جمعرات، 25 جولائی، 2024

خیرپور کا فیض محل-قابل دید عمارت


 خیرپور ریاست تالپور خاندان کی اہم ترین ریاست تھی  اور جس وقت پاکستان کا قیام عمل میں آیا خیر پور میں پچاس سے زیادہ صنعتی یونٹس کام کر رہے تھے جس میں صرف مقامی افراد کا روزگار با آسانی مہیا تھا تعلیمی نظام سو فیصد تھا چوری ڈکیتی کوئ جانتا ہی نہیں تھا  کسانو کے چہرے مسکراتے تھے  -غرض یہ کہ خیرپور ایک مکمل فلاحی ریاست تھی-پھر ایک حکم کے زریعہ شب خون مارنے والوں نے صنعتی یونٹس کو تالا لگوا دیا اور خیر پور سے اس کی فلاحی شناخت چھین لی۔ چلئے ماضی کی بات پھر کبھی ابھی ہم بات کرتے ہیں خیر پور کے فیض محل کی’فیض محل‘‘ 200سالہ قدیم عمارت کو ’’لکھی پیلس ‘‘ بھی کہتے ہیں -تالپور حکم راں فن تعمیر سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی عمل داری میں بہترین معمار اور فن نقاشی کے ماہرین رہائش پذیر تھے ۔ ان کے دور حکومت میں قبو یعنی خوب صورت مقابر تعمیر کرائے، جن میں میران تالپورکے مقبرے شامل ہیں۔ ۔ تالپور حکم رانوں کا ایسا ہی ایک قدیم اور فن تعمیر کا شاہکار’’ فیض محل‘‘ بھی ہے، جو خیرپور کی ایک شان دار تاریخی عمارت ہے۔ خیرپور شہرکے شمال مغرب میں واقع فیض محل سابقہ خیرپور ریاست کے تالپور حکمرانوں کی وہ عظیم یادگار ہے، جس کی مثال پورے برصغیر پاک و ہند میں کم ہی ملے گی۔فیض محل پاکستان کے شاندار فن تعمیر کے نمونوں میں سے ایک ہے۔، اس خوب صورت محل کی تاریخ دو سوسال پرانی ہے، اس کی تعمیر خیرپور کے شاہی خاندان تالپور میرس نے 1798 میں کروائی ۔اسے آرام گڑھ اور ’’لکھی محل ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ مغلیہ طرز تعمیر اور آرٹ ورک کا بہترین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

میر فیض محمد خان تالپور ریاست خیرپور کےچوتھےحکم ران تھے، جنہوں نے اپنی خدادادصلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حسین محل تعمیر کروایا، جو آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک بادشاہ، سیاست دان، جنگجو، سپاہی، شہسوار اور باغبان، میر فیض محمد خان تالپور وہ باغ و بہار شخصیت تھے، جن کو فنون لطیفہ سے بے حد لگائو تھا، اسی ذوق و شوق کا لازوال عکس فیض محل میں دکھائی دیتا ہے، جو اپنے حسن اور طرز تعمیر کے باعث میران خیرپور کے تاریخی ورثے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ میر فیض محمد خان تالپور 1894ء سے 1909تک ریاست خیرپور کے حکمران رہے۔ان کے اس تعمیری شاہ کار کو ان کے نام کی مناسبت سے فیض محل کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ اس دور میں اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی اس لیے اسے ’’ لکھی محل ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ 1843ء میں جب چارلس نیپئر نے سندھ کا خطہ فتح کیا، تو سندھ کے آخر ی حکم راں، مبر جارج علی مراد خان تالپورکے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور انتظامی طورپر سندھ انگریزوں کی عمل داری میں آگیا


تالپور حکم رانوں کا تعمیر کرایا ہوا، فیض محل دو منزلہ عمارت ہے، جو لال اینٹوں سےتعمیر کی گئی ہے، جب کہ اس کا اگلا حصہ ہندوستان کے شہر جے پور سے منگوائے گئے زرد پتھروں سے سجایا گیا ہے، ان پتھروں کی سجاوٹ اور چمک دمک میں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی فرق یا تبدیلی نہیں آئی ۔ فیض محل کا مرکزی ہال سرکاری تقاریب اور دربار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، روشن دانوں سے سجائے گئے اس خوب صورت ہال میں اس دور کا فرنیچر، جھولے اور نایاب اشیاء آج بھی موجود ہیں، دروازوں، کھڑکیوں سمیت جتنی بھی چیزیں اس میں ہیں وہ سب دیال، ساگوان، پرتل اور چلغوزے کی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ اشیاء آج بھی نئی لگتی ہیں۔ فیض محل میں ڈائننگ ہال بھی قائم ہے، ہال کے دونوں اطراف اخروٹ کی لکڑی سے بنوائی گئی ، ڈریسنگ ٹیبل بناوٹ کے لحاظ سے بے حد عمدہ اور بے مثال ہے میں اپنی عزاداری اور محرموں کے  سلسلے میں شہرہ آفاق ہیں


اس شان دار محل کے آگے مغلیہ طرز کا ایک باغ بھی بنایا گیا ہے، جو تقریباً بیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے، کشادہ باغ میں املتاس، شیشم، کھجور کے درخت فضاء کو اور بھی خوش گوار بنادیتے ہیں۔ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ، جنہوں نےفیض محل کے دورے کیے۔ ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی شامل ہیں۔اگرچہ حکومت اور محکمہ قدیم آثار و محکمہ ثقافت کی عدم توجہی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے، مگر کچھ عمارتیں وقت کے ستم کےباوجود اپنا وقار اور شناخت برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔ آ

اس محل میں ایک عجیب سی کشش ہے، جو خیرپورکی سیر کے لیے آنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس محل کی بناوٹ اور فن تعمیر کی مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اس کے مختلف حصوں میں گھومنے کے دوران اس خوب صورت محل کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے۔مغلیہ فن تعمیر کا نمونہ ، یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور اس طرح خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے

 

 

 

 

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر