حضرت نوح علیہ السّلام کی بستی کی ایک ضعیف اور غریب خاتون
آپ کے اوپر ایمان لے آئ تھی ،ایک روز اس نے دیکھا کہ حضرت نوح علیہ السّلام ایک بڑی کشتی بنا رہے ہیں تو آپ کے پاس چلی آئ اور کشتی کی بابت سوال کیا حضرت نوح علیہ السّلام نے اسے بتایا کہ جب کشتی تیّار ہو جائے گی تب اللہ طوفان بھیجے گا
اور جو شخص اللہ پر ایمان لا چکا ہوگا اس کواس کشتی میں بیٹھنے کی اجازت ہو گی-بڑھیا نے پوچھا کیا مجھے بھی آپ کشتی میں بٹھائیں
گے حضرت نوح علیہ
السّلام نے فرمایا -ہاں ضرور کیونکہ تم ایمان والی ہو
اب بڑھیا روزانہ حضرت نوح علیہ
السّلام کے پاس اپنی کپڑوں کی گٹھری اٹھا کر آ جاتی تھی اور سوال کرتی کہ کیا کشتی
تیّار ہو گئ-
ایک دن جب بڑھیا نے آ کر اپنا سوال دہرایا -اللہ کے نبی کشتی تیّار ہو گئ ؟کیا میں اپنا سامان لے آوں تو حضرت نوح علیہ السّلام نے
فرمایا تم ابھی اپنے گھر پر آرام کرو جب کشتی تیّار ہو جائے گی تب میں تم کو خود بلانے آجاوں گا-بڑھیا واپس چلی گئ ادھر کچھ عرصہ
میں کشتی تیاّ ر ہو گئ
کشتی نوح اور طوفان ::
آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں اور پرندوں اور قسم قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر ومادہ سوار کرا دیا اور خود آپ
اور آپ کے تینوں فرزند یعنی حام، سام اور یافث اور ان تینوں کی بیویاں اور آپ کی مومنہ بیوی اور ۷۲ مومنین مرد و عورت کل
۸۰ انسان کشتی میں سوار ہو گئے اور آپ کی ایک بیوی ”واعلہ” جو کافرہ تھی، اور آپ کا ایک لڑکا جس کا نام ”کنعان” تھا، یہ
دونوں کشتی میں سوار نہیں ہوئے اور طوفان میں غرق ہو گئے۔بالآخر کشتئ نوح علیہ السّلام چھ مہینہ تک برستے پانی کے درمیان
چلتی رہی پھر آپ کی دعاء سے پانی زمین نے نگل لیا اور کشتی ٹہر گئ تب آپ کو یادآیا کہ بڑھیا کو تو وہ اپنے ساتھ لے جا نا ہی بھول
گئے تھے -
یوں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو دوسو برس پہلے ہی بذریعہ وحی مطلع کردیا تھا کہ آپ کی قوم طوفان میں آپ کے گھر
کے تنور سے پانی ابلنا شروع ہوگا۔ چنانچہ پتھر کے تنور سے ایک دن صبح کے وقت پانی ابلنا شروع ہو گیا -حضرت نوح علیہ السلام
کی بعثت سے قبل قوم ہدایت کے رستے سے ہٹ چکی تھی۔ اس زمانے میں پانچ بزرگ جو اللہ کی توحید کے پرستار تھے جن کے نام
یہ ہیں: وَدْ، سواع، یغوث، یعوق، نسر، جب یہ فوت ہوئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر نشان کھڑے کر دیئے۔پھران لوگوں
نے ان اہل قبور کو مشکل کشا اور حاجت روا بنا کران سے مرادیں مانگنی شروع کردیں۔ اور شرک کی دلدل میں دھنستے ہی چلے گئے
تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان لوگوں کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپ کمرکس کر میدان میں آئے اور
مشرکوں کو سمجھانا شروع کیا۔ نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ پر آیا ہے بلکہ ایک مکمل سورت (سورت نوح ) آپ
کے نام سے منسوب بھی ہے۔ اسی سورت میں ذکر ہے کہ آپ دن رات مشرکوں کو شرک سے باز آجانے اور ایک اللہ کے آگے
جھکنے کی دعوت میں ایک کر دیئے۔ ابلیس بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت تو پہلے ہی موجود تھا نے آپ کی تبلیغ سے ان لوگوں کو دور رکھنے
میں توانائیاں صرف کر دیں۔ نوح علیہ السلام جب مشرکوں کو وعظ فرماتے تو وہ لوگ اپنے آپ کو کپڑوں میں لپیٹ لیتے۔ کانوں
میں انگلیاں ڈال لیتے مگر آپ اللہ کی توحید سنانے سے باز نہ آئے حتی کہ مشرک انگلیوں پر کپڑے لپیٹ کر کانوں میں ٹھونس
لیتے۔ نوح علیہ السلام نے صدیوں تک لوگوں کو سمجھایا۔ مشرک آپ کی تکذیب کرتے رہے۔ رب العالمین نے قوم نوح پر
بارش روک لی۔ ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا، مویشی ہلاک ہو گئے، اب نوح علیہ السلام نے قوم کو استغفار کا حکم دیا تاکہ مشکلات
ختم ہوں، سورت نوح کی آیت نمبر 10اس پر شاہد ہے سرکش قوم اپنے کفر و شرک پر اڑی رہی۔ المختصر جب نوح علیہ السلام قوم
کو
نو سو پچاس سال تک دن رات سمجھانے کے بعد مایوس ہو گئے۔
حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی بلکہ
طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی یہاں تک کہ کئی بار ان
ظالموں نے آپ کو اس قدر زدو کوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا؛ مگر آپ پھر مکان
سے
نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے۔ اسی طرح بار ہا آپ کا گلا گھونٹتے -با لآ
خر ا للہ پا ک نے ا س قو م
کو ہلا ک کر ديا