جمعرات، 3 اپریل، 2025

چترال میں گرم پانی کے چشمے قدرتی شفا باعث ہیں



وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا ﴿ؕ۲۷﴾

. ہم نے اس پر بلند و مضبوط پہاڑ رکھ دئیے اور ہم نے تمہیں (شیریں چشموں کے ذریعے) میٹھا پانی پلایا-لیکن یہاں ہم گرم پانی کے چشموں کی بات کریں گے کراچی  کے کے شہری جانتے ہیں کہ کراچی کے انتہائ شمال میں بھی لاتعداد  گرم پانی کے ایسے چشمے زمین کی اتھلی گہرائ پر موجود ہیں جن کے پانی سے نہانے سے لاتعداد بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں -در اصل یہ بھی اللہ کریم و کارساز کی حکمت ہے کہ جہاں طبی علاج فیل ہوتے ہیں وہاں سے خدا کی حکمت کا آغاز ہوتا ہے -سلفر یعنی گندھک کی آمیزش کے پانی قدرتی شفا بخش ہوتے ہیں   چترال کے گرم پانی  کے چشمے کسی قدرتی عجوبے سے کم نہیں اور اس تک پہنچنے کے لیے دریائے لٹکوہ کے ساتھ سفر کرنا اپنے آپ میں ایک خوشی ہے۔ 


 یہ قریب ترین شہر سے 5 گھنٹے کا آف روڈ اور 45 منٹ کا ٹریک ہے جہاں سے ابتدائی ندی شروع ہوئی تھی۔ یہ چشمہ دو پہاڑوں کے سنگم پر واقع تھا جو کئی سالوں سے پانی کی وجہ سے ختم ہو رہا تھا۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ علاج کے لیے اس چشمے کے پانی میں شفا ہے۔' اس چشمے سے جڑی کہانیوں کے مطابق اس کا پانی درد اور یرقان سمیت دیگر بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ اقبال حسین چشمے کے پاس ایک چھوٹے سے تالاب میں نہا رہے ہیں۔ اس نے، جن کا گھر چشمہ کے قریب تھا، آزاد اردو کو بتایا کہ اسے یرقان ہے، لیکن اس چشمے میں آکر یہاں نہانے اور نہانے سے ان کی بیماری ٹھیک ہوگئی۔ چشمے کے قریب ایک بڑی مسجد کو بھی یہاں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، لوگ اسے وضو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح نہانے کے لیے چشمے کے قریب باتھ روم ہیں جہاں لوگ علاج کے لیے آتے ہیں جب کہ ایک گھر میں لوگ آرام کر سکتے ہیں تاکہ ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آ سکے۔ چشمے کے ساتھ ایک دیوار بنائی گئی تھی



خواتین کے لیے  بھی  ایک مخصوص ہے جہاں وہ کپڑے دھو سکتی ہیں ۔ علاقے سے واقفیت رکھنے والے محبوب عالم نے بتایا کہ موسم بہار کی تاریخ کے بارے میں شاید ہی کوئی     جانتا ہو لیکن یہ چشمہ اسی جگہ واقع ہے۔' چشمے کا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اسے انڈوں میں ڈالیں گے تو وہ پک جائیں گے ۔' محبوب عالم کے مطابق گرم چشمہ چترال کے چند مشہور تفریحی مقامات میں سے ہے جہاں ملک بھر سے سیاح موجود ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس چشمے کا انتظام کون کر رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں، اس نے کہا کہ وہ یہاں غسل خانہ بنا رہے ہیں، وہ ہمیں استعمال کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ موسم بہار میں پانی گرم کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اردو نے اپنے مضمون کے لیے چشموں کی تحقیق پر کچھ سائنسی اور مقالات کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ چشمے زمین میں جتنے گہرے ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں۔


پریوں کا چشمہ بلوچستان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی جانب سے گرم پانی کے چشمے سے یہ مفروضہ جوڑا گیا ہے کہ اس مضمون میں پانی کا علاج موجود ہے تاہم سائنسی تحقیق سے یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ مضمون کے مطابق جب چشمے کا پانی زمین میں اتھلی گہرائی سے نکلتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہوتا ہے، جب کہ گرم چشموں میں، جہاں آتش فشاں کی سرگرمیوں کے زیادہ آثار ہوتے ہیں، وہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کی ویب سائٹ کے مطابق گرم چٹانوں کے اندر سے بھی گرم چشمے نکلتے ہیں جب کہ اب سائنسدان سمندر کے نیچے تقریباً تین کلومیٹر گہرائی میں موجود گرم چشموں سے دور ہیں جن کا درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ اسی تنظیم کے مطابق گرم چشموں سے نکلنے والے پانی میں نمکیات اور سلفر کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ سمندری حیات کے لیے فائدہ مند ہے۔پشاور(این آئی)اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے خیبرپختونخوا کے گلیات اور چترال بشکر کے گرم چشموں کو عالمی بایوسفیئر ریزرو کا درجہ دے دیا ہے۔


 زندگی، رہائش، محفوظ اور دیگر ماحول کا مؤثر تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ مقامات نہ صرف قدرتی حسن اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے اہم ہیں بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لیے قدرتی نشانات کے تحفظ، ترقی پسندی اور سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے بھی اہم ہیں۔ ایک تاریخی پیش رفت میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا عالمی تحفظ کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا ثبوت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگلی حیات اور قدرتی وسائل کا مزید تحفظ کرےاگرچہ چترال سے گرم چشمہ تک سڑک کا فاصلہ صرف چھپن کلومیٹر ہے لیکن پہاڑی علاقے اور خستہ حال سڑک کی وجہ سے گرم چشمہ تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں۔  اقوام متحدہ نے چترال میں گولیتھ اور گرم چشمہ کو عالمی بایوسفیئر ریزرو قرار دیا ہے۔ - مقامی لوگوں کے مطابق چشمے سے بہنے والا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اس میں انڈا ڈالیں گے تو وہ پک جائے گا۔ اس جگہ کا نام مولا چھوٹوک تھا (بلوچی میں چھوٹوک کا مطلب آبشار ہے)

منگل، 1 اپریل، 2025

اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی- 1 part


- اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی -پاکستان اسٹیل ملز   ایک عظیم الشان منصوبہ جسے پاکستان کے مگر مچھ کھا گئے -پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہو وہ عظیم الشان صنعتی تحفہ جو پوری دنیا میں پاکستا ن کی پہچان بنا تھا -جب نا اہلوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو اس کی بربادی کا آغاز ہو گیا   -قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کی جانب توجہ دی گئی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک میں موجود معدنی لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنے کی بنیادی صنعت لگانے کے لیے کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ 1956ء میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل پلانٹ لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی حکومت نے اس پیشکش پر بات چیت شروع کی اور 1968ء میں پاکستان اسٹیل ملز کو بطور ایک نجی کمپنی کے رجسٹر کیا گیا۔ یعنی قیام پاکستان کےبعد تقریباً 21 سال بعد ادارے کی رجسٹریشن ہوئی۔ آخر اس میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی متعدد وجوہات ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں وقت لگنے کی بڑی وجہ روس اور مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت لگانے کی پیشکش تھی۔ مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان میں صوبہ خبیر پختون خوا اور پنجاب سے ملحقہ علاقے کالا باغ میں فولاد سازی کا کارخانہ لگانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔



پاکستان  کی ترقی کے لیے ملک میں ایک بڑے فولاد سازی کے کارخانے کی ضرورت ہے جوکہ وطن عزیز کی زمین میں دفن 1.427 ارب ٹن خام لوہے کو فولاد میں تبدیل کرکے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ برآمدات کر کے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کماسکے۔یہ طرفہ تماشا دیکھیں کہ کراچی کے مضافات میں پورٹ قاسم سے ملحقہ ایک دوسرے کی دیوار سے جڑی دو اسٹیل ملز بند پڑی ہیں۔ اس کی مشینری کو سمندر کی نمکین ہوا زنگ آلود کررہی ہے۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان اسٹیل ملز اور دوسری نجی شعبے کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے قائم الطوقی اسٹیل ملز۔ان دونوں اسٹیل ملز کی صلاحیت معدنی لوہے یعنی آئرن اُور (Iron Ore) کو فولاد میں ڈھالنے کی ہے۔ مگر فولاد سازی کے یہ دونوں ادارے ملکی نظام میں اس ذہنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ملک کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا


 اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔پاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 11 لاکھ ٹن کی گنجائش اور بعد ازاں پیداواری گنجائش کو بڑھاتے ہوئے 22 لاکھ ٹن کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ مگر ملک میں سیاسی وجوہات اور درآمدی مافیاز اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں دلچسپی رکھنے والوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز 11 لاکھ ٹن کی گنجائش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا جبکہ افتتاح جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں کیا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے— پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا

 

اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے پاکستان اسٹیل سے متصل اسٹیل ٹاون شپ کے علاوہ گلشن حدید بھی بنایا گیا۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز سے منسلک اسٹیل ٹاون شپ کی قیمت پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر اس کو چلانے اور اس کی نجکاری تک تقریباً تمام ہی فیصلوں میں ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے ہر مقام پر غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹیل ملز قیام کے بعد سال 2005ء تک خسارے میں چل رہی تھی -پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفراسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان اور نااہلی کا شکار ہوئی اور قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئ 

پیر، 31 مارچ، 2025

گزشتہ 2 برس میں 2 لاکھ مزدور طبقہ بیروزگار ہوا ہے

 


پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چوہدری سلامت علی کے مطابق اب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مختلف یونٹس کے بند ہونے سے ڈیڑھ سے 2 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں-پھر ایک اور انڈسٹریل یونٹ بند ہونے سے 900 محنت کش بے روزگار ہو گئے۔  گزشتہ 2 برس کے دوران   لاتعداد  انڈسٹریز بند ہو چکی ہیں  ۔اس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق طیب کہتے ہیں کہ 40 فیصد پیداوار میں کمی کا یہ مطلب نہیں کہ آدھی انڈسٹری بند ہوچکی ہے بلکہ مختلف انڈسٹریوں کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں جس میں مختلف عوامل شامل ہیں۔خبر کیا ہے؟ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے میڈیا پر خبریں اس وقت سامنے آئیں جب اس شعبے کے ایک بڑے ادارے نے اپنے دوسرے انڈسٹریل یونٹ کو بند کردیا    100 سےزائد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کی خبریں، حقیقت کیا ہے؟


پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش کا بہت چرچا ہورہا ہے اور لوگ اس حوالے سے تشویش کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ 100 سے زیادہ ٹیکسٹائل ملز بند ہونے سے ہزاروں، لاکھوں بے روزگار ہوجائیں گے۔اس حوالے سے ہم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس شعبے کی مشکلات  کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مختلف انڈسٹریل گروپس کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ سارا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوگیا ہے-انہوں نے بتایا کہ اگر کسی انڈسٹری کا ایک یونٹ بند ہو تو اس سے یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ تمام کی تمام انڈسٹری بند ہوچکی ہے۔۔اگر گزشتہ مالی کے اعداد و شمار کودیکھا جائے تو اس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات 0.93 فیصد اضافہ ہوا جو 16.55 ارب ڈالررہیں جبکہ اس سے پچھلے برس یعنی مالی سال 23-2022 میں یہی برآمدات 16.50 ارب ڈالر تھیں۔

 تاہم گزشتہ 2 برسوں سے قبل یہی برآمدات کورونا کے بعد 22-2021 میں زبردست اضافے کے سبب 19.3 ارب ڈالر تک بھی گئیں تھیں۔ یعنی مالی سال 22-2021 کے مقابلے میں گزشتہ 2 سالوں کی برآمدات میں کمی تو آئی ہے لیکن گزشتہ برس اس میں دوبارہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔کیا ستارہ ٹیکسٹائل بند ہوگئی ہے؟ستارہ ٹیکسٹائل مل کا شمار پاکستان کے چند بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ گرو1956 میں ٹیکسٹائل پروسیسنگ کے ساتھ شروع ہوا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے ایک معروف صنعت بن گیا اور اب ایک گروپ آف انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ستارہ ٹیکسٹائلز مقامی مارکیٹ کو سپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹوں کو کی جانے والی برآمدات میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ستارہ گروپ آف انڈسٹری بند نہیں ہوئی،بلکہ  ان کے 2 یونٹس بند ہوئے ہیں۔

ستارہ ٹیسکٹائل کے 2 یونٹ بند ہونے کے بعد میڈیا میں کچھ خبروں سے یہ تاثر ملا کہ جیسے ستارہ ٹیکسٹائل مل مکمل طور پر بند ہوچکی لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ستارہ گروپ میں شامل دیگر تمام یونٹس کام کررہے۔روزگار کی فراہمی میں ٹیکسٹائل کا حصہ ٹیکسٹائل پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان میں مینوفیکچرنگ سیکٹر تقریباً 1 کروڑ 18 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے جس میں سے ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 40 فیصد تک ہے۔ یعنی 40 لاکھ سے زائد افراد اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی ترقی کرنا شروع کردی تھی اور یہ آج بھی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شعبہ ایک طویل عرصے سے پاکستانی معیشت کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ڈالتا چلا آرہا ہے۔


قیامِ پاکستان کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بنیادی ڈھانچہ بہت محدود تھا۔ اس وقت پاکستان میں کپڑا بنانے کے چند ہی کارخانے تھے، جو زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر کام کررہے تھے۔ تاہم جلد ہی اس صنعت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں اور اولین 2 دہائیوں میں اس انڈسٹری نے بہت تیزی سے ترقی کی۔1950 اور 1960 کی دہائی میں کئی بڑی ٹیکسٹائل ملز کا قیام عمل میں آیا اور یہ سلسلہ اگلی کئی دہائیوں تک بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی اور مختلف مراعات فراہم کیں، جس سے اس شعبے نے مضبوطی اختیار کی۔ تاہم موجودہ دور میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں توانائی کے بحران، سیاسی عدم استحکام، شرح سود میں اضافہ اور عالمی منڈی میں سخت مقابلہ شامل ہیں۔پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پربحران کے کچھ ادوار1990 کی دہائی میں بجلی اور گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب  ہوئے

اتوار، 30 مارچ، 2025

30 سال میں بنایا گیا مندر اسکول بن گیا

 

اس مندر کی تعمیرکا سنگ بنیاد راولپنڈی ہی کے ایک رہائشی لالہ کلیان داس نے 1850 کی دہائی میں رکھا تھا اور اس کی تعمیر پر 30 برس لگ گئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد یہ مندر کئی برس  تک  بے کار رہا پھر اسے سنہ 1956 میں اسے محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا اور سنہ 1958 میں یہاں بیگم فاروقی نامی ایک خاتون نے بصارت کے محروم بچوں کی تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔  اب کئی دہائیوں سے یہاں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم دی جا رہی ہے -اسکول  کے پرنسپل نور حسین اعوان خود بھی پیدائشی طور بصارت سے محروم ہیں  تاہم وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر صحیح رہنمائی، والدین اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی میسر ہو تو نابینا افراد بھی معاشرےمیں عام افراد کی طرح تخلیقی و تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔اب اسکول کا نام  گورنمنٹ قندیل سکینڈری سکول ہےخیال رہے کہ 15 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سفید چھڑی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔نور حسین اعوان نے بتایا کہ عوام میں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے 


 لوگوں کو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے کہ بصارت سے محروم بچے بھی اعلیٰ تعلیم کا حاصل کر سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ 20، 22 سال کی عمر کے افراد کے والدین ہمارے پاس آئے ہیں کہ انھیں لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے۔‘نور حسین اعوان بتاتے ہیں کہ انھوں نے بھی ابتدائی تعلیمی دور میں سخت مشکلات کا سامنا کیا لیکن والدین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول ’اولڈ مین اینڈ دی سی‘ کے اس جملے سے بے حد متاثر ہیں کہ 'انسان کو تباہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔' اور ان کے بقول اسی جملے نے انھیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کیا۔ لیکن  ان کی والدہ  نے ہمت  نہیں ہاری  وہ انھیں روزانہ تقریباً 20 کلومیٹر کا سفر کر کے سکول لے کر جاتیں اور چھٹی کے وقت تک سکول کے دروازے کے باہر بیٹھی ان کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔نور حسین اعوان کہتے ہیں کہ ’میری والدہ نے تقریبا ایک سال ایسا ہی کیا،

اگروہ یہ ایک سال تک یہ مشقت نہ کرتیں تو آج میں جس مقام پر ہوں یہاں تک کبھی نہ پہنچ پاتا۔‘وہ کہتے ہیں کہ نابینا بچوں کو اکثر والدین بوجھ سمجھتے ہیں اور ان میں اس بچوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے حوالے سے کمیونٹی سپورٹ خاص طور پر اہم ہے۔خصوصی ضروریات والے بچوں کے والدین اکثر قابل ذکر لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں، صحت کی دیکھ بھال کے پیچیدہ نظام کی نگرانی کرتے ہیں، اپنے بچوں کے حقوق کی وکالت کرتے ہیں، اور دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کا انتظام کرتے ہیں ان  کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین اپنے چیلنجنگ تجربات کے ذریعے ذاتی ترقی اور غیر مشروط محبت اور قبولیت کی گہری سمجھ کی اطلاع دیتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سندھ معذوری ایکٹ جیسے قانون سازی اور پالیسی اقدامات کے ذریعے معذور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ تاہم، عمل درآمد متضاد ہے، اور بہت سے خاندان اپنے حقوق سے ناواقف ہیں۔سندھ میں کئی این جی اوز اہم خدمات فراہم کرتی ہیں جن میں ابتدائی پروگرام، پیشہ ورانہ تربیت، اور وکالت شامل ہیں۔


 پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لرننگ اینڈ لیونگ (PILL) اور کراچی ڈاؤن سنڈروم پروگرام (KDSP) جیسی تنظیمیں خاندانوں کے لیے خصوصی مدد اور وسائل پیش کرتی ہیں۔بین الاقوامی تنظیمیں اور عطیہ دہندگان صلاحیت کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال کی پیشہ ورانہ تربیت، اور جامع تعلیمی پروگراموں کے ذریعے سندھ میں خصوصی ضروریات کے بچوں کی مدد میں تعاون کرتے ہیں، جس کا مقصد طلب اور خدمات کی دستیابی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔اندرون سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک ماں عائشہ، محدود وسائل کے باوجود دماغی فالج کے شکار اپنے دس سالہ بیٹے کی زبردست وکیل ہے۔ اس نے دوسرے والدین کے ساتھ ایک مقامی سپورٹ گروپ بنایا ہے اور خصوصی طبی دیکھ بھال کے لیے باقاعدگی سے کراچی کا سفر کرتی ہے-


عائشہ کی کہانی رسمی خدمات کی عدم موجودگی میں والدین کی وکالت اور کمیونٹی سپورٹ کے اہم کردار کو اجاگر کرتی ہے۔اس کے برعکس  کراچی میں ایک باپ بلال کو آٹزم میں مبتلا اپنی بیٹی کے لیے مزید جامع وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ وہ مختلف این جی اوز کی خدمات سے استفادہ کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو خصوصی تعلیمی پروگرام کے ساتھ ایک نجی اسکول میں داخل کرایا ہے۔ بلال کا تجربہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خدمات تک رسائی میں تفاوت کو واضح کرتا ہے۔میڈیا مہموں، کمیونٹی ورکشاپس، اور اسکول کے پروگراموں کے ذریعے اسپیشل بچوں کے بارے میں عوامی بیداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور معلمین کے لیے جاری تربیت معذور بچوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تشخیص اور مداخلت کے لیے معیاری پروٹوکول کا نفاذ اسپیشل بچوں کی بروقت اور مناسب دیکھ بھال کو یقینی بنا سکتا ہے۔


ہفتہ، 29 مارچ، 2025

میانمار کا تباہ کن زلزلہ مارچ 2025

 میانمار میں جمعے کو آنے والے شدید زلزلے کے سبب اب تک 1600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے-تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں خوفناک زلزلے سے متعدد عمارتیں تباہ ہوگئیں ، میانمار میں پل اور ڈیم بھی تباہ ہوگیا ، شدت 7.7ریکارڈ،  بنگلا دیش، بھارت، لاؤس اور چین میں بھی زلزلہ ۔ میانمار میں حکام کے مطابق زلزلے سے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے ، زلزلے سےمیٹرواور ریل سروس معطل کردی گئی، تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں زیر تعمیر کثیر المنزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں وہاں 7افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ، بینکاک میں مجموعی طور پر8ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں ۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار میں جمعے کے روز7.7اور6.4کی شدت کے یکے بعد دیگرے2زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔


 امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت7.7محسوس کی گئی، جس کا مرکز میانمار میں 10کلومیٹر زیرِ زمین تھا۔میانمار میں آنے والا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اس نے تقریباً 900کلومیٹر دور بنکاک میں بھی بلند و بالا عمارت کو ڈھیر کر دیا۔ زلزلے کے جھٹکوں سے متاثرہ عمارتوں کے منہدم ہونے کے مناظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے جو سوشل میڈیا پر وائرل پر وائرل ہو رہے ہیں۔امریکی ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک صدی سے زائد عرصے میں میانمار میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا ا زلزلے کے نتیجے میں 1000 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں، ایسے میں ایلون مسک نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایسی صورتحال میں اسپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک کی جانب سے بھی مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ایلون مسک نے اسٹارلنک کٹ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں رابطے بحال کرنے میں مدد مل سکے۔


مسک کا اپنی سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہنا تھا کہ ”میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہونے والے نقصان پر دکھی ہوں، اسپیس ایکس کی ٹیم اسٹارلنک کٹس فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ مواصلاتی ضروریات اور امدادی کارروائیوں میں تعاون کیا جا سکے۔واضح رہے کہ اسٹارلنک ایک سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس ہے جو دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے، جہاں انٹرنیٹ کی رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میانمار میں آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی جس کے اثرا بنکاک تک دیکھے گئے۔


عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق زلزلے کا مرکز میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈلے کے قریب تھا اور جس کی گہرائی زمین میں 10 کلومیٹر تک تھی۔زلزلے میں متعدد رہائشی عمارتیں گر گئیں اور سیکڑوں افراد ملبے تلے دب گئے جب کہ  متاثرہ شہروں  کا انفرا اسٹریکچر بری طرح تباہ ہوگیا۔میانمار کی فوجی حکومت نے چھ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے عالمی برادری اور تنظیموں سے مدد کی درخواست کی ہے-زلزلے میں ایک مسجد کا کچھ حصہ بھی منہدم ہوگیا جس کے نتیجے میں 3 نمازی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ امدادی کاموں کے دوران لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ تعداد ایک ہزار سے دس ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے۔بنکاک میں بھی فلک بوس عمارتیں لرز اُٹھیں۔ لگژری ہوٹلز کی چھت پر بنے سوئمنگ پول کا پانی آبشار کی طرح زمین پر گرنے لگا۔


میانمار کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے بیچ میں 1200 کلومیٹر سے بھی زیادہ کی ایک دراڑ موجود ہے جسے 'ساگائنگ فالٹ' کہا جاتا ہے۔بنکاک میں زلزلے کے باعث صرف ایک عمارت کیوں زمین بوس ہوئی؟زلزلے کے بعد بنکاک سے جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا تھا کہ زمین کی حرکت کے سبب سوئمنگ پولز میں سے پانی باہر چھلک رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں صرف ایک ہی عمارت منہدم ہوئی جو کہ آڈیٹر جنرل کا زیرِ تعمیر دفتر تھا۔امپیریل کالج لندن سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر کرسچن ملاگا کہتے ہیں کہ سنہ 2009 سے پہلے بنکاک میں عمارتیں تعمیر کرتے وقت زلزلوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا-خیال رہے زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں پر عام عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے، لیکن میانمار کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں زلزلے کم ہی آتے ہیں۔


بدھ، 26 مارچ، 2025

زندگی کی نئ امید - عمیر ثناء فاؤنڈیشن

 

 ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن -ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن نہ صرف مختلف فلاحی کاموں میں سرگرم ہے بلکہ اس کا سب سے اہم مشن تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کی زندگیوں میں امید کی روشنی بکھیرنا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں منعقد ہونے والی خون عطیہ کرنے کی خصوصی تقریب… جو کئی برسوں سے جاری ہے… اس مشن کا ایک خوب صورت لمحہ ہے، جس میں نہ صرف خون کا عطیہ بچوں کے لیے، لیا جاتا ہے بلکہ تھیلے سیمیا کے شکار بچے اور ان کے والدین بھی اس تقریب میں موجود ہوتے ہیں جنہیں خوبصورت تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ چند صحافیوں کے خلوص سے شروع ہونے والا یہ کارِ خیر آج ایک اہم روایت بن چکا ہے۔ تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کے چہروں پر جو خوشی اور مسرت اس تقریب کے ذریعے آتی ہے، وہ کسی بھی لفظی بیان سے بالاتر ہے۔ امسال بھی یہ تقریب عمرثناء فاونڈیشن سے متصل مقامی ہال میں منعقد ہوئی جس میں صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔انسانی زندگی میں خون کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسے نہ کسی فیکٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔


 یہ ایک ایسا عطیہ ہے جو اگر کوئی دیتا ہے تو کسی نہ کسی انسان کی زندگی بچا رہا ہوتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے میں آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچانے کے ساتھ ساتھ فاسد مواد کو خارج کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ انسانی جان بچانے والے اس اہم ترین عطیے کو دینے کا پاکستان میں رجحان بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں ہر سال چھے ہزار بچوں کا اضافہ ہورہا ہے۔تھیلے سیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے صحیح طریقے سے نہیں بنتے، جس کی وجہ سے مریض کو زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر والدین سے بچوں میں جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں۔ اس کے مریض میں کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں، اور یہ صرف خون کے معمولی معائنے میں ظاہر ہوتی ہے۔تھیلے سیمیا میجر سے متاثرہ بچے میں پیدائش کے چھے ماہ بعد اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان بچوں کے جسم میں خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن بنانے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔ اگر مسلسل خون کی منتقلی نہ ہو اور ادویہ نہ ملیں تو ان کی ہڈیوں کی ساخت تبدیل ہونے لگتی ہ


ے، اور وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں جسمانی نشوونما میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔یہ بچے زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے ہر ماہ ہیموگلوبن چیک کروانا ضروری ہوتا ہے، تاکہ وقت پر خون کی منتقلی کی جاسکے۔ یہ عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور مریض کو مسلسل جسمانی اور ذہنی دباؤ میں رکھتا ہے۔چونکہ تھیلے سیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے، اس لیے ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق اس سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اقدام شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروانا ہے۔ اگر میاں بیوی تھیلے سیمیا مائنر ہوں تو ان کے بچوں میں تھیلے سیمیا میجر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔حالیہ میڈیکل ریسرچ کے مطابق تھیلے سیمیا کے مستقل علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن یہ ایک مہنگا اور پیچیدہ علاج ہے، جو ہر مریض کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا خون کی مسلسل منتقلی ہی اس بیماری کا عام علاج ہے۔ہر سال ہزاروں بچے بیٹا تھیلے سیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔


 نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، 15 سے 49 سال کی عمر کی 57 فیصد خواتین اور چھے ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 67 فیصد سے زائد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق، اگر بچوں کا ہیموگلوبن لیول 7 گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے تو اسے خون کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن کی اس کاوش اور تحریک کو آگے بڑھایا جائے اور خون کا عطیہ کرنے کے جذبے کو اپنے دیگر منصوبوں اور ترجیحات کی طرح اہمیت دی جائے۔ خون کا عطیہ جہاں ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، وہیں دینے والے کی صحت کے لیے بھی بہت مفید عمل ہے۔ ماہرین کے مطابق صحت مند افراد ہر تین سے چار ماہ بعد خون عطیہ کرسکتے ہیں، اور اس کا صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے جسم کمزور ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔ اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2 سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتا ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہوجاتے ہیں۔ اور بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوت


ے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے، مٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، اور کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خون عطیہ کرنے والے افراد میں دل کی بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔جو لوگ اچھی صحت کے حامل ہوں، جن کی کم سے کم عمر 17 اور زیادہ سے زیادہ 50سال ہو (خواتین کی عمر کم سے کم 18 سال ہو)، وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو، پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو، انہیں فوراً خون دینا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ ہمیں دینا چاہیے۔دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کو دلی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے، جو ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے-اسی پس منظر میں، چند سال قبل ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ طبِ نفسیات کے سابق سربراہ نے ایک نہایت بصیرت افروز بات کہی تھی، جو آج بھی دل و دماغ پر دستک دیتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:زندگی میں دینا سیکھیں۔ کسی کو پیسہ دیں، کسی کو وقت، کسی کو مشورہ، کسی کو راستہ، کسی کو علم…بس دینے کا عمل شروع کریں۔ دینے کی صفت دراصل اللہ کی صفت ہے، اور جب آپ دینا شروع کردیتے ہیں تو آپ کی نسبت الرحمٰن سے جُڑ جاتی ہے۔ پھر نہ آپ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں، نہ ہی ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ دوسروں کو نوازیں گے، اتنا ہی آپ کی زندگی میں خوشیاں بڑھتی جائیں گی۔ بس ایک عہد کرلیں کہ ہر مہینے کسی نہ کسی کو کچھ ضرور دینا ہے۔“آیئے، ہم بھی ایک ایسا عہد باندھیں جو کسی کی زندگی کا چراغ جلا سکے۔ اگر سال میں دو مرتبہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک بار خون کا عطیہ ضرور دیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں، جب تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کو خون کی شدید قلت کا سامنا ہوتا ہے، ہم ان کے لیے زندگی کی ایک نئی امید بن سکتے ہیں۔ کیونکہ دینے والے ہاتھ ہمیشہ بھرتے ہیں، کبھی خالی نہیں رہتے۔

منگل، 25 مارچ، 2025

شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری کے مایہ ناز محدث

  

 محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (305۔381 ھ)، شیخ صدوق کے نام سے معروف چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ کا شمار شہر مقدس قم کے مایہ ناز محدثوں میں ہوتا ہے اور تقریبا 300 سے زائد علمی آثار کی آپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن میں سے اکثر آج ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ شیعوں کی معتبر ترین کتب اربعہ میں سے ایک ہے جو آپ کے دست مبارک سے لکھی گئی ہے۔ ان کے دیگر علمی آثار میں معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع و صفات الشیعہ کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔ان کے مشہور ترین شاگردوں میں سید مرتضی، شیخ مفید اور تلعکبری شامل ہیں۔ شیخ صدوق ایران کے ایک تاریخی شہر، شہر ری جو تہران کا جڑواں شہر ہے، میں مدفون ہیں۔


۔ ولادت -شیخ صدوق کی دقیق تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن جو چیز آپ کی کتاب کمال الدین و تمام النعمہ اور شیخ طوسی کی کتاب غیبت اور نجاشی کی الفہرست سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عَمْری کی رحلت اور امام کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے نیابت کے ابتدائی سالوں میں متولد ہوئے ہیں۔خود شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بن اسود سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ (جنہیں صدوق اول بھی کہا جاتا ہے) محمد بن عثمان عَمْری (دوسرا نائب خاص امام زمانہ) کی رحلت کے بعد ابوجعفر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حسین بن روح نوبختی (تیسرا نائب خاص امام زمانہ) سے کہہ دیں کہ امام زمانہ(عج) سے دعا کی درخواست کریں کہ خدا مجھے کوئی بیٹا عطا کرے۔ ابوجعفر کہتا ہے کہ میں نے ان کی درخواست حسین بن روح تک پہنچائی۔


 تین دن کے بعد حسین بن روح نے مجھ سے کہا کہ امام زمانہ(عج) نے علی بن حسن (شیخ صدوق کے والد گرامی) کیلئے دعا کیا ہے اور انشاء اللہ خدا ان کو ایک بیٹا عنایت کرے گا۔ او خدا اس بیٹے کے ذریعے ان کو دنیا اور آخرت میں نفع حاصل ہو گا  -شیخ صدوق نے قم میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ 20 سال زندگی کی اور اپنے والد اور دیگر علماء سے اس عرصے میں کسب فیض کیا اس کے بعد شہر ری کے مکینوں کی درخواست پر وہاں چلے گئے۔ شہر ری میں باوجود اس کے کہ وہ جوانی کی عمر میں تھے لیکن ان کی چرچے چاروں طرف پھیلنے لگے۔ وہاں پر کچھ مدت رہنے کے بعد وہاں کے والی کی اجازت سے امام رضا(ع) کی زیارت کی غرض سے مشہد مقدس کی طرف سفر پر نکل پڑے اور وہاں سے واپسی پر نیشاپور میں ساکن ہوئے اور وہاں کے بزرگوں نے ان سے کسب فیض کرنا شروع کیا۔ یوں انہوں نے قم سے جانے کے بعد شہر ری، استرآباد، جرجان، نیشابور، مشہد، مروروذ، سرخس، ایلاق، سمرقند، فرغانہ، بلخ، ماوراء النہر، ہمدان، بغداد، کوفہ، فید، مکہ اور مدینہ کی طرف مسافرت کی۔



حسب و نسب-شیخ صدوق کے والد گرامی علی بن حسین اپنے زمانے کے مشایخ، ثقہ (مورد اعتماد)، فقیہ اور شہر مقدس قم کے مراجع میں سے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ کے زمانے میں مایہ ناز علماء اور محدثین کی کثیر تعداد شہر قم میں موجود تھے لیکن آپ کو ان سب میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اتنے علمی مقام اور جہان تشیع کے مرجع تقلید ہونے کی باوجود آپ قم میں ایک چھوٹے سے دکان پر نہایت سادگی، پاکدامنی اور قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے علم کے مختلف شعبوں میں کتابیں اور مقالہ جات تحریر فرمایا ہے جنہیں شیخ طوسی اور نجاشی نے ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں کہتا ہے: "کسی کتاب کی جلد پر میں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے اپنے قلم سے لکھا تھا کہ میرے والد گرامی کی کتابیں جو 200 عدد ہیں اور میری اپنی کتابیں جو 18 عدد ہیں "


  وفات

شیخ صدوق سنہ 381 ہجری قمری کو 70 سال کی عمر میں شهر ری میں وفات پائی اور وہیں پر دفن ہوئے۔ ان کی قبر آج شہر ری میں موجود قبرستان ابن بابویہ نامی قبرستان میں موجود ہے جہاں زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ سنہ 1238 ہجری شمسی کو سیلاب کی وجہ سے ان کی قبر میں شگاف پڑگیا تھا اور کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی انکی لاش صحیح و سالم دیکھ کر لوگوں کی حیرت کا باعث بن گئی اس کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے زمانے میں ان کے قبر کی تعمیر و توسیع ہوئی۔ علمی کارنامے-علم رجال کے ماہرین کی ان کے بارے میں سفارش-شیخ طوسی فرماتے ہیں: "محمد بن علی بن حسین، حافظ احادیث، فقہ اور رجال سے آگاہ اور حدیث شناس تھے۔ حفظ اور کثرت علم میں قمی علماء میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے"ہمارے شیخ اور فقیہ جب بغداد میں آئے تو باوجود اس کے کہ وہ کم سن تھے لیکن اس وقت کے علماء اور فقہاء ان سے حدیث سنتے تھے۔  آپ کے اساتیدشیخ صدوق نے مختلف شہروں کے مختلف حفاظ اور بزرگان سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد 260 تک پہنچتی ہیں۔ 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررpart-3

    آپ کو اچھّی طرح معلوم ہئے ممّا کہ اس معاشرے میں ایک قانونی طور پر سمجھدار لڑکے اور لڑکی کو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنے کی اجازت ہئے س...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر