Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
ہفتہ، 5 اپریل، 2025
شہاب نامہ سے اقتباس۔ حصہ سو ئم
جمعہ، 4 اپریل، 2025
شہاب نامہ سے اقتباس۔حصہ دوم
جمعرات، 3 اپریل، 2025
شہاب نامہ سے اقتباس-حصہ اول
چترال میں گرم پانی کے چشمے قدرتی شفا باعث ہیں
وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا ﴿ؕ۲۷﴾
. ہم نے اس پر بلند و مضبوط پہاڑ رکھ دئیے اور ہم نے تمہیں (شیریں چشموں کے ذریعے) میٹھا پانی پلایا-لیکن یہاں ہم گرم پانی کے چشموں کی بات کریں گے کراچی کے کے شہری جانتے ہیں کہ کراچی کے انتہائ شمال میں بھی لاتعداد گرم پانی کے ایسے چشمے زمین کی اتھلی گہرائ پر موجود ہیں جن کے پانی سے نہانے سے لاتعداد بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں -در اصل یہ بھی اللہ کریم و کارساز کی حکمت ہے کہ جہاں طبی علاج فیل ہوتے ہیں وہاں سے خدا کی حکمت کا آغاز ہوتا ہے -سلفر یعنی گندھک کی آمیزش کے پانی قدرتی شفا بخش ہوتے ہیں چترال کے گرم پانی کے چشمے کسی قدرتی عجوبے سے کم نہیں اور اس تک پہنچنے کے لیے دریائے لٹکوہ کے ساتھ سفر کرنا اپنے آپ میں ایک خوشی ہے۔
یہ قریب ترین شہر سے 5 گھنٹے کا آف روڈ اور 45 منٹ کا ٹریک ہے جہاں سے ابتدائی ندی شروع ہوئی تھی۔ یہ چشمہ دو پہاڑوں کے سنگم پر واقع تھا جو کئی سالوں سے پانی کی وجہ سے ختم ہو رہا تھا۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ علاج کے لیے اس چشمے کے پانی میں شفا ہے۔' اس چشمے سے جڑی کہانیوں کے مطابق اس کا پانی درد اور یرقان سمیت دیگر بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ اقبال حسین چشمے کے پاس ایک چھوٹے سے تالاب میں نہا رہے ہیں۔ اس نے، جن کا گھر چشمہ کے قریب تھا، آزاد اردو کو بتایا کہ اسے یرقان ہے، لیکن اس چشمے میں آکر یہاں نہانے اور نہانے سے ان کی بیماری ٹھیک ہوگئی۔ چشمے کے قریب ایک بڑی مسجد کو بھی یہاں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، لوگ اسے وضو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح نہانے کے لیے چشمے کے قریب باتھ روم ہیں جہاں لوگ علاج کے لیے آتے ہیں جب کہ ایک گھر میں لوگ آرام کر سکتے ہیں تاکہ ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آ سکے۔ چشمے کے ساتھ ایک دیوار بنائی گئی تھی
خواتین کے لیے بھی ایک مخصوص ہے جہاں وہ کپڑے دھو سکتی ہیں ۔ علاقے سے واقفیت رکھنے والے محبوب عالم نے بتایا کہ موسم بہار کی تاریخ کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو لیکن یہ چشمہ اسی جگہ واقع ہے۔' چشمے کا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اسے انڈوں میں ڈالیں گے تو وہ پک جائیں گے ۔' محبوب عالم کے مطابق گرم چشمہ چترال کے چند مشہور تفریحی مقامات میں سے ہے جہاں ملک بھر سے سیاح موجود ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس چشمے کا انتظام کون کر رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں، اس نے کہا کہ وہ یہاں غسل خانہ بنا رہے ہیں، وہ ہمیں استعمال کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ موسم بہار میں پانی گرم کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اردو نے اپنے مضمون کے لیے چشموں کی تحقیق پر کچھ سائنسی اور مقالات کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ چشمے زمین میں جتنے گہرے ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں۔
پریوں کا چشمہ بلوچستان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی جانب سے گرم پانی کے چشمے سے یہ مفروضہ جوڑا گیا ہے کہ اس مضمون میں پانی کا علاج موجود ہے تاہم سائنسی تحقیق سے یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ مضمون کے مطابق جب چشمے کا پانی زمین میں اتھلی گہرائی سے نکلتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہوتا ہے، جب کہ گرم چشموں میں، جہاں آتش فشاں کی سرگرمیوں کے زیادہ آثار ہوتے ہیں، وہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کی ویب سائٹ کے مطابق گرم چٹانوں کے اندر سے بھی گرم چشمے نکلتے ہیں جب کہ اب سائنسدان سمندر کے نیچے تقریباً تین کلومیٹر گہرائی میں موجود گرم چشموں سے دور ہیں جن کا درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ اسی تنظیم کے مطابق گرم چشموں سے نکلنے والے پانی میں نمکیات اور سلفر کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ سمندری حیات کے لیے فائدہ مند ہے۔پشاور(این آئی)اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے خیبرپختونخوا کے گلیات اور چترال بشکر کے گرم چشموں کو عالمی بایوسفیئر ریزرو کا درجہ دے دیا ہے۔
زندگی، رہائش، محفوظ اور دیگر ماحول کا مؤثر تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ مقامات نہ صرف قدرتی حسن اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے اہم ہیں بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لیے قدرتی نشانات کے تحفظ، ترقی پسندی اور سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے بھی اہم ہیں۔ ایک تاریخی پیش رفت میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا عالمی تحفظ کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا ثبوت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگلی حیات اور قدرتی وسائل کا مزید تحفظ کرےاگرچہ چترال سے گرم چشمہ تک سڑک کا فاصلہ صرف چھپن کلومیٹر ہے لیکن پہاڑی علاقے اور خستہ حال سڑک کی وجہ سے گرم چشمہ تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے چترال میں گولیتھ اور گرم چشمہ کو عالمی بایوسفیئر ریزرو قرار دیا ہے۔ - مقامی لوگوں کے مطابق چشمے سے بہنے والا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اس میں انڈا ڈالیں گے تو وہ پک جائے گا۔ اس جگہ کا نام مولا چھوٹوک تھا (بلوچی میں چھوٹوک کا مطلب آبشار ہے)
منگل، 1 اپریل، 2025
اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی- 1 part
- اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی -پاکستان اسٹیل ملز ایک عظیم الشان منصوبہ جسے پاکستان کے مگر مچھ کھا گئے -پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہو وہ عظیم الشان صنعتی تحفہ جو پوری دنیا میں پاکستا ن کی پہچان بنا تھا -جب نا اہلوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو اس کی بربادی کا آغاز ہو گیا -قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کی جانب توجہ دی گئی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک میں موجود معدنی لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنے کی بنیادی صنعت لگانے کے لیے کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ 1956ء میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل پلانٹ لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی حکومت نے اس پیشکش پر بات چیت شروع کی اور 1968ء میں پاکستان اسٹیل ملز کو بطور ایک نجی کمپنی کے رجسٹر کیا گیا۔ یعنی قیام پاکستان کےبعد تقریباً 21 سال بعد ادارے کی رجسٹریشن ہوئی۔ آخر اس میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی متعدد وجوہات ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں وقت لگنے کی بڑی وجہ روس اور مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت لگانے کی پیشکش تھی۔ مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان میں صوبہ خبیر پختون خوا اور پنجاب سے ملحقہ علاقے کالا باغ میں فولاد سازی کا کارخانہ لگانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔
پاکستان کی ترقی کے لیے ملک میں ایک بڑے فولاد سازی کے کارخانے کی ضرورت ہے جوکہ وطن عزیز کی زمین میں دفن 1.427 ارب ٹن خام لوہے کو فولاد میں تبدیل کرکے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ برآمدات کر کے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کماسکے۔یہ طرفہ تماشا دیکھیں کہ کراچی کے مضافات میں پورٹ قاسم سے ملحقہ ایک دوسرے کی دیوار سے جڑی دو اسٹیل ملز بند پڑی ہیں۔ اس کی مشینری کو سمندر کی نمکین ہوا زنگ آلود کررہی ہے۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان اسٹیل ملز اور دوسری نجی شعبے کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے قائم الطوقی اسٹیل ملز۔ان دونوں اسٹیل ملز کی صلاحیت معدنی لوہے یعنی آئرن اُور (Iron Ore) کو فولاد میں ڈھالنے کی ہے۔ مگر فولاد سازی کے یہ دونوں ادارے ملکی نظام میں اس ذہنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ملک کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا
اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔پاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 11 لاکھ ٹن کی گنجائش اور بعد ازاں پیداواری گنجائش کو بڑھاتے ہوئے 22 لاکھ ٹن کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ مگر ملک میں سیاسی وجوہات اور درآمدی مافیاز اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں دلچسپی رکھنے والوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز 11 لاکھ ٹن کی گنجائش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا جبکہ افتتاح جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں کیا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے— پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا
اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے پاکستان اسٹیل سے متصل اسٹیل ٹاون شپ کے علاوہ گلشن حدید بھی بنایا گیا۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز سے منسلک اسٹیل ٹاون شپ کی قیمت پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر اس کو چلانے اور اس کی نجکاری تک تقریباً تمام ہی فیصلوں میں ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے ہر مقام پر غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹیل ملز قیام کے بعد سال 2005ء تک خسارے میں چل رہی تھی -پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفراسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان اور نااہلی کا شکار ہوئی اور قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئ
پیر، 31 مارچ، 2025
گزشتہ 2 برس میں 2 لاکھ مزدور طبقہ بیروزگار ہوا ہے
اتوار، 30 مارچ، 2025
30 سال میں بنایا گیا مندر اسکول بن گیا
اس مندر کی تعمیرکا سنگ بنیاد راولپنڈی ہی کے ایک رہائشی لالہ کلیان داس نے 1850 کی دہائی میں رکھا تھا اور اس کی تعمیر پر 30 برس لگ گئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد یہ مندر کئی برس تک بے کار رہا پھر اسے سنہ 1956 میں اسے محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا اور سنہ 1958 میں یہاں بیگم فاروقی نامی ایک خاتون نے بصارت کے محروم بچوں کی تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔ اب کئی دہائیوں سے یہاں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم دی جا رہی ہے -اسکول کے پرنسپل نور حسین اعوان خود بھی پیدائشی طور بصارت سے محروم ہیں تاہم وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر صحیح رہنمائی، والدین اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی میسر ہو تو نابینا افراد بھی معاشرےمیں عام افراد کی طرح تخلیقی و تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔اب اسکول کا نام گورنمنٹ قندیل سکینڈری سکول ہےخیال رہے کہ 15 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سفید چھڑی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔نور حسین اعوان نے بتایا کہ عوام میں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...