دنیا کے کسی ملک نے من حیث الجماعت اس طرح سے رسوا کرنے کیلئے اہتمام نہیں کیا جیسا کہ پروڈا جیسے کالے قانون کو محض حقیقی سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لئے لاگو کیا گیا۔یہ صحیح اور مناسب چیز ہے کہ منتخب نمائندوں کا احتساب ہو،مگر جمہوری نظام کے تحت اس کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ مثلاً(1) ہر تیسرے چوتھے سال بلاتکلف بلاناغہ نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ اور عوام کو موقع ملتا ہے کہ وہ غلط آدمیوں کو نکال کر نئے آدمی منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجیں۔(2) انتخابات کی کشمکش کے دوران مخالف و موافق پروپیگنڈہ ہوتا ہے،جس سے ہر امیدوار کی پچھلی کارکردگی کی تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے آخری فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کو منتخب کیا جائے اور کس کو رد کیا جائے۔(3) اخبارات کو کامل و مکمل آزادی ہوتی ہے اور وہ سارا وقت غلط وزیروں اور بدعنوان منتخب نمائندوں کی پردہ دری کرتے رہتے ہیں اور عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے نمائندے کیا کچھ کر رہے ہیں۔(4) اسمبلیوں اور کونسلوں میں اپوزیشن پارٹیاں ہوتی ہیں۔ جن کا کام بھی یہی ہے کہ وہ برسر منصب وزیروں کے عیوب کو اچھال کر عوام کو باخبر رکھیں۔(5) سالانہ بجٹ پر بحث کے دوران وزیروں پر سخت سے سخت نکتہ چینی کی آزادی ہوتی ہے۔(6) عدم اعتماد کی تحریک یا بجٹ میں ایک روپیہ کی تخفیف کے ذریعے وزیروں کو کسی وقت بھی برطرف کیا جا سکتا ہے۔
(7) عوام ہر وقت جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں کے ذریعے وزیروں کی زندگی تلخ کرسکتے ہیں۔غرض منتخب نمائندوں کے احتساب کے اس طریقہ کار کے تحت، اپنے نمائندوں سے باز پرس کا کام انہیں عوام کے اختیار میں ہی رہتا ہے،جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا ہے کہ نمائندہ میرا اور اس کی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں ہو۔ پروڈائی طریقے سے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری اپنے منتخب کرنے والے عوام سے ختم ہو جاتی تھی۔ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے بنیادی مقاصد فوت ہو جاتے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل بدنیتی پر مبنی نہ ہو اگر احتساب کی بنیاد بدنیتی پر ہو تو اس کا اثر الٹا ہی نکلتا ہے اور اس سے احتساب کرنے والوں کی اپنی ساکھ مجروح ہو جاتی ہے۔اب پروڈا کے فضائل اور اس کی ابتدا اور پھر انتہا پر نظر ڈالئے۔ پروڈا کی مشینری کو حرکت میں لانے کیلئے طریقہ یہ رکھا گیا کہ کسی جھوٹی سچی شکایت پر مرکزی حکومت کا مقرر کردہ گورنر، اپنے کسی وزیر کو ڈسمس کر کے اپنی مرضی کا ٹریبونل بٹھا کر اور اس سے رائے لے کر مرکزی حکومت سے اس وزیر کو کئی سال کیلئے نااہل قرار دلوانے کا مجاز تھا۔پروڈا کے مقدموں میں وزیروں کے خلاف ان کے سیکرٹری اور دوسرے زیردست گواہ بن کر آتے تھےاور اکثر یہ دکھاتے تھے کہ متعلقہ فائل پر ہم نے یہ رائے دی تھی اور اس سے اختلاف کر کے وزیر نے یہ فیصلہ دیا،جس سے بدعنوانی واقع ہوگئی۔
یاد رہے کہ پروڈا کی کارروائیاں سارے پاکستان میں ہوتی رہیں، مگر پاکستان بھر میں کسی سیاست دان کے خلاف، ہزار کوششوں کے باوجود، رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔رہا بدعنوانی کا الزام تو یہ ایک مبہم چیز تھی۔ مثلاً بدعنوانی کیا چیز ہے؟ بدعنوانی کا معیار کیا ہو؟ انتظامی امور میں کس فعل کو بدعنوانی قرار دیا جائے اور کس ’’خوش عنوانی‘‘ سے تعبیر کیا جائے؟ یہ ان افسروں اور ٹریبونلوں کی صوابدید پر منحصر رہا،وہ رات کو دن، دن کو رات قرار دے سکتے تھے۔ یعنی رسی جس کی گردن میں فٹ آجائے اس کو پھانسی پر چڑھادیا جائے۔!میں نہیں کہتا کہ مرکز کے جن سیاست دانوں نے پروڈا بنایا ان کی نیت خراب تھی، مگر پروڈا کا جو نتیجہ نکلا وہ کئی لحاظ سے افسوس ناک ثابت ہوا مثلاً(1) عوام کے منتخب وزیر محض پروڈا کی بے آبروئی سے بچنے کی خاطر نوکر شاہی کی کاغذی کارروائی کو عوامی مفاد کے تقاضوں پر ترجیح دینے لگے،اور اس طرح سے عوامی نمائندگی عملاً بے اثر اور نوکر شاہی عملاً مختار کل بن گئی۔ جمہوریت کو نوکر شاہی کے قدموں میں لٹا دینے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔(2) منتخب اسمبلیوں کو بیکار بنا دیا، کیونکہ جب اپنے وزیروں پر احتساب کا اختیار اس کے پاس نہیں رہا (جو جمہوری اصولوں کے تحت اسمبلیوں کا بنیادی حق تھا) اور یہ کام اوپر ہی اوپر ہونے لگا، تو اسمبلیاں محض نام کی رہ گئیں۔
(3) صوبوں میں لوگوں کے مابین اختلافات کو شہ مل گئی۔ جب احتساب کا اختیار عوام کے پاس نہیں رہا اور وزیروں کی تقرری و موقوفی، عوام کے ووٹوں پر منحصر نہیں رہی بلکہ اوپر والوں کے ہاتھوں میں آگئی تو وزیروں کے مخالفوں کے پاس یہی ایک حربہ رہ گیا کہ وہ جابےجا شکایتوں کا طوفان کھڑا کر کے، پروڈا کے تحت ان کو پکڑوا کر سیاسی میدان سے نکلوا دیں،یہی ہونے لگا اور بڑے پیمانے پر ہوتا رہا۔ مثلاً ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کا کوئی چلتا پھرتا سیاست دان(میرے بغیر) ایسا نہیں رہا جو پروڈا کے تحت نااہل نہیں قرار دیا گیا۔ غرض ایک ایسی افراتفری پھیل گئی کہ صوبوں میں جمہوریت کی چولیں ہل گئیں اور صوبوں میں مرکز کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، یہی نوکر شاہی کا حقیقی مقصد تھا،جس کیلئے انہوں نے پروڈا کا نسخہ بنوایا تھا۔(4) جس طرح اوپر عرض کیا جا چکا ہے، پروڈا کی جملہ ہنگامہ آرائیوں کے باوجود کسی ایک سیاست دان کے خلاف بھی رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا،یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔(5) پورے پانچ چھ سال یہ ڈرامہ ہوتا رہا اور سارا عرصہ دنیا کے سامنے پاکستان کی تذلیل اور پاکستانی جمہوریت کی تحقیر ہرتی رہی،باہر کے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ عجیب اسلامی ملک بنا ہے،جس کو چلانے والے سیاست دانوں کی اکثریت صرف ایک سال کے اندر ہی اس قدر بددیانت ثابت ہو رہی ہے۔(6) چھ سال بعد دیکھا گیا کہ یہ ’’قانون‘‘ خود ہی خلاف قانون پاس ہوا تھا،لہٰذا اس کو منسوخ اور اس کے مجرومین کو اس کی پابندیوں سے آزاد سمجھا گیا
بلاوجہ سیاست دان چھ سال بے آبرو ہوتے رہے۔ لاکھوں روپیہ طرفین کا وکیلوں اور کاغذوں پر ضائع ہوتا رہا۔ مثلاً کھوڑو مرحوم کو اپنی طرف سے وکالت کیلئے الہ آباد ہائیکورٹ کے، سابق چیف جسٹس سر اقبال احمد کو بلانا پڑا،جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان بھر میں مجموعی طور پر کتنی دولت اس ڈرامہ پر خرچ ہوئی ہوگی۔(7) البتہ پروڈا کی افادیت، نوکر شاہی اور شخصی حکمرانوں کے نقطہ نظر سے، ایک بار ثابت ہو چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کا دور آیا اور سیاست کے میدان کو سیاست دانوں سے خالی کرنے کی پھر ضرورت محسوس ہوئی تو اسی پروڈا کی طرز پر ’’پوڈو اور ایبڈو‘‘ بنائے گئے جن کے تحت سہروردی مرحوم قیوم خان مرحوم، دولتانہ صاب اور دوسرے چوٹی کے رہنمائوں کا کام تمام کر دیا گیا۔ اور اس ایبڈو کی برکت سے سیاست کا میدان فیلڈ مارشل مرحوم اور ان کے چمچوں کیلئے کھلا رہ گیا جو پورے دس سال ملک پر مسلط رہے۔ تاوقتیکہ ’’چینی چور ی‘‘ کی منزل نہیں آئی(8) جن معتوب یا ’’بدعنوان‘‘ قومی نمائندوں کو پروڈا کے تحت نااہل ثابت کر دیا گیا تھا وہ پروڈا منسوخ ہوتے ہی، اپنے عوام کی مدد سے دوبارہ وزارتوں پر بیٹھ گئےاور ان کے بیٹھنے سے نہ تو کوئی زلزلہ آیا نہ پاکستان کے سر پر خدانخواستہ کوئی بم پھٹا۔بہرحال یہ تھا سلوک جو پاکستان بنتے ہی سیاست دانوں سے ہونے لگا۔
(پیر علی راشدی کی کتاب، ’’رودادِ چمن‘‘ سے ایک باب جو 1982ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شایع ہوا تھا)۔
ب