19حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود تلوار کے ذریعہ نماز کے دوران میں قاتلانہ حملہ کیا۔یہ تلوار امیر شام کے محل میں پورے ایک مہینے اپنے وقت کے سب خطرناک زہر میں ڈبو کر رکھّی گئ تھی - مولا کو شہادت سے بہت انسیت تھی اور شہادت کے طلبگار تھے۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت، شہد کی طرح شیرین و خوبصورت ہے۔یہ ایک ایسا احساس ہے جس میں ، اپنی تمام خواہشات ، مال و دولت، اور اپنا ہر عمل خدا کیلئے انجام دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شہادت کی شیریں لذت کو محسوس کرتا ہے-امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت شُکر اور خوشی کا مقام ہے۔امیر المومین علی علیہ السلام بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ہمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین، کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان عبد الرحمنٰ ابنِ ملجم نے شدّت سے مجروح کرڈالا اورآپ علیہ السلام زخمی ہونے کے بعد شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوکر ۔۔پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجودِ بابرکت سے محروم کر گئے۔
۔دنیا میں بادشاہوں اور حکمرانوں کو انکی نا انصافیوں اور ظلم و جبر کی وجہ سے قتل کیا جاتا ھے لیکن مولا علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جنکو انکے شدت عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا۔حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلودر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت علی علیہ السلام ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش کی فضیلت ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓعلیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے اورخصوصی التفات بھی برتتے تحھے اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔
حضرت علیؓ علیہ السلام کا حسبِ نسب:آ پ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔روزہ دار پر سجدے میں وار کیا:کون تھا یہ قاتل؟ ایک مسلمان کلمہ گو نماز پڑھنے والا، اللہ اکبر ہم ایسے مسلمانوں کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں جو دل میں بُغض رکھتے ہوں۔کیا شان ہے ہمارے خلیفہ علی علیہ السلام کی انھیں علم تھا آج انھیں قتل کردیا جائے گا اور قاتل کو جانتے تھے
حضرت علی علیہ السلام کی تین فضیلتیں:وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ علیہ السلام کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔آخر میں غ دیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔ حضرت پر 19 رمضان 40 ہجری میں شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے سر پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکے زخمی کردیا، زخمی ہونے پر آپ کے لبوں پر جو پہلی صدا آئی وہ تھی کہ ”ربِ کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوگیا“
شب ضربت آپ علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں اُلٹا لیٹا ہوا سو رہا تھا اس نے اپنے نیچے زہر میں بُجھی تلوار چھپا کر رکھّی ہوئی تھی ۔۔مولا مسجد تشریف لائے اور ابن ملجم کوسوتا دیکھ کر اس سے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔جب مولا علی نے آخری سجدہ ادا کیا وہ ملعون اٹھا اوریکایک تلوار سےایسا وار کیا کہ مولا سرِ مبارک پر ایک ہی وار میں اپنے ہی لہو میں تر بتر ہوگئے زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہم السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔اصحاب حضرت علیؓ کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا زینب و کلثوم تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔تین دن تک آپ زخمی حالت میں اضطراب میں رہے اور اکیسویں روزے کو مالک یزداں کے حضور حاضر ہو گئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را