جمعہ، 2 اگست، 2024

سندھ معدنی زخائر سے مالا مال صوبہ…

 

صو بہ سندھ میں معدنی زخائر-پاکستان کے ماہرین ارضیات بتاتے ہیں  کہ صرف سندھ کی سرزمین پر پچاس ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کے معدنی ذخائرموجود ہیں۔یہ بات ایک  وزیر معدنیات  نے محکمہ معدنیات و ذخائر ڈویلپمنٹ اور داود یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی -انہوں  نے کہا کہ پہلی بار بائیولوجیکل مشینوں کے استعمال، ڈیٹا شئیرنگ اور ریسرچ کے ذریعے سے ان ذخائر سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ وزیر برائے معدنیات کا کہنا تھا کہ ماضی میں محکمے، جامعات اور متعلقہ ذمہ داران کی غلطیوں سے اس محکمے میں بہتر کام نہ ہوسکا، دنیا کے مختلف ممالک کی جی ڈی پی ان کی معدنیات پر منحصر ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس شعبے میں نئی ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری لائی جائے-انہوں نے بتایا کہ سندھ کی زمین میں سلیکا سینڈ سمیت پچاس ٹریلین ڈالرز کے بے شمار معدنیات موجود ہیں جبکہ ملک محض ایک ٹریلین ڈالر کے لیے ترس رہا ہے۔


صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی مائننگ کے خلاف اداروں کو شکایتی خط لکھا ہے، محکمہ کا سسٹم ڈیجیٹلائز کرنے اور مانیٹرنگ کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ضلع جامشورو معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے ضلع میں چونے کا پتھر (لائم اسٹون) یہ تھانو بولا خان کے قریب 10کلو میٹر کے فاصلے پر دریافت ہوئے۔ سیلٹائیٹ کی رگیں عمر ایوسین کے چونا پتھر میں ایک شگاف زدہ زون کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں اور دھاتیں سڑانشیم سلفیٹ، کیلشیم سلفیٹ، کیلشیم کاربونیٹ، سلیکا، بیریم سلفیٹ اس مقام پر اندازہ شدہ محفوظ 52ہزار لانگ ٹن ہیں۔ جن میں 25فیصد بے فائدہ مواد ہے باقی 39ہزار لانگ ٹن سیلٹائیٹ ہے۔ یہاں کانکنی 1956ء کے قریب شروع کی گئی تھی اور کچ دھات کھلے گڑھے کھود کر نکالی گئی کچھ کو دوسر ے پیوستہ پتھروں سے علیحدہ کرنے کا کام ہاتھوں سے کیا گیا۔ کچ دھات کا زیادہ تر استعمال کراچی اور لاہور میں واقع پینٹ کی فیکٹریز میں ہوتا ہے اس پہاڑی کے مشرق میں کئی اور فالٹ ہیں جن میں مزید معدنی گیس ملز کی توقع ہے۔سرزمین سندھ کے پہاڑ معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔ 


ماہرین ارضیات کے مطابق، سندھ کے پہاڑ تیل، گیس، گرینائیٹ، جپسم، کیلشئیم، چونا، گندھک، نباتات اور نادر قسم کے چرند پرند سے آباد ہیں۔ سندھ کے سب سے طویل پہاڑی سلسلے کو  کھیرتھر رینج کہتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے ’کھیر‘ ایک عربی نام ہے جس کا مطلب فضیلت، اعزاز اور سخاوت ہے۔  کھیرتھر رینج بھی سندھ کے لئے اعزاز کی بات ہے، جس کے طویل سلسلے میں کئی اور پہاڑ جڑے ہوئے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی، ان مختلف چوٹیوں کے جو الگ الگ مقامات پر ملتی ہیں، اپنے اپنے نام ہیں مگر یہ تمام چوٹیاں، چٹانیں اور پہاڑیاں  کھیر تھر رینج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلہ کوہ کی پہاڑیوں، چوٹیوں اور ان کے نشیبی علاقوں کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔کراچی کے علاقے گڈاپ سے اندر کی جانب سفر کریں تو کھار اور مول کے پہاڑ ہیں۔ لائم اسٹون اور چونے کے پتھر کا بڑا ذخیرہ ان پہاڑوں میں ملتا ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1500 فٹ بلند ہیں۔جھمپیر کے قریب میٹنگ کے پہاڑوں میں چائنا کلی جو کہ چینی کے برتن اور سرامکس (سینیٹری) کے لئے استعمال ہوتی ہے بڑے پیمانے پر ملتی ہے۔ یہاں میلوں رقبے پر چونے کے پتھر کے بڑے ذخائر موجود ہیں جو کیمیائی انڈسٹری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 


    دو ہزار پانچ سو  سال پرانی تاریخ کا حامل ضلع جامشوروتھانو بولا خان سے 5کلو میٹر دور فلرمٹی کے ذخائر کی بھی دریافت ہوئی ہے یہ مٹی دو مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے ایک تیل صاف کرنے کے کارخانے اور دوسرے کوزہ گری کے لئے اس کی سالانہ پیداوار تقریباً آٹھ ہزار ٹن ہے۔ کوٹری کے نزدیک سنگ مرمر کے ذخائر کی دریافت ہوئی ہے یہاں عمر ایوسیں کا چونا کا پتھر بھی موجود ہے۔ لاکھڑا کا علاقہ کوئلے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ میٹنگ قصبہ سے 98 کلو میٹر خانوٹ ریلوے اسٹیشن سے 16؍کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے۔ یہ کوئلے کی بہت بڑی کان کہلاتی ہے۔ضلع جامشورو میں آئل ا ینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے 1965ء میں ساری اور 1970ء میں ہندی کے مقام پر تیل و گیس کے ذخائر دریافت کئے۔ ساری میں 57کروڑ مکعب گیس موجود ہے۔ بحوالہ: (پاکستان کی معدنی دولت اعداد و شمار 2008ء تک کے ہیں)سیہون شریف سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر بڈو نامی بلند و بالا پہاڑ موجود ہے۔ 


یہ پہاڑ 3000 فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تیل اور گیس کے متعدد ذخائر ریافت ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اب بھی کئی مقامات پر مزید تلاش جاری ہے۔ بڈو جبل سے ماربل کا ذخیرہ بھی ملا ہے جو 46 میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کا پتھر ریتیلا کہا جاتا ہے جو تعمیرات کے لئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں پر قدرتی چشمے بھی ہیں۔ٹھٹہ کے قریب سندھ کا قدیم شہر سونڈا ہے۔ سونڈا کے پہاڑوں میں چونے کا پتھر ملتا ہے جبکہ تعمیراتی کام کے لئے پتھر بھی یہاں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کراچی اور نیشنل ہائی وے پر اکثر مرمتی کام کے لئے سونڈا کے پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا جاتا ہے۔ بالکل ہلدی کی طرح پیلا، چمکدار پتھر فقط یہاں نظر آتا ہے۔ جب برسات ہوتی ہے یہ پتھر دھل کر اور بھی نکھر جاتا ہے۔ سونڈا میں پہاڑیوں سے مزدور، سخت مشقت کر کے، پتھر توڑ کر، اسے فروخت کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک سونڈا میں قبریں اسی پتھر کی بنائی جاتی ہیں۔ یہاں ایک تاریخی قبرستان بھی ہے جو 15 صدی عیسوی کے زمانے کی لگتی ہیں۔  

یہ تحریر میں نے انٹرنیٹ  اور کچھ اپنی معلومات کی مدد سے تیار کی ہے


 

 




جمعرات، 1 اگست، 2024

خضدار'بلوچستان معدنی خزانوں کی سرزمین




بلوچستان کاوسائل اپنے محلِ وقوع، رقبے اور پاکستان کے باقی حصوں کی طرح انتہائی مثبت کا حامل ہے۔  کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی پاکستان میں ترقی کی پوشیدہ ہے - ۔بلوچستان کے تین اضلاع خضدار، اور آواران ملک کے لیے طاقت کے حامل اور تاریخ کے اعتبار سے منفر د مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ان اضلاع میں سکوت پذیر لوگ، جغرافیائی حدود، محل و وقوع، قدرتی و مدنی وسائل، بناوٹ، قدیم ثقافتی طرزِ عمل کی وجہ سے ہمیشہ توجہ کا مرکز رہے ۔یہاں کی قدرتی جھیل، فلک بوس وسنگلاخ پہاڑ جہاں خوبصورت ہیں وہ معدنی وسائل سے لبریز بھی ہیں۔ یہاں کی خوبصورتی کو پوری دنیا میں اعلیٰ اور ارفع بنادیتی۔اناضلاع کے تاریخی پس منظر اور قدرتی لینڈ سکیپ کی اپنی الگ شناخت ہے، خضدار کو 1974 میں ضلع کادرجہ ملا۔، قبل ازیں یہ قلات ضلع میں شامل ہے۔ خضدار کی آبادی آٹھ لاکھ دو ہزار سات اور رقبہ پنتیس ہزار تین سو اسی مربع کلومیٹرزپرمشتمل ہے۔ وڈھ، نال، کرخ، اس کی تحصیلیں اور خضدار صدر مقام۔ خضدار شہر نیشنل ہائی وے این 25 پر واقعتا ہے عرف عام میں آرسی ڈی ہائی وے یعنی ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ ہائی ویو کانام دیا جاتا ہے۔


جو کہ علاقائی ترقی تنظیم تعاون کے نام سے۔ یہ پاکستان اور ترکی کو ملانے کے لیے ایک معاہدے کے تحت کیا گیا تھا۔اب این ایچ اے کے نمبر میں اسے 25 کہا جاتا ہے۔ خضد ار سندھ کے دارالحکومت کراچی سے 300جب کہ رتوڈیرو سے 259 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ایم 8شاہ خضدار کو رتوڈیرو سندھ سے لنک ہے جس کی تعمیر تین سال قبل مکمل طور پر اور آمدورفت اور تجارت کے استعمال کے لیے استعمال ہے۔ 30دونوں شاہراہیں سی پیک کاحصہ یہ سینٹرل روٹ کہلاتا ہے۔ یہ شاہراہیں خضدار سے لنک ہو کر گزرتی ہیں۔ ان شاہراہوں کے نیٹ ورک کے لیے خضدار گوادر کے بعد سی پیک کے لیے دوسرے مرکز اور گیٹ وے ثابت ہونے والا ہے ۔  ۔قلات کا پرانا نام قیقان تھا ضلع قلات کی آبادی چار لاکھ اُنہترہزار اور رقبہ چھ ہزار سو اکیس مربع کلومیٹر ز ۔اس ضلع کی قلات اور منگچر دو تحصیلیں ہیں، یہاں براہ راست براہوی زبان چند خاندان بلوچی اور فارسی زبان بھی بولتے ہیں کہ قومی زبان میں اردو کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔ قلات ضلع بھی نیشنل ہائی وے این 25پر واقع اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 142 کلو میٹر کی دوری پر۔ سی پیک کا مشرقی روٹ ہوشاب، سوراب سے ہواضلع قلات کو لنک کر رہا ہے۔انہیں دنیا کے افسانوی کردار سے محبت اور محبت کی حقیقی داستان، شیرین اور فرہادکا مزار ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں واقع ہے ا س کے لیے یہ مزار بھی آواران کے لیے تاریخ بن چکا ہے۔خضدار ، قلات ، آواران کے پہاڑوں میں انمول خزانے چھپے ہوئے ۔ خضدار میں ماربل، کرویٹ، بیرائیٹ، لڈاینڈ زنک متفق دیگر قیمتی دھاتیں موجود ہیں۔خضدار کی زمین کی پیداوار کے لحاظ سے بھی زرخیز یہاں تمام پیداوار کی اجناس، پھل اور سبزیوں کی پیداوار ہوتی ہے، جب کہ یہاں زمین کاٹن کی کاشت کی پیداوار ہوتی ہے۔ آپ کے لیے اور یہاں کے لوگوں کے لیے اچھی خاصی حاصل کرتے ہیں۔ خضدا ر زیتون، مورنگا، شہتوت، انار، انگور، بادام،کھجور، کے نشان کے نشانے پر ہیں۔ خضدار گلہ بانی  اور زراعت کے لیے مشہور ہے۔   


-تانبا (Copper) : چا خضدار کی معدنی دولت -چا غی میں سیندک اور ریکوڈک جیسے مقامات پر اس کے بڑے ذخائر ہیں جن کے تخمینے پانچ بلین ٹن سے بڑھ کر یا کہیں بڑھ کر بتائے جاتے ہیں۔ایلومینیم (Aluminum) : اس کے بڑے ذخائر ہیں زیارت اور قلات کے علاقوں میں۔ قسم کے لحاظ سے یہ باکسائٹ (Bauxite) اور لیٹرائٹ (Laterite) کہلاتے ہیں۔  سیسہ اور جست (Lead and Zinc) :خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں ان کے کم وبیش ۶۰ ملین ٹن سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی کیرتھر بیلٹ کے علاقے دودّر میں بھی کوئی دس ملین ٹن کا ذخیرہ ملا ہے  کرومائٹ (Chromite) :مسلم باغ اور خضدار ، لس بیلہ کے علاقے میں ملتا ہے مگر ذخائر محدود ہیں ۔ مسلم باغ میں اس کی چھوٹے پیمانے پر کام کنی بھی ہوتی رہی ہے۔  سونا : چاغی میں سیندک اور ریکوڈک کے مقام پر مناسب مقدار میں ہے۔ چاغی میں چاندی ، مولی بڈنم (Molybdenum) ، یورینیم اور ٹنگسٹن (Tungsten) بھی کچھ مقدار میں ہے۔ وہا (Iron) : چاغی میں آتش فشانی چٹانوں میں ملا جلا لوہا بھی کوئی ا یک سو ملین ٹن کے لگ بھگ ہے اور زیادہ بھی ہوسکتاہے۔ پلاٹینم (Platinum) : مسلم باغ ، ژوب ، خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں موجود ہے ۔


ٹائی ٹینیم اور ذِرکن (Titanium & Zircon): یہ مکران کی ریت میں پائے گئے ہیں۔ مکران اور سیاہان کے علاقے میں اینٹی منی (Antimony) اور سونا چاندی بھی کچھ ملا تھا۔ غیر دھاتی منرلز  : ایلم (Alum) : یہ مغربی چاغی میں کو ہ سلطان آتشِ فشاں پہاڑ سے نکلتا ہے اور رنگسازی اور چمڑے کی صنعت میں کام آتا ہے۔ بیرائٹ (Barite) : کو ہ سلطان ، چاغی ، لس بیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے میں کام آتا ہے۔ ایس بسٹاس (Asbistos): ژوب سے نکلتا ہے۔ بیرائٹ (Barite) : کو ہ سلطان ، چاغی ، لس بیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے میں کام آتا ہے۔ فلورائیٹ (Fluorite) : قلات میں دالبندین اور آس پاس کے علاقوں میں اچھے ذخائر ہیں ۔جپسم (Gypsum) : یہ اسپن تنگی، ہرنائی اور چم لانگ کی طرف ملتا ہے۔ چونے کا پتھر (Limestone) : بلوچستان میں بھرا پڑا ہے۔ ذخائر پانچ بلین ٹن کے اندازوں سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ سیمنٹ بنانے میں کام آتا ہے۔ دکی ، بارکھان ،کوئٹہ ، ہرنائی ، شاہرگ ، خضدار ، قلات اور لس بیلہ کے علاقوں میں بھرپور ملتا ہے۔ ڈولومائٹ (Dolomite) : قلات اور خضدار میں لائم سٹون کے ساتھ ملتا ہے۔ سجاوٹی پتھر: جیسے ماربل (Marble) ،آنکس (Onyx) ، سرپینٹین (Serpentine) ، گرینائٹ (Granite) ، ڈائیورائٹ (Diorite) گیبرو (Gabbro) ، بسالٹ (Basalt), رائیو لائٹ (Rhyolite) اور کوارٹزائٹ (Quartzite) بلوچستان میں چاغی، خضدار ، لس بیلہ کی طرف بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لس بیلہ کے سجاوٹی پتھروں میں سربینٹین ، پکچر مارل سٹون، ریفل (Reefal) ، لائم اسٹون ، ماربل اور کئی قسموں کا فریکچرڈ لائم اسٹون مقبول ہیں اور کراچی کی کاٹج انڈسٹری کو سپلائی ہوتے ہیں جہاں ان سے فرش کے اور دیواروں کے لیے ٹائلز اور آرائشی برتن وغیرہ بنا کر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ ابریسوِز (Abrasives) :یہ وہ سخت قسم کے منرلز ہوتے ہیں جن کی مدد سے دوسرے منرلز کو، جو نسبتاً نرم ہوتے ہیں ، کاٹا جاتا ہے اور پالش کیا جاتا ہے۔ مثلا گارنٹ (Garnet) ، پامس (Pumice) ،پارلائٹ (Parlite) اور بسالٹ (Basalt) وغیرہ۔ یہ سب چاغی کے علاقے میں دستیاب ہیں اور کچھ ژوب کی طرف۔ فرٹیلائزر ( Fertilizers): پوٹا شیم چاغی اور کچھی ڈسٹرکٹ میں، نائٹریٹ چاغی میں اور 


فاسفیٹ بولان پاس کے علاقے میں ملتا ہے۔ میگنیشیم خضدار ، قلات ، مسلم باغ اور ژوب کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ رنگ سازی کی مد میں -- ذرد آکر (Ochre) زیارت، ڈسٹرکٹ میں ملتا ہے اور ٹالک (Talc) زیارت مسلم باغ کی طرف ۔ نمکیات (Salts) : اس مد میں ہم بوریکس (Borax) ، بوریٹس (Borates) اور سلفائڈ اور کاربونیٹس (Carbonates) کا نام لے سکتے ہیں، جو چاغی، لس بیلہ ، پنجگور اور مکران کی طرف ملتے ہیں جہاں نمک بھی ہوتا ہے۔گندھک : چاغی میں اور کچھی ڈسٹرکٹ میں ملتی ہے۔ میگنی سائٹ (Magnesite) :ژوب ، مسلم باغ اور لس بیلہ کے علاقوں کی آتشی چٹانوں کے ساتھ ملتا ہے ، جن کے لاولے کے ساتھ مینگنیز (Manganese) بھی ملتا ہے۔ سیلسٹایٹ (Celestite) : یہ کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، بارکھان اور لورالائی کی طرف پایا جاتا ہے۔ جم سٹونز (Gemstones) : بلوچستان میں اتنے اچھے جم اسٹونز نہیں جیسے شمالی پاکستان میں ہیں۔ قابل ذکر پتھر یہ ہیں : گارنٹ (Garnet) وغیرہ ، سفید اور ہراکوارٹز (Quartz) جسے بلّور یا سنگ مردار بھی کہا گیا ہے۔ اقسام کے عقیق (Agates) ، فیروزہ (Turquoise) ،کری سوکولا (Chrysocolla) ، مالاکائٹ (Malachite) ، ذِرکن (Zircon) ، جیڈ (Jade) ،جاسپر (Jasper) ، لاپس لزولی (Lapis Lazuli) یعنی لاجورد وغیرہ ۔سٹ رین (Citrine) ، آئیڈوکریز (Idocrase) ،کرسوپریز (Chrysoprase) اور ایمی تھسٹ (Amethyst) وغیرہ بھی ملتے ہیں مگر کوالٹی اور مقدار کا انداز کم ہے۔ بلوچستان میں سلی کا سینڈ (Silica Sand) بھی ملتی ہے اور سرمہ (Stibnite= Antimony Sulphide) بھی چمن فالٹ کے ساتھ کچھ ملا تھاگیس: روایتی (Conventional) گیس کے ذخائر زیادہ ہیں مگر ایسے آثار ہیں کہ غیر روایتی گیس (Unconventional Gas) کے ذخائر بھی بڑی مقدار میں مل سکتے ہیں۔ جیسے غازج شیل (Ghazij Shale) قدرتی گیس سے بھرا ہوسکتا ہے اور بہت سی شیل فارمیشنز ہیں۔کوئلے:جی ایس پی کے مطابق ، کوئٹہ ، مچھ ، شاہرگ اور اسپن کاریز کے اطراف میں کوئی ۲۱۷ ملین ٹن کوئلہ موجود ہے

 

 

بدھ، 31 جولائی، 2024

علمی اور ادبی دنیا کا منفرد نام 'جو ن ایلیا'

 



جون ایلیا دسمبر کی 31تار یخ 1931 کو اتر پردیش کے امروہہ میں پیدا ہوئے ایلیا  بتاتے  ہیں کہ وہ اپنی ولادت کے تھوڑی دیر بعد چھت کو گھورتے ہوئے میں عجیب طرح  سے ہنس پڑے تھے  جب انکی خالاؤں نے یہ منظر  دیکھا تو ڈر کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اس بے محل ہنسی کے بعد میں آج تک کھل کر نہیں ہنس سکا  ایلیا نے57 19 میں پاکستان ہجرت کی اور  کراچی  میں آباد ہو گئے ۔ یہاں ان کے سننے والوں میں انکی بہت پزیرائ ہوئ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول عام  ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی،  ان کا کہنا تھا ’’ کبھی کبھی تومجھے اپنی شاعری بری، بے تکی لگتی ہے... اس لیے اب تک میرا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا... اور جب تک خدا ہی شائع نہیں کرائے گا اس وقت تک شائع ہوگا بھی نہیں۔‘‘یہ سطور عالمی شہرت یافتہ اور اپنی مختلف طرز شاعری کے لیے پہچانے جانے والے شاعر جون ایلیا کے ہیں۔ جون ایلیا، یعنی ایک ایسا شاعر جس نے دنیا کو شاعری کے ایک نئے ڈھنگ سے روشناس کرایا اور لفظوں کو ایک نیا پیراہن عطا کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ لیکن جیسا کہ جون ایلیا نے اوپر دیے گئے سطور میں کہا ہے، وہ اپنی شاعری کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ سکتا ہوں کہ جس نے محض 8 سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی اور پھر عنفوان شباب میں مشاعرے لوٹتے رہے، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاید‘ 1990 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ ۔‘ 


31   جون ایلیا نے ایک علمی و ادبی خاندان پایا تھا اور والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں لسانیات کی باریکیوں کو سمجھا۔ چونکہ علامہ شفیق حسن خود عربی، فارسی و عبرانی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، ان کا اثر جون ایلیا پر بھی پڑا۔ عربی کی تعلیم تو انھوں نے باضابطہ دیوبند سے بھی حاصل کی اور ’کتاب التواسین‘ جیسی عربی کی متعدد کتابوں کے تراجم کی اشاعت کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ بھی جون ایلیا کے بیشتر شعری مجموعوں، مثلاً ’یعنی‘، ’گویا‘، ’لیکن‘ وغیرہ کی طرح ان کی وفات کے بعد ہی شائع ہوئے۔ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے جون ایلیا کے بارے میں ان کے  'عبرانی نزدیکی رشتہ دار سعید ممتاز کہتے ہیں کہ ’’جون کی لسانیات میں کافی دلچسپی تھی۔ اور  انہوں نے اردو'عربی ' فارسی سنسکرت' پر مہارت حاصل کی -ان کی شاعری کا انداز بھی انوکھا تھا اور ان کی تحریریں بھی نرالی تھیں - ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انھیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے پڑھنے کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوتے تھے۔ ان کی شرکت مشاعروں کی کام یابی کی ضمانت تھی۔ نام ور شاعر ان مشاعروں میں، جن میں جون ایلیا بھی ہوں، شرکت سے گھبراتے تھے۔ جون کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر نکلنا، رات کے وقت دھوپ کا چشمہ لگانا، کھڑاؤں پہن کر دُور دُور تک لوگوں سے ملنے چلے جانا، ان کے لیے عام بات تھی۔ 


جون ایلیا کی شاعری سے متعلق ایک بات جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسند، جدیدیت اور وجودیت جیسی تحریکوں سے وابستہ شاعروں کی اس روش سے خود کو الگ کیا جس میں ذات و کائنات کے مسائل حاوی ہوتے تھے۔ انھوں نے میر و مومن کے بعد ایک بار پھر عشق و محبت جیسے موضوعات کو شاعری کا عنصر بنایا اور غم ہجراں، وصال اور درد و الم سے شرابور نظمیں، غزلیں و قطعات صفحہ قرطاس پر اتار دیے۔ کچھ اشعار آپ بھی دیکھیے:روایتی اردو شاعری کی زمین پر سانسیں لیتے ہوئے بھی جون ایلیا ہمیشہ مثالی زندگی کے متلاشی رہے۔ لیکن اصل زندگی میں اخلاقیات کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں، اس میں تو مکاری اور نمائش کا عنصر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں بہت ناراض اور جھنجھلائے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ جب یہ ناراضگی اور جھنجھلاہٹ ان کی شاعری کا حصہ بنتی ہے تو وہ کلاسیکی عشقیہ شاعری نہ ہو کر زمین پر سانس لیتے ہوئے مرد و عورت کی محبت و نفرت کی شاعری بن جاتی ہے۔ اس طرح کی شاعری جون ایلیا کے یہاں خوب ملتی ہیں اور ان کی اصل پہچان بھی یہی بن گئی ہیں 

 پاکستان کے نام ور صحافی، ماہر نفسیات رئیس امروہوی اور جنگ اخبار کے پہلے ایڈیٹر و فلسفی سید محمد تقی، جون ایلیا کے بھائی تھے، جب کہ مشھور خطاط و مصور صادقین، فلم ساز کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدارس میں ہوئی جہاں انھوں نے اردو عربی اور فارسی سیکھی۔ درسی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور امتحان میں فیل بھی ہو جاتے تھے۔ بڑے ہونے کے بعد ان کو فلسفہ اور ہیئت سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی و عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ نوجوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان چلے گئے تھے۔ والدہ اور والد کے انتقال کے بعد جون ایلیا کو بھی ) میں با دل ناخواستہ پاکستان جانا پڑا اور وہ تا زندگی امروہہ اور ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا "پاکستان آ کر میں ہندوستانی ہو گیا۔" جون کو کام میں مشغول کر کے ان کو ہجرت کے کرب سے نکالنے کے لیے رئیس امروہوی نے اک علمی و ادبی رسالہ "انشا" جاری کیا، جس میں جون اداریے لکھتے تھے۔ بعد میں اس رسالہ کو "عالمی ڈائجسٹ" میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی زمانہ میں جون نے قبل از اسلام مشرق وسطی کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنی تحریک نیز فلسفے پر انگریزی، عربی اور فارسی کتابوں کے ترجمے کیے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ترقی بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انھوں نے ایک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

جس زمانہ میں جون ایلیا "انشا" میں کام کر رہے تھے، ان کی ملاقات مشہور جرنلسٹ اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔ (1970) میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا نے ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی اور وہ ان کے ساتھ خوش بھی رہے لیکن دونوں کے مزاجوں کے فرق نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ آخر تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں کی طلاق ہو گئی۔زاہدہ حنا سے علیحدگی جون کے لیے بڑا صدمہ تھی۔ وہ نیم تاریک کمرے میں پہروں تنہا بیٹھے رہتے۔ سگرٹ اور مشروب نے بھی ان کی صحت متاثر کی۔ 8 نومبر (2002) کو ان کی وفات ہو گئی۔ اپنی زندگی کی طرح وہ اپنی شاعری کی اشاعت کی طرف سے بھی لاپروا تھے۔ (1990) میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں لوگوں کے اصرار پر انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ”شاید" شاٸع کیا۔ جون صاحب کا مرتب کردہ دوسرا مجموعہ ”یعنی“ بعد از مرگ (2003) میں منظرِ عام پر آیا۔ بعد میں جون ایلیا کے قریبی ساتھی خالد احمد انصاری نے ان کا بکھرا ہوا کلام اور تحریریں سمیٹنے اور ان کی تدوین کر کے چھپوانے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ انھوں نے ’گمان‘ (2004) ’لیکن‘ (2006) ’گویا‘ (2008) جیسے خوب صورت شعری مجموعے قارئین کی نذر کیے۔ 2007 میں جون کے دوسرے شعری مجموعے ’یعنی‘ کو 80 اشعار کے اضافے کے ساتھ دوبارہ اور مختلف موضوعات پر انشائیوں کا مجموعہ، اردو نثری شاہکار ’فرنود‘ (2012) میں شائع کیا۔ (2016) میں جون ایلیا کی ایک طویل نظم ’راموز‘ کی مختلف اور منتخب الواح کے مجموعے کے بعد اب جون ایلیا پر لکھی گئی

اتوار، 28 جولائی، 2024

قدرت کی ننھی منی سی سوغات -فالسہ

 

 فالسہ اپنی جسامت کے اعتبار سے بہت چھوٹا سا پھل ہے، لیکن اس کے طبّی فوائد بہت زیادہ ہیں۔ یہ مختلف بیماریاں دُور کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور معدے کی گرمی، سینے کی جلن، مسوڑھوں کی خرابی، ذیابطیس، دست، قے اور لُو لگنے کی صُورت میں مفید ہے۔ فالسہ اینٹی آکسیڈنٹ پھل ہے، جو جسم سے غیر فاسد مادّے خارج کر کے ہمیں صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ پاکستان سمیت سری لنکا، بنگلادیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویت نام اور کمبوڈیا میں بھی پایا جاتا ہے۔

 اس کا سائز مٹر کے دانے جتنا ہوتا ہے۔ یہ ابتدا میں سبز، پھر سُرخ اور آخر میں سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ اس کا پودا 4سے 8میٹر بلند ہوتا ہے اور پتّے دل کی مانند ہوتے ہیں، جن کی لمبائی 20سینٹی میٹر اور چوڑائی 16.26سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ فالسے کے پودے پر موسمِ بہار میں چھوٹے چھوٹے پیلے رنگ کے پُھول نکلتے ہیں، جن کی پتیوں کی لمبائی 2ملی میٹر تک ہوتی ہے۔ یوں تو فالسے کے پودے پنجاب کے تمام اضلاع میں کاشت کیے جاتے ہیں، تاہم جنوبی پنجاب میں یہ پھل زیادہ کاشت کیا جاتا ہے۔ فالسہ اپنے منفرد ذائقے اور فرحت بخش اثرات کی بہ دولت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ فروری سے جون تک اس کے پودوں کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ پھل خُشک سرد تاثیر کا حامل ہوتا ہے۔ 

 اس میں پائے جانے والے غذائی اجزا کچھ یوں ہے۔ کیلوریز 90.5، چکنائی 0.1 گرام، پروٹین 1.57گرام، کاربوہائیڈریٹس 21.1گرام، ڈائٹری فائبر 5.53 گرام، کیلشیم 136ملی گرام، آئرن 1.08ملی گرام، پوٹاشیم 372ملی گرام، وٹامن اے 16.11گرام، فاسفورس 24.2ملی گرام، سوڈیم 173ملی گرام، وٹامن B1تھایا مین 0.02ملی گرام، وٹامن B2رائبو فلیون 0.264ملی گرام اور وٹامن سی 4.385ملی گرام۔ذیل میں فالسے کے کچھ طبّی فوائد پیش کیے جا رہے ہیں۔1۔ خون میں اضافہ: فالسے میں آئرن کافی مقدار میں پایا جاتا ہے، جو خون کے بہاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اعضا اور بافتوں کو طاقت فراہم کرتا ہے۔ جسم میں آئرن کی کمی سے جن افراد کو سُستی اور چکر آنے کی شکایت ہو، اُن کے لیے فالسہ بے حد مفید ہے، جو خون کی کمی کافی حد تک دُور کر دیتا ہے۔2۔ جوڑوں کے درد میں کمی: اینٹی آکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے فالسہ جوڑوں کی سوزش کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آسٹیوپوروسس اور آرتھرائٹس کے شکار افراد بالخصوص خواتین کو اپنی روزمرّہ خوراک میں فالسے کا استعمال لازماً کرنا چاہیے3۔ قدرتی ٹھنڈک کا احساس: فالسے کھانے سے جسم کو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ زیادہ جسمانی درجۂ حرارت والے افراد فالسے کی مدد سے حدّت کم کر سکتے ہیں، جب کہ موسمِ گرما میں اکثر بخار میں مبتلا رہنے والے افراد کو بھی فالسے لازماً کھانے چاہئیں۔4


۔ نظامِ تنفّس کے امراض سے نجات: وٹامن سی پائے جانے کے باعث فالسہ دمے، نزلہ، زکام اور کھانسی سمیت نظامِ تنفّس سے متعلق دیگر متعدّد امراض نجات دلاتا ہے۔5۔ شوگر پر قابو پانے کی صلاحیت: چوں کہ فالسے میں پولی فینل پایا جاتا ہے اور یہ اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہے، تو یہ بڑھی ہوئی شوگر پر قابو پانے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے، یہ پھل ذیابطیس کے مریضوں کے لیے نعمتِ خداوندی ہے اور وہ اسے جی بَھر کر کھا سکتے ہیں۔6۔ ملیریا سے نجات: ملیریا کے شکار افراد کو فالسے ضرور کھانے چاہئیں، کیوں کہ یہ جسم کی اضافی گرمی، درد، بخار اور بے چینی کی کیفیت دُور کر تا ہے۔7۔ ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول: فالسے میں موجود پوٹاشیم اور فاسفورس ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتے ہیں۔ نیز، فالسہ خون میں موجود خراب کولیسٹرول پر قابو پا کر اس کے بہاؤ میں اضافہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ پھل ہارٹ اٹیک سے بچاؤ سمیت دل کی کارکردگی بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔8۔ زخم بھرنے میں معاون :فالسہ ایگزیما سمیت دیگر زخموں کو ٹھیک کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس کے پتّوں کو ایگزیما اور دیگر زخموں پر لگایا جائے، تو شفا ملتی ہے9۔ ہڈیوں کی صحت کا ضامن: فالسے میں کیلشیم کی موجودگی ہڈیوں کی صحت کی ضامن ہے۔ یہ پھل ہڈیوں کو طاقت دے کر انہیں بُھربُھرے پن سے بچاتا ہے۔


10۔ سوڈیم کا منبع: فالسہ سوڈیم کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ الیکٹرولائٹس اور انزائمز کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔11۔ ڈائریا پر قابو: فالسہ نظامِ انہضام کی بہتری میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ معدے کی فعالیت بھی بڑھاتا ہے اور اس کے باقاعدہ استعمال سے ڈائریا اور قے کی شکایت دُور ہو جاتی ہے۔12۔ توانائی کا ذریعہ: فالسہ پروٹین کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ اس کے استعمال سے جسم کو توانائی ملتی ہے اور انسان چُست و توانا رہتا ہےآگ برساتے سورج کے ساتھ موسم گرما کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے مگر یہ موسم اپنے ساتھ چند مزیدار پھلوں کو بھی لے کر آتا ہے۔اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ لاتعداد افراد ایسے ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ فالسے ان کے پسندیدہ پھلوں میں سے ایک ہے۔اس کا جوس بنائیں یا ویسے ہی کھائیں، کچھ دنوں کے لیے آنے والا یہ پھل کئی طرح منہ کے ذائقہ بہتر بنانے کا کام کرتا ہے۔مگر کیا آپ کو صحت کے لیے اس کے فوائد کا علم ہے؟ جن میں سے ایک ہیٹ اسٹروک سے بچاﺅ بھی ہے؟درحقیقت یہ کسی بھی سپر فوڈ سے کم نہیں جس کے چند فوائد درج ذیل ہیں۔معدے کے لیے بہترینفالسے کا جوس نظام ہاضمہ کے لیے بہترین ہے، انسائیکلو پیڈیا آف ورلڈکے مطابق یہ نہ صرف نظام ہاضمہ کے افعال کو کنٹرول میں رکھتا ہے بلکہ یہ جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کے ساتھ جسم میں پانی کی کمی کو دور بھی کرتا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق فالسے کا جوس پینے سے پیٹ کے درد کا علاج بھی ممکن ہے، جس کے لیے جوس میں تین گرام اجوائن ملائیں اور تھوڑا سا گرم کرکے پی لیں۔





بچوں میں پیدائشی نقائص -ماں زمہ دار

 

ڈاون‮ ‬سنڈروم‮ ‬ کا حامل بچہ  ‮ ‬‮ ‬46‮ ‬کی‮ ‬جگہ‮ ‬47‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے-‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دراصل‮ ‬کروموسوم‮ ‬21‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے۔‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دماغ‮ ‬کی‮ ‬نشونما‮ ‬میں‮ ‬تاخیر‮ ‬اور‮ ‬جسمانی‮ ‬معذوری‮ ‬کا‮ ‬سبب‮ ‬بنتا‮ ‬ہے۔‮ ‬ڈاون‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہونے ‬والے‮ ‬بچے‮ ‬تمام‮ ‬سماجی‮ ‬و‮ ‬اقتصادی‮ ‬حیثیت‮ ‬سے‮ ‬بالاتر‮ ‬ہوتے‮ ‬ہیں۔ اور بتایا جاتا ہےکہ ماں کی عمر 37 سے اوپر ہو تو اس قسم کا بچہ پیدا ہونے کے چانسز قوی ہوتے ہیں کا 

 کہا جاتا ہے کہ اس مرض سے متاثرہ فرد اپنی ذات میں گم رہتا ہے، حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا  ہے۔   ان بچوں کو چیزوں کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔یہ معذوری عمر کے ابتدائی سالوں میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ دماغ کی کیمسٹری میں کچھ خرابی کا اثر دماغ کے ان حصّوں پر پڑتا ہے جو رابطے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی‘ان کا کہنا ہے کہ آٹزم پر بہت بار بات چیت کی جاتی ہے مگر اسے کم ہی سمجھا گیا ہے  اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کوبھی آٹزم تھا۔

امریکن سا ئکائٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق مندرجہ ذیل علامات اگر بچے کی عمر کے پہلے تین سالوں میں ظاہر ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اسے آٹزم ہے۔آپس میں تعلقات یعنی سماجی میل جول میں واضح طور پر عام بچوں سے پیچھے ہونا۔رابطے کی مہارت میں واضح طور پر اپنے ہم عمر بچوں سے کم ہونا۔ماحول میں دلچسپی نہ لینا اور اردگر کی چیزوں پر توجہ نہ دینا ۔گزشتہ دنوں ہم نے آٹزم کا شکار18سالہ عمر کے والد سے ملاقات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے معمولات اور اس سے جڑے افراد کس طرح مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔عمرکے والد گزشتہ 28سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں،وہ ایک ادیب،شاعر اور کالم نگار ہیں۔ہم جب ان کی رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے انتہائی پرتپاک انداز میں ہمارا خیر مقدم کیااور ساتھ ہی تواضع کا سامان بھی سامنے رکھ دیا۔اپنے فرزند کی بیماری کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ گویا ہوئے:


میرے چار بچے ہیں،عمر میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اس وقت اس کی عمر 18برس ہے ۔ہمیں عمر کی بیماری کا ابتدائی چار پانچ سال میں بالکل اندازہ نہیں ہو سکا،نہ ہی اس وقت آٹزم جیسی بیماری کا کسی اخبار یاٹی وی میں ذکر ہوتا تھا،یہی سبب ہے کہ اس کے مرض کی تشخیص میں کافی وقت لگا،یہ کارٹون بہت دیکھتا تھا ،کارٹون کی زبان انگریزی تھی تو جب اس نے بولنا شروع کیا تو یہ بھی کارٹون میں سنے ہوئے بامعنی جملے کہتا،  Taxi Wait for me۔ابتداء میں ہم نے انہیں معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر ۔پھر معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہارون کے پاس گئے،انہوں نے دو ڈھائی سو سوالات پوچھے اور مرض کی تشخیص کرتے ہوئے بتایا کہ اسے بیک وقت آٹزمADHD(Attention Deficit Hyperactivity Disorder)اورHyperactivity Disorderہے۔انہوں نے ادویات دیئے اور علاج شروع کیا۔اسی عرصے میں کچھ لوگوں نے ہمیں روحانی علاج کا مشورہ دیا،ہم روحانی معالج کے پاس گئے


 تو انہوں نے ہمیں چالیس دن کا کورس بتایا اور ان کی شرط یہ تھی کہ ایک دن بھی ناغہ کیے بغیر ان کے پاس جانا ہے ،یہ یک مشکل مرحلہ تھا کہ کیوں کہ عامل صاحب ہمارے گھر سے کافی دور ایک ایسے مقام پر تھے جہاں بس نہیں جاتی اور ٹیکسی والے بھی کم ہی جاتے تھے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر وہاں جانا شروع کیا،مگر وہاں جانا بھی ہمارے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا ،ان کے پاس جانے کا اس کے سوااور کوئی نتیجہ نہیں نکلا کہ عمر نے بھی ان کی طرح نقش بنانا اور بوتلوں میں پھونکنا سیکھ لیا۔ان عامل صاحب کو جب پتا چلا کہ میں ایک صحافی ہوں تو انہوں نے معاوضہ لینے سے انکار کردیا ،ان کے عمل سے اعشاریہ ایک فیصد بھی مرض میں بہتری نہیں آئی۔پھر ایک صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ سورہ ملک اور سورہ واقعہ 23-23مرتبہ پڑھ کر پھونکا جائے ،ہم نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ بھی کیا۔ پہلے دن تلاوت میں پونے دو گھنٹے لگے،پھر اس عمل کو ہم نے معمول بنالیاکہ عشاء کی نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کے بعد دم کرتا،ڈھائی پونے تین ماہ ہم نے یہ عمل کیا مگر اس کا بھی اثر نہیں ہوا۔ایک اور صاحب نے ہمیں چند دعائیں بتائیں کہ یہ پڑھ کر کان میں پھونکیں مگر اس کا بھی نتیجہ نہیں نکلا۔


اس مرض کے حوالے سے کوئی اسکول بھی نہیں تھا جہاں ہم اسے داخل کراتے ،ایک مرتبہ ہمیں پتا چلا کہ ہل پارک کے قریب ماں عائشہؓ اسکول ہے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسکول بن رہا ہے مگر پک اینڈ ڈراپ نہیں ہے،یہ سہولت ہمارے پاس بھی نہیں تھی سو ہم نے گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا ساتھ ایک ڈرائیور بھی رکھا۔عمر پہلی مرتبہ اسکول گیا۔وہاں اسکول والوں کو عمر کی صحیح کیفیت کا اندازہ نہیں تھا ایک دن وہ اسکول سے باہر نکل گیا اور یہ ہوا کہ وہاں کے استاد کا اسکول انتظامیہ سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور وہ اسکول چھوڑ کر چلے گئے اس طرح یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔پھر ہم ایک حکیم صاحب کے پاس گئے انہوں نے بتایا کہ اس بچے کے دماغ کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا جب یہ سوجائے تو اس کے سر پر جَو کے آٹے کی گرم روٹی لیپ کریں یہ ایک ایسا عمل تھا جس کو عمرکے نیند کی کچی کیفیت کی وجہ سے بروئے کار لانا ممکن نہ تھا سو ہم ایسا نہیں کر سکے۔ایک اور صاحب نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ کل سورج گرہن ہے اور جب تک سورج گرہن رہے آپ ساحل پر لے جاکر دھڑ تک اسے ریت میں دبادیں،اس کی شعاعوں سے علاج ممکن ہے،یہ ایک مضحکہ خیر عمل محسوس ہوا مگر اپنے بیٹے کی محبت نے ہمیں اس پر بھی مجبور کردیا اور ہم نے ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیامگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں  نکلا۔ پھر ہم نے کئی ہومیو پیتھک ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔  تحریر یہاں پر ختم ہے

میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک گھریلو خاتون ہوں میرا میڈیکل کے شعبے سے کوئ تعلق نہیں ہے لیکن کتابی علم سے وابستگی کی بدولت جو حاصل کرتی ہوں آپ کی نظر کر دیتی ہوں  


 


 

جمعہ، 26 جولائی، 2024

پیر علی محمد راشدی پار ٹ دوم-روداد چمن

   دنیا کے کسی ملک نے من حیث الجماعت  اس طرح سے رسوا کرنے کیلئے  اہتمام نہیں کیا جیسا کہ پروڈا جیسے  کالے قانون  کو محض حقیقی سیاستدانوں  کو بدنام کرنے کے لئے لاگو کیا گیا۔یہ صحیح اور مناسب چیز ہے کہ منتخب نمائندوں کا احتساب ہو،مگر جمہوری نظام کے تحت اس کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ مثلاً(1) ہر تیسرے چوتھے سال بلاتکلف بلاناغہ نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ اور عوام کو موقع ملتا ہے کہ وہ غلط آدمیوں کو نکال کر نئے آدمی منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجیں۔(2) انتخابات کی کشمکش کے دوران مخالف و موافق پروپیگنڈہ ہوتا ہے،جس سے ہر امیدوار کی پچھلی کارکردگی کی تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے آخری فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کو منتخب کیا جائے اور کس کو رد کیا جائے۔(3) اخبارات کو کامل و مکمل آزادی ہوتی ہے اور وہ سارا وقت غلط وزیروں اور بدعنوان منتخب نمائندوں کی پردہ دری کرتے رہتے ہیں اور عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے نمائندے کیا کچھ کر رہے ہیں۔(4) اسمبلیوں اور کونسلوں میں اپوزیشن پارٹیاں ہوتی ہیں۔ جن کا کام بھی یہی ہے کہ وہ برسر منصب وزیروں کے عیوب کو اچھال کر عوام کو باخبر رکھیں۔(5) سالانہ بجٹ پر بحث کے دوران وزیروں پر سخت سے سخت نکتہ چینی کی آزادی ہوتی ہے۔(6) عدم اعتماد کی تحریک یا بجٹ میں ایک روپیہ کی تخفیف کے ذریعے وزیروں کو کسی وقت بھی برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(7) عوام ہر وقت جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں کے ذریعے وزیروں کی زندگی تلخ کرسکتے ہیں۔غرض منتخب نمائندوں کے احتساب کے اس طریقہ کار کے تحت، اپنے نمائندوں سے باز پرس کا کام انہیں عوام کے اختیار میں ہی رہتا ہے،جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا ہے کہ نمائندہ میرا اور اس کی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں ہو۔ پروڈائی طریقے سے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری اپنے منتخب کرنے والے عوام سے ختم ہو جاتی تھی۔ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے بنیادی مقاصد فوت ہو جاتے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل بدنیتی پر مبنی نہ ہو اگر احتساب کی بنیاد بدنیتی پر ہو تو اس کا اثر الٹا ہی نکلتا ہے اور اس سے احتساب کرنے والوں کی اپنی ساکھ مجروح ہو جاتی ہے۔اب پروڈا کے فضائل اور اس کی ابتدا اور پھر انتہا پر نظر ڈالئے۔ پروڈا کی مشینری کو حرکت میں لانے کیلئے طریقہ یہ رکھا گیا کہ کسی جھوٹی سچی شکایت پر مرکزی حکومت کا مقرر کردہ گورنر، اپنے کسی وزیر کو ڈسمس کر کے اپنی مرضی کا ٹریبونل بٹھا کر اور اس سے رائے لے کر مرکزی حکومت سے اس وزیر کو کئی سال کیلئے نااہل قرار دلوانے کا مجاز تھا۔پروڈا کے مقدموں میں وزیروں کے خلاف ان کے سیکرٹری اور دوسرے زیردست گواہ بن کر آتے تھےاور اکثر یہ دکھاتے تھے کہ متعلقہ فائل پر ہم نے یہ رائے دی تھی اور اس سے اختلاف کر کے وزیر نے یہ فیصلہ دیا،جس سے بدعنوانی واقع ہوگئی۔

یاد رہے کہ پروڈا کی کارروائیاں سارے پاکستان میں ہوتی رہیں، مگر پاکستان بھر میں کسی سیاست دان کے خلاف، ہزار کوششوں کے باوجود، رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔رہا بدعنوانی کا الزام تو یہ ایک مبہم چیز تھی۔ مثلاً بدعنوانی کیا چیز ہے؟ بدعنوانی کا معیار کیا ہو؟ انتظامی امور میں کس فعل کو بدعنوانی قرار دیا جائے اور کس ’’خوش عنوانی‘‘ سے تعبیر کیا جائے؟ یہ ان افسروں اور ٹریبونلوں کی صوابدید پر منحصر رہا،وہ رات کو دن، دن کو رات قرار دے سکتے تھے۔ یعنی رسی جس کی گردن میں فٹ آجائے اس کو پھانسی پر چڑھادیا جائے۔!میں نہیں کہتا کہ مرکز کے جن سیاست دانوں نے پروڈا بنایا ان کی نیت خراب تھی، مگر پروڈا کا جو نتیجہ نکلا وہ کئی لحاظ سے افسوس ناک ثابت ہوا مثلاً(1) عوام کے منتخب وزیر محض پروڈا کی بے آبروئی سے بچنے کی خاطر نوکر شاہی کی کاغذی کارروائی کو عوامی مفاد کے تقاضوں پر ترجیح دینے لگے،اور اس طرح سے عوامی نمائندگی عملاً بے اثر اور نوکر شاہی عملاً مختار کل بن گئی۔ جمہوریت کو نوکر شاہی کے قدموں میں لٹا دینے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔(2) منتخب اسمبلیوں کو بیکار بنا دیا، کیونکہ جب اپنے وزیروں پر احتساب کا اختیار اس کے پاس نہیں رہا (جو جمہوری اصولوں کے تحت اسمبلیوں کا بنیادی حق تھا) اور یہ کام اوپر ہی اوپر ہونے لگا، تو اسمبلیاں محض نام کی رہ گئیں۔

(3) صوبوں میں لوگوں کے مابین اختلافات کو شہ مل گئی۔ جب احتساب کا اختیار عوام کے پاس نہیں رہا اور وزیروں کی تقرری و موقوفی، عوام کے ووٹوں پر منحصر نہیں رہی بلکہ اوپر والوں کے ہاتھوں میں آگئی تو وزیروں کے مخالفوں کے پاس یہی ایک حربہ رہ گیا کہ وہ جابےجا شکایتوں کا طوفان کھڑا کر کے، پروڈا کے تحت ان کو پکڑوا کر سیاسی میدان سے نکلوا دیں،یہی ہونے لگا اور بڑے پیمانے پر ہوتا رہا۔ مثلاً ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کا کوئی چلتا پھرتا سیاست دان(میرے بغیر) ایسا نہیں رہا جو پروڈا کے تحت نااہل نہیں قرار دیا گیا۔ غرض ایک ایسی افراتفری پھیل گئی کہ صوبوں میں جمہوریت کی چولیں ہل گئیں اور صوبوں میں مرکز کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، یہی نوکر شاہی کا حقیقی مقصد تھا،جس کیلئے انہوں نے پروڈا کا نسخہ بنوایا تھا۔(4) جس طرح اوپر عرض کیا جا چکا ہے، پروڈا کی جملہ ہنگامہ آرائیوں کے باوجود کسی ایک سیاست دان کے خلاف بھی رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا،یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔(5) پورے پانچ چھ سال یہ ڈرامہ ہوتا رہا اور سارا عرصہ دنیا کے سامنے پاکستان کی تذلیل اور پاکستانی جمہوریت کی تحقیر ہرتی رہی،باہر کے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ عجیب اسلامی ملک بنا ہے،جس کو چلانے والے سیاست دانوں کی اکثریت صرف ایک سال کے اندر ہی اس قدر بددیانت ثابت ہو رہی ہے۔(6) چھ سال بعد دیکھا گیا کہ یہ ’’قانون‘‘ خود ہی خلاف قانون پاس ہوا تھا،لہٰذا اس کو منسوخ اور اس کے مجرومین کو اس کی پابندیوں سے آزاد سمجھا گیا

بلاوجہ سیاست دان چھ سال بے آبرو ہوتے رہے۔ لاکھوں روپیہ طرفین کا وکیلوں اور کاغذوں پر ضائع ہوتا رہا۔ مثلاً کھوڑو مرحوم کو اپنی طرف سے وکالت کیلئے الہ آباد ہائیکورٹ کے، سابق چیف جسٹس سر اقبال احمد کو بلانا پڑا،جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان بھر میں مجموعی طور پر کتنی دولت اس ڈرامہ پر خرچ ہوئی ہوگی۔(7) البتہ پروڈا کی افادیت، نوکر شاہی اور شخصی حکمرانوں کے نقطہ نظر سے، ایک بار ثابت ہو چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کا دور آیا اور سیاست کے میدان کو سیاست دانوں سے خالی کرنے کی پھر ضرورت محسوس ہوئی تو اسی پروڈا کی طرز پر ’’پوڈو اور ایبڈو‘‘ بنائے گئے جن کے تحت سہروردی مرحوم قیوم خان مرحوم، دولتانہ صاب اور دوسرے چوٹی کے رہنمائوں کا کام تمام کر دیا گیا۔ اور اس ایبڈو کی برکت سے سیاست کا میدان فیلڈ مارشل مرحوم اور ان کے چمچوں کیلئے کھلا رہ گیا جو پورے دس سال ملک پر مسلط رہے۔ تاوقتیکہ ’’چینی چور ی‘‘ کی منزل نہیں آئی(8) جن معتوب یا ’’بدعنوان‘‘ قومی نمائندوں کو پروڈا کے تحت نااہل ثابت کر دیا گیا تھا وہ پروڈا منسوخ ہوتے ہی، اپنے عوام کی مدد سے دوبارہ وزارتوں پر بیٹھ گئےاور ان کے بیٹھنے سے نہ تو کوئی زلزلہ آیا نہ پاکستان کے سر پر خدانخواستہ کوئی بم پھٹا۔بہرحال یہ تھا سلوک جو پاکستان بنتے ہی سیاست دانوں سے ہونے لگا۔


(پیر علی راشدی کی کتاب، ’’رودادِ چمن‘‘ سے ایک باب جو 1982ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شایع ہوا تھا)۔

ب

جمعرات، 25 جولائی، 2024

زعفران-کھانوں کی جان

   زرا غور کیجئے قدرت کی ان نعمتوں پر جو ہم نے اس سے مانگی بھی نہیں اور اس نے ہم کو بن مانگے عطا کر دی ہیں ان نعمتوں میں ایک بیش بہا نعمت زعفران ہے  آئیے زعفرا  ن اور اس کی خوبیوں کو دیکھتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ زعفران کے بیج دانے دار یا کسی اور شکل میں نہیں ہوتے۔ پھول- اس وقت شروع ہوتا ہے جب درجہ حرارت 15-20 ڈگری سیلسیس سے نیچے گر جاتا ہے۔ ہر علاقے میں پھولوں کا موسم مختلف پایا گیا ہے۔ نوٹ کریں کہ بلب (زعفران کے بیجوں کو بلب کہا جاتا ہے) دسمبر کے اوائل میں اور کچھ علاقوں میں پھول آنے کے لیے جنوری کے آخر تک لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ زیادہ بیج پیدا کرنے کے لیے پودے مارچ تک لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب اگست سے دسمبر تک کسی بھی موسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب لگاتے وقت درج ذیل نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے: معتدل آب و ہوا زعفران کے لیے بہترین ہے۔ ہے اور سرد موسم کے آتے ہی پھول کھلنے لگتے ہیں۔ زعفران کا بلب سردیوں میں اگنے لگتا ہے، زعفران کا بلب زمین میں بہت تیزی سے اگتا ہے۔ یہ 2 سے 4، 4 سے 8 اور 8 سے 16 اور کھال 32 ہو جاتی ہے۔ ہر 2 یا 3 سال بعد انہیں نکال کر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں، اگر صحیح طریقے سے محفوظ کیا جائے تو زعفران کا بیج 20 سال تک زندہ رہتا ہے۔ اور مزید ہزاروں بلب پیدا کرتا ہے۔


زعفران کی فصل۔زعفران کے بیج کا سائز پیاز کے برابر ہوتا ہے-زعفران بے شمار فوائد کی حامل ایسی پر اثر اور غیر معمولی بوٹی ہے جسے سینکڑوں سالوں سے مختلف طبی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بوٹی گرم اور خشک مزاج کی حامل ہوتی ہے اور اس کے پودے کی مشابہت پیاز سے ملتی جلتی ہے۔ زعفران کو کیسر اور سیفران بھی کہا جاتا ہے۔یہ بہت زیادہ طبی فوائد کی حامل ہے کیوں کہ زعفران میں وٹامن اے، سی، میگنیشیم، پوٹاشیم، سیلینیئم، زنک، اور فاسفورس پائے جاتے ہیں۔ اس بوٹی کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ تھوڑا سا تلخ ہوتا ہے، لیکن اس میں بہت زیادہ خوشبو ہوتی ہے۔اس کا استعمال نہ صرف کھانوں کو خوشبودار اور لذیذ بناتا ہے بلکہ اس کو کپڑے رنگنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو کروکس سیٹیوس نامی پھول سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے اس پھول سے دھاگوں کی شکل میں اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس کو اکٹھا کرنا کافی دشوار ہوتا ہے۔اس کی کاشت کرنے والے بہت احتیاط کے ساتھ اسے پھولوں سے چنتے ہیں اور پھر انہیں گرم کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ زعفران کی کاشت ہر جگہ ممکن نہیں ہوتی جو اسے دنیا کا مہنگا ترین مسالا بناتی ہے

کم از کم 12 بلب خریدیں۔ عام طور پر ایک گچھے میں چھ چھ بلب ایک ساتھ اگائے جاتے ہیں۔ گچھوں میں اگنے سے زیادہ پھول پیدا ہوں گے۔ لیکن آپ انہیں الگ سے بھی بڑھا سکتے ہیں۔ ان کے درمیان فاصلہ کم از کم چھ سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔ زعفران کے بلب اگست سے جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ برف پڑنے والی مٹی پر برف پڑنے سے چھ سے آٹھ ہفتے پہلے بلب لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں زیادہ براہ راست سورج کی روشنی حاصل ہو۔ مٹی میں ایک چھوٹا سا سوراخ کریں اور تقریباً بارہ سے سولہ انچ۔ مٹی کو اچھی طرح نرم کریں۔ اور پھر سرحد پر زعفران کے بلب لگائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پانی زمین میں جمع نہ ہو۔ ریتلی مٹی کا استعمال بہتر ہے۔ نمی برقرار رکھنے کے لیے۔ آٹھ انچ یا 20 سینٹی میٹر کا گڑھا بنائیں اور اس میں زعفران کا بلب رکھیں۔

مختلف کھادوں اور کیمیکلز کا مرکب کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یا آپ بایوٹیک سے کھاد کا پیکٹ بھی منگو سکتے ہیں۔ بلب لگاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ بلب کی پتلی یا کھلی سائیڈ کو اوپر رکھیں۔ - زعفران کا بلب لگانے کے بعد زمین کو اچھی طرح پانی دیں۔ . موسم سرما کی بارشوں کی وجہ سے پانی کی مناسب فراہمی برقرار ہے۔ زعفران کا بلب بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور سردیوں میں پھول آنے کے بعد اس سے بے شمار چھوٹے بلب نکلنے لگتے ہیں۔ ان کو الگ کر کے مزید فصلیں اٹھائی جا سکتی ہیں یا منڈی میں فروخت کی جا سکتی ہیں۔ اب ہم آپ کو بتائیں کہ زعفران کی فصل سے فی کنال کتنی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے؟ زعفران کی فی کنال پیداوار کا حساب لگانا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک ایکڑ میں زعفران کے کتنے پودے لگائے جاتے ہیں۔

ایک سادہ حساب یہ ہے کہ ایک کنال رقبہ پر تقریباً 10,000 زعفران کے پودے لگائے  جا سکتے  ہیں۔ اگر ایک پودا اوسطاً تین پھول دیتا ہے تو 10,000 پودے 30,000 پھول پیدا کرتے ہیں۔ زعفران کے 150 پھولوں سے ایک گرام خالص زعفران حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح 30 ہزار پھولوں سے 200 گرام خالص زعفران حاصل ہوگا۔ واضح رہے کہ زعفران کا ایک پودا ایک موسم میں 3 سے 15 پھول دیتا ہے۔ لیکن ہم نے کم سے کم یعنی 3 پھولوں کو سامنے رکھتے ہوئے پیداوار کا حساب لگایا ہے۔زعفران کے بیجوں کو بلب کہتے ہیں۔زعفران کے بیج یا بلب کی شکل لہسن کی طرح ہوتی ہے۔واضح رہے کہ ایک ہی زعفران کے بیج یعنی بلب کو بار بار لگایا جاتا ہے اور اسے 10 سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔- دلچسپ بات یہ ہے کہ جب زعفران کا بلب زمین میں لگایا جاتا ہے تو ایک سال کے اندر وہ زمین میں اگنے لگتا ہے۔ . اپنے جیسے بہت سے بلب تیار کرتا ہے۔ عام طور پر زعفران کا ایک بلب ایک سال میں اپنے جیسے کم از کم 5 بلب پیدا کرتا ہے۔ اس طرح خالص زعفران کی پیداوار کے ساتھ ساتھ کسان کو زعفران کے اضافی بیج بھی ملتے ہیں، اگر ایک پودا پانچ بلب پیدا کرے تو ایک نہر میں 10 ہزار پودے 50 ہزار نئے بلب پیدا کریں گے اور اس کے مطابق اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر