پاکستان کی طبّی دنیا کا مظبوط ستون'حکیم محمّد سعید نو جنوری 1920 کو برٹش انڈیا کے مرکزی شہر دلّی میں طبِ مشرق سے منسلک اطبّا کے نامور گھر انے میں حکیم حافظ عبدالمجید کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ن کے والد نے 1906 میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا۔ 1922 میں والد کے انتقال کے وقت حکیم سعید کی عمر محض دو برس تھی اس لیے دواخانے کا انتظام پہلے اُن کی والدہ رابعہ بیگم کے سپرد رہا اور بھر اُن کے سب سے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید کے حوالے کیا گیا۔عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان محمد سعید نے 1938 میں 18 برس کی عمر میں دی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فارمیسی میں گریجویشن اور میڈیسنل کیمسٹری (علم الادویہ یا دواسازی) کی ڈگری حاصل کر کے 1942 میں اپنے خاندانی ادارے ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوئے۔1945 میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی اور تحریکِ قیامِ پاکستان میں بھی سرگرم رہے۔ اسی برس اُن کی شادی نعمت بیگم سے ہوئی۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنی اہلیہ اور اکلوتی صاحبزادی سعدیہ سعید کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور وہاں 1948 میں طب اور دواسازی کے اپنے ادارے ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔
حکیم سعید 1952 میں ترکی گئے جہاں انھوں نے انقرہ یونیورسٹی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی اور پھر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے آرگینک کیمسٹری کی تعلیم دیتے رہے۔ 1963 میں حکومت سے مبینہ اختلافات کی بنا پر انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔حکیم سعید کو 1964 میں سیاسی افق پر اس وقت کافی توجہ ملی جب انھوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں وزارت صحت کے اعلیٰ ترین عہدیدار اور پاکستان آرمی میڈیکل کور کے سربراہ سرجن جنرل آف پاکستان لیفٹنینٹ جنرل واجد علی خان پر کڑی تنقید کی۔ یہ وہی جنرل واجد تھے جو حکمت اور ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کے کھلے ناقد سمجھے جاتے تھے۔23 اکتوبر 1969 کو حکیم سعید کا ادارہ ’ہمدرد پاکستان‘ بالآخر ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ میں ڈھل گیا اور اب وقف کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ادارے کا منافع فرد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتا۔حکیم سعید کو 22 برس قبل کراچی کے علاقے آرام باغ میں ان کے مطب کے باہر قتل کر دیا گیا تھا
سندھ کے سابق گورنر، طب اور ادویہ سازی کے ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ، ممتاز سماجی شخصیت، سیاستدان اور پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں اُن کے ایک نائب حکیم عبدالقادر اور ایک ملازم ولی محمد بھی قتل ہوئے جبکہ ایک ماتحت حکیم سیّد منظور علی اور ذاتی محافظ عبدالرزاق زخمی ہوئے تھے۔پولیس، خفیہ اداروں اور استغاثہ کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں جن لوگوں کو ملزم نامزد کیا گیا اُن کا تعلق الطاف حسین کی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم سے تھا لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ اس الزام کو سیاسی سازش قرار دیا اور اس قتل سے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی۔سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برسوں جاری رہنے والی سنسنی خیز عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر اس مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔سوال یہ ہے کہ اگر قتل ان ہی نامزد ملزمان نے کیا تھا تو بری کیوں ہوئے اور اگر ان ملزمان نے قتل نہیں کیا تو وہ نامزد کیوں کیے گئے اور اگر نامزد ملزمان قاتل نہیں تھے تو پھر قتل کس نے کیا؟یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات میری ہی طرح اس واقعے کو اُس وقت رپورٹ کرنے والے بہت سے صحافی آج برسوں بعد بھی تلاش کر رہے ہیں۔یہی تلاش 22 برس بعد ایک بار پھر مجھے تحقیق کے لیے اس قتل کے عینی شاہدین، قتل میں نامزد ملزمان، اُس وقت کے اعلیٰ ترین پولیس افسران، مبینہ قاتلوں کے وکلا، تشدد آمیز سیاست اور قتل و غارت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں تک لے گئی۔
’قتل کیسے ہوا؟بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’ہمدرد مطب‘ کے باہر ہونے والے حملے میں قتل کیا گی یہ مطب کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ سے منسلک آرام باغ روڈ والے سرے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب کونے سے دوسری عمارت میں واقع تھا۔ور مزید نو افراد کو بھی اس کیس میں نامزد کردیا جن میں فصیح جگنو، ابو عمران پاشا، ندیم موٹا، فیصل چاؤلہ، مقرّب، اعزاز الحسن، آصف، زبیر اور اُس وقت ایم کیو ایم برنس روڈ سیکٹر کے انچارج شاکر احمد بھی -جبکہ ایم کیو ایم نے سختی سے الزام کی نفی کی
حکومت پاکستان نے انھیں 1966 میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از وفات ’نشانِ امتیاز‘ سے بھی نوازا تھاقتل کیسے ہوا؟بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’میں تو بس دعا کرتا تھا کہ اللّہ میں بے قصور ہوں تو مدد فرما۔ ہمارے وکلا نے سردار اسحاق صاحب نے تو ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بھائی یہ اے ٹی سی کورٹ ہے۔ یہ تو تمہیں سزا دینے ہی بیٹھے ہیں مگر اللّہ بڑا رحیم و غفور ہے، انشااللہ ہائی کورٹ سے تم بری ہو جاؤ گے۔شاکر احمد نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے تو عامر اللّہ اور کئی دیگر ملزمان کو پہلی بار عدالت میں دیکھا تھا۔مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں‘تو پھر عامر اللّہ کی عدالت میں شناخت کیسے ہوئی اور فوجی عدالت سے موت کی سزا کیسے ہوئی۔ یہ کہانی سنائی حکیم سعید پر حملے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہد اور اُن کے نائب حکیم سیّد منظور علی نے۔ان کا کہنا تھا ’واقعے کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں۔ بس ایک میری ہی گردن پتلی تھی۔ دوسرا زخمی گارڈ تو واقعے کے بعد سے آج تک لاپتہ ہے۔ بس میں تھا مدّعی بھی، گواہ بھی۔ مجھے تو پہلے پولیس نے گاڑیاں دکھائیں۔ یہ گاڑی ہے، وہ گاڑی ہے جو واقعے میں استعمال ہوئیں۔’پ کو تو پتا ہے اس مقدمے کے سلسلے میں 50 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان ہو گیا تھا اور یہ تب بہت بڑی رقم تھی۔ پھر جب میں ہسپتال سے آیا تو پھر سی آئی اے (پولیس کا خفیہ ادارہ) بلاتی تھی وہ بلاتے رہے، دباؤ ڈالتے رہے۔
’پھر کچھ دن بعد وہ اپنے موقف پر آ گئے کہ ہم نے نو افراد کو گرفتار کیا ہے انھیں آپ شناخت کریں۔ میں نے کہا کہ مجھے کیا پتا کون سی گاڑی تھی میرا منہ تو مطب کی جانب تھا اور ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ ہم تو اندر جارہے تھے اور ایسے حملے کے دوران کون دیکھ سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں کیسے کہہ سکتا ہوں جب ایک چیز میں نے دیکھی ہی نہیں ہے۔’جو تفتیشی افسران تھے، اُن سے میں کہا کہ یہ کام تو آپ لوگوں کا ہے۔ وہ پیار سے بات کرتے تھے مجھے سانچے میں اتارنے کے لیے۔ وہ جو تفتیشی افسر تھا آغا طاہر اُس کا نام تو میں بھول ہی نہیں سکتا وہ تو مجھے بہت ذہنی اذیت دیتا تھا۔ ایک دن کرسی سیدھی کر کے بیٹھ گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب بہت ہوگیا اب کام کی بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں تو خود بہت مصیبت میں ہوں۔ میرا تو اس واقعے میں بچ جانا میرا جرم بن گیا اب آپ مجھے دیوار کے ساتھ لگائیں اور گولی مار دیں مگر جھوٹی گواہی تو نہیں دوں گا مگر آغا طاہر نے کہا حکیم صاحب بہت ہو گئی، مجھ پر اوپر سے دباؤ ہے۔ اب تو آپ کو کرنا ہی کرنا ہے اور اگر آپ نے نہیں کیا تو میں پریس کانفرنس کرکے کہہ دوں گا کہ آپ بھی منصوبہ ساز ہیں۔ میں نے کہا سر دیکھ لیں۔ میں ایسا تو نہیں کر سکتا ناں!پھر ایک دو دن کی بعد ملٹری انٹیلیجینس کی طرف سے مجھے اطلاع آ گئی کہ سر وہاں پہنچنا ہے آپ کو۔ لکی اسٹار (تاج مح ہوٹل کے سامنے صدر کراچی کا علاقہ) بلوایا گیا جہاں بیرک بنے ہوئے ہیں۔ ایم آئی سینٹر جانا پڑا تو پتہ چلا کہ بریگیڈیئر صاحب ملیں گے۔ سی آئی اے کے تفتیشی افسر بھی میرے ساتھ تھے۔ بریگیڈیئر صاحب نے خود اٹھ کر میرے لیے دروازہ کھولا تھا۔ مجھ سے کہا شاہ صاحب آئیں، پہلے تو بتائیں کہ آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی تو نہیں کوئی دھونس دھمکی تو نہیں دی؟ میں نے اُن سے کہا کہ ہمیں گالی دو یا مار دو برابر ہے تو بریگیڈیئر صاحب نے میرے سامنے تفتیشی افسر سے کہا آپ کو تمیز نہیں ہے کیسے بات کرتے ہیں سیّدوں سے۔ آج کے بعد کوئی بات نہیں کریں آپ حکیم صاحب سے۔اور پھر اللہ نے مجھ کو بھی بری کر دیا