منگل، 22 مارچ، 2022

پشاور کوچہ رسالدارشہیدان اما میہ مسجد

 پشاور کوچہ رسالدارشہیدان اما میہ مسجد

امامیہ مسجد پشاور میں دھماکہ شیعوں کے خلاف ہونے والی دہشتگردی کے واقعات میں سے ایک  بہت بڑا اور خونچکاں  واقعہ  ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالخلافہ پشاور قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں واقع ہوا۔ یہ سانحہ 4 مارچ سنہ 2022ء بمطابق 30 رجب 1443 ہجری کو اس وقت پیش آیا جب لوگ نماز جمعہ میں مشغول تھے۔ظالمون پہ تا قیامت لعنت  ہے اور مظلوم اللہ کی بارگاہ مین کامیاب ہین ابتدائی تفصیلات کے مطابق قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں شیعہ جامع مسجد میں 2 حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کے دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک پولیس جوان شہید جبکہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا۔ مسجد میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا،عینی شاہد کے مطابق کالے لباس میں ملبوس خودکش حملہ آور نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر 5 سے 6 فائر کیے اور پھر اندر آ کر خود کو اڑا دیا، دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضا پھیل گئے۔ اس سانحے میں ۷۰سے زائد مومنین شہید جبکہ تقریبا 200 کے قریب مؤمنین زخمی ہیں-کیا ان بے کسوں کے بے گناہ خون  کے طفیل  پاکستان کے حکمرانوں کے ضمیر بیدار ھونگے؟

وزیر اعظم پاکستان عمران خان، نے اس سانحے کی مذمت کی اور فی الفور اس کے تحقیق اور زخمیوں کو مدوا کرنے کا حکم دیا۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل راجہ ناصر عباس جعفری نے مذمت کرتے ہوئے اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی قرار دیاشیعہ علما کونسل کے سربراہ سید ساجد علی نقوی نے سانحے کی مذت کرتے ہوئے واقعے کو حکومت کی نااہلی قرار دیا اور تین دن سوگ کا اعلان کرتے ہوئے 6 مارچ کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔6جمعیت علما اسلام کے سربراہ اور اہل سنت عالم دین فضل الرحمن نے نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفاکیت کی بدترین مثال قرار دیا-

عراق میں مقیم شیعہ مرجع تقلید آیت‌الله سیستانی کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں سانحہ پشاور کی مذمت کے ساتھ پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مذہبی مراکز پر ہونے والے حملوں کی روک تھام کرے۔اسی طرح عراق کی پارلیمانی پارٹی حکمت کے سربراہ عمار الحکیم نے بھی مذمت کی ہے

پاکستان کی اہلسنت مذہبی پارٹی جماعت اسلامی نے سانحہ امامیہ مسجد پشاور کی مذمت کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے نمازیوں پر ہونے والے اس حملے کو انسانیت پر حملہ قرار دیا-اور امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے عبادتگاہوں کو قتلگاہ بنانے والوں کو حیوان سے بھی بدتر قرار دیتے ہوئے سانحہ پشاور کی مذمت کی۔اہل سنت کے متعد دعلما نے بھی اس سانحے کی بھرپور مذمت کی جن میں تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جمعیت علماء پاکستان (نورانی) اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر، جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا عبدالروف فاروقی، جماعت اہلحدیث پاکستان کے حافظ عبدالغفار روپڑی، مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کے صدر پیر عبدالخالق قادری سرفہرست ہیں

حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت شیعہ نسل کشی کی بنیاد ہے

کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے گذشتہ شب شھدائے پشاور کی مناسبت سے مدرسہ حجتیہ قم کی مسجد میں منعقد مجلس میں حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت کو پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی بنیاد بتایا ۔

انہوں نے حالیہ شہادتوں پر تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہوئے زخمی مومنین کی جلد شفا یابی کی دعا کی اور کہا : خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہمیں ڈرانے والوں کومعلوم ہونا چاہے کہ ہم نے مجالس کے ذریعے اپنی ماؤں کی آغوش میں شہید اور شہادت کے موضوعات سنے ہیں کہ کس طرح ہمارے آئمہ اور شہداء کربلا نے فخریہ انداز سے شہادت کا استقبال کیا، ہم شہادت کے منتظر ہیں، جوقوم شہادت کی منتظر ہو اسے بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے کیسے ڈرایا جا سکتا ہے؟

حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ملک کی سلامتی کے لئے ہماری قیادت باربارصبرکی تلقین کررہی ہے کہا: لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اگر ہمارے اکابرین ملت اور قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا توملک سنبھالنا دشوارہوجائے گا ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہ ملک کا بہت بڑا قومی سرمایا صرف کرنے والی 33 ایجنسیوں کو کیوں ان حادثات کا پتہ نہیں چلتا ؟ دہشت گردی روکنے کے لئےقومی ایکشن پلان بنایا گیا مگرلگتا ہے اس پلان میں بھی منظور نظرخاص دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، عوامی قاتلوں اورشیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں کا توکوئی نام لینے والا نہیں ہے کہا: ملکی سلامتی اورامن وامان کے نفاذ کے لئے ہماری قیادت نے آئین کی روشنی میں مذاکرات کی حمایت کی مگرمذاکرات میں ہمارے قاتلوں کونظرانداز کیا گیا، ہماری قیادت نے آپریشن کی حمایت کی، مگرآپریشن میں بھی ہمارے قاتلوں کو نظر انداز کیا گیا، اب اس قومی ایکشن پلان میں امید تھی مگرقومی ایکشن پلان کے باوجود یہ واقعات اورسانحات کسی اور چیزکی نشاندہی کر ر ہے ہیں، ہم سوچنے پر مجبورہیں کہ ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس پر تمام ملکی ادارے متحد ہیں ۔

ہفتہ، 19 مارچ، 2022

تم کتنے کم ظرف ہو

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

  

تم کتنے کم ظرف ہو

 

وہ بلکل ننھا بے بی سا تھا 'اس سے چند برس بڑا ایک اور بھائ تھا اس کے ماں اور باپ دونوں محنتی تھی  ماں   محلّے کے لوگوں کے کپڑے سیتی تھی اور باپ تعلیم نا ہونے کے سبب محنت مزدوری کرتا تھا اور وہ چاروں لندن کے ایک غریب محلّے کے بینٹمنٹ میں  ایک خوش و خرّم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک روزاچانک اس گھر کا سر براہ ان سب کو چھوڑ کر راہئ عدم ہو گیا

اب ماں نے باپ کے فرائض بھی اپنے زمّہ لے لئے

وقت کچھ اور آگے کھسکا وہ اپنے بچپن کی یاد  داشت میں لکھتا ہے کہ اتنی غربت اور ناداری کے باوجود بھی اس کی ماں نے اپنے حوصلے بلند رکھّے ہوئے تھے وہ بیسمنٹ کے ایک کونے میں سلائ مشین پر محلّے کے لوگوں کے کپڑے سیتے ہوئے گنگناتی رہتی تھی لیکن قدرت ان معصوم بچّو ں کی آزمائش کرنی تھی

پھر ایک روز فرشتہ  اجل ان کی واحد سہارا ماں کو بھی لے کر عالم بالا چلا گیا -اب یہ بڑے بھا ئ نے جو خود ابھی  گیارہ  برس کا ایک بچّہ تھا  اس نے چھوٹے بھائ کی زمّہ داری سنبھال لی یہاں تک کہ چھوٹا بھائ کالج میں پہنچ گیا -اب کالج میں یہ کیفیت تھی کہ جب انٹر ول ہوتا اس وقت یہ بچّہ جو اب نوجوانی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا کینٹین میں چائے پینے کے بجائے لا نکی گھاس پر اپنا انٹرول گزار دیا تھا کیونکہ اس کے پاس چائے پینے لئے معمولی رقم بھی نہیں ہوتی تھی

ایک دن کی با ت ہے کہ وہ انٹرویل میں گھاس پر لیٹا ہوا تھا جب اس نے دیکھا کہ تاریخ کے پروفیسر وہاں سے گزر رہے تھے پروفیسر نے اس کو دیکھا تو اس کی جانب آ گئے -وہ اپنے پروفیسر کو اپنی جانب آتا دیکھ کر ازراہ ادب  اٹھ کر بیٹھ گیا اور پروفیسر نے اس  کے قریب آ کر  اس سے پوچھا کیا تم نے آج  تاریخ  کےفلاں 'فلاں پروفیسر کا مضمون اخبار میں پڑھا ؟

اس  نے جواب میں نخوّت سے کہا میں اس کم ظرف انسان کی کوئ تحریر نہیں پڑھتا ہوں

اس کے پروفیسر نے انتہائ ناگوار لہجےمیں اسے جواب دیا کہ تم کتنے کم ظرف ہو کہ تم انسان کی علمی صلاحیت سے بھی فا ئدہ نہیں اُٹھا سکتے ہوتمھاری زاتی دشمنی اپنی جگہ لیکن کم سے کم تم اس کی علمی بصیرت سے تو آگہِی حاصل کر سکتے ہو پروفیسر اپنی بات پوری کر کے چلے گئے وہ اپنی جگہ سے آٹھا اور اس نے اپنے نا پسندیدہ پروفیسر کا مضمون لائبریری جا کر توجّہ سے پڑھا

-پھر وہ اس کے مضامین پڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ ایک روز وہ خود تاریخ داں بن گیا -اور اس کا اگلا قدم برطانوی پارلیمنٹ کے سپیکر کی کرسی تھی -اس کرسی پر وہ کافی عرصہ براجمان رہا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے نقش قدم چھوڑ گیا

ہفتہ، 12 فروری، 2022

سچّے موتی اور ان کے خواص

سچّے موتی اور ان کے خواص 'زمانہء قدیم ہو یا زمانہء جدید اگر ہم دیکھنا چاہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری زندگی میں موتیوں  کا  ہمیشہ ہی عمل دخل رہتا ہے  -

بالخصوص خواتین کے زیورات میں  اور موتیوں کا  زکر ملکہ بلقیس کے تخت کے تذکرے میں بھی موجود ہے کہ اس تخت میں کتنے قیمتی موتی   جڑے ہوئے تھے  جبکہ قدرت کی

یہ انمول سوغات بادشاہوں نے اپنی گلے کی مالاؤں میں پہنی ہے تو آیئے اس کا کچھ تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں  کہ اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے

موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے، اس کے دونوں بازئوں پر کچھوے کی

 طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے، پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص

 طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔

صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا

 ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس

 کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک مذکورہ، جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے

 اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول

 دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے لیکن یہ ایک قدیم اور قطعی غلط

 روایت ہے۔ ۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندرکوئی بھی چیز داخل ہو جائے موتی بن جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق صدف

 میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے مثلا ریت کا ذرہ یا کوئ اور سخت چیز تو کیونکہ اس کی اندرونی ساخت یا جسم جیلی کی طرح نرم ہوتا ہے تو یہ سخت زرہ اس کے جسم میں

 اذیت یا Irritation کا باعث بنتا ہے کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ یا لعاب خارج کرکے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، تاکہ اس کی چبھن ختم

 ہو سکے اور یہی لعاب سخت ہو کر موتی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔

اس کو گلے میں لٹکانے سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اس کو پہننے والے کی شادی کام یاب اور ازدواجی زندگی خوش گوار گزرتی ہے، موتی کو استعمال کرنے والا جادو اور سحر کے 

 اثر سے محفوظ رہتا ہے، ذہنی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اسقاط حمل روکنے کے لیے اسے حاملہ خاتون کی کمر پر باندھا جاتا ہے ۔ 

موتی رموز قدرت سے وابستہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔ یہ انسان کی قدیم تہذیبی روایت کا اشارہ بھی ہے۔ موتی جیسی خوبصورت، دلکش اور افادیت والی شے ایک

 نہایت کھردری، بھدی اور معمولی سی مخلوق گھونگا سے حاصل ہوتی ہے۔ اس گھونگا کو آئسٹر (Oyster) کہتے ہیں جو حیوانات کے ایک زمرے مولسک (Mollusc) کا رکن ہے۔

 مولسک تقریباً 530 ملین سال قبل وجود میں آئے تھے۔ موتی کی دوسری خوبی جو اسے دیگر رتنوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ موتی اپنی اصل حالت ہی میں نہایت دلکش ہوتا

 ہے جب کہ دوسرے رتنوں کی خوب صورتی تراش وخراش اور پالش کے بعد ابھرتی ہے۔ جہاں ایک طرف مذہبی کتابوں اور لوک گیتوں میں موتی کا ذکر ہوا ہے وہیں دوسری

 طرف جدید سائنس میں موتی ایک اہم موضوع بنا ہے۔

موتی دوا سازی میں بھی مستعمل ہے۔ اس کا سفوف اور پانی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یونانی طریقہ علاج میں بطور خاص موتی کی اہمیت ہے جہاں یہ ٹانک کے طور پر استعمال

 ہوتا ہے جس سے جسمانی اور دماغی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور صحت پر مثبت اثرا ت پڑتے ہیں۔ ایسی دواؤں میں دواالملک اور جوارشِ لولو بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح

 آیورویدک دواؤں میں بھی موتی کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات میں موتی بطور استعارہ استعمال کیا ہے

جمعرات، 10 فروری، 2022

آگ کا دیوتا مراکش میں

 

مراکش میں اللہ کے ایک ولی کا عظیم کارنامہ،

یہ ان دنوں کی بات ہے جب مراکش کے لوگ کافرانہ زندگی گزار رہے تھے ایسے میں دنیا کے کسی گوشہ میں ر ہنے والے  ایک بزرگ کو بشارت ہوئ کہ وہ

 مراکش چلے جائیں اور دکھی انسانیت کی مدد کریں -وہ بزرگ خدائ تنبیہ کے بعد مراکش آ گئے -مراکش آ کر وہ مراکش کے گلی کوچوں میں نکلتے اور دیکھتے کہ

 کہاں وہ کسی کی کوئ مدد کرسکتے ہیں-لیکن کئ روز گزر گئے ان کو کوئ ایسا معاملہ نظر نہیں آیا کہ وہ کسی کی کوئ مدد کرتے لیکن  ایک روز ان کا گزر ایک گلی

 سےہوا تو انہوں نے ایک گھر کے اندر سے عورت کےنالہ وشیون کی آواز سُنی -کچھ ثانیہ وہ کھڑے کچھ سوچتے رہے پھر آخر کار دروازے پر دستک دے دی

 دستک کے جواب میں روتی ہوئ عورت دروازے پر آئ اور اس نے دروازہ کھولا  بزرگ نےعورت سے سوال کیا 'ائے خاتون کیوں رو رہی ہیں آپ؟بزرگ

 نے رحمدلانہ لہجے میں  عورت سے سوال کیا تو وہ کہنے لگی ہمارے شہر میں  ایک بڑا ظالمانہ  رواج ہے کہ جو لڑکی اپنی جوانی کو پہنچتی ہےآگ کے دیوتا کے مخبراس

 کو اطّلاع دے دیتے ہیں اور پھر اس لڑکی کو دیوتا  ایک رات کے لئے اپنی دلہن بناتا ہے اور رات کے ختم ہونے پر اس لڑکی کو  دیوتاکے بھینٹ میں دے دیا جاتا ہے 

–یہ کیسا ظلم ہے !

 محض ایک رات وہ آگ کے دیوتا کے ساتھ گزارتی ہے اور صبح  قتل کر دی جاتی ہےوہ مظلوم -

خاتون نے کہا میری ایک ہی بیٹی ہے جس کی عمر پندرہ برس ہوئ ہے اور میرا شوہر بھی اس دنیا میں ہے ناہی اور کوئ والی وارث ہے جو ہماری مددکرےاور آج

 کی رات آگ کا دیوتا اس کی بھینٹ لینے آئَے گااور صبح سویرے میری بیٹی کو قتل کر کےلاش سمندر برد کر دی جائے گی عورت پھر زاروقطار رونے لگی  بزرگ

 نے

عورت سے کہا تم فکر مت کرو میں تمھاری بیٹی کو نا آگ کے دیوتا کے سپرد ہونے دوں گااور نا ہی وہ قتل کی جائیگی ،آگ کا دیوتا کہا ں رہتاہے

بزرگ نے دریافت کیا تو عورت نے بتایا کہ وہ سمندر میں رہتا ہےاور جب اسے لڑکی کی بھینٹ لینی ہوتی ہے تو اپنے بحری جہاز سے آتا ہے

سمندر کےکنارےاس کا بہت

 بڑا محل ہے وہ اسی محل میں  رات  گئے آتا ہے  اس کا جہاز آگ سے روشن ہوتا ہے وہ آدھی رات کو آتا ہے اور  صبح ہونے سے قبل  لڑکی کو اپنی نظروں کے

 سامنے قتل کروا کر  ظالم  چلا بھی جاتا ہےٍٍٍٍٍٍٍٍ-

 -عورت نے بے چارگی سے کہا

اچھّا تم بلکل  پریشان مت ہونا -میں تمھارے گھر سر شام آ جاوں گا تم اپنی بیٹی کا عروسی لباس مجھ کو دے دینا اور میں آگ کےدیوتا کے کارندوں کے آنے تک

 تمھارے گھر میں ہی رہوں گا  تم کو اب اپنی بیٹی کی فکر کی ضرورت نہیں ہے   یہ کہہ کر بزرگ وہاں سے روانہ  ہو گئے

اور شام کو پھر وہ حسب وعدہ اس گھر کی دہلیز پر موجود تھے -دیوتا کے کارندوں کے آنے سے کچھ دیر قبل انہو  ں  نے لڑکی  عروسی جوڑا زیب تن کیا اور دیوتا

 کے کارندوں کے انتظا رمیں بیٹھ گئے  -اور پھر رات کا اندھیا را ہونے پر جب دیوتا کے کارندے لڑکی   کو لینے آئےتو  بز رگ  دلہن کے لباس میں سر کوجھکائے

 ہوئے  ان کے ساتھ چلے گئے

کارندوں نے دلہن کو محل میں  لے جاکر دیوتا کے حوالے کیا اور واپس چلے گئے

اور پھر دیوتا نے جونہی دلہن کا گھونگھٹ الٹا گھونگھٹ کے اندر سے ایک باریش بزرگ نکلے تودیوتا ڈر کے مارے الٹے پیروں کمرے کے باہر دوڑااور ساتھ ہی

 بزرگ بھی  آئۃ الکرسی  بلند آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئےاس کے پیچھے دوڑےلیکن کمرے کادروازہ تو  خود ہی بند کر چکا تھا اور  اب کہیں اس کےلئے جائے امان

 نہیں تھی اور  خود ساختہ دیوتا   بالآخر گر پڑا اور بزرگ کے آگے ہاتھ جوڑ کرمعافیاں مانگنے لگا توبزرگ نے کہا نہیں تجھے معافی ایسے نہیں ملے گی تو پہلے س

چّے دل سے توبہ کرے گا کہ اب کسی لڑکی کو محل میں نہیں بلائے گا تب تجھے معافی ملے گی-

بادشا ہ جا ں بخشی  کے عوض بزرگ کی  شرط مان گیا -اگلے روز تمام مراکش میں منادی ہوئ کہ بادشاہ اسلام قبول کر رہا ہے اس لئے مراکش کے طول و عرض میں    ہر فرد

کا   مذہب ہو گا

 پھر  اس شقی اور ظالم بادشاہ نے بزرگ کے ہاتھ پراسلام قبول کیا اور بادشاہ کے سا تھ ساتھ تمام مراکشی با شندوں نے بھی اسلا م قبول کیا اور اللہ کی مہربانی سے

 تمام مراکشی باشند ے یک بیک ایک بزرگ کی کرامت کے  سبب دین اسلام کی روشنی سے مالا مال ہو گئے

جبکہ در  اصل دیوتا کے روپ میں مراکش کا  اصل بادشاہ ہوتا تھااور لڑکی قتل اس لئے کی جاتی تھی تاکہ وہ بادشاہ کی اصلیت  کسی کو بتا نہیں سکے

عیّاش مرد عورت کے جنسی استحصال کے لئے  کیسے 'کیسے گھناونے حربے استعمال کرتے ہیں

قوم ثمود کی نابودی کے اسباب

قوم ثمود کی نابودی کے اسباب

 

زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسے کیسے ان کو ہلاک کر مارا  (القران )--قوم ثمود تقریباً 5 ہزار سال قبل ہجر میں رہتے تھے ۔

قومِ ثمود علم تعمیرات کی ماہر تھی اس نے غاروں کو کھود کر اس میں رہائش اختیار کرنے کا رواج ڈالا مگر اس کے ساتھ ساتھ بت پرستی میں  ان کا کوئ ثانی نہیں تھا

 بتوں کو پوجتے تھے اور لوٹ کھسوٹ میں ماہر تھے اپنے ہی اپنوں کو مار دیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السّلام کو ان کی اصلاح کے لیے بپیغمبر بنا کر بھیجا 

  قومِ ثمود نہایت طاقت وَر، طویل القامت اور زبردست شان و شوکت کی مالک تھی  مدا ئن   کے طول عرض میں ان کی اپنی تراشیدہ بستی میں ان کی رہائش تھی

 یہ لق ودق میدان، چٹیل بیابان18سے20مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر وہ خُوب صورت تاریخی عمارات ہیں، جنہیں قومِ ثمود

 نے سخت سُرخ چٹانیں تراش کر بنایا تھا۔ دوسری جانب، نرم میدانی علاقوں میں عالی شان مکانات کے کھنڈرات ہیں۔ سُرخ پہاڑوں کے اندر اس شہرِ خموشاں

 کی ہزاروں تاریخی عمارتوں کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں بھی اس شہر کی آبادی چار یا پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی، جسے ان کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں

 کے سبب ایک زوردار، تیز اور ہول ناک آواز کے ذریعے آناً فآناً ہلاک کر دیا گیا۔

قومِ ثمود اپنے عالی شان محلّات، سرسبز و شاداب کھیت کھلیان، خُوب صورت مرغزاروں اور نعمتوں کی فراوانی کے سبب غرور، تکبّر اور سرکشی کے نشے میں

 چُور تھے اور چوں کہ تکبّر اور کفر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تو یہ بھی ابلیس کے پیروکار بن گئے، حالاں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے قومِ عاد پر قہرِ الٰہی کے مناظر اُن کے

 سامنے تھے۔ یہ بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے خدائوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان کے معاشرے سے حق و انصاف ناپید ہو چُکا تھا۔ بے حیائی،

 فحاشی آخری حدود چُھو رہی تھی۔ مقدّس انسانی رشتوں کا احترام ختم ہو چُکا تھا۔ رقص و سرود، عیش و عشرت، شراب و شباب اُن کی زندگیوں

 کے لازمی جز بن چُکے تھے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اُس قوم ہی میں سے ایک خدا ترس اور بہت نیک انسان، حضرت صالح علیہ السّلام کو نبوّت

 کے منصب پر فائز فرمایا۔

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود وادی القری کے نزدیک دریائے سرخ کے کنارے حِجر نامی مقام پر آباد تھےجو حجاز اور شام راستے میں واقع ہے۔ ایک حدیث کے

 مطابق لشکر اسلام جب مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے حجر کے مقام سے پہنچے تو پیغمبر اسلامؐ نے قوم ثمود کے عذاب میں مبتلاء ہونے کے خوف سے اپنے

 ساتھیوں کو یہاں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور گریہ کنان وہاں سے گزرنے کا حکم دیا۔

 ۔ امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قوم ثمود کے 70 بت تھے اور وہ ان کی پوجا کرتے تھے۔اسی طرح امام صادقؑ سے روایت شدہ ایک حدیث

 میں آیا ہے کہ یہ قوم ایک بڑے چٹان کی پوجا کرتے تھے اور سال میں ایک دفعہ اس چٹان کے اردگرد جمع ہو کر اس کے لئے قربانی پیش کرتے تھے 

حضرت صالح کی دعوت کا رد عمل

اے صالح ؑ! اگر تم اللہ کے سچّے پیغمبر ہو، تو ہم کو کوئی ایسا معجزہ دِکھائو، جسے دیکھ کر ہمیں تم پر یقین آ جائے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے فرمایا ’’اے میری قوم

 کے لوگو! تم کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ جو سامنے چٹان ہے، اس میں سے ایک ایسی اونٹنی برآمد کرو، جو گابھن ہو، بچّہ

 دے، ہم سب کے لیے دودھ مہیا کرے  ‘‘حضرت صالح علیہ السّلام نے اُن سے فرمایا’’اگر مَیں تمہاری شرط پوری کر دوں، تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آئو گے؟‘‘

 اُنہوں نے جواب دیا ’’ہاں، ہم تمہارے ربّ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دُعا فرمائی اور اپنی قوم کی

فرمائش پوری کرنے کی التجا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دُعا قبول فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹان شق ہو گئی اور اُس میں سے ایک طویل القامت،

خُوب صورت اونٹنی برآمد ہوئی، جس میں وہ سب خوبیاں تھیں، جن کی قومِ ثمود نے فرمائش کی تھی۔ یہ محیّرالعقول منظر دیکھ کر قومِ ثمود لاجواب ہو گئی۔

    ، جندع بن عمرو بن محلات بن لبید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا، لیکن اکثریت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور اسے اس موقعے پر سردار

 جادو کا کمال ظاہر کرتی رہی۔ اس موقعے پر حضرت صالح ؑنے اپنی قوم سے فرمایا ’’اے میری قوم! یہ ناقۃ الاے میری قوم! یہ ناقۃ اللہ (یعنی اللہ کی بھیجی ہوئی

 اونٹنی) ہے، جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے۔ اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی تکلیف نہ دینا، ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں

 فوری پکڑ لے گا۔‘‘ (سورۂ ہود64:)۔ اونٹنی اور اس کا بچّہ سارا دن نخلستان میں چَرتے رہتے تھے، سب قبیلے والے پیٹ بھر کر اونٹنی کا دودھ پیتے، لیکن وہ کم نہ

 ہوتا۔حضرت صالح ؑنے کنویں کے پانی کو بھی تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن اس بدبخت قوم سے اونٹنی کا وجود برداشت نہیں ہوا اور بالآخر ایک دن انہوں نے اونٹنی کو

 ظلم سے مار ڈالا-اونٹنی کے مرنے کے بعد اللہ نے اس ظالم قوم پر عذاب بھیجا   اور ان کو ایک چنگھاڑ نے مار ڈالا 


جمعرات، 3 فروری، 2022

فادر ویلنٹائن 'دنیائے محبّت کا ایک طلسماتی کردار،

فادر ویلنٹائن 'دنیائے محبّت کا ایک طلسماتی کردار


فادر ویلنٹائن 'دنیائے محبّت کا ایک طلسماتی کردار،

 حیرت کی بات ہے کہ ویلنٹائن جس نے اپنی جان' جان آفریں کے خوشی خوشی سپرد کر دی اس کے شرعئ پاکیزہ عمل کو ظالم زمانے  نےایک غیر اخلاقی،

 غیرسماجی، غیرشرعئ، عمل کے روپ میں پیش کیا ۔اب زمانہ کی نظروں میں یہ صرف اور صرف عیاشی کا دن ہے۔

دراصل دنیا میں کارپوریٹ طبقہ کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنا چورن بیچنے کے لئے ہاتھی کو بھی سوئ کے ناکے پرکھڑا کر دیتا ہے-بس بیچارے فادر ویلنٹائن کے ساتھ

 بھی یہی کچھ ہوا-اصل قصّہ یہ تھا کہ گریٹ رومن ایمپائر کے فرمانرروا جو قیصر کہلاتے تھے ان میں سے ایک کو اپنی سلطنت کی حدود بڑھانے  کا جنون سوار ہوا

 تو  اس نے اپنے آس پڑوس کی ریاستوں کو بزریعہ قوّت سر نگوں  کرنے کا ارادہ کیا  لیکن کچھ  ممالک نے سرنگوں  ہونے کے بجائے  اس کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا

 آغاز کر دیا اب  رومن ایمپائر میں بڑی بڑی جنگوں کا آغاز ہوا -

ان جنگوں کے نتیجہ میں فوجی کثرت سے مرنے لگے اور محاز جنگ پر لڑنے والے فوجیوں کی تعداد گھٹنے لگی-ان  کٹھن جنگی حالات میں رومن ماؤں نے اپنے

 بیٹوں کے عجلت  میں نکاح پڑھوانے شروع کر دئے –کیونکہ ان دنوں ایمپائر میں شادی شدہ لوگوں کو جنگ پر نہیں بھیجا جاتا تھا –جب قیصرروم کو معلوم ہوا  کہ

 لوگ اپنے بیٹوں کے بڑی تعداد میں اس لئے نکاح کروا رہے ہیں کہ ان کا بیٹا محا ذ جنگ پر نا جائےتو اس نے پورے ایمپائر کی حدود میں حکم نافذ کر دیا کہ اب

 کوئ  فادر نکاح نہیں  پڑھائے گا ورنہ اس کو پھانسی کی سزا دے دی جائے گی

اس حکم کے نافذ ہونے کے بعد ایک نوجوان فادر ویلنٹائن کے پاس آیا -وہ نوجوان بہت دل گرفتہ تھا-فادر نے نوجوان کےآنے  کا مدّعا پوچھا تو نوجوان نے بتایا

 کہ وہ ایک لڑکی سے محبّت کرتا ہے اور لڑکی بھی اس سے محبّت کرتی ہے  اور مجھے اسٹیبل ہونے کے لئے کچھ وقت چاہئے تھا اوراب ہم دونوں کے لئے شادی کا

 انتظارختم ہونے کو تھا  کہ اب ہم اس ظالمانہ قانون کے آگے بے بس ہو گئے ہیں

فادر نے نوجوان کی بات بہت توجّہ سے سنی اور پھر لڑکے سے کہا کہ جاو اپنی محبوبہ کو فوراً لے آؤ-لڑکا گیا اور عجلت میں لڑکی کو لے آیا اور فادر ویلنٹائن نے ان

 دونو ں کا نکاح بیک ڈیٹ میں پڑھوا دیا -جب لڑکے کی ماں کو اپنے بیٹے کے اس طرح نکاح کی خوشخبری ملی اس نے اپنے دوستوں کو بتا یا

 اور اس طرح تقریباً دو سو رومن ماوں نے اپنے بیٹوں کے نکاح بیک ڈیٹ میں پڑھوا دئے-

لیکن ایک دن کسی مخبر نے قیصر روم سے مخبری کر دی کہ فادر ویلنٹائن خفیہ نکاح بیک ڈیٹ میں کروا رہا ہے-چنانچہ فادر کو عدالت نے طلب کر لیا اس پر

 ریاست کی حکم عدولی کا الزام لگا فادر نے اپنے لگنے والے الزام کو جھوٹا نہیں کہا بلکہ تسلیم کیا کہ اس نے نوجوانوں کے نکاح پڑھا کر اپنا اخلاقی فریضہ پورا کیا ہے-

-عدالت نے حکم عدولی کی سزا پھانسی کا تختہ منتخب کی اور ویلنٹائن  تختہ ء دار کی جانب مسکراتا ہوا تختہ ء دارپر جھو ل گیا اس کے  

 آخری الفاظ تھے-خدا وند گواہ رہنا میں نے تیری شریعت کی تکمیل کی  ہے جب کہ میرا دل کہتا ہے کہ ویلنٹائن اپنے پیچھے  کروڑوں دلوں میں اپنی میراث

 ''میراثِ محبّت " کے طور پر چھوڑ گیا –اس میراث  کا پہلا حرف بھی  محبت  سے شروع ہوتا  ہے اورحرف آخر بھی  محبت    ہے

ویلنٹائن  بھی زندہ ہے اور اس کی میراث تمام دنیا کے محبّت کرنے والوں کے درمیان تقسیم ہو چکی ہے  اور آنے والے زمانوں  میں بھی تقسیم محبّت  کا عمل  جاری

 رہے گا  جبکہ محا ز جنگ کھولنے والے قیصر کا نام بھی کوئ نہیں جانتا ہے

 

 

 

 

 

 

جمعہ، 28 جنوری، 2022

بر مزار ما غریبا ں نے چراغ نے گُلے


نے پر و وانہ سوزد نے صدائے بلبلے

اسلام آباد پاکستان کا ایک آئڈئیل شہر ہے جس میں کئ پوش ایریا ز علاقے ہیں -ایک اعلیٰ سرکاری افسر جب ریٹائر ہوئے تو انہوں نے اپنے لئے ایک پوش

 علاقے میں اپنا عالیشان بنگلہ بنوایا پھر ایک دن انہوں نے سوچا کہ بچّوں کے گھروں میں خیر خبر لینے جانا ہوتا ہے کیوں نا بچّوں کو بھی اپنے قریب لے آئیں سو

 چاروں بچّوں کے بھی امّاں ابّا کے بنگلے کے پہلو بہ پہلو تعمیر کر لئے گئے لیکن بیٹے نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور یورپ کے کسی شہر کو کوچ کر گیا اب تینوں بیٹیا ں اپنے

 ماں باپ کے قریب تھیں  

اور پھر ایک دن ان کی مسز کو اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے دوسرے صوبہ جانا پڑ گیا  ویسے تو خود زمینو ں کی دیکھ بھال کرتے تھے

 لیکن ابھی طبیعت کی ناسازی نے ان کو گھر میں ہی رک جانے پر مجبور کر دیااور ابھی بیگم کو گئے ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ صاحب خانہ کچھ زیادہ ہی بیما ر ہو گئے

 اور بیگم کی واپسی بھی نہیں ہوئ تھی ایک روز اللہ میاں کے گھر سے ان کا بلاوہ آ گیا پھر ایک روز کسی محلّہ دار کا ان کے دروازے کے سامنے سے گزر ہوا تو ان کو

 لاش کے سڑنے کی بو محسوس ہوئ اور پھر انہوں نے پڑوس میں رہنے والی بیٹی کو اطّلاع دی جب بیٹی گھر کے اندر گئ تو اس نے اپنی مذید دو بہنوں کو بلا کرباپ کی 

سڑتی ہوئ میّت کی تجہیز و تکفین کی 

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

اب ایک اور منظر –ہاسپٹل  کے وارڈ  میں ایک تنہا مریض گڑ گڑاتا ہو کہ رہا تھا خدارا میرے گھر والوں کو بلا دیا جائے  اور جب ہاسپٹل کی انتظامیہ نے گھر والوں

 سے رابطہ کر کے بات کی تو گھر سے کوئ نہیں آیا  یہاں تک کہ  لب مرگ مریض نے کہا کہ  میرے گھر والوں  کو پیغام دے دیں  کہ اپنے حصّہ کی جائداد لے لیں

 لیکن مریض کی تین بیویوں اور  ان کے بے شمار بچّوں میں سے کوئ بھی نہیں آیا پھر مریض  اللہ میاں کو پیارا ہو گیا-اب ہاسپٹل  کی انتظامیہ نے گھر والوں کو فون

 کیا کہ کم از کم لاش وصول کرنے تو آ جائیں لیکن لاش وصول کرنے بھی کوئ نہیں آیا  اور  تین عدد بیویوں کا شوہر بے شمار بچّوں کا باپ  کی میّت لاوارث دفن کر

 دی گئ  اور یہ کروڑ پتی شخص  برّصغیر کی نامورسہراب   سائیکل فیکٹری کا واحد مالک  تھا جو خدا کے حضور خالی ہاتھ  چلا گیا 

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا

جب لاد چلے گا بنجارہ


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر