ہفتہ، 22 فروری، 2025

شاردہ آزاد کشمیر'علم و ہنر کی جنت نظیر قدیم درسگاہ

 


 
شاردہ دیوی کی مقدس عمارت شاردہ کے وسط میں کشن گنگا (نیلم) دریا کے بائیں کنارے واقع ہے۔ شاردہ سنگم مقدس زیارت سے چند گز نیچے واقع ہے جہاں تینوں مقدس ندیاں یعنی کشن گنگا (نیلم) سرسوتی یا کنکوریا(سرگن نالہ) اور مدھومتی (شاردہ نالہ) آپس میں ملتی ہیں۔دنیا میں کسی بھی تہذیب کے ارتقاء میں آب و ہوا، نباتات، جنگلی حیات، ماحول، رسم و رواج، علاقائی ساخت، یہ تمام چیزیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں کے تغیر کے نتیجے میں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور تناور ہوتے ہی نظریات و عقائد کی وارث کہلانے لگتی ہیں۔ فطرت انسانی صدیوں سے غیر مرئی اور مافوق الفطرت قوتوں کی اطاعت میں راحت محسوس کرتی ہے۔3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیاء میں آنے والے سراس وات برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس درے میں آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ دیوی انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاﺅں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔شاردہ دیوی کو علم، حکمت، ہنروفنون کی دیوی قرار دے کر صدیوں پوجا کی جاتی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اسے شکتی (طاقت) لکشمی (دولت) دیوی بھی قرار دیا گیا۔ وشنووتی، شیو مت، بدھ مت، جین مت اور ہندو دھرم کے عقائد کے باہم متصل ہونے سے یہاں سے مخلوط المذاہب تہذیب و ثقافت نے جنم لیا جو رواداری، برداشت اور احترام پر مبنی قرار پائی۔

آج ہندوستان اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں شاردہ دیوی کے پیروکار موجود ہیں۔ بالخصوص نیپال کے کشن خاندان کے شہزادے کنشک اول (25 سے 60 عیسوی) جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی شاردہ مندر بنوایا تھا، ان کی نسل آج بھی نیپال میں موجود اور شاردہ دیوی کو مقدس مانتی ہے۔ملک و بیرونِ ملک سے ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
شاردہ کسی زمانے میں بہت بڑی درسگاہ رہی ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔چینی سیاح ہیون شانگ (631 عیسوی) کے بقول بدھ مت کشمیر کا طاقتور ترین مذہب مانا جاتا تھا اور اسی دور میں بدھوں کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں منعقد ہوئی جس کے اثرات وادیء کشمیر پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ نیپال اور بدھ مت کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم، حکمت اور ہنر کی دیوی شاردہ کو وہاں آج بھی تقدس حاصل ہے۔برہمن سماج کے دور 880 سے 1320 عیسوی تک شاردہ دیوی کو تقدس اور تہذیب کو عروج حاصل رہا۔ اسی دور میں شاردہ رسم الخط بھی تخلیق کیا گیا جو صدیوں تک رائج رہا۔

تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ دنیا بھر سے علم، روحانیت اور گیان کے حصول کے لیے طالب علم آئے، خود کو علم سے منور کیا اور شاردہ دیوی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء اور ایشیاء کی اہم ترین درسگاہ کہلائی۔ یہاں بدھ مت کی تعلیم کے ساتھ منطق، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، معاشرت، روحانیت کی دیوناگری رسم الخط کے ذریعے تعلیم دی جاتی رہی۔شاردہ میں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔بڑے بڑے پتھروں کی 18 سے 28 فٹ اونچی دیواروں میں شمالاً، جنوباً مستطیل درس گاہ کے درمیان میں کنشک اول کا تعمیر کروایا ہوا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جس کا کوئی نام اور تقدس ضرور رہا ہوگا۔تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ و درسگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ آٹھ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب اس کے آثار باقی ہیں۔


کشمیر: پانچ ہزار سال قدیم شاردہ یونیورسٹی ’جہاں گرامر ایجاد ہوئی‘شاردہ  ٹورسٹ لاجز کے نگران جان شیر خان نے بتایا: ’شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے۔‘وادی نیلم میں ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والے شاردہ یونیورسٹی  -پاکستان کا زیر انتظام کشمیر سیاحت کے حوالے سے تو ایک منفرد حیثیت رکھتا ہی ہے، لیکن یہاں کی وادی نیلم کا ایک حصہ ایسا ہے، جو تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔وادی نیلم کی تحصیل شاردہ میں واقع ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والے شاردہ یونیورسٹی اس علاقے کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جان شیر خان نے بتایا کہ ’اس یونیورسٹی کے بارے میں پنڈت کلہن اپنی راج ترنگنی میں تفصیلاً ذکر کرتے ہیں کہ یہ تین ہزار سال قبل مسیح میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور عبادت گاہ تھی۔‘انہوں نے بتایا کہ ’یہاں پر پوری دنیا بشمول جاپان، سنگاپور اور چین سے لوگ زیارت کے لیے آتے تھے، اس کے ساتھ ہی مدہومتی نالہ ہے، جس میں آ کر وہ سب سے پہلے غسل کرتے تھے اور پھر پاک صاف ہو کر یہاں آتے تھے۔‘شاردہ یونیورسٹی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’زائرین یہاں آ کر قیمتی زیورات اور پیسے اس کی نذر کرتے تھے اور منتیں بھی مانگتے تھے۔‘جان شیر خان نے یونیورسٹی کے تعلیمی پہلوؤں کے متعلق بتایا کہ ’اس یونیورسٹی میں ہیئت، منطق اور فلسفے کی تاریخ یہ بھی ہے کہ دنیا کی زبانیں شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہیں۔

’شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے۔‘نیورسٹی کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’1400 سال تک تو اس کی تاریخ ملتی ہے کہ کشمیر کے سب سے بڑے بادشاہ زین العابدین بڈ شاہ  نے جب س یونیورسٹی کی شہرت سنی تو زیارت کے لیے اس یونیورسٹی آئے ۔‘بقول جان شیر خان: ’تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت انہوں نے یہاں کے طلبہ میں چھ لاکھ کی مٹھائی تقسیم کی۔‘انہوں نے بتایا کہ شاردہ یونیورسٹی کی لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ اس میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔ اس جامعہ کے کیمپس تو انڈر گراؤنڈ ہو گئے مگر عبادت والا شعبہ ابھی تک دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس عبادت گاہ کے اندر ایک بہت بڑا تالاب تھا جس میں جلد کے مسائل کے شکار افراد آ کر غسل کرتے تھے اور شفا پاتے تھے۔ 


شندور پولو فیسٹیول آ ف گلگت بلتستان

  



  قد رت  کی رعنائیا ں جہاں  چہار سو انگڑائ لیتی دکھائ دیتی ہیں  وہ پاکستان کے حسین پہاڑی علاقے  گلگت  بلتستان ہیں ۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔  تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں   یہ   علاقہ جات صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں اپنی شہرت رکھتے ہیں  لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت  بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا،  فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔چترال میں واقع شندور ٹاپ جہاں مشہور شندور پولو میچ کھیلا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے شندور میلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں ، چنار کے درختوں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شندور میلے کے دوران چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے جس کو دیکھنے کیلئے ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور ہر حملے پر داد وتحسین کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں یہ روایت سینکڑوں سالوں سے اسی طرح چلی آرہی ہے ۔ پولو کا یہ میدان3734 میٹر کی بلندی پر شندور پاس کے پاس واقع ہے ۔


تین روزہ میچ کے دوران میدان کے گرد سیاح ٹینٹ لگاتے ہیں اور رہائش اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس دوران مختلف علاقوں اور ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے ۔ اس میلے میں پہنچنے کیلئے عمومی طور پر سیاحوں کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے ،’’فور ویلر‘‘ گاڑ ی میں سوات اور دیر کی وادیوں سے گزرتے ہوئے لواری پاس سے ہوتے چترال پہنچتے ہیں۔کیلاش کی وادی بھی رستے میں پڑتی ہے ،کیلاش کے قبائل تین علاقوں میں منقسم ہیں جن میں بھمبورٹ، رمبر اور بھر شامل ہیں جنہیں سکندر اعظم کی فوج کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے ۔کو ہ ہندوکش میں ترچ میر کی برف میں ڈھکی خوبصورت چوٹی کو بھی یہیں سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔شندور تک پہنچنے کیلئے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک یا اسلام آباد ٹو گلگت بذریعہ ہوائی جہاز سفر اختیار کیا جاسکتا ہے ۔گلگت شہر سے خضر شندور تک سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے اخلتی و پھنڈر جھیل اور شندور جھیل کے دل کو موہ لینے والے مناظر سے متاثر ہوئے بنا کو ئی سیاح رہ نہیں پاتا۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں جولائی اگست کے مہینے میں شندور میلا منعقد ہوتا ہے جو کہ تین روز تک جاری رہتا ہے ۔شندور کو عام طور پر دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔


پولو کا کھیل پاکستان میں سرکاری سطح پر بھی کھیلا جاتا رہاہے۔ پاکستان کی پولو ٹیم متعدد بار ہندوستان، ایران اور ترکی کے کامیاب دورے کر چکی ہے اور ان ممالک کی ٹیمیں بھی لاہور کے جشن میں شریک ہو چکی ہیں۔ ان ٹیموں کے علاوہ ریاستہائے امریکہ کی پولو کی ٹیم بھی کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکی ہے۔پاکستان کے بعض کھلاڑی پولو میں عالمی سطح پر بڑا نام پیدا کر چکے ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے اس کھیل میں ایک منفرد عالمی مقام حاصل ہے۔ شاید پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آج بھی پولو کا کھیل سرکاری سطح کے علاوہ اپنے پرانے اور روایتی انداز میں عمومی سطح پر بھی کھیلا جاتا ہے، اس سلسلہ میں گلگت، بلتستان اور استور کے علاقے خاص طور پر قابل ذکر ہے جو پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے میں واقع ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قدیم چینی گلگت کو ’’بڑا پولو‘‘ اور استور کو’’ چھوٹا پولو‘‘ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ قدیم ایران میں پولو سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ یہ کھیل بادشاہوں کا کھیل قرار پایا اور شہزادوں اور رئیس زادوں کی تربیت کا لازمی جزو قرار دے دیا گیا تھا۔ شہزادوں کیلئے جہاں شکرے اور چیتوں کے ذریعے شکار کھیلنے کا فن ضروری سمجھا جاتا تھا، وہاں ان کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ تیغ زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور پولو جیسے مردانہ کھیلوں میں بھی طاق ہوں۔ لیکن یہاں اس بات سے یہ مقصود نہیں کہ پولو کا کھیل صرف ایران کے شہزادے اور دوسرے مرد افراد تک ہی محدود تھا بلکہ ایرانی شہزادیاں اور دوسری خواتین بھی اس کھیل میں شہزادوں سے کم نہ تھیں۔ فارسی شاعری میں ایسے حوالے ملتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی میں شاہ خسرو دوم( پرویز) کی ملکہ اور ان کی بعض ہمجولیاں بھی پولو کے کھیل میں مردوں کے برابر شریک رہتی تھیں۔


اس ابتدائی دور میں یہ کھیل ایران سے ہوتا ہوا پہلے عرب اور پھر چین، تبت اور جاپان میں بھی پھیل گیا۔ ان ممالک کے رسم و رواج کے مطابق اس کھیل میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں لیکن چین پہنچنے کے بعد پولو ایک کھیل ہی نہیں رہا بلکہ اس نے جنگی مشقوں کی شکل اختیار کرلی۔ قدیم چین میں پولو کی ایک ٹیم سو افراد پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور کھیل کا انداز بھی کھیل سے زیادہ چھوٹی موٹی جنگ کا نقشہ پیش کرتا تھا۔ چینی بادشاہوں کو پولو کے اچھے کھلاڑیوں سے جذباتی لگائو بھی تھا پنجی کے مقام پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو الگ کرنے والی پٹی بھی واقع ہے ۔ شندور ٹاپ پر ہموار میدان ہے جو کہ شندور جھیل کے ساتھ واقع ہے جہاں گرائونڈ پر پولو میچ کھیلا جاتا ہے ۔یہ گرائونڈ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے تعمیر کروائی تھی ۔پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے ہر سال کھیلا جاتا ہے جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں ۔ شندور فیسٹیول میں پولو میچ کے لئے فائنل ٹیمیں منتخب کرنے کیلئے ضلع چترال اور ضلع گلگت کی ٹیموں کے درمیان متعدد میچز ہوتے ہیں ۔میچ کا وقت ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے اور اس میںدو وقفے ہوتے ہیں ۔گرائونڈ کو دو سو میٹر لمبا اور56 میٹر چوڑا رکھا جاتا ہے ۔ دونوں اطراف کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے ان کے سپورٹر ز جمع ہوتے ہیں اورمیچ نہایت جوش و جذبہ اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مقامی فوک میوزک، بار بی کیو اور کیمپنگ کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔


 یہ کہا جاتا ہے کہ 1935 ء میں، شمالی علاقوں کے لئے برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایولین  کوب نے نیات قبول حیات کاکا خیل کو شندور میں ایک اچھی پولیو گرائونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں کی مدد سے پولو گرائونڈ بنائی۔ بعد میں اس پولو زمین کو’’ماس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ۔’ماس جنالی‘‘ لفظ کھوار زبان سے حاصل کیا گیا ہے ۔لفظ ’’ماس‘‘ کا مطلب چاند اور ’’جنالی‘‘ کا مطلب ہے پولو گرائونڈ۔میجر   کوب  چاند کی چودھویں تاریخ   کی  سفید دودھیا روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقین تھا اور شندور جھیل کے قریب پورے چاند کی رات میں پولو کھیلنے کا اپنا ہی لطف تھا جس کیلئے اس نے 37 سو میٹر کی بلندی پر پولو گرائونڈ بنواکر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تفریحی مقام بنا دیا۔جب پولوگراونڈ مکمل ہو گیا تو میجر کوب نے کاکاخیل کی خدمات کے صلہ میں ہے  انعام دینا چاہا تو کا کا  خیل نے انعام لینے سے انکا ر کرتے ہوئے اپنے علاقہ کے دریاوں میں  ٹراوٹ   مچھلی کی افزائش  کی خواہش کی -چنانچہ ٹرواٹ مچھلی کے انڈے ڈ بو ں میں پیک کر کے گلگت بلتستان پہنچا ئے گئے ۔ جہاں  ان کی بہترین افزائش کے لئے صا ف شفاف   ٹھنڈے پا نی کے دریاوں کا انتخاب کیا گیا ۔ اور ان انڈوں کی افزا ئش  پھنڈر ۔ گا ر گہ نالہ ۔ سئی نا لہ ۔ سنگل نا لہ ۔ گلمتی نا لہ ۔ بتھر یت نالہ  اوردلنا ٹی  نا لہ  میں کی گئی  ۔ دس سال کے عر صے میں  اس مچھلی کی افزا ییش میں ز بر دست کا میا بی ہو ئی ۔ ٹراو ٹ مچھلی  کی خا  صئیت یہ ہے کہ یہ ٹھنڈے  او شفاف پا نی میں رہنے کو  تر جیح دیتی ہے ۔ا س لئے یہ گر میو ں میں دریا کے رخ کے مخا لف سمت میں سفر کر تی ہے ۔ اور ا نچا ئی کی طر ف سفر کر تی ہے ۔ گلگت بلتستان میں براون یا بھورا اور رینبو یا ست رنگی ٹراو ٹ کی نسل پا ئی  جا تی ہے ۔  اس کا شمار  مز یدار مچھلیوں میں  ہو تا ہے  ۔  

جمعہ، 21 فروری، 2025

یہ بلاگ بلاول بھٹو کے نام -جیکب آباد کے لئے

 

جیکب آباد پاکستان کے صوبہ سندھ کا ایک شہر ہے جو ضلع جیکب آباد اور تحصیل جیکب آباد کا صدر مقام بھی ہے۔ جیکب آباد سندھ اور بلوچستان کی سرحد کے قریب سکھر سے کوئٹہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔جیکب آباد پاکستان کے گرم ترین علاقے میں واقع ہے جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 52 درجہ سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ اس ضلع کا نام برطانوی راج کے دور کے علاقائی انگریز حاکم جنرل جان جیکب کے نام سے موسوم ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ خان گڑھ کہلاتا تھا لیکن علاقے کے لیے انگریز جرنیل کی خدمات کے عوض اس علاقے کو جیکب آباد کا نام دیا گیا۔ذرائع نقل و حمل-جیکب آباد سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے اور بلوچستان کو سندھ سے ملانے والا ایک اہم راستہ یہیں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے جیکب آباد کا ریلوے اسٹیشن ایک اہم پڑاؤ ہے جہاں سے سکھر اور لاڑکانہ سے آنے والی ریل گاڑیاں کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو جاتی ہیں۔یو ایس ایڈ کی بندش، جیکب آباد کے لاکھوں شہری پانی سے محروم-3 گھنٹے پہلے -امریکی امداد کی معطلی سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں شامل جیکب آباد میں مفت پانی کی فراہمی کا پراجیکٹ بند ہو گیا ہے-امریکی امداد کی بندش  سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں شامل جیکب آباد میں لاکھوں شہریوں کو مفت پانی فراہم کرنے والا پراجیکٹ بندش کا شکار ہو گیا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے  بین الاقوامی ترقی کے لیے امریکی امدادی ایجنسی (یو ایس ایڈ) کے فنڈز میں کٹوتی کے باعث دنیا بھر کے کئی ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کئی پراجیکٹس پر کام روک دیا گیا ہے


۔پاکستان میں کام کرنے والی ایک مقامی این جی او ہینڈز کا کہنا ہے اس کے زیر انتظام دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک، جیکب آباد میں تازہ اور فلٹر شدہ پانی کا ایک پراجیکٹ اب روک دیا گیا ہے۔سندھ کے شہر جیکب آباد میں یو ایس ایڈ کی بندش سے تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ افراد صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہوجائیں گے۔ 2012ء میں یو ایس ایڈ نے سندھ کی میونسپل سروسز کو بہتر بنانے کے لیے 66 ملین ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا تھا، جس میں 22 کلومیٹر دور ایک نہر سے واٹر پمپنگ اور پانی صاف کرنے والے پلانٹ پر کام کیا گیا تھا تاکہ عوام کو پینے کے صاف پانی تک مفت اور آسان رسائی حاصل ہو۔ پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں  موسم گرما میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس علاقے میں شدید گرمی کی لہروں یا ہیٹ ویوز کی وجہ سے عوام کو سنگین مسائل کا سامنے رہتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ علاقہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بھی شدید متاثر رہا ہے۔لیکن پاکستان میں کام کرنے والی اس این جی او کا کہنا ہے ٹرمپ کی جانب ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی امداد روکے جانے سے اس پراجیکٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔جیکب آباد کے رہائشی 25 سالہ طفیل احمد نے  اے ایف پی کو بتایا، ''اس فیصلے نے ہماری زندگیوں کو تبدیل کر دیا ہے، یہاں اگلے ہفتے ہی درجہ حرارت کے 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔‘


‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پانی کی سپلائی منقطع ہو جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا ہے، ''یہ ہماری بقا کے لیے خطرہ ہےکیونکہ پانی زندگی کے لیے سب سے ضروری چیز ہے۔‘‘ تین بچے جوہڑ سے آلودہ پانی پیتے ہوئے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں صاف پانی فراہم کرنے والے پراجیکٹ بند ہونے سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوجائیں  گے-ہینڈز کے مطابق اس پراجیکٹ کی مدد سے روزانہ 1.5 ملین گیلن (5.7 ملین لیٹر) پمپ کیا جاتا ہے اور جیکب آباد جیسے علاقے جہاں عوام کو پہلے ہی غربت کا سامنا ہے، ساڑھے تین لاکھ شہریوں کو مفت پانی فراہم کیا جاتا ہے۔اس این جی او کے مطابق بغیر کسی پیشگی انتباہ اس پراجیکٹ کی فنڈنگ بند کر دی گئی اور انہیں میڈیا رپورٹس سے اس معاملے کا علم ہوا۔ہینڈز کے سی ای او شیخ تنویر احمد نے  اے ایف پی کو بتایا، ’’چونکہ فنڈنگ روک دی گئی ہے، ہمیں اپنا عملہ اور شہر کو میہا کی جانے والی خدمات معطل کرنا ہوں گی۔‘‘ اس پراجیکٹ کی مستقل بندش کی صورت میں 47 افراد پر مشتمل ان کا عملہ بھی بے روزگار ہوجائے گا۔ احمد کے مطابق یہ پراجیکٹ اگلے چند ہفتوں میں مکمل غیر فعال ہوجائے گا اور فنڈز بحال ہونے تک اس کے دوبارہ شروع ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔


 اس علاقے کے رہائشی سمجھتے ہیں کہ پانی کی سپلائی نا کافی ہونے کے باوجود علاقے کے لیے ایک بڑی نعمت تھی اور اس کا متبادل گدھا گاڑیوں پر لاد کر لایا جانے والا پانی ہے، جسے یہاں کی غریب عوام خریدنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں لوگ گدھا گاڑیوں پر رکھی ٹینکیوں میں پانی بھر کر بیچتے ہیں۔ ہینڈز کا کہنا ہے کہ نجی طور پر پانی فراہم کرنے والے اپنے طہ شدہ معاوضے سے تقریباﹰ دس گنا زیادہ رقم وصول کرتے ہیں اور ان کی جانب سے مہیا کیا جانے والا پانی آلودہ بھی ہوتا ہے۔ جیکب آباد کے 55 سالہ رہائشی صدرالدین لاشاری نے کہا، ''ہم جو گندا پانی خریدتے تھے وہ ہماری صحت کے لیے نقصان دہ تھا اور بیمار پڑنے سے ہمیں اور بھی زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘ایک غیر سرکاری تنظیم  جرمن واچ کے رواں برس اور 2022ء میں جاری کیے گئے اعدادو شمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔لاشاری نے کہا، "یہاں سال کے زیادہ تر حصے میں ناقابل برداشت حد تک گرمی پڑتی ہے۔ ہمیں صاف پانی کی اشد ضرورت ہے۔‘


لاوہ ازیں ضلع جیکب آباد قومی شاہراہ کے ذریعے ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہے۔ یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ کے لیے ریل گاڑیاں اور بسیں وغیرہ چلتی ہیں۔جیکب آباد کا شہباز فضائی اڈا پاک فضائیہ کے زیر انتظام ہے لیکن یہاں سے مسافر پروازیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی کی حیثیت سے پاکستان سے یہ فضائی اڈا امریکی افواج کے حوالے کیا ہے جنھوں نے جنگ افغانستان میں مخالفین کے ٹھکانوں کو نشانے بنانے اور اپنے فوجیوں کو رسد کی فراہمی کے لیے اس فضائی اڈے کا بھرپور استعمال کیا۔ آج بھی امریکی فوجی اہلکاروں اور ہوائی جہازوں کی بڑی تعداد اس اڈے پر موجود ہے۔مشہور شخصیات-جیکب آباد سیاسی حوالے سے سندھ میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور یہاں سے تعلق رکھنے والی کئی سیاسی شخصیات اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہوئیں جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:

الٰہی بخش سومرو - سابق اسپیکر قومی اسمبلی

محمد میاں سومرو - چیئرمین سینیٹ (بمطابق 2009ء)، سابق قائم مقام صدر و نگراں وزیر اعظم-عبد الرزاق تھہیم - سابق جج سندھ ہائیکورٹ و وفاقی وزیر بلدیات

اعجاز جکھرانی - موجودہ وفاقی وزیر کھیل (بمطابق 2010ء)

عبد الحفیظ شیخ - سابق وفاقی وزیر تجارت

عبد الکریم گدائی - سندھی زبان کے معروف شاعر

عبد اللطیف مہر

 

ر ب/ ش خ (اے ایف پی)


پنشن کٹوتی کا ظالمانہ فیصلہ -معذور بچے بیوائیں کہاں جائیں

 

 

کیا صرف وفاق اور پنجاب حکومت پر ہی آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن،گریجویٹی اور لیو اِن کیشمنٹ میں کمی لائی جائے۔   اِس وقت صورتحال سب کے سامنے ہے اسلام آباد میں بڑا مظاہرہ ہو چکا ہے اور ملازمین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کی کال دے دی ہے۔لاہور میں مظاہرے جاری ہیں اور پنجاب بھر سے آئے ہوئے ہزاروں ملازمین نے ناصر باغ سے سیکرٹریٹ تک ریلی نکالی۔یہ احتجاج بڑھتا جائے گا کہ سرکاری ملازمین کی مشترکہ تنظیم اگیگا نے پنشن کے نئے قوانین کی واپسی اور گریجویٹی کے طریقہ کار میں تبدیلی واپس لینے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔امر واقعہ یہ ہے ہمارے حکمران ہوں یا ایلیٹ کلاس وہ کبھی زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلے نہیں کرتی۔ایک طرف وہ نوالہ چھین لینے جیسے اقدامات کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے لئے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔پنشن پر کٹ لگانے والے عین اسی وقت اپنی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ کر لیتے ہیں۔

اب وفاق سے بھی خبر آ گئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافے کی منظوری دیدی گئی۔چند روز پہلے  پروفیسر محمد جاوید ملک ریٹائر ہوئے۔شب خون یہ مارا گیا کہ جو یکم دسمبر2024ء سے پہلے ریٹائرہو گئے انہیں پرانے حساب سے پنشن اور کمیوٹیشن ملی،جو اُس کے بعد ہوئے وہ لاکھوں روپے کے فوائد سے محروم ہو گئے۔محمد جاوید ملک سے ایک دن پہلے جو پروفیسر ریٹائر ہوئے انہیں ایک لاکھ 75 روپے پنشن ملی جبکہ محمد جاوید ملک کو صرف ایک لاکھ17ہزار روپے ماہانہ پنشن کی منظوری دی گئی ہے گویا انہیں 48ہزار روپے ماہانہ کا نقصان ہوا ہے، اُسی طرح کمیوٹیشن کی مد میں بھی انہیں 30لاکھ روپے کم ملے ہیں۔سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد دور بہت مشکل کا ہوتا ہے۔انہیں گھر بنانا ہوتا ہے،بچوں کی شادیاں کرنی ہوتی ہیں، دوا دارو اور دیگر اخراجات کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں۔گویا پہلے سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں ایسے میں یہ پنشن ہی ہے جو اُن کا پردہ رکھتی ہے وگرنہ تو وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔

ان کا یہ پردہ رکھنے کی بجائے انہیں معاشی لحاظ سے بے آسرا کر دینا ایک ایسا ظلم ہے جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔باہر کی دنیا میں سینئر سٹیزن کا ایک نظام موجود ہے جس کے تحت60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے اور دیگر مراعات بھی ملتی ہیں وہاں یہ ضروری نہیں کہ صرف سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر ہی وظیفہ یا پنشن ملے گی،جو بھی60سال کی عمر کو پہنچ گیا، حکومت نے اس کی کفالت سنبھال لی۔ وظیفہ بھی اتنا پُرکشش ہوتا ہے کہ تمام ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ہمارے ہاں پوری آبادی کے سینئر سٹیزن کو کوئی وظیفہ دینا تو کجا،جو چند فیصد سرکاری ملازمین ہیں،انہیں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد جو پنشن ملتی ہے اُس پر بھی شب خون مارا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف کا نام لے کر ہمارے ہاں بہت سے ظلم روا رکھے جا رہے ہیں۔ہمارے حکمران آئی ایم ایف کے سامنے پر سوال کیوں نہیں رکھتے کہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن نہیں ملے گی تو ان پڑھے لکھے بزرگوں کا گذارا کیسے ہو گا۔ یہ سوال اِس لئے بھی نہیں رکھتے کہ پھر آئی ایم ایف یہ مطالبہ کر سکتا ہے حکومت اپنے اخراجات کم کرے۔

اپنے شاہانہ پروٹوکول اور لاکھوں گاڑیوں کے پٹرول کی مد میں کمی لائے، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کی بجائے اقتصادی حالات کے پیش ِ نظر کمی کرے،چونکہ یہ سب کچھ نہیں ہونے دینا اِس لئے آئی ایم ایف کی یہ بات بے چون و چرا منظور کر لینی ہے کہ سرکاری ملازمین کو پنشن کے نام پر اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسی رقم دینی ہے۔ پنشن اصلاحات میں فیملی پنشن کے قوانین بھی بدل دیئے گئے ہیں۔اب سرکاری ملازم کی بیوہ کو صرف دس سال تک پنشن ملے گی، جبکہ غیر شادی شدہ یا معذور بچے کو پنشن نہیں دی جائے گی، یہ ایک ظالمانہ فیصلہ ہے کیا یہ بیوائیں اور بچے زندہ رہنے کے لئے خیرات مانگیں گے۔ کیا یہی ہے وہ عزتِ نفس جو سرکاری ملازم ساری زندگی سنبھال سنبھال  کے رکھتے ہیں ایک عزت کا بھرم ہوتا ہے،جن کے سہارے وہ زندگی گزارتے ہیں اس بھرم کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے والے اُس سنگینی سے نابلد ہیں جو ایسے فیصلوں کے نتیجے میں سماجی کو بھگتی پڑتی ہے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز ایک طرف قرضے دینے، کسانوں 


مزدوروں کی حالت سنوارنے اور خواتین کے معاشی حالات بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہیں۔ دوسری طرف پنجاب وہ واحد صوبہ بنا ہوا ہے جو پنشن قوانین کا ملازمین پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔اُن کی ناک کے نیچے لاہور میں سرکاری ملازمین اپنے تمام کام چھوڑکر احتجاج کر رہے ہیں۔جب وہ وزیراعلیٰ نہیں بنی تھیں تو انہوں نے سرکاری ملازمین کے مطالبات کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ معاملہ یہی پنشن اور گریجویٹی کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ملک محمد احمد خان سول سیکرٹریٹ کے باہر ملازمین کے دھرنے میں آئے تھے،انہوں نے مریم نواز کا پیغام دیا تھا۔بعدازاں اُن سے جاتی امراء میں ملاقات بھی کرائی تھی اور احتجاج ختم ہو گیا تھا۔ آج مریم نواز وزیراعلیٰ ہیں، انہیں پنجاب کے سرکاری ملازمین کے احتجاج پر توجہ دینی چاہئے۔اُن کے نمائندوں سے ملاقات کر کے اُن کی بات سننی چاہئے،وگرنہ یہ تو ہو نہیں ہو سکتا کہ ملازمین ازخود احتجاج ختم کر کے بیٹھ جائیں اور بھول جائیں گے کوئی ظالمانہ فیصلہ بھی ہوا ہے۔پنجاب میں بھی مریم  نواز کو اِس معاملے کا نوٹس لینا چاہئے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ صورتحال کو جوں کو توں چلنے دیا جائے اور اس خوش فہمی میں رہ جائے کہ احتجاج خودبخود ہو جائے گا۔ سرکاری ملازمین اس حوالے سے خاصے سنجیدہ اور مضطرب ہیں۔ان کی بات نہ سنی گئی تو احتجاج میں شدت بھی آ سکتی ہے۔ اسلام آباد میں مظاہرین کو منتشر کرنے اور پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف جانے سے روکنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا،لیکن یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔مسئلہ انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔


 کسی ایک محکمے سے تعلق نہیں رکھتا، تمام سرکاری محکموں کے ملازمین اکٹھے ہیں۔اُن کی اجتماعی تنظیم اگیگا بہت فعال ہے۔کسی بڑے واقعہ سے پہلے ان ملازمین کو مطمئن کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔یہ کوئی سیاسی لوگ نہیں نہ ہی ان کا تعلق  کسی سیاسی جماعت سے ہے۔یہ ریاست کو چلانے والے سرکاری ملازمین ہیں ان کے علاوہ ہزاروں پنشنرز بھی اُن کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔ پنشن میں کٹوتی اور گریجویٹی میں کمی کے فیصلے واپس لے کر حکومتیں اس اضطرات کو ختم کر سکتی ہیں جسے بظاہر کسی دوسرے طریقے سے ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا پنجاب میں بھی مریم نواز   کو اِس معاملے کا نوا پھر آج کل وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وہ جتنے مرضی نوٹس لیتے رہیں، گڈ گورننس کی ایک انچ بنیاد بھی نہیں پڑے -گی
اسلام آباد سے خبرآئی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملازمین کی طرف سے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کے اعلان کا نوٹس لیا ہے،فنانس ڈویژن اور  دیگر متعلقہ اداروں سے پنشن اصلاحات اور واجبات کی ادائیگی میں کمی کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ 
،

جہانگیر کوٹھاری پریڈ

 


تاریخ کے  اوراق کو پلٹتے ہوئے  پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے  کہ کلفٹن کا وسیع  و عریض علاقہ  پاکستان بننے سے پہلے ایک پارسی معزز  شخصیت کی ملکیت میں ہوا کرتا تھا جن  کا نام جہانگیر ایچ کوٹھاری تھا۔اس عمارت کی اہمیت کیا ہے۔ در اصل یہ لیڈی لائیڈ تھیں جو ہر سہ پہر کو جب سمندر سے خنک ہوا کلفٹن کی ریت سے گذرتی، تو وہ وکٹوریہ میں سوار، اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے ایک چکر لگاتی تھیں۔ سمندر کو جانے والی راہ پتھریلی تھی اور کہیں بھی ہموار نہیں تھی۔ پانی تک فاصلہ بھی بہت طویل تھا۔  جہانگیر کوٹھا ری پریڈ کی تعمیر سے پہلے جب ہم ہم کلفٹن کراچی کے  ساحلی علاقے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے - درحقیقت یہ سمندر اتنا قریب بھی نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے کوٹھاری پریڈ کی خوب صورت اور تاریخی عمارت کے پاس سے گزر کر تھوڑا نیچے اترنا پڑتا تھا۔


 کوٹھاری پریڈ کی عمارت  کی تعمیر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی ۔ جہانگیر کوٹھاری پریڈ جوبرطانوی عہد کی ایک شاندار یادگارہےاان دنوں  کلفٹن کے علاقے میں گورنر   کی اہلیہ  لیڈی لائیڈ اپنی خوبصورت سواری وکٹوریہ میں سوار ہو کر کلفٹن کی خنک ہوا سے لطف اندوز ہونے ساحل کا چکر لگایا کرتی تھی - ایک دن سیر کے دوران لیڈی لائیڈ کو  پارسی رئیس سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا نام سر جہانگیر ہرمز جی کوٹھاری تھا۔ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ کوٹھاری صاحب سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر شان دار بنگلے میں رہتے تھے۔ لیڈی لائیڈ اور سر جہانگیر اس بنگلے کی بالکونیوں میں چائے پیتے۔ یہاں ہوا کا بہت زور ہوتا تھا۔ ایک دن دونوں یہیں بیٹھے تھے، لیڈی لائیڈ پتھریلے راستے پر لوگوں کو چلتے دیکھ رہی تھیں، اس نا خوشگوار  نظارے کے بعد انھوں نے سر جہانگیر سے کہا کہ اگر یہاں باقاعدہ سڑک ہو تو ان بے چارے بے شمار لوگوں کو تکلیف نہ ہو، جو یہاں تازہ ہوا کی تلاش میں آتے ہیں۔قابل احترام پارسی نے لیڈی کی بات مان لی۔ اب وہ اس فکر میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو۔


 لیڈی نے سمجھایا کہ صرف ایک پریڈکی ضرورت ہے جو نیچے ساحلِ سمندر تک جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اُن کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔سر جہانگیر کو یہ تجویز پسند آ گئی  حد نگاہ تک چوکڑیاں بھرتے سمندر کے کنارے یہ پریڈ ایک تفریح گاہ کے طور پر تعمیر ہونا شروع ہو ئ  تھی۔پریڈ کی تعمیر کے لئے جودھ پور راجستھا ن سے سرخ پتھر لائے گئے اور کوٹھاری صاحب نے تین لاکھ روپے  کی لاگت سے پیویلین بھی تعمیر کروایا-ور اس کا نام اپنے نام کی بجائے اپنی دوست کے نام پر رکھا۔یہ پریڈ1921 کو کھول دی گئی  جہاں سے قدرتی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساحل سمندر کے دلفریب نظارہ بھی کیا جا سکتا تھا۔کلفٹن کے ساحل کو جاتے راستے پر ایک کتبے پر سیاح یہ الفاظ پڑھ سکتے ہیں، "Lady Lloyd Piar"۔


جودھ پور، راجستھان کے سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ ’جہانگیر کوٹھاری پریڈ‘ کی افتتاحی تقریب کی مہمان خصوصی گورنر جارج لائیڈ کی اہلیہ تھیں،جنہوں نے اس کا افتتاح21 مارچ 1921 میں کیا۔ سنگ بنیاد کے موقع پر نصب کی جانے والی تختی آج بھی یہاں نصب ہے۔ لیکن یہاں آنے والے لاکھوں لوگوں میں سے کچھ ہی کی نگاہ اس پر پڑی ہوگا- اسی  جگہ قدیم تختی کے قریب ایک جدید تختی بھی لگی ہے ،جس پر آج کے دور کی تاریخ لکھی ہے۔ بعد ازاں ساحل دور ہوتے ہوتے کافی آگے چلا گیا تو جون 2005 میں کراچی کی ضلعی حکومت نے اس تاریخی تفریح گاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ کرتے ہوئے تعمیری پراجیکٹ کا آغاز کیا اور عمارت کے رقبے میں توسیع کرتے ہوئے اطراف کی جگہ بھی شامل کرتے ہوئے بن قاسم پارک بنیاد رکھی۔


جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی طرف کھنچ لاتی ہے۔ اس کے سامنے بنی ہوئی خوبصورت سڑک دل میں اترتی ہے۔ یہ جگہ باغ ابن قاسم کلفٹن کراچی کی تزئین وآرائش کے بعد رات کو دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔اس  کے وسیع و عریض چبوترے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگی تھیں جو نیچے سڑک تک آتی تھی -چبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں جو نیچے سڑک تک آتی ہیں ۔ اسی عمارت کے دوسری طرف سے چوڑی پتھریلی سیڑھیاں نیچے ایک وسیع و عریض راہداری پر اترتی ہیں ، جو آہستہ آہستہ آگے چلتی جاتی ہیں ۔ کچھ فاصلے کے بعد ایک بار پھرچند سیڑھیاں کچھ اور نیچے اترتیں اور پھر راہداری کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا تھا ۔ یہ بہت ہی خوب صورت راہداری تھی، جس کے دونوں طرف دلکش باغات اور گھاس کے تختے لگے ہوئے ہوتےتھے۔ آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی ہوئی یہ راہ گزر اپنے سفر کے اختتام پر بالکل ہی سمندر کے قریب پہنچا دیتی تھی، جہاں سے لوگ آخری سیڑھی سے ساحل کی ریت پر چھلانگ لگا دیتے تھے۔

بدھ، 19 فروری، 2025

ہمارے خون میں سفید خلیات کی اہمیت

    


 زرا  خالق کائنا ت کی صناعی پر غور کیجئے -ہمارا بدن خاک سے تشکیل کردہ اور اس بدن کی  ساخت الگ اور اس میں موجود مشنری کی ساخت الگ 'ہر ہر شے  اس پیمانے کے مطابق جو مالک برحق نے طے کر کے ہمیں بنا دیا اور پھر قران میں فرمایا 'ہم نے تم کو بہترین صورت پر پیدا کیا 'اب اگر  ہمارے بدن میں موجود مشنری میں زرا سا بھی نقص پیدا ہو جائے تو ہم بیمار ہو جاتے ہیں -آئیے آج ہم خون کے خلیات کی بات کرتے ہیں -خون دو خلیہ کا مرکب ہوتا ہے -سرخ خلیہ اور سفید خلیہ 'اگر ان کا تناسب بگڑ جائے تو ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہےسفید خونی خلیات اصل میں خون میں پائے جانے والے ایسے خلیات ہوتے ہیں کہ جن میں ہیمو گلوبین  نہیں پایا جاتاہے  اور اسی وجہ سے انکا رنگ خون کے سرخ خونی خلیات کے برعکس خرد بینی معائنے پر سفید سا نظر آتا ہے، جبکہ فی الحقیقت انکا کوئی رنگ نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے ان کو سفید خلیات کہا جاتا ہے۔ سفید حونی خلیات کو طب و حکمت میں ابیضیہ (leukocyte) بھی کہا جاتا ہے اور اس کی جمع ابیضیات (leukocytes) کی جاتی ہے۔ 


 دفاعی نظام مدافعتی قوت خون کے سفید ذرات۔خون کے سفید ذرات پانچ اقسام کے ہوتے ہیں جن کا بنیادی کام بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے بعض ذرات اینٹی باڈیز بناتے ہیں، بعض ذرات بیکٹیریا، دوسرے خوردوبینی جانداروں اور ضعیف خلیوں کو نگل لیتے ہیں، بعض ذرات وائرس اور طفیلیوں ( parasites)  کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں اور بعض ذرات الرجی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خون کے سفید ذرات کا بنیادی کام جسم کے اندر بیماریوں سے لڑنا اور ان کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ سو خون میں سفید ذرات کا زیادہ ہونے کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ جسم میں کسی انفیکشن (بیماری) سے لڑ رہے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے زیادہ تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں یعنی یہ کہ جسم میں کوئی انفیکشن چل رہی ہے جس کی وجہ سے سفید ذرات زیادہ ہیں۔خون میں سفید خلیوں کی کمی مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور جسم مختلف اقسام کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایڈز کے مرض میں ایچ آئی وی وائرس جسم کے سفید خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کی شدید کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح جسم کی قوتِ مدافعت تقریبا’’ ختم ہو جاتی ہے ۔ خون کے سفید خلیوں کا دورانیہ حیات خون میں چند گھنٹے یا ایک دن ہے۔ بعض ذرات ٹشوز میں داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں سال بھر زندہ رہتے ہیں۔


خون کے سیال مادے کو ” پلازما“ کہتے ہیں، جس کی مقدار خون کے نصف سے بھی زیادہ ہوتی ہے اس ” پلازما“ میں دوسرے اجزا تیرتے رہتے ہیں اور خون کے ساتھ گردش کرتے ہوئے جسم کے مختلف اعضا تک پہنچتے ہیں۔انسانی جسم کے تمام اعضاء خون ہی سے نشوونما پاتے ہیں۔ اگرچہ سرخ خلیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے اور انھی کی وجہ سے خون کارنگ سرخ نظرآتا ہے، لیکن خون کے سفید ذرات خلیے بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان سفید خلیوں کی بہت سی اقسام ہیں۔ ان میں پہلی قسم جو تعداد میں سب سے زیادہ ہوتی ہے، وہ خون کے اندر بھی رہتی ہے اور ضرورت پڑنے پر خون سے باہر نکل کر اس مقام پر بھی جا پہنچتی ہے، جہاں کسی بیماری کے جراثیم یازخمی بافتیں (ٹشوز) جمع ہوجاتی ہیں۔بعض خون کے سفید خلیے ان جراثیموں کو اپنے اندر جذب کرکے انھیں تباہ کردیتے ہیں۔ وہ ایسے اجزا بھی خارج کرتے ہیں، جو مردہ بافتوں کو ملائم کرکے انھیں قابل ہضم بنا دیتے ہیں اور وہ مواد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔سفید خلیوں کی دوسری قسم کا کام یہ ہے کہ اگر ہمارے جسم میں پیدا ہونے والا تعدیہ (انفیکشن) کچھ عرصے تک قائم رہے تو وہ متاثرہ مقام پر پہنچ کر خود بخود بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا قدرتی نظام ہے، جس کے تحت خون کے سفید خلیے بیماری کے جراثیموں سے جنگ کرکے انھیں تباہ کردیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سفید خلیے دراصل ہمارے جسم کے لیے دفاعی فوج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کسی بھی مرض کے حملہ آور ہونے کی صورت میں فوراََ اس مقام پر پہنچ کرمرض کے جراثیموں کو ہلاک کردیتے ہیں۔سفید خلیوں کی تیسری قسم کا کام یہ ہے کہ وہ مردہ خلیوں اور بافتوں کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اور اس طرح جسم کی گندگی کو خارج کرتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ خلیے گردوغبار اور دوسرے گندے اجزا کو چاروں طرف سے گھیرلیتے ہیں اور انھیں صحت مند بافتوں کے خلیوں سے نہیں ملنے دیتے۔ خون کے سفید خلیے ہمارے جسم کو مختلف بیماریوں کے حملوں سے بچانے کے لیے کتنا اہم اور مفید کام انجام دیتے ہیں، خون کے سفید ذرات سیلز کی زیادتی۔


لیکن اس کے ساتھ ہی سفید خلیوں کی زیادتی بھی ہمارے جسم کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ اگر خون میں بہت زیادہ مقدار میں سفید خلیے بننے لگیں اور وہ ہمارے جسم کی ضرورت کے مطابق فعال اور صحت مند خلیوں میں تبدیل نہ ہو سکیں تو وہ ایک مرض کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جسے ” لیوکیمیا“ یا خون کا سرطان کہتے ہیں۔خون ایک کیمیائی فارمولا ہے، جس کے اندر شامل تمام اجزا کا مناسب مقدار میں رہنا ضروری ہے، یعنی سرخ خلیے، سفید خلیے، لحمیات، نمکیات، نشاستے اور چکنائی کسی بھی شے کی کمی یا زیادتی بیماری کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔خون کے سفید ذرات-خون میں سرخ ذرات کی تعداد لاکھوں میں جبکہ سفید ذرات کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ یہ ایک نہیں بلکہ کئی طرح کے ہوتے ہیں اور ان کا بنیادی کام جسم کی حفاظت کرنا، مدافعت کرنا ہے۔ سفید ذرات جسم کے محافظ کا کام کرتے ہیں۔ جسم میں جس جگہ جراثیم یا مضر صحت کیمیکلز ہوں، سفید ذرات ان پر حملہ آور ہو کر انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بار کام شروع کریں تو ہڈیوں کے گودے سے مزید سفید ذرات ان کی مدد کے لیے خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے انفیکشن کی حالت میں اگر خون کا ٹیسٹ کیا جائے تو سفید ذرات WBC یا TLC کی مقدار نارمل سے بڑھی ہوتی ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جسم میں کہیں نہ کہیں انفیکشن موجود ہے جس کا مقابلہ کرنے لیے لیے سفید ذرات کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ خون میں موجود سفید ذرات جراثیموں اور دشمن خلیوں کے خلاف جنگ ضرور کرتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ انہیں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اس جنگ میں جہاں جراثیم مرتے ہیں۔ وہاں سفید ذرات، خلیے بھی مرجاتے ہیں جو پیپ کی شکل میں انفکشن کی جگہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اگر انفیکشن پھیپھڑوں میں ہو تو بلغم کے ساتھ پیپ خارج ہوتی ہے جو بلغم کو رنگ دیتی ہے ۔ 


-وائٹ بلڈ سیل پروڈکشنہڈی میرو کی ہڈی کے اندر سفید خون کے خلیات تیار کئے جاتے ہیں۔ کچھ سفید خون کے خلیوں میں لفف نوڈس ، پتلی، یا تھامس گلان میں مقدار غالب ہوتی ہے۔ بلڈ سیل پروڈکشن اکثر جسم کے ڈھانچے جیسے لفف نوڈس ، پتلی، جگر اور گردوں کی طرف سے منظم کیا جاتا ہے۔ انفیکشن یا چوٹ کے دوران، زیادہ خون کے خلیات پیدا کیے جاتے ہیں وہ خون میں موجود ہوتے ہیں۔ خون میں سفید خون کے خلیوں کی تعداد پیمائش کرنے کے لیے ڈبلیو بی بی یا سفید خون کے سیل کی گنتی کے طور پر جانا جاتا ہے۔خون کے ٹیسٹ میں عموماً سفید خون کے خلیوں کی تعداد 10,800-4,300 ہوتی ہے۔ اس میں کمی بیماری، تابکاری کی نمائش یاہڈی میرو کی کمی کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی ڈبلیو بی بی کا شمار کسی مہلک یا سوزش کی بیماری، انیمیا، لیکویمیا، کشیدگی، یا ٹشو نقصان کی موجودگی کی نشاندہی کرسکتی ہے۔وائٹ بلڈ سیلز کی اقسام اور فنکشن-وائٹ خون کے خلیات (WBCS) مدافعتی نظام کا ایک حصہ ہیں جو انفیکشن سے لڑنے اور دیگر غیر ملکی مواد کے خلاف جسم کی حفاظت میں مدد دیتے ہیں۔ سفید خون کے مختلف خلیات کی اندرونی مداخلتوں کو تسلیم کرنے، نقصان دہ بیکیٹریا کو مارنے اور اینٹی ہڈیوں کو اور ہمارے جسم کی حفاظت کے لیے کچھ بیکیٹریا اور وائس کی مستقبل کی نمائش کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔اقسام : سفید خون کے خلیات کی کئی اقسام ہیں:1۔ نیوٹرروفیلس : neutrophils یہ سفید خون کے خلیوں میں سے تقریباً آدھے ہیں neutrophils عام طور پر مدافعتی نظام کے پہلے خلیات ہیں جو ایک حملہ آور بیکٹریا یا وائرس کا جواب دیتے ہیں۔ پہلے جواب دہندگان کے طور پر وہ مدافعتی نظام میں دوسرے خلیوں کو خبردار کرنے کے لیے سگنل بھیجتے کے لیے بھی بھیجے جاتے ہیں  

 میرا علم  صرف گھریلو بنیاد پر سمجھا جائے -آپ کا ڈاکٹر ہی آ پ کو درست راستے پر لے کر جا سکتا ہے

منگل، 18 فروری، 2025

بلوچستان کے مختلف شہروں میں کتاب میلہ لگا یا گیا

 

بلوچستان کے مختلف شہروں میں کتاب  فیسٹیول میں ’لاکھوں روپے  کی‘ کتابوں کی فروخت  -بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غفور شاد کہتے ہیں کہ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے توقع سے بڑھ کر شرکت کی اورریکارڈ تعداد میں کتب کی خریداری کی غفور شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ پروگرام ضلع کیچ میں ایک نئی طرز کے فیسٹیول کی شروعات ہے، جس طرح پنجاب میں فیض اورسندھ میں ایاز میلو ہوتا ہے  (عبدالغفار اور اسد بلوچ)بلوچستان کے شہر تربت میں ایک تعلیمی ادارے کے تحت کتب میلے کا انعقاد ہوا، جس کے بارے  میں منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ میلہ ’لاکھوں‘ کی تعداد میں کتابوں کی فروخت کا باعث بھی بنا۔ ایک اور قابل زکر بات یہ ہے کہ یہاں آنے والوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کیونکہ بلوچستان میں کتاب میلہ بلوچستان میں ایک نئ صبح کا آغاز ہے


بلوچستان اکیڈمی آف لٹریچر اینڈ ریسرچ کے زیراہتمام ایک ادبی، ثقافتی اور علمی فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔  بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غفور شاد کہتے ہیں کہ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے توقع سے بڑھ کر شرکت کی اورریکارڈ تعداد میں کتب کی خریداری کی۔ان کے خیال میں   یہ اس سے پہلے نہیں ہوا۔‘ اس پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں ادبی شخصیات کے علاوہ ماہر معاشیات، گلوکاروں، دانشوروں سمیت سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی، اس کے علاوہ کتب میلہ، ثقافتی سٹال، فن پاروں کی نمائش، میوزیکل نائٹ اور مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ غفور شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ پروگرام ضلع کیچ میں ایک نئی طرز کے فیسٹیول کی شروعات ہے، جس طرح پنجاب میں فیض اورسندھ میں ایاز میلو ہوتا ہے۔ غفورکے بقول: ’میں اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ کسی بھی ادبی فیسٹیول میں لوگ پینل ڈسکشن میں کم دلچسپی رکھتے ہیں، تاہم ہمارے پروگرام میں جب یہ سلسلہ چلا تو 15 سو کے قریب کرسیاں رکھی تھیں، جو تمام بھر گئی تھیں اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کامیابی ہے۔


‘ اس فیسٹیول میں سیاسی رہنماؤں میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، ماہرمعیشت قیصربنگالی نے بھی شرکت کی اور شرکا کو معیشت کے حوالے سے آگاہی دی۔ غفورنے بتایا: ’اس فیسٹیول میں ہم نے مقامی کتب فروشوں کے علاوہ کراچی اور لاہور سے بھی پبلشرز کو دعوت دی تھی، جن کی تعداد 30 سے زائد تھی، جنہوں نے کتب کے سٹال لگائے تھے، ہمارے جمع کردہ اعداد وشمار کے مطابق لوگوں نے تقریباً 35 لاکھ کی کتابیں تین روز کے دوران خریدیں جو ایک ریکارڈ ہے۔بلوچستان کے ضلع کیچ کا شمار شورش سے متاثرہ علاقوں میں ہوتا ہے۔غفور کہتے ہیں کہ فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد یہاں کے لوگوں کو ادب اور کتب سے قریب کرنا اور علم دوستی کا فروغ تھا، جس کا نتیجہ ہر پروگرام میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی شرکت کے ذریعے سامنے آیا، جب کہ اس میں مردوں اور خواتین کی شرکت کا تناسب آدھا آدھا رہاان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل اس قسم کی تقریبات کا ان کے ہاں رواج نہیں تھا۔ہم نے اس کی شروعات کی ہے، آئندہ بھی ہماری کوشش ہوگی کہ اس قسم کی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔‘


 غفورنے بتایا کہ کتب فروشوں نے بتایا اورہم نے خود بھی مشاہدہ کیا کہ لوگوں نے کتب میں بہت زیادہ دلچسپی لی اور مختلف موضوعات کی کتابیں جن میں ثقافت، بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور سائنس بھی شامل ہیں۔ اس فیسٹیول میں کتابوں کا سٹال لگانے والےعبدالغفار بھی شامل تھے، جنہوں نے بتایا کہ یہ دوسرے کتب میلوں سے اس وجہ سے مختلف تھا کہ طلبا اور عام لوگوں کی دلچسپی کتب میں زیادہ تھی، کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا جو کتب سٹال سے خالی ہاتھ گیا ہو۔ کتب فروش عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لوگوں نے نصابی کتب کے علاوہ ناولوں کی زیادہ خریداری کی، جن میں اکثر وہ شامل تھے جو انگریزی زبان میں ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا اس کے علاوہ فکشن، سائنس، سیاست، نان فکشن، شاعری، پرانے کلاسیکل ناول خریدے گئے۔ غفارنے بتایا: ’ہمارے سٹالوں پر وہ طلبہ زیادہ تعداد میں آتے رہے، جو لٹریچر پڑھ رہے تھے اوران کے اساتذہ نے انہیں ایسی کتابیں خریدنے کی تلقین کی تھی، اس کے علاوہ خواتین کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے جو تبدیل شدہ ماحول اس وجہ سے بھی لگا کہ جو طلبہ آتے تھے وہ مخصوص کتابوں کے بارے میں پوچھتے تھے، جیسے ان کو ان کے بارے میں پہلے سے آگاہی تھی۔میں بلوچستان کے ہر علاقے میں کتب کے سٹال لگاتا رہا ہوں لیکن تربت کا ماحول اس وجہ سے مختلف تھا کہ کتب کے شوقین جنرل کتابوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔‘ غفار نے بتایا کہ اس نے تین دنوں کے دوران اپنے سٹال سے تین لاکھ کی کتابیں فروخت کیں جو اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوئی تھیں، ۔اس فیسٹیول کا نام بلوچستان کے بلوچی، اردو کے معروف شاعر عطا شاد کے نام پر رکھا گیا ہے۔

اس پر غفور شاد نے بتایا: ’عطا شاد نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی سطح پر ایک بڑا نام ہیں، دوسرا اگر کیچ میں اہم شخصیات کا ذکر کیا جائے تو عطا شاد سرفہرست نظرآتے ہیں، اس لیے ہم نے ان کے نام پرفیسٹیول رکھا۔‘ 

عطا شاد کون تھے؟ ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے اردو اور بلوچی زبان کے شاعرمحمد اسحاق جو بعد میں عطا محمد اورپھرعطا شاد سے مشہور ہوئے، وہ یکم نومبر 1939 کو سنگانی سر کیچ مکران میں پیدا ہوئے۔-بلو چستان کے  شہروں کے کتب میلے بمقابلہ کڑوڑوں کی آبادی اور  اعلی تعلیم یافتہ افراد کے کراچی اور لاہور  شہر کے  کتب میلے:بات شروع ہوتی ہے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کے کتب میلے سے جو دنیا کے عظیم ترین کتب میلوں میں صف اول کا کتاب میلہ مانا جاتا ہے۔کوئی دس برس قبل فرینکفرٹ کے میلے میں شرکت کی تو وہاں اکلوتا پاکستانی اسٹال بھی مل گیا ۔اسٹال کا تفصیلی جائزہ لیا تو کوئی بیس فیصد سے زائد کتب مذہبی موضوعات سے متعلق تھیں۔ شام کو واپسی پر دوبارہ پاکستانی اسٹال پر جانے کا ارادہ کیا۔ راستے میں ایک ہال میں انڈیا کا پویلین  آیا جو بائیس اسٹال پر مشتمل تھا ۔ اکثر انڈیا کے نامور ناشرین کے اسٹال تھے جن کی اکثریت کی اشاعت  انگریزی میں تھی ۔ ان کے فکشن اور نان فکشن کے نامور ناشرین شامل تھے۔ کتابوں کے موضوعات میں ایک بڑا تنوع تھا۔ یہی تنوع ہندی کتابوں میں بھی تھا جو کہ ہندی اسٹال والوں سے گفت وشنید سے واضح ہوا۔ ایک اور بات بڑے گر کی ایک انڈین انگریزی ناشر نے بتائی کہ ہندوستان میں ناول کا اصل قاری انگلش ریڈر ہی ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر