منگل، 3 اگست، 2021

میں کی جانا ں ماواں نو ٹھنڈیاں چھاواں

 

ہجرت کی راہوں میں بلا شبہ بڑے ہی سخت امتحان ہوتے ہیں

جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ ہجرت ہوتی کیا ہے -چنانچہ اعلان آزادی ہوتے ہی ہندوستان کے طول و عرض میں فسادات پھوٹ پڑے   ہرطرف خوف کا سماں تھا-ایسے ہرمسلمان گھر کے اندر دبک کر رہ گیا اور امان پھر بھی ناملی نا کوئ گاوں بچا نا کوئ شہر بچا جو ان درندوں سے مسلمانوں کو بچا سکتا  سینکڑوں ہندو مل کر ہاتھوں میں گنڈاسے‘ بندوقیں‘ برچھے لے کر مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ آور ہو تے اور مسلم آبادی کو تہہ تیغ کر جاتے تھے--یہ دنیا کی شاید سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں کم از کم دس ملین افراد گھر سے بےگھر ہونے پر مجبور ہوئے۔

ایسے میں پاکستان اور ہندوستان کے ایک سرحدی گاوں میں آ گ لگی اور  آبادی پر غنڈےحملہ آور ہونے لگے تو بے شمار لڑکیوں اور عورتوں نے کنووں میں چھلانگیں لگا کر اپنی عزّتیں بچا ئ تھیں سیکڑوں عورتیں اور لڑکیاں ریپ ہوئیں ،قتل کی گئیں اغوا ہوئیں کہ پھر ان کا اتا پتا نا چلا اور بچّے کرپانوں سے اور بھالوں سے شہید کئے جا رہے تھے اس افرا تفری میں  ایک ایک سولہ برس کی سکھ معصوم لڑکی اپنے خاندان سے بچھڑ گئ 'وہ ایک مسلمان بزرگ کے ہاتھ لگی بزرگ اس کو اپنے گھر لے آئے اور اس کا نکاح اپنے بیٹے صفی اللہ

سے پڑھوا دیا وہ بیٹا بھی کم عمر ہی تھا 'پھر ان کے یہاں دو بچّے پیدا ہوئے بڑے کا نام کرامت اللہ اور چھوٹے کا نام قدرت اللہ تھا-اب کرامت اللہ دو برس کااورقدرت اللہ ابھی نو مہینہ کا تھا کہ اس خاندان کواُن کی تقدیر نے ہجرت سے بھی بڑے سانحہ نے دوچار کیا،

ہوا یوں کہ ہجرت کی خونچکاں کہانیا ں تما م ہونے بعد جب لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تب کسی گوشہ سے آواز اُٹھی کہ اب سرحدوں کے آر پار جو عورتیں کسی بھی وجہ سے رہ گئ ہیں یا پھر کسی بھی طریقہ سے اپنوں سے بچھڑ گئ ہیں ان کا تبادلہ کیا جائے

اب حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا کہ ان کا تبادلہ کیا جائے اس تبادلہ میں ایک عورت کے بدلے میں  ایک عورت کا فارمولا رکھّا گیا اور ایک روزاس لڑکی کے ہنستے بستے آنگن میں بھی سپاہی آ پہنچے سپاہیوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک ہندوستانی عورت بھی ہے تولڑکی نے کہا'ہاں لیکن  میری شادی ہو گئ ہے اور میں اپنے گھر میں خوش ہوں -

لیکن آنے والے بے رحم انسانوں نے جواب دیا کہ چل کر بس انٹری لگوا دو پھر ہم تم کو واپس چھوڑ جائیں گے،اس لڑ کی نے اپنے آپ سے اپنا نو مہینہ کادودھ پیتا بچّہ جدا کر کے گھر والوں کے حوا لے کیا اور تھانے چلی گئ سپاہیوں نے لڑکی کو صریحاً دھوکہ دیا اورتھانے میں انٹری دلوا لڑکی کو پاکستانی سرحد کے پارہندوستان کی سرحدکے   اندر پہنچا دیا'یہ انّیس سو پچاس کا زمانہ تھا -اب اس معصوم لڑکی کے دو معصوم بچّے شوہر سب پاکستان میں رہ گئے اور وہ ہندوستان یں دھکیل دی گئ اور وقت نے کروٹ لی زلزلہ آزد کشمیرکا بد ترین قدرتی سانحہ وقوع پذیر ہوا اس تباہ کن زلزلہ میں  عالمی امدادی اداروں کے مطابق کل 86,000 ہزار  لوگ جاں بحق ہوئے- یہ زلزلہ بروز ہفتہ پیش آیا، جو علاقہ میں عام دن تھا اور تقریباً سکول 'کالج دفاتر چھاونیاں سب اس دوران کام کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے یہاں زیادہ ہلاکتیں سکولوں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی بتائی جاتی ہے۔ زیادہ تر بچے منہدم ہونے والی سکول کی عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے۔ تفصیلی رپورٹوں کے مطابق شمالی پاکستان میں جہاں یہ زلزلہ رونما ہوا، تقریباً قصبے اور گاوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جبکہ مضافاتی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا۔

مصیبت کی ان گھڑیوں میں دنیا بھر سے خاص و عام زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے-ایسے میں ایک نوجوان اپنی موٹر بائیک پر زلزلہ زدگا ن کی مدد کوموٹر بائیک تیزی سے دوڑاتا لئے جا رہا تھا کہ سرحد کی لائن کے اس پار کھڑی ایک بوڑھی عورت نے اسے آواز دی 'پُتّر میری گل سن لے 'بڑھِا کی آواز پر وہنوجوان اپنی بائیک بھگاتا اس کے پاس لے گیا  تو اس نے اچانک سوال کیا پُتّر تو نے میرے بیٹوں کو دیکھا ہے نوجوان اچانک اس سوال سے گھبرا سا گیا اور اس

 نے کہا ماں جی تیرے بیٹے میں نے نہیں دیکھے لیکن دیکھ لوں گا -بوڑھی عورت کہنے لگی  پُتر میرے شوہر کا نام صفی اللہ ہے ہور میرے پتراں دے ناں ایک قدرت اللہ ہے دوجے کا نام کرامت اللہ ہے -پُتّر میں  کرامت اللہ کو نو مہینہ کا دودھ پیتا چھڈ کے آئ تھی -پھر میں اپنے بچّے نہیں دیکھے -پُتر تو میرے بچّے دیکھ کر بتا دے وہ زندہ ہیں -پُتر میں نے اپنے اللہ سے کہ دیا تھا میں اپنے بیٹوں سے ملے بغیر دنیا سے نہیں جاواں گی نوجوان نے کہا اچھّا ماں میں تیرے پُتراں دی خیریت لے کے بتاواں گا پھر نوجوان بڑھیا کو چھوڑ کر اپنے فلاحی مشن پر بائک بھگا لے گیا اور ساتھ ساتھ اس نےبڑھیا کے بتائے ہوئے پتے پر اس کے بیٹوں کی خیر خبر بھی لینے لگا ،شان خداوندی ہے جسے اللہ رکھّے اسے کون چکھّے لاکھوں افراد کے زیاں کے بیچ اس بڑھیا کا علاقہ گھر بار سب سلامت تھا دونوں بیٹے بھی سلامت تھے لیکن شوہر صفی اللہ کا انتقال ہو چکا تھا 'نوجوان اس بڑھیا کے دونو ں بیٹوں سے ملا اور بتایا کہ سرحد کے پار ان کی ماں ان سے ملنا چاہتی ہے

پھر وہ دونوں بیٹے پاکستانی آ فیشلز سے ملے  اوران کو تمام صورتحال  سے آ گاہ کیا پھر دونوں طرف کے آفیشلز کے درمیان ماں اور بیٹوں کی ملاقات کروائ گئ یہ منظر بہت جذباتی تھا وہاں موجود ہر شخص رو رہا تھا

ایک صبح جب آسمان سے دستر خوان اترا


  

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دسترخوان

سورہ مائدہ قران کریم کا  سورہ نمبر 5ہے اور پارہ     7وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے- حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم

 سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک

 خوان نازل فرما -

نبی اللہ نے  انھیں تنبیہ کی اور کہا کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو ( قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔۔اور

 ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرو لیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اس طرح

 ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلا م نےپروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

 ائے ہمارے پالنے والےپروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلi

 گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ

 تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔

"حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن

 پھر ان میں سے جو شخص کافر ہواتو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکشنبہ( اتوار

 کے دن )کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا

"جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے باہر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر اتر آیا-

 حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور پھر اللہ سےدعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو

 ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش

 ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے

 ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔

حواریوں نے کہا یا  نبی اللہ کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو

 گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ

 اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت ععیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا

معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے

 تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے

 اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج

 اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے

یہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت اللہ کے حکم سے قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور

 پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا  پھرکچھ حواری لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اور اُنہوں نے خیانت بھی کی کہ کھانا ذخیرہ کیا ،'اس پر پروردگارعالم

 نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک دنیا  کی نجاست کھاتے رہے اور پھر مر گئے

 

 

 

 

 

 

سوتیلے والدین سے معذرت کے ساتھ

    

 

 

 بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں لیکن آج کل کے دور میں کوئی اپنے سگے بچوں کو اذیت پہنچانے سے گریز نہیں کرتا توسوتیلے بچوں سے کیا پیار کرے گا۔

 سوتیلےبچوں سے پیار تو دور کوئی ان سے انسانیت کا رشتہ بھی نہیں رکھنا چاہتا ، یہی وجہ ہے کہ آئے روز خبروں میں سوتیلی ماں کے بچوں اور سوتیلے باپ کے

 بچوں پر تشدد سننے کو ملتا ہے لیکن کوئی انسانیت کے جذبے سے عاری ان لوگوں کو کچھ نہیں کہہ پاتا۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی ویڈیو وائرل ہوئی

 جس میں سوتیلے باپ کو ایک بچے پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جہاں صارفین نے ویڈیو میں موجود

 شخص پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے بچے پر کیے جانے والے تشدد کی شدید مذمت کی اور ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔ویڈیو میں موجود شخص


 سے متعلق معلومات حاصل ہونےپر علم ہوا کہ یہ واقعہ تھانہ بنی کے علاقے پھگواڑی کے رہائشی   کے ساتھ ہوا۔

 بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں لیکن آج کل کے دور میں کوئی اپنے سگے بچوں کو اذیت پہنچانے سے گریز نہیں کرتا توسوتیلے بچوں سے کیا پیار کرے گا۔

 سوتیلےبچوں سے پیار تو دور کوئی ان سے انسانیت کا رشتہ بھی نہیں رکھنا چاہتا ، یہی وجہ ہے کہ آئے روز خبروں میں سوتیلی ماں کے بچوں اور سوتیلے باپ کے

 بچوں پر تشدد سننے کو ملتا ہے لیکن کوئی انسانیت کے جذبے سے عاری ان لوگوں کو کچھ نہیں کہہ پاتا۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی ویڈیو وائرل ہوئی

 جس میں سوتیلے باپ کو ایک بچے پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جہاں صارفین نے ویڈیو میں موجود

 شخص پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے بچے پر کیے جانے والے تشدد کی شدید مذمت کی اور ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔ویڈیو میں موجود شخص سے متعلق معلومات حاصل ہونےپر علم ہوا کہ یہ واقعہ تھانہ بنی کے علاقے پھگواڑی کے رہائشی   کے ساتھ ہوا۔

اور سوتیلے باپ نے کم سن بچے کو صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کیونکہ اُس نے پھل کھا لیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ سفاک شخص نے بچے کو مسلسل پلاسٹک

 کے پائپ سے مارا۔ ویڈیو میں بچے کی بلکنے اور تکلیف سے کراہنے کی آواز بھی سنی گئی۔ بچہ باپ سے مسلسل کہہ رہا تھا کہ پاپا میں نے فروٹ نہیں کھایا ساتھ میں دور بیٹھی ماں بار بار چلا کر کہہ رہی نوید اتنی مار کھالی اس نے بتا دیا، پھر بھی   نہ سنبھلا اور بچے کو مارتا رہا، اور اُس وقت تک مارا جب تک اسے سکون نہیں ملا۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد راولپنڈی تھانہ بنی پولیس نےسنگدل باپ محمد نوید کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔ ایس ایچ او بنی شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ملزم

 درزی ہے جس کے سوتیلے بیٹے کے علاوہ 2 بچے ہیں۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے پولیس کو بتایا کہ بچے نے کیلے کھائے جس پر سمجھا رہا تھا ۔ پولیس نے بچے کو میڈیکل کے لیے اسپتال منتقل کردیا

سوتیلے باپ کا کردار مشکل ہے کیوں کہ آپ بچے کے لئے باپ کے جذبات نہ رکھنے کی فکر کرسکتے ہیں۔تاہم ، اہم بات یہ ہے کہ دیکھ بھال کرنے والے ،

 دوستانہ اور محبت کرنے والا ماحول کیسے بنایا جائے اس کے بارے میں سوچنا ہے۔ یقینا. بہت ساری چیزیں فرد کے حالات پر منحصر ہوتی ہیں۔ اپنے پیدائشی والد کے بارے میں بچے کے احساسات کا احترام کریں

جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو ، وہ اپنے پیدائشی والدین کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے پیدائشی خاندانوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور ان کے

 بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب کبھی تکلیف ہوتی ہے یا ناراض ہوتے ہیں تو بچے کبھی کبھی اپنے گود لینے والے باپوں پر دھکیل دیتے

 ہیں۔ گود لینے والے باپ کی حیثیت سے ، آپ کو ان کے ساتھ کھلے رہنے کی ضرورت ہے۔ چیزوں کی وضاحت کریں اور عقلی بننے کی کوشش کریں۔ آپ کو

 غیر محفوظ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سالوں تک آپ کے ساتھ رہنے کے بعد ، وہ یقینی طور پر آپ کو اپنے باپ کی طرح پیار کرتے ہیں -اچھے

 والد بننے کا طریقہ آپ کا کنبہ انوکھا ہے اور اسی طرح کے حالات آپ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ تاہم ، کچھ ایسی مثبت خصوصیات ہیں جن کو باپ دادا میں یاد نہیں کیا جاسکتا:

یہی کیفیت سوتیلی ماوں کی بھی دیکھی گئ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی سابقہ بیوی کی اولاد کے ساتھ کتنا بہیمانہ سلوک رتی ہے ابھی حال ہی میں ایک سوتیلی ماں نے

 اپنے دو سوتیلے بچّوں کو کرنٹ لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس کا شوہر بچّوں کو اسکول بھیجنا چاہتا تھا اور دوسرے کیس میں ایک سوتیلی ماں نے اپنے دو

 سوتیلے بچّوں کو زنجیروں سے برہنہ باندھ کر بھوکا اور پیاسا رکھّا ہوا تھا جن کو بچّوں کے پڑوسیوں نےاے آر  وائ نیوز کے توسّط سے بازیاب کروایا گیا -پڑوسی

 خاتون بچوں کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہوئے، سوتیلی ماں نے ایسا کرنے سے روکا

ظلم کے شکار ان بچوں کے بارے میں علاقہ مکینوں کو اطلاع ملی تو وہ گھر میں داخل ہو گئے، انھوں نے دو چھوٹے بچوں کو برہنہ حالت میں زنجیروں سے بندھا پایا،

 علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے کافی کوششوں کے بعد گھر کا دروازہ کھلوایا، اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز پر ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں بچے زنجیروں سے

 بندھے دکھائی دیے۔محلے والوں نے بچوں کی زنجیریں کھولیں، اور جوس پلایا-بھوکا رہنے کی وجہ سے بچے انتہائی کم زور ہو چکے ہیں، ایک پڑوسی خاتون نے بتایا

 کہ وہ گھر میں داخل ہوئی تھی اور انھوں نے بچوں کو کھانا کھلانے کی کوشش کی تو سوتیلی ماں نے کھانا کھلانے نہیں دیا، جس پر پڑوسی خاتون نے سوتیلی ماں کے کھانا کھلانے سے منع کرنے کی ویڈیو بنا لی۔

محلے والوں نے بچوں کو بازیاب تو کرالیا لیکن اس دردناک قصے کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس نے ایک بار پھر بچوں کو سوتیلی ماں کے حوالے کر دیا ہے،

 پولیس نے تو ان بچوں کو دوبارہ سوتیلی ماں کے حوالے کر کے اپنی جان چھڑا لی لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی پرورش کون کرے گا، ان کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟

اے آر وائی نیوز پر بچوں کو زنجیروں سے باندھنے کی خبر نشر ہونے کے بعد معروف سماجی رہنما ضیا اعوان ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے

 کم ہے، یہ واقعہ گھریلو تشدد کا ہے جس کے خلاف قانون موجود ہے، بچوں کو بھوکا رکھنا اور زنجیروں سے باندھنا مجرمانہ فعل ہے، بچوں کو سوتیلی ماں کو واپس

 کرنے والوں کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے، اور بچوں کو کسی شیلٹر ہوم میں پہنچانا چاہیے تھا، اس کیس میں پولیس کی کوتاہی واضح نظر آ رہی ہے، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو واقعے کا نوٹس لینا چاہیے

معروف سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا بچوں کی ذمہ داری صرف ماں باپ کی ہی نہیں ریاست کی بھی ہے، چھوٹے بچوں پر ظلم کرنے والی سوتیلی ماں کو بھی سزا ملنی چاہیے،

ابھی چند مہینے پہلے دومعصوم فرشتوں کو ان کی سوتیلی ماں نے چارپائ سے باندھ کرکرنٹ لگا کر مارڈالا -بچّوں کے باپ نے کہا تھا اب بچّوں کو اسکول بھیجنا چاہتا ہے استغفر للہ

 

پیر، 2 اگست، 2021

ڈھائ ہزار سال پہلے کا ایک جلیل القدر خط


یہ جلیل القدر قصّہ پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلیّ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی ولادت مبارک سے ایک ہزار چالیس برس قبل وقوع پذیر ہوا کیسے ہوا یہ پڑھئے-تُبَّع اول حِمْیَری، یمن کا عظیم الشان  بادشاہ تھا۔ وہ ایک زبر دست لشکر کا مالک تھا۔  اس کے پاس ایک لاکھ تینتیس ہزار گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ فوج تھی۔ اس کثیر لشکر کے ساتھ وہ جس ملک یا شہر پر چڑھائی کرتا، لوگ خوف زدہ ہو جاتے اور اطاعت میں سر خم کر دیتے۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، وہاں سے دس دانا آدمی منتخب کر کے بطور مشیر اپنے ساتھ رکھتا۔اس طرح اس کے پاس چار سو بہترین علمائے دین جمع ہو گئے تھے جن کے پاس کتب سماویہ کا علم تھا 

جب وہ ممالک کو زیرِ نگیں کرتا ہوا مکہ مکرمہ میں داخل  ہوا، تو اہلِ مکہ اس کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اس وقت اس کے پاس چار ہزار حکماء اور علماء بھی تھے۔ تُبَّع نے اپنے وزیر عَمارِیس کو بلا کر پوچھا کہ اہل مکہ کے دلوں پر اس لشکر جرار کا خوف کیوں نظر نہیں آ رہا؟

اس کے مشیر نے جواب دیا 'ائے بادشاہ اس شہر میں ایک گھر ہے جس کی زیارت کو تمام دنیا سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور جتنا تیرا لشکر ہے اتنے آدمی تو روز اس کا طواف کرتے ہیں بس اس بات نے تُبَّع الحمیری کو طیش دلا دیا اور اس نے کہا فوج کو تیّار ی کا حکم دیا جائے میں خانہ ء کعبہ کو نیست و نابود کر دوں گا  اور اس کے دّام کو غلام بنا وں گا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ ککو ایسی بیماری لاحق ہوئ کہ وہ اس کا جسم اکڑ گیا اور جسم کے ہر حصّے سے بدبو دار پیپ کا اخراج ہو نے لگا 

جس کی شدت کے باعث کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے پاس نہ ٹھہر سکتا۔ اس بیماری نے اس کی نیند چھین لی۔دربار کے تمام حکماء اور علماء کو بلایا گیا لیکن بیماری کی کوئ تشخیص نہیں کر سکا جو دوا دیتا بالاخر سب سے آخر میں عالم ربّانی کو بلایا گیا عالم ربّانی نے بادشاہ کو ایک نظر دیکھا اورکہا مرض زمینی نہیں آسمانی ہے جو بادشاہ کی کسی سنگین خطا کے سبب لاحق ہوا ہے عالم ربّانی نے اعتراف کیا کہ اس نے خانہء کعبہ اور خدّام کعبہ کے لئے بری نیت کی تھی-عالم ربّانی نے بادشاہ سے کہا اگر تو توبہ کر لے گا تو تجھے نجات مل جائے گی ورنہ موت تیرے سر پر کھڑی ہے

بادشاہ نے اسی وقت صدق دل سے تو بہ کی اور کہا کہ میں دل سے خانہ ء کعبہ کی تعظیم کروں گا اور خدّام کی خدمت بھی کروں گا ۔ ابھی وہ عالم ربّانی بادشاہ کے پاس سے ہٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بادشاہ کی تکلیف رفع ہو گئی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔پھر  اس نے خانہ کعبہ کے سات قیمتی غلاف تیار کروائے۔اور خدّام کعبہ کو سات 'سات جوڑے زربفت اور کمخواب کے دئے پھر وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یثرب کی جانب روانہ ہوا 

سر زمین ِیثرب ان دنوں ایک صحرا تھا ، جہاں صرف پانی کا ایک چشمہ تھا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی عمارت تھی نہ کوئی پودا، نہ کوئی جاندار وہاں بستا تھا۔ تُبَّع نے چشمے کے پاس پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں لشکر کے سب علماء اور حکماء جمع ہوئے، جومختلف شہروں سے منتخب کر کے ہمراہ رکھے گئے تھے۔

ان میں وہ صاف باطن، دین الٰہی کا خیر خواہ، رئیس العلماء بھی تھا جس نے بادشاہ کو عظمت کعبہ سے رو شناس کروایا تھا اور اسے بلائے مرض سے نجات دلائی تھی۔ بادشاہ کے علمائے دین نے یثرب پہنچ کر ناجانے کیا محسوس کیا کہ زمین کی کنکریاں ہاتھ میں آٹھا کر سونگھیں اور پھر کہنے لگے اس شہر کی مٹّی  نبی آخر الزّماں کی خوشبو سے معمور اس لئے ہم   اب یہاں سے واپس نہیں جائیں گے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ وہ آ کر بادشاہ کے خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور کہا: ہم نے اپنے شہر چھوڑے اور مدتوں بادشاہ کے ساتھ رہے اور اس مقام تک پہنچے کہ یہاں موت نصیب ہو۔ اب ہم نے عہد کیا ہے کہ اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے بادشاہ ہمیں قتل کر دے یا جلا ڈالے۔

بادشاہ کا دل اب ہدائت یافتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے ان چار سو علمائے دین کے بہترین گھر بنوائے اور تمام گھروں کو ساز سامان سے آراستہ کیا اور پھر  لونڈیوں کو آزاد کر کے اپنے عالموں کے نکاح کرواتا گیا تاکہ جب نبئ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم دنیا میں تشریف لائِں تب مدینہ اُن کی پاکیزہ نسلوں سے معمور ہو اس کے بعد اس نے ایک متبرّک خط تحریر کیا جس کا متن یہ تھا - یہ خط تبّع الحمیری کی جانب سے نبئ آخرالزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت میں لکھا گیا 

”کمترین مخلوق تبع اول الحمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -اما بعد:

اے اللہ کے حبیب!حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پرآ گیا  ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تومیری بڑی خوش نصیبی ہو گی لیکن  اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائے گا  اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً عالم ربّانی کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک وہ دنیا نے وہ سنہری ساعتیں بھی دیکھیں جب  ایک ہزار چالیس برس گزر گئے ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور نبئ مکرّم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے مدینہ آنے پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے خط پڑھا اور مسکرائے اور فرمایا -شاباش میرے بھائ

محفل در سمعان اور بایزید بسطامی

 

حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ  اللہ تعالٰی  کے ایک نیک اور حق پرست مسلمان گزرے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کرتے ہوئے استغراق اورغنودگی کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان کی جانب چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا

 لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئ اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیا

وہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئ اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  نے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائ سلب ہو گئی۔

راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جوا ب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے لئے آ کر شامل ہوا ہئے

 راہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائے ہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کر راہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئے

  اس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نے تحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا 

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئ دوسرا نا ہو 

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

عالم ہئے جس کا کوئ شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے 

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئ تیسرا نہیں ہئے 

با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے 

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئ چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں 

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں 

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں 

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہو

بایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا  

  اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہو

بایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا

(جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں ن ہو 

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17

  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو 

بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے 

 اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئ فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو 

بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہوہ

 راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو 

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو 

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے 

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے

راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃ

 کیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2  راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

    راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں 

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں 

راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے 

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی 

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی 

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

 راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے 

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام 

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا 

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا 

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر

خرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111 

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں 

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں 

  راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے 

بایزید: بلبل کہتی ہئے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ 

راہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہئے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہئے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطال

راہب اعظم :مور کیا کہتا ہئے 

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ 

راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحل

راہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : لعن اللہ العشار

راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہئے 

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہئے اور پھر طلوع ہوتا ہئے

راہب اعظم : طامّہ کیا ہئے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے 

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے 

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں 

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے 

  بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ

   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئے

بایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے 

وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیا

بایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے 

راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?

بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں

راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیں

بایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیں

راہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہئے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہئے

بایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہئے جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے

- اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہئے

اور ان چاروں کا مرکز مغز ہئے جو کاسہء سر میں بند ہئے     

راہب اعظم :جب دن ہوتا ہئے تو رات کہاں چلی جاتی ہئے اور جب رات چلی آتی ہئے تو دن کہاں چلا جاتا ہئے

 بایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہئے 

راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کے ہیں اور تین پھول سائے میں ہیں

بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہئےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہئے 

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں 

   راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے 

بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہ السّلام  اور امام حسین علیہ السّلام ہیں

اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا 

اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔


 

 


منگل، 20 جولائی، 2021

" بی بی پاکدامن "خواہرامام حسین علیہ السّلام

 


اہل بیت نبوّت کی قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو نا صرف پورے برّ صغیر میں بلکہ شائد دنیا کے کسی بھی حصّے میں کسی خاتو ن نے

بعد از شہادت اس طرح سے دین کی بقا کا چراغ نہیں جلایا ہوگا جس طرح سے بی بی پاک دامن نے اس وقت کے کافرانہ کدے   میں کبھی نا بجھنے والابقا ئے دین کا چراغ روشن کیا ۔بی بی پاک دامن

ہاں ! یہ وہی بت کدہ تھا جس کے آتش کدوں میں کبھی بھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی اور یہ وقت محمّد بن قا سم کےسندھ میں آمد سے کہیں پہلے کا تھااور یہ روشنی بی بی پا کدامن کے دامنِ پاک سے اس وقت طلوع ہوئ جب سفر کربلا کے دوران حضرت اما م حسین علیہ السّلام امام عالی مقام نے جناب مسلم بن عقیلکی شہادت کی خبر بہ رنج و ملال سنی تو،بی بی رقیّہ جو اب جناب مسلم بن عقیل کی بیوہ تھیں ان سے فرمایا ،بہن اب تم برصغیر چلی جاؤ ،اس وقت لاہور نام کا کوئی علاقہ موجود نہیں تھا ،بی بی رقیّہ نے پس وپیش کی کیونکہ وہ اپنے بھائ سےکسی طور پر جدا نہیں ہونا چاہتی تھیں ۔بہن کا تردّد دیکھ کر امام عالی مقام نے بی بی رقیّہ

 سےناجانے کیا رازونیاز کئے کہ وہ قافلہء کربلا سے جدا ہو کر برّصغیر کےلئے روانہ ہو گئیں اس طولانی سفر میں ان ک ک دو کمسن بیٹیا ں اور جناب حضرت مسلم بن عقیل کی دو کمسن بہنیں اور ایک کام کرنے والی خادمہ حلیمہ (المعروف مائ تنوری ،کیونکہ وہ تندور پر روٹیاں پکاتی تھیں) اور بروا ئتےتین  مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،یہ غریب الوطن جنگل کے ایک ٹیلے پر قیام پذیر ہوئےاس وقت دریا ئے  راوی کے کنارے دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ایک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا اور اسکی راجدھانی میں بت پرستی کا رواج تھا

ان غریب الوطن اہلبیت کے افراد کو یہاں پہنچے ہوئے چندروز ہی گزرے تھے کہ راجہ کے محل میں اونچے چبوتروں پررکھّے ہوئے سنگی بت محل کے فرش پراوندھے منہ گر گئے اور راجہ کی راجدھانی کے آتش کدو ں میں جلنے والی صدیوں پرانی آگ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو دیکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اوربستی کے اندر بھی کہرام مچ گیا کہ ان کے دیوتاؤں کا یہ حشر کیو ں کر ہو گیا ،راجہ نے فوراً محل میں نجومیوں اور جوتشیوں کو طلب کر کے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہو اہے نجومیوں اور جوتشیوں نے ستاروں کی چال سے حساب کر کے بتایا کہ ائے راجہ تیری راجدھانی میں کچھ پردیسی وارد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ حال ہواہے اور ستاروں کی چال بتارہی ہئے کہ بہت جلد تیر ی حکومت بھی سر نگوں ہوجائے گی ،نجو میوں کی بات سن کر راجہ نے فوراً ایک کماندار کو طلب کیا اور کہا کہ ابھی ابھی ان پردیسیوں کو ہمارے سامنے محل میں حاضر کیا جائے،،کماندار سپاہیوں کو لے کر گیا اور پورا شہر چھان مارا لیکن کہیں بھی کوئ نو وارد اجنبی انہیں نظر نہیں آیا ،لیکن جب وہ پردیسیوں کی تلاش میں جنگل کی جانب گئے تو وہاں انہوں نے  جنگل کی لکڑ یوں کے سہارے چادروں کے ایک خیمہ میں  اجنبیمسافردیکھے  ،،کماندار نے خیمے کے با ہر سے آواز دی کہ پردیسیوں ہمارے ساتھ چلو تمھیں ہمارا راجہ بلا تا ہئے ۔کماندار کی آواز سن کر بی بی رقیّہ خیمے کے در پر تشریف لایئں اورپردے کے پیچھے سے اس وقت کی مروّجہ زبان سنسکرت میں جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اورکسی کو کوئ نقصان نہیں پہچانے آئے ہیں ہم کو ہمارے حا لپرچھوڑدیاجائے ،کماندار رحم دل انسان تھا اس پاکیزہ ہستی کا جواب سن کر واپس لوٹ گیا اور باشاہ سےکہا اے راجہ وہ لوگ یہاں آنے کو تیّارنہیں ہیں ،راجہ کو اس جواب کے سننےکے ساتھ ہی غصّہ آگیا اور اس نے اپنے بیٹے راج کمار کنور بکرما ساہری کو طلب کرکے کہا پردیسیوں کو ابھی ابھی ہمارے حضور حاضر کیا جائے نوجوان راج کمار نےاپنے زور با زو کی قوّت پر نازاں خیمے کے در پر آ کر حکم دیا کہ سب پردیسی خیمے سے باہر آکر اس کے ساتھ محل میں چلیں یہ راجہ کا حکم ہے راجکمار کی بات کے جواب میں پھر بی بی رقیّہ در خیمہ پر آئیں اور راج کمار سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے- ہم کو یہیں بیٹھا رہنے دیا جائے بی بی رقیّہ کی جانب سے انکار پر راج کمار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سارے پردیسیوںکو گرفتار کر لیا جائے اور جونہی سپاہی خیمے کی جانب جھپٹے ویسے ہی خیمے کے مقام پر زمین شق ہو گئ اورخیمہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر دور ہوا میں جا گرا اوراسی لمحےراج کمار نے چادروں میں لپٹی ہوئ بیبیوں کو شق زمین کے اندر تہہ زمین جاتےدیکھا ،،کیونکہ وہ بی بی رقیّہ سے مخاطب تھا اس لئے وہ بہ خوبی سمجھ گیا کہ کون سی بی بی پردے کی اوٹ میں اس سے قریب  اس سے مخاطب تھی جونہی یہ قافلہ ء اہلبیت نبوّت زمین کے اندر گیا اور زمین پھر جو کی توں برابر ہو گئ اوربراوئتے بی بی رقیؤہ کے دوپٹّے کا پلّو باہر رہ گیا ،اپنی آنکھو ں کے سامنے اس منظر نے راج کمار کو حوش و حواس سے بیگانہ کر دیا وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر وہ بی بی رقیہ کے دوپٹّے کے پلّو کے قریب بیٹھ  کر روتے ہوئے کہنے لگا بڑی بی بی مجھے معاف کر دیجئے-راجہ کے سپاہیوں نے اسے اپنے ساتھ لےجانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا , سپاہیوں نے محل میں واپس جاکر راجہ کو بتایا کہ سارے پردیسیوں کو زمین کھا گئ ہئے اور ولی عہد واپس آنے کو تیّار نہیں ہے تب راجہ خود بیٹے کو لینے آیا اور اس سے کہا کہ تم میرے ولی عہد شاہزادےہومیری تمام جائداد تمھاری ہئے لیکن راج کمار نے کہ دیا کہ اسے جائداد اور سلطنت کچھ بھی نہیں چاہئے بادشاہ نےاس کا جنو ن دیکھ کر جس جگہ وہ بیٹھتا تھا وہیں پر کئ میل کا علاقہ اس کے نام کر دیا اور ساتھ میں رہنے کے لئے ایک بڑی عمارت بھی بنا دی لیکن راج کمار اسی مقام پر دن کی دھوپ اور رات کے ہر موسم میں زمین پر ہی بیٹھا روتا  رہتا اور دونو ں ہاتھوں سے خاک اڑاتا اور وہی خاک سر پر بھی ڈال لیتا اور ساتھ میں کہتا 'یہ میں نے کیا کیا-جب اسکےپچھتاوے کا جنون عروج پر پہنچا تب ایک رات بی بی رقیّہ اس کے خواب میں تشریف لایئں اور اس سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے،چنانچہ راج کمار راجدھانی کے اندر ایک مولانا سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیاور اب اس نا یا ۔ اب اس کا نام جمال دین رکھّا گیااس کے کچھ عرصے بعد پانچ ہزار افراد کا ایک ہندو قبیلہ اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ نقل مکانی کر رہا تھا کہ اس قبیلے کے سردار کی نظر ایک عبادت گزارنوجوان پر پڑی سردار اس نوجوان سے ملا اور پھر اس نے نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرلے نوجوان نے کہا کہ وہ اپنی بڑی بی بی سے

ہو گی  پوچھے بغیر کوئ کام نہیں کرتا ہے ،اس لئے اسے بڑی بی بی سے اجازت لینیاگر انہوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک ہے میں 

تمھاری بیٹی سے شادی کر لوں گا اور اگر منع کر دیا تو تم برا مت ماننا اور پھر جب جمال دین نے بی بی رقیّہ سےشادی کی اجازت 

طلب کی تو آ پ نے اسے شادی اجازت دیدی ،جمال دین لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا  اور جب شادی کی رات گزر کر صبح ہوئ تو لڑکی کی تمام معزوری  دو ر ہو چکی تھی ،لڑ کی کے باپ نے یہ معجزہ دیکھا اور اپنے قبیلے کے پورے پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام لے آیا-


بدھ، 30 جون، 2021

عالم بے بدل علّامہ طالب جوہری

 

 

کچھ ہستیاں ہماری اس جیتی جاگتی دنیا میں ایسی بھی ہوتی جن کے لئے  دل چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں لیکن بہر حال موت ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے جو یہاں آیا اسے جانا لازم ہے ،علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اکیاسی برس کی عمر میں دار فانی سے دار بقا ء کی جانب کوچ کر گیا

ان کی عالمانہ زندگی کا کچھ مختصر احوال

فخر ملّت'سرمایہ ء قوم 'عالم بے بدل علّا مہ طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہارکے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اس وقت کے دستور تعلیم کے مطابق  اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے --ان روشن درس گاہوں میں علم دین کی شمع جلاتے ہوئے   آگے بڑھتے رہے

علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں

علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔

عقلیات معاصرعلامہ طالب جوہری کیونکہ اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس  رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی

علا مہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ  شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔

شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے کیا  تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے

بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے-وہ ایک عظیم سکالر تھے۔

 ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔ لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔

لباس میں وہ ہمیشہ سفید پاجامہ سیاہ اچکن پہنتے تھے جس کے ساتھ  سر پر عمامہ ہوتا تھا تھا 'یہی ان کی وضع داری کی علامت اور انکی عالی شان شخصیت کی پہچان تھی جو تادم حیات قائم رہی  -نرم خوئ اور نکتہ سنجی ان کے مزاج کا حصّہ تھی وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی  کا حصّہ بنا لیا تھا  -

وہ صرف شعیوں کے نہیں پوری قوم کے مبلّغ تھے -نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خطابت کے ماہر تھے۔ وہ علم حاصل کرنے کا ذریعہ تھےعلامہ طالب جوہر نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی، 1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔

عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس انہوں نے چوٹی کے علماء کی تدرس سے فیض حاصل کیا -، وہ ایسے  بحر العلو م کی مانند تھے جس سے ہر کوئ اپنے فائدے کا علم حاصل کرتا تھا-

اور یہ  بے پناہ مقبول عام ہستی ہمارے درمیان سے دار فانی سے دار بقا ءکی جانب کوچ کر گئ  - ان کی وفات سےعلم کا ایک زرّیں  باب ختم ہوا۔ 

خدا رحمت کند ایں عاقان پاک طینت را


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر