لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،
حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم
شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا-پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ
ترجمہ:
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ایک منفرد معجزہ طلب کرتے ہوا کہا کہ ہر نبی کسی نا کسی معجزے کا حامل تھا آپ اگر نبوّت کے دعویدار ہیں سارے نبیوں سے مختلف کوئ آسمانی معجزہ دکھائیے تاکہ ہم آپ کے خدا اور پر اور آپ کی نبوّت پر ایمان لے آئین کی طلب کی کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوجائیں تاکہ اس فعل کی اساس پر اسلام لے آئیں گے
معجزہ شقّ القمر
رسول اللہؐ کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں،۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ رات چودھویں تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا
۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! ان مشرکوں کا سوال پورا فرما دے۔اسی وقت حضرت جبرئیل امیں نازل ہوئے اور آپ صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم سے فرمایا کہ اللہ تعلیٰ فر رہا ہے کہ اس وقت میں نے کائنات آپ کی دسترس میں دے دی ہے-آپ جو چاہیں وہ کر انجام دے سکتے ہیں -کفّار نے کہا کہ یہ آسمان پر جو چاند ہے اس کو دوٹکڑے کردیں -آپؐ نے انگلی سے اشارہ کیا تو چاند اسی وقت دو ٹکڑے ہوگیا-اب ان کو الگ الگ پہاڑ پر بھیج دیجئے اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہوجس طرح کافروں نے کہا تھا۔ آنحضرتؐ نے ویسے ہی کیا پھر کفّار بولے اب چاند کو ملا دیجئے تب چاند آپ کی انگشت مبارکے اشارے سے مل گیا اور اپنی جگہ واپس جا کر جگمگانے لگا - تب حضور پاک نے فرمایا اے ابوسلمہ اور ارقم اس پر گواہ رہنا۔
لیکن کفآر کے دل ٹیڑھے تھے وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی اور یہ معجزہ 14 ذی الحجہ ہجرت سے 5 سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔مشرکین مکہ جمع ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سے فرمایا کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لئے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دکھائیں
(قرآن مجید میں سورة قمر کی ابتدائی آیات میں اس جانب اشارہ ہے)
جنوبی ہندوستان کے علاقہ (مالابار) کیرالہ اسٹیٹ پر اس وقت ایک ہندو راجہ حکمران تھا۔ مہاراجہ رات کے وقت میں اپنے محل کی چھت پر اپنے خاند ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے چاند کو دو ٹکڑوں میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ اس نے اپنے خاند ان کے افراد سے اس کی تصدیق چاہی ، جو محل کی چھت پر اس وقت موجو د تھے۔ سب نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔ تب اس نے دوسرے دن دربار طلب کیا جس میں اہل علم ، دانشور ، پنڈت ، نجومی، جوتشی شریک تھے۔ ان سب سے اس واقعہ کی تحقیق و تصدیق کے لئے کہا سب نے تحقیق کے بعد اس واقعہ کی تصدیق کی اور ان سب نے گواہی دی کہ یہ صرف نبی ﷺ کا کارنامہ ہے ہماری کتابوں کے مطابق سرزمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اس کے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے ہمارے خیال میں سر زمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گیا ہے۔ شَقّ القمر کا معجزہ ان ہی کے اشارہ پر ہوا ہے۔
مہاراجہ بہت متاثرہوا۔ چنانچہ اس نے اس کی مزید تصدیق کے لئے اپنے بیٹے کو عر ب بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح مہاراجہ نے اپنے جواں سال (بیٹے) شہزادے کو زاد راہ کے خور دو نوش کے اہتمام کے ساتھ ڈاکوؤں و لٹیروں کے تحفظ کے لئے یک سو مسلح افراد کے ہمراہ عرب (مکہ و مدینہ )کی طرف روانہ کیا اور ساتھ میں بہت سے قیمتی تحائف دے کر ہدایت کہ کہ اگر شَقّ القمر کی تصدیق ہو جائے تو میری طرف سے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا اور میر اسلام کہہ دینا ۔ہندو نوجوان شہزادے کو اہل عرب نے شَقّ القمر کی تصدیق کی ۔
اب شہزادے کو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشتیاق ہوا۔ جب شہزادہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور ﷺْ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اور آنے کا مقصد پوچھا شہزادے نے اپنی آمد کی پوری تفصیل سنا دی ۔ شہزادے نے مہاراجہ کے بھیجے ہوئے تحائف آپ ﷺ کو پیش کئے اور مہاراجہ کا سلام پہنچا دیا۔ حضور ﷺ نے شکریہ ادا کیا اور مہاراجہ کے لئے دعائے خیر کے کلمات ادا کئے روایت یہ ہے کہ اسی دن مہاراجہ دل ہی دل میں حضور ﷺ پر ایمان لے آیا تھا اور بت پرستی ترک کر دی تھی۔
"آپولو 10 نے چاند کی قریب سے فوٹو لی جس میں چاند پر ایک بڑا نشان نظر آیا یہ تصویر 1969ء میں لی گئی پھر آپولو 11 کی مدد سے چاند کی سطح پر اتر کر اس نشان کا مشاہدہ کیا گیا ،یہ نشان 300 کلومیڑ تک لمبا ہے