ہفتہ، 17 مئی، 2025

ہم شکل پیمبر(ص)حضرت علی اکبر

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم- نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کرتے تھے۔آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست،  کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔جیسا کہ اس  خدا نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔


مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع(  انا للہ و انا الیہ راجعون جاری تھا)۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا: بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کرتے تھے۔


ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی ۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے ۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:ترجمہ آئت :-"بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ ا جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں   مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے  -خیام اہل بیت میں شور شین برپا ہوا کہ جناب علی اکبر  جنہیں  جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ امام حسین محافظ شریعت ہر ممکنہ قربانی پیش کرنے پر مصمم تھے اور ہر قیمت پر، ہر قربانی پر شجر اسلام کی جوانی کے خواہاں تھے۔  حفاظت  دین کے وعدے اچھی طرح یاد تھے  ، سوچا اگر بر وقت دین کی جوانی کی ضمانت پیش نہ کی جائے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام کی محنتیں بے ثمرہ ہو کر رہ جائیں گی۔


 محافظ شریعت نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی آغوش مبارک میں پرورش پائی تھی، اس لیے دین کی بربادی ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے، اچھی طرح یاد تھا کہ نانا پاک نے جب آغوش میں ایک طرف اپنے اسی نواسے اور دوسرے طرف اپنے فرزند ابراہیم کو بٹھایا ہوا تھا۔ خداوند متعال نے امتحان لیا تھا کہ ان دو بچوں میں سے جو زیادہ عزیز ہے، دوسرے کو اس پر قربان کرنا ہو گا تو اس قدسی وجود نے اپنے فرزند کو نواسے پر قربان کر لینا منظور کیا تھا اور فرمایا تھا کہ:حسین منی وانا من الحسین، اب اس حدیث شریف کے ذیل کے اثبات کا موقع تھا۔ دین خدا سوالی تھا، سوال جوانی کا سوال تھا، ہجرت ختمی مرتبت کے ساٹھ سال گزر چکے تھے، ساٹھویں سال کا نصف حصہ گزرنے کے بعد ماہ رجب کے اواخر میں نواسہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہجرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوم محرم الحرام 61 ہجری کربلا پہنچ چکے تھے۔ نئے سال کے پہلے مہینے کے نو دن گزر چکے تھے ایک رات کی مہلت لی تھی وہ بھی گزر چکی تھی۔ اعوان و انصار اپنی نصرت کے وعدے نبھا چکے تھے، دین کو کچھ قوت ملی تھی،اب جبکہ ہاشمی خون دین کے کام آیا چاہتا تھا،


حضرت علی اکبر کی شخصیت کو حضرت نے خیمہ کے نزدیک کھڑے ہو کر ان الفاظ میں بیان کیا ہے "اللھم  اشھد علی ھٰولآء القوم قد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک و کنّا  اذا اشتقنا الی نبیّک نظر نا الی وجھہ "خدایا! تو اس قوم جفاکار کے مظالم پر شاہد رہنا کہ ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے کہ جو تیرے رسول سے  گفتار ،کردار ،اور رفتارمیں  سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جب بھی ہم کو رسول کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تھا  تو ہم اس کی زیارت کر لیتے تھے   جناب علی اکبرنےجب باپ کی غربت اور تنہائی کو دیکھا تو ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا خدمت امام میں آئے اور جنگ کرنے کی اجازت چاہی فوراً آپکی   آنکھوں سے  اشک جاری ہوگئے مولا نے علی اکبر کو سینہ سے لگایا اور پھول کی طرح سونگھ کر رونے لگے حسین نے خود اپنے ہاتھوں سے اکبر کو لباس جنگ پہنایا وہ چمڑے کاپٹکا  جو امیر المؤمنین کے تبرکات میں سے تھاکمر پر باندھا اور عقاب جو کہ  ایک خاص مرکب تھا سواری کے لئے آمادہ کیا صاحب الدمعۃ الساکبۃ تحریر فرماتے ہیں  "لمّا توجہ الی الحرب اجتمعت النسآء حولہ کالحلقۃ "جب علی اکبر میدان  کو جانے لگے تو تمام عورتوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہنے لگیں "ارحم غربتنا "اکبر ہماری غربت پر رحم کھاؤ ہم کو تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ ! "و لا تستعجل  الی القتال "میدان قتال کو  جانے میں اتنی جلدی نہ کرو "فانہ لیس لنا طاقۃ فی فراقک " ہم سے تمہاری جدائی برداشت نہ ہو سکے گی   پھر نفس مطمئنہ نے لفظ عشق کے مقدس پیکر کو جاودانی معانی کی ابدی زندگانی عطا فرما کر وہ جلوہ خلق فرمایا کہ دین محفوظ، انبیاء راضی، سید الانبیاء خوشنود اور خالق اکبر أحسن الخالقین کی رضایت بھری آواز میدان کربلا میں  آئت قران کی گونج سنائ دی :

یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی


جمعرات، 15 مئی، 2025

ترکی کی سلیمانیہ جامع مسجد




ابتدائے اسلا م  سے ہی  تمام دنیا کے اسلامی ممالک میں مسجدیں بنانے پر مسلمانوں کی خصوصی توجہ رہی ہے  اور خاص طور پر اسلامی  بادشاہان وقت نے کثیر سر مائے  سے   عظیم الشان مسجدیں بنائیں  ایسی ہی ایک  عطیم الشان  مسجد ہمار ے برادر اسلامی ملک  تر کی کے شہر استنبول  میں    ہے۔ یہ مسجد سلطان سلیمان اول (سلیمان قانونی) کے احکام پر مشہور عثمانی ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ ۔ایاصوفیہ کو فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا)اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنان پاشا نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ عظیم شاہکار تخلیق کیا۔1660ء میں آتش زدگی کے نتیجے میں مسجد کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد سلطان محمد چہارم نے اس کی بحالی کا کام کرایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسجد میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد مسجد کی آخری تزئین و آرائش 1956ء میں کی گئی۔آج کل یہ استنبول کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد سلیمانیہ کی لمبائی 59 میٹر اور چوڑائی 58 میٹر ہے۔ اس کا گنبد 53 میٹر بلند اور 57.25 میٹر قطر کا حامل ہے۔


فن تعمیر-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، خود بھی مسجد کے داخلی راستے کے سامنے ایک مرکزی چشمہ ہے۔ صحن کی تعمیر سنگ مرمر، گرینائٹ اور پورفری کے کالموں کے ساتھ غیر معمولی شان و شوکت کا مظہر ہےصحن کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔دونوں لمبے لمبے میناروں میں تین گیلری ہیں اور ان کی اونچائی 63،8 میٹر (209 فٹ) تک پہنچ جاتی ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں کیونکہ مسجد میں چار مینار تعمیر کرنے کا حق صرف سلطان کا تھا۔ اگر کوئی شہزادی یا شہزادہ مسجد تعمیر کرتا تھا تو وہ دو اور دیگر افراد ایک مینار تعمیر کرسکتے تھے۔ میناروں میں کل 10 گیلریاں ہیں، جو روایت کے مطابق اشارہ کرتی ہیں کہ سلیمان اول دسویں عثمانی سلطان تھے۔مرکزی گنبد کی اونچائی 53 میٹر (174 فٹ) ہے اور اس کا قطر 26.5 میٹر (86.9 فٹ) ہے۔ جس وقت یہ تعمیر کیا گیا تھا، اس وقت گنبد عثمانی سلطنت کا سب سے اونچا گنبد تھاسلیمانیہ مسجد کا اندرونی حصہ سلیمانیہ مسجد کی محراب-مسجد کا اندرونی حصہ ایک مربع ہے، جس کی لمبائی 59 میٹر 194 فٹ) اور چوڑائی 58 میٹر (190 فٹ) ہے، جس سے ایک وسیع و عریض جگہ بنتی ہے۔گنبد کے ساتھ آدھے گنبد جڑے ہوئے ہیں۔ محراب کے اوپر قرآن پاک کی سورہ فاتح کی آیات کندہ ہیں۔


مسجد کی قبلہ دیوار کی طرف سلطان سلیمان اول اور ان کی اہلیہ حورم سلطان کے الگ الگ مقبرے موجود ہیں۔حورم سلطان کا مقبرہ ان کی وفات کے سال 1558 میں تعمیر ہوا۔  جبکہ سلطان سلیمان کے مقبرہ کی تعمیر ان کی وفات کے سال 1566 میں شروع ہوئی تھی اور یہ حورم سلطان کے مقبرے سے بڑا ہے اور اس مقبرے میں ان کی بیٹی مہریمہ سلطان اور بعد میں دو سلطانوں سلطان سلیمان دوم (1687–1791 میں حکومت کی) اور سلطان احمد دوم (1691–1796) کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سلطان سلیمان اول کی والدہ دل آشوب صالحہ اور ہمشیرہ عائشہ کی قبریں بھی انہی مقبروں میں موجود ہیں۔ سلطان مصطفٰی ثانی کی صاحبزادی صفیہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ مسجد کی دیواروں کے ساتھ ہی شمال کی جانب سنان پاشا کا مقبرہ ہے۔کمپلیکس-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، سلیمانی مسجد کو رفا ع عامہ کے طور پر بنایا گیا تھا تاکہ مذہبی اور ثقافتی دونوں ضروریات پوری کی جا سکیں۔اصل کمپلیکس میں خود ہی مسجد، ایک اسپتال، پرائمری اسکول، پبلک حمام، ایک کاروان سرائے، چار قرآن اسکول، حدیث کی تعلیم کے لیے ایک خصوصی اسکول اور ایک میڈیکل کالج شامل تھے۔


 ایک عوامی باورچی خانہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جس نے غریبوں کو کھانا پیش کیا۔ ان میں سے بہت سے ڈھانچے اب بھی موجود ہیں اور سابقہ ​​عمارت اب ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے۔ سابقہ ​​اسپتال اب ایک چھپائی کی فیکٹری ہے جس کی ملکیت ترک فوج کی ہے۔ مسجد کی دیواروں کے بالکل بالکل شمال میں، آرکیٹکٹ  سینان کا مقبرہ ہے۔ اسے 1922 میں مکمل طور پر بحال کیا گیا تھا۔ ترکی میں مساجد صرف نماز ادا کرنے کی جگہ نہیں بلکہ ان کی مرکزی حیثیت ہے. جیسا کہ ستنبول کی نیلی مسجد میں مدرسہ، اسپتال اور دیگر ضرورت کی چیزیں بھی  دیکھی جا سکتی ہیں  جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ترکی میں مسجد کو  صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ عوام الناس کی فلاح کا ادارہ بھی کہا جا سکتا ہے-سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور ترین معمار سنان پاشا   کا سب سے بڑا شاہکار تھی سلیمانیہ مسجد جسے بنوایا بھی سب سے عظیم سلطان نے تھا، سلطان سلیمان عالیشان نے۔ 1557ء میں بننے والی اس مسجد کی اونچائی 174 فٹ ہے جبکہ میناروں کی تعداد چار ہے۔ دو بڑے مینار 249 فٹ بلند ہیں اور دو نسبتاً چھوٹے ہیں اور 209 فٹ کے ہیں۔


تقریباً ساڑھے چار سو سالوں تک استنبول شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز اسی سلیمانیہ مسجد کو حاصل رہا-لیکن اگر  کو  ئ پرانا عثمانی طرزِ تعمیر دیکھنا  چاہے  تو اس  کو ترکی کے شہر بورصہ جانا پڑے گا جہاں کی جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں کے چوتھے سلطان بایزید اوّل نے تعمیر کروائی تھی،جب بورصہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی تعمیر 1399ء میں مکمل ہوئی تھی اور آج بھی اس خوبصورت شہر کے مرکز میں پوری شان اور شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔بایزید اوّل تاریخ میں بایزید یلدرم کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے 1396ء میں معرکہ نکوپولس میں یورپ کی مشترکہ فوج کو ہرایا تھا۔ یہ ایک صلیبی جنگ تھی جس کی اپیل عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے پوپ بونیفیس نہم نے کی تھی۔ سلطان بایزید کی یہ کامیابی آج بھی تاریخ کی عظیم جنگی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔بہرحال، اس جامع مسجد کے چھوٹے بڑے کُل 20 گنبد اور 2 مینار ہیں۔ مسجد 3 ہزار مربع میٹرز سے زیادہ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے

بدھ، 14 مئی، 2025

فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی'

  



فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی

 فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


انچولی شاہراہ پاکستان کے نزدیکی علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 17 اور 20 کو کہا جاتا ہے۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان انچولی روڈ بھی واقع ہے، جو شاہراہ پاکستان سے النور موڑ کو جاتی ہے۔ انچولی روڈ پر شاہراہ پاکستان کے سرے پر انچولی بس اسٹاپ ہے جبکہ دوسرے سرے پر النور موڑ ہے۔ عام طور پر انچولی کا نام فیڈرل بی ایریا بلاک 20 کو دیا جاتا ہے، لیکن اہلیانِ بلاک 20 اپنے علاقے کا نام سادات سوسائٹی بتاتے ہیں۔ ۲ کا نام مولانا محمد علی جوہر کے نام ہر جوہر آباد ہوگیا بلاک نمبر ۳کا نام حسین آباد "حسین ٹیکسٹائل مل کے گجراتی مالک حسین سیٹھ کے نام پر رکھ دیا گیا اسی طرح بلاک۲ اور آٹھ نمبر کا نام عزیز آباد کے ڈی اے کے ممبر لینڈ عزیزالحق  تھانوی کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے اس بستی کو بسانے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا عزیز الحق تھانوی ممتاز عالم دین جامع مسجد جیکب لائن کے خطیب وامام احتشام الحق تھانوی کے عزیز تھے عزیز الحق تھانوی کا انتقال دسمبر 1975 میں انکی نماز جنازہ احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ۔



 اسی طرح بلاک نمبر 9،14اور 15کی دستگیر کالونی کہلاتی ہے ان علاقون میں مکانات تعمیر کرنے والے ادارے کانام  دستگیر کوآپریٹیو سوسائٹی تھا اور  ان کی کنسٹرکشن کمپنی کا نام دستگیر کنسٹرکشن کمپنی تھا جو پیران پیر دستگیر حضرت عبدالقادر جیلانی رح  کے نام سے منسوب کیا گیا تھا 1966کے بعد گلبرگ،سمن آباد، نصیر آباد، انچولی وغیرہ نام رکھے گئے 1970میں بلاک 16فیڈرل ایریا میں الاعظم لمٹیٹڈ نے یوسف پلازہ کے نام سے ایک بڑا رہائشی منصوبہ شروع کیا تھا ۔31سال قبل1985 میں  یہان معروف سماجی شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی نے ایدھی میت خانہ ، غسل خانہ قائم کیا تھا فیڈرل بی ایریا کی مرکزی شاہراہ پاکستان ( سپر ہائی وے) کا شمار ملک کی قومی شاہراہ میں ہوتا ہے۔ اس سڑک کا افتتاح 29؍ اپریل  1970ء کو سابق صدر مملکت یحییٰ خان نے کیا تھا 


افتتاحی تقریب  میں گورنر مغربی پاکستا ن لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان ، وزیر صنعت حفیظ الدین، کمشنر کراچی مسعود نبی نور۔ڈپٹی کمشنر کنور ادریس، ڈی آئی جی پولیس محمد یوسف سمیت چاروں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد شاہراہ پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تھا . سڑک لیاقت آباد نمبر ۱۰ مسجد شہدا سے شروع ہوکر براستہ کریم آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، انچولی سوسائٹی سہراب گوٹھ پرختم ہوتی ہے۔ سہراب گوٹھ الاآصف اسکوائر سے حیدرآباد کے درمیان گزرنے والی سپر ہائی وےکو ایم نائین کا نام دیا گیا ہے ۔ شاہراہ پاکستان پر کریم آباد ،واٹر پمپ ، عائشہ منزل اور سہراب گوٹھ کے مقام پر فلائی اوور تعمیر کئے گئے ہیں شہر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز کو رات ۹ بجے سے صبح ۶ بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات  سے صبح ۶ بجے تک چلائے جانے کا قانون بنایا تھا لیکن اس  پر عمل درآمد نہیں ہوسکا      


 پورے ضلع وسطی کا ایک  منفرد گراؤنڈ   ہوتا تھا جس کو سنگم گراؤنڈ کہا تھا  - اپنے ماضی میں اتوار کے دن   علاقے کے نوجوان سنگم گراؤنڈ میں کر کٹ کھیلتے تھے -سابقہ مکہ چوک، اور اب لیاقت علی خان چوک، سے تھوڑے فاصلے پر واقع 3200 سکوائر میٹر پر پھیلا یہ میدان ماضی میں سنگم سپورٹس کرکٹ کلب کے نام سے منسوب  تھا -     ۔اس گراؤنڈ میں  ایک دن کے لئے   کئ سو دکانوں کا سستا بدھ بازار بھی لگتا تھا      -پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے ضلع وسطی میں 6پارکوں کا افتتاح کر دیااخوت فیملی پارک کے افتتاح کے بعد بلدیہ وسطی کے محکمہ باغات کی جانب سے تعمیرِ نو کے بعد بحال کئے جانے والے باغات کی گولڈن جوبلی ہوگئی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سیاست سے بالا تر ہوکر ضلع وسطی کی خدمت کر رہا ہوں عوام بھی ضلع کی بحالی کے کاموں میں تعاون کریں،


پیپلز پارٹی عوامی جماعت ہے اور عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود اس کا اوّلین ہدف ہے انہوں نے کہا کہ ضلع وسطی میں نتیجہ خیز منصوبوں اور خدمات پر ڈپٹی کمشنر طہٰ سلیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں اس موقع پر طحہٰ سلیم نے ڈاکٹر عاصم کی جانب سے ضلع وسطی کے عوام اور بلدیہ وسطی کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے تعاون پرشکریہ ادا کیابعد ازاں ڈاکٹر عاصم حسین نے ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی طحہٰ سلیم کے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و شہنشاہ غزل مہدی حسن کے نو تعمیر مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی اور مہدی حسن کے لواحقین سے ملاقات بھی کی۔افتتاح کیے جانے والے پارکس میں راہ عمل پارک ناظم آباد نمبر3،رانی باغ نارتھ ناظم آباد بلاک H،عثمان غنی پارک گلبرگ بلاک 9،شریف شہید پارک سیکٹر 5E نیو کراچی، اخوت فیلمی پارک ناظم آباد نمبر1،KDA چورنگی پارک نارتھ ناظم آباد اور بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار مہدی حسن کے مقبرے کی تعمیر نو بھی شامل ہیں۔

 

اتوار، 11 مئی، 2025

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ اور راہب اعظم part-2

 


راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو 

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو 

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4کا  حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ) 

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

 راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے

  راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃ کیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

 راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2 

 راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

     راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں 

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں

  راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے 

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ

 سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی 

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی 

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی 

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے 

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض

حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام 

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا 

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا     

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر

خرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111 

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں 

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں 

   راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے 

بایزید: بلبل کہتی ہے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ ْراہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطالراہب اعظم :مور کیا کہتا ہے 

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحلراہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے 

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

 راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : لعن اللہ العشار

 راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہے 

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہے اور پھر طلوع ہوتا ہےراہب اعظم : طامّہ کیا ہے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے 

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے 

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں 

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئےبایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیابایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں-راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیںبایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیںراہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہےراہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہےبایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہے

 جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہے اور ان چاروں کا مرکز مغز ہے جو کاسہء سر میں بند ہے      راہب اعظم :جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے اور جب رات چلی آتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہےبایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہے راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کے ہیں اور تین پھول سائے میں ہیں بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہے 

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں    راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہالسّلام  اور امام حسین علیہالسّلام  ہیں  اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا--- ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔

جمعہ، 9 مئی، 2025

حضرت بایزید بسطامی رح اور راہب اعظم

 


 

حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ  اللہ تعالٰی  کے ایک نیک اور حق پرست مسلمان گزرے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کرتے ہوئے جبکہ تنہائی بھی میری رفیق سفر بھی تھی استغراق اورغنودگی کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان کی جانب چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئ اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔


 چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیاوہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئ اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  نے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائ سلب ہو گئی۔


راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جوا ب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے لئے آ کر شامل ہوا ہئے  راہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائے ہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،


راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کر راہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئے اس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نے تحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا 

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئ دوسرا نا ہو 

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

 عالم ہئے جس کا کوئ شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے 

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئ تیسرا نہیں ہئے 

 با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے 

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئ چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں 

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں 

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں 

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہوبایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا  

   اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہوبایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا (جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

 راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں نا ہو 

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے 

  اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئ فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

 راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہو راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حو الہ دیا

جاری ہے

بدھ، 7 مئی، 2025

بورے والا ٹیکسٹائل مل -جو مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئ

 قیام پاکستان کے  ساتھ ہی   حکومت   پاکستان نے  ملک میں صنعتی زون بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے  پاکستان انڈسٹریل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اسی ادارے نے بورے والا ٹیکسٹائل مل کی  بنیاد رکھی اور پھر کراچی کی  میمن برادری  کی  ایک مشہور کاروباری   شخصیت   سیٹھ داؤ د نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال کر  اس کی حیثیت کو   عروج دیا   -سیٹھ داؤد چاہتے تھے  اس مل   سے   نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں بلکہ وہ ملکی ترقی میں بھی بھر پور کردار ادا کر سکے۔سیٹھ  داؤد  نے بوریوالا ٹیکسٹائل ملز پر شبانہ روز محنت کر کے  مل کو  صنعتی  زون کی  ایک روشن مثال بنا دیا تھا   ۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔  اس کے نام  کو مختصر  کر کے   صرف تین الفابٹ

    B-T- Mمیں بہت بڑی جسامت میں مل کی بلند ترین عمارت کی ٹنکی پر نصب کیے گئے تھے،


جو دن کو تو اتنے نمایاں نہ ہوتے لیکن رات کو سرخ رنگ کی برقی روشنی میں نہا کر یہ دور دور تک لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھتے۔یہ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ایک ایسا صنعتی منصوبہ تھا جو نہ صرف مدتوں ملک کی صنعتی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتا رہا۔ بلکہ یہ مقامی آبادی کو روزگار مہیا کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ تقریباً چار ہزار کے قریب اس مل کے باقاعدہ ملازم تھے۔ جن میں اکثریت تو مقامی لوگوں کی تھی۔ لیکن کئی خاندان وطن عزیز کے دور دراز علاقوں سے آ کر اسی مل کے وسیلے سے یہاں پر مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اس دور میں جب کہ لوگوں کو ابھی روٹی کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے متعلق کوئی خاص آگاہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس مل کے مالکان اپنے ملازمین کی یہ تمام بنیادی ضروریات بغیر کسی تشہیر کے پوری کر دیا کرتے تھے۔ ملازمین کی رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز اس طرح تعمیر کیے گئے تھے کہ ہر کوارٹر کا دروازہ ڈیڑھ دو ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک پارک میں کھلتا تھا۔


 جہاں پر ان ملازمین کے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہتے اور مختلف اجتماعات کے لیے بھی انہی پارکس کو کام میں لایا جاتا۔اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل مالکان نے یہاں پر ہی ایک بوائزز ہائی سکول اور ایک گرلز ہائی سکول قائم کیا ہوا تھا۔ جہاں پر بچوں کو دسویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اپنے ملازمین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں باقاعدہ طور پر ایک ہسپتال موجود تھا۔ جہاں ہمہ وقت دو ڈاکٹر اور بقیہ عملہ مل ملازمین کا علاج کرنے کے لیے موجود رہتا۔اس زمانے میں بورے والا شہر میں بھی غالباً دو ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے۔اس طرح بی ٹی ایم کے ملازمین کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوا کرتی تھیں۔ کپڑے کے سلسلے میں ہر مزدور کو سال میں 20 میٹر کپڑا انتہائی سستے داموں میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔بی۔ ٹی۔ ایم اپنے استعمال میں آنے والے خام مال کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے علاقے بھر کے زمینداروں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری بھی کیا کرتی تھی۔


یہاں پر موجود جیننگ فیکڑی کے دو افسران عزیز بھائی اور ادریس بھائی کمال کے لوگ تھے۔ آڑے وقت میں قرضوں کی شکل میں مقامی زمینداروں کی مدد کرنا اُن کا عام وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ زمیندار کو کپاس کا ریٹ پورا دیا جاتا ادائیگی وقت پر کی جاتی۔ کچھ زمیندار گھرانے ایسے بھی تھے کہ جیسے جیسے اُن کی کپاس اترتی جاتی وہ اس کی قیمت کا تعین کیے بغیر ہی اُسے مل میں پہنچاتے جاتے اور آخر پر اس سیزن کے بلند ترین ریٹ کے مطابق اپنی مہیا کی گئی کپاس کی قیمت وصول کر لیتے۔یہ ایک بہت بڑی سہولت تھی۔ جو کپاس کے کاشت کاروں کو بی۔ ٹی۔ ایم کی بدولت میسر ہوا کرتی تھی۔ لین دین میں دیانت داری، شرافت اور شفافیت کے اصولوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بعض لوگ ان کے ساتھ کھل کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ دو چار سو بوری کھل خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیا کرتے اور کھل وہاں سے اٹھانے کی بجائے گیٹ پاس کی صورت میں خرید شدہ کھل کی بوریوں کی تعداد کا اجازت نامہ صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں حاصل کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد کھل مہنگی ہونے کی صورت میں وہ کھل اُن کو ہی فروخت کر کے اپنا منافع حاصل کر لیا کرتے۔ اس دوران انہیں کھل یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ پر سٹور کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔


اس زمانے میں بورے والا میں اور بھی چھوٹی موٹی جیننگ فیکڑیاں موجود تھیں۔ بی۔ ٹی۔ ایم کی تقلید میں کھل کی خرید و فروخت کے لیے گیٹ پاس سسٹم کو وہ بھی استعمال میں لایا کرتی تھیں۔ لیکن وہاں پر بیوپاریوں کو اکثر و بیشتر اُن سے شکایات ہی رہا کرتی تھیں۔ کہیں پر اُن کے پیسے ہی مار لیے جاتے۔ کہیں پر ریٹ مارکیٹ کے مطابق نہ ملتا اور کہیں پر ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر کر دی جایا کرتی تھی۔بی۔ ٹی۔ ایم میں کام کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے پورے دن کو آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تین شفٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی شفٹ صبح چھ بجے سے لے کر دو بجے تک دوسری دو سے دس تک اور نائٹ شفٹ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک جاری رہا کرتی تھی۔ ہر شفٹ کے آغاز سے ایک گھنٹہ پہلے مل میں سائرن بجایا جاتا تھا۔ جسے اس زمانے میں سبھی لوگ سائرن کی بجائے گھگھو کہا کرتے تھے اور اس گھگھو کی آواز پورے شہر میں بآسانی سنائی دیا کرتی تھی۔ گویا کہ مل ملازمین کے لیے یہ گھگھو مل میں بلاوے کا اعلان ہوا کرتا تھا۔ آدھ گھنٹہ بعد ایک بار پھر یاد دہانی کے لیے گھگھو بجایا جاتا اور پھر اس کے آدھ گھنٹہ بعد گھگھو کے ذریعے شفٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا جاتا۔


 اس کے علاوہ ماہِ رمضان میں روزے کی افطاری اور اختتام سحری کا اعلان بھی اسی گھگھو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ جو اس وقت سب سے مستند اور درست ذریعہ مانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ سے چار بجے تک جنرل شفٹ ہوا کرتی تھی  ہر شفٹ کے آغاز سے آدھ گھنٹہ پہلے اور آدھ گھنٹہ بعد مل کو جانے والی سڑک پر سائیکل سوار مل مزدوروں کی آمد و رفت سے خوب چہل پہل رہتی۔ کچھ مزدور خاندان تو بی۔ ٹی۔ ایم کے کوارٹرز میں رہائش پذیر ہوا کرتے تھے لیکن بہت سے مزدور شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں سے بھی آیا کرتے تھے۔پہلی تاریخ کو جب لوگوں کو تنخواہ ملتی تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی اور اس کے مثبت اثرات شہر بھر کی دکانوں پر اُن کی سیل میں اضافے کی صورت میں نظر آیا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک سوئمنگ پول اور ایک عدد بہت اچھے معیار کا کلب بھی موجود تھا۔ جہاں پر مل ملازمین اور اُن کے بچے اس سہولت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک معیاری ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ جو بی۔ ٹی۔ ایم کے افسران کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ سرکار کے اعلیٰ افسران کے قیام کے لیے بھی استعمال میں لایا جایا کرتا تھا۔ اس موقع پر سیٹھ سلیمان اور اس کی جوان سال، خوش خصال، خوش شکل اور نیک دل اہلیہ کے ذکر کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔


احمد داؤد خاندان سے تعلق رکھنے والے سیٹھ سلیمان اپنی اہلیہ کے ہمراہ یہاں پر جنرل منیجر کی حیثیت سے تعینات ہو کر آئے تو رومانوی اور افسانوی شخصیت رکھنے والے اس جوڑے نے یہاں پر اپنے حُسن ِ سلوک سے افسروں اور مزدوروں کا دل موہ لیا۔ یہاں پر گرمی کی شدت کے پیشِ نظر انہوں نے اپنے گھر پر ائرکنڈیشنر لگوایا تو اُن کی انصاف پسند اور وضع دار طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اُن کی ماتحتی میں کام کرنے والے افسران گرمی کی شدت سے جھلستے رہیں۔ چنانچہ افسران کے گھروں میں بھی اے سی لگوا کر دیے گئے۔ انہوں نے یہیں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مل کے اندر بھی جن کھاتوں میں ائرکنڈیشنر کی ضرورت تھی انہیں بھی مرکزی طور پر ائرکنڈیشنڈ کیا گیا۔مزدوروں کے بونس کی وقت سے پہلے ہی ادائیگی کے لیے خصوصی انصرام و انتظام کیا کرتے۔ اپنے افسران کے ساتھ ساتھ مزدوروں سے بھی خوشگوار برتاؤ کیا کرتے تھے۔ اُن کی اہلیہ بھی اس معاملے میں اُن سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ وہ تقریباً ہر مہینے ایک دعوت کا اہتمام کیا کرتیں۔ جس میں افسران کے بیوی بچوں کے علاوہ مزدوروں کے کچھ خاندانوں کو مدعو کیا جاتا۔ مزدور طبقے کی خواتین کے ساتھ رسم و راہ رکھنا اس کی اولین ترجیح ہوتی۔ وہ ہفتے میں ایک دو دن لیڈی پارک میں جایا کرتی۔ جہاں وہ مزدور گھرانوں کی خواتین کے ساتھ گھل مل جاتیں اور اُن کو درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے میں اُن کی ممد و معاون ہوتیں۔ غرض کہ یہ خوب صورت خوب سیرت اور جواں سال جوڑا تمام مل ملازمین کو ایک خاندان کی طرح جوڑے رکھتا۔ 


یہ بات مزدور یونین کے لیڈروں کو کسی طور بھی گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے مزدوروں کو مل مالکان کے خلاف بھڑ کانا شروع کر دیا۔ نفرت ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو بہت تیزی سے وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔ مزدوروں کو اُن کے استحصال کے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں جوڑ کر سنائی گئیں۔اس سازش کی آبیاری میں حسبِ معمول مقامی سیاست نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا اور مل مزدوروں اور مل مالکان کے درمیان نفرت کی ایک دیوار بلند ہوتی گئی۔ مزدور کو اُن کے حقوق دینے کی باتیں ہونے لگیں تو اُن میں کام چوری بلکہ سینہ زوری کی علتیں آ موجود ہوئیں۔ آئے روز ہڑتال کی دھمکی زندہ باد مردہ باد کے نعرے بدبو دار سیاسی رویے اور مداخلت نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ مل کو چلائے رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اربوں سے لگائے گئے اس منصوبے کا منافع نامساعد حالات کی وجہ سے تقریباً صفر پر آ چکا تھا۔ لیکن سیٹھ سلیمان کا خیال تھا کہ پانچ سات ہزار خاندانوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ اس لیے اسے ان حالات میں بھی چلتے رہنا چاہیے۔


اس نے اس منصوبے کے باقی حصہ داروں کو بھی اس بات پر راضی کر لیا تھا۔ لیکن عاقبت نا اندیش مزدور یونین کے رہنماؤں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ایک دن صبح فارغ ہونے والے مزدوروں کی پوری شفٹ کو روکے رکھا اور آٹھ بجے جب سیٹھ سلیمان مل کے اندر جانے کے لیے گیٹ پر آئے تو ان تمام مزدوروں نے مردہ باد کے نعروں کی گونج میں سیٹھ کو حقیقی معنوں میں ننگے ہو کر دکھا دیا۔ اس کے بعد سیٹھ وہیں سے واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر اپنا سامان سمیٹا اور دونوں میاں بیوی واپس کراچی لوٹ گئے۔ بلکہ وہ یہاں بھی نہیں رکے اور لندن جا کر دم لیا اور اپنی بقیہ زندگی وہیں پر گزار دی۔اُن کے جانے کے بعد مل کو بند کر دیا گیا۔ مزدوروں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ مشینری بیچ دی گئی اور آج وہ علاقہ جہاں پر ایک دنیا آباد ہوا کرتی تھی، سینکڑوں خاندان جہاں رہائش پذیر تھے، ہزاروں خاندانوں کا رزق جس کے ساتھ وابستہ تھا، جہاں رہائشی کالونیوں میں بچوں کی کلکاریاں اور بڑوں کے مسرت و شاد مانی سے بھرپور قہقہے سنائی دیا کرتے تھے وہاں پر آج کل ویرانی کےڈیرے ہیں -کہاں گئے وہ بدبخت جنہوں نے ہزاروں لوگوں کا روزگار چھین  کر ایک لہلہاتی صنعتی بستی اجاڑ کر ہی دم لیا 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر