ر وا ئت ہے کہ حضر ت نو ح علیہ ا لسلا م جب طو فا ن سے گھبر ا گ ۓ تب آ پ نے اللہ سے نجا ت کی دعا کی تب اللہ نے سا ت بڑ ے در یا تخیق کر کے پا نی ان میں اتا ر د یا ان میں دریائے سندھ بھی شا مل تھا –یہ دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔ اس کا مجموعی نکاسی آب کا علاقہ 450,000 مربع میل یا 1,165,000 مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں سے یہ پہاڑی علاقہ ( قراقرم، ہمالیہ، اور ہندوکش) میں 175,000 مربع میل یا 453,000 مربع کلومیٹر بہتا ہے اور باقی پاکستان کے میدانوں میں بہتا ہے۔ چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک زیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے سیون ہیڈن 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر سنگی کباب یا سینگے کباب کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی
سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر سکردو
شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے
گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔اونچے پہاڑیوں
سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت
بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہے تربیلا ڈیم۔ تھوڑا سا
آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس آٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے۔ دریائے
سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ
مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔کالا
باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے
والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا
دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے
جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے
سندھ میں سما جاتے ہیں۔
گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔
سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی
پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر
میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔اس
دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان یا کا نام انڈیا
پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔
اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا
کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے
ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک
قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا
کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند
خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔
منبہ کی تلاش-یہ
دریا جو کیلاش کے قریب سے نکلتا ہے اور اٹھارہ سو میل کا سفر طہ کرکے بحیرہ عرب میں
گرتا ہے۔ ہندووَں اور بدھووَں کا کوہ کیلاش کوہ میرو برہما کا نگر ہے اور جن دیوتاؤں
اگنی، وایو اور اندر کو وہ پوجتے ہیں ان کا اصل مسکن یہیں ہے۔ اس علاقہ کو جھیلوں
کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہاں دو بڑی جھیلیں واقع ہیں۔ جن میں مان سرود
کو مقدس اور راکش تال کو منحوس خیال کیا جاتا ہے۔تبتیوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل سے
دریائے سندھ اور تین اور دریا برہما پتر، کرنالی (گنگا کا ایک بڑ معاون دریا ) اور
ستلج بھی نکلتے ہیں۔ ہندووَں اور بدھوں کا بھی یہی کہنا تھا اور ان کی مذہبی تصویروں
میں اس جھیل میں ان چاروں دریاؤں کو چار جانوروں کے منہ سے نکلتے دیکھایا گیا تھا۔
مشرق میں سے برہما پتر گھوڑے کے منہ سے، کرنالی کو جنوب میں مور کے منہ سے، ستلج
مغربی جانب سے ہاتھی کے منہ سے اور دریائے سندھ شمال میں ببر شیر یا سنگی کباب سے
نکل رہا ہے۔ اس لیے یہ دریا تبت میں سنگی کباب یعنی شیر دریا کہلاتا ہے۔یورپی
جغرافیہ دان تبتوں کی اس روایت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ جھیل مانسرور چار
بڑے دریاؤں کا منبع ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دریائے سندھ کا منبع کیلاش کے پہاڑی
علاقے میں ہے۔ چنانچہ جب 1858ء میں جب برصغیر کے شمال مغرب کے علاقے میں ریلوے لائین
تیار کی جارہی تھی تو اس کے لیے جو نقشہ تیار ہوا اس میں دریائے سندھ کو کوہ کیلاش
سے نکلتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔ بہرحال انیسویں صدی کی ابتدا تک اس کا منبع مخفی
رہا اور سطح مرتفع کے پیچیدہ اور وسیع علاقے کی وادیوں اور چوٹیوں کی نشادہی محض
اندازے سے ہوتی رہی۔
انیسویں صدی کے آخر تک کئی یورپین نے
جھیل مانسرور کا سفر کیا اور دریائے سندھ کے منبع کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی
ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تبتی احکام کسی یورپین کو اس جھیل کا سروے نہیں
کرنے دیتے تھے۔ پھر بھی بہت سے یورپین بھیس بدل کر وہاں پہنچ گئے اور انیسویں صدی
کے اختتام تک ستلج (ہاتھی دریا) اور کرنالی (مور دریا) کے منبع تلاش کر لیے گئے۔ یہ
پندرہ میل دور جنوب مغرب کی طرف شیطانی یا راکش جھیل سے نکلتے ہیں جو ایک جھوٹی سی
ندی کے ذریعہ مانسرور جھیل سے منسلک ہے۔ مگر گھوڑا دریا اور شیر ببر دریا ( برہما
پتر اور سندھ ) کے منبع کا اب تک پتہ نہیں چلا تھا اور انہیں ان کے درست منبع کا
ابھی تک پتہ نہیں تھا۔
یہ اعزاز ایک سویڈش سیاح سیون ہیڈن کو
ملا۔ وہ اس سے پہلے مانسرور سے ساٹھ میل مشرق کی جانب برہما پتر کی ابتدائی ندی دریافت
کرچکا تھا۔ وہ سنگی کباب یعنی شیر دریا کے دہانے کی تلاش میں 1907ء میں دوبارہ
مانسرور جھیل پہنچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دریائے سندھ کا منبع جھیل کے کہیں
شمال کی جانب ہے اور برہما پتر رکس تال سے نکلتا ہے۔ اس لیے ہیڈن شمال مغرب کی طرف
جانا چاہتا تھا۔ اسے۔ تبتی افسر نے بہت اصرار پر اجازت دی۔بالآخر ہیڈن چند چراوہوں
کی مدد سنگی کباب پہنچا۔ وہ پہلا سفید آدمی تھا جس نے سندھ اور برہم بترا کے منبع
کے مقام تک پہنچ سکا۔ لیکن حقیقت یہ ہے اس دریا کے کئی منہ ہیں اور اس میں سے کس
کو دریائے سندھ کا منبع مانا جائے۔ لیکن چونکہ روایات سنگی کباب کے حق میں اس لیے
اسے دریائے سندھ کا منبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اگرچہ سنگی کباب جھیل مانسرور سے صرف تیس
میل دور ہے۔ لیکن تبتی احکام کو یقین تھا کہ دریائے سندھ جھیل مانسرور سے نکلتا
ہے۔ کیوں کہ ایک بڑا طاقتور دریا کو اسی مقدس جھیل سے نکلنا چاہیے۔ اگرچہ یہ
چارووں دریا اس جھیل سے نہیں نکلتے ہیں مگر اس جھیل سے زیادہ فاصلے پر نہیں نکلتے
ہیں۔ اس طرح یہ روایات بہت زیادہ غلط بھی نہیں تھیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ
دریا ایک ہی مقام سے پھوٹ کر مختلف سمتوں میں رخ کرتے ہیں۔میں دریائے سندھ وہاں سے
اپنے ساتھ مختلف ندی نالوں کا پانی لیتا ہوا آگے بڑھتا ہے جہاں بھورے ٹیلے اور برف
سے ڈھکے سفید پہاڑ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور درمیان میں دریائے سندھ نیلے اور
اٹھلے پھیلاوَ کے ساتھ بتا ہے۔ اس کا ایک دھارا جو جنوبی سرچشمہ ہے اور کیلاش کے
نشیب کے کنارے سے ہوتی ہوئی گارٹنگ اور گیاتیما کے سامنے سے گزرتی ہے اور دوسری یعنی
شمالی شاخ جو کیلاش سلسلے کے شمال میں سے نکلتی ہے اور بہتی ہوئی جنوبی شاخ کے
ساتھ مل کر اور گلجیٹ کے قریب سے گزرتی ہے۔ یہاں دریائے سندھ کا پہلا معاون دریا
گارتنگ ملتا ہے۔ گارتنگ دریا سندھ کے برابر ہی ہے اور ایک کھلی وادی جگہ بہتا ہوا
آتا ہے۔ جس کے کنارے مغربی تبت کے صوبہ گارتنگ کا دالحکومت گارتنگ واقع ہے۔ جب کہ
دریائے سندھ اپنے منبع کی وجہ سے پہاڑوں میں چکر لگانے پر مجبور ہے۔ یہاں دونوں دریا
مل یا گارتنگ اور سندھ میں ارتصال کے بعد دریائے سندھ دس ہزار فٹ کی بلندی پر بہتا
ہے اور سفر کرتا ہوا رواں دواں ہوجاتا ہے۔ یہاں اس پس منظر میں پہاڑوں کی سفید چوٹیاں
سر نکالے کھڑی ہوئی ہیں۔ یہاں دریا سندھ کا رخ آہستہ آہستہ شمال مغرب کی طرف سے
لداخ کا رخ کرتا ہے۔ یہاں تاشی گانگ جو تبت کا آخری گاءوں ہے۔ یہاں پہلے پتھریلے
راستہ پر دعائیہ جھنڈے اور مقبرے بنے ہوئے۔ بے تراشیدہ پتھر اور لکڑی کے شہتیروں
کے بنے مکانات دریائے سندھ کے ساتھ بنی ایک خانقاہ کے پس منظر میں دب جاتا ہے اور
دیکھنے والوں صرف یہ خانقاہ ہی نظر آتی ہے۔
اس کی راہ میں ایسے گاؤں کم ہیں جو
سارا سال آباد رہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے پانچ میل سے پچیس میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔
یہ غیر تراشہ پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنے ہوئے یہ دیہات عموماً دریائے سندھ کی
معاون ندیوں کے کنارے زمین کے چھوٹے چھوٹے قابل کاشت ٹکروں پر آباد ہیں۔ سنگی کباب
(دریائے سندھ) چل کر سطح مرتفع تبت کے مغرب میں واقع بلند و بالا وادیوں میں سفر
کرتا ہوا شمال مغرب پھر مغرب کا رخ کرتا ہے اور اس نقشے میں دیکھیں تو اس کی شکل
وہاں درانتی کا طرح یا ہلال کی شکل بناتا ہے۔ لہذا اس دریا ابتدائی سفر مغربی تبت
میں ہوتا ہے۔ دریائے سندھ مغربی تبت کو چراہگاہیں مہیا کرتا ہوا کشمیر کا رخ کرتا
ہے۔یہ میدانوں سے شروع ہوکر چٹانوں سے گذر کر دریا سندھ کے کنارے کنارے اوپر کی
سمت جارہا ہوتا ہے۔ جس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑوں کی دیواریں اور دوسری سمت میں
دریائے سندھ کی طرف جاتی ہوئی عمودی کھائیاں اور پھسلتے ہوئے برف کے تودے اور مٹی
کی چٹانیں یعنی مسقل خطرہ منڈلا رہا ہوتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں