پیر، 20 فروری، 2023

پاکستان کی طبّی دنیا کا مظبوط ستون'حکیم محمّد سعید



پاکستان کی طبّی دنیا کا مظبوط ستون'حکیم محمّد سعید نو جنوری 1920 کو برٹش انڈیا کے مرکزی شہر دلّی میں طبِ مشرق سے منسلک اطبّا کے نامور گھر انے میں حکیم حافظ عبدالمجید کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ن کے والد نے 1906 میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا۔ 1922 میں والد کے انتقال کے وقت حکیم سعید کی عمر محض دو برس تھی اس لیے دواخانے کا انتظام پہلے اُن کی والدہ رابعہ بیگم کے سپرد رہا اور بھر اُن کے سب سے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید کے حوالے کیا گیا۔عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان محمد سعید نے 1938 میں 18 برس کی عمر میں دی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فارمیسی میں گریجویشن اور میڈیسنل کیمسٹری (علم الادویہ یا دواسازی) کی ڈگری حاصل کر کے 1942 میں اپنے خاندانی ادارے ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوئے۔1945 میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی اور تحریکِ قیامِ پاکستان میں بھی سرگرم رہے۔ اسی برس اُن کی شادی نعمت بیگم سے ہوئی۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنی اہلیہ اور اکلوتی صاحبزادی سعدیہ سعید کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور وہاں 1948 میں طب اور دواسازی کے اپنے ادارے ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔

حکیم سعید 1952 میں ترکی گئے جہاں انھوں نے انقرہ یونیورسٹی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی اور پھر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے آرگینک کیمسٹری کی تعلیم دیتے رہے۔ 1963 میں حکومت سے مبینہ اختلافات کی بنا پر انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔حکیم سعید کو 1964 میں سیاسی افق پر اس وقت کافی توجہ ملی جب انھوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں وزارت صحت کے اعلیٰ ترین عہدیدار اور پاکستان آرمی میڈیکل کور کے سربراہ سرجن جنرل آف پاکستان لیفٹنینٹ جنرل واجد علی خان پر کڑی تنقید کی۔ یہ وہی جنرل واجد تھے جو حکمت اور ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کے کھلے ناقد سمجھے جاتے تھے۔23 اکتوبر 1969 کو حکیم سعید کا ادارہ ’ہمدرد پاکستان‘ بالآخر ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ میں ڈھل گیا اور اب وقف کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ادارے کا منافع فرد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتا۔حکیم سعید کو 22 برس قبل کراچی کے علاقے آرام باغ میں ان کے مطب کے باہر قتل کر دیا گیا تھا

سندھ کے سابق گورنر، طب اور ادویہ سازی کے ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ، ممتاز سماجی شخصیت، سیاستدان اور پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں اُن کے ایک نائب حکیم عبدالقادر اور ایک ملازم ولی محمد بھی قتل ہوئے جبکہ ایک ماتحت حکیم سیّد منظور علی اور ذاتی محافظ عبدالرزاق زخمی ہوئے تھے۔پولیس، خفیہ اداروں اور استغاثہ کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں جن لوگوں کو ملزم نامزد کیا گیا اُن کا تعلق الطاف حسین کی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم سے تھا لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ اس الزام کو سیاسی سازش قرار دیا اور اس قتل سے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی۔سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برسوں جاری رہنے والی سنسنی خیز عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر اس مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔سوال یہ ہے کہ اگر قتل ان ہی نامزد ملزمان نے کیا تھا تو بری کیوں ہوئے اور اگر ان ملزمان نے قتل نہیں کیا تو وہ نامزد کیوں کیے گئے اور اگر نامزد ملزمان قاتل نہیں تھے تو پھر قتل کس نے کیا؟یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات میری ہی طرح اس واقعے کو اُس وقت رپورٹ کرنے والے بہت سے صحافی آج برسوں بعد بھی تلاش کر رہے ہیں۔یہی تلاش 22 برس بعد ایک بار پھر مجھے تحقیق کے لیے اس قتل کے عینی شاہدین، قتل میں نامزد ملزمان، اُس وقت کے اعلیٰ ترین پولیس افسران، مبینہ قاتلوں کے وکلا، تشدد آمیز سیاست اور قتل و غارت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں تک لے گئی۔

’قتل کیسے ہوا؟بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’ہمدرد مطب‘ کے باہر ہونے والے حملے میں قتل کیا گی یہ مطب کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ سے منسلک آرام باغ روڈ والے سرے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب کونے سے دوسری عمارت میں واقع تھا۔ور مزید نو افراد کو بھی اس کیس میں نامزد کردیا جن میں فصیح جگنو، ابو عمران پاشا، ندیم موٹا، فیصل چاؤلہ، مقرّب، اعزاز الحسن، آصف، زبیر اور اُس وقت ایم کیو ایم برنس روڈ سیکٹر کے انچارج شاکر احمد بھی -جبکہ ایم کیو ایم نے   سختی سے الزام کی نفی کی  

حکومت پاکستان نے انھیں 1966 میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از وفات ’نشانِ امتیاز‘ سے بھی نوازا تھاقتل کیسے ہوا؟بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’میں تو بس دعا کرتا تھا کہ اللّہ میں بے قصور ہوں تو مدد فرما۔ ہمارے وکلا نے سردار اسحاق صاحب نے تو ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بھائی یہ اے ٹی سی کورٹ ہے۔ یہ تو تمہیں سزا دینے ہی بیٹھے ہیں مگر اللّہ بڑا رحیم و غفور ہے، انشااللہ ہائی کورٹ سے تم بری ہو جاؤ گے۔شاکر احمد نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے تو عامر اللّہ اور کئی دیگر ملزمان کو پہلی بار عدالت میں دیکھا تھا۔مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں‘تو پھر عامر اللّہ کی عدالت میں شناخت کیسے ہوئی اور فوجی عدالت سے موت کی سزا کیسے ہوئی۔ یہ کہانی سنائی حکیم سعید پر حملے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہد اور اُن کے نائب حکیم سیّد منظور علی نے۔ان کا کہنا تھا ’واقعے کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں۔ بس ایک میری ہی گردن پتلی تھی۔ دوسرا زخمی گارڈ تو واقعے کے بعد سے آج تک لاپتہ ہے۔ بس میں تھا مدّعی بھی، گواہ بھی۔ مجھے تو پہلے پولیس نے گاڑیاں دکھائیں۔ یہ گاڑی ہے، وہ گاڑی ہے جو واقعے میں استعمال ہوئیں۔’پ کو تو پتا ہے اس مقدمے کے سلسلے میں 50 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان ہو گیا تھا اور یہ تب بہت بڑی رقم تھی۔ پھر جب میں ہسپتال سے آیا تو پھر سی آئی اے (پولیس کا خفیہ ادارہ) بلاتی تھی وہ بلاتے رہے، دباؤ ڈالتے رہے۔

’پھر کچھ دن بعد وہ اپنے موقف پر آ گئے کہ ہم نے نو افراد کو گرفتار کیا ہے انھیں آپ شناخت کریں۔ میں نے کہا کہ مجھے کیا پتا کون سی گاڑی تھی میرا منہ تو مطب کی جانب تھا اور ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ ہم تو اندر جارہے تھے اور ایسے حملے کے دوران کون دیکھ سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں کیسے کہہ سکتا ہوں جب ایک چیز میں نے دیکھی ہی نہیں ہے۔’جو تفتیشی افسران تھے، اُن سے میں کہا کہ یہ کام تو آپ لوگوں کا ہے۔ وہ پیار سے بات کرتے تھے مجھے سانچے میں اتارنے کے لیے۔ وہ جو تفتیشی افسر تھا آغا طاہر اُس کا نام تو میں بھول ہی نہیں سکتا وہ تو مجھے بہت ذہنی اذیت دیتا تھا۔ ایک دن کرسی سیدھی کر کے بیٹھ گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب بہت ہوگیا اب کام کی بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں تو خود بہت مصیبت میں ہوں۔ میرا تو اس واقعے میں بچ جانا میرا جرم بن گیا اب آپ مجھے دیوار کے ساتھ لگائیں اور گولی مار دیں مگر جھوٹی گواہی تو نہیں دوں گا مگر آغا طاہر نے کہا حکیم صاحب بہت ہو گئی، مجھ پر اوپر سے دباؤ ہے۔ اب تو آپ کو کرنا ہی کرنا ہے اور اگر آپ نے نہیں کیا تو میں پریس کانفرنس کرکے کہہ دوں گا کہ آپ بھی منصوبہ ساز ہیں۔ میں نے کہا سر دیکھ لیں۔ میں ایسا تو نہیں کر سکتا ناں!پھر ایک دو دن کی بعد ملٹری انٹیلیجینس کی طرف سے مجھے اطلاع آ گئی کہ سر وہاں پہنچنا ہے آپ کو۔ لکی اسٹار (تاج مح ہوٹل کے سامنے صدر کراچی کا علاقہ) بلوایا گیا جہاں بیرک بنے ہوئے ہیں۔ ایم آئی سینٹر جانا پڑا تو پتہ چلا کہ بریگیڈیئر صاحب ملیں گے۔ سی آئی اے کے تفتیشی افسر بھی میرے ساتھ تھے۔ بریگیڈیئر صاحب نے خود اٹھ کر میرے لیے دروازہ کھولا تھا۔ مجھ سے کہا شاہ صاحب آئیں، پہلے تو بتائیں کہ آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی تو نہیں کوئی دھونس دھمکی تو نہیں دی؟ میں نے اُن سے کہا کہ ہمیں گالی دو یا مار دو برابر ہے تو بریگیڈیئر صاحب نے میرے سامنے تفتیشی افسر سے کہا آپ کو تمیز نہیں ہے کیسے بات کرتے ہیں سیّدوں سے۔ آج کے بعد کوئی بات نہیں کریں آپ حکیم صاحب سے۔اور پھر اللہ نے مجھ کو بھی بری کر دیا

موتیا سے کیسے بچیں

 


ہماری آنکھوں میں بصارت بے شک خدا وند عالم کا بیش قیمت انعام ہے-اور اس انعام کی ہم کو اس قدر -قدر دانی کرنی چاہئے کہ ہماری آنکھوں پر کم سے کم کام کا  اضافی بوجھ پڑے-جیسے لیٹ کر کتاب پڑھنا -راتوں کو بلا سبب جاگنانیم ملگجے اندھیرے میں لکھنا یا پڑھنا یا کمپیوٹر استعمال کرنا-وغیرہ -وغیرہ آنکھوں کی روشنی کو بہتر بنانے کے  لئے  آپ کون سی غزائیں استعمال کر سکتے ہیں  ؟آنکھیں ہمارے چہرے پر وہ نازک حصہ ہے جس کی مدد سے ہم دنیا کےآپ کی بصارت کی  تمام خوبصورت نظارے دیکھتے ہیں۔اس لئے ان کی صحت بھی ہمارے لئے معنے رکھتی ہے۔اپنی آنکھوں کی حفاظت اور صحت کا خیال ہمیں لازمی رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔آنکھوں کی صحت کے لئے بہت سے وٹامنز بھی ضروری ہیں۔جو آنکھوں کی بینائی کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ روزمرہ کے کچھ طریقے اپنا کر بھی ہم اپنی آنکھوں کی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں۔جو ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیںکچھ غذائیں ایسے وٹامنز پر مشتمل ہوتی ہیں جو آپ کی قدرتی بصارت کو بہتر بنانے کا کام کرتی ہیں۔خشک میوه جات مونگ پھلی-اخروٹ-پسته-

بادام-انجیر-چلغوزےوغیرہ -اب ہرے پتّے والی جتنی بھی سبزیاں ہیں وہتمام ہماری بینائ کی بہتری میں معاون و مددگار ہیں 

آنکھوں کی صحت کر برقرار رکھنے کے طریقے-سگریٹ نوشی چھوڑ دیں-

اگرآپ سگریٹ پینے کے عادی ہیں تو اسے چھوڑ دیں کیونکہ یہ نہ صرف آپ کے پھیپٹروں کو خراب کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ سےہماری آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔یہ آپ کی آنکھ کے اعصاب کو نقصان دیتی ہے۔اس کے علاوہ ایک ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ سگریٹ نوشی آنکھ میں موتیا کی بیماری کا باعث بنتی ہے۔اس لئے اپنی آنکھیں بچانے کے لئے  

خون کے بہاؤ کی پیچیدگیاں بعض اوقات دھندلاپن کا آپ کے خون کے بہاؤ سے آپ کی نظر سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ چونکہ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ آیا آپ کی دھندلی بصارت کا معاملہ ہے، اس لیے یقینی بنائیں کہ آپ اسے جلد از جلد چیک کر لیں تاکہ آپ مزید مشکلات سے بچ سکیں۔

کولیسٹرول کی  سطح ضرور چیک کیجئے

آپ کے ایرس کے گرد سفید یا سرمئی رنگ کا دائرہ ہائی کولیسٹرول کے مسائل کی نشاندہی کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر آپ کی عمر زیادہ نہیں ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں آپ کے ذہن میں آنے والی پہلی چیز اپنے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔جاگنے سے تھکی ہوئ آ نکھیں :---بلا وجہ شب بیداری سے اپنی آنکھوں کو تھکن سے بچائےان چیزوں میں سے ایک جو آپ کی آنکھیں یقینی طور پر ظاہر کرتی ہیں وہ ہے آپ کی تھکاوٹ کی سطح۔ آپ جتنا زیادہ تھکن محسوس کریں گے آپ کی آنکھیں اسے ظاہر کریں گی۔ اگر آپ ہر صبح سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اٹھتے ہیں، تو آپ کو اپنی  بہتر دیکھ بھال شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی توانائی کی سطح کو بڑھانے کا طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ آپ کوشش کریں کہ رات کی نیند بھرپور طریقے سے پوری ہو۔

ریٹنا کے مسائل

ہم سب وقتاً فوقتاً فلوٹرزیعنی آنکھوں کے اندر جیلی جیسا مواد دیکھتے ہیں،  یہ مواد سیال دار ہلکے رنگ کا ہو سکتا ہے۔لیکن اگر آپ انہیں بہت کثرت سے دیکھتے ہیں، یا ہر وقت آپ کو اپنی آنکھوں میں نظر آتا ہے تو آپ کو ریٹنا کے مسائل ہو سکتے ہیں۔  لیکن اگر آپ کو اپنے بصارت میں بجلی کی چمک یا اندھیرا نظر آتا ہے، تو یہ آنکھ کی ہنگامی صورت حال کی علامت ہے جو فوری طبی امداد کی ضمانت دیتا ہے۔بعض اوقات لوگ بیس منٹ کی لمبی ٹمٹماہٹ یا چمکتی ہوئی روشنی دیکھتے ہیں جو سائز میں پھیلتی ہے اور دوبارہ نیچے سکڑ جاتی ہے۔ یہ مائگرین کا آغاز ہو سکتا ہے، جس کے بعد سر درد ہو سکتا ہے۔

 انفیکشن

اگر آپ کو اپنی آنکھ کے کارنیا پر ایک چھوٹا سا سفید دھبہ نظر آتا ہے تو اسے کبھی بھی نظر انداز نہ کریں۔یہ بہت زیادہ سورج کی روشنی سے آشوب چشم کو پہنچنے والے نقصان کی نشاندہی کر سکتا ہےدھوپ کے چشموں کے ایک اچھے جوڑے میں سرمایہ کاری کریں جو مکمل یووی تحفظ فراہم کرے اور آپ کی آنکھوں کو مکمل طور پر ڈھانپے۔ یہ انفیکشن کی صورت میں ایک سنگین مسئلہ کی نشاندہی کر سکتا ہے جو بروقت نہ سنبھالنے کی صورت میں تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ چشمہ کا استعمال-دھوپ آپ کی آنکھیں خراب کرسکتی ہے کیونکہ اس کی وجہ آپ کی آنکھوں میں سرخی کا انفیکشن ہوسکتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں تو عینک کا استعمال بہت ضروری ہے۔کیونکہ نہ صرف یہ ہماری آنکھوں کو آرام دیتا ہے بلکہ سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بھی بچتا ہے۔اس لئے باہر نکلتے وقت لازمی عینک یعنی سن گلاسز کا استعمال کریں۔آنکھوں کی ورزش پر بھی خاص تو جہ دیجئے -کیونکہ آلودگی ہمارے شہروں کا خاص جز ہے اس لئےدن میں کم سے کم دو مرتبہ آنکھوں کو دھو لیجئے  اور دائمی بصارت کا لطف اٹھائیے بے شک آنکھیں بڑی نعمت ہیں

آنکھیں قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ لیکن آجکل بہت ساری بے جا چیزوں کے استعمال سے ہمیں بینائی کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو بھی بینائی کے متعلق بہت سارے مسائل در پیش پیں اور بینائی کی کمزوری کے باعث عینک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ آئیے ایسی غذائوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کا اپنی خوراک میں شامل کرنے سے ہماری بینائی کافی حد تک بہتر ہو سکتی ہے۔تاہم ہم اپنے گھروں میں دسیتاب بعض غذائوں کے ذریعے خود کو نظر سے متعلق مسائل سے بچا سکتے ہیں۔ آنکھوں سے متعلق ہم جن مسائل سے زیادہ تر دوچار ہوتے ہیں ان میں آنکھوں کو لال ہونا، آنکھوں میں خشکی اور آنکھوں میں خارش کا ہونا شامل ہیں۔ بلخصوص عمر میں اضافے کے بعد اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

پانی بھی اآنکھوں کی حفاظت کرنے کا سب سے اعلی ذریعہ ہے اس کی مقدار بھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں بڑھا دیں۔ پانی آنکھوں کی بصارت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ روزانہ 8 گلاس پانی لازمی پئیں۔ پانی صرف پیاس بجھانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ جسمانی نظام کی بہت اچھے طریقے سے صفائی بھی کرتا ہے۔ زہریلا مواد پانی کے ذریعے سے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ چونکہ آنکھوں میں پٹھے ہوتے ہیں اس لیے ان کو اچھی حالت میں رکھنے  کے لیے کچھ مشقیں کرنا بے حد ضروری ہیں۔ آنکھوں کی ورزشیں جب صبح کے وقت کی جاتی ہیں یا جب آپ کی آنکھیں تھکاوٹ محسوس کرتی ہیں اور بستر پر لیٹنے سے پہلے کرتی ہیں۔اگر آپ ایک ماہ کے لیے مستقل مزاج  سے آنکھ کی ورزشیں کرتے ہیں تو کچھ دن تک آپ کو فرق نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ دن میں کم از کم بیس منٹ ورزش کرنا آپ کی آنکھوں سمیت آپ کے پورے جسم کے لیے صحت مند ہے۔خون کی گردش کو بہتر بنانا آنکھوں میں خون کی چھوٹی نالیوں کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ ان نقصان دہ مادوں کو خارج کرتا ہے جو جمع ہو چکے ہوں۔ ورزش  لازمی ضرورت ہے۔ 

اتوار، 19 فروری، 2023

پتّھر کے تراشیدہ قدیم شہرماچو-پیچو

 



پتّھر کے قدیم تراشیدہ شہرماچو-پیچو

عقل کو حیران کر دینے والے کھنڈرات جن کو صرف انسانی  ہاتھوں نے تراشا 

جنوبی امریکا میں پیرو کے علاقے کاسکو میں واقع ماچو پیچو، کھنڈرات کی صورت میں محفوظ ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2430میٹر (7972فٹ) بلندہے۔ اسے "انکاؔ کا شہر" بھی کہا جاتا ہے۔ماچو پیچو انکا سلطنت کے عروج کے دور میں 1450ء کے دوران تعمیر کیا گیا تھا، پیرو میں ماچو پیچو کا قدیم ’انکاؔ قلعہ‘ بہت سی معروف سیاحتی فہرست میں شامل ہے۔ انکاؔ تہذیب کا اچانک غائب ہو جانا آج بھی ایک معمہ ہے۔ ماچو پیچو میں پتھر کی بنی216عمارتیں ہیں، جو سیڑھیوں سے جڑی ہیں۔ سطح سمندر سے2430میٹر کی اونچائی پر یہ سب کچھ تعمیر کرنا یقینی طور پر کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔-ان کی تین ہزار سیڑھیاں ہی جو زراعت کے کام آتی تھیں-ان کا آبپاشی کا نظام بہت مربوط تھا کیوںکہ یہ پہاڑوں سے پانی نکالتے تھے 

ایک تاریخ دان نے 1911ء میں اس گمشدہ شہر کو دوبارہ دریافت کیا اور اس وقت سے یہ جنوبی امریکا کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عظیم الشان تعمیرات انکاؔ شہنشاہ پاچاکوتی اور ان کے جانشینوں نے شاہی جائیداد کے طور پر کی تھیں۔ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک مذہبی جگہ تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسے ویران کیوں چھوڑ دیا گیا۔ تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ اسے انکاؔ تہذیب کے عروج کے دور میں تعمیر کیا گیا، جو کہ15ویں اور16ویں صدی کے درمیان کا عہد تھا، جب ہسپانوی حملہ آوروں نے جنوبی امریکا پر دھاوا نہیں بولا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں ماچو پیچو میں ایک ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر تھے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ماچو پیچو کو تعمیر کے صرف سو سال بعد ہی ویران چھوڑ دیا گیا تھا۔ کچھ کے خیال میں اس کی وجہ ہسپانوی حملہ آور تھے جبکہ دیگر یہ نقطہ پیش کرتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود نہیں کہ ہسپانوی افراد ماچو پیچو تک پہنچ سکے تھے بلکہ کسی مرض یا وباء کا حملہ اس کے خالی ہونے اور لوگوں کی یہاں سے نقل مکانی کا باعث بنا۔ 

کچھ ایسے بھی خیالات ہیں کہ شدید قحط سالی یا انکاؔ قبائل کے درمیان خانہ جنگی، اس جگہ کو کھنڈر کرنے کا باعث بنی۔ چاہے جو بھی ہوا ہو، یہ پرجلال کمپلیکس سطح سمندر سے تقریباً8ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے اور پانچ میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقام پر ڈیڑھ سو سے زائد عمارات، حمام، مقبرے، مندر اور تدفین کے میدان ہیں جبکہ تین ہزار سے زائد سیڑھیاں مختلف مقامات اور لیولز کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ ماچو پیچو کا وجود خواہ کسی بھی مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا ہو مگر یہ انجینئرنگ اور زراعت کی ترقی کی زبردست مثال ہے کیونکہ یہاں کا نظامِ آبپاشی اب بھی ماہرین کے ہوش اڑا دیتا ہے۔ یہاں کی عمارات مثالی انداز میں ایک دوسرے سے جڑی ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں، جن کی تعمیر کے لیے گارے کی بھی ضرورت نہیں پڑی اور یہ اب بھی دراڑوں سے پاک ہیں۔پاچو پیچو کو دیکھنے ہر سال12لاکھ افراد آتے ہیں جبکہ 2007ء میں اسے دنیا کے7نئے عجائباتِ عالم کی فہرست میں عوامی ووٹوں کی بناء پر شامل کیا گیا۔ سیاحوں کو اکثر مشورہ دیا جاتا ہے کہ ماچو پیچو کے لیے ہائیکنگ کرنے سے پہلے کچھ دن قریبی قصبے میں گھومتے ہوئے گزاریں اور اس کے بعد ہی بلندیوں کے سفر پر روانہ ہوں۔ انکاؔ ٹریل درحقیقت ایک دوسرے پر چڑھی تین ٹریلز پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک دورانیے اور مشکلات کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 

اگر آپ ماچو پیچو تک پہنچنے کے لیے ہائیکنگ کو اپناتے ہیں تو دو سے سات دن تک مشکل چڑھائی کے لیے تیار ہوجائیں ،جس کے دوران بلندی کا خوف، سردی لگ جانا اور سرد راتوں میں کپکپی کاسامنا بھی ہوسکتا ہے، مگر انتہائی زبردست اور تھکن اتار دینے والے مناظر بھی آپ کی راہ میںآئیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر مقامی افراد بھی ان نظاروں کو زندگی بھر دیکھ نہیں پاتے۔ ماچو پیچو کے راستے میں آپ کو اونٹ سے مشابہہ ایک جانور ’الپاکا‘ عام نظر آئے گا۔ اس ٹریل پر آپ جنوبی امریکا کے مشہور پہاڑی سلسلے کوہ اینڈیز کے بھی کچھ دنگ کردینے والے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ خوش قسمت ہوں گے توبیک وقت دہری قوس و قزح کا منفرد نظارہ بھی آپ کو مسحور کرسکتا ہے۔ ماچو پیچو کو یونیسکو نے1983ء میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ دنیا بھر میں تصاویر لینے کے لحاظ سے اگر کوئی راستہ سب سے زیادہ معروف ہے، تو وہ پیرو میں موجود انکاؔ تہذیب کے کھنڈرات پر مشتمل ماچو پیچو ہی ہے۔

ماچو پیچو ویسٹرن ساؤتھ امریکہ کے ملک پیرو میں موجود ہے، اور پیرو کی سرحدیں برازیل، کولمبیا، چلی کیساتھ ساتھ بحراوقیانوس سے ملی ہُوئی ہیں اور اس ملک میں سطح سمندر سے 7000 فٹ کی بُلندی پر قائم ماچو پیچو پیرو میں سب سے زیادہ سیاحت کیا جانے والا ایک چھوٹا سا شہر ہے، جو پہاڑ کی چوٹی پر قائم ہے اور اسے 1450 عیسوی کے قریب "انکان” بادشاہوں نے تعمیر کیا۔ ماچو پیچو کو یونیسکو ورلڈ ہریٹیج سائٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور 2007 میں نئے 7 عجوبوں میں ماچو پیچو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس آرٹیکل میں ہم ماچو پیچو کے چند دلچسپ حقائق جانیں گے جن سے ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ علاقہ 7 عجوبوں میں کیوں شامل کیا گیا، اور ساتھ اس کی خوبصورت تصاویر بھی دیکھیں گے۔

ماچو پیچو کا مطلب پیرو میں بولی جانے والی ایک زبان کوئچو کے دو الفاظ ماچو یعنی پُرانا اور پیچو یعنی پہاڑ ہے۔ اس پرانے پہاڑ کے اوپر 150 کے قریب تعمیرات ہیں جن میں گھر، پبلک باتھ رومز، ٹیمپل اور پناہ گاہیں شامل ہیں جنہیں بڑے پتھروں سے بنایا گیا ہے اور مانا جاتا ہے کہ یہ بڑے پتھر یہاں سینکڑوں لوگوں نے ملکر دھکا لگا کر پہنچائے ہیں۔پہاڑ کی چوٹی پر قائم یہ شہر ہزاروں کٹے ہُوئے پتھروں سے بنی سیڑھیوں، پتھروں سے بنی دیواریوں، سرنگوں کا ایک کلاسیکل شہکار ہے جسکا طرز تعمیر یہاں کے قدیم لوگوں کی بہترین  انجنئیرینگ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس شہر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے زیادہ تر پتھروں کا وزن 50 ٹن سے بھی زیادہ ہے اور تعمیر کے دوران ان کو اس انداز سے اوپر نیچے رکھا گیا ہے

زما ن و مکاں کی پابندیوں سے ہٹ کرایک عظیم رات-۔شبِ معراج

شب معراج  - عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ روایت  میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ معراج کی شب کو دین اسلام میں ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ اس رات اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کرایا تھا۔رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے، اللہ رب العزت نے تمام مہینوں کے مختلف دنوں اور راتوں کی اہمیت و فضیلت اور ان کی خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں
 
۔شبِ معراج جہاں عام انسانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں اسے امت مسلمہ کے لئے عظیم فضیلت والی رات بھی قرار دیا گیا ہے۔
اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو زما ن و مکاں کی پابندیوں سے ہٹ    کرایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، اس واقعے کو حضور اکرم کا امتیازی معجزہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔شبِ معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس شب حضور نبی کریم ﷺ آسمانوں سے بھجوائی گئی خصوصی سواری البراق پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور رب کی طرف سے امت کے لئے 5 فرض نمازوں، رمضان المبارک کے روزوں کا تحفہ لے کر آئے۔ستائیس رجب المرجب وہ بابرکت رات ہے جب مدینہ میں ہجرت سے پانچ سال قبل حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور رب کائنات نے سرکار دو عالم کو سات آسمانوں کی سیر کرائی۔

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ شب معراج کو اللہ تعالیٰ سے نماز کا تحفہ حاصل ہوا، جو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ادا کرکے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، شب معراج کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا بہترین طریقہ اتباع رسول ہے۔علمائے کرام اس رات کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لئے خصوصی بیان کرتے ہیں جبکہ دینی محافل اور توصیف رسول ﷺ کی تقریبات کا اہتمام بی کیا جاتا ہے -قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔سفرِمعراج کے مراحل سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے،

 یہ زمینی سفر ہے۔دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے-شبِ معراج جہاں عام انسانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں اسے امت مسلمہ کے لئے عظیم فضیلت والی رات بھی قرار دیا گیا ہے۔اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو زما ن و مکاں کی پابندیوں سے  کرایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، اس واقعے کو حضور اکرم کا امتیازی معجزہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔شبِ معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ 

اس شب حضور نبی کریم ﷺ آسمانوں سے بھجوائی گئی خصوصی سواری البراق پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور رب کی طرف سے امت کے لئے 5 فرض نمازوں، رمضان المبارک کے روزوں کا تحفہ لے کر آئے۔ستائیس رجب المرجب وہ بابرکت رات ہے جب مدینہ میں ہجرت سے پانچ سال قبل حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور رب کائنات نے سرکار دو عالم کو سات آسمانوں کی سیر کرائی۔ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ شب معراج کو اللہ تعالیٰ سے نماز کا تحفہ حاصل ہوا، جو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ادا کرکے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، شب معراج کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا بہترین طریقہ اتباع رسول ہے۔علمائے کرام اس رات کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لئے خصوصی بیان کرتے ہیں جبکہ دینی محافل اور توصیف رسول ﷺ کی تقریبات کا اہتمام بی کیا جاتا ہے -قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔

سفرِمعراج کے مراحل -سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے، یہ زمینی سفر ہے۔دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے۔تیسرے مرحلے سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے،چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا، سورۃ النجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کرلیں۔
 
علمائے اسلام کے مطابق معراج میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات روحانی نہیں، جسمانی تھی، جسے آج کے جدید دور میں سمجھنا مشکل نہیں، شبِ معراج میں نفلی عبادات انجام دینا احسن اقدام ہے لیکن اس رات کو ملنے والے تحفے نماز کی سارا سال پابندی بھی اللہ تعالیٰ کی پیروی کا ثبوت ہےقرآن مجید میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ. (بنی اسرائيل، 17: 1) ’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، 

بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی. (النجم، 53: 1،2) ’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول   جنہوں نے تمہیں اپنا  نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معراج کیوں کروائی گئی؟ 

     اس سلسلے میں معراج کی حکمتیں درج ذیل ہیں۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتیں ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں۔ پہلی حکمت: معراج کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی کرب سے گزرنا پڑا۔ 

بائیکاٹ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خالق حقیقی سے جا ملیں چنانچہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پاس بلاکر سارے غم، دکھ اور پریشانیاں دور کردی جائیں اور اپنا دیدار کروایا جائے۔ جب محبوب حقیقی کا چہرہ سامنے ہوگا تو سارے غم و تکالیف اور مصیبتیں کافور ہوجائیں گی۔ گویا اللہ رب العزت معراج پر بلاکر اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے کہ اگرچہ دنیا میں یہ کافر تمہیں تنگ کرتے ہیں اور مصائب و آلام اور آزمائشیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرایا نہ کریں کیونکہ ہم 
آ پ کی نگہبانی سے غافل نہیں ہیں- 

 علّامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ

 اِک نُکتہ میرے پاس ہے ، شمشِیر کی مانِند !

بُرّندہ وصیقل زدہ ، رَ وشن و برّاق!

کافر کی یہ پہچان کہ ، آفاق میں گُم ہے!

مومن کی یہ پہچان کہ ، گُم اُس میں ہیں آفاق!



 

جمعہ، 17 فروری، 2023

بولتی تہذیب کا درخشاں باب ضیاء محی الدّین بھی رخصت ہو گئے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا 
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے 

امجد اسلا م امجد کے بعد ضيا ءمحي ا لد ين بھی چل بسے ضیاء محی الدین 20 جون 1933ء کو آ ج کے فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان روہتک (ہریانہ) سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری آپ وہ واحد ادبی شخصیت تھے جن کےپڑھنے اور بولنے کے انداز کو عالمی شہرت نصیب ہوئی اردو طنزو مزاح کے بادشاہ مشتاق احمد یوسفی نے ضیاء محی الدین کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ضیاء اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے تو وہ زندہ ہوجاتا ہے، برطانیہ میں 1960ء میں عالمی شہرت یافتہ ادیب ایڈورڈ مورگن فوسٹر کے مشہور ناول ”A Passage to India“ پر بنے اسٹیج ڈرامے میں ضیاء محی الدین صاحب نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کر کے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اس ڈرامے میں ایسی شاندار اور باکمال پرفارمنس دی کہ شائقین حیرت زدہ رہ گئے،

 اس کے علاوہ ان کے انگریزی ٹی وی ڈراموں میں ”ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو، ڈیتھ آف اے پرنسس، دی جیول پرائڈ، ان دی کرائون اور فیملی“ سرفہرست ہیں ،ضیاء محی الدین نے اپنے فلمی سفر کا آغام 1962ء میں ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ کلاسیکی فلم ”لارنس آف عریبیہ“ سے کیا تھا اس فلم میں انہوں نے عربی بدو کا کردار ادا کیا جسے عمر شریف اس بنا پر گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے کیوں کہ وہ غلط کنویں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ انھوں نے اس فلم میں مختصر کردار ادا کیا لیکن یادگار پرفارمنس دی ان کی مشہور انگریزی فلموں میں ”خرطوم، دی سیلر فرام جبرالٹر، بمبئے ٹاکی اور پارٹیشن‘‘ بھی شامل ہیں،1969ء اور 1973ء میں انہوں نے پی ٹی وی سے ایک اسٹیج شو ’’ضیاء محی الدین شو‘‘ کا آغاز کیا اور بطور میزبان ایسی پرفارمنس دی کہ مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 

اس پروگرام کے ذریعے انہوں نے اردو ادب کی توجیح و تشریح اورپاکستانیوں میں اردو زبان سے محبت بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا انہوں نے قوم کو احساس دلایا کہ اردو زبان دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے جس کے لہجے میں الہامی کیفیت ہے، اسی لیے ضیاء محی الدین کو اردو زبان کا سب سے حسین و دلکش لہجہ کہا جاتا تھا اس شو کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے اختتام پر وہ ایک منفرد ڈانس کیا کرتے تھے، جو شائقین کے دلوں کو بہت بھاتا تھا اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں چچا چھکن پائل، ، ضیاء کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سب سے نمایاں ہیں ،انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلسفی مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط جس انداز میں پڑھے، اس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی ضیاء محی الدین نے دو کتابیں ”دی گاڈ آف مائی ایڈولیٹری“ اور ”اے کیرٹ از اے کیرٹ: میموریز اینڈ ریفلیکشنز“ بھی تخلیق کی تھیں،تھیٹر کی باقاعدہ تربیت کی وجہ سے ضیا محی الدین آواز کے زیر و بم اور کسی تحریر یا مکالمے کے مطابق آواز کو ڈھالنے کا فن جانتے تھے۔ وہ ادارکاری کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی ادب کے خوش ذوق قاری تھے۔ ضیا محی الدین نے ادب سے انتخاب کرکے انہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ا

نہیں  پڑھنے سے نہ صرف بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے سامعین کو کلاسیکی ادب کے کئی شاہ کار فن پاروں سے بھی اپنے سامعین کو متعارف کرایا۔ان کی آواز میں خطوطِ غالب، رتن ناتھ سرشار، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، شان الحق حقی، چوہدری محمد علی ردولوی، اسد محمد خاں کے نثر پاروں کو سامعین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔انہوں ںے شاعری میں غالب، میر، اقبال، فیض، ن م راشد، ناصر کاظمی جیسے معروف شعرا کے کلام بھی پڑھا۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریزی کے فن پاروں کو پڑھنے سے 2003ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور 2012ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا، انہیں پیپلز پارٹی دور میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی اور 2004ء میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا-نیویارک ( اردو نیوز ) پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ صدا کار ہدایت کار، صداکار، اداکاراور دانشور ضیا ءمحی الدین امریکہ میںبسنے والی کمیونٹی میں اپنی بے شمار اور خوبصورت یادیں چھوڑ گئے ۔ ضیاءمحی الدین جن کا 12فروری کو 91سال کی عمر میں کراچی میں انتقال ہو گیا ، اپنی وفات سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل امریکہ آئے۔ انہیں پاکستانی امریکن کمیونٹی کی ایک اہم و نمائندہ تنظیم ”امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی “ ( اے پی پیک۔APPAC) کے عید ملن استقبالیہمیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کے لئے مدعو کیا گیا تھا ۔

 ضیاءمحی الدین کے دورہ امریکہ اور APPACکے عید ملن شو میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لئے شرکت کرنے پر ناہید بھٹی نے کلیدی کرد ار ادا کیا ۔ میریٹ ہوٹل لانگ آئی لینڈ میںمنعقد ہونیوالے عید ملن استقبالیہ میں میں ”امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی “ ( اے پی پیک۔APPAC) کے ڈاکٹراعجاز احمد ، ناہید بھٹی اور صبا اعجاز نے ضیاءمحی الدین کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا ۔ اس تقریب میں ضیاءمحی الدین اپنی اہلیہ عذرا محی الدین کے ساتھ شریک ہوئے ۔ ”امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی “ کے ڈاکٹر اعجاز احمد اور ناہید بھٹی کا کہنا ہے کہ ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ نیویارک میں ضیاءمحی الدین جیسی عظیم شخصیت کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا اور ان کی جانب سے بہت ایوارڈ وصول کرکے بہت عزت افزائی کی گئی ۔عید ملن استقبالیہ سے خطاب کے دوران ضیاءمحی الدین نے اپنے مخصوص انداز اور آواز میں اپنا مضمون پڑھ کر سماں باندھے رکھا۔ نیویارک میں 90سالہ ضیاءمحی الدین کو اپنے درمیان پا کر اے پی پیک کے استقبالیہ میں موجود پاکستانی امریکن کمیونٹی کی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور ارکان نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا –خد ا و ند عا لم مغفر ت فر ما ۓ -آمین

۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ



۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک فرد واحدنہیں بلکہ چلتے پھرتے ایک ادارہ تھے ،آپ ایک تنظیم تھے ایک تحریک تھے ،آپ کھلی کتاب تھے جس سے ہزاروں تشنگان علم نے اپنی پیاس بجھائی تھی ،آپ کروڑوں عاشقان رسول کی منزل کی راہ کے چراغ تھے ، آپ فطری و پیدائشی فنافی الرسول ﷺ تھے ،اسی عشق کی بدولت رب کریم نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا ۔آپکے اُصول چٹانوں کی طرح مضبوط ،الفاظ سچ کی طرح روشن عزم غیر متزلزل اور جذبے صادق تھے ،آپ کا کردار قابل تقلید اور گفتار قابل تعریف تھی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی ہر بات عزم و حوصلہ سے مزین تھی ،آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا دین تو حید پروردگار تھا اور ایمان عشق رسول ﷺ کا پرچار تھا ۔ احمد رضا خان نے  محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے : قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید سیکھا

 احمد رضا خان نے اپنے والد نقی علی خان سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے : علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام، علم نجوم، علم صرف، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو احمد رضا خان فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے

 احمد رضا خان نے تعلیم و طریقت سید آل رسول مارہروی سے حاصل کی۔ مرشد کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیر ہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل فرمایا۔یہ وہ وقت تھا جب عالم اسلام کو ایک مجدد اعظم کی ضرورت تھی جو رسول اﷲ ﷺ کا سچا وارث بن کر اپنی نورانی کرنوں سے بد مذہبی کی کالی گھٹاؤں کر تتر بتر کر سکے ،جو جلال موسیٰ کا پر توبن کر اﷲ تعالیٰ جل شانہ کی ردائے عظمت میں جھوٹ کا دھبہ لگانے والوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا سکے ،جو حضور اقدس ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر قہر کی بجلی بن کر گرنے کے قابل ہو ،جو اپنے زمانے کا امام ابو منصور اور امام ابو الحسن اشعری بن کر ڈارون اور نیوٹن کے فلسفے کا شیشہ چکنا چور کر سکے ،جو ظاہری مسلم رہنماؤں کی پھیلائی گئی نیچریت کا گلا گھونٹ سکے ،جو آفتاب رشد و ہدایت بن کر قادیانیت کی پھیلائی گئی تاریکیوں کو اجالے میں بدل سکے ،

جو اپنے تجدیدی کارناموں سے امت مرحومہ کا دین تازہ کر کے حضور اقدس ﷺ کی سنتوں کو پھر سے زندہ کر سکے اور جو محمد ی کچھار کا شیر بن کر بد مذہب بھیڑیوں کی گردنوں پر اپنے مضبوط پنجے گاڑ سکے ۔اور اﷲ تعالیٰ نے ان کی انجام دہی کے لئے رسول اﷲ ﷺ کی نظر شفقت کے سبب امام احمد رضا خان کو چن لیا اور ہمارے دین و ایمان کی حفاظت کرنے کا بندو بست فرما دیا 

عنائیت خداوندی کی وہ کتنی ارجمند گھڑی تھی جب رب کریم نے امام احمد رضا خان جیسا مرد قلندر پیدا فرمایا ۔کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر سیلِ رواں بن کر اہل باطل کے مزعومات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور اس کے قلم کی لو سے ڈالا ہوا شگاف ہمیشہ کے لئے دشمن کے سینے کا ناسور بن جائے گا اور پھر کسے معلوم تھا کہ ایک شخص کی محنت رنگ لائیگی اور اسکا ایک ایک لفظ بحر و بر میں پھیل جائے گا اور ایک چراغ کی لو سے ایمان و عقیدت کے شبستانوں میں کروڑوں چراغ جل اٹھیں گے ۔بلا شبہ یہ احسان عظیم ہے اس خالق لوح و قلم کا جس کے دست قدرت میں انسانی اذہان ،زبان اور قلوب کی کنجیاں ہیں کہ اس نے اپنے حبیب مجتبیٰ ﷺ کی حمایت و دفاع میں اٹھنے والے امام احمد رضا خان کو عزت و اقبال کی بلندی بخشی اور اسے قبول عام کا اعزاز مرحمت فرمایا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ملحد ،فاسق اور نام نہاد صوفیوں کے خلاف بھی اپنا فریضہ سر انجام دیا 

۔آپ نے اپنی کتاب ’’مقال العرفاء‘‘ میں قرآن و حدیث و اقوال علماء سے ثابت کیا کہ شریعت اصل ہے اور طریقت اس کی فرع ،شریعت منبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا ایک دریا ،طریقت کی جدائی شریعت سے محال و دشوار ہے ۔شریعت ہی پر طریقت کادار و مدار ہے
 ۔شریعت ہی اصل معیار ہے ۔طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے شریعت مطہرہ ہی کی اتباع کا صدقہ ہے جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے 
۔مختصر یہ کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی پوری عمر اﷲ تعالیٰ جل جلالہ کے سچے دین اور محمد مصطفےٰﷺ کی سنن مقدسہ کی خدمت کی اور جہاں بھی کسی بد مذہب ،بد دین نے سر اٹھایا آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے اسے کچل کر رکھ دیا اور اسکے رد میں کتابیں تصنیف کیں ۔امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ سہ عالی مرتبت شخصیت تھے جو اپنی شیریں بیانی سے بچھڑے لوگوں کو قریب کرتے رہے ۔زور تقریر سے بے دینوں کا منہ بند کرتے رہے ۔سیف قلم سے باطل پرستوں کو مجروح و مردہ کرتے رہے ۔آپ نے گلشن عظمت مصطفےٰ ﷺ کو ہرا بھرا بنایا ،گمراہوں کو راہِ حق دکھانے میں بے پناہ محبت کی ،ہزاروں بہکے ہوئے لوگوں کو دوبارہ در نبی ﷺ پر لاکھڑا کیا آپ دشمنان خدا اور رسول ﷺ پر بجلی بن کر گرتے رہے ۔آپ نے اﷲ جل جلالہ کی وحدانیت اور سر کارِ مصطفےٰ ﷺ کی عظمت و حرمت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجایا 
۔آپ نے بڑے بڑے فلاسفروں کو اپنے خدا داد علوم کی تابناک شعاعوں سے چکا چوند کر دیا آپ نے دین مبین کی راہ میں آندھیوں سے تیز اٹھنے والے فتنوں اور سیلاب کی طرح بڑھنے والی گمراہیوں کے سامنے دیوار آہن کا کام کیا ۔آپ اس پر آشوب دور میں میدان عمل میں کود پڑے جب ہزاروں بے درد اسلام کے ہرے بھرے چمن کو اجاڑ دینے کی غلیظ کوشش میں مصروف تھے وہ بد بخت ڈاکو مسلمانوں کا متاع ایمان لوٹنے پر تلے ہوئے تھے ۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے  احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی،   عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے
آپ کے علم کا احاطہ کرنا میرے قلم کی دسترس سے کہیں بالا تر ہے ۔لیکن وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے زمانے میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم موجود نہ تھا ۔ اسی لئے تو بعض چرب زبان مخالفین نے بھی کہا کہ مولانا احمد رضا جس قابلیت و جامعیت کے عالم تھے اس کے پیش نظر سارا زمانہ انکی قدم بوسی کرتا اور انکو پیشوا مانتا مگر انہوں نے عمر بھر سب کا رد کر کے اپنی مقبولیت کو بڑا دھچکا پہنچایا ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ نے جس ملاں میں بھی محمد ﷺ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کا عنصر دیکھا اسکی ڈٹ کر مخالفت کی اور اسے بد بخت اور ذلیل جانتے ہوئے اس کے خلاف فتویٰ دیا ۔اور یہی باب تو ہم جیسے دیوانوں کے لئے پسندیدہ ہے ۔کیونکہ اگر امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم کے ہوتے ہوئے بھی آقا نامدار ﷺ کی توہین اور گستاخی برداشت کرتے رہتے تو پھر ہمارا ان سے کیا واسطہ تھا ۔انکی اسی عادت پر تو ہر غلام محمد ﷺ اپنی جان و ارتا ہے اور ان سے محبت رکھتا ہے اور جو حضور ﷺ کی توہین اور گستاخی کو برداشت کرنے کی منافقانہ صلاحیت رکھتا ہے وہ امام احمد رضا خان سے عداوت اور بغض رکھتا ہے ۔امام احمد رضا خان نے اگر اپنی شہرت اور مقبولیت کو دھچکا پہنچایا تو عین سنت رسول ﷺ پر عمل کیا کیونکہ جب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے کفار مکہ کو دعوت اسلام دی اور تمام بت پرستوں کے خلاف آواز حق بلند کی کافروں نے آپ ﷺ سے کہا اگر آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں تو ہم آپ ﷺ کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں اور سب مل کر دولت کے انبار آپ ﷺ کیسا منے لا کر رکھنے کو تیار ہیں ،جس قبیلہ میں آپ ﷺ چاہیں وہاں آپ ﷺ کی شادی کرنے کو تیار ہیں ۔
لیکن ہمارے پیارے نبی آخر زماں ﷺنے کفار مکہ کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا اور چونکہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ بھی اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کے سچے غلام اور عاشق تھے اس لئے آپ نے بھی اپنے زمانے کے باطل پرستوں کی پیش کی گئی سردار ی اور شہرت کو رد کر دیا ۔اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے آپکو نہ صرف یہ کہ علوم دینیہ کا صاحب بصیرت عالم بنایا بلکہ آپ کو اپنے دور کے فقہا و محدثین کا امام اور ارباب فلسفہ و منطق کا اُستاد بنایا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے اکابر علمائے اسلام نے آپ کے علم و فضل کا مشاہدہ کر کے تحریر ی گواہی دی کہ شیخ احمد رضا خان بریلوی علامہ کامل ،استاذ ماہر ،فاضل سریع الفقہہ، ہیں ۔مکہ شریف کے فقیہہ جلیل حضرت مولانا سید اسمٰعیل بن سید خلیل نے آپ کے فتاویٰ کے چند اوراق پڑھ کر یہاں تک لکھ دیا کہ :’’بخدا میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ اگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ حضرت کے اس فتویٰ کو ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں اور وہ آپ کو اپنے شاگردوں کے طبقہ میں شامل کرتے ۔‘‘(رسائل رضویہ صفحہ258مطبوعہ لاہور )ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ حضرت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا اطباع و ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا ۔(فاضل بریلوی اور ترک موالا ت صفحہ16)
امام احمد رضا خان بریلو ی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم و فضل اور فتویٰ کے معترف چند گنے چنے علماء برصغیر ہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے کثیر علمائے کرام بھی تھے ۔بلکہ انہوں نے آپ کو اپنا سردار اور پیشوا تسلیم کیا ۔مکہ معظمہ سے مولانا شیخ محمد سعید مکی رحمۃ اﷲ علیہ ،شیخ مولانا احمد ابو الخیر میر داد (امام و مدرس مسجد حرام) مفتی علامہ شیخ صالح کمال مکی (مدرس حرم شریف) علامہ شیخ اسعد بن احمد دہان مکی (مدرس حرم شریف) و دیگر 16علماء کرام اور مدینہ منورہ کے مفتی مولانا تاج الدین الیاس مدنی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا عثمان بن عبد السلام داغستانی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا سید احمد جزائری مدنی ،و دیگر 10علمائے کرام نے امام احمد رضا خان کے مجموعہ فتاویٰ ’’حسام الحرمین‘‘ پر دستخط فر ما کر آپ کے علم کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنا سردار و پیشوا کہا ۔(بحوالہ امام احمد رضا خان اور ان کے مخالفین مصنف حضرت مولانا بد رالدین قادری مطبوعہ فضل نور اکیڈمی گجرات)
اعلیٰ حضرت نے حدود شریعت میں رہ کر جس جوش اور خلوص سے اپنے آقا سید عالم ﷺ کی عظمت و جلالت کے نغمے گائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ میدان نعت میں آپ کا کوئی حریف و مقابل نہیں ۔آپ نے حضور اقدس ﷺ کے لئے ایسے الفاظ اور ایسے استعارے استعمال کئے ہیں جو انتہائی ادب اور محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں آپ کے نعتیہ کلام کی خوبیاں گنی نہیں جا سکتیں ’’حدائق بخشش‘‘ آپ کی نعتیہ تصنیف ہے جس کا ہر اک شعر عشق مصطفےٰ ﷺ سے سرشار ہے ۔آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں حدود شریعت کو ازحد قائم رکھا ہے آپ نے آقائے نامدار ﷺ کی تعریف اور انکا تقابل دیگر انبیاء سے اس طرح کیا ہے کہ باقی انبیائے کرام کا احترام بھی باقی رہا ہے آپ کے اشعار میں مبالغہ تصنع اور بناوٹ کی بجائے خلوص و عقیدت کی ترجمانی ہے ،آپ کے کلام میں قرآن وحدیث کے بعینہٖ کلمات و عبارات یا ترجمے موجود ہیں یعنی آپ کی شاعری کا ماخذ ہی کلام الہٰی اور حدیث نبوی کے مضامین ہیں ۔
امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علوم کا تذکرہ میرے بس کی بات نہیں کیونکہ آپ نے علم تفسیر میں 7،علم حدیث میں 45,عقائد و کلام میں 22،فقہ و تجوید میں 70،علم زیجات میں 7، علم جفر و تکسیر میں 11،جبرو مقابلہ میں 4اوردیگر علوم میں کتب و رسائل تصنیف کئے ،آپ نے عشق رسول ﷺ کی شمع وقت رخصت تک جلا رکھی آپ نے جو آخری مجلس میں وعظ فرمایا اس کی چیدہ چیدہ باتیں درج ذیل ہیں جن پر ہمیں ضرور عمل کرنا چاہیے آپ نے فرمایا اے لوگو! تم ہمارے مصطفےٰ ﷺ کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو اور بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بہکا ئیں ،تمہیں فتنہ میں ڈالیں اور اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں ان سے بچو اور دُور بھاگو۔
حضور اقدس ﷺ رب العزت کے نور ہیں ۔حضور ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم روشن ہوئے ۔صحابہ کرام سے تابعین عظام رضی اﷲ عنہم روشن ہوئے ،تابعین سے تبع تابعین روشن ہوئے ۔ان سے ائمہ مجتہدین روشن ہوئے ۔ان سے ہم روشن ہوئے ۔اب ہم تم سے کہتے ہیں یہ نور ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ تم ہم سے روشن ہو ۔وہ نور یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ و رسول اﷲ ﷺ کی سچی محبت ،انکی تعظیم ،انکے دوستوں کی خدمت اور تکریم اور انکے دشمنوں سے سچی عداوت ۔جس سے اﷲ جل شانہٗ رسول اﷲ ﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ۔میں پونے چودہ برس کی عمر سے یہ بتاتا رہا ہوں اور اس وقت پھر یہی عرض کرتا ہوں ،اﷲ تعالیٰ ضرور اپنے دین کی حمایت کے لئے کسی بندے کو کھڑا کر دیگا مگر نہیں معلوم میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لئے ان باتوں کو خوب سن لو ۔حجۃ اﷲ قائم ہو چکی ہے ۔اب میں قبر سے اُٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا جس نے اسے سنا اور مانا قیامت کے دن اس کے لئے نور نجات ہے اور جس نے نہ مانا اس کے لئے ظلمت و ہلاکت ہے ۔آخر میں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عشق مصطفےٰﷺ کی دولت سے مالا مال رکھے-
حب اہل بیت آپ کی زندگی میں آپ کے لہو میں موجزن رہا

یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو

شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات

اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر

امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے

صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر

سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن

دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں

عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں

اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے

چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو

یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں

اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط

آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے

رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں

قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے

دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو


اولاد کے حق میں حضرت امام سجاد علیہ السّلام کی دعا

اولاد کے حق میں حضرت امام سجاد علیہ السّلام کی دعا امام سید السّاجدین کے-صحیفہ سجّادیہ جیسی انمول  کتاب کومولا سجّاد علیہ السّلام نے واقعہ کربلا کے بعد اپنی گوشہ نشینی میں مرتّب کیامرتب کیا گیا۔یہ کتاب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کی وضاحت پیش کرتی ہے، اگرچہ کتاب دعا کی شکل میں اسلامی علم و فکر کا ایک مجموعہ اصولی ہے۔ صحیفہ سجادیہ بلاغت کی اعلیٰ ترین شکل میں ہے۔ اور اس کے مندرجات، بیان اور تفسیر کی کئی زبانوں میں تراجم کیے گئے ہیں۔اس نادر و نایاب کتاب میں مولا سجّاد نے ۵۲ دعاوں کا خزانہ انسانیت کو دے دیا ہے- ان میں ایک دعا میں مولا اپنی اولاد کے حق میں کس طرح دعائیں مانگنے کا سلیقہ سکھا  رہے ہیں 

آئے ہم بھی پڑھتے ہیں-  نزدیک اولا د کے حق میں دعا کی اہمیت کا اندازہ آ پ کی اپنی دعا سے ہوتا ہے اے میرے معبود ! میری اولاد کی بقا اور ان کی اصلاح اور ان سے بہرہ مندی کے سامان مہیا کر کے مجھے ممنون احسان فرما۔ اور میرے سہارے کے لیے ان کی عمروں میں برکت اور زندگیوں میں طول دے اور ان میں سے چھوٹوں کی پرورش فرما اور کمزوروں کو توانائی دے اور ان کی جسمانی، ایمانی اور اخلاقی حالت کو درست فرما اور ان کے جسم و جان اور ان کے دوسرے معاملات میں جن میں مجھے اہتمام کرنا پڑے، انہیں عافیت سے ہمکنار رکھ اور میرے لیے اور میرے ذریعہ ان کے لیے رزق فراواں جاری کر اور انہیں نیکوکار، پرہیزگار، روشن دل، حق نیوش اور اپنا فرمانبردار اور اپنے دوستوں کا دوست و خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن و بدخواہ قرارد

 آمین۔ اے اللہ! ان کے ذریعہ میرے بازوؤں کو قوی اور میری پریشان حالی کی اصلاح اور ان کی وجہ سے میری جمعیت میں اضافہ اور میری مجلس کی رونق دوبالا فرما اور ان کی بدولت میرا نام زندہ رکھ اور میری عدم موجودگی میں انہیں میرا قائم مقام قرار دے اوران کے وسیلہ سے میری حاجتوں میں میری مدد فرما اور انہیں میرے لیے دوست، مہربان، ہمہ تن متوجہ ،ثابت قدم اور فرمانبردار قرار دے ۔ وہ نافرمان ، سرکش، مخالف و خطاکار نہ ہوں اور ان کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاؤ میں میری مدد فرما اور ان کے علاوہ بھی انہیں میرے لیے سراپا خیر و برکت قرار دے اور انہیں ان چیزوں میں جن کا میں طلبگار ہوں میرا مدد گار بنا اور مجھے اور میری ذریت کو شیطان مردود سے پناہ دے۔

 اس لیے کہ تو نے ہمیں پیدا کیا اور امر و نہی کی اور جو حکم دیا اس کے ثواب کی طرف راغب کیا اور جس سے منع کیا اس کے عذاب سے ڈرایا ۔ اور ہمارا ایک دشمن بنایا جو ہم سے مکرکرتا ہے اور جتنا ہماری چیزوں پر اسے تسلط دیا ہے،
 اتنا ہمیں اس کی کسی چیز پر تسلط نہیں دیا۔ اس طرح کہ اسے ہمارے سینوں میں ٹھہرا دیا اور ہمارے رگ وپے میں دوڑا دیا ۔ ہم غافل ہو جائیں مگر وہ غافل نہیںہوتا۔ ہم بھول جائیں مگر وہ نہیں بھولتا۔ وہ ہمیں تیرے عذاب سے مطمئن کرتا اور تیرے علاوہ دوسروں سے ڈراتا ہے۔ اگر ہم کسی برائی کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ ہماری ہمت بندھاتا ہے اور اگر کسی عمل خیر کاارادہ کرتے ہیں تو ہمیں اس سے باز رکھتا ہے اور گناہوں کی دعوت دیتا ہے اور ہمارے سامنے شبہے کھڑے کر دیتا ہے اگر وعدہ کرتا ہے تو جھوٹا اور امید دلاتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ 

اگر تو اس کے مکر کو نہ ہٹائے تو وہ ہمیں گمراہ کرکے چھوڑے گا اور اس کے فتنوں سے نہ بچائے تو وہ ہمیں ڈگمائے گا۔ خدایا! اس لعین کے تسلط کو اپنی قوت و توانائی کے ذریعہ ہم سے دفع کر دے اور کثرت دعا کے وسیلہ سے اسے ہماری راہ ہی سے ہٹا دے تاکہ ہم اس کی مکاریوں سے محفوظ ہوجائیں۔ اے اللہ ! میری درخواست کو قبول فرما اورمیری حاجتیں برلا اور جب کہ تو نے استجابت دعا کا ذمہ لیا ہے تو میری دعا کو اپنی بارگاہ سے روک نہ دے اور جن چیزوں سے میرا دینی و دنیوی مفاد وابستہ ہے ان کی تکمیل سے مجھ پر احسان فرما ۔ جو یاد ہوں اورجو بھول گیا ہوں، ظاہر کی ہوں، یا پوشیدہ رہنے دی ہوں، علانیہ طلب کی ہوں یا درپردہ، ان تمام صورتوں میں اس وجہ سے کہ تجھ سے سوال کیاہے  نیت و عمل کی  اصلاح کرنے والوں اور اس بنا پر کہ تجھ سے طلب کیا ہے، کامیاب ہونے والوں اور اس سبب سے کہ تجھ پر بھروسہ کیاہے،

 غیر مسترد ہونے والوں میں سے قرار دے اور (ان لوگوں میں شمار کر ) جو تیرے دامن میں پناہ لینے کے خوگر، تجھ سے بیوپار میں فائدہ اٹھانے والے اور تیرے دامن عزت میں پناہ گزیں ہیں۔ جنہیں تیرے ہمہ گیر فضل اورجو د و کرم سے رزق حلال میں فراوانی حاصل ہوئی ہے اور تیری وجہ سے ذلت سے عزت تک پہنچے ہیں اور تیرے عدل و انصاف کے دامن میں ظلم سے پناہ لی ہے اور رحمت کے ذریعہ بلا و مصیبت سے محفوظ ہیں اور تیری بے نیازی کی وجہ سے فقیر سے غنی ہوچکے ہیں اور تیرے تقوےٰ کی وجہ سے گناہوں، لغزشوں اور خطاؤں سے معصوم ہیں اور تیری اطاعت کی وجہ سے خیرو رشد و صواب کی توفیق انہیں حاصل ہے اور تیری قدرت سے ان کے اور گناہوں کے درمیان پردہ حائل ہے اور جو تمام گناہوں سے دست بردار اور تیرے جواِ رحمت میں مقیم ہیں۔

 بارالٰہا! اپنی توفیق و رحمت سے یہ تمام چیزیں ہمیں عطا فرما اور دوزخ کے آزا رسے پناہ دے اور جن چیزوں کا میں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے سوال کیا ہے ایسی ہی چیزیں تمام مسلمین و مسلمات اورمؤمنین ومومنات کو دنیا و آخرت میں مرحمت فرما ۔ اس لیے کہ تُو نزدیک اور دُعا کا قبول کرنے والا ہے ، سننے والا اور جاننے والا ہے ،معاف کرنے والا اور بخشنے والا اور شفیق و مہربان ہے۔ اور ہمیں دُنیا میں نیکی کی توفیق عبادت اورآخرت میں نیکی اوربہشت جاودانی عطا کر   
اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
الٰہی آمین

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر