بادشاہ وقت جب بی بی سارہ کے آگے بے بس ہو گیا تب اس نے اپنے غلاموں سے کہا کہ یہ عام ہستی نہیں ہے اسے واپس چھوڑ آؤ چنانچہ بی بی سارہ جب محل سے نکلنے لگیں تو بادشاہ نے اپنی بیٹی جانب اشارہ کر کے کہا اسے بھی اس کے ساتھ لے جاؤ - یہ بی بی حاجرہ تھیں ان کا نام میرے زہن سے نکل گیا ہے لیکن ہجرت کی مناسبت سے یہ حاجرہ کہلائیں -حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو بی بی حاجرہ کو دیکھا تو کہنے لگے میں بھلا ایک اجنبی جوان عورت کو اپنے ہمراہ کیسے رکھ سکتا ہوں -چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بی بی حاجرہ سے نکاح کر لیا جو بی بی سارہ کو سخت ناگوار گزرا اس پر حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی پیدائش نے اور بھی غضب ڈھایا اور بی بی سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا انہیں میری نظروں سے دور کر دو اب میری برداشت سے باہر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بی بی حاجرہ سےکہابچےکواٹھالواورضرورت کاسامان لےلو ہم چلیں۔ بی بی حاجرہ نے اطاعت کرتے ہوئے وہی کیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا -اب دھوپ بھرا چٹیل میدان تھا جہاں نا آدم تھا نا آدم زاد تھا -بی بی حاجرہ نے ایک درخت کی شاخوں پر چادر تان کر سایہ کیا اور حضرت ابراہیم پلٹنے لگے بی بی حاجرہ پیچھے بھاگیں ابراہیم ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہو -
پہاڑ کی اوٹ نے حضرت ابراہیم اور بی بی حاجرہ کے درمیان پردہ کیا تو حضرت ابراہیم اپنی جگہ ساکت ہو گئے دل بھر آیا تھا پلٹ کر زوجہ کو جواب بھی نہیں دیا تھا لیکن اللہ سے مخاطب ہو کر کہا پروردگار میں میں اپنی زریت کو تیرے حوالے کر کے جا رہا ہوں-اب بی بی حاجرہ سمجھ گئیں تھیں کہ مشیت ایزدی کیا چاہ رہی ہے اب پھر بی بی حاجرہ نے پوچھا یہ آپ کس کے حکم سے ایساکررہے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا؛ “اللہ کےحکم سے” بی بی حاجرہ نے پر یقین لہجے میں کہا “تو پھر وہ ہمیں ضائع نہ کرے گا” ۔کیا یقین تھا اللہ کی ذات پر اب حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس چلے گئے ۔ بیوی اور شیر خوار معصوم بچہ بحکمِ رب تعالٰی وہیں ٹھہر گئے۔ربِ کائنات کی خاطر سفر وہجرت کرنے والے یہ معزز و مشرف لوگ کون ہیں؟ کون ہیں جن کا ذکرِ خیر تاقیامت جاری رہے گا؟ کون ہیں جن کی تابع فرمانی رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نمونہ ہے؟اور یہ قربانی انسان کو یہ بھی سکھارہی ہے ۔کہ جو خاندان اپنے رب کی رضا پہ راضی رہے ۔جس نے یکسو ہو کر توکل الی اللہ کیا،ہر آزمائش میں شیطان کو مات دی اور اور اپنے رب کی بندگی میں سر تسلیم خم کر دیا تو اللہ نے ان کی قربانی کو قبول کیا۔اللہ نے ابراہیم ؑ کی دعا کوقبول کیااور اسحاق ؑ کی خوشخبری دی۔اللہ نے بیت اللہ کو آباد کیا ،جہاں کھیتی نہیں تھی وہاں اس سرزمیں کو ہرا بھرا کر دیا۔انسان نہیں تھے انسانوں سے آباد کر دیا
یہ با سعادت لوگ ابراہیم علیہ السلام اور خانوادۂِ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔وہ جگہ جہاں آج حرمِ کعبہ موجود ہے، آج جس کی رونق و رنگینیوں سے سارا عالم رنگین و روشن ہے ، ایک وقت تھا جب وہ جگہ ویران و بے آباد تھی ۔ خالقِ کائنات نے اس خطۂِ ارض کو اپنے مرکز و حرم کے لیے پسند کیا اور جہان بھر سے اپنے برگزیدہ بندے کو حکم دیا کہ اپنا گھر بے آباد کرکے میرا گھر، میرا حرم آباد کرو۔ چنانچہ اس مردِ مجاھد و مردِ قلندر نے بے چون و چرا اس حکم کی تعمیل کی ۔آفریں اس معزز ہم سفر صنفِ نازک، سیدہ ھاجرہ علیھا السلام پر کہ جنہوں نے حکمِ الٰہی پر کوئی سوال نہ کیا بلکہ دل کے ثبات و اقرار سے اس حکم کو قبول کرلیا۔پس سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچے کو رب العالمین کی سپردگی میں دے کر واپس پلٹ آئے۔ سیدہ ھاجرہ اسی مقام مقدس پر ٹھہریں اور اس کو آباد کرنے کا ذریعہ بنیں۔پھر وہ وقت بھی آیا جب پانی خشک ہوچکا تو معصوم فرزندِ ارجمند اسماعیل علیہ السلام کو پیاس نے ستایا تو ماں اپنے لعاب سے بچے کو سیراب کرتی رہی مگر جب پیاس نے شدت اختیار کی تو ماں نے پانی کی تلاش میں ، تپتی دھوپ میں پتھریلی زمین پر پہاڑیوں پر دوڑنا شروع کردیا اسی پریشانی کے عالم میں کبھی وہ ایک پہاڑی پر جاتیںاور واپس آکر بچے کو دیکھتیں او رپھر دوسری پہاڑی پر جاتیں۔ انہوں نے ان دونوں پہاڑیوں کے سات چکر لگائے۔ جب تھک ہار کر واپس حضرت اسماعیلؑ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ پیاس کی شدت سے وہ روتے روتے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں زمین میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ۔
حضرت ہاجرہؑ نے اس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور انہیں پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ اب چشمہ اتنی زورسے بہنے لگا کہ حضرت ہاجرہ ؑنے اس کے اردگرد پتھر لگائے اور کہا کہ زَمْ زَمْ یعنی رک جا !رک جا! زَم زَم کے ایک اور معنی بھی ہیں بہت سارا پانی۔ تو وہاں بہت سار ا پانی اکٹھا ہو گیا تھا۔یوں سات چکر مکمل ہوئے تو بیٹے کے قدموں سے پانی جاری ہوا جوآج بھی جاری ہے اور آبِ زم زم کے نام سے مشہور ہے۔یہ بی بی ہاجرہ سلام اللہ علیہا کا بے تابی سے دوڑنا خالق کائنات کواتنا پسند آیا کہ ساری دنیا کے حجاجِ کرام اور معتمرین عزام کوحکم ہے کہ سیدہ حاجرہ کے قدموں پہ قدم رکھو اور اس مقام پر ان کی یاد میں دوڑو ۔دوڑنے کے اس عمل “سعی” سے موسوم کیاگیا۔ پس جس نے سعی نہ کی نہ اس کا حج قبول ہے ،نہ عمرہ قبول ہے۔یہ رب کائنات کی بے چون و چرا اطاعت کا صلہ ہے ۔ اللہ بتاتا ہے کہ جو میرا مطیع ہو جائے میں سارے جہاں کو اس کا تابع کرسکتاہوں
یہ دعا ہی تھی کہ اسماعیل کی اولاد میں سے نبی آخری الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ اللہ کا کہا سچ تو ہونا ہی تھا چنانچہ یہودی اسماعیل کی نسل سے آنے والے نبی کے دشمن بن گئے حالانکہ اس سے قبل وہ اس آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے. ابراہیم کا پیروکار تو وہی ہے نا جو ابراہیم کی سنت پر چلے اور تاریخ گواہ ہے ابراہیم کی سنت پر چلنے والا اس وقت بھی اطاعت جیسا کہ شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریمﷺ کی خاطر کیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اب یہاں شہر آباد ہوجائے اور اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مرکز کے طور پر چن لیا۔ یہاں ہی مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے جس کی طرف منہ کر کے تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور یہاں حج بھی کرتے ہیں۔خانہ کعبہ جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔