شہادت اما م زین العابدین علیہ السّلام کی شہادت کا پرسہ حضرت رسول خداصلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں امام حسین علیہ السّلام اور حضرت علی علیہ السّلام اور حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی اور خاندان بنو ہاشم کی خدمت میں پیش کرتی ہوں -امام سجادعلیہ السّلام کی شہادت بد بخت عبّاسی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے حکم پر زہر مسموم کے ذریعے واقع ہوئی۔
حدیث امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ
پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام
الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من
شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي
وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔
بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ
والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے
حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی
فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب
آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص
کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی
خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان
وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی
نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو
علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ
علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ
اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ "صحیح بخاری، صحیح
مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ نیز مسند ابن
حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید" میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی
کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں، اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب
کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں
امام سجادؑ سے احادیث نقل کی ہیں
غربا و مساکین کی سرپرستی
ابو حمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ علی بن
الحسینؑ راتوں کو کھانے پینے کی چیزوں کو اپنے کندھے پر رکھ کر اندھیرے میں خفیہ
طور پر غربا اور مساکین کو پہنچا دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: "جو صدقہ
اندھیرے میں دیا جائے وہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے"
محمد بن اسحاق کہتا ہے: کچھ لوگ مدینہ
کے نواح میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کے اخراجات کہاں سے
پورے کئے جاتے ہیں، علی ابن الحسینؑ کی وفات کے ساتھ ہی انہيں راتوں کو ملنے والی
غذائی امداد کا سلسلہ منقطع ہوا۔
راتوں کو روٹی کے تھیلے اپنی پشت پر
رکھ دیتے تھے اور محتاجوں کے گھروں کا رخ کرتے تھے اور کہتے تھے: رازداری میں صدقہ
غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے، ان تھیلوں کو لادنے کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر
نشان پڑ گئے تھے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو غسل دیتے ہوئے وہ نشانات آپ کے
بدن پر دیکھئے گئے۔ابن سعد روایت کرتا ہے: جب کوئی محتاج آپ کے پاس حاضر ہوتا تو
آپ فرماتے: "صدقہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتا ہے"۔
غلاموں کے ساتھ آپ کا طرز سلوک
امام سجادؑ کے تمام تر اقدامات دینی
پہلوؤں کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان ہی اہم اقدامات میں سے ایک
غلاموں کی طرف خاص توجہ سے عبارت تھا۔ غلاموں کا طبقہ وہ طبقہ تھا جو خاص طور پر
خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے بعد اور بطور خاص بنی امیہ کے دور میں شدید ترین سماجی
دباؤ کا سامنا کررہا تھا اور اسلامی معاشرے کا محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔امام
سجادؑ نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرح اپنے خالص اسلامی طرز عمل کے ذریعے عراق کے بعض موالی کو
اپنی طرف متوجہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا اور معاشرے کے اس طبقے کی سماجی حیثیت کو
بہتر بنانے کی کوشش کی۔
سید الاہل نے لکھا ہے: امام سجادؑ ـ
جنہیں غلاموں کی کوئی ضرورت نہ تھی ـ
غلاموں کی خریداری کا اہتمام کرتے اور اس خریداری کا مقصد انہيں آزادی دلانا ہوتا
تھا۔ غلاموں کا طبقہ امامؑ کا یہ رویہ دیکھ کر، اپنے آپ کو امامؑ کے سامنے پیش
کرتے تھے تاکہ آپ انہیں خرید لیں۔ امامؑ ہر موقع مناسبت پر غلام آزاد کرٹیتے تھے
اور صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں آزاد شدہ غلاموں اور کنیزوں کا ایک لشکر دکھائی
دیتا تھا اور وہ سب امام سجادؑ کے آزاد کردہ تھے۔
اسیری کے بعد
امام سجادؑ واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال
بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی ہر کوشش کی۔آپ
علیہ السّلام پانی پیتے وقت شہیدان
کربلا کو یاد کرکے روتے تھے، امام حسین علیہ
السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسو بہاتے تھے۔ آ پ دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں
مصروف رہتے تھے،
آپ علیہ
السلام نے بعد از کربلا اپنی تمام تر توجّہ اپنی تصانیف اور دعاوں کے زریعہ عوام النّاس تک پہنچانے کی سعئ پر رکھّی۔
صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام
سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے
جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔
25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے- شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی- آپ قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبی علیہ السّلام ا مام محمد باقرعلیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے ساتھ محو آرام ہیں۔