ہفتہ، 21 جنوری، 2023

بلبل صحرا ریشماں اور منقبت علی مولا (ع)

cript async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506" crossorigin="anonymous">







  
 فوک موسیقی کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ اسی لئے یہاں سے شہرت حاصل کرنے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہمارے فوک سنگرز میں طفیل نیازی ،عالم لوہار، شوکت علی، عاشق جٹ، منصور ملنگی اور دیگر بے شمار ایسے فنکار موجود ہیں جنہوں نے فوک میوزک میں نام پیدا کیا۔
 ایسا ہی ایک خوبصورت نام گلو کارہ ریشماں کا بھی ہے۔ ریشماں جنہیں بلبل صحرا کا اعزاز ملا۔ ا ن کی دلنواز گائیکی نے پاک و ہند کی دھرتی پر طویل عرصہ اپنی صحرائ گائیکی کے رنگ بکھیرے وہ جب کسی مقام پر گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ سننے والے ریشماں کی صحرائی آواز میں کھو جاتے۔ ان کی آواز ہجر کا ایسا استعارہ ہے جس میں ڈار سے بچھڑنے والی ہرنی اور کونج کی درد بھری پکار کو بخوبی محسوس کیاجا سکتا ہے۔
مئی 1947ء کو راجھستان کے شہر بیکا نیر میں ایک خانہ بدوش خاندان میں پیدا ہونے والی بچی کے والدین انتہائی غربت کے عالم میں تقسیم ہند کے فوری بعد پاکستان آ گئے اور یہاں نگری نگر ی گا کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے۔ ریشماں بچپن سے اپنی آواز گڑوی کے ساتھ ملانے لگی۔ وہ گڑوی کی آواز کی لے ملاتے ہوئے مدھر سُروں میں کھو جاتی تھی۔ اس کی آواز میں صحرائی اور دیہی ماحول کی عکاسی نمایاں نظر آتی تھی۔ وہ سادہ لباس اور سادہ زندگی گزارتی ۔ صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین سے عقیدت اس کی آواز اور خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔ 
بیکا نیر کے ایک بنجارہ خاندان میں انتہائ پسماندہ خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والی میں آنکھ کھولنے والی ریشماں کو معلوم نہیں تھا کہ ایک روز ہاتھ میں پکڑی ہوئ گڑوی کے ساتھ وہ کس طرح اوج ثرّیا پر جا پہنچیں گی
-ہوا یوں کہ ریشماں کے بھائ کی شادی میں یکے بعد دیگرے رکاوٹوں کا سامنا تھا ایک اچھّی بہن ہونے کے ناطے ریشماں نے منّت مانی کہ اس کے بھائ کی اچھّی سی شادی ہوجائے تو لعل شہباز قلندر کے مزار پر مولا علی کی منقبت گائے گی-دعا کی قبولیت کی گھڑی تھی بھائ کی شادی ہوگئ تب ریشماں نے پنجاب سے سندھ کا سفر منّت بڑھانے کے لئے کیا اورمزار مبا رک پہنچ کر بے منقبت گائ۔منقبت کی گائیکی میں نا جانے کیا ا ثر تھا مجمع بھی بے خودی کے عالم خاموش ہو کر محو سماعت ہو گیا ۔اس روز شائد آسمان پر پروردگار عالم نے 
 ر یشماں کی منقبت کو اس کا صلہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔چنانچہ اسی دن اس دور کے نامور ریڈیو پروڈیوسر سلیم گیلانی  بھی درگاہ پر آئے ہوئے تھے انہوں نے  ریشماں کو 
گاتے ہوئے سنا 
  اور منقبت کے ختم پر وہ ریشماں کے پاس آئے اور اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم جب کبھی کراچی آئو تو میرے پاس چلی آنا۔ چنانچہ ریشماں کا خاندان جب شہر آیا تو وہ پوچھتے پچھاتے ریڈیو پاکستان کراچی پہنچ گئے ۔گیٹ پر جب ریشماں نے گیلانی صاحب کا کارڈ دکھایا تو اسے فوری طور پر خاندان سمیت اندر بلا لیا گیا۔ ریشماں کا کہنا تھا کہ صحرائوں کی خاک چھاننے والی ایک سادہ سی غریب لڑکی کو جب ریڈیو کے اسٹوڈیو میں لایا گیا اور اسے کہا گیا کہ بس تم گانا شروع کرو۔ اِدھر اُدھر مت دیکھنا۔ بس پھر میں گاتی چلی گئی۔
سلیم گیلانی نے اسے صوفیانہ کلام ریکارڈ کرانے کے حوالے سے جب کچھ کہا تو بقول ریشماں مجھے ان کی بات سمجھ آئی کچھ نہ آئی۔ بہر حال وہ مائیک کے سامنے گاتی چلی گئی۔ ریشماں نے اپنے ریڈیو آڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اس کی گائی دھمال کیا نشر ہوئی کہ اس نے میری زندگی ہی بدل دی۔ صحرا کی یہ بلبل اپنی پہلی ہی دھمال سے ہٹ ہو گئی۔ ایک اخبار نے سرورق پر جب ریشماں کا ٹائٹل چھاپا تو بقول ریشماں میں اپنی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ پھر یہ خوف بھی ہوا کہ کہیں میری بنجارہ فیملی میری تصویر دیکھ کر مجھے مار ہی نہ دے۔ اس دور میں ہمارے خاندان میں تصویر بنوانا اور پھر اس کا چھپنا بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ریشماں نے سٹال سے سارے میگزین خرید کر چھپا دیے۔
سٹال والے نے ریشماں کو پہچان لیا ۔مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ بی بی تمہاری تصویر پورے ملک نے دیکھ لی ہے۔ اب میگزین چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ریشماں میگرین چادر میں چھپا کر گھر لے گئی اور اکیلے میں گھنٹوں بیٹھی اپنی تصویر دیکھتی رہی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی اس لئے وہ صرف تصویریں دیکھتی رہی ۔پھر بعد میں اس نے ایک پڑھے لکھے شخص سے جب اپنا انٹرویو سنا تو وہ بہت پریشان ہو گئی۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے بارے میں اتنی تعریفیں اور باتیں لکھ دی گئی ہیں۔
ریشماں کے حوالے سے یہاں ایک اور بات بیان کرتے چلیں کہ انہیں تمام عمر اپنے تعلیم یافتہ نہ ہونے کا بہت غم رہا۔ ریشماں نے خود اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ پوری دنیا میں گائیکی کے حوالے سے بہت مشہور ہوئیں تو امریکہ کے صدر جانسن نے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ پھر جب وہ امریکی ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کے ہمراہ جہاز سے باہر آئیں تو امریکی صدر نے ہاؤآر یو۔پہلا جملہ یہ کہا کہ تو مجھے سمجھ نہ آیا اور میں بہت ہی شرمندہ ہوئی کہ اتنے بڑے ملک کے صدر کی عزت افزائی پر میں جواب میں ایک جملہ ادا نہ کر سکی۔ بہرحال میرے ہمراہ ایک ترجمان نے بتایا کہ صدر امریکہ آپ کا حال پوچھ رہے ہیں۔ ریشماں کا کہنا تھا اس واقعہ کے بعد میں نے پاکستان واپس آتے ہی اپنے بڑے بیٹے سانول کو فوری طور پر سکول میں داخل کرا دیا اور سوچا کہ میں اسے اتنا تعلیم یافتہ ضرور بنائوں گی کہ اسے کبھی ایسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کی طبیعت میں رکھ رکھائو اوربولنے کے آداب بھی آ گئے مگر اس کی طبیعت کی روایتی سادگی ہمیشہ قائم رہی۔ وہ کسی تصنع کے بغیر گفتگو کرتی اور ہر ایک پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیشہ سچ بولتی۔ گزرتے وقت کیساتھ ریڈیو سے گائے ہوئے اس کے نغمات جب سرحد پار فضائوں میں گونجے تو اسے وہاں بھی سرکاری سطح پر جانے کا موقع ملا۔ ریشماں کو دورہ ہندوستان کے موقع پر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی قیمتی گھڑی کا تحفہ دیتے ہوئے اسے بھارت میں رہنے اور تمام تر آسائشیں دینے کا وعدہ کیامگر ریشماں نے شکریے کے ساتھ ان کی آفرکو مسترد کر دیا البتہ جہاں وہ پیدا ہوئی اور پلی تھی اس نے اپنے گاؤںط کیلئے سڑکیں بنوانے اور صحت کے حوالے سے ضروری آسائشیں مہیا کرنے کا وعدہ اندرا گاندھی سے لیا جو فوری مان لیا گیا۔اور پھر حسب معمول قدرت خدا کےچھیاسٹھ برس کی عمر میں خدائے واحد کی  بارگاہ میں چلی گئ۔

منگل، 17 جنوری، 2023

احمد فراز شاعری کے آسمان کا روشن ستارہ

 



مکمل نام: سید احمد شاہ علی

تخلص: مقبول، احمد فراز

تاریخِ پیدائش: 12 جنوری 1931

مقامِ پیدائش: کوہاٹ، برٹش انڈیا، موجودہ پاکستان

تاریخِ وفات: 22 اگست 2008

مقامِ وفات: اسلام آباد، پاکستان

آخری آرامگاہ: ایچ-ایٹ قبرستان، اسلام آباد، پاکستان

والد کا نام: آغا سید محمد شاہ

تعلیمی سفر: ایم اے اردو اور فارسی، پشاور یونیورسٹی، پشاور، پاکستان

شعری وابستگی: 1950 سے 2008

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931 کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد شاہ بھی شاعر تھے۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں طالب علمی کے دور میں ہی احمد فراز شعر و ادب  کی دنیا سے مانوس ہو چکے تھے-۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور وہیں ان دونوں زبانوں کو کچھ عرصہ پڑھاتے رہے تاہم انھوں نے سکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان میں بعد ازاں ملازمت اختیار کر لی۔

ازاں بعد شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد  وہ اردو شاعری کی تاریخ کے بڑے شعراء میں شامل تھے - عوام اور خواص دونوں میں مقبول، وہ برصغیر کے ان چند شاعروں میں سے ایک تھے جن کی شاعری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ گایا بھی گیا۔  احمد فراز نے اردو شاعری اور ادب میں تقریباً ایک الگ سوچ اور فرقے کی سی حیثیت اختیار کی۔ انھیں کثرت سے عالمی مشاعروں میں دوسرے ممالک میں بلایا جاتا تھا۔ پہلے انہوں نے عشق مجاز کی دنیا میں قدم رکھّااور محبت، عشق، ہجر و وصال کی شاعری کہی لیکن رفتہ رفتہ ان کی شاعری میں ملکی حالات کی نسبت سے بغاوت اور انقلاب کی جھلک دکھائ دینے لگی اس طرح وہ انقلاب اور بغاوت کے شاعر بھی بن گئے -۔

 ان کا خود کہنا تھا ہے کہ اردو زبان میں شاعری سے پہلے انہوں نے کچھ اورزبانواں میں شاعری کی لیکن اس شاعری وہ مانوس نہیں ہو سکے اور بالآخر جب اردو زبان کی شاعری شروع کی تب ان کے دل سے آواز یہی وہ میدان جہاں ان کو شاعر کرنی ہے اور پھر زمانے نے دیکھا کہ احمد فراز نے زردو شاعری کے میدان میں  شہرت کی بلندی کے سنگھاسن پر بٹھا  دیا جس پر وہ تا دم وفات بیٹھے ہوئے تھے- ان کی شاعری کی اس جہت نے ان کو کچھ لوگوں کی نظروں معتوب کیا لیکن مگر آخر کار ان کی شہرت اور مقبولیت غالب رہی۔ ان کو پاکستان اور بیرونِ ممالک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 2004 میں ان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز ہلالِ امتیاز دیا گیا جو انھوں نے 2006 میں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے واپس کر دیا

احمد فراز ماضی کے ایک پورے عہد میں نوجوانوں میں بے حد مقبول رہے۔ ان کے نظریات کی بناء پر انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بھی ٹکراؤ کا سامنا رہا اور وہ جلا وطن بھی رہے۔ 1980 میں ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں انھوں نے جلا وطنی اختیار کی اور کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ دورِ جلا وطنی میں لکھی گئی ان کی نظمیں “دیکھتے ہیں” اور “محاصرہ” کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔احمد فراز نے شاعری میں 13 کتابیں اپنے ادبی ورثہ میں  چھوڑیں ہیں جو سب کی سب اردو دنیا میں مقبول عام  ہیں۔ ان کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1950 میں منظرِ عام پر آئی جس نے بھرپور قبولیت حاصل کی اور فراز کو شہرت ملنے لگی۔ ان کی دیگر کتابوں میں جاناں جاناں، درد آشوب، خوابِ گل پریشاں ہے، نایافت، شب خون، بے آواز گلی کوچوں میں، بودلک، غزل بہانہ کروں اور میرے خواب ریزہ ریزہ شامل ہیں۔ ان کا تمام کلام “کلیاتِ احمد فراز” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے

احمد فراز مختلف حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ 1976 میں قائم ہونے والے ادارہ اکادمی ادبیات کے بانی ڈائریکٹر جنرل تھے اور بعد ازاں اس کے چیئرمین بھی رہے۔ آخری زمانے میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہے۔ ان کے کلام کو بے شمار چھوٹے بڑے گلوکاروں نے گایا جن میں نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، رونا لیلیٰ اور جگجیت سنگھ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ احمد فراز کے گیت اور غزلیں فلموں کی زینت بھی بنے۔احمد فراز کا انتقال 22 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ہوا۔ اور اسلام آباد کی زمین میں خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے

 

اتوار، 15 جنوری، 2023

عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم

<\head>pbr />

عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم 

عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں 

سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔

ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں  امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''۔

لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے  تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے  عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔لکھنو کے مشہور عزاخانے-

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی ۔محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکرہ کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے:

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن زات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے خود اٹھاتے  


عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں 

سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔

ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں  امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''

لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے  تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے  عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔[1] رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[2]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا، لکھتا ہے:۔

"سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے"[3]۔

کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔

"محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں- ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے"

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے  

اتوار، 8 جنوری، 2023

خدارا پاکستان کے جنگل بچاو



جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔یہ آ پ جانتے ہی ہوں گے اس برس آم کے موسم سے قبل ہی شہر ملتان میں کئ لاکھ آ م کے بہترین فصل دینے والے درخت کاٹ کر وہاں ہاوسنگ سو سائٹیز کو تعمیرات کی اجازت دی گئ -کیا کسی نے سوچا ہم اتنے درخت کاٹ کر اپنے نسلوں کو کنکریٹ کے دہکتے جنگل بے دردی سے صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ ہمارا سرمایہ بڑھے پاکستان میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے 

۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث منگلا ڈیم اپنی مقررہ عمر سے پہلے ہی بھر جائے گا ۔ جس کے بڑے بھیانک نتائیج برآمد ہونگے ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں کبھی بے شمار جنگلی حیات موجود تھے لیکن چودہ سالہ انڈین گولہ باری کے باعث نیلم ویلی کے جنگلات کا مجموعی طور پر پندرہ ہزار ایکڑ رقبہ نذر آتش ہوا ۔آتش ذدگی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی تیزی سے جنگلات کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس طرح خوبصورت جنگلی حیات کا عر صہ حیات تنگ ہو رہا ہے ۔

 ان جنگلات میں بڑے پیمانے پر قیمتی جانور ناپید ہو رہے ہیں ۔ خوبصورت پرندوں میں دان گیر مرغ ذرین پہلے سے نایاب ہو چکے ہیں ، چکور بھی کم تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں بے شمار شفا بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن کی بیرون ملک اور پاکستان میں بڑی مانگ ہے ان میں کٹھ ، پتریس ، مشک بالا ، رتن جوگ اور بٹ پھیوا وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ نیلم ویلی کے جنگلوں کی بلیک مشروم ( گچھی ) سیاہ زیرا کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔

ہمارے جنگل کنکریٹ میں دفن کیوں ہو ئے جا رہے ہیں ۔کبھی سوچا آپ نے ؟ نہیں کس کو فرصت ہےقرت کی اس معصوم مخلوق کی بقا کا سامان کریں نہ کہ فنا کا۔در حقیقت جنگلات کی کٹائی ایک خلاف فطرت عمل ہے اور دور حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی حدت کا مسئلہ درپیش ہے،  ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے ۔ ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہو رہی ہے پاکستان میں اگرچہ ماحولیات کے تحفظ پر کافی بات ہورہی ہے  اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی  کئ صورتوں میں جاری ہے۔

 محققین کے مطابق گلگت بلتستان، کوہستان بشمول داریل تانگیر  اور وادی نلتر میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ اور دیامر کے علاقے بالخصوص گوہرآباد چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالامال ہے اسی طرح ان علاقوں میں دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر  مافیہ نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ لیکن بھلا ہو پرائم منسٹر عمران خان نیازی کا جنہوں نے دس ارب درختوں کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا اس منصوبے میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ملک کے متعدد علاقوں میں تقریبا ایک ارب سے زائد درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا ۔ میری جنگلات کے متعلقہ  اداروں سے یہ گزارش ہے کہ اس منصوبے کو بھرپور انداز میں  استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ہمارے جنگلات کو بچائے

 یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں اور قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے تاہم یہ  بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔سائنس دانوں کاکہناہے کہ دنیا میں بڑے جنگلی جانوروں کی آبادی کم ہو رہی ہے  یوں تو پوری دنیا میں  بیشمار تنظیمیں جنگلی حیات کے بچاؤ اور تحفظ کیلئے کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کو بچانے اور افرائش نسل کیلئے حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اقدامات کے باوجود نایاب پرندوں کا شکار کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

جنگلی حیات صرف جنگل تک محدود نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ہمارے معاشرے میں ہمارے قریب موجود ہے، مختلف جانور اور پرندے ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، زمین، آسمان اور سمندر میں موجود آبی حیات انسان کی توجہ کی متقاضی ہیں۔انسان کی طرح جانور اور چرند پرند اور تمام جنگلی حیات کو زندہ رہنے کیلئے گھر اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ماحول کو انسان دوست بنانے میں جنگلی حیات کا بھی بڑا کردار ہے لیکن موجودہ دور میں انسان تیزی کے ساتھ جنگلی حیات پر اثر انداز ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کئی نایاب جانوروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔

جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ قدرتی خوبصورتی کو بھی نمایاں کرتے ہیں، آج دنیا بھر میں نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔جنگلی جانوروں  کے بچاؤ اور افزائش نسل کیلئے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ اور آگاہی نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جنگلی حیات کو بہت سے خطرات درپیش ہیں اورمختلف اقسام کے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کو ہیں۔

جنگلی حیات کا تحفظ صرف حکومت یا متعلقہ اداروں کی نہیں بلکہ ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے،عوام کی شمولیت اورمدد کے بغیر جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ہمیں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں آگاہی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔اور عوام کو جنگلی حیات پر جاری ظلم کو روکنے میں متعلقہ اداروں کا ساتھ دیناہوگاتاکہ قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ یقینی بناکر ماحول کو بچایا جاسکے
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے اللہ دتّہ کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ایک درخت کاٹنے سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنے پیٹ کی کیونکہ پہاڑوں میں رہتے ہوئے ان کے پاس نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔لہٰذا ان کا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ یا دس دنوں میں وہ اپنے گزر بسر کے لیے گاؤں کے پہاڑوں میں جاکر ایک درخت کاٹ کر گھر لاتا ہے جسے وہ ایندھن کے طورپر استعمال کرتا ہے یا پھر اسی درخت کو فروخت کردیتا ہے۔

جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ پاکستان اور آذاد کشمیر میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے ۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہم بڑی آبادیوں والی زمین سے محروم ہو جائیں گے

ائےابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے


کتنی حیرت کی بات ہے کہ کافر اپنی زبان سے کہ رہے ہیں کہ ابو طالب بارش کے لئے  اپنے خدا سے گزارش کریں کہ پانی برسا دے اور بے دین مسلمان کہ رہے ہیں کہ ابو طالب کافر تھے۔روایت ہے کہ شہر مکہ میں اتنا سخت قحط پڑ گیا کہ لوگوں نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے بچے تک فروخت کر دئے۔ایسے میں کفار مکہ اپنے بنائے ہوئے بتوں کے آ گے گڑ گڑانے لگے کہ وہ بارش برسا دیں ۔لیکن پتھر کے بت ساکن ہی رہے اور بارش نہیں برسی
تب وہ سب اجتماعی طور پر حضرت ابو طالب کے پاس آ ئے اور ان کہا کہ وہ اپنے خدا سے کہیں کہ وہ بارش برسا دے

تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے اعتراف کیا ہے کہ شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ھے۔ کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نھیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو ،بلکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ھر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ھے ایسے 

 حملوں سے نھیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نھیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔

‌تاریخ  اسلام  میں دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ھیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ھیں ..۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ھے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

‌ان میں ایک واقعہ یہ ھے کہ جو نھیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

‌بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ھے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ھے۔

‌” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ھے، یہ وھی پیغمبر ھے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ھے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ھیں ۔

‌ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو کفار مکہ ابوطالب کے گھر پر آئے اور ان سے کہا ائے ابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے

ابھی حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم بہت چھوٹے سے تھے حضرت ابو طالب نے حضور پاک کو گود میں اٹھایا اور خانہ کعبہ کی دیوار سے متصل کر کے کھڑا کیا اور  حضور پاک کی شان میں  چالیس بند کا قصیدہ پڑھا ااور اس کے ساتھ ہی شہر مکہ میں اتنی موسلادھار دھار بارش ہوئئ کہ  کعبہ کی دیوار واں تک پانی آ گیا۔ تب حضرت ابو طالب ننھے بھتیجے کو اپنے شانو ں پر بٹھا کر گھر لے آئے ۔

‌اس کے بعد شھرستانی لکھتا ھے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ هونے پر دلالت کرتا ھے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ھے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کھے تھے : و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمة الارامل ” وہ ایسا روشن چھرے والا ھے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ھیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ھیں “

‌یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم

فھم عندہ فی نعمة و فواضل

” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ھیں وہ اسی سے پناہ لیتے ھیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند هوتے ھیں ،،

‌ومیزان عدلہ یخیس شعیرة

‌ووزان صدق وزنہ غیر ھائل

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ھے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نھیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ھے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نھیں ھے “ قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ هونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ھے ۔“[20]

‌اشعار ابوطالب زندہ گواہ

‌۲۔اس کے علاوہ مشهور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ھیں جو ھماری دسترس میں ھیں ان میں سے کچھ اشعار ھم ذیل میں پیش کررھے ھیں :

‌والله ان یصلوالیک بجمعھم

‌حتی اوسدفی التراب دفینا

‌”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ھرگز ھرگز تجھ تک نھیں پہنچ سکیں گے“

‌فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ

‌وابشربذاک وقرمنک عیونا

‌”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔ ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا ”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ھے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ھے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ھے“

‌ولقد علمت ان دین محمد(ص)

‌من خیر ادیان البریة دیناً ” میں یہ بھی جانتا هوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ھے“۔ اور یہ اشعار بھی انهوں نے ھی ارشاد فرمائے ھیں : الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

‌رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب ” اے قریش ! کیا تمھیں معلوم نھیں ھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ھیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی هوئی ھے اور ھم نے اسے پالیاھے“۔

‌وان علیہ فی العباد محبة

‌ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب

‌” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ھیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نھیں ھے۔“

‌ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ھے) کہتا ھے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ھمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔ ۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل هوئی ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ھیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ھے کہ جب ابوطالب کی وفات هوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررھے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:

‌”ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین هوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے هونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔

‌نیز آپ ھمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب “

‌”اھل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ هوگئی“۔

‌۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن هوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مھرومحبت رکھیں۔

‌۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اھل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ھم تک پہنچی ھیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ھیں، جن کا یھاں نقل کرنا طول کا باعث هوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ھیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل هوئی ھے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

‌”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ھیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نھیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ھیں کیا ایسا نھیں ھے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ھے (اور یہ حکم دیا گیا ھے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نھیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ھے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ھیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رھیں۔“ ]ابوطالب تین سال تک شعب میں[

‌۶۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے هوئے اگرانسان ھر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نھیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہٴ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی هوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نھیں کیا جاسکتا ۔

‌اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ھے۔ تمام مورخین نے لکھا ھے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ھر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ھاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ھاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشهور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔

‌ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ھر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل هوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ھاتھ سے نہ چھوڑو، ھر زندہ موت کی طرف رواںدواں ھے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ھے 

‌یہ بات اور بھی طالب توجہ ھے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ھیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نھیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل هونے سے ڈرتاهوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم هوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار هوں۔ قارئین کرام ! ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنھری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ھمصدا هوکر کھے گا :

‌ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما

‌فذاک بمکة آوی وحامی وھذا بیثرب جس الحماما

” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ هوتے تو ھرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“

‌ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“

‌۷۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ھم یھاں تک دیکھتے ھیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ھیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا هو۔

منگل، 3 جنوری، 2023

دعائے کمیل بزبان مولا علی علیہ السّلام



۔ یہ مشہور و معروف دعاؤں میں سے ہے اور علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ یہ بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے اور یہ حضرت خضرؑ کی دعا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہ دعا، کمیل بن زیاد کو تعلیم فرمائی تھی جو حضرتؑ کے اصحاب خاص میں سے ہیں یہ دعا شب نیمہ شعبان اور ہر شب جمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔ جو شر دشمنان سے تحفظ، وسعت و فراوانی رزق اور گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے
,,
اے نورِ حقیقی ! اے پاک و پاکیزہ! اے سب پہلوں سے پہلے، اے سب آخروں سے آخر۔
اے اللہ!    میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو برائیوں سے محفوظ رکھنے والی پناہ گاہوں کو مسمار کر دیتے ہیں، اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دےجو عذاب نازل ہونے کی وجہ بنتے ہیں،  اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے  جو نعمتوں کو بدل کر انھیں آفت بنا دیتے ہیں،  اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو دعائیں قبول نہیں ہونے دیتے،  اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جن کی وجہ سے رحمت کی امید ختم ہو جاتی ہے، اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو مصیبتیں نازل کراتے ہیں، اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو میں نے جان بُوجھ  کر کئے اور ان ساری خطاؤں سے در گزر کر جو میں نے بھولے سے کیں۔
اے اللہ!  تجھے یاد کر کے تیرے قریب آنا چاہتا ہوں اور اس ذریعے سے میں تیرے حضور میں شفاعت کا امیدوار ہوں اور تیرے جودوکرم کا واسطہ دے کر تجھی سے التجا کرتا ہوں کہ مجھے اپنا قرب عطا کر،   مجھے ادائے شکر کی توفیق دے اور اپنی یاد میرےدل میں راسخ کر دے۔
اے اللہ!  میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس شخص کی مانند جو تیرے حضور گِڑگڑانے والا،  عاجزی کرنے والا، خضوع وخشوع کرنیوالا اور گریہ و زاری کرنےوالا ہو، کہ تو میری بھُول چوک معاف کر،   مجھ پر رحم فرما اور جو حصہ تو نے میرے لیے مقرر فرمایا ہے مجھے اس پر راضی، قانع اور مجھے ہر حال میں مطمئن رکھ۔
اے اللہ!  میں تیرے حضور سوال کرتا ہوں اس شخص کی مانندجس پر شدت ہو فاقوں کی، جو مصائب و شدائد سے تنگ تیرےحضور حاجات پیش کرتا ہوجو تیرے لطف و کرم کا زیادہ سے زیادہ خواہش مند ہو۔
اے اللہ! تیری سلطنت عظیم،  تیرا رتبہ بہت ارفع و اعلیٰ،   تیری تدبیرمخفی،  تیرا حکم صاف ظاہر،   تیرا قہر غالب،  تیری قدرت جاری و ساری اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ہے۔
اے اللہ! میرے گناہ  بخشنے والا،   میرے عیب کی پردوہ پوشی کرنے والا اور میرے کسی برے عمل کواچھے عمل سے بدلنے والا،  تیرے سوا کوئی نہیں،  تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں،   میں تیری پاکی کا ماننے والا اور  میں تیری حمد وثنا کرتا ہوں،   میں نے اپنے نفس پرظلم کیا اور اپنی نادانی کے باعث بڑی جراٴت کی اور یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ مجھ پر تیری نگاہِ کرم بہت پہلے تھی اور مجھ پر تیرے احسانات قدیم ہیں۔
اے اللہ اور میرے مالک!  تو نے میری کتنی ہی برائیوں کی پردہ پوشی کی،   تو نے مجھ پر سے کتنی ہی سخت بلاؤں کو ٹال دیا،     تو نے مجھے کتنی ہی لغزشوں کی رسوائی سے بچا لیا،  تو نے مجھ سے بے شمار ناگوار آفات کو دور کیا اور کتنی ہی ایسی خوبیاں جن کا میں اہل بھی نہ تھا ، لوگوں میں مشہور کر دیں۔
اے اللہ!  میری آزمائش بہت عظیم ہے،  میری بدحالی حد سے بڑھ گئی ہے،  میرے اعمال نے مجھے عاجز کر دیا ہے،  اپنے گناہوں کی وجہ سے میرے ہاتھ گردن سے بندھ گئے ہیں،  میری امیدوں کی درازی نے مجھے نفع سے محروم کر رکھا ہے،  دنیا نے اپنی جھوٹی چمک دمک سے مجھے دھوکہ دیا ہے اور میرے نفس نے اپنے گناہوں اور ٹال مٹول کے باعث فریب دیا ہے۔
اے میرے آقا!   تجھے تیری عزت کا واسطہ،  تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ میری بداعمالیاں اور غلط کاریاں میری دعا کے قبول ہونے میں رکاوٹ نہ بنیں،  میرے جن بھیدوں سے تو واقف ہے تو ان کی وجہ سے مجھے رسوا نہ کرنا اور خلوتوں میں انجام دیئے گئے ان اعمال پر سزا دینے میں جلدی نہ کرنا جو میرے بُرے افعال، گستاخی، میری دائمی کوتاہی، جہالت، میری کثرت خواہشِ نفس اور غفلت ہیں۔
اے اللہ!   اپنی عزت کے طفیل مجھ پر ہر حال میں مہربان رہ اور میرے تمام معاملات میں اپنا لطف و کرم فرما۔
اے میرے معبو د و رب!    تیرے سوا کون ہے جس سے سوال کروں ،  اپنی مصیبت کو دفع کرنے کا اور اپنے کاموں میں نظرِ کرم کرنے کا۔
اے میرے معبو د و مولا!  تو نے میرے لئے جو حکم صادر فرمایا اس پر عمل کرنے میں ہوائے نفس کے تابع رہا اور میرے دشمن نے مجھے جو سنہری خواب دکھائے ،  میں ان سے اپنا بچاؤ نہ کر سکابالآخر اس  نے  مجھے میری خواہشات کا سہارا لے کر دھوکا دیا اور اس میں میری تقدیر نے بھی اس کی مدد کی،  اس طرح میں نے تیری مقرر کردہ بعض حدود سے تجاوز اور تیرے بعض احکامات کی نافرمانی کی۔
تمام حالات میں تیری تعریف مجھ پر واجب ہے،  میرے لئے تو نے جو فیصلہ کیا اور جو حکم اور آزمائش میرے لئے لازمی ہو گئی اس پر مجھے کسی احتجاج کا حق حاصل نہیں۔
اے میرے معبو د!   تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اپنی کوتاہی اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے بعد  عذرخواہ ،  پشیمان،   دلِ شکستہ، کیے پر نادم، بخشش کا طلب گار، تیری طرف متوجہ، اقرار کرتا ہوں، مجھے تسلیم ہے، معترف ہوں کہ جوکچھ مجھ سے سرزد ہو چکا اس کے بعد اب میرے بچ نکلنے کے لئے نہ کوئی راہِ فرار ہے اور نہ کوئی پناہ گاہ پاتا ہوں جس کا اپنی اس پریشانی میں رخ کر سکوں سوائے اس کے کہ تو ہی میری عذر خواہی قبول فرمالے اور مجھے اپنے وسیع دامنِ رحمت میں جگہ دے دے۔
اے میرے معبو د!   میری معافی کی درخواست قبول کرلے،  میری تکلیف کی سختی پر رحم فرما اور میرے ہاتھ پاؤں کی اس سخت جکڑ سے مجھے رہائی بخش۔
اے میرے پروردگار!   رحم فرما  میرے جسم کی ناتوانی پر،  میری جلد ک

اتوار، 25 دسمبر، 2022

سر گنگا رام “ محسن لا ہور جنم گھڑی سے سمادھی کی راکھ تک ۔


 

سن ۱۸۵۱تھا اور تاریخ تھی 13 اپریل، جب ہندوستان کے ایک  شخص دولت رام  کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا۔ اس دن سکھوں میں بیساکھی کا تہوار منایا جارہا تھا۔ دولت رام نے اپنے بیٹے کا نام گنگا رام رکھا۔ کچھ عرصے بعد ایک پولیس مقابلے میں دولت رام نے کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا۔ ڈاکوؤں کے ساتھیوں نے دولت رام کو دھمکی دی کہ اگر اس نے گرفتار شدگان کو رہا نہ کیا تو وہ اسے بیوی بچے سمیت قتل کردیں گے۔ دولت رام نے فیصلہ کیا کہ اب اسے منگٹانوالا چھوڑ دینا چاہیے چنانچہ راتوں رات اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ امرتسر پہنچ گیا 

امرتسر میں بھی اس نے اپنی قابلیت سے بڑی جلدی اپنی جگہ بنا لی اور ساتھ ہی بیٹے کی تعلیم و تربیت بھی کرتا رہا اب یہ بیٹا جوان ہو چکا تھا اس علم دوست انسان کا تعارف یہ ہے کہ 1921 میں سر گنگا رام نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔

ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت  دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔ایک مصنف  بی پی ایل بیدی کی کتاب ‘ہارویسٹ فرام دی ڈیزرٹ: دی لائف اینڈ ورک آف سر گنگا رام‘ (Harvest From The Desert: The Life and Work of Sir Ganga Ram) نظر آئی۔ 1940 میں شائع ہونے والی اس کتاب کی مدد سے سرگنگا رام کے تعارف کا مرحلہ سر ہوا۔ (اب اس کتاب کا اردو ترجمہ سر گنگا رام: صحرا کی فصل کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔)لیکن یہ ترجمہ کس نے کیا ہے یہ میرے علم میں نہیں ہے

لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے

ایک واقعہ تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دن ایک کنویں میں گر پڑے، اتفاقاً کسی شخص نے انھیں کنویں میں گرتا ہوا دیکھ لیا اور یوں انھیں بچالیا گیا۔ گنگا رام نے اس حادثے کو الہامی اشارے سے تعبیر کیا اور ان کے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے بچا یا گیا ہے

INDIAN  POSTS AND TELEGRAPH DEPARTMENT1922انگریزوں نے گنگا رام کو سر کا خطاب دیا  گنگا رام نے  پنے اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں اور اپنی کئی ذاتی عالی شان عمارتیں اور جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں، جس کی آمدنی سے یہ ٹرسٹ مسلسل چلتا رہا اور 

چلتا رہے گا  جب تک یہ علمی درس گاہیں قائم و دائم رہیں گی سر گنگا رام کا نام بھی موجود رہے .علم کےسمندر میں سر گنگا رام کا بحری بیڑہ رواں دواں رہے گا  اور ہمارے محترم سیاستدانوں اور اشرافیہ کے بڑے بڑے محلات اور جزیرے جو انہوں نے عوام کا لہو نچوڑ کر بنائے ہیں اور خریدے ہیں ان کی قبروں کا مدفن بن جائیں گے۔ ۔یہ جاگیریں یہ محل ان کی اولاد کے بھی کام نہیں آئیں گے کیونکہ ان ان میں عوام کی بد دعاوں  کا گارا شامل ہے

  آئیے اب۔ لتے ہیں اس محس ن لاہور کی سمادھی تک  ۔وہ شحص جس نے لاہور کو جدید ہسپتال دیا آج اسکی سمادھی پر سالوں میں ڈسپنسری تک کی عمارت مکمل نہیں ہوئی. ہمیں گنگارام کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کرنی چاہیے مگر ہم تو اسکی بنائی ہوئی عمارتوں کے بھی نام تبدیل کر رہے ہیں. جس شخص کے متعلق لاہور کے بچے بچے کو معلوم ہونا چاہیے, جس کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے, آج اسکی سمادھی کھنڈر کا درجہ پانے کو ہے.

 گنگارام کی سمادھی لاہور میں کچا راوی روڈ پر ہے. یہاں جانا کچھ مشکل بھی نہیں اور ذیادہ آسان بھی نہیں. اگر رہنمائی لینی ہے تو آپ دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی درسگاہ بلائنڈ سکول کا پوچھ لیں. یہ سکول کافی معروف ہے. سمادھی سکول سے پہلے آتی ہے.

 گلیوں کے ہجوم میں ڈھونڈتے اور پھرتے ہوئے . لوہے کا دروازہ ملے گا۔دروازے سے داخل ہوں گے تو ایک وسیع میدان میں موجود سمادھی کا دروازہ ہے جہاں ویرانی ناچتی ملے گی

. محسن لاہور کی سمادھی میں تعمیراتی سامان پھینکا ہوا  بانس, ٹوٹی ہوئی لائٹیں, اینٹیں…معلوم ہوتا تھا کہ یہاں عرصہ دراز سے  صفائی نہیں کی گئی

اور  کیا کہوں ۔سر گنگا رام ہم تم سے شرمندہ ہیں

مضمون نگار 

سیّدہ زائرہ عابدی


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر