بحر مرداردنیا کے لئے ایک عبرت ناک نام جس کا ذکر اکثر جگہ بے شمار حوالوں اور قِصوں کے ساتھ موجود ہے۔ بحر مْردار اْردن اور اسرائیل کے درمیان واقع ہے اس کے مشرق میں اْردن اور مغرب میں اسرائیلی شہر الخلیل ہے جہاں کہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پوشیدہ ہے۔ اْردن خود تو سطح سمندر سے 3 سو میٹر بلند ہے لیکن بحر مْردار سطح سمندر سے 420 میٹر نیچے گہرائی میں واقع ہے۔ بحر مْردار کو ایک سمندری جھیل کہا جا سکتا ہے ، اس کا اور کسی سمندر سے رابطہ نہیں ہے یہ اتنی گہرائی میں ہے کہ اس کا اپنا پانی باہر نہیں نکل سکتا یعنی یہ 67 کلو میٹر لمبا اور زیادہ سے زیادہ 18 کلومیٹر چوڑا ایسا کنواں ہے جس کی اپنی گہرائی بھی 377 میٹر تک ہے۔بحر مْردار اسے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی جاندار چیز نہ موجود ہے اور نہ زندہ رہ سکتی ہے کیونکہ اس کا پانی عام سمندر سے 23 سے 25 فیصد تک زیادہ نمکین ہے۔ 35 سو سال سے منجمند رہنے والے اس پانی میں کیلشیم ،سوڈیم ، مینگشیم کلورائیڈ کے علاوہ بہت سے نمکیات شامل ہو چکے ہیں۔ جن میں کئی بیماریوں کی شفا موجود ہے۔ یہ نمکیات اتنے زیادہ ہیں جنہوں نے اس پانی کو اس حد تک گاڑھا کر دیا ہے کہ نہ کوئی اس میں ڈوب سکتا ہے نہ اس کے اندر گہرائی میں غوطہ لگا سکتا ہے اس پر بس انسان اْلٹا اکڑوں ہو کر تیر یا لیٹ سکتا ہے۔ ب
حر مردار پر کوئی کشتی بھی آ جائے تو اْلٹ جاتی ہے۔انبیاء کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ’’ اْڑ ‘‘ میں رہتے تھے جب اْنہوں نے اپنی قوم کو بْتوں کی پرستش سے منع کیا تو قوم میں سے صرف اْن کے بھتیجے حضرت لوط اْن پر ایمان لائے لوگوں کے بْت پرستی نہ چھوڑنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خاندان کے ہمراہ ’’ اْڑ ‘‘سے ہجرت کی تو حضرت لوط علیہ السلام بھی ان کے ہمراہ تھے ؛ یہ بے سروسامان قافلہ پیدل مْسافتیں طے کر کے ترکی کے شہر ’’ شانلی عْرفہ ‘‘ میں ٹھہرا جہاں نمرود کی بادشاہی تھی نمرود نے بْتوں کے مقابلے میں اللہ کی عبادت کرنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کی ناکام کوشش کی اْس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اہل قافلہ کے ہمراہ وہاں سے روانہ ہو کر سدوم کے مقام پر آئے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی بیوی کے ہمراہ ’’ سدوم ‘‘ میں سکونت اختیار کر لی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام آگے فلسطین کی طرف چلے گئے جہاں بعد میں بیت المقدس بنا جسے یہودی حضرت سلیمان علیہ السلام کا یروشلم کہتے ہیں۔
سدوم کے باسی ہم جنس پرستی اور ڈاکے مارنے میں مْبتلا تھے جنہیں ہدایت کے لیے حضرت لوط علیہ السلام تبلیغ کرتے رہتے کہ ان بْرائیوں سے باز آجائیں لیکن اْنہوں نے اپنی روش نہ چھوڑی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ہمراہ فلسطین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور اْنہیں بڑھاپے میں حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی ان کی نسل سے پیدا ہونے کی بشارت دی اور بتایا کہ وہ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی کو غرق کرنے آئے ہیں وہ قوم بْرائیوں میں مْبتلا ہے اور انبیاء کی تکذیب کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام سے اْنسیت اور پیار کی بدولت اکثر وادی سدوم میں جاتے رہتے تھے تب بحر مردار نہیں تھا فلسطین اور سدوم کا درمیانی فاصلہ کم تھا اْنہیں فرشتوں کی بات پر تشویش ہوئی تو فرشتوں نے بتایا کہ لوط علیہ السلام خدا کے اس عذاب سے محفوظ رھیں گے لیکن ان کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۔ قرآن پاک کی دو سورتوں میں خدا نے بستی کو بارش اور پتھروں سے غرق کرنے کے متعلق بتایا ہے وہ اتنی شدید بارش تھی کہ بستی اْلٹائے جانے سے زمین کا پانی اوپر آنے اور عذاب کی بارش سے بحر مردار وجود میں آیا۔جدید سائنس سات سال قبل ان پانچوں بستیوں سمیت سدوم کے غرق شدہ شہر کو دریافت کر چکی ہے کہ وہ بحر مْردار کے اندر ہے شاید اللہ کے عذاب کی شدت سے بحر مْردار آج بھی سطح سمندر سے 420 میٹر نیچے ہے جسے اللہ کی قدرت سے آنے والی صدیوں میں سائنس مزید دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تین سو پچاس سال قبل خدا کے عذاب سے ؛ سدوم ، عمورہ اور زغر نامی پانچ بستیاں غرق ہو گئی تھیں جن کی دریافت سات سال قبل 2015ء میں امریکی تحقیق کاروں نے دس سال سے تلاش کے بعد کی ہے ان دریافت کاروں کی سربراہی امریکی پروفیسر سٹیون کولن کر رہے تھے۔ اْنہوں نے سیٹلائٹ کی مدد سے اسے تلاش کیا اور سیارچوں کی مدد سے اس کی گہرائی میں دیکھا تو چھ پوائنٹ کی نشاندہی ہوئی جن میں پْرانے درخت اور اْن کی شاخیں تک موجود ہیں جو سمندری نمکیات کے باعث ساڑھے تین ہزار سال بعد بھی محفوظ ہیں۔
امریکی ماہرین ارضیات وآثار قدیمہ نے 10 سال کی تحقیق و جستجو کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اردن میں قوم لوط کےتباہ ہونے والے شہر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ قوم لوط کے تباہ شہر"سدوم" کے کھنڈرات "تل الحمام" کے مقام پر پائے گئے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی مشن کے سربراہ پروفیسر Steven Collins کا کہنا ہےکہ ان کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہوگئی تھی
محققین کا کہنا ہے کہ سدوم شہر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں حصہ ہے۔ شہر کے گرد مِٹی کی اینٹوں کی 10 میٹر اونچی اور 5.2 میٹر چوٹی دیوار بھی دریافت ہوئی ہے۔ شہرکے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت بھی لوگ روز مرہ کے معمولات میں مشغول تھے مگر زندگی اچانک ہی ختم ہوگئی تھی۔ رہائش کے لیے بنائی گئے مکانات کے لیے مٹی کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں
قوم لوط کے مسکن شہر سدوم اور عمورہ بحر مردار کے ساحل پر واقع تھے اور قریش مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ان آبادیوں کی ہلاکت کا زمانہ جدید تحقیق کے مطابق 2061 ق م ہے۔ لوط (علیہ السلام) کو بھی حق تعالیٰ نے نبوت عطا فرما کر اردن اور بیت المقدس کے درمیان مقام سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اور بالع یا صوغر تھے ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہیں قیام فرمایا۔ زمین سرسبز و شاداب تھی ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی۔ (یہ تاریخی تفصیلات بحر محیط، مظہری، ابن کثیر، المنار وغیرہ میں مذکور ہیں)۔ بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی زمین سطح سمندر سے بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں ایک عجیب قسم کا پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے اس کو بحر میت بولتے ہیں۔ یہی مقام سدوم کا بتلایا جاتا ہے الٹائی ہوئی بستیوں سے مراد سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ہیں۔ سیدنا جبریل نے بحکم الٰہی ان بستیوں کو اپنے پر کے اوپر اٹھایا اور بلندیوں پر لے جا کر انہیں اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا۔ پھر بھی اس قوم پر اللہ کا غضب کم نہ ہوا تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ سیدنا لوط کا مرکز تبلیغ سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ الٹائی ہوئی بستیاں غالباً آج کل بحیرہ مردار میں دفن ہوچکی ہیں۔
سیدنا لوط (علیہ السلام) کی تبلیغ کاعلاقہ بحر میت یا بحر لوط کے اردگرد سدوم کا شہر اور اردگرد عمورہ کی بستیاں تھا آپ کی قوم شرک اور دوسری بد اخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد بھی تھی۔ لوط کے سمجھانے پر بھی یہ لوگ اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے بلکہ الٹا سیدنا لوط (علیہ السلام) اور معدودے چند مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ آخر فرشتے اس قوم پر قہر الٰہی ڈھانے کے لیے نازل ہوئے سیدنا جبریل نے ان کی بستیوں کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر اور اٹھا کر نیچے پٹخ دیا۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ چنانچہ یہ خطہ زمین سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آ گیا۔ اسی پانی کے ذخیرہ کو بحر مردار، بحر میت یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے
سدوم اور عمورہ کا بائبلی بیان پیدایش کی کتاب کے 18-19ابواب میں درج ہے۔ پیدایش 18باب خداوند اور دو فرشتوں کے ابرہام کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے آ نے کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ خُداوند نے ابرہام کو آگاہ کیا کہ "سدُوم اور عمورہ کا شور بڑھ گیا اور اُن کا جُرم نہایت سنگین ہو گیا ہے" ( پیدایش 18باب 20آیت) ۔ 22-33 آیات ابر ہام کی طرف سے خداوند سے سدوم اور عمورہ پر رحم کی التجا کو بیان کرتی ہیں کیونکہ ابرہام کا بھتیجا لوط اور اُس کا گھرانہ سدوم میں رہتا تھا۔
جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت مُسوْس یعنی فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالی شان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانون کے ساتھ بد فعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکر ورنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں،آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔
چنانچہ حضرت لوط علیہ
السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے،پھر
حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان
کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھران پر اس
زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس
وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا
نام ”واعلہ“تھا،جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس
نے پیچھے مُڑ کر دیکھ لیا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی
ہو گئی، تو عذابِ الہٰی کا ایک پتھر اسے بھی پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی۔بدکار قوم پر
برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔