بدھ، 26 اکتوبر، 2022

فرزند نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم (امام جعفر صادق علیہ السلام )


  
فرزند نبی حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ( امام  ششتم ) 83ھ میں 17 ربیع الاول کوگلستان نبوّت میں جلوہ افروز ہوئے ۔ اس وقت آپ کے جد بزرگوارحضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی حیات  تھے۔ آپ کے والد حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی۔ خاندان آلِ محمد میں آ پ کی ولادت کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔اور آ پا کانام نامی جو بارگاہ ربُ العالمین کے یہاں لوح محفوظ میں درج تھا وہی نام رکھّا گیا 

 آپ نے جب ہوش سنبھالا اس وقت بنو اُمیّہ اور بنو عبّاس دونوں جانب اقتدار کی ہوس میں چھینا جھپٹی ہو رہی تھی ایسے وقت میں وہ حسب معمول امام ِ وقت حضرت جعفرِ صادق علیہ السّلام  کی جانب  ان کودیکھنے کا موقع نہیں مل سکا اور اس طرح امام جعفرِ صادق علیہ السّلام اپنے دیگر آبائے طاہرین کی نسبت فروغِ علم کے لئے کام کرنے کا بہتر موقع میسّر آیا اور اسی دور میں آپ علیہ السّلام نے اپنی مشہورِ زمانہ جعفریہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر اس کو ایک ایسے درخشان مرکز، علم کا درجہ دےدیا جس کی روشنی تا قیامت ماند نہیں ہو سکتی ہے

آپ کا یہ دوراس لحاظ سے بہت فکر انگیز تھا کہ جب ایک جانب مسلمانوں کےبیرونی دنیا سے تعلّقات میں وسعت ہو رہی تھی تو دوسری جانب انہی بڑھتےہوئے روابط کے نتیجے میں بیرونی دنیا کے فکری نظریات اور علوم، اسلامین نظریاتی فکر سے متصادم ہوتے نظر آرہے تھے ،،یہ اُ س وقت کے بیرونی سماج کی وہ فکری یورش تھی جو کہ دین اسلام کے نظریاتی اساس کے لئےنقصان دہ تھی-امام علیہ السّلام نے محسوس کر لیا کہ اس مہلک یلغار سے اسلامی سماج کابچاؤ صرف اپنے علم اور اپنی فکری اساس کے بچاؤ سے ہی ممکن ہے-
چنانچہ امام جعفرِ صادق علیہ السّلام اپنے سرِ مبارک پر دستارِ امامت کےساتشہرِمدینہ کی مسندِ علمی پر جلوہ افروز ہو گئے اور پھر آپ علیہ السّلام نے اسلام کی کماحقّہ خدمت کا بیڑا جو اٹھا یا تو آپ کے علم کاشہرہ شہرِ مدینہ سے نکل کر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گیا 'اور ناصرف پھیلا بلکہہر مسلک کے طلباء آپ کی علمی درسگاہ میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے آنے لگے-دنیا کے مایہ ناز کیمیا داں جابر بن حیّان نے کیمسٹری کا مضمون آپ سے براہ راست پڑھا تھا -

امام جعفرِ صادق علیہ السّلام نے اپنے علم و عمل کی روشنی سے جو عظیم
الشّان کار ہائے نمایاں انجام دے کر ایسے مسلمان سائنسدان تیّار کئے وہ
علم کی شمعیں جلا کر دنیا کے افق پر چھا گئے اور آپ کے شاگردوں کی تصانیف کئ سو سال کے لئے یورپ کی درسگاہوں کی کلید ی کتابوں کا درجہ اختیار کر گئیں لیکن بالآخرمنصور دوانقی آپ کے وجود کو برداشت نہیں کر سکا اور اس ملعون کے حکم پر آپ علیہ السّلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا  اور مینار ہ ء  امامت وبحرالعلوم کوچہء یزداں کی جانب عازم سفر ہو گئے
تحریرو تلخیص
سیّدہ زائرہ
بریمپٹن کینیڈا,


دریائے نیل تاریخ کے آئینہ میں





دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے۔ اس کا طول تقریباً 6670 کلو میٹر ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں، ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے اور دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور گھڑیال وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو “نیشنل پارک” کا درجہ حاصل ہے۔

جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا  دنیا کے سب سے بڑا دلدل سے گزرتا ہے یعنی 700 کلو میٹر ۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے، جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔ یہ اتنی گھنی اور مضبوط ہے   دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ 

دریائے نیل کے سارے معاون دریا، حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہرے کھڈ میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔ خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔خرطوم کے بعد دریائے نیل میں  تقریباً چھے مقامات پر نشیب آتے ہیں۔ دریا کی تہہ میں بڑی مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل  ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔ اس بند سے آب پاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔
دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے۔ اس کا طول تقریباً 6670 کلو میٹر ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں، ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے اور دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور گھڑیال وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو “نیشنل پارک” کا درجہ حاصل ہے۔
جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا  دنیا کے سب سے بڑا دلدل سے گزرتا ہے یعنی 700 کلو میٹر ۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے، جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔ یہ اتنی گھنی اور مضبوط ہے   دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ 
۔ یہ دریا
سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل  ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن  ہے۔ اس بند سے آب پاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔ اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے  
اس سے اُندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصر نے اپنی سر زمین آنےپرکو کس  طرح کاشتکاری اور بجلی پیدا کرنےلیے استعمال کیا ہے

اتوار، 23 اکتوبر، 2022

انشا جی کے دیس میں

script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506" crossorigin="anonymous">

اِنشاء جی کا شُمار بلا شبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اُردو اَدب کے اُن مایہ ناز اور بلند پایہ  قَلم کاروں میں ہوتا ہے جِنہوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں اپنے کمالِ فن کے جَھنڈے گاڑے ہیں۔ اُن کی ہَمہ گِیر اور ہَمہ جِہت شَخصِّیت میں ایک شاعِر بھی موجُود ہے، ایک کالم نویس بھی، بَچّوں کا ادیب بھی اپنی موجُودگی کا اِحساس دِلاتا ہے، سفرنامہ نِگار اور مُتَرَجِم بھی پا یا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ ہر صِنفِ اَدب میں ایک اَلگ دبستان ہیں اور اپنے اُسلُوب کے مَؤجِد بھی ہیں ۔

اِبنِ اِنشاء کا اصل نام شیر مُحَمّد خان تھا۔  انہوں نے قلمی نام (اِبنِ اِنشاء) اِختیار کیا۔ جمیلُ الدین عالی نے اِبنِ اِنشاء کو "اِنشاء جی" کہا جِس کی وجہ سے اِبنِ اِنشاء "اِنشاء جی" ہی ہو گئے
اِنشاء جی 15 جون 1927ء کو مُوضع تھلہ، تحصیل پھلور، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام چوہدری مُنشی خان اور والدہ کا نام مریم تھا۔ اِنشاء جی نے 1942ء میں لُدھیانہ ہائی سکول سے دَرجہ اَوّل میں میٹرک کا اِمتحان پاس کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انبالہ چھاؤنی میں مِلٹری اکاؤنٹس میں بطَورِ کلرک بھرتی ہو گئے۔ کم آمدنی، گھریلو اُلجھنوں اور دفتری مَصرُوفیات کے باوجُود اُنہوں نے تعلیمی سِلسِلہ مُنقطع نہیں ہونے دیا، چُنانچہ 1944ء میں مُنشی فاضِل کا اِمتحان پاس کرنے کے بعد اُنہوں نے 1946ء میں جامِعہ پنجاب سے بی اے کی ڈِگری حاصِل کی۔

 گریجویشن کرنے کے بعد اِنشاء جی نے مِلٹری اِکاؤنٹس کی مُلازمت کو خیر باد کہا اور دہلی جا کر امپیریل کونسل آف ایگریکلچر میں بھرتی ہو گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے اور 1947ء سے 1949ء تک ریڈیو پاکستان لاہور میں کام کرتے رہے۔ جُولائی 1949ء میں وہ ریڈیو پاکستان کی مُلازمت کے سِلسِلے میں کراچی مُنتَقِل ہو گئے جہاں اُنہوں نے اُردو کالِج کراچی میں داخلہ لیا اور 1953ء میں اُردو زُبان وادب میں ایم اے کیا۔

 وہ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے رُکن بنے اور 1962ء میں نیشنل بُک کونسل (اب اِس اِدارے کو نیشنل بُک فاؤنڈیشن کہا جاتا ہے) کے ڈائریکٹر مُقرَّر ہوئے اور طویل مُدّت تک اِس عُہدے پر تعیّنات رہے۔ اِبنِ اِنشاء ٹوکیو بُک ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کوپبلیکیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مَجلِسِ اِدارت کے رُکن بھی تھے۔ زندگی کے آخری اَیّام میں حُکُومتِ پاکستان نے اُنہیں اِنگلستان میں تعیّنات کر دیا تھا تاکہ وہ اپنا عِلاج کروا سکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اُردو اَدب کے اِس مایہ ناز ادیب اور بنجارے شاعِر کو اُن کے لاکھوں مَدّاحوں سے جُدا کرکے ہی دَم لیا۔

اِبنِ اِنشاء کو بَچپن ہی سے شِعر گُوئی کا شُوق تھا۔ زمانہِ طالِب عِلمی میں اُنہوں نے "اصغر، قیصر، مایُوس اور مایُوس صِحرائی" تَخَّلُص اَپنائے تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں اُنہیں کئی سانِحات اور مَحرُومیوں (بِالخُصُوص پِہلی شادی میں ناکامی) کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعِری میں فَلاکَت، درد وغم، حُزنُ ومَلال اور اُداسی وپُژمُردگی کی بازگَشت بَکثرت سُنائی دیتی ہے۔ اُن کی بہت سی غزلیں اور نظمیں اُن کی ذہنی کیفیات کی غَمَّاز وعَکَّاس ہیں۔ وہ خُود کِہتے ہیں کہ: "میری نظموں میں وَحشَت، سُپُردگی اور ربودگی میری زندگی ہے۔" اِنشاء جی نے بھرپُور شاعِری کی ہے جِس میں جوگ بَجوگ کی کہانیاں اور ویرانئی دل کی حَسرت ومَاتم کی حکایتیں ہیں۔ اُن کی شاعِری میں فقر، طنطنہ، وارفتگی اور آزارگی پائی جاتی ہے۔

 اِنشاء جی کا پِہلا مجمُوعہ کلام 1955ء میں "چاند نِگر" کے نام سے شائع ہُوا۔
 اِس کے عِلاوہ اُن کے شِعری مجمُوعوں میں "اِس بستی کے اِک کُوچے میں

 (1976ء) اور دلِ وحشی (1985ء) شامِل ہیں۔ اِنشاء جی نے بَچّوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔

۔ اُن کے سفرناموں میں "چلتے ہو تو چین کو چلیے (1967ء)، آوارہ گرد کی ڈائری (1971ء)، دُنیا گُول ہے (1972ء)، ابنِ بطوطہ کے تعاقُب میں (1974ء) اور نَگری نَگری پِھرا مُسافِر (1989ء)" شامِل ہیں۔ عِلاوہ ازیں اُن کی دیگر کِتابوں میں "اُردو کی آخری کتاب (1971ء)، آپ سے کیا پردہ، خُمارِ گندم (1980ء) باتیں اِنشاء جی کی اور قِصّہ ایک کنوارے کا" قابلِ ذکر ہیں۔ 
ابن انشاء کا خوبصورت انشائیہ ’’خطبہ صدارت حضرت ابن انشاء‘‘ کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے اور ان کی بہترین انشاء پردازی کا اندازہ لگائیے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ تھا ہم قطب بنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستا رہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کیا۔ پھر اخبار شاعر میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگو ں کو تصویر بڑی کرا کے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بد دل ہو کر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمسا کر کہا۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ بولے میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سب ہی سمجھدار لوگوں کی ہے۔

اِنشاء جی ایک مُتَرَجِم کی حیثِیّت سے بھی بُلند مُقام پر فائز ہیں۔ اُنہوں نے کثیر تعداد میں منثُور ومنظُوم کِتابوں کو اُردو کے قالب میں ڈھالا-خمار گندم سے لیا گیا سبق
اِبنِ اِنشاء نام ہم نے نہ جانے کَب رکھا تھا اور کیوں رکھا تھا۔  نَیا نام رکھنے کا فائِدہ یہ ہُوا کہ لوگ سَیّد اِنشاءالله خاں اِنشاء کی رِعایَت سے ہمیں بھی سَیّد لِکھنے لگے یعنی گھر بیٹھے ہماری تَرَقِّی ہو گئی۔  لکھنؤ والوں نے اَلبَتّہ ہماری زُبان کے نَقائِص کے لیے اِسی کو بَہانا بَنا لیا کہ ہاں دِلّی والے ایسی ہی زُبان لِکھا کرتے ہیں۔ پِھر ایک روز ایسا ہُوا کہ ایک صاحِب نے آکر ہمارا ہاتھ اَدب سے چُوما اور کہا: والله! آپ تو چُھپے رُستم نِکلے۔ آپ کا کَلام پَڑھا اور جِی خُوش ہُوا۔ ہم نے اِنکِسار بَرتا کہ ہاں کُچھ ٹُوٹا پُھوٹا کِہہ لیتے ہیں۔ آپ نے کون سِی غزل دیکھی ہماری۔ حافظے پر زور ڈال کر کہنے لگے پھر کبھی سناو ں گا آپ ابھی اپنا تازہ کلام سناِئے  

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022

بہشت ارضی پاکستان میں وادی سوات



>




میرے وطن تیری گلیوں کے ہوں میں نثار'پروانہ وار
 پولینڈ کی سیاح ایوا زو بیک نے وادئ سوات کے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والےحسن  کو دیکھ کر بے اختیار کہا تھا  کہ سویٹزرلینڈ یورپ کا سوات ہے!
سوات پاکستان ہے تو یقین کر لیجئے کہ کالام جنت الفردوس ہے۔ دریائے اتروڑ اور اوشو کے سنگم پہ واقع یہ وادی مجسم حسن ہے۔آپ جس بھی موسم میں یہاں جائیں -لیکن کسی بھی موسم میں یہاں جاتے وقت گرم کپڑے اور چھتری ساتھ رکھنا مت بھولئے گا یہاں کا موسم بڑا بے ایمان ہوتا ہے۔

کالام دراصل ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے یہاں آپ کو ہر بجٹ کا ہوٹل بآسانی مل جائے گا۔دریا میں چارپائیاں بچھی ہوں گی کسی بھی ہوٹل پہ کھانے کا آرڈر کیجئے اور دریا کے یخ ٹھنڈے پانیوں میں پائوں ڈبو کے چارپائیوں پہ نیم دراز ہو جائیے۔سکون ہی سکون۔پیٹ پوجا کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اوشو کے جنگلات دیکھنے چل پڑئیے یا پھر یہیں سے جیپ کروائیے اور اوشو فاریسٹ سے گزرتے ہوئے مہوڈنڈ جھیل کی جانب چل پڑئیے۔جھیل کی سیر کیجئے، کشتی رانی سے لطف اٹھائیے، مچھلیاں پکڑئیے۔اس جھیل میں مچھلیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اس کا نام ہی مچھلیوں والی جھیل یعنی مہوڈنڈ ہے
شاہی باغ کالام کا حسین ترین مقام ہے۔اس کا سارا راستہ پستہ کے باغات سے بھرا ہوا ہے۔اور جہاں کچا راستہ اختتام پذیر ہوتا ہے وہاں سارا راستہ ساتھ بہنے والا دریا دو لخت ہوتا ہے۔اور ان دو دریائوں کے بیچ درختوں سے اَٹی انتہائی سر سبز چراگاہ ہے۔چراگاہ میں داخلے کے لئے دریا عبور کرنا واحد راستہ ہے اور اس مقصد کے لئے دیو دار کا ایک بڑا سا تنا کاٹ کر دریا پر پل کی جگہ ڈال دیا گیا ہے۔جس کے نیچے پانی کی گہرائی اندازًا پندرہ سولہ فٹ ہے۔لیکن خوبصورت منزلیں ہمیشہ دشوار راستوں کو طے کرنے سے ہی ملتی ہیں۔کوشش کیجئے کہ ایک رات اس سبز مخملیں چراگاہ میں کیمپنگ کریں اور دریا کے شور کے سنگ تاروں بھرا آسمان دیکھیں۔مچھلیاں پکڑیںاور فطرت کے جلوے دیکھیں۔
اگر آپ شاہی باغ نہیں جانا چاہتے یا وہاں رات نہیں رکتے تو پھر آپ اوشو سے واپس آتے ہوئے اتروڑ کی جانب چلے جائیے۔قریبا ایک گھنٹے کی مسافت پہ اناکر گاں میں بلیو واٹرز کیمپ سائیٹ آئے گی۔اسے اناکر میڈوز بھی کہتے ہیں
۔یہاں سےکچھ آ گے جاکر جانشئی میڈوز اور اندراب جھیل کے راستے نکلتے ہیں۔بلا کی حسین جگہ ہے۔یہاں اتروڑ دریا سے نکلتا بن خور نالہ بہتا ہے۔انتہائی شفاف نیلا پانی۔سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوتا ہے لیکن گرمیوں میں یہاں سر سبز چراگاہ ہوتی ہے۔لیکن جس بھی موسم میں یہاں جائیں کھانے پینے اور کیمپنگ کا سامان بمع گرم کپڑے اور چھتری یا رین کوٹ ساتھ لے جانا مت بھولیں۔ 
۔جانشئی میڈوز صد رنگ پھولوں سے بھری سبز مخملیں چراگاہ ہے جودل سے دھڑکنیں تک چھین لیتی ہے اور یہاں پہنچ کر سب سے مشکل کام دل کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ یہ سنگ میل ہے منزل نہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں،۔۔بلیو واٹرزمیڈوز سے لکڑی کا پل کراس کر کے قریبا چار سے پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد اوپربلند پہاڑوں کے دامن میں اک خوابیدہ جھیل آپ کی منتظر ہو گی۔برف پوش پہاڑوں کے حصار میں نیلگوں شفاف پانیوں کے بدلتے رنگوں کی جھیل۔اندراب جھیل۔sاسے اناکر جھیل اور کوہ جھیل بھی کہتے ہیں۔اس کے تین اطراف بلند پہاڑ ہیں اور چوتھی جانب پھولوں سے بھرا سبزا۔اور یہ ایک منظر عمر بھر کی تھکان بھلا دیتا ہے!اور دل سے بس ایک دعا نکلتی ہے ''میرے پیارے وطن سلامت رہیں تیرے یہ مرغزار 'تیری گلیوں کے ہوں میں نثا
ر
تلخیص و تحریر 
سیّدہ زائرہ 
بریمپٹن کینیڈا
 

جمعہ، 21 اکتوبر، 2022

فارابی کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں

 

فارابی ترکی میں 870ء میں دریائے حیبوں کےساحل علاقے۔پر واقع ترکستان کے ضلع فاراب میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے فارابی کہلا ئے۔ ان کا پورا نام محمد بن ترخان اور کنیت ابو نصر تھی۔ ابتدائی تعلیم فاراب میں حاصل کرنے کے بعد اوائل عمر میں حصول تعلیم کے لیے بغداد آیے ۔لیکن اس شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کی بناء پروہ دمشق آنے پر مجبور ہوئے۔  دمشق میں انہو ں نے عیسائی اساتذہ ابوبشر متی بن یونس اور یومنا بن حیلان سے علم منطق حاصل کیا۔ سائنس، فلسفہ، طبعیات، منطق، کیمیا، سحر اور ریاضی کے علوم کے علاوہ موسیقی کا علم سیکھا۔ علمی موسیقی پر ایک مستند کتاب تحریر کی اور ایک آلہ ’’رباب‘‘ بھی ایجاد کیا۔ وہ ابوبکر الشبلی اور منصور الحاج کا ہم عصر تھا۔ اس کے فلسفہ میں افلاطون کا رنگ نمایاں ہے۔ فارابی نے ارسطو کی تصنیفات کی ایسی بسیط شرح لکھی کہ کئی صدیوں تک سند کے طور پر پیش کی جاتی رہی۔
وہ علم الطب کے ماہر تھے ریاضی میں بیکن نے اس کی شاگردی کو تسلیم کیا۔ اس نے اپنی تصنیف میں ’’احصاء العلوم‘‘ میں متداوّل سائنسوں پر زبردست تبصرہ کیا۔ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں زبان، منطق، ریاضیات، طبعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ 
سیاست پر اس کی دو تصانیف سیاست المدینہ اور آراء اہل المدینہ الفاضلہ بڑا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آراء اہل المدینہ الفاضلہ جس میں وہ معیاری مملکت کو مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے ۔

فارابی کا خیال ہے کہ ایک کامل فلسفی وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے جس کا علم آسمانی شعور کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ تو دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خود اس مقام پر پہنچ چکے ہیں لیکن وہ یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
 اس کے علاوہ ان کا انسانی علم میں بھی کردار ہے۔ جیسے ہم روشنی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، اس طرح اس شعور کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔اور بالکل جس طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں سوچنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔

فارابی کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری، مگر غربت و تنگدستی اس کے علم و جستجو پر غالب نہ ہو سکی
ابتدائی دور میں یہ ایک دفعہ رات کے وقت مطالعہ میں مصروف تھے  کہ تیل ختم ہونے سے چراغ بجھ گیا۔ اس میں اتنی  وسع نہں تھی کہ تیل خریدتے ۔ مگر شوق مطالعہ اسے کھینچ کر باہر لے آیا اور گشت کر تے ہوئے پہرے دار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ فارابی نے پہریدار سے سارا ماجرا کہہ سنایا اور اُے وہاں تھوڑی دیر رکنے کی گزارش کی تاکہ وہ اپنا سبق یاد کر لے۔ پہریدار اس دن مان گیا، مگر دوسرے دن اس نے رکنے سے صاف انکارکر دیا۔ مگر فارابی نے گزارش کی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا تاکہ اس کی لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر سکے۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ایک دن پہریدار نے اس کی علمی لگن اور جستجو سے متاثر ہو کر اسے نئی لالٹین لاکر دے دی۔ فارابی کے حصول علم کا یہ بے مثال واقعہ رہتی دنیا تک ایک مشعل راہ ہے۔ انہوں نے تقریباً 50 سال حصولِ علم میں صرف کیئے؟۔ان کا کہنا تھا کہ
اے کے ذریعے علم سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بنیاد انسان کی ترقی اور اس کا اشرف المخلوقات ہونا سب اسی عقل الفعال کے بغیر ناکارہ ہے۔ قوت نزوعیہ کے ذریعے انسان میں محبت، نفرت اور رنج و خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قوت ناطقہ انسانی طبیعت کو جبلت پر قابو پانے کے طریقے سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے خیال میں اجتماع کی دو اقسام ہیں: 
(1. اجتماع تام 
(2. اجتماع ناقص و نا مکمل فارابی کے نزدیک کرہ ارض پر رہنے والے تمام لوگوں کا اجتماع سب سے بڑا اجتماع ہے
 ۔ اس کے خیال میں خدا نے دنیا کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق فرائض تفویض کر رکھے ہیں۔ ریاست کا اعلیٰ شہری وہ ہے، جو حکمران کے ماتحت شہری زندگی گزارتا ہے۔  
اس کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں۔ وہ مقتدر اعلیٰ کے فرائض و اوصاف کے باب میں کہتا ہے کہ انسان بلحاظ عقل ایک جیسے نہیں ہوتے- مقتدر اعلیٰ میں قوت استبداد کے ساتھ ساتھ قوت تبلیغ بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ماتحت ہر شعبہ کا الگ قائد ہونا چاہیے 

بدھ، 19 اکتوبر، 2022

کراچی میں بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی کر دئے گئے

 پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اپنی  بلدیاتی نما ئندگی نا ہونے کے سبب مسائلستا ن بنا ہوا ہے چھوٹے شہر بیچارے کس گنتی شمار میں ہیں کراچی تو پاکستا ن کا معاشی مرکز ہے ۔جو پورے ملک کو پالنے کے لئے تقریباً نوّے فیصد ریوینیو فراہم کرتا ہے ۔
 ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی  ہے کہ قیام پاکستان کو  سات دہائیاں پوری ہیں اورہماری تقریباً،ہر جمہوری حکومت کے گلے میں سازش کا طوق پہنا ہوا ہے کہ اس نے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنے کے بجائے اپنی اپنی من پسند شخصیات کو نوازنے کی خاطر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کروانے سے حتّی الامکان گریز کیا ۔
ہمارے ہی وطن  میں یہ سازش تسلسل سے کیوں جاری و ساری ہے ،،اس کی وجہ بلکل صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں اب تک موروثی سیاست کے مہرے ہی ہر بار الٹ کر اور پلٹ کر اپنی خاندانی سیاست کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں ان سیاسی باشاہوں کے پاس عوام کی بہبود کا کوئ پروگرام ہوتا ہی نہیں ہے یہ صرف اپنے خزانوں کو مذ ید بڑھاوا دینے کے لِئے آتے ہیں اور پہلے سے بچھائ ہوئ اپنی سیاسی بساط  اپنے موروثی جان نشینوں کے سپرد کر کےچلے جاتے ہیں a
پیپلز پارٹی کی  حکومت اچھّی طرح واقف ہے کہ   بلدیاتی نظام کے شہروں کی سیاسی بساط پر آجانے سے خصوصاً ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات چھن جائیں گے اس لئے بلدیاتی انتخابات مسلسل التواء کا شکاررکھّے گئے ہیں ۔
انگریزوں نے اقتدار کو مرکزیت دینے کے لئے اس شاہانہ طرز سیاست کا نام کمشنری نظام دیا اور اقتدار کو اپنے من پسند افراد کی ہی حد میں  رکھنا اور سماج کو ان کا تابع بنانے کا نظام رائج کیا اس غلامانہ نظام کو ہماری پاکستان کی اشرافیہ نے اسی لئے اب تک جاری ساری رکھنے کا اصرار کیا ہے کہ اس میں اختیارات چند بڑے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں اور عوام کی پہنچ میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ 
چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی   حکمرانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لہٰذہ عوام کے سروں پر مسلّط سیاسی وڈیرے  چند کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو خوش رکھ کراور اپنے عوام کو ہر سہولت سے محروم رکھ کر طویل ،طویل عرصے تک خوش اسلوبی سے بر سر اقتدار رہتے ہیں ۔
اور سیاسی بساط پر عام آدمی دسترس رکھ ہی نہیں سکتا ہے ان سیاسی جاگیرداروں کے صرف تین مرتبے ہوتے ہیں کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر ،اور ان عہدے داروں تک عوام کی رسائ نہیں ہوتی ہے وہ مارے مارے پھرتے رہتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان اختیارات کی تقسیم کےعلاوہ سیاسی شراکت کے ساتھ ساتھ   ۔

عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کرنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے ہی سیاسی نرسری کی پنیریاں تیار کر کے اگلی نسل کے لئے سیاسی نمائندے فراہم کرتے  ہیں ۔ نچلی بلدیاتی سطح سے سیاسی قیادت کے سامنے آنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو نمائندہ جس سطح سے آتا ہے وہ اپنے گرد کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے اس لئے اس کی گرفت بھی اچھّی ہوتی ہے ،اور ایک اور اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اور بلدیاتی ادارے سیاسی وڈیروں کے اختیارات کی مرکزیت پر تازیانے کا کام کرتے ہیں   اور چونکہ بلدیاتی  نمائندے عوام کے مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اس لئےمالی وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کرتے ہیں اس طرح مسائل حل کے لئے  مالی وسائل کے استعمال میں آزادی  مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے میں انتہائ مددگار ثابت ہوتی ہے ۔
 یہاں سے عوامی خدمات کی بنیاد بناتے ہوئے جو بلدیاتی نمائندہ جتنا ہر دلعزیز ہوتا ہے وہ آگے چل کر سیاستدان بننے کا استحقاق رکھتا اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے وطن کے قوم پرست اور سیاسی جاگیردار سب اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوئے کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم کو انگریز کا کمشنری نظام چاہئے ۔
اس لحاظ سے تو ہمارے فوجی حکمرانون نے ہی بلدیاتی انتخاب کرواکے عوام کی بھلائ چاہی ،ویسے تو صدر ایّوب خان نے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے تھے جس کے ثمرات عوام تک پہنچے لیکن دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرّف نے عوام کو  بہترین نمائندوں  کا سسٹم دیا ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر کے عوام اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل میں آ کر مطالبہ کریں کہ ان کو ایک شفّاف بلدیاتی الیکشن کے زریعے بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہے۔

پیر، 10 اکتوبر، 2022

شداد کی جنت اور اس کا انجام

html

شدید اور شداد دونوں بھائ تھے اور بہت امیر بادشا ہ کے بیٹے تھے  لیکن شدید عالم جوانی میں ہی مر گیا

 شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اس کے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جوحکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔

 چناں چہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک  کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ ع  پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔

اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔ پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔ شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور  عنبر و گلاب سے صیقل کیاگیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔

 بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچایا کریں۔لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو حضرت ہُود علیہ  السّلام بحکم اللہ تعالِی  نزول عذاب سے پہلے ہی حضر موت کی طرف مراجعت کر گئےتھے۔ ۔ حضرت ہوُدؑ علیہ السّلام کی وفات یہیں پر ہوئی

معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنےلگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟ اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس دمشق  آئے اور لوگوں سے سارا ماجرہ بیان کیا جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا، پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔

 ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔ پھر اہلِ علم حضرات سے وہاں کے لوگوں نے رجوع کرکے اس بارے میں معلومات حاصل کیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نےبتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا اور یہ نشانیا ں چشم دید گواہ عبد اللہ بن قلابہ میں موجود تھیں ۔ زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسی کیسی قوموں کو ہلاک کر مارا

 (القران)

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر