ہفتہ، 22 اپریل، 2023

معجزہ شقّ القمر

  

لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،

حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم  

شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا-پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔

 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ  وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ 

ترجمہ:

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ 

قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ایک منفرد معجزہ طلب کرتے ہوا کہا کہ ہر نبی کسی نا کسی معجزے کا حامل تھا آپ اگر نبوّت کے دعویدار ہیں سارے نبیوں سے مختلف کوئ آسمانی معجزہ دکھائیے تاکہ ہم آپ کے خدا اور پر اور آپ کی نبوّت پر ایمان لے آئین کی طلب کی کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوجائیں تاکہ اس فعل کی اساس پر اسلام لے آئیں  گے

معجزہ شقّ القمر

رسول اللہؐ کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں،۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ رات چودھویں تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا

۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! ان مشرکوں کا سوال پورا فرما دے۔اسی وقت حضرت جبرئیل امیں نازل ہوئے اور آپ صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم سے فرمایا کہ اللہ تعلیٰ فر رہا ہے کہ اس وقت میں نے کائنات آپ کی دسترس میں دے دی ہے-آپ جو چاہیں وہ کر انجام دے سکتے ہیں -کفّار نے کہا کہ یہ آسمان پر جو چاند ہے اس کو دوٹکڑے کردیں  -آپؐ نے انگلی سے اشارہ کیا تو چاند اسی  وقت  دو ٹکڑے ہوگیا-اب ان کو الگ الگ پہاڑ پر بھیج دیجئے اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہوجس طرح کافروں نے کہا تھا۔ آنحضرتؐ نے ویسے ہی کیا پھر کفّار بولے اب چاند کو ملا دیجئے تب چاند آپ کی انگشت مبارکے اشارے سے مل گیا اور اپنی جگہ واپس جا کر جگمگانے لگا - تب حضور پاک نے فرمایا اے ابوسلمہ اور ارقم اس پر گواہ رہنا۔ 

لیکن کفآر کے دل ٹیڑھے تھے وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا  اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی  اور یہ معجزہ  14 ذی الحجہ  ہجرت سے 5 سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔مشرکین مکہ جمع ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سے فرمایا کہ اگر آپ سچے ہیں تو  ہمارے لئے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دکھائیں 

(قرآن مجید میں سورة قمر کی ابتدائی آیات میں اس جانب اشارہ ہے)

جنوبی ہندوستان کے علاقہ (مالابار) کیرالہ اسٹیٹ پر اس وقت ایک ہندو راجہ حکمران تھا۔ مہاراجہ رات کے وقت میں اپنے محل کی چھت پر اپنے خاند ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے چاند کو دو ٹکڑوں میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ اس نے اپنے خاند ان کے افراد سے اس کی تصدیق چاہی ، جو محل کی چھت پر اس وقت موجو د تھے۔ سب نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔ تب اس نے دوسرے دن دربار طلب کیا جس میں اہل علم ، دانشور ، پنڈت ، نجومی، جوتشی شریک تھے۔ ان سب سے اس واقعہ کی تحقیق و تصدیق کے لئے کہا سب نے تحقیق کے بعد اس واقعہ کی تصدیق کی اور ان سب نے گواہی دی کہ یہ صرف نبی ﷺ کا کارنامہ ہے ہماری کتابوں کے مطابق سرزمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اس کے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے ہمارے خیال میں سر زمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گیا ہے۔ شَقّ القمر کا معجزہ ان ہی کے اشارہ پر ہوا ہے۔

مہاراجہ بہت متاثرہوا۔ چنانچہ اس نے اس کی مزید تصدیق کے لئے اپنے بیٹے کو عر ب بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح مہاراجہ نے اپنے جواں سال (بیٹے) شہزادے کو زاد راہ کے خور دو نوش کے اہتمام کے ساتھ ڈاکوؤں و لٹیروں کے تحفظ کے لئے یک سو مسلح افراد کے ہمراہ عرب (مکہ و مدینہ )کی طرف روانہ کیا اور ساتھ میں بہت سے قیمتی تحائف دے کر ہدایت کہ کہ اگر شَقّ القمر کی تصدیق ہو جائے تو میری طرف سے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا اور میر اسلام کہہ دینا ۔ہندو نوجوان شہزادے کو اہل عرب نے شَقّ القمر کی تصدیق کی ۔ 

اب شہزادے کو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشتیاق ہوا۔ جب شہزادہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور ﷺْ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اور آنے کا مقصد پوچھا شہزادے نے اپنی آمد کی پوری تفصیل سنا دی ۔ شہزادے نے مہاراجہ کے بھیجے ہوئے تحائف آپ ﷺ کو پیش کئے اور مہاراجہ کا سلام پہنچا دیا۔ حضور ﷺ نے شکریہ ادا کیا اور مہاراجہ کے لئے دعائے خیر کے کلمات ادا کئے روایت یہ ہے کہ اسی دن مہاراجہ دل ہی دل میں حضور ﷺ پر ایمان لے آیا تھا اور بت پرستی ترک کر دی تھی۔

"آپولو 10 نے چاند کی قریب سے فوٹو لی جس میں چاند پر ایک بڑا نشان نظر آیا یہ تصویر 1969ء میں لی گئی پھر آپولو 11 کی مدد سے چاند کی سطح پر اتر کر اس نشان کا مشاہدہ کیا گیا ،یہ نشان 300 کلومیڑ تک لمبا ہے


جمعہ، 21 اپریل، 2023

دن اور رات کی تخلیق- قران کے فرمان کے مطابق

 وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ اس میں تم اپنا کام کرو)۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں۔-دن اور رات کی تخلیق سائنس کی رو سے-دیکھتے ہیں قران اور سائنس دونوں کی رائے

زمین کی کروی (گول نہا Spherical) ساخت

ابتدائی زمانوں کے لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ زمین چپٹی (یعنی بالکل ایک پلیٹ کی طرح ہموار) ہے یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک انسان صرف اسی وجہ سے دور دراز کا سفر کرنے سے خوفزدہ رہا کہ کہیں وہ زمین کے کناروں سے گرنہ پڑے ! سر فرانسس ڈریک (Sir Frances Drek) وہ پہلا آدمی تھا جس نے 1597ء میں زمین کے گرد (سمند ر کے راستے) کشتی کے ذریعے چکر لگایا اور عملاً یہ ثابت کیا کہ زمین گول (کروی) ہے۔

یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا ذرج ذیل قرآنی آیت پر غور فرمایے جو دن اور رات کے آنے اور جانے سے متعلق ہے:

اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْ لِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَا رِ وَ یُوْ لِجُ النَّھَا رَ فِی الَّیْل

ترجمہ:کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعا لیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔

یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات کے بتدریج دن میں ڈھلنے اور دن کے بتدریج رات میں ڈھلنے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب زمین کی ساخت کسی گولے جیسی یعنی کر وی ہو۔ اگر زمین چیٹی ہوتی تو دن کی رات میں یا رات کی دن میں تبدیلی اچانک ہوتی۔ ذیل میں ایک اور آیت مبارک ملا حظہ ہو۔ اس میں بھی زمین کی کروی (spherical ) ساخت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خَلَقَ السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضَ بِا لْحَقَّ یُکَوِّ رُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَا رِ وَ یُکَوِّ رُ النَّھَا رَ عَلَی الَّیْلِ

ترجمہ:۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پررات کواور رات پردن کولپیٹتاہے۔

یہاں استعمال کیے گئے عربی لفظ کور کا مطلب ہے کسی ایک چیز کو دوسری پر منطبق کرنا یا (ایک چیز کو دوسری چیز پر) چکر دے کر (کوائل کی طرح) باندھنا۔ دن اور رات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا یا ایک دوسرے پر چکر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب زمین کی ساخت کر وی ہو۔

زمین کسی گیند کی طرح بالکل ہی گول نہیں بلکہ ارضی کر وی (Geo spherical) ہے، یعنی قطبین(Poles ) پر سے تھوڑی سے چپٹی (Flate) ہوتی ہے۔ درج ذیل آیت مبارک میں زمین کی ساخت کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔

وَلْاَرْضَ بَعْدَ ذٰٰٰٰلِکَ دَحٰھَا 

ترجمہ:۔پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے کی طرح بنایا۔

یہاں عربی عبارت دَ حٰھَا استعمال ہوئی ہے۔ جس کا مطلب ہے شتر مرغ کا انڈہ۔ شتر مرغ کے انڈے کی شکل زمین کی ارضی کروی ساخت ہی سے مشابہت رکھتی ہے۔ پس یہ ثابت ہو ا کہ قرآن پاک میں زمین کی ساخت بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کی گئی ہے، حالانکہ نزول قرآن پاک کے وقت عام تصور یہی تھا کہ زمین چپٹی یعنی پلیٹ کی طر ح ہموار ہے۔

. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور (وہی ہے جس نے) سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، ہر ایک ایک مقررہ مدت تک گردش کر رہا ہے اور یہ کہ اللہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔

   یقیناً تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کائنات کے بالائی اور زیریں طبقے) کو چھ دنوں میں (یعنی زمانہ یا مرحلہ، مرحلہ وار) پیدا کیا۔ اس کے بعد اس نے عرش پر اپنی حاکمیت قائم کی (اپنی عظمت کو اس کے اعلیٰ اختیارات کے ساتھ مناسب بناتے ہوئے، یعنی کائنات کی تخلیق کے بعد اس نے تمام جہانوں اور آسمانی اجسام میں اپنے قانون اور نظام کو نافذ کرکے اپنا حکم اور کنٹرول قائم کیا)۔

  وہ وہی ہے جو تمام کارروائیوں کے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے (یعنی ہر چیز کو نظام کے تحت کام کرتا ہے)۔ اس کی اجازت کے بغیر (اس کے پاس) سفارش کرنے والا کوئی نہیں۔ اللہ وہ ہے جو تمہارا رب ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو. تو کیا تم (اس کی ہدایت اور ہدایت کو قبول کرنے کے بارے میں) نہیں سوچتے؟

وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ ﴿۳۹﴾

  اور ہم نے چاند کی (حرکت اور گردش کے) مراحل بھی مقرر کر دیے ہیں یہاں تک کہ کھجور کے درخت کی ایک پرانی سوکھی شاخ کی شکل میں (اہلِ زمین کے لیے اس کی ظاہری شکل ختم ہو جاتی ہے)۔

وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ اس میں تم اپنا کام کرو)۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں۔

اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے اوڑھنا اور نیند کو آرام کا اور دن  اٹھنے کا وقت بنایا۔

  اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا (جیسا کہ تم دیکھتے ہو)۔ پھر اس نے عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا (اس کی شان کے مطابق پوری کائنات کا احاطہ کیا) اور سورج اور چاند کو ایک نظام کے ساتھ باندھ دیا، ہر ایک اپنی مقررہ مدت کے دوران (اپنی گردش مکمل کرنے کے لیے اپنے اپنے مدار میں) حرکت کرتا ہے۔ وہ اکیلا ہی (پوری کائنات کے) کل نظام کے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے اور (تمام) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے تاکہ آپ کو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا پختہ یقین پیدا ہو۔

(الرَّعْد، 13:2)

  اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ (اپنے مدار میں) گردش کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہل نہ جائے۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ شاہراہیں بنائیں تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے) راستے تلاش کریں۔

(الْأَنْبِيَآء، 21 : 31)

   اور (اے انسان) تو پہاڑوں کو دیکھے گا اور سمجھے گا کہ وہ مضبوط ہیں، حالانکہ وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کا کام ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت اور تدبیر کے ساتھ) مضبوط اور مستحکم بنایا ہے۔ بے شک وہ تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے۔

جمعرات، 20 اپریل، 2023

اردو ادب کا بلند نام جوش ملیح آبادی

 اردو ادب جوش ملیح آبادی کے نام کے بغیر نامکمّل ہے-قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں گراں قدر کردار ادا کیا جسے بالآخر 1973 کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ 
برصغیر کے ادبا بلکہ ترقی پسند تحریک کے نمائندے اور نقیب صدائے انقلاب کا اگر تذکرہ کیا جائے، تو جوش ملیح آبادی کا شمار صف اول میں ہو گا۔ انہوں نے آزادی ہند کی خاطر زبان و قلم سے وہ انقلاب برپا کر دیا تھا کہ غاصب انگریز کی نیندیں حرام ہو گئیں اور ان کے پرجوش و انقلابی کلام نے وطن کے متوالوں میں اس طرح روح احرار جگادی کہ موالیان ہند نے غاضب حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ 

جوشؔ کا اصل نام شبیر حسن خاں تھا اور ابتدائی تخلص شبیر جو بعد میں جوشؔ ہوگیا، ان کے والد بشیر احمد خان نے ان کا نام شبیر احمد خان رکھا تھا لیکن انہوں نے 1907ء میں اپنا نام تبدیل کرکے شبیر حسن خان رکھ لیا۔ (ضیائے اردو، ضیاء المصطفی مصباحی، باب جوشؔ ملیح آبادی)۔ جوشؔ کی پیدائش 5 دسمبر 1896ء میں ملیح آباد کے محلہ مرزا گنج کے ایک متمول و ادبی گھرانہ میں صبح چار بجے ہوئی۔ ان کے دادا محمد احمد خاں احمدؔ، صاحب دیوان شاعر تھے، ان کے دیوان کا نام’مخزن آلام‘ہے، ان کے پر دادا  فقیر محمد خاں گویاؔ بھی اپنے دور کے عظیم ادبا میں شمار ہوتے تھے اور '’دیوان گویا‘ ان کا مجموعہ کلام ہے۔

جوشؔؔ ملیح آبادی کو اردو ادب، میراث میں ملاتھا، اس لئے ان کا شاعری سے شغف پیدا ہوجانا بالکل فطری سی بات تھی، چونکہ گھرانہ شاعرانہ فضا سے معمور تھا اسی سبب انہوں نے نو برس کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا،ماضی میں مولوی عبدالحق اور جوش نے واقعی تعلیمی اداروں میں سائنسی مضامین پڑھانے کے لیے انگریزی اصطلاحات اردو زبان میں استعمال کرنے کا کام کیا لیکن ملک میں یکساں نظام تعلیم کے قیام کی اس کوشش کو آگے بڑھانے کے بجائے خصوصی مفادات رکھنے والے اشرافیہ نے ملک کو تقسیم کر دیا۔ نظام تعلیم کو تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح ریاستی اداروں میں اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا گیا۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں عوام کو معلومات فراہم کرنے والے زیادہ تر ادارے جن میں پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز شامل ہیں ان کی مقبولیت اردو زبان میں زیادہ ہے جب کہ انگریزی اخبارات کی اشاعت اردو اخبارات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان میں ایک انگریزی ٹی وی چینل شروع کیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد اسے بھی اردو چینل میں تبدیل کر دیا گیا۔ مندرجہ بالا تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کی ترقی کے لیے جوش ملیح آبادی جو اپنے طور پر ایک ادارہ تھے، کی خدمات کو ریاستی سطح پر بہتر طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا
 شبیر حسن خان (1898-1982)، جو جوش ملیح آبادی کے نام سے مشہور ہیں، لکھنؤ کے قریب ملیح آباد میں جاگیرداروں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ گھر پر روایتی مضامین میں ابتدائی ہدایات حاصل کرنے کے بعد، اس نے سیتا پور، لکھنؤ، آگرہ، اور علی گڑھ جیسے کئی مقامات پر چھینا جھپٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اپنے والد کی وفات اور اس کے بعد اٹینڈنٹ کے مسائل کے بعد، اسے اپنی تعلیم بند کرنی پڑی۔ 1924 میں وہ دارالتجومہ میں شامل ہونے کے لیے حیدرآباد چلے گئے۔

صاحببیر حسن خان (1898-1982)، جو جوش ملیح آبادی کے نام سے مشہور ہیں، لکھنؤ کے قریب ملیح آباد میں جاگیرداروں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ گھر پر روایتی مضامین میں ابتدائی ہدایات حاصل کرنے کے بعد، اس نے سیتا پور، لکھنؤ، آگرہ، اور علی گڑھ جیسے کئی مقامات پر چھینا جھپٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اپنے والد کی وفات اور اس کے بعد اٹینڈنٹ کے مسائل کے بعد، اسے اپنی تعلیم بند کرنی پڑی۔ 1924 میں، وہ دارالترجمہ، عثمانیہ یونیورسٹی کے بیورو آف ترجمہ میں شامل ہونے کے لیے حیدرآباد روانہ ہوئے۔ ایک تنازعہ کے بعد انہیں یہ ادارہ چھوڑ کر اپنے آبائی علاقے واپس جانا پڑا۔ 1936 میں انہوں نے دہلی سے کلیم نامی جریدہ شائع کرنا شروع کیا جو تین سال تک چلتا رہا۔ 

1941 میں، انہوں نے پونا میں شالیمار پکچرز میں شمولیت اختیار کی اور فلموں کے لیے گیت لکھے۔ 1948 میں، انہیں آجکل کے ایڈیٹر مقرر کیا گیا، جو ایک ادبی جریدہ ہے جسے وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند نے شائع کیا اور آٹھ سال تک وہاں کام کیا۔ 1956 میں وہ پاکستان ہجرت کر گئے جہاں وہ اردو بورڈ کے ادبی مشیر کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے 1967 میں ہندوستان کا سفر کیا اور بمبئی میں ایک انٹرویو دیا جس کی وجہ سے پاکستان میں ان کی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 
جوش نے اپنے پردادا، دادا اور والد سے وراثت میں ملنے والی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے چھوٹی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی۔ ان کی موضوعاتی فکروں اور ان کی عظمت کی وجہ سے انہیں انقلاب کا شاعر کہا جاتا تھا۔ وہ اردو شاعروں میں ایک طرف اپنے شدید سماجی و سیاسی خدشات اور دوسری طرف رومانوی مصروفیات کے لیے قابل ذکر ہیں۔ اپنے آپ کو یقین کے ساتھ ظاہر کرنے کے لیے، اس نے ایک خصوصی قسم کی چارجڈ ڈکشن اور ایک نئے استعاروں کا مجموعہ تیار کیا۔ ان خصوصیات نے ان کی شاعری میں انفرادیت کا عنصر پیدا کیا۔

 جوش نے اپنی شاعری کے کئی مجموعے شائع کیے جن میں روحِ ادب، شعر کی راتیں، نقش و نگار، شولہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، حرف و حکمت، آیات شامل ہیں۔ -او-نغمات، عرش-او-فرش، رامش-او-رنگ، سنبل-او-سلسل، سیف-او-سبو، سورود و کہروش، سموم-او-سبع، تولو فکر، قطر-او قلزم، اور نوادرات جوش۔ اس نے نثر میں بھی لکھا۔ ان کی نثری تصانیف میں نجوم و جواہر، موضع فکر، اوراق سحر، الہام و مقالات زریں اور اشعار شامل ہیں۔ جوش کی سوانح عمری، یادوں کی بارات، نے اپنے قارئین میں کافی دلچسپی پیدا کی، اور یہ انہیں اب بھی متجسس رکھتا ہے۔ 

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا دستر خوان

  


 

سورہ مائدہ قران کریم کا پانچواں سورہ ہے اور پارہ نمبر سات وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک خوان نازل فرما ئے۔حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا اگر تم سچّے ایماندار ہو تو اللہ سے ڈرو اور ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرولیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اور آنے والے خوان سے تبرّک کھانا چاہتے ہیں اس طرح ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے پروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

ئے ہمارے پالنے والے پروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہم اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلے گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔"حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن کہ پھر ان میں سےجو شخص کافر ہوا

تو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکش کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے قریب ایک کھلی جگہ پر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر حواریوں کے درمیان اتر آیا ،،

حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور بارگاہ رب العالمین میں دعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔

وہیں پر موجود حضرت شمعون علیہ السّلام نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ یا روح اللہ یہ کھانا دنیا کا ہے یا آخرت کا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ یہ کھانا دنیا کا ہے لیکن اسے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے حواریوں نے کہا یا حضرت ہمیں کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔

لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئےیہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت بہ اعجاز پروردگار قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا لیکن پھر کچھ امیر و دولت مند حواریوں کو شرارت سوجھی اور وہ کبر و نخوت پر آمادہ ہوئے اور لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اس پر پروردگارعالم نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک زندہ رہے اور نجاست کھاتے رہے اور پھر سب کے سب مر گئے

میں نے یہ تفسیر وترجمہ قبلہ مولانا فرمان علی مدظلہ کے ترجمے و تفسیر سے لینے کی سعادت حاصل کی۔ منکران احکام الٰہی کا انجام ہی برا ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ سمجھتے نہیں ہیں۔ اللہ کریم ورحیم ہم سب مسلمانوں کو قران کریم پڑھنے کی اور سمجھنے کی بہترین توفیق عطا فرمائے . آمین الٰہی آمین

مفلس تھر بھوکا اور پیاسا ہے

تھر میں بھوک،پیاس اور پانی وہ المیہ ہے جو صدیوں پرانا ہے۔”تھرپارکر سندھ کے جنوب میں واقع صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے،جس کا ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے،اس کا کل رقبہ تقریبا 21ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 13لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تھر کی زبان،ثقافت اور رسم ورواج باقی ماندہ سندھ سے الگ ہیں۔قدیم دور میں یہ علاقہ سرسوتی دریا کے ذریعے سیراب ہوتا تھا۔بعد ازاں” مہرانوں نہر“ کے ذریعے اسے سیراب کیا جاتا رہا۔اس کے علاوہ تھر پارکر کی سیرابی کیلئے دریائے سندھ سے ایک بڑی نہر ”باکڑو“نکلا کرتی تھی ،جسے سترھویں صدی میں کلہوڑا حکمرانوں نے سیاسی مخالفت کی بنیاد پر بند کروادیا،جس کے سبب تھر مزید خشک سالی کا شکار ہوا۔ان جزوی اقدامات کے باوجود پانی کی دستیابی تھر کا صدیوں سے اہم مسئلہ ہے۔ “ تھراپنے دامن میں بھوک، پیاس بیماری ، سسکتی ہوئی انسانیت اور حکمرانوں کی سنگدلی اور بے حسی کی مکمل داستان سموئے ہوئے ہے۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ جو ایک معالج،مورخ ،مصنف اور حقیقت نگاربھی ہیں، نے ”تھر پیاس اور پانی“ کے تین لفظوں میں تھر کی مظلومیت کی پوری کہانی بیان کردی ہے۔روحانی اعتبار سے تھر کی مسلم آبادی پیری مریدی کے زیر اثر ہے، الیکشن مئی 2013ءمیں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 230تھر پارکرٹوجہاں سے پیپلز پارٹی کے پیر نور محمد شیر جیلانی نے 61903ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی اُن کے مدمقابل ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 59852ووٹ لے کر دوسری پوزیشن میں رہے۔یہ سارے ووٹ انہیں نظریاتی یا پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ روحانی حلقوں کی سپورٹ کی وجہ سے ملے تھے۔اسی طرح این اے 229تھر پارکر ون میں بھی پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے فقیر محمد بلالانی 88218ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ دوسری پوزیشن پر ارباب تگاچی فواد رزاق نے آزاد حیثیت میں86097ووٹ لیے ۔تھرپارکر کے یہ دونوں حلقے دراصل ارباب خاندان کے ہیں اگر کوئی دوسرا کامیاب ہوبھی تو اسے اربابوں کی حمایت ضرور حاصل ہوتی ہے ۔“ ارباب خاندان گزشتہ ایک صدی سے تھر کی سیاست میں اہم کردار کرتا رہا ہے،ارباب کے علاوہ تھر کی دیگر مسلم برادریوں میں جونیجو،راحموں،سمیچواوربجیر شامل ہیں جبکہ ہندو برادریوں میں میگواڑ،کولہی،بھیل،لہانا،مہراج اور راجپوت شامل ہیں،تھر کی 80 فیصد آبادی ریگستان میں آباد ہے ،اُن کی ثقافت، بودوباش، رہن سہن اور طرز حیات مسلم وغیر مسلم سب کایکساں ہے ،بھوک ،ننگ اور غربت نے تھر میں صدیوں سے ڈیرا ڈالا ہوا ہے ۔ علاقے کی مجموعی زندگی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم اور سسکتی ہوئی انسانیت کا نوحہ سناتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اِن تمام تلخ حقائق کا فہم وادراک رکھنے کے باوجود ہر حکومت نے تھر کے حوالے سے بے رخی ،لاپروائی ، سرد مہری اور سنگدلی کا مظاہرہ کیاہے۔آج بھی تھرکے70 فیصد مراکزصحت بند پڑے ہیں،گزشتہ دنوں قحط سے متاثرہ علاقے تھر کی ایک مقامی عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کو قحط کی صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ ارسال کی،جس میں کہا گیا ہے کہ عمر کوٹ کے صحرائی علاقوں کی 25 دیہات کے 35450 خاندانوں کے 167230 افراد متاثر ہوئے ہیں،اِس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحرائی علاقوں میں 29 مراکز صحت میں سے 18 مراکز ڈاکٹر نہ ہونے کی باعث بند پڑے ہیں، جبکہ سول اسپتال عمر کوٹ میں 46 ڈاکٹروں کی اسامیاں 2007 سے خالی ہیں اور ضلع بھر میں 401 اسامیوں میں سے صرف 130 پر ڈاکٹرز کام کررہے ہیں۔سیشن جج نے رپورٹ میں صحت کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ضلع کی سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو غیرمعیاری ادویات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ سول اسپتال عمرکوٹ کی ایکسرے مشین گزشتہ دو سال سے خراب ہے۔ خیال رہے کہ تھر میں غذائی قلت کے علاوہ بھی کئی مسائل اور ہیں، جن میں بے روزگاری، صحت کی ناکافی سہولتیں، ذرائع نقل و حمل کی عدم دستیابی جس کے باعث بیشتر لوگ اسپتالوں تک رسائی نہیں رکھتے ۔ اکیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور تقریباً تیرہ لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل تھرپارکرصوبہ سندھ کے 23اضلاع میں سے سب سے پسماندہ ضلع ہے۔ پینے کے صاف پانی سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں کا فقدان اِس صحرائی علاقے کا مستقل مسئلہ ہے۔جن پر توجہ دینے کی شدید ضرورت کے باوجود ملک کی 67 سالہ تاریخ میں کسی حکومت نے بھی اِس طرف توجہ نہیں دی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال دو سال بعد یہاں بارشیں نہ ہونے کے سبب شدید قحط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ،جس کے ساتھ ساتھ مختلف مہلک بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں اور سینکڑوں افراد فاقہ کشی اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اِن میں چھوٹے بچوں کی تعداد خاص طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ ضلع تھر پارکر میں غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتوں پہ تاحال قابو نہیں پایا جا سکاہے۔رواں ہفتے کے ابتدائی تین دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد 28 ہوگئی ہے جبکہ اِس سال کے پونے گیارہ مہینوں میں قحط اور بیماریوں کے سبب تھر میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 900 سے زائد ہے ،صرف 16 دن کے دروان غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 24 ہے۔ تھرکے سرکاری اسپتالوں میں غذائی قلت اور اِس سے متعلقہ بیماریوں کے باعث سال 2011ءسے تاحال 1608بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ ذرائع ابلاغ میں اِس قسم کی رپورٹوں کا بھی چرچا رہا کہ پچھلے سال صحرائے تھر کے علاقے میں مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مہیا ہونے والی اشیاءخورو نوش گوداموں میں پڑی پڑی ضائع ہو گئیں اور انہیں مستحقین میں تقسیم نہیںکیا جا سکا۔یہ بھی سننے میں آیا کہ مخیراداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی پانی کی بوتلیں بھی متاثرین تک پہنچنے کے بجائے راستے ہی میں غائب ہوگئیں۔جب میڈیا نے تین سو گندم کی بوریاں مٹی میں ملانے کی خبر دی تو سرکاری وضاحت جاری کی گئی کہ تین سو نہیں دو سو بیانوے بوریاں تھیں۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بدانتظامی ،لاپروائی اوربے حسی کی وجہ سے یہ اشیاءضرورت مندوں کے استعمال میں آنے کے بجائے ضائع ہو جائیں اور پڑے پڑے سڑ جائیں۔ہمارا ماننا ہے کہ یہ بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اور تمام صوبائی حکومتیں اپنے گوداموں میں اناج اور دیگر اشیاءخورو نوش کا ذخیرہ رکھتی ہیں تا کہ انہیں وقت پڑنے پر استعمال میں لایا جا سکے۔ لیکن افسوس صوبے کے انتظامی سربراہ ذمہ داری محسوس کرنے کے بجائے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی طرح عجیب وغریب بیانات جاری کررہے ہیں،کبھی فرماتے ہیں کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں بلکہ غربت سے ہوئیں ہیں، کبھی کہتے ہیں بچوں کی اموات زچگی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔تو کبھی کہتے ہیں کہ مرنے والوں کو خدا ہی بچاسکتا ہے، انسان کے بس کی بات نہیں۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ تھر میں قحط کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں، جن کی عدم توجہی سے موجودہ صورت حال پیدا ہوئی ہے،کبھی وہ اپنی حلیف جماعت کے سابق صوبائی وزیر پر کوتاہی کا الزام لگاتے ہیں اورکبھی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ متاثرین کو دیتے ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے آپس میں تقسیم کرلو۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ اگر حکومت سندھ کے ان موقف کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی وہ کسی طور اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔،حکومت اور حکمران ِوقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ غربت ، بھوک ، افلاس اور بے روزگاری کا خاتمہ کرے اور صوبے کی تمام صوبے عوام کو یکساں بنیادی سہولیات فراہم کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سندھ حکومت کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ تھر میں اموات غربت کی وجہ سے ہوئی ہیں تو کروڑوں کی تعداد میں غریب لوگ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بستے ہیں۔ اُن کے مسائل بھی اسی طرح سے ہیں، یہ درست ہے کہ اُن کے حالات تھر جیسے نہیں ، لیکن پھر بھی انہیں بھی اِس قسم کے حالات کا سامنا تو ہو گا، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ملک کے طول و عرض میں تھر جیسی صورت حال نہیں ہے، اِس لیے تھر کے مسئلے کو اُس علاقے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تھر ِاس قسم کے حالات سے پہلی بار دو چار نہیں ہوا بلکہ اکثر اسے اِس قسم کے حالات سے وابستہ پڑاہے۔گزشتہ تین سالوں سے تھر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی چھائی ہوئی ہے،لیکن اِس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ تھر قدرتی وسائل سے محروم ہے، یہ دنیا کا واحد زرخیز صحرا ہے جہاں بارش کی صورت میں لوگ اپنی اور اپنے مویشیوں کی ضرورت کیلئے بعض فصلیں بھی کاشت کرلیتے ہیں، یہ زمین معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے،گرینائٹ اور دوسرے قیمتی پتھر وں کے علاوہ کوئلے کے وسیع ذخائر صرف تھر ہی نہیں پورے ملک کیلئے ترقی اور خوش حالی کی ذریعہ بن سکتے ہیں، اِس علاقے میں گیس اور تیل کے ذخائر کی موجودگی کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں، اِس لیے تھر میں ذرائع آمد ورفت کو بہتر بناکر نیز صحت اور تعلیم کی خاطر خواہ سہولتیں فراہم کرکے مقامی آبادی کے لئے ترقی کی راہیں کھولی جاسکتی ہیں۔صرف ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اچھی منصوبہ بندی اور اُس پر سنجیدگی اور ذمہ داری سے عمل درآمد کیا جائے۔اِس سلسلے میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ڈاکٹر صاحب اور اُن کے رفیقوں نے حکومتی امداد اور سرپرستی کے بغیر تھر کے لوگوں کیلئے قابل مثال کام کرکے ثابت کیا ہے کہ نیت صالح ہو ، عزم جواں ہو اور اخلاص موجود ہو تو کوئی رکاوٹ آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ہماری صاحب ثروت اور مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالیں،ساتھ ہی ہماری سندھ اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران سے بھی استدعا ہے کہ وہ تھر کو تباہی وبربادی سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف فوری توجہ دیں تاکہ بھوک،پیاس ،بے روزگاری اور بیماری سے تھر کے معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا روح فرسا سلسلہ ختم ہو اور یہ مظلوم خطہ بھی قومی ترقی اور خوش حالی کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہو سکے 

شداد نے جنت کس طرح تعمیر کی

   

یہ قصہ قرآن پاک میں مذکور ہے
کہتے ہیں شدّاد اور شدید کے باپ کے پاس بہت دولت تھی باپ نے اپنے بعد دونوں بیٹوں میں وہ دولت تقسیم کر دی -لیکن قسمت نے دوسرے بھائ کے ساتھ یاوری نہیں کی اور وہ جلدی مر گیا اب دوسرے بھائ کی دولت بھی شدّاد کو مل گئ-دولت کی فراوانی  نے شدّاد کو مغرور اور خود سر بنا دیا -اس قوم کو ان کے دادا کی طرف منسوب کرکے ان کو عادِ اِرم بھی کہا جاتاہے۔ اپنے شہر کا نام بھی انھوں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا وطن عدن سے  متصل تھا۔ان کی طرف حضرت ہُودؑ مبعوث کیے گئے تھے احقاف میں بسنے والی اس قوم نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کوغیرمعمولی قدوقامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی  ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کوغیرمعمولی قدوقامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔
شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اس کے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جوحکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔ چناں چہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ ع پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔ پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔ شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور عنبر و گلاب سے صیقل کیاگیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔ بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچایا کریں۔ لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو حضرت ہُود علیہ السّلام بحکم اللہ تعالِی نزول عذاب سے پہلے ہی حضر موت کی طرف مراجعت کر گئےتھے۔ ۔ حضرت ہوُدؑ علیہ السّلام کی وفات یہیں پر ہوئی۔ شداد اور اس کی جنت کا انجام معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنےلگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟ اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس دمشق آئے اور لوگوں سے سارا ماجرہ بیان کیا جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا، پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔ ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔ پھر اہلِ علمحضرات سے وہاں کے لوگوں نے رجوع کرکے اس بارے میں معلومات حاصل کیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نےبتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ حضرتؐ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا اور یہ نشانیا ں چشم دید گواہ عبد اللہ بن قلابہ میں موجود تھیں ۔ زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسی کیسی قوموں کو ہلاک کر مارا
القران

رکن ہدایت جب منہدم ہو گیا۔شہادت امام محمد باقر علیہ السلام

  • سات ذوالحجۃ کی تاریخ ایک غمناک ترین دن ہے۔  جب ایک ستون امامت اور رکن ہدایت منہدم کر دیا گیا ۔اس المناک موقع پر امام عصر (عج)، تمام مؤمنین و مؤمنات اور تمام محبان اہل بیت کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش ہے۔

    آپ وہ عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں “باقر” (یعنی شگافتہ کرنے والا) کا لقب آپکی ولادت سے کہیں قبل آپکے جد امجد جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا تھا۔ آپ 57ھ میں امام زین العابدین علیہ السلام کے آنگن کی زینت بنے۔ آپکی والدہ ماجدہ بھی وہ عجیب و منفرد ہستی ہیں جن کے براہ راست رشتے پانچ معصوم اماموں سے ملتے ہیں، یعنی حضرت فاطمہ بنت امام حسن علیہ السلام۔
    آپکے سرتاج امام، آپکے چچا امام، آپکے دادا امام، آپکے والد امام اور آپکے فرزند بھی امام۔ سبحان اللہ۔ جس بچے کی ماں ایسی ہو اور باپ عابدین کی زینت اور ساجدین کا سردار ہو تو وہ بچہ کیسا ہوگا۔
    اتنی مضبوط بنیادوں کی بنا پر ہی شاید اللہ تعالٰی نے آپکو کربلا جیسے معرکے کے شاہد کے طور پر چنا۔ آپکا سن مبارک بوقت واقعہءکربلا محض چار برس کا تھا جسمیں اپ نے بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا و دیگر بچوں کے ساتھ نہ صرف ریگزار کربلا کی پیاس کو برداشت کیا، بلکہ معرکہءکربلا میں اپنے دادا، چچاؤں، تایاؤں اور دیگر اصحاب کی شہادت کا عین الیقین سے مشاہدہ بھی کیا۔ آپ نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا بہ رسن سفر بھی کیا اور شام کی خوفناک قید بھی کاٹی۔ آپ نے اپنی کمسن پھپو کو زندان میں شہید ہوتے بھی دیکھا اور اپنے والد کے ہمراہ انکی تدفین بھی فرمائی۔
    آپ نے اپنے والد بزرگوار کو 35 سال خون کے آنسو روتے بھی دیکھا اور خود بھی تمام عمر عزادار رہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود علم و حکمت کے وہ چشمے جاری کرگئے جو رہتی دنیا تک کے لیئے سرمایہءحیات ہیں۔
    آپ کی عظمت کے لیے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ وہ مکالمہ خاصا مشہور ہے، جسمیں آپ نے جابر سے فرمایا کہ 

    “اے جابر! تم طویل عم پاؤ گے، اگرچہ تمہاری بینائی جاتی رہے گی لیکن تم میرے اس پانچویں جانشین کی زیارت کا شرف حاصل کرو گے، جسکا نام، میرے نام پر ہوگا اور وہ چال ڈھال میں بھی میرا مشابہ ہوگا۔ پس جب تم اس سے ملو تو میرا سلام پہنچا دینا۔”

    جس ہستی کو صاحب معراج سلام بھجوائے، امت کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ خدا کے دین کے اس چراغ ہدایت کو 7 ذی الحج 114ھ کو 57 سال کے سن میں بجھا ڈالا گیا

    امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری مدینہ منورہ میں ہوءی آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں جنکا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے مولاءے کاءنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے ۔
    اس لءے کہ کہ آپکی والدہ امام حسن سے ہیں اور والد گرامی امام حسین علیہ السلام سے ( ابن خلکان ، وفیات الاعیان ، جلد ۴ ص ۴۷۱)
    آپکی کنیت ابو جعفر اور القاب ، ہادی ،و شاکر ہیں باقر آپ کا سب سے معرو ف لقب ہے آپکو باقر اس لءے کہا جاتا ہے کہ آپ علوم انبیاء کو شگافتہ کرنے والے ہیں
    آپکےاس لقب کے سلسلہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری سے یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ نے آپکو یہ لقب عنایت فرمایا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ انکا نام میرے نام سے شبیہ ہے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں تم انہیں میرا سلام کہنا( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
    آپکے علمی مرتبہ کا عالم یہ ہے کہ آپ کے لءے تاریخ میں الفاظ ملتے ہیں کہ ” تفسیر قرآن ،کلام اور حلال و حرام کے احکام میں آپ یکتاءے روزگار تھے ( ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، الجزء الرابع ، ص ۱۹۵ ) اور مخلتف ادیان و مذاہب کے سربراہوں سے مناظرہ کرتے تھے ۔
    آپکے علمی مرتبہ کے لءے اتنا کافی ہے کہ ” اصحاب کرام ، تابعین اور تبع تابعین اور عالم اسلام کے عظیم الشان فقہا نے دینی معارف اور احکامات کو آپ سے نقل کیا ہے آپ کو علم ہی کی بنیاد پر اپنے خاندان میں فضیلت حاصل ہے ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۵۵)
    آپ نے اپنی عمر کے چار بابرکت سال اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے سایہ شفقت میں گزارے اور ۳۸ سال اپنے والد گرامی علی ابن الحسین سید سجاد علیہ السلام کے زیر سایہ بسر کءےآپکا کل دور امامت ۱۹ سال پر مشتمل ہے ۔
    آپ واقعہ کربلا کے تنہا کمسن معصوم شاہد ہیں جنہوں نے چار سال کی کمسنی میں کربلا کے دردناک حوادث کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چنانچہ آپ خود ایک مقام پر فرماتے ہیں ” میں چار سال کا تھا کہ میرے جد حسین بن علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا جو کچھ آپ کی شہادت کے وقت رونما ہوا وہ سب میری نظروں کے سامنے ہے ( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
    آپکی سیرت:
    آپ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے لوگوں میں صادق اور امین کے طور پر جانے جاتے تھے اپنے آباو اجداد کی طرح محنت و مشقت کرتے تھے ، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دن تپتے ہوءے سورج کے نیچے آپ کھیتی باڑی میں مصروف تھے کسی نے آپ کو شدید گرمی میں بیلچہ چلاتے ہوءے دیکھ لیا تو کہا ” آپ بھی اس گرمی میں طلب دنیا کے لءے نکل آءے ؟ اگر اس حالت میں آپ کو موت آ جاءے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا اگر میں اس حالت میں مر جاءوں تو اطاعت خداوندی کی حالت میں اس دنیا سے جاءوں گا اس لے کہ میں اس محنت کے ذریعہ خود کو لوگوں سے بے نیاز کر رہا ہوں ”
    آپ ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف رہتے بخشش و عطا میں آپ کی کوءی نظیر نہ تھی ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۶۱)
    امام باقر علیہ السلام کے دور کے حالات :
    امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے دوران حکومت جن مشکلات کا سامنا کیا وہ خود میں بہت پیچیدہ اور روح فرسا تھیں جن میں سے کچھ اہم مشکلات یہ ہیں :
    ۱۔ سیاسی فساد :
    آپ کے دور امامت میں آل مروان کی حکومت تھی جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران جاہلی رسوم اور جاہلی افکار کو اسلامی معاشرہ پر مسلط کر رکھا تھا اور پورے حکومتی ڈھانچہ میں سیاسی فساد کی حکم رانی تھی ۔
    ۲۔ فرہنگی و ثقافتی انحراف :
    آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا 
    1. آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا دوبھر کر دیا تھا اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ اسلامی اور محمدی کلچر کو معاشرہ میں بڑھاوا دے سکے ، اسلامی تہذٰیب و ثقافت کی جگہ جاہلانہ رسم ورواج نے لے رکھی تھی اور منحرف افکار کا دور درہ تھا ۔
      ۳۔اجتماعی فساد :
      اجتماعی طور پر اس وقت کے اسلامی معاشرہ میں ایسا فساد تھا کہ ہر طرف بھید بھاءو ، نسلی برتری ، نا انصافی ، کے کیڑے نظر آ رہے تھے اور ان سے مقابلہ کا کسی کو یارا نہ تھا
      امام محمد باقر علیہ السلام میں ان حالات میں تقیہ کرتے ہوءے آہستہ آہستہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا اور فرہنگی و ثقافتی میدان میں مسند درس کے ذریعہ تبدیلی کو اپنا شعار بنا کر معاشرے کی علمی اور فکری بنیادوں پر خاموشی کے ساتھ کام کیا ۔
      چنانچہ آپ نے مسجد النبی میں مسند درس بچھا کر قرآنی آیات کی روشنی میں تشنگان معارف اسلامی کو سیراب کیا اور مسجد نبی کو اسلامی ثقافت کے علی شان محل میں تبدیل کر دیا
      آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی جنہوں نے قریہ قریہ جا کر اسلام کی حقیقی تصویر کو متعارف کیا ۱۹ سال کی جدو جہد کے دوران آپ نے جن شاگردوں کی تربیت کی ان میں ۴۶۷ لوگوں کے نام منابع میں اب بھی موجود ہیں ( شیخ طوسی ، رجال ، ۱۰۲)جن میں زرارہ بن اعین ، ابو بصیر مرادی ، برید بن معاویہ بجلی ، محمد بن مسلم ثقفی ، فضیل بن یسار م جابر بن یزید جعفی و غیرہ خود اپنے آپ میں ایک اجتماع کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔
      آپ کی علمی اور ثقافتی تحریک ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مکتب امامیہ کو ایک غنی اور ہمہ گیر مکتب کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
      آج اگر مکتب امامیہ کو ایک مضبوط تصورکاءنات رکھنے والے مذہب کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے تو یہ آپ ہی کی جانفشانیوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔
      علمی اور فکری حلقوں میں جب بھی شیعت کی بات ہوگی آپ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اس لءے کہ شیعت کی اساس اور بنیاد آپ کی کاوشوں کی رہین منت ہیں ۔
      آپ ظلمت و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر چراغ علم نہ جلایا ہوتا تو شاید آج تعلیمات محمدی کی جگہ جاہلی رسوم کو تقدس حاصل ہوتا آج اگر محمدی تعلیمات عام ہیں اور انکے اندر کشش و جاذبیت پاءی جا رہی ہے تو یہ نتیجہ باقر آل محمد کی جانفشانیوں کا ۔ جب تک دنیا میں علم رہے گا دنیا آپ کو سلام کرتی رہے گی ۔
       
    2. باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام کے چند فرمودات
      خدا کے نزدیک بہترین عبادت پاکدامنی ہے۔
      ۔ بہترین خیرات نیکی ہے،
      ۔امام فرماتے ہیں :جب تمھیں کوئی نعمت ملے تو کہو” الحمد للّٰہ “اور جب کوئی رنج و تکلیف پہنچے تو کہو ” لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ“ اور جب تنگ د ست( روزی تنگ) ہو تو کہو ”استغفراللّٰہ “
      ۔ایک عالم جس سے لوگ فائدہ اٹھا تے ہوں وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ۔
      ۔تھوڑی دیر عالم کی صحبت میں بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔
      ۔علم حاصل کرنے کے بعد اسے نشر کرواور پھیلا ؤ اس لئے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان غالب ہوجاتا ہے۔
      ۔ علم حاصل کرنے کے بعداگر کسی کا مقصد یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے گا اورجہلا پر رعب جماکر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا توایسا شخص جہنمی ہے ۔
      ۔علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دی جائے ۔
      ۔تکبر بری چیز ہے انسان میں جتنا زیادہ تکبر پایا جائے گا اتنی ہی اس کی عقل گھٹتی جائے گی ۔
      ۔مومن کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ٭ ایک عالم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ۔

    3. تھوڑی دیر عالم کی صحبت میں بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے
      ٭ علم حاصل کرنے کے بعد اسے نشر کرو اور پھیلاؤ اس لئے کہ علم کو بند رکھنے سے شیطان غالب ہو جاتا ہے۔
      ٭ علم حاصل کرنے کے بعد اگر کسی کا مقصد یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے گا اورجہلا پر رعب جما کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا توایسا شخص جہنمی ہے ۔
      ٭ علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دی جائے ۔
      ٭ تکبر بری چیز ہے انسان میں جتنا زیادہ تکبر پایا جائے گا اتنی ہی اس کی عقل گھٹتی جائے گی ۔
      ٭ مومن کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ۔
        

     

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر