دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک وقت آنے پر مر جانا ہے لیکن محسن نقوی وہ فرد واحد ہیں جو مر کے جی اٹھے ہیں اور یہ جاوداں مرتبہ ان کو کربلا کی شاعری نے دیا -ہےمحسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ ان کی تصانیف میں بند قب اِ، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب ،ریزہ حرف ، موج ادراک اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر
نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن
نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں اِک ”عکس“
تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے
دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے
۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی
طرح بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے
جا چکے ہیں۔ محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا - 1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں
صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔ اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا
کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔
محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ
اہل بیت سے منسوب ہے۔ انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ
صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان
کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ
انہوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔
ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔ اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم
تحریکِ طالبان،سپاہ صحابہ اور اس کی ذیلی شاخوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرناشروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا
چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ
زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو
شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ سفر تو خیر کٹ گیا میں کرچیوں میں بٹ گیا۔ محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی
دونوں پہلو شامل
تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐکی شان میں کی گئی شاعری بنی۔
شعر و ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام محسن نقوی 5 مئی 1947ء میں سید چراغ حسین شاہ کے ہاں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔والدین نے ان کا نام غلام عباس رکھا ۔ ان کا تعلق ایک عام اور کم آمدنی والے گھرانے سے تھا۔ ان کے والدپہلے لکڑی کا کام اور بعد ازاں ایک ہوٹل پر کام کرتے تھے۔ محسن نقوی کے چھ بہن بھائی تھے۔ پرائمری تعلیم گھر کے قریب واقع پرائمری سکول نمبر 6 میں حاصل کی۔میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1جب کہ ایف اے اوربی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا۔ایم اے گورنمنٹ کالج بوسن روڈملتان سے کیا۔نامور شاعر پروفیسر اسلم انصاری محسن نقوی کے اُستاد تھے۔ غلام عباس نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا آغاز کیا تو اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا۔ ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی، عبد الحمید عدم اور کیف انصاری جیسے غزل گو شعراء سے رہنمائی حاصل کی ۔علامہ شفقت کاظمی کا شمار مولانا حسرت موہانی کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ابتدائی زمانے میں ہی محسن نقوی کی شاعری نے ہم عصروں کو متوجہ کیا۔محسن نقوی نے کسی سے باقاعدہ اصلاح تو نہ لی مگر علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استاد ضرور کہتے تھے۔ ملتان آنے کے بعد انہیں انواراحمد، عبدالرئو ف شیخ، فخر بلوچ ، صلاح الدین حیدر اور اصغرندیم سید جیسے دوستوں کی صحبت نصیب ہوئی ۔ یہ ان سب کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی،ثقافتی وسیاسی زندگی میں بہت تحرک تھا۔جلد ہی گھنگھریالے بالوں والا اور قہقہے بکھیرنے والا نوجوان محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان بن گیا۔ محسن نقوی نے 1969ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ’’ہلال‘‘ میںاور ملتان میں روزنامہ ’’امروز ‘‘ کے لیے باقاعدہ ہفتہ وار قطعات اور کالم بھی لکھے ۔ 1970ء میں ملک میں سیاسی گہما گہمی کا دَور تھا۔ترقی پسند سوچ رکھنے والے دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری سانس تک برقرار رہی۔اسی زمانے میں محسن نقوی نے ’’بندِ قبا‘‘کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ متعدد شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔جن میں عذابِ دید ، خیمہ ٔ جاں ، برگِ صحرا ، موجِ ادراک ، طُلوعِ اشک ، فُراتِ فکر ، ریزۂ حرف ، رخت ِ شب ، رِدائے خواب اور حق ایلیا شامل ہیں ۔ محسن نقوی کو اقبالِ ثانی کا خطاب بھی ملا۔ 1980ء میں محسن نقوی لاہورچلے گئے ۔لاہور کے ادبی مراکز میں انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیع مواقع میسر آئے۔محسن کی غزلیں اور نظمیںکافی مقبول ہوئیں اور وہ نئی نسل کے پسندیدہ شاعر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔اُس دور میں احمد ندیم قاسمی سے لیکر شہزاد احمد تک کئی نامور اُستاد شعرا موجود تھے۔محسن نقوی نے ان سب کی موجودگی میں اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے کی بدولت اپنی پہچان کرائی۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم اور رثائی ادب میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔’’دسمبر مجھے راس آتانہیں‘‘سمیت ان کی کئی نظمیں آج بھی ہرخاص وعام میں مقبول ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَورِ حکومت میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ غلام عباس المعروف محسن نقوی کو 15جنوری 1996ء میں اقبال ٹائو ن کی بارونق مون مارکیٹ لاہور میں قتل کر دیا گیا۔محبت اور امن کا شاعر نفرت اور دہشت گردی کا نشانہ بن کر اپنے ہی ایک شعر کی عملی تصویر بن گیا۔ ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے محسن نقوی کا نمازِ جنازہ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے ناصر باغ لاہور میں پڑھائی۔ بعد ازاں اُردو کے عظیم شاعر محسن نقوی کواُن کے آبائی گاؤں ڈیرہ غازی خان میںسپردِ خاک کر دیا گیا ۔ ٭ محسن مکمل عصری شعور کے ساتھ شعر کہتے تھے ۔ معاشرتی اُتار چڑھائو بھی ان کی شاعری کا اہم موضوع تھا۔محسن نقوی کو شاعرِ اہلِ بیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری کو پورے پاکستان میںایک مقبولیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کوہر جگہ قبول کیا جاتا ہے اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ محسن نقوی نے شعری مجموعہ ’’ردائے خواب‘‘ کے دیباچے میںاپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیاہے ۔ بقول محسن نقوی: ’’زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں‘‘۔ محسن کی شاعری میں صرف پیار و محبت اور لب و رُخسار کی باتیں شامل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا تھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔محسن نقوی نے فلم ’’بازاِ حسن‘‘ کے لیے ایک گیت ’’لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ لکھا اور بہترین فلمی گیت نگار کا ایوارڈحاصل کیا ۔ محسن نقوی نے شعرو ادب سے وابستہ رہ کر اُردو غزل میں ایک منفرد پہچان بنائی ۔انہوں نے فنی زندگی میں بامعنی شاعری لکھ کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔ محسن کو اپنی شاعری کے ذریعے زبردست پذیرائی ملی جو اکثر واقعات کربلا کے گرد گھومتی تھی جس نے انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی ۔ جداگانہ اُسلوب کے حامل محسن نقوی ہمیشہ اپنی شاعری میں سیاست اور مذہب پر بات کرتے اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور کارکردگی پر بات کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی شاعری میں محبت کے معاملات پر قائم رہنے کے بجائے تنوع دکھانا تھا۔درحقیقت وہ ان حیرت انگیز شاعروں میں سے ایک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں : ک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں : اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر ٭ جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا -اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا ٭