برّصغیر پاک و ہند میں ابتدائے اسلام
سے صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کی آ مد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا انہی سلسلوں میں
ایک نام حضرت حسن المعروف حاجی حافظ سخی سلطان منگھوپیر بھی ہیں یہاں ان کا مزار
ہے جہاں قدرتی پانی کے کئی ٹھنڈے اور گرم چشمے ہیں۔ ان چشموں کے پانی میں قدرتی
اجزا شامل ہیں جو جلدی امراض کے مریضوں کے شفایاب ہوجاتے ہیں۔ مزار سے ملحقہ ایک
تالاب میں درجنوں مگرمچھ موجود ہیں جن کو بابا کے مگرمچھ کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ
مگرمچھ کئی سو سال سے موجود ہیں۔ مزار کے احاطے میں درجنوں دکانیں بھی موجود ہیں۔
، آپ کا سلسلہ نسب امیرالمومنین حضرت علیؓ سے ملتا ہے
۔ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے
حسنی سادات ہیں۔ ۔ یہ زمانہ تاتاریوں کے فتنہ کا تھا، آپ بھی ان کے خلاف جہاد میں
شریک ہوئے۔ 13 ویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت منگھو پیر
عراق سے یہاں تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور صوبہء سندھ سے سفر کرتے ہوئے
یہاں (موجودہ کراچی) میں سکونت اختیار کی تھی۔ان کے ماننے والے کہتے ہیں کہ یہاں
حاضری دینے سے ان کی مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ مزار کے اطراف میں کچھ ایسی قبریں
بھی ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ یہ ان بہادروں کی ہیں جو منگھوپیر کے ساتھیوں
میں سے تھے۔کبھی یہ قبریں شاندار رہی ہوں گی مگر آج کل ان کی حالت خاصی خراب ہے
اس وقت کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے
چھوٹے گاؤں آباد تھے اور منگھو جس جگہ عبادت کرنے کے لیے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک
پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔جلد ہی ماہی گیروں کے دیہاتوں
کے لوگوں نے ان کی پیروی شروع کر دی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی
جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا۔ ایک روایت کہ یہ ڈاکوتھے بابا فرید کے ہاتھ پر
اسلام قبول کیا اور جرائم سے تائب ہو گئے۔ منگھو وسا نے پھر بابا فرید کی رہنمائی
میں تصوف کی مشق شروع کر دی اور انہیں بعد میں پیر کا خطاب دیا گیا جس سے وہ منگھو
پیر کہلانے لگے۔ آپ کے مسکن کے نزدیک گندھک والے گرم پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا
ہے جہاں آج بھی زائرین جلد کے امراض کے علاج کی امید میں غسل کرنے جاتے ہیں اور
شفا پاتے ہیں
۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت
مند سلطان سخی منگھوپیر کا عرس مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساون کے مہینے سے پہلے میلہ
بھی منعقد کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جب آ حج کے لیے تشریف لے گئے اسی دوران مدینہ
منورہ میں زیارت رسول اللہؐ نصیب ہوئی۔ بارگاہ رسالت سے آپ کو اجودھن میں مقیم
حضرت فریدالدین گنج شکرؒ سے ملنے کی ہدایت ہوئی۔ چنانچہ منگھو بابا (منگھوپیر)
حضرت فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سلسلہ عبادت سے
منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد خلافت سے نوازے گئے۔
آپ
حکم مرشد موجودہ مقام حسینی منگھوپیر تشریف لے گئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول
ہوگئے۔ یہ جگہ (منگھوپیر) اس وقت غیرآباد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں
ہندوؤں کا یہ متبرک مقام تھا۔ استبداد زمانہ سے یہ جگہ اکثر آباد ویران ہوتی رہی۔
حضرت منگھوباباؒ (منگھوپیر) کی شہرت اطراف میں پھیلی تو یہ جگہ مرجۂ دوراں ہوگئی۔
کہا جاتا ہے اسی جگہ آپؒ کے ہم عصر چند بزرگان دین حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ ملتانی،
حضرت لال شہباز قلندرؒ اور جلال الدین بخاریؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت منگھوپیرؒ
مزار کے قریب تالاب ہے جو مگرمچھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کرامت کے مظہر ہیں۔ ان مگرمچھوں کے سردار بڑے مگرمچھ کا نام مور ہے
جب ایک مور مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ تمام ایک اجتماعی نظام سے
منسلک نظر آتے ہیں۔ ایسا نظم و نسق دیکھ کر ششدر ہو جاتے ہیں۔
منگھوپیرؒ کا مقام اور یہاں کے مگرمچھ
غیر مسلم صاحبان، علم و فن کی توجہ کے بھی مراکز رہے ہیں۔ مختلف یورپی ماہرین نے یہاں
کے بارے میں لکھا ہے کہ: 1838 میں جیکب برلاکس نے اس جگہ کا جغرافیائی مطالعہ کیا،
انیسویں صدی میں ایک افلیوک نامی سیاح یہاں کے مگرمچھوں کی طلسماتی طرز زندگی کا
ذکر سن کر خود آیا۔ تحقیق کی اور اپنا مشاہدہ اپنی کتاب میں رقم کیا۔ منگھوپیرؒ کی
درگاہ مقام اجابت دعا ہے عقیدت مند اور حاجت مندوں کا یہاں پر تانتا بندھا رہتا ہے
۔8 ذی الحجہ کو آپ کا سالانہ عرس منایا جاتا
ہے آپ کے خلفا میں حضرت خاکی شاہ بخاری کا نام ملتا ہے جو حضرت کے احاطے میں مدفون
ہیں۔ گرم پانی کا چشمہ بھی موجود ہے۔ بے شمار قدرتی چشمے اولیا کرام اور بزرگان دین
کے فیوض کا نتیجہ ہوتے ہیں جو اپنی خاصیت کی وجہ سے سالہا سال سے زائرین کی توجہ
حاصل کر رہے ہیں۔ کراچی مرکز سے 28 میل اور 45 منٹ کی مسافت پر واقع منگھوپیر کا
مزار اور گرم پانی کا چشمہ گزشتہ کئی سو برسوں سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز بنا
ہوا ہے۔کہا جاتا ہے یہاں تین یا چار سے زائد چشمے ہیں۔
کہا
جاتا ہے یہاں ایسے مریض آتے ہیں جن کو مختلف چھوٹے بڑے ڈاکٹرز کے علاج سے فائدہ نہ
ہوا ہو۔ جب وہ اس چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں تو انھیں شفا ملتی ہے۔ چونکہ
پہاڑوں میں قدرتی معدنیات وسیع تعداد میں موجود ہیں تو پانی معدنیات سے مل کر اپنے
لیے عام پانی سے ہٹ کر منفرد افادیت حاصل کرسکتا ہے۔ پتھروں سے وہ پانی اوپر آنا
شروع ہو جاتا ہے وہ اوپر آتے آتے بہنا شروع کردیتا ہے۔ جس کو ہم چشمہ کہتے ہیں۔ ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑوں میں کتنا پانی جمع ہے جو تسلسل سے جاری ہونے کے
باوجود ختم نہیں ہو رہا؟ منگھوپیر مزار کے قریب ’’جزام‘‘ کا اسپتال تقریباً 100
سال سے موجود ہے۔ کہتے ہیں اسپتال میں داخل عقیدت مند اس گرم پانی کو استعمال کرتے
ہیں