منگل، 18 اپریل، 2023

جاوداں شاعرمحسن نقوی

 

 

دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک وقت آنے پر مر جانا ہے لیکن محسن نقوی وہ فرد واحد ہیں جو مر کے جی اٹھے ہیں اور یہ جاوداں مرتبہ ان کو کربلا کی شاعری نے دیا  -ہےمحسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ ان کی تصانیف میں بند قب اِ، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب ،ریزہ حرف ، موج ادراک اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر

 نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن

 نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں اِک ”عکس“

 تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے

 دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے

۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی

 طرح بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے

 جا چکے ہیں۔ محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا - 1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں

 صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔ اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا

 کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔

 محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ

 اہل بیت سے منسوب ہے۔ انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ

 صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان

 کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ

 انہوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔

 ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔ اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم

 تحریکِ طالبان،سپاہ صحابہ اور اس کی ذیلی شاخوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرناشروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا

 چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ

 زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو

 شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ سفر تو خیر کٹ گیا میں کرچیوں میں بٹ گیا۔ محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی

 دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐکی شان میں کی گئی شاعری بنی۔

شعر و ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام محسن نقوی 5 مئی 1947ء میں سید چراغ حسین شاہ کے ہاں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔والدین نے ان کا نام غلام عباس رکھا ۔ ان کا تعلق ایک عام اور کم آمدنی والے گھرانے سے تھا۔ ان کے والدپہلے لکڑی کا کام اور بعد ازاں ایک ہوٹل پر کام کرتے تھے۔ محسن نقوی کے چھ بہن بھائی تھے۔ پرائمری تعلیم گھر کے قریب واقع پرائمری سکول نمبر 6 میں حاصل کی۔میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1جب کہ ایف اے اوربی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا۔ایم اے گورنمنٹ کالج بوسن روڈملتان سے کیا۔نامور شاعر پروفیسر اسلم انصاری محسن نقوی کے اُستاد تھے۔ غلام عباس نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا آغاز کیا تو اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا۔ ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی، عبد الحمید عدم اور کیف انصاری جیسے غزل گو شعراء سے رہنمائی حاصل کی ۔علامہ شفقت کاظمی کا شمار مولانا حسرت موہانی کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ابتدائی زمانے میں ہی محسن نقوی کی شاعری نے ہم عصروں کو متوجہ کیا۔محسن نقوی نے کسی سے باقاعدہ اصلاح تو نہ لی مگر علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استاد ضرور کہتے تھے۔ ملتان آنے کے بعد انہیں انواراحمد، عبدالرئو ف شیخ، فخر بلوچ ، صلاح الدین حیدر اور اصغرندیم سید جیسے دوستوں کی صحبت نصیب ہوئی ۔ یہ ان سب کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی،ثقافتی وسیاسی زندگی میں بہت تحرک تھا۔جلد ہی گھنگھریالے بالوں والا اور قہقہے بکھیرنے والا نوجوان محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان بن گیا۔ محسن نقوی نے 1969ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ’’ہلال‘‘ میںاور ملتان میں روزنامہ ’’امروز ‘‘ کے لیے باقاعدہ ہفتہ وار قطعات اور کالم بھی لکھے ۔ 1970ء میں ملک میں سیاسی گہما گہمی کا دَور تھا۔ترقی پسند سوچ رکھنے والے دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری سانس تک برقرار رہی۔اسی زمانے میں محسن نقوی نے ’’بندِ قبا‘‘کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ متعدد شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔جن میں عذابِ دید ، خیمہ ٔ جاں ، برگِ صحرا ، موجِ ادراک ، طُلوعِ اشک ، فُراتِ فکر ، ریزۂ حرف ، رخت ِ شب ، رِدائے خواب اور حق ایلیا شامل ہیں ۔ محسن نقوی کو اقبالِ ثانی کا خطاب بھی ملا۔ 1980ء میں محسن نقوی لاہورچلے گئے ۔لاہور کے ادبی مراکز میں انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیع مواقع میسر آئے۔محسن کی غزلیں اور نظمیںکافی مقبول ہوئیں اور وہ نئی نسل کے پسندیدہ شاعر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔اُس دور میں احمد ندیم قاسمی سے لیکر شہزاد احمد تک کئی نامور اُستاد شعرا موجود تھے۔محسن نقوی نے ان سب کی موجودگی میں اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے کی بدولت اپنی پہچان کرائی۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم اور رثائی ادب میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔’’دسمبر مجھے راس آتانہیں‘‘سمیت ان کی کئی نظمیں آج بھی ہرخاص وعام میں مقبول ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَورِ حکومت میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ غلام عباس المعروف محسن نقوی کو 15جنوری 1996ء میں اقبال ٹائو ن کی بارونق مون مارکیٹ لاہور میں قتل کر دیا گیا۔محبت اور امن کا شاعر نفرت اور دہشت گردی کا نشانہ بن کر اپنے ہی ایک شعر کی عملی تصویر بن گیا۔ ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے  محسن نقوی کا نمازِ جنازہ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے ناصر باغ لاہور میں پڑھائی۔ بعد ازاں اُردو کے عظیم شاعر محسن نقوی کواُن کے آبائی گاؤں ڈیرہ غازی خان میںسپردِ خاک کر دیا گیا ۔ ٭ محسن مکمل عصری شعور کے ساتھ شعر کہتے تھے ۔ معاشرتی اُتار چڑھائو بھی ان کی شاعری کا اہم موضوع تھا۔محسن نقوی کو شاعرِ اہلِ بیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری کو پورے پاکستان میںایک مقبولیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کوہر جگہ قبول کیا جاتا ہے اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ محسن نقوی نے شعری مجموعہ ’’ردائے خواب‘‘ کے دیباچے میںاپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیاہے ۔ بقول محسن نقوی:  ’’زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں‘‘۔ محسن کی شاعری میں صرف پیار و محبت اور لب و رُخسار کی باتیں شامل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا تھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔محسن نقوی نے فلم ’’بازاِ حسن‘‘ کے لیے ایک گیت ’’لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ لکھا اور بہترین فلمی گیت نگار کا ایوارڈحاصل کیا ۔ محسن نقوی نے شعرو ادب سے وابستہ رہ کر اُردو غزل میں ایک منفرد پہچان بنائی ۔انہوں نے فنی زندگی میں بامعنی شاعری لکھ کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔ محسن کو اپنی شاعری کے ذریعے زبردست پذیرائی ملی جو اکثر واقعات کربلا کے گرد گھومتی تھی جس نے انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی ۔  جداگانہ اُسلوب کے حامل محسن نقوی  ہمیشہ اپنی شاعری میں سیاست اور مذہب پر بات کرتے اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور کارکردگی پر بات کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی شاعری میں محبت کے معاملات پر قائم رہنے کے بجائے تنوع دکھانا تھا۔درحقیقت وہ ان حیرت انگیز شاعروں میں سے ایک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں : ک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں : اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر ٭ جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا -اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا ٭ 

پیر، 17 اپریل، 2023

سوہنی مہینوال کی المیہ رومانی داستان

 

 

کہا جاتا ہے کہ یہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد کی بات ہے۔ دریائے چناب کے کنارے آباد شہر گجرات ظروف سازی کے حوالے سے منفرد مقام و شہرت رکھتا تھا۔ دریاوں کے کناروں پر چکنی مٹی کی وافر مقدار نے ظروف سازوں کو ہمیشہ اپنے ہی رکھا۔اس دور میں گجرات کے ایک ظروف ساز کمہار عبداللہ المعروف” تلا ” کی کوزہ گری کا ڈنکا خوب بجتا تھا۔اس کے فنی کمالات کی بدولت اس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور وہ شہر کا دولتمند کاروباری شخص تھا۔ شہرت اور دولت کے ساتھ ساتھ قدرت نے اسے ایک خوبصورت بیٹی کی نعمت سے بھی نواز رکھا تھا۔ اس کا نام ہی سوہنی تھا۔ وہ نام کی ہی سوہنی نہیں تھی بلکہ پْرکشش حْسن و جمال کا پیکر تھی۔اس کی خوبصورتی کے چرچے بھی زبان زد عام تھے۔

اسی زمانے میں ازبکستان کے شہر بلخ بخارا میں ایک تاجر مرزا عالی نامی بہت دولتمند تھا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا لیکن وہ اولاد کی رحمت سے محروم تھا۔ ایک درویش بزرگ کی دعا سے اس کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ منت مراد کے حاصل اس خوبرو بچے کی پرورش بڑے ناز و پیار سے کی گئی۔ اچھی تربیت کے سبب یہ نوجوان بڑا ہنر مند, مشاق تیرانداز, اور موسیقی سے خصوصی رغبت رکھنے والا تھا۔ مرزا عالی اپنے بیٹے مرزا عزت بیگ کو سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا۔ عزت بیگ بڑا ہوا تو اس نے دہلی کی شہرت سن کر والد سے درخواست کی کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کے ہمراہ جا کر دہلی دیکھنا چاہتا ہے۔

والد نے بیٹے کو بھیجنے سے پس و پیش سے کام لیا لیکن اس کے اصرار پر اجازت دینا ہی پڑی۔ مرزا عزت بیگ اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ دلی آیا ,شاہی دربار سمیت شہر دیکھا۔بڑے تاجر کا بیٹا ہونے کے ناطے اسے بہت عزت اور احترام ملا۔دلی کے بعد اس نے قافلے کے ہمراہ دوسرے مشہور شہر دیکھنے کا بھی پروگرام بنایا۔اس طرح وہ لاہور دیکھنے پہنچا اور واپسی پر تھا کہ ایک شہر کے کنارے اسے شام ہو گئی تو قافلے نے دریائے چناب کے پاس پڑاوء کیا۔ قافلے والے تاجر ساتھیوں نے اسے بتایا کہ یہ چھوٹا مگر ظروف سازی کے حوالے سے مشہور شہر گجرات ہے اور یہاں کے تلا کمہار کے برتن ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بھی مشہور ہیں

ساتھ ہی اس کی بیٹی سوہنی کے حسن و جمال کا بھی بڑا ذکر کیا۔اس سے عزت بیگ کو سوہنی کو دیکھنے کا تجسس ہوا۔ اگلی صبح وہ برتنوں کی خریداری کے لیے تلے کمہار کی دکان پر پہنچا اور برتن دیکھنے لگا۔ اسے برتنوں سے کوئی دلچسپی تھی نہیں , عبداللہ کمہار کی صنعت گری کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا تھا۔وہ تو سوہنی کو دیکھنے آیا تھا اور سوہنی وہاں تھی ہی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد اچانک گھر والی طرف سے سوہنی بھی دکان پر آگئی۔ عزت بیگ نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔سوہنی اسے برتن دکھانے لگی۔ مگر عزت بیگ تو پہلی نظر میں ہی اپنا دل ہار بیٹھا تھا

یہ پہلی نظر کی محبت بھی عجیب چیز ہے۔سائنس اور طب کی آج تک کی ساری جدید تحقیق بھی پہلی نظر کی محبت کا علاج یا تریاق دریافت نہیں کر سکی۔ عزت بیگ سوہنی پر فریفتہ ہو گیا۔ چناب کے زرخیز کنارے ,اودھے نگری کی عشق خیز سرزمین پر محبت کا بیج ایک ہی ساعت میں لگا, اْگا ,اور پھل پھول گیا۔ عزت بیگ یہیں کا ہو کر رہ گیا .مال و اسباب کی فراوانی تھی چنانچہ اس نے دیدار یار کے لیے روزانہ کی بنیاد پر برتنوں کی خریداری شروع کر دی۔ جب ان کے پاس برتن کافی ہو گئے اور رکھنے کی جگہ نہیں رہی تو اس نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ ان کا کیا کیا جائے۔ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ انہیں فروخت کر دیتے ہیں۔

عزت بیگ کو بات پسند آئی اس نے بازار میں , تلا کمہار کی دُکان سے ذرا دور اپنی دکان لگا لی اور مہنگے داموں برتن  خرید کر انہیں سستے داموں بیچ دیا جاتا۔ آہستہ آہستہ ان کے پاس پیسے ختم ہونے لگےتو ایککمہار نے اسے رہنے کی جگہبھی دیاور گھریلو کام کاج کے لیے رکھ لیا اور پھر اسے بھینسیں چرانے کا کام دے دیا۔ پنجاب میں بھینسوں کو ’مہیں‘ کہتے ہیں اس لیے بھینسیں چرانے پر اسے مہینوال کہا جانے لگا یعنی بھینسیں چرانے والا۔ اسی دوران سوہنی کو بھی پوری طرح معلوم ہو گیا کہ عزت بیگ کی یہ حالت اس کی وجہ سے ہوئی ہے۔وہ اسکی تباہ حالی اور خستگی دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئی اور تڑپ کر رہ گئی۔لیکن سوہنی نے بالآخر مہینوال سےملاقات کا راستہ ڈھونڈ نکالا-

 سوہنی کے گھر والوں تک پہنچیں تو انہوں نے مہینوال کو نوکری سے نکال دیا اور سوہنی پر بھی سختی کر دی۔ عزت بیگ نوکری سے فارغ ہوا لیکن دل تو وہیں رہ گیا۔ چنانچہ وہ دریا کے دوسرے کنارے پر فقیر بن کر بیٹھ گیااور ارتوں کو سوہنی اس سے ملنے کے لئے آنے لگی لیکن ایک رات اس کا کچّا گھڑا دریا میں ڈالتے ہی ٹوٹ گیا اور سوہنی مہینوال کو آوازیں دیتے دیتے ڈوب گئ دوسری جانب مہینوال سوہنی کا منتظر تھا جب سوہنی نہیں آئ تو بھی دریا کے پانی اسے آوازیں دیتے ہوئے ڈوب گیا اور یہ لوک کہانی امر ہو گئ -کہا جاتا ہےکا کہنا ہے کہ رالیالہ گاوں کے قریب ہی سوہنی مہینوال ملتے تھے۔اس روز ڈوبتے وقت سوہنی نے رالیالہ کے لوگوں کو بد دعا دی تھی شاید اسی لیے آنے والے دنوں میں یہ گاوں دریا برد ہوگیا۔ لوگوں کے مطابق اب صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے۔رالیالہ اس وقت کی انتظامی تقسیم کے مطابق ٹپہ جیوا وڑائچ کا حصہ تھا۔جس میں اس وقت 18 دیہات شامل تھے۔

لوگ پوچھتے ہیں ان کی لاشیں کدھر گئیں ؟ کہا جا سکتا ہے کہ چناب کا بہاوء سوہنی مہینوال کی اجتماعی قبر بن گیا۔ تاہم اس حوالے سے بھی کئی روایات ہیں۔ پنجاب کے دریا ایک مقام پر دریائے سندھ میں ملتے ہیں اس لیے گمان یہی ہے کہ گہرے پانی کی تیز لہریں انہیں بہاتے ہوئے سندھ لے گئیں۔ سندھ کے شہر شہداد پور میں دو لاشیں پانی میں بہتی ہوئی ملیں جنہیں ایک بیان کے مطابق کچھ لوگوں کی شناخت کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ایک روایت کے مطابق دونوں کو اکٹھے ایک ہی جگہ دفن کیا گیا لیکن یہ روایت ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایات سے متصادم ہے اس لیے شہداد پور میں الگ الگ مقام پر دو قبریں ہیں۔

اتوار، 16 اپریل، 2023

کراچی کی قدیم مادرعلمی سندھ مدرسۃ الاسلام

 

 

۔ اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر ووائسرائے آف سندھ لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا

سندھ مدرسے نامور طلبہ میں قائد اعظم محمد علی جناح، سرعبداللہ ہارون، سر شاہنواز بھٹو، سر غلام حسین ہدایت اللہ خان، خان بہادر محمد، ایوب کھوڑو، شیخ عبدالمجید سندھی، علامہ آئی آئی قاضی، محمد ہاشم گزدر، غضنفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ، محمد ابراہیم جویو، جسٹس سجاد علی شاہ، قاضی محمد عیسی، رسول بخش پلیجو، اے کے بروہی، علی احمد بروہی، پیرالٰہی بخش، میر غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، غلام محمد بھر گڑی، علامہ علی خان ابڑو، جی الانہ، حکیم محمد احسن، موسیقار، سہیل رعنا، فلمسٹار ندیم، قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد علی چھاگلہ، میران محمد شاہ، قاضی فضل اللہ، لٹل ماسٹر، حنیف محمد اور بے شمار اہل علم شعرا، ادبا، وکلا، سیاست دانوں نے یہاں سے استفادہ کیا۔ اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر ووائسرائے آف سندھ لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا

1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو سال بعد قائد اعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ 1887ء سے 1897ء تقریباً ساڑھے چار سال اس ادارے سے وابستہ رہے۔ قائد اعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے اپنی وصیت میں اپنی جائداد کا ایک تہائی حصہ اس ادارے کے نام کر دیا تھا۔ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے21 جون 1943ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے دست مبارک سے کیا۔

اگر ہم کراچی کی سندھ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سی شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنہوں نے سندھ میں علم و ادب اور تہذیب ثقافت کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنی زندگیاں آنے والی نسل کے لئے وقف کردیں، ان میں،حسن علی آفندی، نارائن جگن ناتھ واڈیا ، دیا رام جیٹھ مل ، جمشید نسروانجی مہتا، ہوشنگ نادر شاہ ادولجی ڈنشا، بابائے اردو مولوی عبدالحق ،ایم اے قریشی، حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، پیر حسام الدین راشدی، علامہ غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، انیتا غلام اور دیگر شامل ہیں تعلیم کے میدان میں ایک تعلیمی ادارہ یکم ستمبر 1885 ء کو، سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں قائم کیا گیا، اس کو قائم کرنے کا مقصد مسلمانوں کے بچوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔

اس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام رکھا گیا، یہ عمارت کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے میں واقع ہے، ایک جانب آئی آئی چندریگر روڈ جبکہ دوسری جانب شاہراہ لیاقت ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کی جانب سے اگر سندھ مدرسے کی جانب آیا جائے تو حبیب بینک پلازہ کے عقب میں کراچی چیمبر آف کامرس کراچی کی تاریخی عمارت کے بالمقابل ہے، اس عمارت کے اطراف میں سٹی ریلوے اسٹیشن ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، نیشنل بینک آف پاکستان کا ہیڈ آفس اور میریدور ٹاور موجود ہے، اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر جنرل ووائسرائے آف انڈیا، لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا۔

یہ عمارت گوتھک طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے جس کا ڈیزائن کراچی میونسپلٹی کے انجینئر جیمس اسٹریجن نے بنایا تھا۔ سندھ مدرسے کی دوسری قدیم عمارت حسن علی آفندی لائبریری ہے۔ یہ عمارت 19ویں صدی کے آخری دنوں میں خیر پور ریاست کے ٹالپر حکمرانوں کی مالی معاونت سے پرنسپل ہائوس کے طور پر تیار کی گئی تھی۔ 1985ء میں اس عمارت کو لائبریری میں تبدیل کیا گیا تھا، آج اس لائبریری میں 20 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، جن میں ایک صدی قدیم کتابیں بھی شامل ہیں۔ سندھ مدرسے کی ایک اور خوبصورت عمارت تالپور ہائوس ہے جو ،جدید اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔

یہ عمارت بھی سندھ کے سابق ٹالپر حکمرانوں کی مالی اعانت سے جولائی 1901ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ ابتداء میں ٹالپر ہائوس سندھ مدرسے میں ٹالپر حکمرانوں کے زیر تعلیم بچوں کے لئے بورڈنگ ہائوس کے طور پر زیر استعمال تھا۔ قائداعظم اور دیگر شخصیات جو سندھ مدرسے سے وابستہ رہیں ان کے استعمال کی اشیاء اور نوادرات کیلئے جناح میوزیم بھی ہے۔ اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1887 ء سے 1892 ء تک اس ادارے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو سال بعد قائداعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ ساڑھے چار سال اس ادارے میں رہے۔ قائداعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے وصیت میں اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس ادارے کے نام کر دیا تھا۔سندھ مدرستہ الاسلام کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ، یونیورسٹی کے قیام کا بل دسمبر 2011 ء میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا اور 21 فروری 2012 ء کو اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا چارٹر منظور کیا اور یونیورسٹی کے قیام سے ایک صدی پرانے خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ 2012 ء میں ہی پہلے تعلیمی سیشن کا آغاز ہوا، مدرستہ الاسلام کا پہلا کیمپس کے طور پر ملیر کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے اور اس کے لئے سو ایکڑ زمین سندھ کی صوبائی حکومت نے بلامعاوضہ فراہم کی ہے، یہ تاریخی درس گاہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

اس کے شاندار ماضی کے سبب معروف ماہر تعلیم اور سندھ مدرستہ الاسلام کے سابق طالب علم غلام محمد مصطفی شاہ نے سندھ مدرستہ الاسلام کو طفل سندھ اور مادر پاکستان قرار دیا۔ آزادی کے رہنمائوں کے علاوہ سندھ مدرستہ الاسلام نے شاندار ماہر تعلیم ، قانون داں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھی پیدا کی، جن میں علامہ آئی آئی قاضی، علامہ عمر بن دائود پوتہ، اے کے بروہی، علی احمد بروہی، لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد اور دیگر شامل ہیں ،جنہوں نے اس ادارےکی ترقی میں مزید اضافہ کیا

ہفتہ، 15 اپریل، 2023

مفت آٹے کی تقسیم میں بھگدڑ

  

ساہیوال کے قائد اعظم اسٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 خواتین جاں بحق جب کہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ 19 زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری اور ضلع انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا ہے۔

بھگدڑ مچنے اور خواتین کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے آٹے کی فراہمی روک دی جس پر وہاں آنے والی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں مرگئیں مگر پھر بھی آٹا نہیں دیا جا رہا ہے۔ آج یہاں سے آٹا لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس حوالے سے کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے کے باعث آٹے کی ترسیل کو روکا گیا ہے۔جہانیاں میں بھی مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے ایک بزرگ خاتون جاں بحق جب کہ دو خواتین بے ہوش ہوگئیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت رشیداں بی بی کے نام سے ہوئی ہے۔ خاتون کی ہلاکت کے بعد افسران آٹا پوائنٹ سےغائب ہو گئے۔

ٹبہ سلطان پور میں شدید بدنظمی اور بھگدڑ مچنے سے 4 خواتین بے ہوش ہوگئیں جب کہ سیکیورٹی نہ ہونے پر انتظامیہ آٹے کی فراہمی بند کرکے فرار ہوگئی۔ آٹا نہ ملنے پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں احتجاج کیا۔سرائےعالمگیر میں بزرگ خاتون رش کے باعث گر کر زخمی ہوگئی، بہاولنگر میں ڈونگہ بونگا بنگلہ سینٹر پر آٹا پوائنٹ پر بدنظمی کے باعث تین خواتین بے ہوش ہوگئیں شہریون نے آٹا فراہمی کی بندش پر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دے کر مین ہائی وے ہارون آباد روڈ بلاک کر دیا۔ 

ساہیوال کے قائد اعظم اسٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 خواتین جاں بحق جب کہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ 19 زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری اور ضلع انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا ہے۔

بھگدڑ مچنے اور خواتین کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے آٹے کی فراہمی روک دی جس پر وہاں آنے والی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں مرگئیں مگر پھر بھی آٹا نہیں دیا جا رہا ہے۔ آج یہاں سے آٹا لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس حوالے سے کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے کے باعث آٹے کی ترسیل کو روکا گیا ہے۔ 

جہانیاں میں بھی مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے ایک بزرگ خاتون جاں بحق جب کہ دو خواتین بے ہوش ہوگئیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت رشیداں بی بی کے نام سے ہوئی ہے۔ خاتون کی ہلاکت کے بعد افسران آٹا پوائنٹ سےغائب ہو گئے۔ٹبہ سلطان پور میں شدید بدنظمی اور بھگدڑ مچنے سے 4 خواتین بے ہوش ہوگئیں جب کہ سیکیورٹی نہ ہونے پر انتظامیہ آٹے کی فراہمی بند کرکے فرار ہوگئی۔ آٹا نہ ملنے پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں احتجاج کیا۔

سرائےعالمگیر میں بزرگ خاتون رش کے باعث گر کر زخمی ہوگئی، بہاولنگر میں ڈونگہ بونگا بنگلہ سینٹر پر آٹا پوائنٹ پر بدنظمی کے باعث تین خواتین بے ہوش ہوگئیں شہریون نے آٹا فراہمی کی بندش پر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دے کر مین ہائی وے ہارون آباد روڈ بلاک کر دیا۔خانیوال میں لائیواسٹاک دفتر میں قائم مفت آٹا پوائنٹ پر شدید بدنظمی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 60 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

حاصل پور میں آٹا سیل پوائنٹ پر مفت آٹا لینے کے لیے آنے والے شہریوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکم پیل کے باعث عیدگاہ آٹا پوائنٹ کی دیوار گرگئی جب کہ بدنظمی کی وجہ سے ایک خاتون بیہوش ہوگئی۔ چیچہ وطنی میں  بھی مشتعل خواتین نے آٹا نہ ملنے پر بائی پاس روڈ بلاک کر دیا اور پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔ لیاقت پور میںض مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے 73 سالہ بزرگ محمد انور کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔اس کے علاوہ ٹانک، دیپالپور، قائد آباد، بصیر پور، شجاع آباد ودیگر علاقوں میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں خواتین زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔

خانیوال میں لائیواسٹاک دفتر میں قائم مفت آٹا پوائنٹ پر شدید بدنظمی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 60 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

حاصل پور میں آٹا سیل پوائنٹ پر مفت آٹا لینے کے لیے آنے والے شہریوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکم پیل کے باعث عیدگاہ آٹا پوائنٹ کی دیوار گرگئی جب کہ بدنظمی کی وجہ سے ایک خاتون بیہوش ہوگئی۔ چیچہ وطنی میں  بھی مشتعل خواتین نے آٹا نہ ملنے پر بائی پاس روڈ بلاک کر دیا اور پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔ لیاقت پور میںض مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے 73 سالہ بزرگ محمد انور کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

اس کے علاوہ ٹانک، دیپالپور، قائد آباد، بصیر پور، شجاع آباد ودیگر علاقوں میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں خواتین زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔درخواست میں کہا گیا کہ حکومت نے مفت آٹے کی تقسیم کا طریقہ کار انتہاٸی ناقص ہے جس کی وجہ سے عوام میں پریشانی کے باعث بھگدڑ مچ جاتی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ تقسیم کے ناقص طریقہ کار پر ذمہ داروں کے خلاف کاررواٸی کا حکم دیا جائے جبکہ آٹے کا معیار بھی عالمی لیب سے چیک کروانے کی استدعا کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ گئی تھی جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اندوہناک واقعہ کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں واقع فیکٹری میں پیش آیا تھا جہاں راشن کی تقسیم کی جارہی تھی، تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 3 بچوں اور خواتین سمیت 11 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد خواتین بے ہوش ہوگئیں۔

سورج اور چاند زمین کے مدار میں

 

مکمل سورج گرہن

مکمل سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں آجائے لیکن کچھ اس طرح کہ چاند کا زمین سے فاصلہ اتنا ہو کہ وہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لے، مکمل سورج گرہن میں چاند سورج کا 'روشن کرّہ' یعنی فوٹو سفئیر ڈھانپ لیتا ہے لیکن سورج کی فضا، جسے "کورونا" کہا جاتا ہے، نظر آنے لگتی ہے جو کہ ایک دلکش منظر ہوتا ہے کیونکہ روشن کرّے کی موجودگی میں کورونا کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کورونا ہی وہ جگہ ہے جہاں سورج کے دھماکے ہوتے ہیں اور پلازما سورج کے اطراف میں پھیل جاتا ہے۔ مکمل سورج گرہن میں سورج کو چاند کے مکمل ڈھانپنے کو ہی مثال بنا کر شمسی سائنسدان بھی جب تحقیق کے لیے سورج کی تصویر لیتے ہیں تو سورج کے روشن کرّے کو اسی طرح ڈھانپ کر اس کی فضا کی جانچ کرتے ہیں۔

جزوی سورج گرہن جزوی سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب پورا چاند زمین اور سورج کے مدار کی سیدھ میں نہ ہو، اس وجہ سے جب چاند سورج کے سامنے سے گزرتا ہے تو چاند کا کچھ حصّہ ہی سورج کو ڈھانپتا ہے۔حلقہ نما سورج گرہن

حلقہ نما سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں تو آجائے لیکن اپنے مدار کے اس مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی باشندوں کے لیے چاند مکمل طور پر سورج کے روشن کرے کو ڈھانپ نہ پائے، اس کے نتیجے میں سورج کا درمیانی حصّہ چھپ جاتا ہے جبکہ اطراف میں روشن حلقہ بن جاتا ہے۔کراچی: سورج اور چاند گرہن کیوں ہوتا ہے اور اس سلسلے میں سائنس کیا کہتی ہے اس بات سے شاید کم ہی لوگ واقف ہوں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ چاند اور سورج کو گرہن کب اور کن وجوہات کی بنا پر لگتا ہے۔

سورج گرہن کی تاریخ

سورج گرہن کو قدیم و جدید مذاہب میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھا جاتا ہے جب کہ بعض مذاہب میں اسے منحوس بھی سمجھا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک سورج کا گرہن لگنا اللہ کی بندوں سے ناراضی کی نشانی ہے۔اسلام میں سورج گرہن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’سورج اور چاند اللہ کے متعین کردہ راستے پر چل رہے ہیں اور گردش میں ہیں‘‘۔ سائنسی حقیقت میں بھی اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سورج اور چاند زمین کے گرد اپنے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔

سورج / چاند گرہن میں اسلامی احکامات

سورج گرہن کے وقت اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ’’صلوۃ کسوف‘‘ ادا کرو جس کا اردو ترجمہ ’’نمازِ خوف‘‘ کے ہیں جب کہ چاند گرہن کے وقت کسی بھی خاص عبادت کا حکم نہیں دیا گیا۔سورج گرہن کب ہوتا ہے؟

زمین پر سورج گرہن اُس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کے دوران سورج اور زمین کے درمیان میں آجاتا ہے، جس کے بعد زمین سے سورج کا کچھ یا پھر پورا حصہ نظر نہیں آتا۔چاند کا زمین سے جتنی مسافت کا راستہ ہے اُس سے 400 گنا زیادہ راستہ سورج اور چاند کے درمیان ہے اس لیے زمین سے سورج گرہن واضح طور پر نہیں دیکھا جاتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سورج گرہن کو پوری دنیا میں دیکھا جاسکے۔

سائنسدان سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور دراز سے سفر طے کرکے گرہن زدہ خطے میں جاتے ہیں کیونکہ مکمل سورج گرہن ایک علاقے میں تقریباً 370 سال بعد دوبارہ آسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ 7 منٹ چالیس 40 تک برقرار رہتا ہے، البتہ جزوی سورج گرہن کو سال میں کئی بار دیکھا جا سکتا ہے۔

زمین کو مکمل سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند کا فاصلہ زمین سے اتنا ہو کہ جب وہ سورج کے سامنے آئے تو سورج مکمل طور پر چھپ جائے چونکہ چاند اور زمین کے مدار بیضوی ہیں اس لیے کے مدار چاند کا زمین سے فاصلہ بدلتا رہتا ہے اس لیے ہر دفعہ مکمل سورج گرہن نہیں لگتا۔مکمل سورج گرہن کے وقت چاند کا فاصلہ زمین سے نسبتاً کم ہوتا ہے، سورج کے مکمل چھپ جانے کی وجہ سے خطے میں نیم اندھیرا ہو جاتا ہے اور دن کے وقت ستارے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں مگر یہ گرہن ایک مقام پر سات منٹ چالیس سیکنڈ تک ہی ہوتا ہے اور اکثر اس کا دورانیہ کم بھی ہوتا ہے، زمین کے جس خطے میں مکمل سورج گرہن لگتا ہے وہاں دوبارہ 340 سال بعد اس طرح کا گرہن لگنے کے اثرات ہوتے ہیں۔

حلقی سورج گرہن

زمین پر حلقی سورج گرہن اُس وقت لگتا ہے کہ جب چاند سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے مگر اس کا سورج سے فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ سورج کو مکمل طور پر چھپا نہیں سکتا۔ اس صورتِ حال میں چاند کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور سورج کی روشنی زمین پر پڑتی ہے۔

مخلوط سورج گرہن

زمین پر بعض اوقات سورج گرہن اس طرح نظر آتا ہے کہ بعض جگہ پر مکمل سورج گرہن نظر آتا ہے اور کسی مقام پر مخلوط نظر آتا ہے، اس صورت میں حلقی سورج گرہن کا حلقہ بہت باریک ہوتا ہے اس لیے زمین پر مخلوط قسم کے سورج گرہن بہت کم نظر آتے ہیں۔

جزوی سورج گرہن

یکم اگست 2008 کو پاکستان میں نظر آنے والا سورج گرہن

جزوی سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند اور سورج ایک دوسرے کے سامنے نہ ہوں اور چاند جزوی طور پر سورج کو زمین سے چھپا رہا ہو۔ ایسی صورتحال میں ممکن ہے کہ زمین کے مختصر حصے پر سورج گرہن اور ایک بڑے حصے پر جزوی گرہن نظر آئے۔

سورج گرہن کس تاریخ کو ہوتا ہے؟

کسی بھی چاند اور سورج گرہن میں 13.9 سے 15.6 دن کا فرق ہوتا ہے، اسلامی مہینے کی تاریخ کے حساب سے چاند کو گرہن 13، 14 یا 15 کو  جبکہ سورج گرہن 28 یا 29 کو ہوتا ہے۔

اب تک دیکھا جانے والا سب سے طویل سورج گرہن

اب تک کا سب سے لمبا سورج گرہن سن 1999 میں یورپ میں دیکھا گیا ہے اور  یہ تاریخ میں اب تک کا سب سے دیر تک نظر آنے والا سورج گرہن تھا۔

سورج گرہن کی اقسام

مکمل سورج گرہن

حلقی سورج گرہن

مخلوط سورج گرہن

جزوی سورج گرہن

مکمل سورج گرہن

حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ

 


حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ -     امام علی نقی علیہ السلام کے دو بیٹے سید علی اور سید احمد عباسی خلیفہ کی دشمنی سے بچنے کے لیے مدینہ سے ہجرت کر کے ازبکستان کے شہر بخارا میں آ گئے۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کے شہر کا انتخاب کیا - یہ خواجہ نظام الدین کے والد گرامی تھے، خدا ان کو سلامت رکھے، جن کی اولاد کو نقوی سادات کہا جاتا ہے - اور جو شہر بخارا میں رہے انہیں بخاری کہا جاتا ہے، جو حضرت سلطان کی اولاد ہیں۔ المشائخ محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء۔ وہ یوپی کے مشہور شہر بدایوں میں صفر کے آخری بدھ کو پیدا ہوئے۔ . والدین: حضرت کی والدہ اور والدہ دونوں نہایت نیک اور پرہیزگار بزرگ تھے۔ والدہ کا نام سیدہ بی بی زلیخا اور والد کا نام گرامی سید احمد تھا۔ ایک ماں کا خواب: سیدہ بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالیٰ نے دو بچوں سے نوازا۔

  ایک سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے نام سے مشہور ہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے دادا "سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ"  اور ان کے چچا زاد بھائی "حضرت سید عرب رحمتہ اللہ علیہ (آپکے نانا)" دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوۓ تھے-  والدین:آپکے نانا سید عرب کی صاحبزادی "سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا (آپکی والدہ ماجدہ)"  جو زھد و تقوی میں کمال درجہ رکھتی تھیں-عبادت گزار اور شب بیدار تھیں-اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں-ان کو اپنے وقت کی "رابعہ عصری" کہا جاتا تھا- آپکے دادا حضرت سید علی بخاری کے صاحبزادے "سید احمد (آپکے والد ماجد)"  جو  نیک سیرت اور صاحب فضل و کمال تھے-آپکے دادا "حضرت سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ"  اور آپکے نانا "سید عرب بخاری رحمتہ اللہ علیہ" دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے-دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سےاپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوۓ "حضرت سید احمد علی رحمتہ اللہ علیہ"   کی شادی "حضرت سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا" سے کردی-

* کم سِنی ہی میں والد ماجد کا وصال ابھی حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا-لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا  نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ کی مادر گرامی حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا ایک امیر و کبیر بزرگ حضرت خواجہ عرب علیہ الرحمہ کی صاحبزادی تھیں - لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے کی جانب نگاہ نہ کی-جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے۔آپ دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرادیتیں۔اس طرح جو کچھ رقم حاصل ہوتی، اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں ایک فاقہ ضرور ہوجاتا-جس روز فاقہ ہوتا اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا  بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں۔’’بابا نظام! آج ہم سب اﷲ کے مہمان ہیں‘‘

حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا  کا بیان ہے کہ میں جس روز "سید محمد" سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اﷲ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے۔ سارا دن فاقے کی حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوئی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح مطمئن رہتے کہ اﷲ کی مہمانی کا ذکر سن کر انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو۔پھر جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنی محترم ماں کے حضور عرض کرتے

’’مادر گرامی! اب ہم کس روز اﷲ کے مہمان بنیں گے؟‘‘ والدہ محترمہ جواب دیتیں’بابا نظام! یہ تو اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں اپنا مہمان بنالے گا‘‘حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی کی زبان سے یہ وضاحت سن کر چند لمحوں کے لئے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ دعا مانگتے۔

’’اے اﷲ! تو اپنے بندوں کو روزانہ اپنا مہمان بنا‘‘

ﷲ کی مہمانی کا واضح مطلب یہی تھا کہ اس روز فاقہ کشی کی حالت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پانچ سال کی عمر میں یہ دعا، یہ خواہش اور یہ آرزو! اہل دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی… مگر وہ جنہیں اس کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا- وہ اس راز سے باخبر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا تھا-اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ انتہائی کم سنی کے عالم میں اﷲ کا مہمان بننے کی آرزو کیوں کرتے تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم:

 آپ پر اللہ کا  فضل و کرم تھا اس لئے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کر لیا-اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت اختیار فرمائی-آپ کے استاد محترم مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علمی ذوق کو دیکھتے ہوۓ آپ پر خصوصی توجہ دی- ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقہ حنفی کی مشہور کتاب "قدوی" ختم کی-* دستار فضیلت:جب امام قدوری علیہ الرحمہ کی  کتاب قریب الختم تھی-تو ایک دن آپ کے استاد محترم مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ نے حضرت نظام الدین علیہ الرحمہ سے فرمایا۔’’سید! اب تم ایک منقبت اور بڑی کتاب ختم کررہے ہو۔ اس لئے تمہیں لازم ہے کہ اپنے سر پر دانشمندی کی دستار بندھواؤ‘‘حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا اپنے فرزند کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں -پھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے   اس عظیم کتاب کو ختم کرلیا۔

 اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا نے کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علماء کو دعوت دی۔جب بدایوں کے ممتاز و جلیل القدر علماء جمع ہوچکے تو "مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ"  نے اپنے شاگرد کے سر پر دستار فضیلت باندھی ۔ حاضرین نے اس مجلس روحانی میں بڑا جانفزا منظر دیکھا۔ زمانۂ حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کررہا تھا۔دستار بندی کے بعد "مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ" نے "حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ" سے دعا کی درخواست کی۔

"حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ"  نے ایک نظر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی طرف دیکھا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے۔خلفاء:

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے تقریبا"  700 صاحب ِ حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔

چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں-

 • حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

* جانشین و خلٰیفہ اکبر:

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ"  کو طلب کیا-

 اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے-

انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔

انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔

* تصانیف:

 * راحت القلوب

(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)

مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،

*افضل الفوائد

(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)

* فوائدالفواد

(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ الرحمۃ)

• سیر الاولیاء

* وصال:

خواجہ نظام الدین اولیاء نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا-

 * مزارِ پر انوار:

آپ کا مزارِ پر انوار دہلی میں لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔

مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔

نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں ۔ ۔ سراج دو عالم شدہ بالیقیں ۔ ۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب ۔ ۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( ۷۲۵ھ - 1324ء ) :

خلفاء:

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے تقریبا"  700 صاحب ِ حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔

چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں-

 • حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

* جانشین و خلٰیفہ اکبر:

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ"  کو طلب کیا-

 اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے-

انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔

انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔

* تصانیف:

 * راحت القلوب

(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)

مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،

*افضل الفوائد

(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)

* فوائدالفواد

(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ الرحمۃ)

• سیر الاولیاء

* وصال:

خواجہ نظام الدین اولیاء نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا-

 * مزارِ پر انوار:

آپ کا مزارِ پر انوار دہلی میں لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔

مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔

نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں ۔ ۔ سراج دو عالم شدہ بالیقیں ۔ ۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب ۔ ۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( ۷۲۵ھ - 1324ء ) :

جمعہ، 14 اپریل، 2023

پچاسی فیصد شیعہ مسلمانو٘ں کی ریاست ''آزر بائجان ''

 

 

آذربائیجان (Azerbaijan) جس کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع اس ملک کے مشرق میں بحیرہ قزوین، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اور ترکی، شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ آذربائیجان کے جنوب مغرب میں واقع نگورنو کاراباخاور سات مزید اضلاع نگورنو کاراباغ کی 1994ء کی جنگ کے بعد سے آرمینیا کے قبضے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چار قراردادوں نے آرمینیا سے کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی سرحد سے اپنی فوجیں ہٹا لے۔ ملکی رقبے میں تیس مربع کلومیٹر کے لگ بھگ کے چند جزائر بھی ہیں جو بحیرہ قزوین میں واقع ہیں۔

آذربائیجان کے موجودہ علاقے میں قدیم ترین انسانی آثار پتھر کے زمانے تک کے ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف غاروں میں محفوظ ہیں۔ شراب کی صراحیاں جو خشک ہو چکی ہیں، شہر خاموشاں اور مقابر میں ملی ہیں۔ یہ شراب تانبے کے دور میں بنائی جاتی تھی۔جنوبی قفقاز کو اکامینڈس نے 550 قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور اس سے زرتشتی مذہب کو فروغ ملا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد یہاں دیگر ملحقہ علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔عرب اموی خلیفہ نے ساسانیوں اور بازنطینیوں کو شکست دے کر قفقازی البانیہ کو فتح کر لیا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سالاریوں، ساجدی، شدادی، راوادی اور بائیدیوں کے قبضے میں رہا۔ 11 ویں صدی عیسوی کی ابتدا میں وسط ایشیا سے آنے والے ترک اوغدائی قبیلوں نے بتدریج اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ ان بادشاہتوں میں سے پہلی بادشاہت غزنویوں کی تھی جنھوں نے 1030 میں اس علاقے پر قبضہ جمایا۔

بعد میں آنے والے سلجوقیوں پر اتابک نے فتح پائی۔ سلجوقیوں کے دور میں مقامی شعرا جیسا کہ نظامی گنجوی اور خاگانی شیروانی نے فارسی ادب کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ سب آج کل کے آذربائیجان میں ہوا۔ اس کے بعد یلدرمیوں نے مختصر قیام کیا اور ان کے بعد امیر تیمور آئے۔ جس کی مدد نوشیرواں نے کی۔ امیر تیمور کی موت کے بعد یہ علاقہ دو مخالف ریاستوں میں بٹ گیا۔ ان کے نام کارا کوئینلو اور اک کوئینلو تھے۔اک کوئینلو کی موت کے بعد سلطان اذن حسن نے آذربائیجان کی پوری ریاست پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواں شاہوں کے پاس آیا جنھوں نے 861 سے 1539تک بطور خود مختار مقامی حکمران کے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ شیروانیوں کے بعد صفویوں کی باری آئی اور انہوں نے شیعہ اسلام اس وقت کی سنی آبادی پر زبردستی لاگو کیا۔ اس ضمن میں انہیں سنی عثمانیوں سے جنگ بھی کرنا پڑی۔

کچھ عرصہ بعد صفویوں کے زوال کے بعد کئی خانوں نے مقامی طور پر اینی حکومتیں قائم کر لیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہو گیا۔ ترکمانچی کے معاہدے کے بعد کئی علاقوں پر روسی قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب روس کے زوال کا وقت آیا تو آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ متحدہ ریاست قائم کی جو مختصر عرصہ تک قائم رہی۔ مئی 1918ء میں یہ ریاست ختم ہوئی اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور اپنا نام عوامی جمہوریہ آذربائیجان رکھا۔ اس ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دو سال بعد روسیوں نے اس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ مارچ 1922ء میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھایک نئی ٹرانس کاکیشیئن ایس ایف ایس آر بنائی جو روسی فیڈریشن کے ماتحت تھی۔ 1936ء میں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ 

ریپبلک کے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔آذر بائیجان کا آفیشل نام ریپبلک آف آذر بائیجان ہے۔ آذر بائیجان کا نام فارسی اور ترکش زبان سے نکلا ہے۔ آزر کہتے ہیں ”آگ“ کو اور ”بائیجان“ کا مطلب حفاظت کرنے والے یعنی آگ کی حفاظت کرنے والوں کا ملک۔ اس ملک کا 92 فی صد رقبہ ایشیا اور 5 فی صد رقبہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔اس ملک کو آگ کی حفاظت کرنے والا ملک کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اقمنڈس نے 550 قبل مسیح میں اس خطے پر فتح حاصل کی تھی اور اسی کی وجہ سے یہاں مجوسی، یعنی آگ کے بجاری مذہب کے ماننے والوں کی ترویج ہوئی۔ جس کی جھلک آج بھی جا بجا نظر آتی ہے، تاریخی طور پر یہ خطہ قفکاضی البانیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پانچویں صدی قبل مسح میں آگ کے پجاریوں نے حکومت بنائی۔ چوتھی صدی قبل مسح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد، یہاں دیگر ملحق علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔ عرب اموی خلیفہ نے ساسیوں اور باذر بینیوں کو شکست دے کر قفکاضی البانیا کو فتح کیا تھا۔

عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سلاریوں کے قبضوں میں چلا گیا۔ گیارہویں صدی میں یہاں پر ترک قبیلوں نے قبضہ جمایا۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواساحوں کے پاس آ گیا، جنہوں نے 861 سے 1539 تک حکومت کی۔ تاریخی حوالوں سے 15 صدی سے قبل آذر بائیجان سنی اکثریتی ملک تھا، جب کہ 16 صدی میں شاہ اسماعیل صفوی نے اقتدار سنبھالا، جس کے بعد یہاں پر شیعہ مسلمان مذہب اسلام کو فروغ ملا۔1918ء میں اس خطے پر روس نے قبضہ کر لیا۔ 70 سال تک سویت یونین کی غلامی میں رہنے کے بعد، 1991ء میں سوویے یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد آذر بائیجان کو آزادی کا سورج دیکھنے کو ملا۔ اسی وجہ سے آذر بائیجان کے لوگ ہر سال 30 اگست کو اپنا آزادی کا دن مناتے ہیں۔مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک آذر بائیجان ہے۔ اس کے مشرق میں بحریہ قزوین، شمال میں روس، شمال مغرب میں جارجیا اور ترکی، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا واقع ہے۔ آذر بائیجان میں 80 فی صد آبادی شیعہ مسلمانوں کی ہے لیکن یہ ملک سیکولر ملک کہلاتا ہے

آذر بائیجان کے 7 اضلاع پر 1994ء میں آرمینیا نے قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ آرمینیا کے قبضہ کے آگے آج تک کچھ نہ کر سکا۔ آرمینیا عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں۔ ان کی 97 فی صد آبادی عیسائی ہے۔ بلآخر آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان آج اکتوبر 2020ء میں جنگ جیسا ماحول بن چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق آرمینیا سے چند علاقے جنگ کر کے واپس لے لئے گے ہیں، لیکن درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تاحال جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں پاکستان اور ترکی آذر بائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر طرح سے وسائل مہیا کرنے کو بھی تیار ہیں۔آذربائیجان تیل او گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ آذر بائیجان میں گیس کے پہاڑ بتائے جاتے ہیں، جہاں سے ہر وقت گیس ہی نکلتی رہتی ہے۔ کچھ اس سرزمین کو اسی وجہ سے ”لینڈ آف فائر“ بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا پہلا ملک ہے، جہاں 1847ء میں پہلی مرتبہ خام تیل نکالا گیا تھا۔ یہاں خام تیل کو ”نفتالن“ بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ خام تیل سے غسل کرتے ہیں۔ موسم بہار، موسم خزاں میں یہاں کے تمام ہوٹل سیاحوں کی وجہ سے بک ہو جاتے ہیں۔

کیوں کہ سیاحوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خام تیل سے غسل کر سکیں، ان کا کہنا یہ ہے یہ عمل غسل 70 سے زائد بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ 12 صدی کا قصہ سناتے ہیں کہ ایک کارواں کا اونٹ بیمار ہو گیا، وہ اس کو وہیں چھوڑ کر چلے گے۔ بیمار ہونٹ کے پاس تیل کا وافر ذخیرہ موجود تھا۔ بیمار اونٹ اس میں گر گیا۔ کچھ ہفتے بعد جب وہ کارواں لوٹا تو اسی اونٹ کو بالکل تندرست پایا، تب سے لوگوں نے خام تیل کو آب شفا سمجھ کر نہانے شروع کر دیا ہے۔2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق، آذر بائیجان کی کل آبادی ایک کروڑ 46 لاکھ پانچ سو 16 افراد پر مشتمل ہے، اور اس ملک میں بے روزگاری کی شرح 13.4 فی صد کے قریب ہے۔ یہیں دنیا کا سب سے بڑا KFC بھی ہے، یہاں تعلیم کی شرح 99.8 فی صد ہے۔ یہاں کی سب سے مشہور بلڈنگ کیپسین کے کنارے واقع ہے۔ ہوٹل کی عمارت آگ کے شعلوں کے مانند دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے اس ہوٹل کو ”فلیم ٹاور“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آذر بائیجان کے دار الحکومت باکو کی جدید ترین عمارت تصور کی جاتی ہے۔ اس عمارت کو ”لینڈ آف فائر“ کے نظریے کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔

یہ ایک مسلم ملک ہے لیکن یہاں عام طور پر لڑکیاں یورپی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ یہاں خواتین میں پردے کا رواج نہیں دیکھا جاتا۔ شاید اسی لئے یہاں ایک ہزار سے زائد ایڈز کے مریض بھی پائے جاتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کی وجہ سے یہ ملک سیاحوں کے حوالے سے جنت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور ایران، وہ ممالک ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے اس ملک کو تسلیم کیا تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کی طرح آج تک آرمینیا کو آزاد ملک کے طور تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس ملک کا سب سے بڑا تہوار جشن نوروز ہے۔آذر بائیجان میں ایک ایسا پھول بھی پایا جاتا ہے، جو پانچ وقت کی اذان کے وقت کھل اٹھتا ہے۔ لال شہباز قلندر کے نام سے شہرت پانے والے بزرگ سید عثمان مروندی بھی اسی ملک کے گاؤں مروند میں پیدا ہوئے تھے۔ آذر بائیجان تاریخی اعتبار سے ایک مسلمان ملک ہے،جس کے اوپر یورپ کی تمدّن کی پوری پوری چھاپ ہے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر