جمعرات، 8 فروری، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

   -گھرکے انگن سے میری تعلیم کی ابتداء  تختی لکھنے سے ہوئ اب میں اس دور کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ وقت ایک خوب صورت رنگین تتلی کی مانند تھا -اب مجھے ناشتہ کے فوراً بعد باورچی خانے میں ہی امّی جان قران پاک پڑھایا کرتی تھیں -قران پاک کے بعد کچھ دیر کا وقفہ مل جاتا تھا جیسے آدھا گھنٹہ اس ٹائم میں میرا چھوٹا بھائ میری گود میں رہتا تھا آدھے گھنٹے کے بعد حساب کا وقت ہو تا تھا -میں نے پہاڑے اس طرح سیکھے تھے -دو ایکم دو-دو دونی چار-پہاڑَ ے بس تین چار تک ہی یاد کیئے تھے کی امّی جان نے ایک دن مجھ سے کہا باہر جا و اور کچھ کنکریاں  لے آو -کنکریوں کا سائز شیشے کی کنچے کی گولیوں سے کچھ کم  ہونا چاہئے-میں کچھ دیر میں پچاس کنکریا ں چن کر لے آئ -مجھے اس وقت گنتی روانی سے نہیں آتی تھی اس لئے میں زمین پر دس-دس کنکریا             ں لگ الگ رکھتی گئ جب پانچ جگہ رکھ لیں تب جمع کر کے ڈبّے میں ڈالا اور لاکر امیّ جان کے سامنے ڈبّہ رکھ دیا  - -امّی جان نے ان کنکریوں کو صابن سے دھویا اور ساتھ ہی ڈبّہ بھی دھو کر اوندھا رکھ دیا -جب ڈبّہ اور کنکریا ں خشک ہو گئیں  کنکریا ں  اس میں رکھتے ہوئے امّی جان مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں -دیکھو بیٹا یہ تمھارا گنتی اور حساب کا ڈبّہ ہے اب میں اس سے تم کو حساب سکھاوں گی 

 میری قلم کہانی میری زبانی جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہواس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیا-

اس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرےخیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھامیری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل      گئ س زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،

اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایاہم بہن بھائیوں  میں صفائی سے سلیٹ اورتختی لکھنے  کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔۔ کس کے پاس سرکنڈے کے چھوٹے اور بڑے  عمدہ قلم ہیں۔ کون اپنے قلم سے لفظوں کی گولائیاں خوب صورت بناتا ہے۔ نقطے کیسے لگانے ہیں اور کہاں لگانے ہیں۔  اس زمانے میں خوشخطی کی بہت اہمیت اس لئے ہوتی تھی   کیونکہ کسی بھی شخص کی شخصیت کا اندازہ اس کی تحریر سے لگایا جاتا تھا ۔شائد یہی وجہ تھی کہ امی جان ہم بچوں کی خوشخطی پر بہت توجہ دیتی تھی- کون جھوم جھوم کر اونچی آوازمیں گنتی، پہاڑے اور نظمیں سنا سکتا ہے۔ یہ ہمارے اولین  جماعتوں کے مشاغل تھے۔

ت کے

معراج کی رات -سوئے منتہا کا سفر

 ۔27 رجب  -یہ رات وہ ہے جب اللہ رب العزت نے اپنے محبوب  حضرت محمد  کو ملاقات کا شرف بخشنے کو عرش بریں پر بلایا   معراج مصطفیٰ ﷺ، اللہ تعالیٰ کے بےشمار احسانات و انعامات میں ایک اہم نعمت اور حضور ﷺ کی انگنت معجزات میں سے ایک ہے، جو بظاہر ایک آن میں وقوع پذیر ہوا مگر اس کی حقیقی مسافت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ احادیث و تفاسیر کی رو سے جو کروڑوں یا اربوں کھربوں سال یا اس سے بھی کہیں زیادہ کی مسافت تھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے ایک آن یا اس سے کم میں سمیٹ کر رکھ دیا اور جہاں یہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت کی عظیم الشان نشانی ہے وہیں سید المرسلین کا عظیم الشان معجزہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے آخری نبی کو عطا فرمایا۔

شب معراج تفاسیر کی رو سے-آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا معمول تھا کہ جب 27ویں شب رجب آتی تو وہ اعتکاف میں بیٹھتے اور بعد نماز ظہر کے دوران نفل پڑھنے میں مشغول ہو جاتے اس کے بعد دو چار رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ سورہ القدر تین بار اور سورہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھتے اور پھر عصر تک دعاؤں میں مشغول رہتے۔ ان سے مروی ہے کہ سرور کونینؐ کا یہی معمول تھا۔ آج اگر انسان تسخیر کائنات کی جانب قدم اٹھاتا ہے تو محمدؐ اس کام کی ابتدا بھی تھے اور انتہا بھی اس طرح معراج تسخیر کائنات کی عزت بنی نوع انسان کے لئے خوش خبری کی عمدہ مثال بھی ہے اور تکمیل انسانیت کی علامت بھی

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی و مفہوم

عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔روایات اور تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی۔

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ.

(بنی اسرائيل، 17: 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی.

(النجم، 53: 1،2)

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول   جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘۔

اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معراج کیوں کروائی گئی؟ اس سلسلے میں معراج کی حکمتیں درج ذیل ہیں۔

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتیں -ارباب حل و عقد نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں۔

رجب کی ستائیسویں شب کی فضیلت

رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والوں کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سی ایک سور ت اور ہر دو رکعت  میں تشہد اور قنوت  پڑھے-بارہ رکعتیں پوری ہونے پر 100 مرتبہ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، استغفار سو بار، درود شریف سو بار پڑھے اور پھر دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا۔ سوائے اس دعا کے جو گناہ کے لئے ہو۔

رجب کا خصوصی وظیفہ

 روزانہ 1200 مرتبہ الله الصمد پڑھنا چاہئے۔    

پیر، 5 فروری، 2024

لقوہ ہونے کے اسباب کیا ہیں، اس کا علاج کیسے ممکن ہے


 

لقوہ یا چھوٹا فالج جسے انگریزی میں ’بیلز پالسی‘ کہا جاتا ہے، اس بیماری میں آدھا چہرہ بے جان ہوجاتا ہے متاثرہ شخص درست انداز میں کھانے، پینے اور گفتگو سے محروم ہوجاتا ہے۔یہ مرض انسان کو کب کیسے اور کیوں لاحق ہوتا ہے؟ لقوہ یا بیلز چہرے کے پٹھوں کی کمزوری یا فالج کی ایک چھوٹی شکل ہے، یہ عمر کے کسی بھی حصے میں اچانک حملہ آور ہوتا ہے اور 48 گھنٹوں کے دوران بگڑ جاتا ہے، خاص طور پر موسم سرما میں۔س کی بہت سی وجوہات اور علامات ہوتی ہیں، لیکن بعض اوقات ان علامات کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم 60 سال بعد اس بیماری کے ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں  کا کہنا تھا کہ بعض افراد میں ’بیلز پالسی‘ کی علامات کئی ہفتے قبل نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں لیکن ان علامات کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔

 

 عام طور پر یہ بیماری چہرے کے ایک طرف کو متاثر کرتی ہے اور متاثرہ شخص کئی ہفتوں تک درست انداز میں کھانے، پینے اور بات کرنے سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر ز کا کہنا ہےکہ اگرچہ ’بیلز پالسی‘ اعصاب کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے تاہم ڈپریشن، ہائی بلڈ پریشر، شوگر کے امراض بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے دماغ کو خون کی ترسیل متاثر نہیں ہوتی بلکہ دماغ سے چہرے کی طرف جانے والی ایک نس کو خون کی ترسیل متاثر ہوتی ہے۔اس بیماری کے علاج سے متعلق انہوں نے بتایا کہ متاثرہ شخص کو اینٹی وائرل اور اسٹیرائڈ ادویات دی جاتی ہیں اور پر قابو پانے میں کم از کم تین ماہ کا وقت لگ جاتا ہے، تاہم زیادہ تر افراد پر ادویات کے کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے، اس کیلئے چہرے کی خاص قسم کی ورزش کی ضروری ہے-

لقوہ کی وجہ سے انسان اپنے چہرے کو حرکت دینے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے مسکرانے اور چہرے کی دیگر حرکات متاثر ہوتی ہیں۔ لقوہ کی وجہ سے انسان اپنے جذبات و خیالات دوسروں تک منتقل نہیں کرسکتا۔ عموما چہرے کے ایک طرف لقوہ ہوتا ہے جس سے اس کی حرکت بند ہو جاتی ہے۔چہرے کی جلد، آنکھوں، گال اور منہ کے گرد کھسک کر جمع ہوجاتی ہے اورعضلات کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بعض اوقات لوگ اپنے چہرے کے پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرتے ہیں۔ انسان اپنی پلکیں بند کرنے سے -قاصر ہوتا ہے۔لقوہ ہونے کے اسباب۔لقوہ ہونے کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں۔لقوہ اعصاب میں جلن، کان میں انفیکشن یا دیگر سوزش کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔لقوہ ہونے کی صورت میں جہاں متاثرہ جگہ کی تیل سے مالش کریں وہی اینٹی بائیٹک دوائیں استعمال کریں  کچھ لوگوں میں یہ نامیاتی طور پر ہوتا ہے، جس سے عضلات حرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور لقوہ ہو جاتا ہے۔اس کی سب سے عام وجہ آدھے چہرے کا مفلوج ہو جانا ہوتا ہے۔ عموما یہ اچانک ہوتا ہے اور چہرے کا صرف ایک حصہ متاثر ہوتا ہے۔فالج کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نروس سسٹم  جو ہمارے  برین سے نکلتے ہیں۔ اور ہمارے پورے جسم کو میسیج پہنچاتے ہیں۔ مگر جب ہمارے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں۔ تو یہ اپنا پیغام اس آرگن تک پہنچا نہیں پاتے جس کی وجہ سے وہ عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

ہائی بلڈپریشر مرگی رعشہ اختناق الرحم، چوٹ ضرب اور سردی لگنے سے مرض فالج لقوہ پیدا ہو جاتے ہیں- اور ایسے افراد جن کے بدن میں بلغم کی زیادتی ہوتی ہے۔ ان امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عورتوں میں حیض کی خرابی سے بھی ہو جاتا ہے۔ اب یہ اعصاب کمزور کیوں ہوتے ہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ آپ کا خون گاڑھا ہونا ہے۔ جب خون آپ کا گاڑھا ہوجاتا ہے تو خون نالیوں میں پروپر درست سرکولیشن ہونی چاہیے۔ویسے سرکولیٹ نہیں کر پاتا۔ جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے تو ہمارے نروس سسٹم میں مسئلہ ہوجاتا ہے۔ ان نروس سسٹم میں مسئلے کی وجہ سے جسم میں میسیج صیحح طریقے سے نہیں پہنچ سکتا ۔اس اعصابی کمزوری کی وجہ سے فالج ہوتا ہے۔ اگر کسی کو فالج کی بیماری ہے ۔ اگر کسی کے والدین میں سے کسی ایک کو ہے۔ 

اس کی وجہ چہرے کے اعصاب میں سوجن ہوتی ہے جو عارضی طور پر اس کے خون کے بہاؤ کو روک دیتی ہے۔ چہرے  کا فالج عام طور پر ایک سال کے عرصہ میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔لقوہ کا علاج -ڈاکٹر  لقوہ کے علاج کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں اس  کے علاج کا زیادہ تر انحصار کارٹیسون پر ہوتا ہے۔ یہ مرض کے چار سے پانچ  دن بعد تجویز کیا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مریض کو اپنی آنکھ کی خاص حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ وہ اس بیماری میں آنکھ بند یا کھولنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اس میں چند ہفتوں یا مہینوں میں بہتری آتی ہے۔ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ کسی ٹھنڈی جگہ سے ایک دم گرم جگہ منتقل  نہ ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی نہ کریں تاکہ چہرے کے اعصاب میں سوجن نہ ہو۔لقوہ ہونے کی صورت میں جہاں متاثرہ جگہ کی تیل سے مالش کریں وہی اینٹی بائیٹک دوائیں استعمال کریں اور وٹامن بی 12 کی مقدار میں اضافہ کر دیںدیر ہضم ثقیل اور نفخ پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔سرد ٹھنڈی ہوا سے بچنا ضروری ہے۔ مفلوج کے لئے پرہیز سرد اور ترش اشیاء کھانے پینے سے پرہیز اور سرد پانی سے نہانے سے پرہیز-  گوبھی آلو اروی دال ماش   ٹھنڈی چیزیں برف ٹھنڈا پانی، کولڈڈرنک مشروبات لسی دہی وغیرہ ہرگز استعمال نہ کریں۔

جمعہ، 2 فروری، 2024

گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی حساس علاقہ ہے

    گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی  اسٹرٹیجک علاقہ ہے جو پاکستان اور چین کو جوڑتا ہے -آپ اس علاقے کو شاہراہ ریشم کے مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہین ۔ مشرقی حصہ اپنی بلند بالا خوبصورت برفانی چوٹیوں کی دولت سے مالا مال ہے۔ غیر ملکی کوہ پیماؤں کی پسندیدہ ان چوٹیوں میں مشہور زمانہ کے ٹو، بالتورہ، تیری کانگری، ہڈن پیک، گشہ بروم، براڈپیک، کے 6،کے7 ،پیو، ہرموش، دیران، راکا پوشی اور دستگل سر شامل ہیں۔ شاہراہ ریشم کے اس حصے میں خپلو، اسکردو، دیو سائی کا میدان، کچھورا جھیل، شنگریلا جھیل، کنکورڈیا، سنو لیک، عطاآباد جھیل سست اور خنجراب پاس سیاحوں کے لئے دلچسپی کا سارا حسن رکھتے ہیں، بھارت نے وہاں پر کافی فلیتے لگانے کی کوشش کی اور اس کی کوششوں کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا، کئی عجیب واقعات ہوئے، لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، ہائیکرز کو بے دریغ مار ڈالا گیا اور پاکستان کی سیاحت کی صنعت کو کافی نقصان پہنچایا گیا، کئی فوجی افسران شہید کئے گئے مگر پھر اِن واقعات کے ذمہ داران کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ ثبوت حاصل کر لئے گئے جن سے یہ پتہ چل گیا کہ کون سی طاقت ان واقعات کے پیچھے تھی۔

 جب     گلگت بلتستان    کے علاقے کے لوگوں کے لئے گندم کی سبسڈی ختم کر دی گئی ،وہاں عوام کئی روز سراپا احتجاج رہے۔ اس علاقے کے لوگوں کو یہ سبسڈی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس لئے دی تھی کہ وہاں گندم پیدا نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ رعایت اُن کو دوبارہ دی جاتی سو مرکزی حکومت نے وہ اب بحال کر دی ہے۔ اِس خطے میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے جو ایک اچھی علامت ہے اِس لئے بھی کہ یہ ایک انتہائی اہم خطہ ہے مگر صاحبان اقتدار نے یہاں الٹی گنگا بہانے کا پروگرام بنا ڈالا ہے جس پر تیزی سے عمل درامد ہو رہا ہے، چین اور پاکستان کے درمیان معاشی کوریڈور بنانے کا پروگرام روبہ عمل ہے، بھارت نے اس معاشی کوریڈور پر احتجاج کیا ہے اور اس کے علاوہ مغرب کو بھی یہ بات پسند نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی اس پر گہری نظر رکھ رہا ہے اور حالات و معاملات خراب کرنے میں لگا ہوا ہے، اس وجہ سے اس علاقہ میں بےچینی پیدا ہونا چاہئے اور نہ ہی کوئی احتجاجی مظاہرہ ہونا چاہئے، 

ماضی کی حکومت نے پاسپورٹ کے حصول کو اس قدر مشکل بنا دیا تھا بلکہ اس کا حصول یا تو بڑی سفارش یا صرف رشوت کے ذریعے ہی ممکن تھا، نہ پاسپورٹ کا کاغذ تھا اور نہ ہی وہ چھپتا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے بچے غیرملکی تعلیم سے محروم ہو گئے۔ کئی لوگ ملازمتوں سے گئے۔ کئی تاجر بڑے بڑے آرڈر کو حاصل کرنے میں ناکام ہوئے، کئی لوگ رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونے سے رہ گئے اور ساری عمر کا ملال کا روگ لگا بیٹھے۔ اس شخص کی شبانہ روز کی کاوشوں نے پاسپورٹ کے محکمے کی ہئیت کو بدل ڈالا۔ پرانے تعطل میں پڑے پاسپورٹ کے منتظر لوگوں کے پاسپورٹ کو قلیل ترین مدت میں اُن کے حوالے کیا گیا اور ایک سسٹم وضع کرایا کہ پاسپورٹ کے حصول کا کیا طریقہ ہو گا، کتنی مدت میں کس کیٹیگری کا پاسپورٹ طلبگار کو مل جائے گا۔ ایسا شخص اگر گلگت بلتستان کا چیف سیکریٹری مقرر ہوا ہے تو اِس کے معنی ہیں کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ 

پاکستان کو حالات نے ایک عالمی کھلاڑی بنا دیا ہے، اِس وجہ سے کہ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، اس کا اسٹرٹیجک محل و قوع ہے، اس کے پاس بے پناہ معدنی دولت ہے اور سارے وسائل سے مالا مال ممالک کے راستے یہاں سے گزرتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اِن حقیقتوں کو تسلیم بھی کرتی ہیں مگر پھر بھی ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں،پاکستان کیونکہ نئے کھلاڑی کے طور پر میدان میں اتر رہا ہے، کمزور ہے، ملک میں بدامنی ہے، اس لئے اُس کو کافی مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسری ابتلاء میں اُسے مبتلا کر دیا جاتا ہے، پاکستان ایک طرف بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف طالبان اُس کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں، اب سیاسی و خاکی کشمکش کے ساتھ میڈیا کے ساتھ بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، جو کوئی اچھی علامت نہیں ہے، یہ بارودی فلیتے ہیں انہیں جلد سے جلد بے اثر کر دیا جائے تو پاکستان کے لئے بہتر ہے، اِن معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹا دینا چاہئے۔ 

 دُنیا کے ممالک سارے عالم میں سونے کی تلاش کرتے رہے کہ کہیں سے بڑی تعداد میں سونے کے ذخائر نکل آئیں، وہ علاقہ پاکستان نکلا جس میں سونا بڑی مقدار میں موجود ہے۔ ایک ریکوڈک ہے جہاں 1400 بلین ڈالر کے سونے کے ذخائر ہیں اور ہنزہ کی پہاڑیوں میں اِس سے کہیں زیادہ سونا موجود ہے۔ اِس لحاظ سے گلگت اور ہنزہ کو پاکستان کو پُرامن رکھنا چاہئے اور یہاں پر گرفت کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ سیکورٹی کے زاویہ سے بھی اس کی سیکورٹی انتہائی سخت کرنا پڑے گی۔ چن چن کر ایسے افسران کو تعینات کرنا پڑے گا جو ملک و قوم کے لئے اپنی جان نثار کرنے کا عزم رکھتے ہوں اور ساری صورتِ حال کو سمجھتے ہوں تاکہ ہم آسانی سے پاکستان کی فلاح و بہبود کے پروگرام کو پایۂ تکمیل کو پہنچا سکیں، معاشی کوریڈور کو مکمل کرسکیں، سیاسی کشمکش سے گریز، جنگجوئی اور مہم جوئی سے اُسی طرح سے گریز کرنا ہو گا جس طرح سے چین نے کئی عشروں تک خاموش رہ کر اپنے آپ کو معاشی طور پر منظم کیا یا پھر روس نے اپنی معیشت کی بحالی کے بعد اب دُنیا کے معاملات پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں اور تمام افراد کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اِس میں پاکستان کے لوگوں کی بہتر زندگی کے سامان اسی زمین میں  ہیں،   


جمعرات، 1 فروری، 2024

حضرت فاطمہ معصومہؑ بنت اما م مو سی علیہ ا لسلا م

 

 


حضرت فاطمہ معصومہؑ بنت اما م  مو سی  علیہ ا لسلا م   و خواہر اما م رضا علیہ السلام  ایک بلند و بالا مقام کی حامل بی بی تھیں۔ آئمہ طاہرینؑ نے آپؑ کا تذکرہ بڑے احترام سے کیا ہے حتی آپؑ کی ولادت سے پہلے بلکہ آپؑ کے والد ماجد کی بھی ولادت سے پہلے ان معظمہ کا نام بعض آئمہؑ کی لسان مبارک پر جاری ہوا اور انہوں نے ان معظمہؑ کے حوالے سے بعض فرامین جاری  کئے -امام صادقؑ علیہ السلام ایک اور حدیث میں ولادت سے قبل آپؑ کی زیارت اور جائے دفن کا ذکر کرتے ہیں اور شیعوں کو اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قم شہر، ہمارا حرم ہے، وہاں  ائمہ کی  اولاد میں سے فاطمہ نامی ایک خاتون دفن ہوں گی، جو بھی ان کی زیارت کرے گا، اس کیلئے بہشت ثابت ہے-

آپ کی والدہ ماجدہ تقویٰ اور شرافت میں تاریخ کی ایک کم نظیر شخصیت ہیں۔واضح ہے کہ ماں باپ کی شخصیت کے اولاد کی روح اور جسم پر اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خصوصیت حضرت فاطمہ معصومہؑ کے وجود میں بھی ظاہر ہوئی۔ آپؑ کو دونوں طرف سے فضائل ہی فضائل وراثت میں ملے۔ حضرتؑ کی باقی اولاد پر حضرت معصومہؑ کی برتری کا راز شاید اسی نکتے میں پنہان ہے۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس راہ میں حضرتؑ کی ذاتی سعی و کوشش بے اثر تھی بلکہ تمام انفرادی شائستگیوں کے علاوہ جو آپؑ نے اپنی ذات میں ایجاد کی تھیں؛ ان عوامل و اسباب سے بھی اخلاقی و عملی ترقی کے مراحل کی تکمیل ہوئی۔

 مروی ہے کہ حضرت رضاؑ نے فرمایا: جو قم میں معصومہؑ کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔ اگرچہ حضرت معصومہؑ کے مقام و عصمت پر شواہد و قرائن بہت زیادہ ہیں۔ تاہم امامؑ کا یہ فرمان بھی شاید اشارہ ہو کہ حضرت معصومہؑ عصمت کے مقام کی حامل ہیں، در ضمن یہ سخن اس امر کو بھی واضح کر رہا ہے کہ: یہ لقب حضرت رضاؑ سے فاطمہ کبریٰ کو عطا ہوا ہو ورنہ ان کا نام معصومہؑ نہیں تھا۔وسیع پیمانے پر شفاعت-انبیا و اولیا کی شفاعت کا عقیدہ مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے اور اس امر میں کوئی تردید نہیں ہے۔ شفاعت کے اعلیٰ ترین مقام پر رسول اکرمؐ فائز ہیں کہ جسے قرآن کریم میں مقام محمود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خانوادہ رسول کی دو خواتین عظیم مقامِ شفاعت کی حامل ہیں:۱۔خاتون محشر، صدیقہ اطہر، حضرت فاطمہ زہراؑ-۲۔ شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہؑ کہ جن کا مقام حضرت زہراؑ کے بعد ہے۔ امام جعفر صادقؑ اس بارے میں فرماتے ہیں: تَدخل بِشفاعتها شیعتنا الجنته باجمعهم. ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

شہر مقدس قم میں تشریف آوری:صاحب كتاب تاريخ قم نے لکھا ہے کہ: سن 200 ہجری میں خلیفہ عباسی مامون نے امام علی بن موسی الرضا(ع) کو مدینہ سے مرو (خراسان) اپنا ولیعہد بنانے کے لیے بلایا اور سن 201ہجری میں امام رضا کی بہن اپنے بھائی سے ملنے کے لیے مرو کی طرف روانہ ہوئیں -لیکن جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو کچھ دشمنان اہلبیت علیہ ا لسلا م جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا راستے میں حائل ہو گئے اور حضرت معصومہ  سلا م اللہ علیہ کے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کر دی۔ نتیجتاً کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔سیده  معصومہ   سلا م اللہ علیہ نے بهی قم کا انتخاب کیا:بہر کیف حضرت معصومہ  سلا م اللہ علیہ اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفر کو جاری و ساری رکھنا نا ممکن ہو گیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیااور آپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ)سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے ۔اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے اپنے خادم سے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لیے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ  شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ، 

 اب یہ نورانی مکان شہر قم میں بیت النور کے نام سے مشہور ہے اور ساری دنیا سے آنے والے زائرین بی بی کے نورانی اور مقدس حرم کی زیارت کرنے کے ساتھ ساتھ بی بی کی اس عبادتگاہ کی بھی زیارت کرتے ہیں۔بی بی سلا م اللہ علیہ کی وفات کے بارے میں بھی کتب متقدمین میں کوئی ذکر نہیں ہوا، لیکن کتب متاخرین میں انکی شہادت 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری کو ذکر کی گئی ہے۔ آپ کی 28 سال کی عمر میں شہادت ہوئی-۔نقل ہوا ہے کہ جب بی بی سلا م اللہ علیہ کو دفن کرنے کے لیے قبر کو تیار کیا گیا، اب یہ مسئلہ تھا کہ کون قبر میں جائے اور کون بی بی کو دفن کرے، ابھی  جنازے کے  شرکاء نے دیکھا کہ اچانک  ایکسمت  سے  گھوڑے پر سوار  دو نقاب دار  آتے ہوئے دکھائی دئیے اور انھوں نے آ کر بی بی کے   دفن کا سارا انتظام کیا۔  دفن کرنے کے بعد وہ دو بندے کسی سے بات کیے بغیر گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں سے آئے تھے، وہاں واپس چلے گئے۔ پھر یہاں نماز مودت ادا کرنے کے لئے محبان اہلبیت علیہ ا لسلا م  جوق در جوق آنے لگے ۔ عاشقان ولایت وامامت کے لیے یہ بارگاہ دار الشفاء ہوگئی جس میں مضطرب دلوں کو سکون ملنے لگا ۔ مشکل کشاء کی بیٹی ،لوگوں کی بڑی بڑی مشکلوں کی مشکل کشائی کرتی رہیں اور نا امیدوں کے لیے مرکز امید بن گئیں ۔ 

 ۔

 

بدھ، 31 جنوری، 2024

کلّو چھو لے والے کی شادی part-2

 

- کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ  گئ-   قسط نمبر  1 یہاں پر ختم ہوئ تھی

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا- میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھےکچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،


امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس دونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ مگر کیسے ؟


دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن اگلی گلی میں تو رہتی ہے ،اگلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی تھی      -بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آگئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے

 مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے گانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسمیں دلہن کو  یکّہ سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئیں ،اور پھر دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،


دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ دولہا نے سامنے ہی بچھے پلنگ پر دلہن کو لڑھکا دیا ،اور گھر کی عورتوں نے اس کو سیدھا کیا لیکن اس نے شرم کے مارے اپنے گٹھری نما ہاتھ پاؤں کھولے نہیں یوںہی گھٹنو ں میں سر دے کے بیٹھی رہی ،اب کھیر چٹائ کی رسم کی پکار پڑی لیکن اس کے ساتھ ہی کمرے میں ایک اور آواز گونجی سب کمرے سے چلے جاؤ دلہن کے دادا دعا ء کرنے آ رہے ہیں بس کمرے میں دولہا دلہن رہیں گے اس کے ساتھ کمرے سے سارے بچّے ہنکا دئے گئے اور ہم دونوں سہیلیوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی ،یہ میرے بچپن کی ایک معصوم سے نوجوان کی یادگار شادی تھی ،ان کی رسمیں انکی بولیان کا ہر انداز ہم سے جدا تھا لیکن بہت ہی سادہ اور  خوش رنگ ،یہ میرے ابتدائ بچپن کا ایک یادگار واقعہ بن چکا تھا  

 

جمعرات، 25 جنوری، 2024

مولائے کائنات ع مشاہیر عالم کی نظر میں

   رجب کی 13 تاریخ  شیعہ مسلمانوں کی زندگی میں ایک بڑی  اہمیت  کی تاریخ ہے، اس  تاریخ کو مولائے کائنات کعبہ جیسی  جگہ جو بیت اللہ  کے لقب سے سرفراز ہے -آ پ اس مقام عظیم وپاک و پاکیزہ   جگہ  پر تشریف لائےآپ وہ ہستی ہیں جن کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے، وہ انسان جس کا دل صرف اپنوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ ہر ایک انسان کے لئے تڑپتا تھا۔   ۔آئیے دیکھیں غیر مسلم دانشورں نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہا ہے :سلیمان کتانی کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ ایک جملہ کتنا سچا اور پیارا ہے کہ *تمام فضائل و خصائل علي عليہ السلام ميں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کي عظمت بلند ہوئي* عیسائی مصنف (Poul Salama) امام علی علیہ السلام کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:

جی ہاں میں ایک عیسائی ہوں، لیکن وسعت نظر کا حامل ہوں، تنگ نظر نہیں، گرچہ میں عیسائی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، ایسی شخصیت جس کا عیسائی احترام کرتے ہیں اور اپنے اجتماعات میں ان کی ذات کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو کچلنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔ * اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔ وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی شک نہیں کہ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراتے ہوئے ہر درد و الم کو قبول کرتا ہے*۔

کیا قابل غور نہیں کہ ایک عیسائی اس والہانہ انداز میں گفتگو کر رہا ہے اور وہ بھی امام علی علیہ السلام کے سلسلہ میں، اگر ایک عیسائی دانشور علی علیہ السلام کی شخصیت میں دوسروں کا درد دیکھ رہا ہے اگر فقرا کو دیکھ کر علی علیہ السلام میں ان کا درد دیکھ رہا ہے تو ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے ایک علی کے چاہنے والے کی حیثیت سے؟ * اگر علی علیہ السلام کی شخصیت درد و غم و اندوہ سے نکھرتی ہے تو ہمیں بھی مصائب و آلام اور پریشانیوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے جادہ عشق پر سربلند و سرفراز ہو  کر جئیں   برطانوی مصنف اور ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) یوں کہتے نظر آتے ہیں:

”علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا، سوال یہ ہے کہ *کیا ہماری زندگی ایسی ہے کہ ہمارے اردگرد مساکین و فقراء کا حلقہ رہے؟ یا ہم اس حلقہ کو ڈھونڈتے ہیں جہاں اغنیاء و ثروت مند افراد نظر آتے ہیں؟* فرانس کے میڈم ڈیالفو Madame Dyalfv کہتے ہیں: آپ اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے، حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جنہوں نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جنہیں عرب یکتا خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا۔ یہ صرف فرانس کے دانشور ہی نہیں بلکہ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) بھی امام علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں: ”حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔” ؟    

معروف تاریخ پروفیسر فلپ کے حتٰی 1886-1978) کہتے ہیں:

"سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا”۔سرویلیم مور (1905-1918)” ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی زندگی میں پائی جانے والی دانشمندی و شرافت کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں:"حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے”۔ اب ہم سوچیں کیا ہماری زندگی کے فیصلے ہماری دانشمندی کی علامت ہیں کیا ہم ایسے مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے غیر مسلم بھائی کہہ سکیں کہ یہ ایسا علی علیہ السلام کا ماننے والا ہے جو دانشمندی و شرافت مندانہ زندگی میں علی علیہ السلام کی طرح بے مثال ہے، برطانوی ماہر جنگ جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984): ایک مقام پر کہتے ہیں "حضرت علیؑ کے اسلام سے خالصانہ تعلق خاطر اور " معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی”۔ اب ہم سوچیں کہ ہمارا اسلام سے تعلق کس قدر خالص ہے اور کیا ہم کسی خطا کا شکار ہونے والے اپنے ہی دوست کو معاف کرنے پر تیار ہیں؟ یا ہر وقت بدلہ لینے کی فکر ہمیں ستائے رہتی ہے اور جب تک ہم بدلہ نہ لے لیں آتش انتقام فروکش نہیں ہوتی؟  

امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے مختلف مکاتب فکر سے متعلق دانشوروں کے اظہار خیال کے یہ چند نمونے تھے جنہیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا،  علی کی کتاب نہج البلاغہ آج ہمارے یہاں کیوں مظلوم ہے وہ کتاب جس کے بارے میں یہی سلیمان کتانی لبنانی مفکر کہتے نظر آتے ہیں، ”‌کونسي ايسي چيز ہے جو نہج البلاغہ ميں بيان کي گئي ہے اور وہ ایک حقیقت کی عکاس نہ ہو؟ ايسا لگتا ہے جيسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر پیکر علي ابن ابي طالب عليہ السلام ميں سما گيا ہو

میں نے بہت مختصر کر کے یہ مضمون تحریر کیا ہے

 



 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر