شاہد ہے ادائے میثم بھی ہم ہیں وہ علیؑ
کے دیوانے
جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہے اُس پیڑ کو
پانی دیتے ہیں
میں نے یہ شعر لکھنو کے ایک شاعر جن کا نام مجھے نہیں معلوم ان کی منقبت سے لیا ہے-روائت ہے کہ مولا علی نے ایک بار کسی درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میثم تم کو میری محبّت کے جرم میں اس پیڑ پر پھانسی دی جائے گی-تب سے حضرت میثم تمّار اس درخت کو بڑی تو جہ سے پانی دیا کرتے تھے-وہ علم تفسیر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ مروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے حجاز مشرف ہوئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔
لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے یہ خبر کہانت کی رو سے سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی تمام پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئیں بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عجمی والدین نے تمہارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمہیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔
ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی۔ عاشق علی میثم تمار کی شہادت نمونہ حق گوئی ہےامام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل جناب میثم کی 60 ہجری میں ابن زیاد کے حکم سے شہادت ہوئی۔22 ذي الحجہ سنہ 60 ہجری قمری کو رسول اکرم حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کے یہ صحابی میثم تمّار شہید ہوئے ۔میثم تمّار ایک غلام تھے جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کردیا تھا ۔وہ حضرت علی علیہ السلام کے بھی انتہائي قریبی ساتھی اور وفادار صحابی تھے ۔میثم تمار کو اموی حکمرانوں نے اہل بیت رسول (ص) سے مودت و عقیدت کے جرم میں شہید کردیا۔آپ کا مزار عراق کے شہر کوفے میں مرجع خلائق ہے جب عبید اللہ بن زیاد کوفہ آیا تو اس نے معرف کو بلایا اور اس سے میثم کے بارے میں تفتیش کی، معرف نے کہا: حج پر گئے ہیں، ابن زیاد نے کہا: اگر اس کو نہ لایا تو تجھے قتل کردوں گا، معرف نے مہلت مانگی، اور جناب میثم کے استقبال کیلئے قاسدیہ گیا اور جناب میثم کے آنے تک وہیں پر انتظار کرتا رہا ، پھر ان کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا،
جس وقت مجلس میں داخل ہوئے تو حاضرین نے کہا یہ علی(علیہ السلام)کے سب سے نزدیکی دوست ہیں، عبید اللہ نے کہا: کیا تم میں جرائت ہے کہ علی سے بیزاری اختیار کرو،جناب میثم نے فرمایا: اگر میں یہ کام نہ کروں تو تم کیا کروگے؟ اس نے کہا خدا کی قسم تمہیں قتل کردوں گا، جناب میثم نے فرمایا: میرے مولا علی(علیہ السلام)نے مجھے خبر دی ہے کہ تو مجھے قتل کرے گااور دوسرے نو افراد کے ساتھ عمرو بن الحریث کے گھر میں پھانسی پر لٹکائے گا۔عبیداللہ نے حکم دیا کہ مختار اور میثم کو زندان میں ڈال دو، میثم نے مختار سے کہا تم آزاد ہوجاؤ گے لیکن یہ شخص مجھے قتل کرےگا، پھر مختار کو قتل کرنے کیلئے باہر لے گئے، اسی وقت ایک قاصد یزید کے پاس سے آیا کہ مختار کو آزادکردے، لیکن میثم کو عمرو نب الحریث کے گھر میں پھانسی دیدے، عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ پھانسی دینے کی جگہ کو صاف کردے اور اور گھر میں خوشبو لگادے ،میثم نے دار سے اہل بیت (علیہم السلام)کے فضائل بیان کرنے شروع کئے اور بنی امیہ پر لعنت کی اور بنی امیہ کے منقرض ہونے کی خبر دی، یہاں تک کہ ابن زیاد کو خبر دی گئی کہ میثم نے تجھے ذلیل و رسوال کیاہےاس ملعون نے حکم دیا کہ ان کے منہ کو لگام سے باندھ دو تاکہ بول نہ سکے-
تیسرے دن اس
ملعون کو ایک اسلحہ مل گیا اس نے کہا : خدا کی قسم اس اسلحہ کو تمہارے ضرور ماروں
گا، جبکہ جناب میثم دن میں روزہ سے تھے اور رات کو عبادت خدا میں مشغول رہتے تھے
اس نے وہ اسلحہ آپ کے پیٹ کے نیچے مارا جو اندر تک چلا گیا، تیسرے دن آپ کی ناک سے
خون آیا اورآپ کی ڈاڈھی اور سینہ مبارک پرجاری ہوگیااور آپ کی روح عالم بقاء کی
طرف پرواز کر گئی۔ میثم کی شہادت امام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے
دس روز قبل ہوئی،۔رات کو سات خرما فروش
خاموشی سے آئے اور انہوں نے جسد مبارک کو سولی سے اتار کر مخفی طورپر نہر کے کنارے
دفن کردیا، پھر اس کے اوپر پانی ڈال دیا تاکہ کسی کو آپ کی قبر کا پتہ نہ چلے، اس
کے بعد ابن زیاد کے سپاہیوں نے آپ کی قبر کو بہت تلاش کیا لیکن انہیں کوئی سراغ نہیں
مل سکا۔