ہفتہ، 22 جون، 2024

انہیں میری نظروں سے دور کر دو- بی بی سارہ نےکہا

 


     بادشاہ وقت  جب بی بی سارہ  کے  آگے بے بس ہو گیا تب اس نے اپنے غلاموں سے کہا کہ یہ عام ہستی نہیں ہے اسے واپس  چھوڑ آؤ چنانچہ بی بی سارہ جب محل سے نکلنے  لگیں تو بادشاہ نے اپنی بیٹی جانب اشارہ کر کے کہا اسے بھی اس کے ساتھ لے جاؤ  - یہ بی بی حاجرہ تھیں ان کا نام میرے زہن سے نکل گیا ہے لیکن ہجرت کی مناسبت سے یہ  حاجرہ کہلائیں -حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو بی بی حاجرہ کو دیکھا تو کہنے لگے میں بھلا  ایک اجنبی جوان عورت کو اپنے ہمراہ کیسے رکھ سکتا ہوں  -چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بی بی حاجرہ سے نکاح کر لیا جو بی بی سارہ کو سخت ناگوار گزرا اس پر  حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی پیدائش نے اور بھی غضب ڈھایا اور بی بی سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا انہیں میری نظروں سے دور کر دو اب میری برداشت سے باہر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بی بی حاجرہ سےکہابچےکواٹھالواورضرورت کاسامان لےلو ہم چلیں۔  بی بی حاجرہ نے اطاعت کرتے ہوئے  وہی کیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا -اب دھوپ بھرا چٹیل میدان تھا جہاں نا آدم تھا نا آدم زاد تھا -بی بی حاجرہ نے ایک درخت کی شاخوں پر چادر تان کر سایہ کیا اور حضرت ابراہیم پلٹنے لگے بی بی حاجرہ پیچھے بھاگیں  ابراہیم ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہو -


پہاڑ کی اوٹ نے حضرت ابراہیم اور بی بی حاجرہ کے درمیان  پردہ کیا تو حضرت ابراہیم اپنی جگہ ساکت ہو گئے دل بھر آیا تھا پلٹ کر زوجہ کو جواب بھی نہیں دیا تھا لیکن اللہ سے مخاطب ہو کر کہا پروردگار میں  میں اپنی زریت کو تیرے حوالے کر کے جا رہا ہوں-اب بی بی حاجرہ سمجھ گئیں تھیں کہ مشیت ایزدی کیا چاہ رہی ہے    اب پھر بی بی حاجرہ نے  پوچھا یہ آپ کس کے حکم سے ایساکررہے ہیں؟  حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے کہا؛ “اللہ کےحکم سے”   بی بی حاجرہ نے  پر یقین لہجے  میں  کہا “تو پھر وہ ہمیں ضائع نہ کرے گا” ۔کیا یقین تھا اللہ کی ذات پر  اب حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس چلے گئے ۔ بیوی اور شیر خوار معصوم بچہ بحکمِ رب تعالٰی وہیں ٹھہر گئے۔ربِ کائنات کی خاطر سفر وہجرت کرنے والے یہ معزز و مشرف لوگ کون ہیں؟ کون ہیں جن کا ذکرِ خیر تاقیامت جاری رہے گا؟ کون ہیں جن کی تابع فرمانی رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نمونہ ہے؟اور یہ  قربانی انسان کو یہ بھی سکھارہی ہے ۔کہ جو خاندان اپنے رب کی رضا پہ راضی رہے ۔جس نے یکسو ہو کر توکل الی اللہ کیا،ہر آزمائش   میں شیطان کو مات دی اور    اور اپنے رب کی بندگی میں سر تسلیم خم کر دیا تو اللہ نے ان کی قربانی  کو قبول کیا۔اللہ نے ابراہیم  ؑ کی  دعا کوقبول کیااور اسحاق ؑ کی خوشخبری دی۔اللہ نے بیت اللہ کو آباد کیا ،جہاں کھیتی نہیں تھی وہاں  اس سرزمیں کو ہرا بھرا کر دیا۔انسان نہیں تھے انسانوں سے آباد کر دیا


 یہ با سعادت لوگ ابراہیم علیہ السلام اور خانوادۂِ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔وہ جگہ جہاں آج حرمِ کعبہ موجود ہے، آج جس کی رونق و رنگینیوں سے سارا عالم رنگین و روشن ہے ، ایک وقت تھا جب وہ جگہ ویران و بے آباد تھی ۔ خالقِ کائنات نے اس خطۂِ ارض کو اپنے مرکز و حرم کے لیے پسند کیا اور جہان بھر سے اپنے برگزیدہ بندے کو حکم دیا کہ اپنا گھر بے آباد کرکے میرا گھر، میرا حرم آباد کرو۔ چنانچہ اس مردِ مجاھد و مردِ قلندر نے بے چون و چرا اس حکم کی تعمیل کی ۔آفریں اس معزز ہم سفر صنفِ نازک،   سیدہ ھاجرہ علیھا السلام پر کہ جنہوں نے حکمِ الٰہی پر کوئی سوال نہ کیا بلکہ دل کے ثبات و اقرار سے اس حکم کو قبول کرلیا۔پس سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچے کو رب العالمین کی سپردگی میں دے کر واپس پلٹ آئے۔ سیدہ ھاجرہ اسی مقام مقدس پر ٹھہریں اور اس کو آباد کرنے کا ذریعہ بنیں۔پھر وہ وقت بھی آیا جب پانی خشک ہوچکا تو معصوم فرزندِ ارجمند اسماعیل علیہ السلام کو پیاس نے ستایا تو ماں اپنے لعاب سے بچے کو سیراب کرتی رہی مگر جب پیاس نے شدت اختیار کی تو ماں نے پانی کی تلاش میں ، تپتی دھوپ میں پتھریلی زمین پر پہاڑیوں پر دوڑنا شروع کردیا اسی پریشانی کے عالم میں کبھی وہ ایک پہاڑی پر جاتیںاور واپس آکر بچے کو دیکھتیں او رپھر دوسری پہاڑی پر جاتیں۔ انہوں نے ان دونوں پہاڑیوں کے سات چکر لگائے۔ جب تھک ہار کر واپس حضرت اسماعیلؑ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ پیاس کی شدت سے وہ روتے روتے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں زمین میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ۔


 حضرت ہاجرہؑ نے اس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور انہیں پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ اب چشمہ اتنی زورسے بہنے لگا کہ حضرت ہاجرہ ؑنے اس کے اردگرد پتھر لگائے اور کہا کہ زَمْ زَمْ یعنی رک جا !رک جا! زَم زَم کے ایک اور معنی بھی ہیں بہت سارا پانی۔ تو وہاں بہت سار ا پانی اکٹھا ہو گیا تھا۔یوں سات چکر مکمل ہوئے تو بیٹے کے قدموں سے پانی جاری ہوا جوآج بھی جاری ہے اور آبِ زم زم کے نام سے مشہور ہے۔یہ  بی بی  ہاجرہ سلام اللہ علیہا کا بے تابی سے دوڑنا خالق کائنات کواتنا پسند آیا کہ ساری دنیا کے حجاجِ کرام اور معتمرین عزام کوحکم ہے کہ سیدہ  حاجرہ کے قدموں پہ قدم رکھو اور اس مقام پر ان کی یاد میں دوڑو ۔دوڑنے کے اس عمل “سعی” سے موسوم کیاگیا۔ پس جس نے سعی نہ کی نہ اس کا حج قبول ہے ،نہ عمرہ قبول ہے۔یہ رب کائنات کی بے چون و چرا اطاعت کا صلہ ہے ۔ اللہ بتاتا ہے کہ جو میرا مطیع ہو جائے میں سارے جہاں کو اس کا تابع کرسکتاہوں


یہ دعا ہی تھی کہ اسماعیل کی اولاد میں سے نبی آخری الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ اللہ کا کہا سچ تو ہونا ہی تھا چنانچہ یہودی اسماعیل کی نسل سے آنے والے نبی کے دشمن بن گئے حالانکہ اس سے قبل وہ اس آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے. ابراہیم کا پیروکار تو وہی ہے نا جو ابراہیم کی سنت پر چلے اور تاریخ گواہ ہے ابراہیم کی سنت پر چلنے والا اس وقت بھی اطاعت جیسا کہ شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریمﷺ کی خاطر کیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اب یہاں شہر آباد ہوجائے اور اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مرکز کے طور پر چن لیا۔ یہاں ہی مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے جس کی طرف منہ کر کے تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور یہاں حج بھی کرتے ہیں۔خانہ کعبہ جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ 

جمعہ، 21 جون، 2024

شپ بریکنگ انڈسٹری ۔گڈانی


 سالانہ پانچ ارب روپے دینے والی شپ بریکنگ انڈسٹری کا  "خستہ "احوال

تحصیل گڈانی بلوچستان (پاکستان) کے حب ضلع کی ایک تحصیل ہے۔  یہاں دنیا کہ تیسرا بڑا جہاز توڑنے کا شپ یارڈ ہے۔ یہ پاکستان کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ لوگ دور دور سے یہاں پکنک ماننے آتے ہیں۔ شپ بریکنگ کی افتتاح سندھ کے کمیشنر نے سندھ اسٹیل کے نام سے کیا بعد میں جا کر یہ نام تبدیل ہو گیا۔ یہاں کے کچھ تاریخِ مقامات ہیں جیسا کہ ۔گڈانی بیچ دنیا کے سب سے بڑے شپ بریکنگ یارڈز میں سے ایک ہے-گڈانی بیچ کے دلکش نظارے سیاحوں کیلئے پرکشش ہیں۔ سیاح یہاں گھڑسواری، اونٹ سواری اور پیدل سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں : لفظ گڈانی کے بارے میں کہا  جاتاہے، وندر ندی سے لے کر لک بدوکے علاقے میں دور دور تک سبزہ ہی سبزہ       تھا اور اوریہاں پر آباد تمام اقوام کے لوگ ا پنے مال مویشی اسی ایریا میں چراتے تھے، خاص کر موندرہ، سیخ اور سنگھور مال داری اور مال چرائی میں مشہور تھے۔ جب ان کا کوئی مال مویشی گم ہوتا یا وہاں سے بھاگ جاتا تو اس کو پکڑنے کا بہترین جگہ گڈانی تھا کیونکہ سنا ہے کہ یہاں سے صرف ایک راستہ اوپر نکلنے کے لیے تھا یہ علاقہ لک بدوک سے گڈانی پہاڑی تک ''بند ''تھا بند کو بلوچی زبان میں گھٹ کہتے ہیں کیونکہ یہ ایریا بند تھا ہر طرح سے سیف تھا۔ اس گھٹ سے بدل کر گڈانی بن گیا-بلوچستان کا سیاحتی مقامات گڈانی بیچ، خوبصورت ساحلوں اور دلکش مناظر کے لیے جانا جاتا ہے۔گڈانی بیچ 10 کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر محیط ہے، اس بیچ پر سیاح گھڑ سواری اور اونٹ سواری کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔اس علاقے میں قدیم کھنڈرات اور نوادرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ گڈانی بیچ دنیا کے سب سے بڑے شپ بریکنگ یارڈز میں سے ایک ہے۔گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔گڈانی بیچ کا علاقہ بہت سے لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ ہے۔**گڈانی میں جہاز توڑنے کی صنعت علاقے کی ثقافت اور تاریخ کا ایک لازمی حصہ ہے-یورپین یونین کی جانب سے ری سائیکلنگ کے نئے قواعد و ضوابط کے بعد پاکستان میں گڈانی شپ بریکنگ صنعت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔


دوسری جانب پاکستان کو چین اور ترکی کی جانب سے شدید مسابقت ( کمپی ٹیشن ) کا سامنا ہے کیونکہ وہاں بحری جہازوں کو توڑنے کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں۔فی الحال گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں 68 پلاٹس پر جہازوں کو توڑنے کا کام جاری ہے۔ تقریباً 38 آپریٹر اس عمل کو انجام دے رہے ہیں اور 12,000 ملازم وہاں کام کرتے ہیں۔ اس یارڈ میں سال 2012 میں 133 جہازوں کو توڑا گیا تھا۔یہ حقائق ایک تحقیقی رپورٹ ' پاکستان شپ بریکنگ آؤٹ لک، دی وے فارورڈ فور اے گرین شپ ری سائیکلنگ انڈسٹری میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ اسلام آباد میں پائیدار ترقی پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی) اور برسلز کی ایک این جی او آرگنائزیشن شپ بریکنگ پلیٹ فارم نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔


رپورٹ میں اسلام آباد کو کہا گیا ہے کہ وہ اس صنعت کومکمل تباہی سے بچانے کیلئے درست اقدامات کرے جو اسٹیل کی مقامی صنعت کو خام مال بھی فراہم کرتی ہے۔یورپین یونین کے نئے ریگولیشنز کے تحت وہ اپنے شہروں کی ان ممالک کے  ساحلوں کیلئے شپ بریکنگ کی شدید حوصلہ شکنی کرتی ہے جہاں جہاز کو پرزہ پرزہ کرنے کی جدید سہولیات موجود نہیں۔یہ رپورٹ شپ بریکنگ صنعت کے جائزے اور مشاہدے کے بعد مرتب کی گئی ہے جس میں شپ بریکنگ کی جگہوں، ملازموں کے کے غیر تسلی بخش حقوق، ناکارہ مادوں کو برتنا اور اسٹوریج اور ماحولیاتی اثرات کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام معاملات گڈانی شپ بریکنگ پر جہازوں کی آمد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اگر حکومت نے مناسب اقدامات نہ اُٹھائے تو خصوصاً یورپی ممالک سے ان کی آمد کا سلسلہ رک سکتا ہے۔رپورٹ کی شریک مصنف پیٹریزیا ہائیڈیگر نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ وہ ملک میں جہازوں سے خارج ہونے والے مضر مادے کو برتنے کیلئے اسٹینڈرڈآپریٹنگ پروسیجر ( ایس او پی) متعارف کرائے۔گڈانی میں ہزاروں ٹن خطرناک فضلہ جمع ہوکر ڈھیر بنتا جارہا ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اس مادے کو ٹھکانے لگانے کے مناسب انتظامات کئے جائیں کیونکہ یہ ماحول اور مزدوروں دونوں کیلئے خطرناک ہے۔


پیٹریزیا نے اس ضمن میں چین اور ہندوستان کی مثال دی ہے جن کے ریگولیشنز پاکستان کیلئے کام آسکتے ہیں۔ اور حال ہی میں وہاں شپ بریکنگ کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے لیکن بہت سی دستاویز اب بھی مکمل کرنا باقی ہیں۔اس تناظرمیں پاکستان نے بیسل کنوینشن کی منظوری دی ہے۔ تاہم آلات کو ابھی تعمیر کرنا باقی ہے۔ جبکہ پاکستان اینوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 1997، فیکٹریز ایکٹ 1934 اور پاکستان پینل کوڈ موجود تو ہیں لیکن بہت کمزور ہیں۔اس رپورٹ میں ماحول دوست شپ بریکنگ اور ری سائیکلنگ کیلئے بیس کےقریب سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ چونکہ ان ریگولیشنز پر عمل کرنا ایک مہنگا نسخہ ہے اور پاکستانی شپ بریکنگ انڈسٹری اس کی متحمل نہیں ہوسکتی لیکن اس ضمن میں گلوبل اینوائرنمنٹ فیسلیٹی ( جی ای ایف)  اور بینک اس ضمن میں پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں -ایک قصہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہاں سندھ سے کچھ لوگ آئے اور اُن کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی۔ میٹنگ کو سندھی زبان گڈجانڑی کہتے ہیں۔ اسی لفظ سے بگڑ کر یہ گڈانی بن گیا۔ اصل لفظ گڈھانی تھا، بعد میں لکھتے لکھتے گڈانی ہو گیا گڈانی سندھ کے بلوچوں کی ایک قوم بھی ہے، لیکن اُس کا ہمارے گڈانی کے نام سے کوئی تعلق تاحال نظر نہیں آیا۔

بدھ، 19 جون، 2024

حاتم طائی کی سخاوت

 


  اہل عرب میں سب سے مشہور سخی افراد میں سے ایک حاتم طائی تھا۔اس کی یہ سخاوت ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے جو نسل در نسل یاد رکھی جاتی ہے ۔ اس کی بابت نبی کریمﷺسے ایک حدیث مبارکہ بھی منقول ہے کہ حاتم طائی کے بیٹے عدی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ! میرا باپ بڑا سخی اور بڑا بامروت تھا کیا اس کا اجر قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی سے اس کو ملے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ نے ایک مقصد کے لیے سخاوتیں کی تھیں، مقصد یہ تھا کہ دنیا میں اس کی سخاوت کا چرچا ہو، اس نے یہ مقصد دنیا میں پالیا چنانچہ قیامت تک اس کا ذکر رہے گا اور سخاوت کے باعث لوگ اس کی توصیف کرتے رہیں گے۔29 اسی لیےحاتم طائی نے سخاوت ودریادلی میں عربوں کے ہاں تو نام کما یا ہی ساتھ ہی ساتھ اہل عرب کی تاریخ جاننے والی اقوا م میں بھی نام کمایا۔عرب کے جاہلی دور کا نامور شاعر۔ غیر معمولی شجاعت و سخاوت کی وجہ سے مشہور ہے۔عہد اسلام سے کچھ عرصہ قبل مرا۔ اس کی بیٹی سفانہ عروج اسلام کے زمانے میں گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پیش ہوئی۔ تو اس نے نبی اکرم صلی الله عليه وآلہ وسلّم کے سامنے اپنے باپ کی فیاضیوں اور جود و کرم کا تذکرہ کیا۔ رسول اللہ صلی الله عليه وآلہ وسلّم نے اس کو رہا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ حاتم اسلامی اخلاق کا حامل تھا۔ حاتم کا دیوان پہلی بار رزق اللہ حسون نے لندن سے 1876ء میں شائع کیا۔ 1897ء میں دیوان کا ترجمہ جرمن زبان میں چھپا۔ حاتم کے بیٹے عدی بن حاتم نے اسلام قبول کر لیا تھا۔


حالات زندگی

حاتم ابن عبد اللہ بن سعد بن أخزم بن أبي أخزم الطائی کا والد بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی پرورش کی وہ بڑی دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض تھی۔ اپنی تمام ملکیتی چیز سخاوت کردیتی تھی۔ ایک دفعہ اس کے بھائیوں نے اس کا تمام مال روک لیا اور اسے ایک سال تک قید رکھا۔ انھوں نے سوچا کہ اسے فاقہ کا مزا چکھائیں اور مال و دولت کی قدر و قیمت بتائیں اور جب اسے چھوڑا تو اس کے مال میں سے تھوڑا سا حصہ دیا۔ اتنے میں بنو ہوازن کی ایک تنگ دست خاتون اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو اس نے وہ سارا مال اسے دے دیا اور کہنے لگی جب میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ہے، اس وقت سے میں نے قسم کھالی کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاؤں گی ۔اس سخی ماں نے حاتم کی تربیت کی اور اس عادت کا اسے وارث بنایا اور اسے سخاوت کا دودھ پلایا۔ وہ جوان ہو کر بڑا سخی بنا۔ وہ سخاوت سے ہی دل بہلاتا اور اس میں اس قدر مبالغہ کرنے لگا کہ جنون کی حد تک پہنچ گیا۔ یہ اپنے دادا کے پاس رہتا تھا، چھوٹی سی عمر تھی، اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا، اگر کوئی کھانے والا ساتھ مل جاتا تو ساتھ مل کر کھالیتا، ورنہ اپنا کھانا پھینک آتا۔ حاتم کا دادا ایسی سخاوت کو ناپسند کرتا۔ چنانچہ دادا نے اسے اونٹوں کی نگرانی پر لگا دیا۔ ایک دن عبید بن الا برص، بشیر بن ابی حازم اور نابغہ ذبیانی نعمان کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس سے گذرے اور اس سے مہمانی کا مطالبہ کیا۔


 اس نے ہر ایک کے لیے ایک ایک اونٹ ذبح کیا، حالانکہ وہ انھیں جانتا بھی نہیں تھا۔ جب انھوں نے اپنے نام بتائے تو سارے اونٹ ان میں تقسیم کر دیے، وہ تقریباً تین سو تھے اور خوشی خوشی گھر آیا دادا کو مبارک باد دی کہنے لگا میں نے دائمی عزت و مجد کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیا ہے، پھر جو کچھ ہوا پورا قصہ سنایا اور دادا نے یہ معاملہ سن کر کہا ’اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا‘ حاتم نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں پھر یہ اشعار کہے ۔ میں تنگ دستی و ناداری میں لوگوں سے اجتناب کرتا ہوں اور مالداری کی حالت میں ان کے ساتھ مل جل کر سکتا ہوں اور اپنے سے غیر آہنگ شکل ترک کردیتا ہوں ۔حاتم کی سخاوت کے چرچے گھر گھر عام ہو گئے اور اس کی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ضرب المثل بن گئیں اور اس ضمن میں بڑے بڑے عجیب و غریب قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ جن میں اکثر صرف زیب داستان کے لیے بڑھا چڑھا دیے گئے ہیں۔۔ پہلے وہ کسی مقصد کے لیے شعر کہتے ہیں پھر وہ جس کے مضامین اور اسلوب سے مطابقت رکھتے ہوئے اس شاعر سے منسوب کر دیتے ہیں ۔


ابن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے، جب جنگ کرتا تو وہ غالب آجاتا ہے، جب وہ مقابلہ کرتا ہے تو سبقت لے جاتا ہے، جب وہ جوا کھیلتا ہے تو وہی جیتا ہے، جب ماہ رجب کا چاند نظر آتا (زمانہ جاہلیت میں خاندان مضر رجب کے مہینہ کو بہت باعزت اور محترم گردانے تھے) حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے ۔حاتم نے نوار نامی عورت سے شادی کی پھر یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ بنت عفرز سے نکاح کیا۔ ان دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے عبد اللہ، سفانہ اور عدی پیدا ہوئے۔ آخری دونوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور اسلام سے فیض یاب ہوئے ۔۔سخاوت میں حاتم طائی کی مثال دی جاتی اور کہا جاتا کہ"اکرم من حاتم طئی"یعنی فلاں شخص حاتم طائی سے بھی بڑا سخی ہے کیونکہ حاتم بڑا سخی اور خرچ کرنےوالاتھا ۔حاتم طائی زمانہ جاہلیت میں سب سے بڑا فراخ دل، کشادہ دست اور سخی مانا جاتا تھا اور اس کی سخاوت کے ہر طرف چرچے تھے نیز لوگ ہر وقت اس کی مدح میں رطب ا للسان رہتے تھے۔ حاتم کے بیٹے عدی نے بھی زمانہ اسلام میں سخاوت میں بڑا نام پیدا کیا تھا۔ حاتم طائی کی سخاوت اور دریا دلی کے سینکڑوں طویل اور عجیب و غریب قصے مشہور ہیں تاہم ان میں سے ثقہ راویوں کے حوالے سے جو قصے کتبِ تاریخ میں درج کیے گئے ان میں سے چند پیش کئے ہیں 

حاتم اس طرح لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا اور مال لٹاتا رہا اور وہ 578 عیسوی میں اس دار فانی سے رخصت ہو گیا


منگل، 18 جون، 2024

مسجد جمکران (ایران)

مسجد جمکران (ایران) کیسے تعمیر ہوئی

مسجد جمکران تقریبا ایک ہزار سال قبل امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے خصوصی حکم سے تعمیر کی گئی ۔یہ مسجد صدیوں سے شیعوں کی پناہ گاہ ، منتظرین امام (ع) کا مرکز اور امام عصر ؑ (عج) کی کرامات کی جلوہ گاہ ہے ۔ مسجد جمکران کی تاسیس کے بارے میں میرزا حسین نوری نے شیخ صدوق کی ہمعصر شخصیت حسن بن محمد بن حسن قمی سے اور انہوں نے اپنی کتاب تاریخ قم میں کتاب مونس الحزین فی معرفۃ الحق و الیقین سے کچھ اس طرح نقل کیا ہے :نیک و پاکدامن بزرگ حسن بن مثلہ جمکرانی کہتے ہیں :میں ماہ مبارک رمضان کی سترہویں شب ، شب بدھ ۳۹۳ھ کو اپنے گھر میں سو رہا تھا - کہ یکایک کچھ لوگوں نے آ کر دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے بیدار کیا - اور کہا تمہیں تمہارے امام (ع) بلا رہے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ مجے اس مقام پر لے گئے - جہاں اب مسجد جمکران واقع ہے ۔ امام زمانہ علیہ السلام نے مجھے بلایا اور فرمایا حسن بن مسلم کے پاس جاؤ - اور اسے کہو کہ چند سالوں سے تم اس زمین کو آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہو - اور یہ اللہ کے حکم سے خراب ہو جاتی ہے ۔ پانچ سال تک تم نے یہاں کاشت کی - اور اس سال دوبارہ آباد کرنا چاہتے ہو ۔ آج کے بعد تمہیں اجازت نہیں ہے - کہ اس زمین میں کھیتی باڑی کرو ۔ اس زمین سے جو کچھ کمایا ہے - وہ واپس کرو - تاکہ یہاں مسجد تعمیر کی جائے ۔ یہ ایک مقدس زمین ہے خداوند متعال نے اس زمین کو منتخب فرمایا - دوسری زمینوں پر فضیلت دی ہے ۔ تم نے اس زمین پر قبضہ کرکے اسے اپنی زمینوں کے ساتھ ملا لیا ہے ۔ اللہ تعالی نے تم سے تمہارے دو جوان بیٹے لے لیئے - لیکن تم اب بھی متوجہ نہیں ہوئے !!

اگر تم اب بھی متوجہ نہیں ہوئے - تو خدا کی طرف سے مصیبت ایسی جگہ سے نازل ہوگی - جس کا تم گمان بھی نہیں کر سکتے ۔میں نے عرض کیا - اے میرے مولا و آقا !! مجھے اس کام کے لیئے کوئی دلیل و نشانی عطا فرمائیں - کیونکہ بغیر کسی دلیل و نشانی کے لوگ میری بات پر اعتبار نہیں کریں گے ۔ امام (ع) نے فرمایا :تم اپنا فریضہ جاکر انجام دو - ہم یہاں ایک ایسی علامت نصب کر دیں گے - جس کی وجہ سے لوگ تمہاری بات پر اعتبار کریں گے ۔ اس کے علاوہ سید ابوالحسن کے پاس جاؤ - اور انہیں کہو کہ حسن بن مسلم سے اس زمین کا چند سالہ منافع لے کر لوگوں کو دیں - تاکہ مسجد کی بنیاد رکھی جائے - اور باقی رقم اردہال کے قریب واقع رہق نامی جگہ سے جو ہماری ملکیت ہے فراہم کر کے مسجد کو مکمل کیا جائے ۔ ہم نے نصف رہق کو اس مسجد کے لیے وقف کر دیا ہے - تاکہ ہرسال رہق کی نصف آمدن کو مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جائے ۔امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے یہ فرما کر مجھے جانے کا اشارہ کیا ۔ ابھی روانہ ہی ہوا تھا - کہ امام (ع) نے دوبارہ مجھے آواز دی اور فرمایا :.جعفر کاشانی چرواہے کے ریوڑ سے ایک بکرا خریدو ، اگر لوگ بکرے کے پیسے دیں - تو ٹھیک ورنہ اپنے پیسوں سے خرید کر کل رات یہاں لا کر اسے ذبح کرو - اور اٹھارہ رمضان المبارک بروز بدھ کو اس بکرے کا گوشت مریضوں اور ایسے افراد کے درمیان تقسیم کرو - جو کسی سخت بیماری میں مبتلا ہیں ، اللہ تعالی سب کو شفاء عطا فرمائے گا - یاد رکھو ۔ کہ وہ بکرا سیاہ و سفید رنگ کا ہے - جس کے جسم پر بہت زیادہ بال ہیں ۔ سیاہ و سفید رنگ کے ایسے سات نشانات اس کے بدن پر ہیں - جن کی مقدار ایک درہم جتنی ہے - ان میں سے چار نشان ایک طرف اور تین نشان دوسری طرف واقع ہیں"-

میں روانہ ہوا - تو امام (ع) نے ایک مرتبہ پھر مجھے بلایا اور کہا :سات یا ستر دن تک ہم یہاں ہیں -حسن بن مثلہ کہتے ہیں : میں گھر گیا اور تمام رات اسی فکر میں ڈوبا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ نماز پڑھنے کے بعد علی منذر کے پاس چلا گیا - اور تمام واقعہ ان کے گوش گزار کیا - اس کے بعد علی منذر کے ہمراہ اسی جگہ گئے - جہاں رات کو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ملاقات کی تھی ۔علی منذر نے وہاں پہنچ کر کہا ؛ خدا کی قسم !! امام (ع) نے جس علامت و نشانی کے بارے میں فرمایا تھا - وہ یہاں موجود ہے - اور وہ یہ کہ مسجد کے حدود اربعہ کو زنجیروں اور لوھے کی میخوں کے ذریعہ معین کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ہم سید ابولحسن الرضا کی جانب روانہ ہوئے ۔ جب ان کے گھر کے قریب پہنچے - تو ان کے غلاموں اور نوکروں نے ہم سے پوچھا : کیا تم جمکران کے رہنے والے ہو؟ ہم نے اثبات میں جواب دیا - تو انہوں نے کہا کہ " سید ابوالحسن نصف شب سے تمہارے انتظار میں ہیں -"میں نے داخل ہو کر سلام کیا - تو انہوں نے اچھے طریقے سے میرا استقبال کیا - اور بہت احترام سے پیش آئے ، بہت اچھی جگہ پر مجھے بٹھایا - اور اس سے قبل کہ میں کوئی بات کرتا - انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا - اور کہا اے حسن بن مثلہ !! میں سو رہا تھا - کہ عالم خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا : "کل صبح جمکران سے حسن بن مثلہ نامی آدمی تہمارے پاس آئے گا ۔ وہ جو کہے اس پر اعتماد کرنا اور اس کی بات کی تصدیق کرنا کیونکہ اس کی بات ہماری بات ہے ۔ کسی بھی طور اس کی بات کو مسترد نہ کرنا۔یہ خواب دیکھ کر میں بیدار ہوگیا - اور اس وقت سے اب تک تمہارے انتظار میں ہوں ۔ حسن بن مثلہ نے بھی من و عن تمام واقعہ سید کو سنایا ۔ سید ابوالحسن نے حکم دیا - کہ گھوڑوں پر زین کسی جائے ۔ اس کے بعد جمکران کی طرف روانہ ہوگئے ۔


 جمکران کے قریب پہنچے - تو جعفر چرواہے کو دیکھا - جو اپنے ریوڑ کو چرانے کے لیے لایا ہوا تھا حسن بن مثلہ ریوڑ میں گئے - اور گلے کے پیچھے آنے والے بکرے کو پہچان کر اس کی طرف دوڑے - اور اسے پکڑ لیا ۔ اس کی قیمت ادا کرنے لگے تو جعفر چرواہے نے کہا کہ خدا کی قسم !! میں نے آج سے پہلے اس بکرے کو اپنے ریوڑ میں نہیں دیکھا تھا - اور آج بھی جب دیکھا تو پکڑنے کی بہت کوشش کی - لیکن یہ ہاتھ نہیں آیا ۔ بکرے کو اس مخصوص جگہ لاکر ذبح کیا گیا ہت ہی اہم نکتہ جس پر توجہ رکھنی چاہئے ۔وہ یہ ہے کہ مسجد مقدس جمکران نہ صرف امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت ان کی قوت کا مرکز اور روحانی و معنوی تبدیلی کا مقام نہیں ہے ۔بلکہ آنحضرت کی غیبت کے زمانہ میں بھی اس میں وہ خصوصیت موجود ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ نکتہ خود امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمودات سے استفادہ کیا جاتا ہے جو بھی اس جگہ یہ نمازپڑھے ایسے ہی ہے جیسے اس نے خانۂ خدا میں نماز ادا کی ہو۔اورخانۂ خدا نہ صرف زمین کے جاذبہ کامرکز ہے جو روحی اور جسمی اعتبار سے انسان کے اوپر اثر انداز ہے اور یہ بیت معمور ،آسمانی و فضائی معنوی مقام کے مقابل ہے ۔اس بنا پر اگر انسان خانۂ خدا میں ہو اور اس میں نماز ادا کرے تو اس کے لئے ارتباط کی راہ کھل جاتی ہے اور اپنے آپ کو زمین و آسمان کے روحی و جسمی جاذبہ کے درمیان قرار دے دیتا ہے اور نا مرئی امواج انسان کے جسم و جان کے اندر مفید تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور مسجد مقدس جمکران کی اصل جگہ بھی اسی طرح کی خاصیت رکھتی ہے ۔امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کلام بھی اس مطلب پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا۔اس مقام پر نماز  خانۂ خدا میں نماز پڑہنے کی طرح ہے۔


  مسجد مقدس جمکران کے اصل مقام میں بہت سے غیر معلوم اسرار پوشیدہ ہیں جنہیں لوگ نہیں جانتے ۔اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ما من عِلمٍ إلّا وأنا أفتحه ، وما من سرٍّ إلّا والقائم يختمه ۔ (بحار الأنوار ۔ 269/77)کوئی بھی ایسا علم نہیں ہے مگر یہ کہ میں نے اسے برملا نہ کیا ہو- مگر یہ کہ قائم اسے اختتام تک پہنچائیں گے۔مسجد مقدس جمکران کی تعمیر اس کی عظمت اور راز کے متعلق پہلے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے خبر دی تھی اوراس  کے تمام اسرار حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت لوگوں پر عیاں ہوں گے انشاء اللہ ۔ہم اس پرعظمت زمانہ کی یاد پھر سے تازہ کرتے ہیں اور پروردگارعالم سے دعا کرتے ہیں جتنی جلدی ممکن ہو اس نورانی دور کو پہنچا دے تاکہ عالم وجود کے اسرار فاش ہوجائیں اور تمام عالم لامحدود دانش اور عدل و انصاف بھرجائے ۔جو افراد اس مقدس مقام پر مشرف ہوتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ وہ بہت ہی مقدس مقام پر قدم رکھ رہے ہیں جس مقام پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی توجہ ہے اورآپ آنحضرت کی نگاہوں کے سامنے ہیں اس طرح کہ جیسے آنحضرت کے گھر میں داخل ہوئے ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔لہذا یہاں دیگر مقامات سے زیادہ حضور کے شرائط کی رعایت کریں ۔اور یہ جان لیں کہ آپ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے سامنے ہیں اور وہ نہ صرف ہمارے اعمال ،افکار،تصورات اور خیالات سے آگاہ ہیں بلکہ ہمارے نفس و ضمیر سے بھی باخبر ہیں۔ اس لئے ہمیں ہر جگہ اپنی رفتار، گفتار اور افکار پر توجہ رکھنی چاہئے ،بالخصوص مسجد جمکران میں آنحضرت کے مہمان ہیں اور ادب اور حضور کا زیادہ خیال رکھیں ۔اس مقدس مقام کے ادب کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان مسجد مقدس جمکران شرفیاب ہونے کے اپنے مقصد کو مشخص کرے اور اپنے لئے بہترین ،عالی ترین اور اہم ترین ہدف کا انتخاب کرے اور خود کو چھوٹے مقاصد، مادی مسائل اور ذاتی فائدہ کا پابند نہ کرے اور یہ توجہ رکھے کہ اس زمانہ کا سب سے اہم مسئلہ حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل ہے ۔ کیونکہ آنحضرت کے ظہور کے زمانے میں ہی تمام انسانوں کی مادی و معنوی مشکلات دور ہوں گی اور رنج و غم کو راہ نہ ملے گی تواس سے بہتر اورکیا ہوگا کہ اس مقدس مقام پر تمام انسانوں کی مشکلات اور مصائب سے نجات کے لئے دعا کریں  

اتوار، 16 جون، 2024

بچہ وارڈ ساہیوال کی نرسری میں آتشزدگی-

 



 اپ ڈیٹ جون9/ 2024

اپ ڈیٹ کی گئی 14 جون 2024

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں آتشزدگی کے واقعے میں نومولود بچوں کی ہلاکت کی انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے ڈاکٹروں کو کوتاہی برتنے پر ملازمتوں سے برخاست کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم دیا تاہم انھیں گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد رہا کر دیا گیا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے جمعے کے روز ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کا دورہ کیا اور اس واقعے سے متعلق ایک طویل اجلاس کی سربراہی کی جس کے بعد انھوں نے ٹیچنگ ہسپتال کے پرنسپل، ایم ایس، اے ایم ایس اور ایڈمن افسر کو ملازمتوں سے برخاست کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔پنجاب حکومت کی ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری کے مطابق ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں آتشزدگی کے واقعے کی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 11 بچے ہلاک ہوئے۔یاد رہے کہ آٹھ جون کو ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں بچوں کی مبینہ ہلاکت کی خبریں سامنے آئی تھی۔ اس وقت ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر فرخ شہزاد نے موقف اپنایا تھا کہ’نرسری وارڈ میں  پہلے ہسپتال کی ایمرجنسی اور پھر بچوں کے سرجری وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ ہسپتال انتظامیہ نے اس واقعے پر بچوں کی مبینہ ہلاکت کی خبروں کی تردید کی تھی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے دورے پر انکوائری رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’بچوں کی اموات دم گھٹنے سے ہوئی اور رپورٹ میں سب اچھا لکھا گیا۔‘پنجاب حکومت کی ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ہسپتال کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کیا ہے اور اپنی انکوائری کروائی ہے۔ جس میں انھوں نے حکم دیا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کے تین افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔‘عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب نے حکم دیا ہے کہ نااہلی کے مرتکب ڈاکٹروں کے لائنس بھی منسوخ کیے جائیں اور اس کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ مریم نواز شریف نے ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین سے خود معذرت کی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’آگ لگی تو آگ بجھانے والے آلات کیوں نہیں لائے گئے۔‘انکوائری رپورٹ میں کیا ہے؟عظمی بخاری کے مطابق ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ میں آتشزدگی کی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آگ بجھانے والے آلات اپریل سے زائد المعیاد ہو چکے تھے جن کو حکام کو مطلع کیے جانے کے باوجود تبدیل نہیں کیا گیا۔‘رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ہسپتال میں آگ بجھانے والے آلات ڈیکوریشن پیس کے طور پر لگائے گئے۔ ان کو ہنگامی صورتحال میں استعمال کرنے کوئی مشق نہیں ہوئی اور ہسپتال عملے میں سے کسی کو ان آلات کو استعمال کرنا نہیں آتاتھا

’ڈاکٹروں کی گرفتاری اور رہائی‘-ساہیوال پولیس ترجمان کے مطابق انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر واقعے کے چاروں ذمہ داران کو حراست میں لیا تھا مگر بعدازاں ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ مذاکرات اور چاروں افسران کی جانب سے تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے۔ساہیوال پولیس ترجمان کے مطابق انکوائری رپورٹ کے نتیجے میں مقدمہ درج کیا جائے گا جس کی ہدایات وزیر اعلیٰ ہاوس سے آنا ہیں۔صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق بھی ہسپتال ایم ایس اور دیگر کو صرف انکوائری کے لیے کچھ دیر حراست میں رکھا گیا تھا جس کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے-ہسپتال انتظامیہ کا کیا کہنا تھا؟ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس پروفسیر ڈاکٹر اختر محبوب رانا نے واقعہ کے فوری بعد بی بی سی کب بتایا تھا کہ ’جیسے ہی یہ واقع پیش آیا بچوں کو فوری طور پر گائنی، بچوں کے سرجری وارڈ اور ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کرکے ان کو آکسیجن فراہم کی گئی تھی۔‘ڈاکٹر اختر محبوب رانا کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال اور وارڈ میں آگ بجھانے کے آلات موجود تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان آگ بجھانے کے آلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا شاید افراتفری میں یہ کسی کو خیال ہی نہیں آیا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدرت کی طرف سے تھا کہ موقع پر ایک ریسیکو اہلکار موجود تھا جبکہ ہمارے اپنے سٹاف اور ریسیکو اہلکار نے فی الفور ایکشن لیا اوربچوں کو محفوظ کیا تھا۔


محمد ارسلان کہتے ہیں‘شور شرابہ سُن کر میں وارڈ کی جانب بھاگاساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں سنیچر کے روز جب یہ آگ لگی اُس وقت ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار محمد ارسلان ایک مریض بچے کو وہاں سے لاہور منتقل کرنے کے لیے نرسری وارڈ کے باہر موجود تھے۔جن میں سے 41 کو ریسیکو اہلکاروں جبکہ باقی بچوں کو یا تو اُن کے والدین یا پھر ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود وارڈ بوائزنے محفوظ مقام پر منتقل کیا تھا-ایک عینی  شاہد محمد ارسلان کا کہنا تھا کہ ’وارڈ کے اندر چیخ و پکار تھی لوگ افراتفری کے عالم میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے جب میں اپنے موبائل کی روشنی میں بچوں کو وارڈ سے باہر نکال رہا تھا۔ ابھی یہ سب جاری تھا کہ ریسکیو 1122 کے مزید اہلکار بھی پہنچ گئی اور آگ بجھانے اور بچوں کو بچانے میں مصروف ہو گئے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’وارڈ میں دھواں اس قدر شدید تھا کہ اندر کھڑا رہنا نامُمکن دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے موبائل کی لائٹ جلائی اور بچوں کی جانب بڑھا۔۔۔ بڑی کوشش کے بعد میں نے اُس وارڈ سے اینکیوبیٹرز کو گھسیٹ کر باہر نکالنا شروع کیا اسی دوران میرے کُچھ اور ساتھیوں نے بھی بچوں کے چھوٹے بیڈز کو وارڈ سے باہر کا جانب دھکیلا۔‘محمد ارسلان کے مطابق ’ریسکیو اہلکاروں نے بیڈز اور اینکیوبیٹرز کو چھوڑ کر تین تین بچوں کو ایک ہی وقت میں اُٹھا کر دھوئیں سے بھرے وارڈ سے باہر نکالنا شروع کیا۔بچوں کی مدد اور ریسکیو کے اس کام میں ایک وقت ایسا آیا کہ یوں لگنے لگا کہ کہ بس اب میں گُھٹن کے باعث کسی بھی وقت گر جاؤں گا اور اپنے حواس کھو بیٹھوں گا۔‘ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے ادارے ریسیکو 1122 کے مطابق نرسری وارڈ میں 75 سے زیادہ بچے موجود تھے۔ جن میں سے 41 کو ریسیکو اہلکاروں جبکہ باقی بچوں کو یا تو اُن کے والدین یا پھر ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود وارڈ بوائز  اورریسکیو اہلکاروں نے بیڈز اور اینکیوبیٹرز کو چھوڑ کر تین تین بچوں کو ایک ہی وقت میں اُٹھا کر دھوئیں سے بھرے وارڈ سے باہر نکالنا شروع کیا۔بچوں کی مدد اور ریسکیو کے اس کام میں ایک وقت ایسا آیا کہ یوں لگنے لگا کہ کہ بس اب میں گُھٹن کے باعث کسی بھی وقت گر جاؤں گا اور اپنے حواس کھو بیٹھوں گا۔‘


ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے ادارے ریسیکو 1122 کے مطابق نرسری وارڈ میں 75 سے زیادہ بچے موجود تھے۔ جن میں سے 41 کو ریسیکو اہلکاروں جبکہ باقی بچوں کو یا تو اُن کے والدین یا پھر ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود وارڈ بوائزنے محفوظ مقام پر منتقل کیا تھا -ہسپتال انتظامیہ کا کیا کہنا تھا؟ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس پروفسیر ڈاکٹر اختر محبوب رانا نے واقعہ کے فوری بعد بی بی سی کب بتایا تھا کہ ’جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا بچوں کو فوری طور پر گائنی، بچوں کے سرجری وارڈ اور ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کرکے ان کو آکسیجن فراہم کی گئی تھی۔‘ڈاکٹر اختر محبوب رانا کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال اور وارڈ میں آگ بجھانے کے آلات موجود تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان آگ بجھانے کے آلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا شاید افراتفری میں یہ کسی کو خیال ہی نہیں آیا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدرت کی طرف سے تھا کہ موقع پر ایک ریسیکو اہلکار موجود تھا جبکہ ہمارے اپنے سٹاف اور ریسیکو اہلکار نے فی الفور ایکشن لیا اوربچوں کو محفوظ کیا تھا۔‘

جمعہ، 14 جون، 2024

مارو نہیں جھولے میں ڈا ل دو

 بچّے  دنیا کا حسن ہیں بچّے باغوں کے پھول ہیں -بچّے چاند کی چاندنی ہیں 'پھر وہ کون سے بد قسمت بچّے ہیں جن کو کچرے کے ڈھیر  پر پھینک دیا جاتا ہے-جن کی سانسوں کی دور کاٹ دی جاتی ہے آئیے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں  جس کےاعداد و شمار ہولناک ہیں،سماجی تنظیم ایدھی فاوٴنڈیشن کے مردہ خانوں میں ہر روزدرجنوں ایسے نومولود بچوں کو غسل دیا جاتا ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں کوڑے دانوں یا دیگر مقامات سے مردہ حالت میں ملتے ہیں۔ ان میں بیشتر لڑکیاں ہوتی ہیں اور اکثر بچوں کی عمر زیادہ سے زیادہ پانچ دن ہوتی ہے ،ایدھی کی جھولا سروس 56 سالوں سے جاری ہے اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اس کی نگرانی کرتی ہیں۔ اگرچہ انھیں اس حوالے سے مذہبی طبقات کی مخالفت کا سامنا رہتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہر بچہ معصوم ہے۔ ” ایدھی فاوٴنڈیشن نے اپنے مراکز کے باہر یہ تحریر کر رکھا ہے کہ پولیس ہمارے کام میں مداخلت نہیں کرتی نہ ہم سے ان بچوں کا ریکارڈ مانگتی ہے لیکن معلوم نہیں کہ لوگوں کے دلوں سے خوف کیوں نہیں جاتا۔

ایدھی کے مطابق ملک بھر میں ان کے 365 مراکز میں ہر سال 235 کے قریب بچوں کو جھولوں میں چھوڑدیا جاتا ہے جنھیں اپنانے کے لیے ہزاروں بے اولاد جوڑوں کی درخواستیں ہمارے پاس پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ ایدھی کے بقول اب تک ان کے ادارے سے 20 ہزار بچوں کو بے اولاد جوڑوں نے گود لیا ہے اور وہ آج ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔جبکہ ایک واقعہ میں تو مسجد کے پیش امام کے فتوے کے بعد دو دن کے بچے کو سنگسار بھی کیا گیا۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو ایک ایسا ادارہ ہے جو بچوں کا ان کے والدین کی طرح خیال رکھتا ہے، جو نہ صرف بچوں کی روزی روٹی کا خیال رکھتا ہے بلکہ بچوں کو تعلیم و تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔ میں لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں اور انہیں ایک باوقار شہری بنانے کے لیے کام کرتا ہوں؛ کہا جاتا ہے کہ 


جوڑے جنت میں بنتے ہیں، جن کا مقدر زندگی کے لیے بندھن بنتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی دور ہوں، دنیا کے کس حصے میں ہوں۔ ، جب وقت آتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے ملنا مقدر ہوتے ہیں اور اسی طرح کبھی کبھی بالکل ٹھیک۔ یہاں تک کہ دو نامعلوم افراد نے شادی کر لی۔کچھ یوں ہی پیش آیا آمنہ گل کے ساتھ جو کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں آٹھ سال سے مقیم ہے۔ آمنہ کی عمر بیس سال ہے۔ آٹھ سال قبل اسے گمشدہ بچے کے طور پر ادارے میں لایا گیا تھا۔ بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم 12 سالہ بچی اس وقت اپنے والدین یا گھر والوں کو نہ بتا سکی اور پھر اسے یہیں چھوڑ دیا گیا۔چار ماہ قبل ادارے کی انتظامیہ کو اس کا رشتہ موصول ہوا۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد ثمر ملک نے آمنہ سے ملوایا، لڑکی اور لڑکے کی رضامندی سے رشتہ طے پا گیا اور اب دونوں شادی شدہ ہیں شادی کی تقریب چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں منعقد ہوئی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس ادارے نے کسی لڑکی سے شادی کرنے کے بعد اسے رہا کیا ہے۔ ادارے کے تمام بچوں نے بھی شادی کی تقریب میں شرکت کی اور اپنے آپ کو سنوارنے کا شوق بھی پورا کیا۔ تقریب میں چار چاند لگانے کے لیے جگہ کی سجاوٹ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ روٹ اور ہال کو ایونٹ مینیجر زارا اسلم نے بطور تحفہ پھولوں سے سجایا تھا۔


 چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہ سارہ احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رشتہ کے دوران لڑکا اور لڑکی تین سے چار بار ملے۔ ادارے کے اہلکاروں نے لڑکے کے گھر کا دورہ کیا اور اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔ جس کے بعد لڑکی کی رضامندی سے رشتے کے لیے ہاں کر دی گئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ادارے کی ایک بیٹی کی شادی سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور جہاں ان کی پرورش اور تعلیم کا انتظام تھا اب انہیں گھر پر بسانے کا سوچا جائے گا۔لاہور میں قائم چائلڈ پروٹیکشن بیورو ایک ایسا ادارہ ہے جہاں نومولود سے لے کر سولہ سال تک کے بچے ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں، کچھ ماں کے بغیر، کچھ باپ کے بغیر اور زیادہ تر دونوں رشتوں سے۔ محروم ہیں کیونکہ یہ ادارہ بچوں کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے لیکن ان کے والدین اور قریبی رشتوں کی کمی آج بھی یہاں رہنے والے تمام بچوں کی مشترکہ محرومی ہے جسے کبھی کم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ماحول میں رہنے والے ان بچوں کے لیے ان کے ساتھی کی شادی کی تقریب کو بھی خوشی اور ادارے سے تعلق کا احساس دلانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔شادی میں ادارے کے عملے، ڈائریکٹرز اور بچوں نے آمنہ گل کے خاندان کی نمائندگی کی۔

 شادی کی تقریب میں شریک لڑکی سمیرا عارف نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ آج ان جیسی لڑکی کی شادی ہو رہی ہے۔ جو بالکل اس کی بہنوں کی طرح ہے۔ "پہلے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے اور آج خوشیوں میں شریک ہیں۔" سمیرا کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی تھیں کہ آمنہ گل ان میں بڑی ہیں اور ان کی شادی کر دی جائے۔ ادارے نے بھی اس کے بارے میں سوچا جس پر ہمیں خوشی ہے۔ لڑکے کی فیملی خاص طور پر شادی کے لیے امریکہ سے پاکستان آئی تھی۔چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے آمنہ گل کے والدین تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے تاہم ابھی تک اس کے والدین کے بارے میں کچھ نہیں ملا۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے گا اور محکموں کی مشاورت سے بچوں کے مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ سارہ احمد.چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے کہا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو تمام محکموں کے ساتھ مل کر بچوں کے تحفظ کو ممکن بنائے گا۔

جمعرات، 13 جون، 2024

ہندوستان کی گرمی میں خس کی ٹٹۤی کی اہمیت

 

 خس ، ایک خوشبودار، سدا بہار لمبی،گچھے دار، سخت جان گھاس ہے۔اس کا تنا سیدھا  ہوتا ہے ، ا  ور پتے لمبے اور باریک ہوتے ہیں۔ پورے ہندوستان میں اسے خس کہا جاتا ہے۔اس گھاس کی اونچائی 5 فٹ کے قریب ہوتی ہے، بعض حالات میں یہ 9فٹ تک لمبی بھی ہوجاتی ہے، جبکہ اس کی سفید جڑیں اس کی اونچائی سے زیادہ لمبی باریک تاروں پر مشتمل پیچیدہ گچھے بناتی زیر زمین پھیلتی رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لمبی جڑیں ہونے کی وجہ سے یہ خشک سالی میں بھی پروان چڑھتی رہتی ہے۔ جھنڈ کی شکل میں اگنے والی خس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا اصل وطن جنوبی ہندوستان کا علاقہ خصوصاً قنوج اور آسام ہے، لیکن اب یہ ہیٹی، انڈونیشیا،سری لنکا،فلپائن، کومورو جزائر، جاپان، مغربی افریقہ اور رجنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ خس کی جڑوں سے تیل نکالا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر ہندوستان، جاوا، ہیٹی اور کچھ مقدار یورپ اور امریکہ میں کشید کیا جاتا ہے۔خس میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: اینٹی بیکٹیریل، اینٹی سیپٹیک اوراینٹی فنگل خصوصیات کے حامل خس کے تیل میں کیلوریز، پروٹین کے علاوہ 100 سے زائد کیمیائی اجزا پائے جاتے ہیں، جن میں ویٹی ویرول، بینزوک ایسڈ،فر فرول، ویٹیوین، ویٹیوینائل، مورولین، کیلکورن، سیلینین اور دیگر شامل ہیں۔

خس جنوبی ایشیاء (ہندوستان، پاکستان، سری لنکا)، جنوب مشرقی ایشیاء (ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ)، اور مغربی افریقہ میں روایتی دوائیوں میں عرصہ قدیم سے استعمال ہو رہا ہے۔ اب یورپ اورامریکہ میں بھی اسے متعدد اداویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اروما تھراپی میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔جلد کی دیکھ بھال: خس کے تیل کواینٹی بیکٹیریل، اینٹی سیپٹیک اوراینٹی فنگل خصوصیات کی بنا پر جلد کی صحت کا ضامن قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ جلد کی قدرتی نمی کو برقرار رکھتا ہے اور عمر رسیدگی کے نشانات اور جلد میں کچھاؤ کو ختم کر کے اسے قدرتی حالت میں لاتا ہے۔کیل مہاسوں کا علاج: اینٹی سیپٹک خصوصیات کے حامل خس کا تیل جلدی کیل مہاسوں کو نہ صرف ختم کرتا ہے بلکہ ان کے نشان بھی ختم کر دیتا ہے۔یہ جلد پر پڑے داغ دھبے بھی دور کرتا ہے۔اعصابی کمزوری: خس کا تیل اعصابی کمزوری کا بہترین علاج ہے۔ اس کی خوشبو اور اس کی مالش نہ صرف ذہن کو پرسکون کرتی ہے بلکہ اعصابی کھنچاؤ کو ختم کر کے جسم کو آرام اور راحت پہنچاتی ہے۔خس کا تیل بے خوابی کا بھی موثر علاج ہے۔

جوڑوں کی سوزش اور درد: ماہرین کے مطابق کچھ جڑی بوٹیوں کے تیل میں انالجیسک (درد کو کم کرنے) یعنی سوزش کو دور رکھنے کی خصوصیات شامل ہوتی ہیں جس کے باعث درد سے تحفظ فراہم ہوتا ہے۔ جیسے گھٹنے کا درد اکثر براہ راست چوٹ لگنے سے ہوتا ہے یا پھر پروٹین اور کیلشم کی کمی کے باعث اس کی شکایت سامنے آتی ہے۔ ایسے میں قدرتی اشیاء کے تیل نہایت مفید ہوتے ہیں اور قدرتی طور پر تیل میں دونوں قسم کی یعنی ٹھنڈی اور گرم تاثیر پائی جاتی ہے جو کہ گھٹنے کی درد کی شکایت سے لے کر جلد کی جلن اورسوجن کو دور کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ خصوصیات خس کے تیل میں بھی پائی جاتی ہیں۔خس کا تیل جسم میں تیزی سے جلد میں جذب ہوجاتا ہے اس کا طاقتور کمپاؤنڈ خون کی گردش کو تیزی فراہم کرتا ہے جس کے تحت ہڈیوں میں کھچاؤ، درد اور سوزش کی شکایت ختم ہوجاتی ہے۔

فنگس کا قدرتی علاج: دنیا بھر میں پیروں کی انگلیوں میں فنگس بہت عام مرض ہے۔اور اسکا علاج صدیوں سے حکماء، طب کے ماہرین مختلف ادوار میں مختلف انداز میں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر تاریخ طب کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اینٹی فنگل خصوصیات کا حامل خس کا تیل جلدی فنگس کے علاج میں بھی بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔اروما تھراپی میں استعمال: خس کا تیل اروما تھراپی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی خوشبو آپ کے دماغ کو ٹھنڈا رکھتی ہے، فرحت اور سکون بخشتی ہے۔ اعصابی دباؤ اور تناؤ کے خاتمے کیلئے خس کی خوشبو باکمال خصوصیت کی حامل ہے۔ یہ بے خوابی کا بھی علاج کرتی ہے۔خس کا غسل: ذہنی طور پر پریشان اور ڈیپریشن میں مبتلا ہونے کی صورت میں اگر خس کا تیل کو غسل کے پانی میں شامل کر کے اس سے نہایا جائے تو طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے اور ڈیپریشن ختم ہو جاتا ہے۔

خس کے دیگر استعمال:

خس کا عطر: خس عطر کا شمار قدیم ترین عطریات میں ہوتا ہے،یہ ایک خاص قسم کے پودے سے کشید کیا جاتا ہے جوکہ زیادہ تر قنوج اور آسام (انڈیا) میں پایا جاتا ہے، وہیں پہ اس کی کشید اور مینوفیکچرنگ ہوتی ہے۔جس کے بعد قیمت فی کلو ایک لاکھ سے اٹھارہ بیس لاکھ تک ہوتی ہے۔ آج کل فرنچ پرفیومز میں عود کی طرح خس کا استعمال بھی عام ہے اور پسند کیا جاتا ہے۔ اس کی تاثیر انتہائی ٹھنڈی ہے، اس لیے گرمیوں کا یہ خاص تحفہ ہے۔یہ آپ کے دماغ کو ٹھنڈا رکھتی ہے، فرحت اور سکون بخشتی ہے۔اس کی خوشبو لگانے کے بعد آہستہ آہستہ پھیلتی ہے۔زمین کو کٹاؤ سے بچائے: خس کے پودے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں انتہائی گہری ہوتی ہیں، اگر پودا 8فٹ کا ہے تو اس کی جڑیں 12 سے 14فٹ تک گہرائی میں جاتی ہیں، جن کی وجہ سے مون سون کی بارشوں میں یا دریائی پانی کے کے کٹاؤ سے زمین محفوظ رہتی ہے۔ بھارت اور سری لنکا میں خس کی گھاس کو خصوصاً اس مقصد کیلئے بھی لگایا جاتا ہے۔جانوروں کی خوراک: خس جہاں انسانوں کے کام آتا ہے وہاں پالتو جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ خس کی گھاس گائے، بھینسیں، بھیڑ اور بکریاں بڑے شوق سے کھاتی ہیں۔ خس کھانے والے جانور دیگر جانوروں کی نسبت زیادہ صحت مند اور بہتر دودھ دیتے ہیں کر دیا۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر