پشاور کوچہ رسالدارشہیدان
اما میہ مسجد
امامیہ مسجد
پشاور میں دھماکہ شیعوں کے خلاف ہونے والی دہشتگردی کے واقعات میں سے ایک بہت بڑا اور خونچکاں واقعہ
ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالخلافہ پشاور قصہ خوانی بازار
کے کوچہ رسالدار میں واقع ہوا۔ یہ سانحہ 4 مارچ سنہ 2022ء بمطابق 30 رجب 1443 ہجری
کو اس وقت پیش آیا جب لوگ نماز جمعہ میں مشغول تھے۔ظالمون پہ تا قیامت لعنت ہے اور مظلوم اللہ کی بارگاہ مین کامیاب ہین
ابتدائی تفصیلات کے مطابق قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں شیعہ جامع مسجد میں
2 حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کے دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ
کی۔حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک پولیس جوان شہید جبکہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا۔
مسجد میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا،عینی شاہد کے مطابق کالے لباس میں ملبوس
خودکش حملہ آور نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر 5 سے 6 فائر کیے اور پھر اندر آ کر خود
کو اڑا دیا، دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضا پھیل گئے۔ اس سانحے
میں ۷۰سے زائد مومنین شہید جبکہ تقریبا 200 کے قریب مؤمنین زخمی ہیں-کیا
ان بے کسوں کے بے گناہ خون کے طفیل پاکستان کے حکمرانوں کے ضمیر بیدار ھونگے؟
وزیر اعظم
پاکستان عمران خان، نے اس سانحے کی مذمت کی اور فی الفور اس کے تحقیق اور زخمیوں
کو مدوا کرنے کا حکم دیا۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل راجہ ناصر عباس
جعفری نے مذمت کرتے ہوئے اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی قرار دیاشیعہ
علما کونسل کے سربراہ سید ساجد علی نقوی نے سانحے کی مذت کرتے ہوئے واقعے کو حکومت
کی نااہلی قرار دیا اور تین دن سوگ کا اعلان کرتے ہوئے 6 مارچ کو ملک گیر احتجاج
کا اعلان کیا۔6جمعیت علما اسلام کے سربراہ اور اہل سنت عالم دین فضل الرحمن نے
نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفاکیت کی بدترین مثال
قرار دیا-
عراق میں مقیم شیعہ
مرجع تقلید آیتالله سیستانی کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں سانحہ پشاور کی
مذمت کے ساتھ پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مذہبی مراکز پر
ہونے والے حملوں کی روک تھام کرے۔اسی طرح عراق کی پارلیمانی پارٹی حکمت کے سربراہ
عمار الحکیم نے بھی مذمت کی ہے
پاکستان کی
اہلسنت مذہبی پارٹی جماعت اسلامی نے سانحہ امامیہ مسجد پشاور کی مذمت کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے
سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے نمازیوں پر ہونے والے اس حملے کو انسانیت پر حملہ
قرار دیا-اور امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے عبادتگاہوں کو قتلگاہ بنانے
والوں کو حیوان سے بھی بدتر قرار دیتے ہوئے سانحہ پشاور کی مذمت کی۔اہل سنت کے
متعد دعلما نے بھی اس سانحے کی بھرپور مذمت کی جن میں تحریک منہاج القرآن کے بانی
و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جمعیت علماء پاکستان (نورانی) اور ملی یکجہتی
کونسل کے صدر ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر، جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا عبدالروف
فاروقی، جماعت اہلحدیث پاکستان کے حافظ عبدالغفار روپڑی، مرکزی جماعت اہلسنت
پاکستان کے صدر پیر عبدالخالق قادری سرفہرست ہیں
حکمراں اور
انتظامیہ کی غفلت شیعہ نسل کشی کی بنیاد ہے
کی رپورٹ کے
مطابق حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے گذشتہ شب شھدائے پشاور کی مناسبت سے
مدرسہ حجتیہ قم کی مسجد میں منعقد مجلس میں حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت کو
پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی بنیاد بتایا ۔
انہوں نے حالیہ
شہادتوں پر تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہوئے زخمی مومنین کی جلد شفا یابی کی دعا کی اور
کہا : خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہمیں ڈرانے والوں کومعلوم ہونا چاہے
کہ ہم نے مجالس کے ذریعے اپنی ماؤں کی آغوش میں شہید اور شہادت کے موضوعات سنے ہیں
کہ کس طرح ہمارے آئمہ اور شہداء کربلا نے فخریہ انداز سے شہادت کا استقبال کیا، ہم
شہادت کے منتظر ہیں، جوقوم شہادت کی منتظر ہو اسے بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے کیسے
ڈرایا جا سکتا ہے؟
حجت الاسلام سید
سجاد حسین کاظمی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ہمارے
نوجوانوں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ملک کی سلامتی کے لئے ہماری قیادت
باربارصبرکی تلقین کررہی ہے کہا: لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اگر ہمارے
اکابرین ملت اور قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا توملک سنبھالنا دشوارہوجائے گا
۔
حوزہ علمیہ قم
کے استاد نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہ ملک کا بہت بڑا قومی سرمایا صرف کرنے
والی 33 ایجنسیوں کو کیوں ان حادثات کا پتہ نہیں چلتا ؟ دہشت گردی روکنے کے لئےقومی
ایکشن پلان بنایا گیا مگرلگتا ہے اس پلان میں بھی منظور نظرخاص دہشت گردوں کو
نشانہ بنایا جا رہا ہے، عوامی قاتلوں اورشیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں کا
توکوئی نام لینے والا نہیں ہے کہا: ملکی سلامتی اورامن وامان کے نفاذ کے لئے ہماری
قیادت نے آئین کی روشنی میں مذاکرات کی حمایت کی مگرمذاکرات میں ہمارے قاتلوں
کونظرانداز کیا گیا، ہماری قیادت نے آپریشن کی حمایت کی، مگرآپریشن میں بھی ہمارے
قاتلوں کو نظر انداز کیا گیا، اب اس قومی ایکشن پلان میں امید تھی مگرقومی ایکشن
پلان کے باوجود یہ واقعات اورسانحات کسی اور چیزکی نشاندہی کر ر ہے ہیں، ہم سوچنے
پر مجبورہیں کہ ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس پر تمام ملکی ادارے متحد ہیں
۔