منگل، 23 اگست، 2022

شہادت اما م زین العابدین علیہ السّلام

 

 

 

شہادت اما م زین العابدین علیہ السّلام کی شہادت کا پرسہ  حضرت رسول خداصلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں امام حسین علیہ السّلام اور حضرت علی علیہ السّلام اور حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی اور خاندان بنو ہاشم کی خدمت میں پیش کرتی ہوں -امام سجادعلیہ السّلام کی شہادت بد بخت عبّاسی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے حکم پر زہر مسموم   کے ذریعے واقع ہوئی۔ 

حدیث امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔

بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو

علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ

علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ "صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ نیز مسند ابن حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید" میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں،  اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجادؑ سے احادیث نقل کی ہیں

غربا و مساکین کی سرپرستی

ابو حمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ علی بن الحسینؑ راتوں کو کھانے پینے کی چیزوں کو اپنے کندھے پر رکھ کر اندھیرے میں خفیہ طور پر غربا اور مساکین کو پہنچا دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: "جو صدقہ اندھیرے میں دیا جائے وہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے"

محمد بن اسحاق کہتا ہے: کچھ لوگ مدینہ کے نواح میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے کئے جاتے ہیں، علی ابن الحسینؑ کی وفات کے ساتھ ہی انہيں راتوں کو ملنے والی غذائی امداد کا سلسلہ منقطع ہوا۔ 

راتوں کو روٹی کے تھیلے اپنی پشت پر رکھ دیتے تھے اور محتاجوں کے گھروں کا رخ کرتے تھے اور کہتے تھے: رازداری میں صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے، ان تھیلوں کو لادنے کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر نشان پڑ گئے تھے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو غسل دیتے ہوئے وہ نشانات آپ کے بدن پر دیکھئے گئے۔ابن سعد روایت کرتا ہے: جب کوئی محتاج آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ فرماتے: "صدقہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتا ہے"۔

 غلاموں کے ساتھ آپ کا طرز سلوک

امام سجادؑ کے تمام تر اقدامات دینی پہلوؤں کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان ہی اہم اقدامات میں سے ایک غلاموں کی طرف خاص توجہ سے عبارت تھا۔ غلاموں کا طبقہ وہ طبقہ تھا جو خاص طور پر خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے بعد اور بطور خاص بنی امیہ کے دور میں شدید ترین سماجی دباؤ کا سامنا کررہا تھا اور اسلامی معاشرے کا محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔امام سجادؑ نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرح اپنے خالص  اسلامی طرز عمل کے ذریعے عراق کے بعض موالی کو اپنی طرف متوجہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا اور معاشرے کے اس طبقے کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔

سید الاہل نے لکھا ہے: امام سجادؑ ـ جنہیں غلاموں کی کوئی ضرورت نہ تھی ـ غلاموں کی خریداری کا اہتمام کرتے اور اس خریداری کا مقصد انہيں آزادی دلانا ہوتا تھا۔ غلاموں کا طبقہ امامؑ کا یہ رویہ دیکھ کر، اپنے آپ کو امامؑ کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ آپ انہیں خرید لیں۔ امامؑ ہر موقع مناسبت پر غلام آزاد کرٹیتے تھے اور صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں آزاد شدہ غلاموں اور کنیزوں کا ایک لشکر دکھائی دیتا تھا اور وہ سب امام سجادؑ کے آزاد کردہ تھے۔

اسیری کے بعد

امام سجادؑ واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی ہر کوشش کی۔آپ علیہ السّلام پانی پیتے وقت  شہیدان کربلا  کو یاد کرکے روتے تھے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسو بہاتے تھے۔ آ پ  دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے،

آپ علیہ السلام نے بعد از کربلا اپنی تمام تر توجّہ اپنی تصانیف اور دعاوں  کے زریعہ عوام النّاس تک پہنچانے کی سعئ پر رکھّی۔

صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔

  25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے- شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی- آپ  قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبی علیہ السّلام ا مام محمد باقرعلیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے ساتھ محو آرام ہیں۔

پیر، 22 اگست، 2022

حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ

<

 

 

حضرت لقمان اللہ تعالیٰ کے ایک پسندیدہ انسان تھے -ان میں ایسی خوبیاں موجود تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوّت سونپنے کا ارادہ کیا -لیکن پہلے حضرت لقمان سے ان کی مرضی دریافت کرنے کے لئے فرشتہ بھیجا -حضرت لقمان اس وقت قیلولہ کر رہے تھے کہ ندائے غیبی آئ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو منصب نبوّت عطا کرنا چاہتا ہے جس کے لئے آپ کی مرضی معلوم کروائ ہے حضرت لقمان فرشتہ کی آواز سن کر چوکنّا ہو گئے

ادھر ادھر دیکھا لیکن فرشتہ نظر نہیں آیا لیکن فرشتہ کی اپنے قریب موجودگی کو انہوں نے محسوس کر کے جواب دیا کہ اللہ نے میری مرضی طلب کی ہے یا مجھے حکم دیا ہے ،فرشتے نے کہا آ پ کی رضا طلب کی ہے،حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے کہنا کہ میں اپنے آپ کو نبوّت کا گراں بار منصب اٹھا نے کا اہل نہیں پاتا ہوں   چنانچہ فرشتے حضرت لقمان کا جواب لے کر واپس چلے گئے ،اور پھر اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے علم حکمت واپس لے کر وہ علم حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور منصب نبوّت پر حضرت موسٰی علیہ السّلام کو سرفراز کیا۔اس سے پہلے علم حکمت حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے پاس تھا-یاد رہے کہ دنیا کے پہلے حکیم و طبیب حضرت موسٰی علیہ السّلام تھے

"محسن کے احسان کا بدلہ "

حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ ایک پاک نفس انسان تھے۔وہ  دن رات اپنے آقا کی خدمت میں کمر بستہ رہتے۔ ان کا آقا بھی ان کی رائے اور مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کرتا۔ وہ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ محض نام کے غلام تھے۔ درحقیقت ان کے آقا نے ان کے مرتبہ کو پہچان لیا تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ کمال محبت کا سلوک کرتا تھا۔ یہاں تک کہ جو کھانا بھی اس کے لیے لایا جاتا وہ حضرت لقمان وہ کے بغیر نہ کھاتا۔ وہ ان کا چھوڑا ہوا کھانا ،کھانا فخر سمجھتا تھا۔ جس کھانے کو حضرت لقمان نہ کھاتے ،وہ اسے مکروہ سمجھ کر نہ کھاتا اور اگر کھاتا تو بہت بے دلی کے ساتھ کھاتا۔ ایک دن اتفاقاً کہیں سے ایک خربوزہ بطور تحفہ آیا۔

آقا نے لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو کھلانا چاہا، مگر وہ وہاں موجود نہ تھے۔ کسی کو بھیج کر فوراً بلایا۔ جب حضرت لقمان آگئے تو مالک نے چھری لے کر خربوزے کی ایک پھانک کاٹ کر انہیں دی۔ حضرت لقمان نے بڑے مزے سے چٹخارے لے لے کر کھائی۔ آقا نے انہیں خوش دیکھ کر دوسری پھانک دی، جسے انہوں نے اور بھی رغبت اور خوشی سے کھایا حتیٰ کہ نوبت سترھویں پھانک تک جاپہنچی۔ جب صرف ایک پھانک باقی رہ گئی تو آقا نے کہا؛ اب میں بھی تو دیکھوں کہ یہ خربوزہ کس قدر مزے دار ہے جسے حضرت لقمان نے اتنے مزے سے کھایا ہے۔ جونہی اس نے اس قاش کو منہ لگایا اس کی کڑواہٹ سے منہ کے اندر آگ ہی لگ گئی۔ زبان پر آبلے پڑ گئے۔ اور حلق جلنے لگا۔ کچھ دیر تو اس کی تلخی سے بے خود رہا۔ ذرا سنبھلا تو کہنے لگا ؛اے عزیز، ایسی کڑوی چیز کو تم نے کیسے کھایا؟ تمہارے صبر کی بھی حد ہوگئی۔ اگر انکار کرتے شرم آتی تھی تو کوئی حیلہ بہانہ ہی کردیا ہوتا۔ حضرت لقمانرحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا؛میں نے آپ کے نعمتیں بخشنے والے ہاتھوں سے اس قدر لذیذ نعمتیں کھائیں ایک اگر کڑوی مل گئی تو انکار کیسے کرتا۔ محسن کے احسان کا لحاظ نہایت ضروری ہے۔ میں تو آپ کے احسانات سے پرورش ہوا ہوں، پھر ایک تلخ چیز آپ کے ہاتھ سے مجھے ناگوار کیوں گزرتی

حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں-یہ حکیمانہ اقوال قرآن کریم میں نقل کئے گئے تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی خوب سے خوب تر بنا سکیں-اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں حضرت حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی اُن قیمتی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے بیان فرمائی تھیں۔ یہ حکیمانہ اقوال اللہ تعالیٰ نے اس لئے قرآن کریم میں نقل کئے ہیں تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا سکیں اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔

ہفتہ، 20 اگست، 2022

حضرت رابعہ بصری

  

حضرت رابعہ بصری سے کون واقف نہیں 'یہ عابدہ و زاہدہ

 بصرہ شہر کے رہنے والے ایک درویش صفت عابد و زاہد شخص اسمٰعیل کے گھر میں چوتھی بیٹی کی حیثیت سے پیدا ہوئیں - روائت ہے کہ شب ولادت گھر میں اشیائے ضروری بھی نہیں تھیں چنانچہ جناب اسمٰعیل کی اہلیہ نے کہا پڑوسی سے تیل ادھار مانگ لائیں وہ پڑوسی کے دروازے پر جاتے ہوئے بہت شرمسار تھے کیونکہ وہ کبھی بھی کسی سے کے آگے دست سوال دراز نا کرتے تھے سوئے اتّفاق کہ پڑوسی نے دروازہ ہی نہیں کھولا جناب اسمٰعیل تھکے قدموں سے واپس آئے اور اہلیہ کو بتا دیا کہ پڑوسی دروازہ نہیں کھولتا ہے اسی افسردگی کے عالم میں آنکھ لگ گئ تو خواب میں جناب رسول خدا حضرت محمّد مصطفٰے صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسّلم کے دیدار کا شرف حاصل ہوا کہ آپ فرما رہے ہیں

ائے اسمٰعیل 'تمھاری یہ بیٹی اندھیروں میں روشن چراغ ہے

تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اوراُس کو ہمارا پیغام دوکہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو (100) دفعہ اور جمعرات کو چار سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درود شریف نہ پڑھا، لہذٰا اس کے کفارہ کے طور پر چار سو (400) دینار یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دو۔ رابعہ بصری کے والد اُٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے اس حال میں کہ خوشی کے آنسو آپ کی آنکھوں سے جاری تھے۔ جناب اسمٰعیل نے اپنا خواب ایک پرچہ پر تحریر کر کے والئ بصرہ کے پاس بھیج دیا جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاپیغام ملا تو یہ جان کر انتہائی خوش ہوا کہ اس کے نزرانہء درود و سلام کی قدروقیمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظروں میں ہے۔ اُس نے شکرانے کے طور پر فوراً ایک ہزار (1,000) دینار غرباء میں تقسیم کرائے اور چار سو (400) دینار رابعہ بصری کے والد کو دینے کے لئے ادا کئے لیکن پھر فوراً ارادہ بدل کر کہنے لگا میں ایسے نیک اور عابد شخص کے پاس خود چل کر جاوں گا اور درہم کا نذرانہ اپنے ہاتھوں سے پیش کروں گا جس نے آقائے دوجہاں کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے پھر وہ جناب اسمٰعیل کے پاس خود آیا اوربا ادب نذرانہ پیش کیا اور جاتے ہوئے کہنے لگا یہ میری درخواست قبول کیجئے کہ آپ کوجب جس کی احتیاج ہو بلا جھجھک کہلوا دیجئے گا

رابعہ بصری کے بچپن کے دن گزرے ہی تھے کہ آپ کے والد ین یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے اورانہی دنوں میں بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس قحط کے دوران رابعہ بصری اپنی بہنوں سے بچھڑ گئیں ۔ ایک دفعہ رابعہ بصری ایک قافلے میں جارہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازار میں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا،آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتا تھا۔ اس کے باوجود آپ دن میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں ۔ اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آوازسُن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ وزاری کر رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ رابعہ بصری اللہ کے حضور سر بسجود ہیں اور ایک نور آپ کے سر پر فروزاں ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں -اے اللہ! اگر میرے بس میں ہوتا تو ہمہ وقت تیری عبادت میں گزار دیتی لیکن تو نے مجھے غیر کا محکوم بنا دیا ہے اس لئے تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں  اپنی کنیز کا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری کامالک خوفِ خدا سے لرز گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ ایسی اللہ والی کنیز سے خدمت کرائی جائے بہتر یہ ہو گا کہ اس کی خدمت کی جائے۔ اس  نے صبح ہوتے ہی آپ کو آزاد کر دیا-

رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہو گئیں۔ غربت، نفی اور عشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے ۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتی تھیں اوراس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہو جائیں ۔ جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی ویسے ویسے بصرہ اور کوفہ کے صاحبان علم حضرت رابعہ بصری کے علم و عرفان کے گرویدہ ہوتے گئے یہاں تک کہ حضرت خواجہ حسن بصری جیسے قلندر بھی ان کے ایسے معتقد ہوئَے کہ جب تک حضرت رابعہ بصری ان کے درس میں شامل ہونے کے لئے حاضر نا ہوتیں وہ درس کی ابتداء نہیں کرتے تھے

رابعہ بصری کے حصول علم کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے ظالم آقا سے آزادی ملنے بعد اپنی حیات کا لمحہ لمحہ یا حصول علم میں گزارا یا پھر یاد الٰہی کے استغراق میں گزارا ،،یہاں تک کہ آپ نے بہت ہی مختصر عرصہ میں علم دین 'فقہ و حدیث 'اور علوم اسلامی پر دسترس حاصل کی ،امام مالک بن دینار'امام ثفیان ثوری 'امام بلخی جیسے بزرگان جو خدا شناس بھی تھے اور زہد و تقویٰ میں بھی باعمل تھے حضرت رابعہ بصری کے ہم نشین کہلانے پر فخر کرتے تھے -حضرت رابعہ بصری جو صاحب کشف و کرامت ولئ ء کاملہ تھین ان سے بہت سی کرامات منسوب ہیں جن سے ان کے بلند مرتبہ کا پتا چلتا ہے-ایک مرتبہ ایک چور اس خیال سے آپ کے گھر میں داخل ہوا کہ یہاں بڑے بڑے امراء حاضری دیتے ہیں ضرور نذر و نیاز   کی خطیر رقم جمع ہو گی۔ گھر کا کونا کونا دیکھنے کے بعد اسے کچھ نہ ملا تو اس نے غصے میں وہ چادر کھینچ لی جسے حضرت رابعہؒ اوڑھے ہوئے تھیں۔ چور نے بھاگنے کا ارادہ کیا تو اسے دروازہ دکھائی نہ دیا بلکہ ہر سمت دیوار نظر آئی۔ پریشان ۔ پریشان اور خوف زدہ ہو کر اس نے معافی مانگی۔ حضرت رابعہؒ نے اس کے لئے دعا کی: اے میرے رب! اس شخص کو میرے گھر سے کچھ نہیں ملا لیکن میں اسے تیرے در پر لے آئی ہوں۔ تو اسے خالی نہ لوٹا-

اس چور کی ماہیت قلب ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام سے مالا مال ہو گیا۔اسی طرح ایک دفعہ کا زکر ہےدو درویش آپ کے گھر مہمان ہوئے۔ اس وقت گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں۔ حضرت رابعہؒ نے ارادہ کیا کہ وہی دو روٹیاں مہمانوں کے سامنے رکھ دیں گی۔ اسی دوران دروازے پر کوئی سائل آ گیا۔ حضرت رابعہؒ نے سائل کو زیادہ مستحق سمجھتے ہوئے وہ روٹیاں اسے دے دیں اور خود اللہ پر توکل کر کے بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر گزری تھی کہ بصرہ کی کسی رئیس خاتون نے اپنی کنیز کے ہاتھوں کھانے کا ایک خوان بھیج دیا۔ حضرت رابعہؒ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ خوان مہمانوں کے آگے پیش کر دیا

زندگی کے آخری ایام میں آپؒ حد درجہ عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئیں۔ غذا بھی بہت کم ہو گئی تھی۔ زیادہ تر پانی پر گزارا کرتی تھیں۔ ضعف کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے گر جاتی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ مادی جسم محب و محبوب کے درمیان ایک پردہ بن گیا ہے۔ جب آپ زیادہ ضعیف اور بیمار ہوئیں تو عقیدت مند کثرت سے عیادت و مزاج پرسی کے لئے حاضر ہونے لگے۔ حضرت رابعہؒ کی خواہش تھی کہ ان کو عام لوگوں کی طرح سپرد خاک کیا جائے اور قبر کو امتیازی اہمیت نہ دی جائے۔ ایک دن آپ طالبات اور طلباء کو درس دے رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ حضرت رابعہؒ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ باہر چلے جائیں اور خود خلوت نشین ہو کربستر پرچلی گئیں۔ کچھ ہی لمحوں میں ان کی روح  خدائےذوالجلال والاکرام کی بارگاہ کی جانب  سفر آخرت  اختیار کیا 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

آ بیل مجھے مار-بُل فائٹنگ

 


انسانی مزاج میں تنّوع پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب وہ دن اور رات کے لگے بندھے روٹین سے گھبرا جاتا ہے تب کچھ اس روٹین سے ہٹ کر چاہتا ہے انسان کی اسی مزاجی کیفیت سے کچھ کھیل ایسے ایجاد کئے جو بہت خطرناک ہیں دنیا میں کچھ کھیل ایسے کھیلے جاتے ہیں جن میں کھلاڑی کی جان ہتھیلی میں ہوتی ہے۔ یہ کھیل بہت سنسنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خونی اور بھیانک بھی ہے۔

اسپین کی ثقافت میں اسے ایک بہادر کھیل بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کھیل میں جیت یا ہار کے علاوہ بل فائٹر اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ اس میلے کے لیے صبح آٹھ بجے چھ بیلوں کو میڈرڈ کی تنگ گلیوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس دوران شرکاء بیلوں کے آگے دوڑتے ہیں۔ وہ بیلوں کو اپنی جانب متوجّہ کرتے ہوئے اسے جھکائ دیتے ہیں اور زرا سی بھول چوک کھلاڑی کو اپنی جان سے دھونے ہوتے ہیں

بیل فائٹنگ کو ہسپانوی ثقافت کا ایک قدیم روایتی کھیل سمجھا جاتا ہے۔ بیل فائٹنگ ایک جسمانی مقابلہ ہے جس میں ایک آدمی ایک بیل کو مارنے یا مارنے کی کوشش کرتا ہے، عام طور پر  قواعد یا ثقافت کے مطابق۔ اس گیم کو مختلف طریقوں سے کھیلا جاتا ہے، بشمول گائے یا بیل کے گرد رقص کرنا یا جانور کے سینگوں سے بندھی ہوئی چیز کو ہٹانے کی کوشش کرنا۔ بیل فائٹنگ کی سب سے مشہور شکل ہسپانوی طرز کی بلف فائٹنگ ہے، جو اسپین، پرتگال، جنوبی فرانس، میکسیکو، کولمبیا، ایکواڈور، وینزویلا اور پیرو میں رائج ہے۔ کھیل کے لیے استعمال ہونے والے سب سے پرانے بلنگز سپین میں سیویلا اور رونڈا ہیں، جو 1700 کی دہائی میں قائم ہوئے۔ میکسیکو میں سب سے بڑی بیل کی انگوٹھی میکسیکو پلازہ کے نام سے مشہور ہے جس میں تقریباً 48,000 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

 ۔ بیل فائٹنگ زیادہ تر ممالک میں غیر قانونی ہے، لیکن یہ زیادہ تر سپین اور پرتگال کے ساتھ ساتھ کچھ ہسپانوی امریکی ممالک اور جنوبی فرانس کے کچھ حصوں میں قانونی ہےاس تہوار کے دوران ہر صبح سفید لباس میں ملبوس اور سرخ رومال پکڑے سینکڑوں شہری اس صدیوں پرانی روایت کو جاری رکھنے کے لیے بیلوں کے آگے تقریباً ایک کلومیٹر تک دوڑتے ہیں۔ اس کھیل میں ہر سال کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی یہ روایت ختم نہیں ہوئی۔

اور ہر سال زخمی ہونے والوں کی بھی اچھّی خاصی تعداد ہوتی ہے تو بُل کے طیش کے ہاتھوں بھی ہلاک ہونے والوں کی خبریں بھی ہوتی ہیں

اسپین میں بیل فائٹنگ کا سالانہ میلہ شروع ہوا  جہاں ایک میٹاڈور (بل فائٹر) کو ایک بیل نے بری طرح روند دیا۔

تفصیلات کے مطابق 45 سالہ جوآن جوز پیڈیلا نامی سٹار بل فائٹر نے بیل کو نیزوں سے وار کرتے ہوئے بری طرح زخمی کر دیا اور دوسرے حملے کا انتظار کیا۔

زخمی بیل کو بل فائٹر نے مکمل طور پر ختم کر دیا جس نے جوآن جوش کو پیچھے سے مارنے کے بعد اسے اپنے سینگوں سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا، اس کی کھوپڑی کو پھاڑ کر اسے شدید زخمی کر دیا۔

اسٹینڈ بائی پر موجود دیگر بل فائٹرز فوری طور پر بل فائٹر کی مدد کے لیے پہنچ گئے اور جب کہ کچھ نے بیل کا دھیان بٹایا، دوسروں کو زخمی بل فائٹر کو لڑائی کے میدان سے باہر لے جاتے دیکھا گیا۔ بعد ازاں جوان جوش کو فوری طبی امداد دی گئی اور ان کے سر پر 40 ٹانکے لگے۔ واضح رہے کہ بیل فائٹنگ فیسٹیول پر دنیا بھر میں شدید تنقید کی جاتی ہے اور اس میلے پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

بیل فائٹنگ کی صدیوں پرانی روایت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اسپین بیل فائٹنگ کے بغیر اپنا بھرپور ثقافتی ورثہ کھو دے گا۔ تاہم، اکیسویں صدی میں ایک ترقی یافتہ یورپی ملک کے زیادہ تر باشندوں کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے۔ اس روایت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے۔ ایک ایسا ملک جو دنیا میں اپنی روایت کی بنیاد پر جانا اور پہچانا جاتا ہے، آج اس معاملے پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بیل فائٹنگ کے مقابلوں کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن یہ اسپین کے قومی دھارے کا ایک اہم حصہ ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ آئینی عدالت کے اس فیصلے پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے جس نے بیل فائٹنگ پر کاتالان خطے کی پابندی کو معطل کرتے ہوئے بیل فائٹنگ کو اسپین کے 'ثقافتی ورثے' کا حصہ قرار دیا تھا۔

تاہم جانوروں کے حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں بیل فائٹنگ کے کچھ تہواروں پر پابندی اور کچھ شہروں کا مقامی طور پر اس روایت کو ختم کرنے پر غور ان کی جیت کی نشانیاں ہیں۔بل فائٹنگ رومن دور سے کسی نہ کسی شکل میں اسپین کی تاریخ کا حصہ رہی ہے، لیکن اس کی موجودہ شکل 18ویں صدی میں سامنے آئی۔

اسپین کی بل فائٹنگ یونین کے صدر جوآن ڈیاگو ویسینٹے کہتے ہیں: 'یہ ایک ثقافتی روایت ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے میں بار بار اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہوں، اس لیے اس نازک وقت میں اس روایت کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔'' میڈرڈ سے تعلق رکھنے والے صحافی آندریس ڈی میگوئل کہتے ہیں: 'یہ تہوار ہاں، قربانی کی ایک رسم ہے۔ . یہ ایک تماشا ہے، ایک کاروبار ہے۔ یہ بہت پیچیدہ روایت ہے جو تضادات سے بھری ہوئی ہے۔

'آپ بیل فائٹنگ کے مقابلے میں ان نایاب لمحات کی خوبصورتی دیکھنے جاتے ہیں جب ایک بیل فائٹر آرٹسٹ کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ لیکن وہ اس تماشے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ "بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اب یہ وحشیانہ کھیل زوال پذیر ہے؟ ہاں، اب یہ اچھی خبر ہے کہ اسپین میں اس کھیل کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جمعرات، 18 اگست، 2022

کزن میرج اور موروثی بیماریا ں

پاکستان میں خاندان میں یا کزنز کے درمیان شادیاں عام ہی نہیں بلکہ ترجیحاً کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جینیاتی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 65 سے 75 فیصد شادیاں خاندان میں کی جاتی ہیں جن میں سے 80 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہوتی ہیں۔ جن جوڑوں میں دونوں افراد کی ایک ایک جینز میں نقص ہو تو مرض پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہونا یقینی ہے۔ یہ امراض موروثی یا جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں کہلاتے ہیں اور ان کا فی الحال کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔ موروثی بیماریوں میں پاکستان مین سب سے عام تھیلیسیمیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہیموفیلیا جیسی خون کی بیماریاں ہیں۔اسی طرح نیورولاجیکل بیماریاں اور ڈویلپمنٹل ڈس آرڈرز ہیں جو جینیاتی طور پر خاندانوں میں موجود ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جاتے ہیں۔ ملک میں ایک کروڑ لوگ تھیلیسیمیا مائنر کی کیرئیر ہیں جو بذات خود بیماری نہیں مگر ایسے کیریئر کی شادی کسی اور تھیلیسیمیا مائینر سے ہوگئی تو ہر حمل میں پچیس فیصد چانس ہو گا کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر پیدا ہو۔ طبی ماہرین کے مطابق جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو قابو کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ جینز کے پھیلائو کو روکا جائے۔ موروثی بیماریاں وہ ہوتی ہیں جو جینز میں کسی گڑبڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں. اس "گڑبڑ" کو ہم سائینسی زبان میں "میوٹیشن"(mutation) کہتے ہیں. میوٹیشنز کی بہت سی ممکنہ اقسام ہیں اور انتہائی پیچیدہ ہیں.. میوٹیشنز کی بہت سی ممکنہ اقسام ہیں اور انتہائی پیچیدہ ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ میوٹیشنز آئی کہاں سے؟ یہ میوٹیشنز اچھی بھی ہو سکتی ہیں جو کسی نئی صلاحیت کا موجب بنتی ہیں لیکن زیادہ تر بری ہی ہوتی ہیں جو کسی بیماری کی وجہ بنتی ہیں. اب دوسری بات یہ سمجھیں کہ ہر جین(gene) کے دو حصے ہوتے ہیں جنہیں "الیلز"(alleles) کہا جاتا ہے. ایک الیل ماں سے آتا ہے اور ایک باپ سے. یوں بچے کا ہر جین والدین کے جینز کا حسین امتزاج ہوتا ہے. اسی طرح اکثر جینز میں ایک الیل اپنے ساتھی الیل کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوتا ہے. اسے "ڈامینینٹ"(dominant allele) کہتے ہیں اور اسکے مقابلے میں کمزور والے کو "ریسیسو"(recessive allele). سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ فرض کریں کہ ایک خاندان میں کسی موروثی بیماری (مثلاً تھیلیسیمیا) کا ایک کیرئیر موجود ہے. اس کے 6 بچے ہیں جن میں سے 4 میں وہ اپنا بیمار الیل منتقل کر دیتا ہے اور بظاہر سب بچے صحت مند ہیں. ان بچوں کی خاندان میں ہی شادیاں ہوتی ہیں اور ہر بچہ آگے اپنے 3، 3 بچوں میں یہ الیل منتقل کرتا ہے. اب جب تیسری نسل میں بھی خاندان کے اندر کی شادیاں ہونگی تو لامحالہ دونوں ماں باپ کے کیرئیر ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے. اگر انکے بچوں میں تھیلیسیمیا نہ بھی ہو تو بھی اب کیرئیر بچوں کی پیدائش کے امکانات پہلے سے دوگنا ہو جائیں گے. اور اگر کزن میرج کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو چوتھی نسل میں کئی بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہوں گے. اور تھیلیسیمیا کے ایک مریض کو سنبھالنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسکا عام لوگ اندازہ بھی نہیں کر سکتے. اور خدانخواستہ کسی جوڑے کے دو بچے اس موذی مرض کا شکار ہو جائیں تو یہ زندگی انکے لیے کسی جہنم سے کم نہیں. ماہرین صحت نے نئی نسل کودرپیش اہم مسئلے سے خبردار کردیا، پاکستان میں خاندان میں یا کزنز کے درمیان شادیاں عام ہی نہیں بلکہ ترجیحاً کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جینیاتی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 65 سے 75 فیصد شادیاں خاندان میں کی جاتی ہیں جن میں سے 80 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہوتی ہیں۔ جن جوڑوں میں دونوں افراد کی ایک ایک جینز میں نقص ہو تو مرض پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہونا یقینی ہے۔ یہ امراض موروثی یا جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں کہلاتے ہیں اور ان کا فی الحال کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔ موروثی بیماریوں میں پاکستان مین سب سے عام تھیلیسیمیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہیموفیلیا جیسی خون کی بیماریاں ہیں۔اسی طرح نیورولاجیکل بیماریاں اور ڈویلپمنٹل ڈس آرڈرز ہیں جو جینیاتی طور پر خاندانوں میں موجود ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جاتے ہیں۔ ملک میں ایک کروڑ لوگ تھیلیسیمیا مائنر کی کیرئیر ہیں جو بذات خود بیماری نہیں مگر ایسے کیریئر کی شادی کسی اور تھیلیسیمیا مائینر سے ہوگئی تو ہر حمل میں پچیس فیصد چانس ہو گا کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر پیدا ہو۔ طبی ماہرین کے مطابق جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو قابو کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ جینز کے پھیلائو کو روکا جائے۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے اپنے بھائی سے متعلق بتایا کہ جن کے خاندان میں دو مختلف جینیاتی بیماریاں سامنے آئیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر جوڑے کے ہاں ایسی اولاد پیدا ہو جو مختلف بیماریوں کا شکار ہے مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ کزنز کے درمیان شادی سے بچوں میں اسی بیماری کا چانس 35 فیصد ہے جبکہ خاندان سے باہر شادی کی صورت میں یہ پانچ فیصد ہو جاتا ہے۔ یہ تعداد ان افراد کی ہے جو پہلے سے ایک نقص والی جینز لیے ہوئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'میرے بھائی کی شادی خالہ زاد بہن سے ہوئی، جب ان کے ہاں پہلی اولاد ہوئی تو بچے کے بلڈ سیل کام نہیں کرتے تھے۔ تو وہ بچہ یعنی عمیر فوت ہو گیا۔ دوسری پریگنینسی میں بچہ ٹھیک تھا۔ مگر تیسرے بچے میں ایک نئی جینیاتی بیماری تھی، اس طرح پیدا ہونے والی بچی ثنا بھی زندہ نہ رہ سکیں۔ ’یعنی ہمارے ایک خاندان میں دو جینیاتی بیماریاں آ گئی تھیں۔ انھی دو بچوں کے نام پر ہم نے عمیر ثنا فاونڈیشن کی بنیاد رکھی جو موروثی بیماریوں خاص طور پر تھیلیسیمیا پر کام کرتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ قانون موجود ہے کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کیا جائے تو ہم نے یہ کہا کہ مرد حضرات کا ٹیسٹ کیا جائے تاکہ خواتین سٹگماٹائیز نہ ہوں۔ ’جو یہ جینز کیری کر رہے ہیں اس صورت میں ان کی ہونے والی دلہن کا بھی ٹیسٹ کر لیں۔ اس کے علاوہ فیملی اسکینگ کرائیں۔ یعنی جس بچے میں یہ بیماری ہے اس کے خون کے رشتے یعنی بہن بھائی، خالہ، پھپھو، چچا وغیرہ سے متعلق ایک فیملی ٹری بنا کر دیں تاکہ جب ان کی یا ان کے بچوں کی شادی ہو تو وہ بھی ٹیسٹ کروا لیں۔ ہم منع نہیں کر رہے کہ کزن میرج نہ کریں، اجتناب کریں تو بہتر ہے۔‘ متعلقہ عنوانات اور اپنے مستقبل کے بچوں پر رحم کریں.

علم حضوری ،علم حصولی 'منبع وماخذ

>شروع کرتی ہوں خدائے بزرگ و برتر کے نام سے جو بڑا مہربان نہائت رحم والاہے اپنی پوسٹ کی ابتداء اس حدیث نبوی سے :---

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں -

صاحبان علم و عرفان بتاتے ہیں کہ علم کی دو شاخیں بہت اہم ہیں ،ایک علم حصولی ،دوسرا علم حضوری ،علم حصولی وہ ہے جسے

 مکتب ومدرسے یعنی سکول کالج یونیورسٹی یا کسی بھی درس گاہ سے کتابی شکل میں پڑھ کر یا اپنے اساتذہ سے لکچر کی صورت میں 

حاصل کیا جائے اور علم حضوری وہ علم ہئے جس کا تعلّق انسان کی وجدانی صلاحیتوں سے تعلّق رکھتا ہے۔ یہ علم ویسے تو انبیاء و

 مرسلین اور ائمّہ طاہرین کو,اولیاء اقطاب کرام و عظام کو ربّ العزّت کی جانب سے عطا ہوتا ہے ،لیکن ہم ادنٰی انسانوں میں بھی

 جواللہ تعالٰی سے اس علم کا طالب ہوتا ہئے اس کو وہ مالک کون مکاں مایوس نہیں کرتا ہئے ،اوریہ گرانقدر نایاب علمی زروجواہر ان کو

 بھی ضرور عطا کر دیتا ہے

 علم ایک سہ حرفی لفظ ہے جو  ع -ل -اور م پر مشتمل ہے زرا سا سوچنے کا مقام ہے کہ اس تین حرفی  لفظ کی ہماری زندگی میں  کیا

 اہمیت ہئےاور اس کے اندر کون سے معجزاتی خزینے موجود ہیں کہ ان کو پانے کے لئے اس کو محد سے لحد تک حاصل کرنا ہر

 مسلمان عورت اور مرد پر فرض کردیا گیا۔ جیسا کہ بحیثیت ایک مسلمان ہم جانتے ہیں کہ قران کریم کائناتی علوم کی سب سے

 عظیم اور مقدّ س کتاب ہئے ,,اس محترم و منّور کتاب علم سے پہلےبھی اللہ تعالٰی نےانسانیت کی رہبری کے لئے تین سوسے کچھ

 اوپر مقدّس کتابیں اور صحیفے اپنے انبیاء اورمرسلین علیہم  السّلام پر نازل کئے جن میں توریت و زبور و انجیل بھی  علم  کےمنبع وماخذ

 سے معمور تھیں لیکن قران کریم کی ہم سری کسی بھی کتاب کو حاصل نہیں ہو سکی

اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل  زّکر کتب میں اس وقت کے انسانوں نے اپنی مرضی سے تحریفات کر لی تھیں ،لیکن قران کریم کی

 حفاظت کاوعدہ اللہ تعالٰی نے اپنے زمّہ لے کر اس کوشرّی انسانوں کی خود ساختہ تحریفات کے شر سے ہمیشہ کےلئےمحفوظ کر لیا

 جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کتاب مقدّس کائنات کے نوراعلٰی کے نور سے منوّر علم کا خزینہ ہے اس لئے اگر ہم اسکی تلاوت و معنی

 سمجھنے کی روش کو اختیا ر کرتے ہوئے اس کلام مقدّس کو اپنی زندگی کےشب و روز میں شامل کرلیں تو ہماری زندگی بجائے

 خودہمارے لئے ایک ناز بن جائے-

 زرا سا غور کیجئے ،اس کے تذکرے کیا کہتے ہیں بہتی ندّیاں, گرتے آبشار ,, اچھلتے دریا ؤں کی طغیانی ،سمندر کی موجوں کی روانی ,

 صحراؤں کی وسعتیں ,آسمان کی رفعتیں ،پر ہیبت کوہسار،وسیع دشت و صحرا ہمارے جینے کے سامان سے لہلہاتے ہوئے کھیت

 وکھلیان  ،قسم قسم کے پھولوں اور پھلوں کی خوشبو سے مہکتے ہوئے باغات میں اس کی حمدوثناء کے گیت گاتے ہوئے قسم قسم کے

 رنگوں سے مزّین چھوٹے بڑے پرندے,,ارض و سماں کی بلندیوں اور گھا ٹیوں میں صرف اس کی معمورکردہ دلکشی ورعنائ کے

 تذکرے ان تمام نشانیوں  کو قران کریم زمین پر اللہ تعالٰی کی حجّت قراردیتے ہوئے کہ رہا ہئے کہ اس میں تفکّر کرو ،کہ کارخانہ ء

 قدرت میں فکر کرنا بھی ایک علمی عبادت ہئے

مکہ مکرمہ کے قریب واقع پہاڑ جبل نور میں واقع ایک غار، جہاں پہلی وحی لے کر حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اوریہ

 ہمارے علم کی ابتداء تھی-پھرعلم و سائنس کی ترقی اور تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوکر قدرت کی نشانیوں تک پہنچا جس کی طرف

 اشارہ قرآن پاک میں ایک جگہ اس طرح کیا گیا :’’ عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی

 اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائیگا کہ حق یہی ہے ، کیا تمہارے رب کا ہر چیز سے واقف اور آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ۔(

 حم السجدہ53)

اب کائناتی نظام کے جزئیات پر غور کیجئے تو ہم دیکھیں گےکہﷲ تعالیٰ نے نہ صرف زمین و آسمان بلکہ ان کے درمیان کی تمام

 مخلوقات اور فضائے بسیط میں گردش کرنیوالے بے شمار سیاروں کے درمیان اپنے علم و حکمت سے ایسا زبردست توازن قائم

 کردیا ہے : ’’ اور ان کیلئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج

 کیلئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے ، یہ غالب اور علم والے کا اندازہ ( مقرر کردہ ) ہے اورچاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر

 کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ، نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے

 بڑھ جانیوالی ہے ، سب کے سب آسمان پر ( اپنے مدار میں ) تیرتے پھرتے ہیں۔ ‘‘ ( یٰسین40-37)آسمانوں اور زمین کی

 پیدائش کیسے ہوئ

زمین کی پیدائش اوراس کے ار تقائی مراحل سے متعلق گفتگو کے بعد آسمانوں کی تخلیق سے متعلق گفتگو کی گئی ہے . ار شاد فرمایا گیا

 ہے : پھر آسمان کی تخلیق کاارادہ فرمایاجبکہ وہ دھواں تھا ، اس وقت زمین اور آسمان سے فرمایا وجود میں آؤ اورصورت اختیار کرو ،

 خواہ ازروئے اطاعت یاپھر مجبوراً (ثُمَّ اسْتَوی إِلَی السَّماء ِ وَ ہِیَ دُخانٌ فَقالَ لَہا وَ لِلْاٴَرْضِ ائْتِیا طَوْعاً اٴَوْ کَرْہاً )۔

انہوں نے کہاہم از روئے اطاعت وجود میں آئیں گے (قالَتا اٴَتَیْنا طائِعینَ )۔

اس وقت خدانے انہیں سات آسمانوں کی صورت میں دو دنوں میں پیدا کیااور مکمل کردیا(فَقَضاہُنَّ سَبْعَ سَماواتٍ فی یَوْمَیْنِ )۔ جی

 ہاں ! ” یہ ہے خدا وند قاد ر وعلیم کی تقدیر “ (ذلِکَ تَقْدیرُ الْعَزیزِ الْعَلیمِ)۔

 یو ں تو علم ایک لا محدود سمندر ہئے جس کی گہرائ تک ہماری ناقص عقلوں کی رسائ ہو ہی نہیں  سکتی ہئے, زرا دیکھئے مولائے

 کائنات حضرت علی علیہ ا لسّلام فرماتے ہیں کہ حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نےمجھ کو ہزاروں علوم سکھائے جن میں

 ہر ،ہر علم کی ہزاروں شاخین ہیں ،اب زرا غور کیجئے ہزار کو ہزاروں سے ضرب دے کر دیکھئے ،جواب کتنے ہندسوں میں آتاہئے


تو آئیے علم حاصل کریں علم تقسیم کریں


منگل، 16 اگست، 2022

شیر نیستان حیدر “عباس

-بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد جناب امیر کائنات سے جب    جناب عقیل  نے عقد ثانی کی درخواست کی تو حضرت علی علیہ السّلام نے جناب عقیل سے کہا مجھے شجاع اور دلیر قبیلے کی شریک زند گی چاہئے -چنانچہ جناب عقیل جو ایک نامور ماہر انساب تھے قبیلہ بنی کلاب کا انتخاب کیا اور پھر مولائے کائنات سے رشتہ دینے کی اجازت طلب کی -
اور اس طرح بی بی ا مّ البنین آپ کے عقد میں آئیں -اور پھر ایک روز باسعادت گھڑی میں جناب عبّاس قبیلہ بنو ہاشم میں مثل چاند کے اترے - یہ چار شعبان سن ۲۶ ہجری کی تاریخ تھی اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔  
حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

 لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔ صفین میں جنگ زوروں پر تھی جب اچانک ایک نقاب دار مثل حیدر کرّارمولا علی علیہ السلام کے لشکر سے جدا ہوا۔ اور اپنے گھوڑے کو ایڑ دیتے ہوئے مخالف لشکر کے سامنے آکر رکا اور ہل من مبارز کی صدا بلند کی۔ اس نوجوان کے مقابلے میں لشکر کے طاقتور ترین پہلوان ابو شعثاء کو بھیجا گیا اس نے میدان میں نکل کر اس نوجوان کو کہا: شام والے سمجھتے ہیں کہ میں ایک ہزار گھڑسوار شہسواروں کے برابر ہوں ؟ میں اپنے بجائے اپنے بیٹوں کو اس مقابلہ میں اتاروں گا میرے سات بیٹے ہیں جو اس اس نوجوان کوجواب دے سکتے ہیں چنانچہ اس نے اپنا ایک بیٹا میدان کارزار میں جناب عبّاس کے مقابل بھییجا جو چند ہی لمحوں میں نوجوان کے ہاتھوں اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ ابو شعثاء نے بڑی حیرت سے یہ نظارہ دیکھا اور اپنا دوسرا بیٹا نئی ہدایات دے کر میدان میں اتارا لیکن نتیجہ وہی تھا اور یوں ابو شعثاء کے سات اس نوجوان کے ہاتھوں مارے گئے۔ آخر کار ابو شعثاء شاید سات بیٹوں کا بدلہ لینے نوجوان کا جواب دینے کے لئے میدان میں اترا لیکن وہ بھی چند ہی لمحوں میں اس نوجوان کی ایک کاری ضرب کا شکار ہوکر اپنے بیٹوں سے جا ملا۔ 

مزید مخالف کے لشکر میں کسی میں اس نوجوان کا جواب دینے کی جرأت نہ تھی یہ جوان کون ہے اور جنگ صفّین جو امیر شام کی جانب سے مولائے کائنات کے خلاف کی گئ تھی بدترین شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئ لڑائ ختم ہونے بعد جب آپ نے لشکر سے کچھ دور جا کر نقاب الٹی تب لوگ سمجھے کہ جنگ مولا علی علیہ السّلام نہیں حضرت عبّاس علمدار کر رہے تھے کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

 حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرکرّار کہلانے لگے۔ 

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔۔ 
حرم حسینؑ کےنگہدار، پرچم اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار ، خاندانِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کے شیر دلیر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہ انکی فضیلت کا احاطہ کر سکے جناب سیّدسجّاد علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ خدا میرے چچا عباس پراپنی رحمت سایہ فگن کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کرتے ہوئے اپنے بھائی پر فدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پردئے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے -

شب عاشور امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ایک خطبہ کے درمیان اپنے بیعت کو ان پر سے اٹھا کر فرمایا: آپ لوگ چلے جائیں ان کو صرف مجھ سے مطلب ہے۔ اس ہنگام سب سے پہلے جس نے اعلان وفاداری کیا حضرت عباس ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسا کیونکر کریں۔ کیا اس لیے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا کبھی ایسا دن نہ لائے۔ سقائے کربلا حضرت عباسؑ علمدار کی شہادت امام حسینؑ کیلئے اس قدر کٹھن تھی کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ عباسؑ کی شہادت میری کمر توڑ گئی‘‘۔ بی بی سکینہ اور حضرت عبّاس علمدارحضرت عباسؑ علمدار عاشور کے دن خیمہ حسینی میں پیاس سے بلکتے بچوں کیلئے پانی لینے دریائے فرات پہنچے اور فوج اشقیا کو للکارا ۔ آپ نے مشک بھری اور واپس جانے لگے تو اس دوران گھات لگائے اشقیاء نے آپ کے دونوں ہاتھ قلم کرکے شہید کردیا۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی
 رو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع! عباس الوداع، اے علم دار الوداع اے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع! اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر