفاق صدیقی نے کی۔اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور تصوف کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتابوں پرشاہ عبداللطیف بھٹائی تصوف ایوارڈکا اجراء کیا گیا ۔شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سماع‘‘ کے بے حد شوقین تھے۔ برصغیر کی کی گائیکی کے انداز سے پوری طرح آشناتھے۔ گائیکی کے سروں کے آپ نے مختلف نام رکھے تھے، یہ سُر (آواز) داستانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور ہر داستان کے پیچھے ’’وائی‘‘ ہے جوکہ عبداللطیف کی اپنی ایجاد ہے، اس کی ہیئت غزل سے ملتی جلتی ہے۔ ’’سُر حسینی‘‘ میں سسّی کی دردناک صدائیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح شاہ صاحب نے ماروی کو دیس کی محبت کی علامت کے طور پر نمایاں کیا ہے

شاہ بھٹائی جس ٹیلے پربیٹھ کریاد الٰہی میں مشغول رہتے اور اپنا صوفیانہ کلام مرتب کرتے تھے اس کے نزدیک ایک نہر بھی بہتی تھی،کمالِ فن دیکھئے کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اُس کے پانی کا شور یا آوازیں سُن کر موسیقی کے سُر دریافت کیے اور ایک آلہ موسیقی ایجاد کیا جسے ’’ طنبور‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کا کلام گائیک یا جوگی صرف طنبورے پر ہی گاتے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا موسیقی کا آلہ استعمال نہیں کیا جاتا۔شاہ صاحب کا کلام سلیس و بلیغ انداز میں بیان کیا ہوا ہے۔ سندھ کے ہزاروں لوگ شہر، گاؤں اور پہاڑوں میں بسنے والے شاہ جو رسالو کے حافظ ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعری اور موسیقی کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کلام سے کئی سر ایجاد کیے اور خود ایک ساز طنبورو بھی ایجاد کیا۔ عام طور پہ طنبورہ چار تاروں کا ہوتا ہے مگر شاہ صاحب نے ایک اضافی تار لگا کر پانچ تاروں والا طنبورہ بنایا، جس کو خود استعمال کرتے تھے اور اپنے فقیروں کو بھی اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان کے پاس گوالیار سے کلاسیکل فنکار اٹل اور چنچل بھی لمبا سفر طے کر کے راگ سمجھنے آئے تھے۔ اکثر رات کے اوقات میں محفل سماع کرواتے تھے۔

شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ کے حکمران خود پیر و مرشد کی گدی والے، عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جن کے ہزاروں مرید شاہ لطیف کے عقیدت مند بن گئے۔ یہ بات ان کو بہت بری لگی اور شاہ لطیف سے عداوت کرنے لگ گئے۔ اس حوالے سے والیٔ سندھ میاں نور محمد کلہوڑو نے شاہ لطیف کو بار بار مارنے کی سازشیں بھی کیں۔ شاہ صاحب سیاست نہیں کرتے تھے البتہ اپنے کلام کے ذریعے انہوں نے حاکموں، ظالموں اور حملہ آوروں کے خلاف مزاحمتی انداز میں آواز بلند کی ہے۔ سر مارئی میں ان کا یہ انداز واضح نظر آتا ہے، وہ فرماتے ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا پیغام فقط ایک خطے کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ ان کی دعا سندھ کو سرسبز و شاداب کرنے کے ساتھ پورے عالم کو آباد کرنے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :”اے میرے مولا، میرے وطن سندھ، کو ہمیشہ خوشحال رکھ،اور سندھ کے ساتھ پوری دنیا کو بھی آباد رکھ۔ ”

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ شاہ میں ہی تدفین کی گئ

بدھ، 10 مئی، 2023

آ و چڑیا گھر چلیں

 

 

پاکستان بننے کے بعد جب مہاجروں زرا قدم جما لئے تب کچھ تفریح طبع نے سر اٹھا یا تو ان کے پاس واحد تفریح گاہ شہر کےمشرق میں انگریز کا بنوایا ہوا ایک باغ تھا جس میں انہوں نے دنیا کے چرند 'پرند' اور انواع اقسام کے جنگلی جانور رکھّے تھے ،اب عوام کی دلچسپی یہی جانور ہوا کرتے تھے جو وہ اپنے بچّوں کو لا کر دکھاتے تھے-اس باغ کا نام اس وقت جو معروف تھا وہ تھا چڑیا گھر- جو بعد میں گاندھی گارڈن کہا جانے لگا-

 اس نباتاتی باغ کی جائے پیدائش کو کھوجنے کے لیے اگر ہم تاریخ کے صفحات پلٹیں تو اس جگہ ہمیں باغ کے ہی شواہد ملتے ہیں جنھیں دو صدی قبل عام لوگ سرکاری باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس باغ کی شناخت بدلتی رہی۔سرکاری باغ سے وکٹوریہ کوئین گارڈن، پھر گاندھی گارڈن، کراچی زو اور اب اس کا پورا نام ’کراچی زولوجیکل اینڈ بوٹینیکل گارڈن‘ ہے اور درختوں کے متوالوں، نباتات کے طالب علموں، ماہرین ماحولیات اور محققین کےلئے اس باغ میں برگد کا ایک بہت پرانا درخت ہے  اس برگد سے گذشتہ دو صدیوں میں 9 درخت بن چکے ہیں، حتی کہ کچھ جڑوں نے تو دوسری عمارت تک پہنچ کر وہاں ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے-روایت کے مطابق گوتم بدھ کو ’نروان‘ برگد کے درخت کے نیچے ملا تھا جبکہ کچھ روایات میں املی اور کچھ میں انجیر کے درخت کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا عقیدہ ہے کہ سیتا نے اپنی پارسائی کی گواہی دینے پر برگد کو دعا دی تھی اور ہندوں کا ماننا ہے کہ اسی لیے یہ درخت بڑھتا رہتا ہے۔برگد کے درخت کو تمام مذاہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے اسے صوفی یا درویش درخت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ برگد کا درخت جہاں بھی اگتا ہے وہاں اپنا پورا خاندان تشکیل دیتا ہے۔

۔ یہ درخت کراچی کے گنجان آباد علاقے کے ایک نباتاتی باغ میں موجود ہے۔یہ باغ اس علاقے میں دھواں، شور اور بے ہنگم ٹریفک کے درمیان 43 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں دو ہزار سے زائد درختوں کا ذخیرہ موجود ہے۔لوگ عموماً اس باغ کو چڑیا گھر یا گاندھی گارڈن کے نام سے جانتے ہیں۔جانوروں کی موجودگی اگرچہ اب اس جگہ کی پہچان ہے اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر یہ جگہ ایک نباتاتی باغ کے لیے مخصوص تھی اور اب بھی یہاں دو ہزار سے زائد تناور درختوں کا ذخیرہ موجود ہے جو بدلتے موسموں سے لڑتے کراچی کے لیے کسی آکسیجن کے کارخانے سے کم نہیں ہے۔

لیے آج بھی یہ بطور ’بوٹینیکل گارڈن‘ کشش کا باعث ہے۔

نباتاتی باغ کس حال میں ہے؟کراچی چڑیا گھر میں داخل ہوں تو درختوں کی اہمیت کا احساس زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔ باہر درجہ حرارت 40 کو چھو رہا تھا لیکن باہر کی شدید گرمی کے باوجود اندر چاروں جانب ایک ٹھنڈک سی محسوس ہورہی تھی۔بلند و بالا اشجار کی گھنی چھتری دھوپ کو کہیں اوپر ہی روک رہی تھی۔ ماحول میں خنکی اور ایک فطری سکوت کا احساس نمایاں تھا۔ادارے سے بطور ہارٹی کلچرسٹ وابستہ ضامن عباس کے مطابق یہاں 2,311 بالغ درخت موجود ہیں جبکہ چھوٹے درخت اور پودے لا تعداد ہیں۔ ہر درخت کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال سے پرانی یا اس سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔اگرچہ سائنسی طور پر کسی بھی درخت کی عمر معلوم کرنے کے لیے اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے مگر ان درختوں کے وسیع و عریض تنے، چوڑائی اوربلندی ان کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔

بوٹینیکل گارڈن

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہےبرگد کا قدیم درخت -ضامن عباس نے ہمیں برگد کا وہ درخت دکھایا جس کی عمر 200 سال سے زیادہ ہے۔ برگد کا درخت پرانا ہونے پر اس کی جڑیں اوپر کی شاخوں سے پھوٹ پڑتی ہیں اور نیچے زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین میں جگہ بنا کر ایک نیا درخت تشکیل دیتی ہیں گویا ایک درخت سے کئی درخت بنتے چلے جاتے ہیں۔اس برگد سے بھی ان دو صدیوں میں نو درخت بن چکے ہیں حتی کہ کچھ جڑوں نے دوسری عمارت میں جا کر ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے۔ انتظامیہ نے اس کی حفاظت کے لیے چاروں جانب کیاری اور احاطہ بنا دیا ہے۔اس نباتاتی باغ میں برگد کے مزید 55 درخت موجود ہیں ان میں سے کسی کی عمر بھی ڈیڑھ سو سال سے کم نہیں ہے، ان میں سے ایک درخت تقریباً سوکھ چکا تھا مگر خصوصی دیکھ بھال اور اس سال بارشوں کے بعد اس پر پتے نکل آئے ہیں۔یاد رہے کہ کراچی میں برگد کا درخت شہر کا ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی کٹائی یا کسی بھی طرح نقصان پہنچانے پر پابندی ہے۔ کمشنر کراچی کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق برگد کے درخت کو نقصان پہنچانے کے مرتکب افراد کے خلاف سندھ قومی ورثہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

املی روڈ

یہاں املی کے بلند و بالا، گھنی چھتری والے 75 سایہ دار درخت موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایک سڑک کے کنارے لگائے گئے ہیں جو پوری سڑک کو سایہ مہیا کرنے کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔اس روڈ کو ان املی کے درختوں کی وجہ سے املی روڈ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ درخت ہاتھی گھرا ور دفاتر کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔ قیاس ہے کہ شاید انگریزوں کے گھوڑے اس کا پھل شوق سے کھایا کرتے تھے اسی لیے یہ اتنی زیادہ تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ ان درختوں کی عمر بھی سو سے ڈیڑھ سو سال تک ہے اور ان کی اونچائی 80 سے 100فٹ تک ہے۔

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہے اور اب یہ عمارت بھی شان دار درختوں میں گھری ہوئی سچ مچ کسی مغل فرماں روا کا باغ معلوم ہوتی ہے۔گیٹ سے لے کر عمارت تک جانے والے دونوں راستوں کے درمیان ایک نہر ہے، دونوں جانب دیدہ زیب فانوس لگے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمارت کی جانب جانے والے دونوں راستوں پر بلند و بالا پام کے درخت اس طرح ایستادہ ہیں گویا محافظ دست بستہ کھڑے پہرا دے رہے ہوں۔پام کے ان درختوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے ان میں فین پام کے 21 ،ملیشیا پام کے 19 اور بوٹل پام کے 71 درخت ہیں جن کی عمریں کسی بھی طور پچیس تیس سال سے کم نہیں ہیں۔بیو مونٹ لانیہ لان کراچی میونسپلٹی کے انگریز دور (1905- 1910) کے صدر ٹی ایل ایف بیومونٹ کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں برگد کے درخت کافی تعداد میں موجود ہیں اور اب تک نام کی تختی بھی موجود ہے۔

اس نباتاتی باغ کا خزانہ 2,311 بڑے درختوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نیم کے 111، املی کے 75، برگد کے 55، السٹونیا کے 61، پیلٹوفورم کے 19، ملیٹا کے 4، لیگنم کے 71، مولسری کے 2، گل موہر کے 7، بانس کے 61، جامن کے 11، املتاس کے 7، اشوک کے1100، ناریل کے 5، گلر کے 9، چمپا کے 2، پیپل کے 9، بکائن کے 9، سفیدہ کے 7، بیلگری کے 3، کیتھ کا ایک، بوتل پام کے 71، پاکر کے 7، کارڈیا کے 30، کھرنی کے2 ، انڈین ٹیولپ کے 5، برنا کے 11، جنگل جلیبی کے 511، کینن بال کے 2، ملیٹیا پام کے 19، فین پام کے 21 اور پنک کیسیا کے 5 درخت موجود ہیں۔

باغ بانی کے ماہر توفیق پاشا موراج کے مطابق اس نباتاتی باغ میں کچھ نایاب درخت ایسے بھی ہیں جو پورے کراچی میں کہیں اور نہیں پائے جاتے مثلا کینن بال ٹری جس کے دو درخت یہاں موجود ہیں، یہ درخت کراچی میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کراچی کا سبز خزانہ ہے جسے بھرپور طریقے سے کام میں لانا چاہیے۔ طالب علموں کو یہاں کا دورہ کروایا جائے، شجر کاری اور کچن گارڈننگ کے حوالے سے تربیتی کورس کروائے جائیں، شہر بھر کے مالیوں کو تربیت دی جائے۔ بہترین نرسریاں تشکیل دی جائیں جس سے دوسرے ادارے اور شہری بھی استفادہ کر سکیں۔ اس وسیع رقبے اور ان سبز وسائل کو زیادہ سے زیادہ کام میں لایا جائے-

ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق کسی بھی بالغ شجر سے حیات کی کم ا زکم پندرہ اقسام وابستہ ہوتی ہیں جن میں انسان، پرندے، تتلیاں ، گلہریاں، شہد کی مکھی، مختلف کیڑے مکوڑے وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا یہ درخت حیاتیاتی تنوع کی وسیع اقسام کا مسکن ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ایک انسان اپنی عمر میں اوسطا جتنی آکسیجن استعمال کرتا ہے وہ کم از کم سات درختوں کے برابر ہے اس لحاظ سے دو کروڑ آبادی والے شہر میں 14 کروڑ درختوں کی ضرورت ہے، ایسے میں درختوں کی انتہائی کم شرح کے ساتھ موسمیاتی تغیرات کے خطرے سے نبرد آزما کراچی کے لیے ایک ایک درخت قیمتی ہے۔

بوٹینیکل گارڈن میں موجود ایک نایاب ’کینن بال‘ درخت

کراچی کی فضائی آلودگی کے پیش نظر شہر میں موجود ہر درخت ایک بیش قیمت اثاثہ ہے کیونکہ درخت فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے فضا کو صاف کرتے ہیں۔ گارڈن کے علاقے کا شمار کراچی کے گنجان آباد اور آلودہ ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک سے نکلتا دھواں فضا کو شدید آلودہ کرتا ہے۔محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے ترجمان مرزا مجتبٰی بیگ کے مطابق سندھ تحفظ ماحول کے اعداد و شمار کے لحاظ سے گارڈن کے علاقے میں فضائی معیار کے ایک اہم جزPM 2.5 کی مقدار 68 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر پائی گئی ہے۔ جو کہ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے معیارات کے مطابق 25 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقے کا فضائی معیار مطلوبہ حد سے تین گنا ابتر ہے۔مجتبی کے مطابق پی ایم ڈھائی (PM 2.5) سے مراد Particulate Matter 2.5 ہے یعنی وہ فضا جو ہمارے ناک اور منہ کے بالکل قریب ہوتی ہے اور ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچنے سے قبل اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی آلودہ فضا میں ہزاروں درختوں کا ذخیرہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے تمام سائنسی شواہد اور جدید تکنیک کو بروئے کار لانا چاہیے۔

کیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا درخت ہے؟وفاقی اردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ نباتات کے سابق وزیٹنگ پروفیسر، کئی کتابوں کے مصنف اور ماہرنباتات ڈاکٹر معین الدین احمد پاکستان میں ڈینڈروکرونولوجی کی جدید تحقیقی تکنیک کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس تکنیک سے درختوں کے اندر موجود ’برسا پرتوں‘ سے آپ نہ صرف درختوں کی درست عمر بلکہ ان پر گزرنے والوں موسموں کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک پھول دار درختوں کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہے کیونکہ ان میں گروتھ رنگ زیادہ واضح نہیں ہوتی ہے۔

تاہم ان کے مطابق اس کے علاوہ بھی طریقے موجود ہیں جن سے ان درختوں پر تحقیق کی جاسکتی ہے جس سے درختوں کی عمر، کراچی کے موسموں کا مکمل ڈیٹا مل سکتا ہے کہ کب اس شہر میں بارشیں برسیں اور کب کب خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑے، یہ فضا سے کتنا کاربن اور شور کی کتنی آلودگی جذب کرتے ہیں، یہ سب معلوم ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر معین کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے کراچی زولوجیکل اور بوٹینیکل گارڈن اور یونیورسٹی کے مابین اسی طرح کی ایک تحقیق کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو بدقسمتی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ماہرین متفق ہیں کراچی کی فضائی آلودگی کے لیے ان ہزاروں درختوں کی موجودگی ان گنت فوائد کی حامل ہے اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

پیر، 8 مئی، 2023

حضرت مولانا جلال الدین رومی

 

 

 

-مولانا جلاالدّین رومی وہ شاعر اور  صوفی بزرگ ہیں جن کی شاعری آج بھی یورپ میں مقبول عام ہے -اور ان کی مثنوی کو زندہ ء جاوید شاعری کہا جاتا ہےدینی خدمات آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور فتاویٰ کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی مولانا  روم کو عالَم گیر شہرت حاصل سلسلہ باطنی۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔

 یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔-ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ہے

ہم نظریات فارسی ادب، صوفی رقص کارہائے نماياں مثنوی، دیوان شمس تبریزی، فیہ ما فیہ -محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) ان کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، ان کا مکان پیدائش ایران میں ہے اور ان کا مزار ترکی میں واقع ہے۔-مکتب فکر حنفی، تصوف؛ انکے پیروکاروں نے سلسلہ مولویہ قائم کیا۔

پیدائش اور نام و نسب-اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ روایت ہے کہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔

ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاولدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا۔ شعبۂ عمل عارفانہ کلام، صوفی رقص، مراقبہ، ذکر-ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں

 علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

تقریباً 66 سال کی زندگی  گزار کر 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رھتا ھےاور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ھوتے رھیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت ودلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت ودلکش اور ڈیزائن کا حامل ہے

آخری وصیت مولانا جلالُ الدّین رومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آخری وصیت  یہ فرمائی : میں تم کو وصیت کرتا ہوں  کہ اللہ پاک سےظاہرو باطن  میں ڈرتے رہو،کھانا تھوڑا کھاؤ،کم سو، گفتگو کم کرو، گناہ چھوڑ دو، ہمیشہ روزے سے رہو،رات  کا قیام کرو، خواہشات کو چھوڑ دو،لوگوں  کا ظلم  برداشت کرو  ، کمینوں اور عام لوگوں کی مجلس  ترک کردو،نیک بختوں اور بزرگوں کی صحبت میں رہو بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔بہتر کلام  وہ ہے  کہ جو تھوڑا اور بامعنی ہو۔ (نفحات الانس،ص488)

 

جمعہ، 5 مئی، 2023

منگھو پیر چشمہ کا آب شفاء

 

برّصغیر پاک و ہند میں ابتدائے اسلام سے صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کی آ مد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا انہی سلسلوں میں ایک نام حضرت حسن المعروف حاجی حافظ سخی سلطان منگھوپیر بھی ہیں یہاں ان کا مزار ہے جہاں قدرتی پانی کے کئی ٹھنڈے اور گرم چشمے ہیں۔ ان چشموں کے پانی میں قدرتی اجزا شامل ہیں جو جلدی امراض کے مریضوں کے شفایاب ہوجاتے ہیں۔ مزار سے ملحقہ ایک تالاب میں درجنوں مگرمچھ موجود ہیں جن کو بابا کے مگرمچھ کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ مگرمچھ کئی سو سال سے موجود ہیں۔ مزار کے احاطے میں درجنوں دکانیں بھی موجود ہیں۔ ، آپ کا سلسلہ نسب امیرالمومنین حضرت علیؓ سے ملتا ہے

۔ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سادات ہیں۔ ۔ یہ زمانہ تاتاریوں کے فتنہ کا تھا، آپ بھی ان کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے۔ 13 ویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت منگھو پیر عراق سے یہاں تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور صوبہء سندھ سے سفر کرتے ہوئے یہاں (موجودہ کراچی) میں سکونت اختیار کی تھی۔ان کے ماننے والے کہتے ہیں کہ یہاں حاضری دینے سے ان کی مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ مزار کے اطراف میں کچھ ایسی قبریں بھی ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ یہ ان بہادروں کی ہیں جو منگھوپیر کے ساتھیوں میں سے تھے۔کبھی یہ قبریں شاندار رہی ہوں گی مگر آج کل ان کی حالت خاصی خراب ہے

اس وقت کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے اور منگھو جس جگہ عبادت کرنے کے لیے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔جلد ہی ماہی گیروں کے دیہاتوں کے لوگوں نے ان کی پیروی شروع کر دی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا۔ ایک روایت کہ یہ ڈاکوتھے بابا فرید کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور جرائم سے تائب ہو گئے۔ منگھو وسا نے پھر بابا فرید کی رہنمائی میں تصوف کی مشق شروع کر دی اور انہیں بعد میں پیر کا خطاب دیا گیا جس سے وہ منگھو پیر کہلانے لگے۔ آپ کے مسکن کے نزدیک گندھک والے گرم پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ہے جہاں آج بھی زائرین جلد کے امراض کے علاج کی امید میں غسل کرنے جاتے ہیں اور شفا پاتے  ہیں

۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت مند سلطان سخی منگھوپیر کا عرس مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساون کے مہینے سے پہلے میلہ بھی منعقد کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جب آ حج کے لیے تشریف لے گئے اسی دوران مدینہ منورہ میں زیارت رسول اللہؐ نصیب ہوئی۔ بارگاہ رسالت سے آپ کو اجودھن میں مقیم حضرت فریدالدین گنج شکرؒ سے ملنے کی ہدایت ہوئی۔ چنانچہ منگھو بابا (منگھوپیر) حضرت فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سلسلہ عبادت سے منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد خلافت سے نوازے گئے۔

 آپ حکم مرشد موجودہ مقام حسینی منگھوپیر تشریف لے گئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ یہ جگہ (منگھوپیر) اس وقت غیرآباد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہندوؤں کا یہ متبرک مقام تھا۔ استبداد زمانہ سے یہ جگہ اکثر آباد ویران ہوتی رہی۔ حضرت منگھوباباؒ (منگھوپیر) کی شہرت اطراف میں پھیلی تو یہ جگہ مرجۂ دوراں ہوگئی۔ کہا جاتا ہے اسی جگہ آپؒ کے ہم عصر چند بزرگان دین حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ ملتانی، حضرت لال شہباز قلندرؒ اور جلال الدین بخاریؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت منگھوپیرؒ مزار کے قریب تالاب ہے جو مگرمچھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرامت کے مظہر ہیں۔ ان مگرمچھوں کے سردار بڑے مگرمچھ کا نام مور ہے جب ایک مور مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ تمام ایک اجتماعی نظام سے منسلک نظر آتے ہیں۔ ایسا نظم و نسق دیکھ کر ششدر ہو جاتے ہیں۔

منگھوپیرؒ کا مقام اور یہاں کے مگرمچھ غیر مسلم صاحبان، علم و فن کی توجہ کے بھی مراکز رہے ہیں۔ مختلف یورپی ماہرین نے یہاں کے بارے میں لکھا ہے کہ: 1838 میں جیکب برلاکس نے اس جگہ کا جغرافیائی مطالعہ کیا، انیسویں صدی میں ایک افلیوک نامی سیاح یہاں کے مگرمچھوں کی طلسماتی طرز زندگی کا ذکر سن کر خود آیا۔ تحقیق کی اور اپنا مشاہدہ اپنی کتاب میں رقم کیا۔ منگھوپیرؒ کی درگاہ مقام اجابت دعا ہے عقیدت مند اور حاجت مندوں کا یہاں پر تانتا بندھا رہتا ہے

۔8 ذی الحجہ کو آپ کا سالانہ عرس منایا جاتا ہے آپ کے خلفا میں حضرت خاکی شاہ بخاری کا نام ملتا ہے جو حضرت کے احاطے میں مدفون ہیں۔ گرم پانی کا چشمہ بھی موجود ہے۔ بے شمار قدرتی چشمے اولیا کرام اور بزرگان دین کے فیوض کا نتیجہ ہوتے ہیں جو اپنی خاصیت کی وجہ سے سالہا سال سے زائرین کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ کراچی مرکز سے 28 میل اور 45 منٹ کی مسافت پر واقع منگھوپیر کا مزار اور گرم پانی کا چشمہ گزشتہ کئی سو برسوں سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے یہاں تین یا چار سے زائد چشمے ہیں۔

 کہا جاتا ہے یہاں ایسے مریض آتے ہیں جن کو مختلف چھوٹے بڑے ڈاکٹرز کے علاج سے فائدہ نہ ہوا ہو۔ جب وہ اس چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں تو انھیں شفا ملتی ہے۔ چونکہ پہاڑوں میں قدرتی معدنیات وسیع تعداد میں موجود ہیں تو پانی معدنیات سے مل کر اپنے لیے عام پانی سے ہٹ کر منفرد افادیت حاصل کرسکتا ہے۔ پتھروں سے وہ پانی اوپر آنا شروع ہو جاتا ہے وہ اوپر آتے آتے بہنا شروع کردیتا ہے۔ جس کو ہم چشمہ کہتے ہیں۔ ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑوں میں کتنا پانی جمع ہے جو تسلسل سے جاری ہونے کے باوجود ختم نہیں ہو رہا؟ منگھوپیر مزار کے قریب ’’جزام‘‘ کا اسپتال تقریباً 100 سال سے موجود ہے۔ کہتے ہیں اسپتال میں داخل عقیدت مند اس گرم پانی کو استعمال کرتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

پیر، 1 مئی، 2023

بوسنیا میں اسلام کی آمد

 

بوسنیا کی تاریخ  -بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی - سلطان محمد فاتح ﴿30 مارچ 1432 ئ تا 3 مئی 1481 ئ﴾

 نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمانوں نے وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی، اُن لوگوں میں مسلمان فوجی اور تاجر نمایاں تھے - بعد ازاں 16

 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں سلسلہ قادری، سلسلہِ رومی ،سلسلہ نقشبندی اور سلسلہ بکتشی نمایاں

 رہے-

بوسنیا کو چھوٹا ترکی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب پندرہویں صدی میں بوسنیائی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا تو وہ ترک مسلمانوں سے بھی بڑھ کر 'ترک' اور مسلمان ہو

 گئے تھے۔ اور چونکہ عثمانی خلافت میں لوگوں کا بنیادی شاخص ان کی مذہبی ملت ہوا کرتی تھی، اسی وجہ سے بلقان اور مغربی یورپی دنیا کے عیسائی بوسنیائیوں اور

 البانویوں کو 'ترک' کہنے لگے۔ البانویوں کو ترک کہے جانے کی روایت تو ختم ہو چکی ہے، لیکن بوسنیائیوں کو ابھی بھی سرب اور کروٹ ترک کہتے ہیں۔ سریبرینتسا

 کے قصاب سرب کمانڈر راٹکو ملادچ نے بوسنیائی مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے جو ویڈیو پیغام جاری کیا تھا اُس میں بھی اُس نے یہی کہا تھا کہ آج میں 'ترکوں' سے

 اپنی قوم کی پانچ سو سالہ غلامی کا بدلہ لے رہا ہوں۔

بوسنیا کے لوگ عثمانی خلافت اور ترکی کو بہت اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور ترکی کو اپنے 'بڑے بھائی' ملک کی حیثیت دیتے ہیں۔ بوسنیائیوں کی عثمانی خلفاء سے

 وفاداری بھی اس باہمی رشتے کی عمدہ مثال ہے۔ سربوں کے برعکس عثمانی خلاقت اُن کی نظر میں قابض قوت کے طور پر نہیں، بلکہ اُن کی اپنی نمائندہ ریاست کے طو

ر پر دیکھی جاتی ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو بوسنیا ہر لحاظ سے ترکی جیسا ہی لگتا ہے-لبتہ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ بوسنیا بھی ہماری طرح کا ایک تنگ نظر اور

 ملا زدہ ملک ہے، بلکہ بوسنیا اپنی تمام تر مسلمانیت کے ساتھ بھی انجامِ کار بلقان کا ایک جدید یورپی ملک ہے۔

سرائیوو کی اسی فیصد آبادی بوسنیائی مسلمان ہے، بقیہ بیس فیصد آبادی سرب آرتھوڈکسوں اور کروٹ کیتھولکوں پر مشتمل ہے۔بوسنیا و ہرزیگووینا (bosnia-

herzegovina) یورپ کا ایک نیا ملک ہے جو پہلے یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ اس کے دو حصے ہیں ایک کو وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا کہتے ہیں اور دوسرے کا نام

 سرپسکا ہے۔ وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا اکثریت مسلمان ہے اور سرپسکا میں مسلمانوں کے علاوہ سرب، کروٹ اور دیگر اقوام بھی آباد ہیں۔ یہ علاقہ یورپ کے جنوب

 میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 51،129 مربع کلومیٹر ( 19،741 مربع میل) ہے۔ تین اطراف سے کرویئشا کے ساتھ سرحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی یورپی

 اقوام نے اس علاقے کی آزادی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے ساحلِ سمندر نہ مل سکے چنانچہ اس کے پاس صرف 26 کلومیٹر کی سمندری پٹی ہے اور کسی بھی

 جنگ کی صورت میں بوسنیا و ہرزیگووینا کو محصور کیا جا سکتا ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ سب سے بڑا شہر اور دار

 الحکومت سرائیوو ہے جہاں 1984 کی سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تھا جب وہ یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ تاحال آخری بار ہونے والی 1991ء کی مردم شماری

 کے مطابق آبادی 44 لاکھ تھی جو ایک اندازہ کے مطابق اب کم ہو کر 39 لاکھ ہو چکی ہے۔ کیونکہ 1990 کی دہائی کی جنگ میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے جن کی

 اکثریت مسلمان بوسنیائی افراد کی تھی اور بے شمار لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کر گئے۔

جنوب مشرقی یورپ کے قدیم ترین آثار اسی ملک سے ملے ہیں مثلاً پتھر کے زمانے کے 12000 سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والا ایک مجسمہ جس میں ایک

 گھوڑے کو تیر کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ آثار ہرزیگووینا میں ستولاک (Stolac) نامی قصبہ سے ملے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے یا

 پہاڑیوں کی چوٹیوں پر گھر بناتے تھے۔1893ء میں سرائیوو کے قریب بھی قدیم بتمیر ثقافت کے آثار ملے ہیں۔ جن کا تعلق کانسی کے زمانے سے ہے۔ یہ ثقافت

 آج سے پانچ ہزار سال پہلے معدوم ہو گئی تھی۔ چار سو سال قبل مسیح میں کلتی لوگوں نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد وہ مغربی یورپ میں بھی پھیل گئے۔ یہ

 اپنے ساتھ لوہے کو اوزار اور پہیے لے کر آئے جس نے علاقے کی زراعت میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔بوسنیا میں خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی،

 دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی - انتظامی، قانونی اور سیاسی

 نظام میں مثبت تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا

- بوسنیا کے صوفیائ نے احترامِ انسانیت اور قرآن میں موجود امن کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا - بوسنیا کے

 لوگوں کا علم، روحانیت اور صوفیا سے لگائو آج بھی مغرب میں مشہو رہے- مختلف المذاہب لوگوں کے مابین زندگی بسر کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان آج بھی اِس

 بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں اولیا ئ نے احترامِ ِانسانیت کا اور ِحلم کے درس کی بنیاد پر صدیوں تک پُر امن زندگی ممکن بنائی-بوسنیا کے تاریخی مقامات م یں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے جس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید ، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں - غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا بعد ازاں 1521ئ میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557ئ میں تعمیر ہوئی جِس کے اندر کی کندہ کاری اور پچی کاری مسلمانوں کے عمدہ ذوق اور فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہے - مسجدِ سفید اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے اور ایشیا کی اُس دور کی تعمیر کردہ دیگر مساجد کے فن تعمیر سے مختلف ہے- صوفیائے کرام کی خانقاہیں بھی رُوحانی و تاریخی مرکز ہیں جن میں سلسلہِ قادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں-

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر