بدھ، 26 فروری، 2025

ڈالر منگواؤ ورنہ مار کھاؤاور جیل جاؤ-پارٹ 1

 

ابھی تک تو پاکستانی قوم سمندر کی ڈنکیوں کو رو  رہی تھی کہ اچانک کمبوڈیا اسکینڈل سامنے آ گیا -کیسے ارمان سجا کر پاکستانی نوجوان دیار غیر جاتے ہیں اور وہاں جا کر معلو ہوتا ہے کہ وہ اغوا ہو چکے -بی بی سی کی رپورٹ حرف بہ حرف پڑھئے’جب میں پاکستان میں تھا تو بتایا گیا تھا کہ کمبوڈیا میں ڈیٹا انٹری کا کام ہے۔ مگر جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کال سینٹر کا کام ہے اور کچھ ہی دنوں میں یہ بتایا گیا کہ لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ اگر کام سیکھ لیا اور ماہانہ ایک ہزار ڈالر کما کر دو گے تو اس پر دس فیصد کمیشن ملے گا۔ جب میں یہ کام نہیں سیکھ سکا تو انھوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم نے تمھیں ایجنٹ سے خریدا ہے، وہ پیسے واپس کرو۔‘یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہائشی نصیب ساجد کا جنھیں گذشتہ سال کے آواخر میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کمبوڈیا سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔لیکن ساجد واحد پاکستانی نہیں جو اس طرح کی دھوکہ دہی کا شکار ہو کر کمبوڈیا میں پھنس گئے تھے۔اتوار (23 فروری) کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے ایک مرکز سے 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے


خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بازیاب ہونے والوں میں 50 پاکستانی، 48 انڈین اور 109 تھائی شہری شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر فراڈ کے یہ مراکز کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔قوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو سمگل کر کے انھیں جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں قائم فراڈ کے مراکز اور غیر قانونی آن لائن آپریشنز میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان غیر قانونی آپریشنز میں ہر سال اربوں ڈالر کا سائبر فراڈ ہوتا ہے اور لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کیا جاتا ہے۔فیصل آباد کے رہائشی احمد علی کی کہانی بھی ساجد سے ملتی جلتی ہے جنھیں بیرون ملک نوکری کا جھانسہ دے کر کمبوڈیا پہنچایا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ کمبوڈیا پہنچے تو انھیں کہا گیا کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے لوگوں کے بینک اکاؤئنٹس اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات حاصل کرنی ہیں۔ اُن کے مطابق اس سینٹر میں موجود بہت سے لوگ ایسا کرنے میں یعنی 


لوگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے مگر اُن سے یہ کام نہیں ہو سکا۔احمد علی بھی گذشتہ سال کے آخر میں کمبوڈیا سے ڈی پورٹ ہو کر واپس پہنچے ہیں۔ احمد علی اور نصیب ساجد کی واپسی کے لیے اُن کے اہلخانہ کو بہت کوششیں کرنی پڑی تھیں۔’ایجنٹ نے کمبوڈیا بھجوانے کے تین لاکھ روپے لیے‘اتوار کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے مراکز کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن میں 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے۔، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے مشترکہ کارروائی میں 215 غیر ملکیوں کو سائبر فراڈ سینٹر سے بازیاب کروایا گیا ہے جس میں 50 پاکستانی ہیں نصیب ساجد بتاتے ہیں کہ اُن سے پہلے بھی ان کے علاقے کے کافی افراد ایک ایجنٹ کے ذریعے کمبوڈیا جا چکے تھے۔انھوں نے بتایا کہ مذکورہ ایجنٹ سرکاری سکول میں استاد ہیں اور لوگ اُن پر کافی اعتماد بھی کرتے ہیں۔’مجھے پاکستان میں روزگار نہیں مل رہا تھا اور جب سُنا کہ کمبوڈیا میں کال سینٹر اور ڈیٹا انٹری کی ملازمتیں دستیاب ہیں تو میں نے اُن سے رابطہ کیا اور تین لاکھ روپے میں ہمارا معاملہ طے ہوا۔

 انھوں نے مجھے کمبوڈیا کا ویزہ لگوا کر دینا تھا جبکہ ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست مجھے خود کرنا تھا۔‘اُن کے مطابق وہ ستمبر کے مہینے میں کمبوڈیا پہنچے۔ ’کمبوڈیا میں مجھ سے یہ کہ کر پاسپورٹ لے لیا گیا کہ اس پر ایک ماہ کا سیاحتی ویزہ لگا ہوا ہے جسے مستقل ویزہ میں تبدیل کروانا ہے۔‘ساجد نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں دارالحکومت نوم پنہ کے نواحی علاقے لے گئے جہاں بڑی بڑی عمارتیں موجود تھیں۔اُن کے مطابق جس عمارت کے کمرے میں انھیں رکھا گیا وہاں پہلے سے چار پاکستانی موجود تھے جبکہ عمارت کے دیگر کمروں میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاوہ وہاں انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، تھائی لینڈ، میانمار اور دیگر ممالک کے شہری بھی موجود تھے۔اُن کا کہنا ہے کہ وہاں پہنچ کر انھوں نے محسوس کیا کہ ایک خوف کا عالم تھا۔

ساجد بتاتے ہیں کہ ’پہلے سے موجود پاکستانی کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ میرے کمرے میں موجود پاکستانیوں نے بھی بات نہیں کی، مجھے صرف یہی کہا گیا کہ کچھ دن یہاں رہو تو سب خود ہی معلوم ہو جائے گا۔‘’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ دو‘دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘’میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔

منگل، 25 فروری، 2025

الجزائر کا اسلامی تشخص

  رقبے کے اعتبار سے بحیرہ روم پر واقع الجزائر کا رقبہ  48   صوبے   پر  مشتمل ہے   جس میں 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبےمیں  ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے- عرب دنیا اور افریقی براعظم میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ الجزائر کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکش، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، موریتانیا اور مالی ہیں۔ جنوب مشرق میں نائجر جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل جبکہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔الجزائر میں 48 صوبے، 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبے، ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔الجزائر کے دار الحکومت کا نام بھی الجزائر ہے علماء کی کوششوں کی بنا پر اسلام کی ازسرنو بحالی کی جزوی جدوجہد جاری تھی جنھوں نے 1930ء سے قرآنی اسکول کھولے اور 1927ء میں برسلز میں منعقد ہونے والی کانگریس میں میسالی ہا دجی نے آزا دی کا مطالبہ کیا۔


الجیریا نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کافی سخت سال گزارے کیونکہ اسے اپنے غذائی ذخائر کا کثیر حصہ یورپ بھیجنا پڑتا تھا۔  یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے۔ اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جو کوہ اطلس کے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے اعظم کا علاقہ ہے۔ ہوگر کے پہاڑ دراصل وسطی صحارا کے بلند علاقے ہیں جو دار الحکومت سے 1٫500 کلومیٹر جنوب میں ہیں۔الجزائر، وہران، قسطنطین، تیزی وزو اور عنابہ بڑے شہر ہیں۔  الجیریا کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ زیریں کو نیشنل پیپلز اسمبلی کہتے ہیں جس کے 380 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ بالا جسے کونسل آف نیشن کہتے ہیں کے 144 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ زیریں کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔1976 کے آئین کے مطابق ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنائی جا سکتی ہیں تاہم ان کی منظوری وزیرِ داخلہ سے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں 40 سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔


 آئین کے مطابق مذہب، زبان، نسل، جنس یا علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعت بنانا ممنوع ہے۔الجیریا کی فوج بری، بحری، ہوائی اور علاقائی ائیر ڈیفنس فوجوں پر مشتمل ہے۔ فوج کا سربراہ ملک کا صدر ہوتا ہے جس کے پاس ملکی وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔کل فوجیوں کی تعداد 1٫47٫000 ہے۔  19 سے 30 سال تک کی عمر کے نوجوان مردوں کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اس میں چھ ماہ تربیت اور ایک سال شہری منصوبوں پر کام کرنا شامل ہے۔  الجزائر کے شہر   جد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔یہ مسجد 18ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کا نام صوفی بزرگ محمد بن علی کے نام پر رکھا گیا ہے، جو اس جگہ دفن ہیں۔ یہ ایک متاثر کن ڈھانچہ ہے، جس میں ایک بڑا مرکزی گنبد اور اس کے چاروں طرف چار چھوٹے گنبد ہیں۔ مسجد کو پیچیدہ نمونوں اور ڈیزائنوں سے سجایا گیا ہے، اور اس کا ایک بڑا صحن ہے جس میں 5,000 نمازیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔سیدی ابو مدین مسجد ( عربی: مسجد شعيب أبو مدين ) یا عبادت گزاروں کی مسجد ( عربی: مسجد العباد ) ت


لمسن، الجزائر کا ایک تاریخی اسلامی مذہبی کمپلیکس ہے ، جو بااثر صوفی بزرگ ابو مدین کے لیے وقف ہے۔ ابو مدین سیویل سے تعلق رکھنے والا تھا اور اس نے المغرب کے خطے میں تصوف کے پھیلاؤ میں بہت تعاون کیا تھا۔اس کمپلیکس میں مسجد ،مدرسہ اور ترکی حمام سمیت متعدد دینی عمارتیں ہیں۔ اس مسجد کی بنیاد مراکش کے مرین شاہی حکمرانوں نے 1339 میں رکھی تھی اور یہ کمپلیکس سیدی الحلاوی مسجد سے مشابہت رکھتا ہے جو اس کی شکل میں 1335 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مدرسہ کی بنیاد مسجد کے آٹھ سال بعد رکھی گئی تھی ، جہاں ابن خلدون نے ایک بار پڑھایا تھا۔   دارالسلطان محل بھی اسی کمپلیکس کے نچلے حصے میں قائم ہوا تھا ، جہاں سلطان مسجد کے دورے کے دوران ٹھہرے تھے۔ فن تعمیراس مسجد میں مرکزی دروازہ ہے جو کئی دیگر موری فن تعمیروں سے ملتا ہے جیسے قرطبہ سے قیروان ۔ دروازہ پینٹنگز کی گیلری کی طرف بھی جاتا ہے۔ گنبد کے سب سے اوپر مقرنہ موجود ہے۔ یہ ان سیڑھیوں تک جاری رہتی ہے جو پیرٹا ڈیل سول ، ٹولیڈو سے ملتے جلتے ہیں۔ لکڑی کے دروازے پیتل کے ساتھ سجے ہیں اور وہ درمیان میں فاؤنٹین کے ساتھ شاہ کی طرف جاتا ہے اور اس کے چاروں طرف راہداریوں اور نماز ہال سے گھرا ہوا ہے۔


، الجزائر مغربی الجزائر کا ایک شہر ہے جو    صوبہ میں واقع ہے۔ یہ صوبے کا دارالحکومت اور خطے کا سب سے بڑا شہر ہے۔  اپنی بھرپور تاریخ اور ثقافتی ورثے کے لیے جانا جاتا ہے، اور یہ متعدد تاریخی مقامات اور ثقافتی پرکشش مقامات کا گھر ہے۔ میں سب سے زیادہ قابل ذکر نشانیوں میں سے ایک    عظیم مسجد ہے، جسے   کی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی اور آرائش سے مزین مسجد ہے جو 12ویں صدی میں بنائی گئی تھی اور اسے شمالی افریقہ میں الموحد فن تعمیر کی بہترین مثالوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔  کے دیگر قابل ذکر نشانات میں  ، جو کبھی مقامی حکمرانوں کی نشست ہوا کرتا تھا، اور      ، جس میں اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کی نمائشیں شامل ہیں۔   متعدد روایتی بازاروں کا گھر بھی ہے، جہاں زائرین مقامی دستکاری اور دیگر تحائف خرید سکتے ہیں۔یہ شہر پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک زرخیز وادی میں واقع ہے، اور یہ اپنی معتدل آب و ہوا اور خوبصورت قدرتی ماحول کے لیے جانا جاتا ہے۔   الجزائر کی تاریخ اور ثقافت کو تلاش کرنے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔

پیر، 24 فروری، 2025

کراچی کی سڑکوں پر کھلی ٹریفک گردی

 گزشتہ چند ہفتوں سے کراچی میں ٹریفک حادثات کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں بہت سے افراد تیز رفتار ڈمپر، ٹرک اور واٹر ٹینکر کی زد میں آئے ہیں۔ ایسے میں عوام میں غم و غصہ پایا جانا حیران کُن نہیں ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے کچھ ہیوی ٹریفک کو نذرِ آتش کرکے کیا- گورنر سندھ نے ڈمپر حادثات کو کراچی میں ’ٹریفک گردی‘ سے تعبیر کیاکراچی: گورنر سندھ نے ڈمپر حادثات کو کراچی میں ’ٹریفک گردی‘ سے تعبیر کیا ہے، انھوں نے وزیر بلدیات سعید غنی کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’انھوں نے میری ڈمپر والی بات پر مضحکہ خیز بیان دیا، سعید غنی بتائیں ان 70 لوگوں کے گھر والوں کو کیا جواب دوں؟‘‘بدھ کو کراچی میں نجی انرجی کمپنی اور سرسید یونیورسٹی کے درمیان معاہدے کی تقریب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ پچھلے دو مہینوں میں ڈمپر سے لوگ مر رہے ہیں، افغانستان سے لائے گئے ڈمپرز بھی شہر میں چل رہے ہیں، لیکن سعید غنی بجائے ان ڈمپر والوں کو پکڑنے کے میرے بیان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جتنی تیزی آفاق احمد کی گرفتاری میں دکھائی گئی ہے اتنی ہی دیگر چیزوں میں بھی دکھائیں۔ کامران ٹیسوری نے کہا سعید غنی کے بیان پر مجھے افسوس ہوا، وہ مجھ پر بعد میں کر لیں تنقید، یہ بتائیں کہ عدالتی احکامات کے باوجود بھی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟


سڑکوں کے لیے ملنے والے 15 ارب کے فنڈ کے استعمال سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ فاروق ستار کی تجویزگورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ’’پہلے کراچی میں دہشت گردی تھی اب ٹریفک گردی ہے، قاتل ڈمپر قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، دن میں کوئی ڈمپر نہیں چلنا چاہیے، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، سعید غنی ڈمپر والوں کی گرفتاری میں بھی تیزی دکھائیں۔ ناظم آباد میں بشریٰ زیدی کے حادثے سے لے کر چند ماہ قبل کارساز روڈ پر عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کی المناک اموات تک، کراچی میں ٹریفک حادثات کی فہرست بہت طویل ہے۔ جو لوگ ان حادثات میں زندہ بچ گئے، وہ عمر بھر کی معذوری یا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے ’روڈ چیکنگ کمیٹی‘ بنائی ہے جو گاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پڑتال اور سڑکوں کی مجموعی تحفظ کی صورت حال پر نظر رکھے گی۔ٹریفک مینجمنٹ، شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شہر میں گاڑیوں کی آمد و رفت کو منظم کرنے، مال بردار گاڑیوں کو ریگولیٹ کرنا اور ٹریفک جرائم کے ارتکاب کے خلاف قانونی کارروائی کی ذمہ داری ٹریفک پولیس کی ہے۔ وہ پولیس کی اعلیٰ کمان اور متعلقہ صوبائی ڈپارٹمنٹ کو جوابدہ ہیں۔


عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار اسنیپ چیکنگ پر لاپروائی برتتے ہیں۔ وہ موٹر سائیکلوں، رکشوں، چھوٹی گاڑیوں، پک اپ گاڑیوں اور ہیوی ٹریفک وغیرہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنے اعلیٰ حکام کو مطمئن کرنے کے لیے نامکمل کاغذات پر چالان کردیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کی گاڑیاں جو عموماً ٹریفک قوانین کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں، بےمقصد سائرن کا استعمال کرتی ہیں انہیں ٹریفک پولیس کے اہلکار جانے دیتے ہیں جبکہ ان کم عمر، غیرلائسنس یافتہ مگر امیر خاندانوں کے بچوں کو روکا نہیں جاتا جو تیز رفتاری سے اپنی لگژری گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں۔کالے شیشے والی گاڑیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بنا نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مصروف شاہراہوں پر اکثر گاڑیاں اور موٹر سائیکلز مخالف سمت سے تیز رفتاری سے گزرتی نظر آتی ہیں تیز رفتار گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد قانون کی پاس داری کرنے والے ڈرائیورز کی ایک نہیں چلتی۔ سڑکوں پر کیے جانے والے مباحثوں میں اکثر جیت اس کی ہوتی ہے جس کی آواز زیادہ بلند ہوتی ہے یا جو زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ پل اور اوورپاسز کے نیچے عوامی مقامات رکشہ اسٹینڈز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسی گاڑیاں اکثر ٹین ایجرز چلاتے ہیں جو قوانین کا خیال نہیں رکھتے۔اسی اثنا میں میئر کراچی کو حال ہی میں شکایت کرتے دیکھنا مضحکہ خیز تھا۔ میونسپلٹی عوامی مقامات اور مختص شاہراہوں کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اہم شاہراہوں کے کناروں پرپیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ ٹوٹی ہوئی ہیں اور ان پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ایسے میں پیدل چلنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں اور والدین کو چلتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان احتیاط سے اپنا راستہ بنانا پڑتا ہے تاکہ وہ صدر یا دیگر مصروف علاقوں میں واقع اسکولوں تک پہنچ سکیں۔ سڑکوں کو وسعت دینے کے منصوبوں کی وجہ سے گاڑیوں کے راستوں کو تو وسعت ملی ہے لیکن فٹ پاتھ تنگ ہوگئی ہیں۔


بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ کی تعمیر نے کئی مقامات پر راہ گیروں کے لیے مختص راستے تباہ کیے ہیں۔ چند علاقوں جیسے ڈی ایچ اے میں تو سڑک کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی راستے ہی نہیں بنائے گئے۔ ڈی ایچ اے کو کلفٹن سے جوڑنے والی خیابانِ شاہین اس کی مثال ہے۔ اس کے علاوہ سائیکل سوار اور گاڑیوں کو آمد و رفت کے لیے استعمال نہیں کرنے والے افراد کا سفر کرنا محال ہے۔سڑکوں پر مشتعل رویہ بہت عام ہے۔ لوگ تیز رفتار گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں، سرِ راہ گاڑیاں روک کر جھگڑے کرتے ہیں، ٹریفک لائٹس کی پروا نہیں کی جاتی، ان ڈرائیورز کو ہراساں کیا جاتا ہے جو اسٹاپ سائن پر ٹریفک قوانین کی پاس داری کرتے ہیں، سڑک پار کرنے والے راہ گیروں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے جبکہ فٹ پاتھ پر پارکنگ جیسے مناظر اس شہر کا معمول ہیں۔موٹر سائیکل سوار بھی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انڈیکیٹر دیے بغیر تیز رفتاری سے لین تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا بہت زیادہ افراد سوار کرکے موٹر سائیکل چلاتے ہیں، ہیلمٹ نہیں پہنتے اور موٹر سائیکل روکے بغیر موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔



مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیورز اور موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ گفتگو کریں تو آشکار ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر کو تو ٹریفک قوانین اور ضوابط کی بنیادی معلومات بھی نہیں۔اب تو سرکاری عمل سے گزر کر ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جب ٹریفک پولیس اہلکار ایسے لوگوں کو روکتے ہیں تو وہ باخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اہلکاروں کے ساتھ معاملات کیسے طے کرنے ہیں۔ ہیوی ٹریفک کے ڈرائیورز یا لگژری ایس یو وی کے مالکان تیز رفتار ڈرائیونگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں قابو سے باہر ہوجائیں تو سڑکوں پر سنگین زخموں یا اموات کا باعث بنتی ہیں۔ لگژری گاڑیوں کی پشت پر سوار گارڈز ٹریفک قوانین کی پامالی کرنے والے ڈرائیورز کو پوچھ گچھ سے بچا لیتے ہیں۔یہ انتہائی خراب صورت حال ہے جس کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے نام نہاد کمیٹی کا قیام زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا۔ اسٹیک ہولڈرز بشمول رہائشیوں، دکانداروں، اپنے بچوں کو اسکول لے جانے والے والدین یا روزانہ سڑکوں پر خوفناک حالات کا سامنا کرنے والے تمام عام شہریوں کو حل تلاش کرنے کے عمل میں حصہ لینا چاہیے۔کراچی کو ’سٹیزن ٹریفک لائزن کمیٹی‘ کی ضرورت ہے جس میں سول سوسائٹی کے اراکین اور ماہرین کو شامل کیا جائے جو ٹریفک چیلنجز کا معائنہ کریں، حل تلاش کریں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہم اپنی سڑکوں پر مزید المناک سانحات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

آرٹیکل انٹرنیٹ کی مدد سے لکھا گیا 

اتوار، 23 فروری، 2025

سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی مرحوم

 روحانی اسکالر، سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی کی نماز جنازہ اور تدفین ہفتے کو مرکزی مراقبہ ہال میں کر دی گئی، نماز جنازہ مرحوم کے صاحب زادے ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے پڑھائی ، نماز جنازہ اور تدفین میں عزیزو اقارب خاندان ، سلسلہ عظیمیہ کے ہزاروں اراکین ،مختلف اخبارات کے مالکان ، ایڈیٹرز ، صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ممتاز شخصیات نے شرکت کی ،مرحوم خواجہ شمس الدین عظیمی کاسوئم عظیمیہ جامع مسجد،سیکٹر 4سی، سرجانی ٹاؤن میں اتوار 23 فروری کو صبح11 بجے سے بعد نماز ظہر تک ہوگا -بین الاقوامی شہرت یافتہ روحانی اسکالر ، سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ خواجہ شمس الدین عظیمی انتقال کر گئے ۔خواجہ شمس الدین عظیمی کا انتقال کراچی میں ہوا ۔خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ شمس الدین عظیمی فالج اور ہارٹ اٹیک کے باعث 10 روز زیر علاج رہے ۔انتظامیہ سلسلہ عظیمیہ کے مطابق خواجہ شمس الدین عظیمی 17 اکتوبر 1927 کو سہارنپور، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے تصوف ، سیرت النبیؐ ،روحانیت ،مراقبہ ، کلر تھراپی کے موضوعات پر کئی مقبول عام کتابیں لکھیں۔سلسلہ عظیمیہ کے زیر اہتمام پاکستان کے چالیس سے زائد شہروں ، برطانیہ ،امریکا ،روس ،مشرق وسطیٰ کے ممالک سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں مراقبہ ہال قائم کئے ۔ آپ کی کتب بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے نصاب میں شامل ہیں ۔خواجہ شمس الدین عظیمی ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور کے بانی، روحانی علاج پر بہت مقبول کالم نگار اور بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے ۔ 


ممتاز عالم دین، دانشور، محقق، مصنف اور سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی جمعے کے دن 98 سال کی عمر میں کراچی میں رحلت فرما گئے۔ عظیمی صاحب ایک روایتی بزرگ یا پیر نہیں تھے بلکہ انھوں نے روحانیت کو سائنسی اور جدید انداز میں پیش کر کے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔خواجہ صاحب ماہنامہ ’’روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل‘‘ اور میگزین ’’قلندر شعور‘‘ کے بانی چیف ایڈیٹر تھے۔اپ کا معروف کالم ’’روحانی ڈاک‘‘ اپنے دور کی ایک تاریخی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کالم کے ذریعے اپ نے لاکھوں افراد کے سماجی، نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل تجویز کیے۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور ان میں روحانیت کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کیا۔


عظیمی صاحب نے روحانی تربیت کے لیے مراقبہ ہالز کو ایک ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس کے نیٹ ورک کو دنیا بھر میں وسیع تر بنایا۔آپ نے امریکا یورپ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں منعقد پروگراموں میں شرکت کی اور وہاں کے لوگوں کو روحانی تعلیمات سے روشناس کرایا، آپ کی تقریریں کتابیں اور ورکشاپس عالمی سطح پر ایک وسیع اثر پیدا کرنے کا سبب بنی۔نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے عظیمی صاحب نے پاکستان بھر میں 60 سے زیادہ مراقبہ حال قائم کیے جب کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسی طرح کے 26 مراکز قائم کیے گئے جن میں 13 مراکز یورپی ممالک میں اور چار امریکا میں ہیں۔ ان کے علاوہ کینیڈا، متحدہ عرب امارات، بحرین، تھائی لینڈ، روس ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے میں بھی روحانی مراکز قائم کیے۔-پاکستان جیسے   ملک میں جہاں پیری مریدی  کا کاروبا اپنے عروج پر ہے وہیں خواجہ شمس ادین عظیمی کے روحانی مر کز میں آ نے والوں سے  ان کا مسلک نہیں  پوچھا جاتا تھا بلکہ قران کریم سے یا رنگ و روشنی کے زریعے انسانیت کی  بھلائ تقسیم کی جاتی تھی اور یہ یہ بھلا ئ اب ان کے پیشرو تقسیم کرتے  رہیں گے


عظیمی صاحب نے روحانی علوم پر کتب ہی نہیں لکھی بلکہ انھیں ایک مکمل نصاب کی شکل دی۔عظیمی صاحب نے تعلیمی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اپ نے عظیمی پبلک اسکول قائم کیا جو کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے خاندان کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ان کی کتابیں جن میں ’’احسان و تصوف‘‘ اور ’’ایک سو ایک اولیاء اﷲ خواتین‘‘ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ روحانیت ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ روحانی علوم کی تدریس تحقیق اور اس کے فروغ کے لیے واقف رکھا۔نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے آپ کا کتابچہ ’’روحانی نماز‘‘ اور روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے آپ کی کتابیں ’’روحانی علاج‘‘ اور ’’رنگ و روشنی سے علاج‘‘ یعنی Colour Therapy منفرد حیثیت کی مالک ہیں۔ عظیمی صاحب پر کولمبو انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکالر نے پی ایچ ڈی بھی کی، اس کے علاوہ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ پر تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر تین جلدوں پر مشتمل ایک شاندار کتاب تصنیف کی۔


ایک تحقیق کے مطابق عظیمی صاحب کی تعلیمات اور تربیت کا اہم مقصد انسان کے طرز فکر کو مثبت بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کا طرز فکر مثبت نہ ہوگا، آپ نہ تو زندگی میں سکون حاصل کر سکتے ہیں اور نہ فلاح انسانیت کے لیے کوئی کام دلجمی سے کر سکتے ہیں۔ آپ کی علمی اور روحانی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ آپ کی کئی کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔آپ کو کئی یونیورسٹیوں نے اعزازی پروفیسر کا درجہ دے رکھا تھا۔آپ کی پوری زندگی ایک مشن کے طور پر دنیا کے سامنے ائی۔اور وہ اپنی  تمام  زندگی خدا کی  مخلوق کی   بلا معاوضہ خدمت کرتے ہوئے  مالک کل کے حضور حاضر ہو گئے 

 


ہفتہ، 22 فروری، 2025

شاردہ آزاد کشمیر'علم و ہنر کی جنت نظیر قدیم درسگاہ

 


 
شاردہ دیوی کی مقدس عمارت شاردہ کے وسط میں کشن گنگا (نیلم) دریا کے بائیں کنارے واقع ہے۔ شاردہ سنگم مقدس زیارت سے چند گز نیچے واقع ہے جہاں تینوں مقدس ندیاں یعنی کشن گنگا (نیلم) سرسوتی یا کنکوریا(سرگن نالہ) اور مدھومتی (شاردہ نالہ) آپس میں ملتی ہیں۔دنیا میں کسی بھی تہذیب کے ارتقاء میں آب و ہوا، نباتات، جنگلی حیات، ماحول، رسم و رواج، علاقائی ساخت، یہ تمام چیزیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں کے تغیر کے نتیجے میں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور تناور ہوتے ہی نظریات و عقائد کی وارث کہلانے لگتی ہیں۔ فطرت انسانی صدیوں سے غیر مرئی اور مافوق الفطرت قوتوں کی اطاعت میں راحت محسوس کرتی ہے۔3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیاء میں آنے والے سراس وات برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس درے میں آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ دیوی انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاﺅں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔شاردہ دیوی کو علم، حکمت، ہنروفنون کی دیوی قرار دے کر صدیوں پوجا کی جاتی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اسے شکتی (طاقت) لکشمی (دولت) دیوی بھی قرار دیا گیا۔ وشنووتی، شیو مت، بدھ مت، جین مت اور ہندو دھرم کے عقائد کے باہم متصل ہونے سے یہاں سے مخلوط المذاہب تہذیب و ثقافت نے جنم لیا جو رواداری، برداشت اور احترام پر مبنی قرار پائی۔

آج ہندوستان اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں شاردہ دیوی کے پیروکار موجود ہیں۔ بالخصوص نیپال کے کشن خاندان کے شہزادے کنشک اول (25 سے 60 عیسوی) جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی شاردہ مندر بنوایا تھا، ان کی نسل آج بھی نیپال میں موجود اور شاردہ دیوی کو مقدس مانتی ہے۔ملک و بیرونِ ملک سے ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
شاردہ کسی زمانے میں بہت بڑی درسگاہ رہی ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔چینی سیاح ہیون شانگ (631 عیسوی) کے بقول بدھ مت کشمیر کا طاقتور ترین مذہب مانا جاتا تھا اور اسی دور میں بدھوں کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں منعقد ہوئی جس کے اثرات وادیء کشمیر پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ نیپال اور بدھ مت کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم، حکمت اور ہنر کی دیوی شاردہ کو وہاں آج بھی تقدس حاصل ہے۔برہمن سماج کے دور 880 سے 1320 عیسوی تک شاردہ دیوی کو تقدس اور تہذیب کو عروج حاصل رہا۔ اسی دور میں شاردہ رسم الخط بھی تخلیق کیا گیا جو صدیوں تک رائج رہا۔

تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ دنیا بھر سے علم، روحانیت اور گیان کے حصول کے لیے طالب علم آئے، خود کو علم سے منور کیا اور شاردہ دیوی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء اور ایشیاء کی اہم ترین درسگاہ کہلائی۔ یہاں بدھ مت کی تعلیم کے ساتھ منطق، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، معاشرت، روحانیت کی دیوناگری رسم الخط کے ذریعے تعلیم دی جاتی رہی۔شاردہ میں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔بڑے بڑے پتھروں کی 18 سے 28 فٹ اونچی دیواروں میں شمالاً، جنوباً مستطیل درس گاہ کے درمیان میں کنشک اول کا تعمیر کروایا ہوا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جس کا کوئی نام اور تقدس ضرور رہا ہوگا۔تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ و درسگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ آٹھ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب اس کے آثار باقی ہیں۔


کشمیر: پانچ ہزار سال قدیم شاردہ یونیورسٹی ’جہاں گرامر ایجاد ہوئی‘شاردہ  ٹورسٹ لاجز کے نگران جان شیر خان نے بتایا: ’شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے۔‘وادی نیلم میں ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والے شاردہ یونیورسٹی  -پاکستان کا زیر انتظام کشمیر سیاحت کے حوالے سے تو ایک منفرد حیثیت رکھتا ہی ہے، لیکن یہاں کی وادی نیلم کا ایک حصہ ایسا ہے، جو تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔وادی نیلم کی تحصیل شاردہ میں واقع ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والے شاردہ یونیورسٹی اس علاقے کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جان شیر خان نے بتایا کہ ’اس یونیورسٹی کے بارے میں پنڈت کلہن اپنی راج ترنگنی میں تفصیلاً ذکر کرتے ہیں کہ یہ تین ہزار سال قبل مسیح میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور عبادت گاہ تھی۔‘انہوں نے بتایا کہ ’یہاں پر پوری دنیا بشمول جاپان، سنگاپور اور چین سے لوگ زیارت کے لیے آتے تھے، اس کے ساتھ ہی مدہومتی نالہ ہے، جس میں آ کر وہ سب سے پہلے غسل کرتے تھے اور پھر پاک صاف ہو کر یہاں آتے تھے۔‘شاردہ یونیورسٹی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’زائرین یہاں آ کر قیمتی زیورات اور پیسے اس کی نذر کرتے تھے اور منتیں بھی مانگتے تھے۔‘جان شیر خان نے یونیورسٹی کے تعلیمی پہلوؤں کے متعلق بتایا کہ ’اس یونیورسٹی میں ہیئت، منطق اور فلسفے کی تاریخ یہ بھی ہے کہ دنیا کی زبانیں شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہیں۔

’شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے۔‘نیورسٹی کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’1400 سال تک تو اس کی تاریخ ملتی ہے کہ کشمیر کے سب سے بڑے بادشاہ زین العابدین بڈ شاہ  نے جب س یونیورسٹی کی شہرت سنی تو زیارت کے لیے اس یونیورسٹی آئے ۔‘بقول جان شیر خان: ’تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت انہوں نے یہاں کے طلبہ میں چھ لاکھ کی مٹھائی تقسیم کی۔‘انہوں نے بتایا کہ شاردہ یونیورسٹی کی لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ اس میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔ اس جامعہ کے کیمپس تو انڈر گراؤنڈ ہو گئے مگر عبادت والا شعبہ ابھی تک دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس عبادت گاہ کے اندر ایک بہت بڑا تالاب تھا جس میں جلد کے مسائل کے شکار افراد آ کر غسل کرتے تھے اور شفا پاتے تھے۔ 


شندور پولو فیسٹیول آ ف گلگت بلتستان

  



  قد رت  کی رعنائیا ں جہاں  چہار سو انگڑائ لیتی دکھائ دیتی ہیں  وہ پاکستان کے حسین پہاڑی علاقے  گلگت  بلتستان ہیں ۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔  تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں   یہ   علاقہ جات صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں اپنی شہرت رکھتے ہیں  لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت  بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا،  فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔چترال میں واقع شندور ٹاپ جہاں مشہور شندور پولو میچ کھیلا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے شندور میلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں ، چنار کے درختوں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شندور میلے کے دوران چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے جس کو دیکھنے کیلئے ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور ہر حملے پر داد وتحسین کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں یہ روایت سینکڑوں سالوں سے اسی طرح چلی آرہی ہے ۔ پولو کا یہ میدان3734 میٹر کی بلندی پر شندور پاس کے پاس واقع ہے ۔


تین روزہ میچ کے دوران میدان کے گرد سیاح ٹینٹ لگاتے ہیں اور رہائش اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس دوران مختلف علاقوں اور ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے ۔ اس میلے میں پہنچنے کیلئے عمومی طور پر سیاحوں کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے ،’’فور ویلر‘‘ گاڑ ی میں سوات اور دیر کی وادیوں سے گزرتے ہوئے لواری پاس سے ہوتے چترال پہنچتے ہیں۔کیلاش کی وادی بھی رستے میں پڑتی ہے ،کیلاش کے قبائل تین علاقوں میں منقسم ہیں جن میں بھمبورٹ، رمبر اور بھر شامل ہیں جنہیں سکندر اعظم کی فوج کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے ۔کو ہ ہندوکش میں ترچ میر کی برف میں ڈھکی خوبصورت چوٹی کو بھی یہیں سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔شندور تک پہنچنے کیلئے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک یا اسلام آباد ٹو گلگت بذریعہ ہوائی جہاز سفر اختیار کیا جاسکتا ہے ۔گلگت شہر سے خضر شندور تک سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے اخلتی و پھنڈر جھیل اور شندور جھیل کے دل کو موہ لینے والے مناظر سے متاثر ہوئے بنا کو ئی سیاح رہ نہیں پاتا۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں جولائی اگست کے مہینے میں شندور میلا منعقد ہوتا ہے جو کہ تین روز تک جاری رہتا ہے ۔شندور کو عام طور پر دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔


پولو کا کھیل پاکستان میں سرکاری سطح پر بھی کھیلا جاتا رہاہے۔ پاکستان کی پولو ٹیم متعدد بار ہندوستان، ایران اور ترکی کے کامیاب دورے کر چکی ہے اور ان ممالک کی ٹیمیں بھی لاہور کے جشن میں شریک ہو چکی ہیں۔ ان ٹیموں کے علاوہ ریاستہائے امریکہ کی پولو کی ٹیم بھی کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکی ہے۔پاکستان کے بعض کھلاڑی پولو میں عالمی سطح پر بڑا نام پیدا کر چکے ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے اس کھیل میں ایک منفرد عالمی مقام حاصل ہے۔ شاید پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آج بھی پولو کا کھیل سرکاری سطح کے علاوہ اپنے پرانے اور روایتی انداز میں عمومی سطح پر بھی کھیلا جاتا ہے، اس سلسلہ میں گلگت، بلتستان اور استور کے علاقے خاص طور پر قابل ذکر ہے جو پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے میں واقع ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قدیم چینی گلگت کو ’’بڑا پولو‘‘ اور استور کو’’ چھوٹا پولو‘‘ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ قدیم ایران میں پولو سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ یہ کھیل بادشاہوں کا کھیل قرار پایا اور شہزادوں اور رئیس زادوں کی تربیت کا لازمی جزو قرار دے دیا گیا تھا۔ شہزادوں کیلئے جہاں شکرے اور چیتوں کے ذریعے شکار کھیلنے کا فن ضروری سمجھا جاتا تھا، وہاں ان کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ تیغ زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور پولو جیسے مردانہ کھیلوں میں بھی طاق ہوں۔ لیکن یہاں اس بات سے یہ مقصود نہیں کہ پولو کا کھیل صرف ایران کے شہزادے اور دوسرے مرد افراد تک ہی محدود تھا بلکہ ایرانی شہزادیاں اور دوسری خواتین بھی اس کھیل میں شہزادوں سے کم نہ تھیں۔ فارسی شاعری میں ایسے حوالے ملتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی میں شاہ خسرو دوم( پرویز) کی ملکہ اور ان کی بعض ہمجولیاں بھی پولو کے کھیل میں مردوں کے برابر شریک رہتی تھیں۔


اس ابتدائی دور میں یہ کھیل ایران سے ہوتا ہوا پہلے عرب اور پھر چین، تبت اور جاپان میں بھی پھیل گیا۔ ان ممالک کے رسم و رواج کے مطابق اس کھیل میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں لیکن چین پہنچنے کے بعد پولو ایک کھیل ہی نہیں رہا بلکہ اس نے جنگی مشقوں کی شکل اختیار کرلی۔ قدیم چین میں پولو کی ایک ٹیم سو افراد پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور کھیل کا انداز بھی کھیل سے زیادہ چھوٹی موٹی جنگ کا نقشہ پیش کرتا تھا۔ چینی بادشاہوں کو پولو کے اچھے کھلاڑیوں سے جذباتی لگائو بھی تھا پنجی کے مقام پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو الگ کرنے والی پٹی بھی واقع ہے ۔ شندور ٹاپ پر ہموار میدان ہے جو کہ شندور جھیل کے ساتھ واقع ہے جہاں گرائونڈ پر پولو میچ کھیلا جاتا ہے ۔یہ گرائونڈ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے تعمیر کروائی تھی ۔پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے ہر سال کھیلا جاتا ہے جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں ۔ شندور فیسٹیول میں پولو میچ کے لئے فائنل ٹیمیں منتخب کرنے کیلئے ضلع چترال اور ضلع گلگت کی ٹیموں کے درمیان متعدد میچز ہوتے ہیں ۔میچ کا وقت ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے اور اس میںدو وقفے ہوتے ہیں ۔گرائونڈ کو دو سو میٹر لمبا اور56 میٹر چوڑا رکھا جاتا ہے ۔ دونوں اطراف کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے ان کے سپورٹر ز جمع ہوتے ہیں اورمیچ نہایت جوش و جذبہ اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مقامی فوک میوزک، بار بی کیو اور کیمپنگ کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔


 یہ کہا جاتا ہے کہ 1935 ء میں، شمالی علاقوں کے لئے برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایولین  کوب نے نیات قبول حیات کاکا خیل کو شندور میں ایک اچھی پولیو گرائونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں کی مدد سے پولو گرائونڈ بنائی۔ بعد میں اس پولو زمین کو’’ماس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ۔’ماس جنالی‘‘ لفظ کھوار زبان سے حاصل کیا گیا ہے ۔لفظ ’’ماس‘‘ کا مطلب چاند اور ’’جنالی‘‘ کا مطلب ہے پولو گرائونڈ۔میجر   کوب  چاند کی چودھویں تاریخ   کی  سفید دودھیا روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقین تھا اور شندور جھیل کے قریب پورے چاند کی رات میں پولو کھیلنے کا اپنا ہی لطف تھا جس کیلئے اس نے 37 سو میٹر کی بلندی پر پولو گرائونڈ بنواکر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تفریحی مقام بنا دیا۔جب پولوگراونڈ مکمل ہو گیا تو میجر کوب نے کاکاخیل کی خدمات کے صلہ میں ہے  انعام دینا چاہا تو کا کا  خیل نے انعام لینے سے انکا ر کرتے ہوئے اپنے علاقہ کے دریاوں میں  ٹراوٹ   مچھلی کی افزائش  کی خواہش کی -چنانچہ ٹرواٹ مچھلی کے انڈے ڈ بو ں میں پیک کر کے گلگت بلتستان پہنچا ئے گئے ۔ جہاں  ان کی بہترین افزائش کے لئے صا ف شفاف   ٹھنڈے پا نی کے دریاوں کا انتخاب کیا گیا ۔ اور ان انڈوں کی افزا ئش  پھنڈر ۔ گا ر گہ نالہ ۔ سئی نا لہ ۔ سنگل نا لہ ۔ گلمتی نا لہ ۔ بتھر یت نالہ  اوردلنا ٹی  نا لہ  میں کی گئی  ۔ دس سال کے عر صے میں  اس مچھلی کی افزا ییش میں ز بر دست کا میا بی ہو ئی ۔ ٹراو ٹ مچھلی  کی خا  صئیت یہ ہے کہ یہ ٹھنڈے  او شفاف پا نی میں رہنے کو  تر جیح دیتی ہے ۔ا س لئے یہ گر میو ں میں دریا کے رخ کے مخا لف سمت میں سفر کر تی ہے ۔ اور ا نچا ئی کی طر ف سفر کر تی ہے ۔ گلگت بلتستان میں براون یا بھورا اور رینبو یا ست رنگی ٹراو ٹ کی نسل پا ئی  جا تی ہے ۔  اس کا شمار  مز یدار مچھلیوں میں  ہو تا ہے  ۔  

جمعہ، 21 فروری، 2025

یہ بلاگ بلاول بھٹو کے نام -جیکب آباد کے لئے

 

جیکب آباد پاکستان کے صوبہ سندھ کا ایک شہر ہے جو ضلع جیکب آباد اور تحصیل جیکب آباد کا صدر مقام بھی ہے۔ جیکب آباد سندھ اور بلوچستان کی سرحد کے قریب سکھر سے کوئٹہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔جیکب آباد پاکستان کے گرم ترین علاقے میں واقع ہے جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 52 درجہ سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ اس ضلع کا نام برطانوی راج کے دور کے علاقائی انگریز حاکم جنرل جان جیکب کے نام سے موسوم ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ خان گڑھ کہلاتا تھا لیکن علاقے کے لیے انگریز جرنیل کی خدمات کے عوض اس علاقے کو جیکب آباد کا نام دیا گیا۔ذرائع نقل و حمل-جیکب آباد سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے اور بلوچستان کو سندھ سے ملانے والا ایک اہم راستہ یہیں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے جیکب آباد کا ریلوے اسٹیشن ایک اہم پڑاؤ ہے جہاں سے سکھر اور لاڑکانہ سے آنے والی ریل گاڑیاں کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو جاتی ہیں۔یو ایس ایڈ کی بندش، جیکب آباد کے لاکھوں شہری پانی سے محروم-3 گھنٹے پہلے -امریکی امداد کی معطلی سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں شامل جیکب آباد میں مفت پانی کی فراہمی کا پراجیکٹ بند ہو گیا ہے-امریکی امداد کی بندش  سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں شامل جیکب آباد میں لاکھوں شہریوں کو مفت پانی فراہم کرنے والا پراجیکٹ بندش کا شکار ہو گیا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے  بین الاقوامی ترقی کے لیے امریکی امدادی ایجنسی (یو ایس ایڈ) کے فنڈز میں کٹوتی کے باعث دنیا بھر کے کئی ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کئی پراجیکٹس پر کام روک دیا گیا ہے


۔پاکستان میں کام کرنے والی ایک مقامی این جی او ہینڈز کا کہنا ہے اس کے زیر انتظام دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک، جیکب آباد میں تازہ اور فلٹر شدہ پانی کا ایک پراجیکٹ اب روک دیا گیا ہے۔سندھ کے شہر جیکب آباد میں یو ایس ایڈ کی بندش سے تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ افراد صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہوجائیں گے۔ 2012ء میں یو ایس ایڈ نے سندھ کی میونسپل سروسز کو بہتر بنانے کے لیے 66 ملین ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا تھا، جس میں 22 کلومیٹر دور ایک نہر سے واٹر پمپنگ اور پانی صاف کرنے والے پلانٹ پر کام کیا گیا تھا تاکہ عوام کو پینے کے صاف پانی تک مفت اور آسان رسائی حاصل ہو۔ پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں  موسم گرما میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس علاقے میں شدید گرمی کی لہروں یا ہیٹ ویوز کی وجہ سے عوام کو سنگین مسائل کا سامنے رہتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ علاقہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بھی شدید متاثر رہا ہے۔لیکن پاکستان میں کام کرنے والی اس این جی او کا کہنا ہے ٹرمپ کی جانب ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی امداد روکے جانے سے اس پراجیکٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔جیکب آباد کے رہائشی 25 سالہ طفیل احمد نے  اے ایف پی کو بتایا، ''اس فیصلے نے ہماری زندگیوں کو تبدیل کر دیا ہے، یہاں اگلے ہفتے ہی درجہ حرارت کے 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔‘


‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پانی کی سپلائی منقطع ہو جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا ہے، ''یہ ہماری بقا کے لیے خطرہ ہےکیونکہ پانی زندگی کے لیے سب سے ضروری چیز ہے۔‘‘ تین بچے جوہڑ سے آلودہ پانی پیتے ہوئے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں صاف پانی فراہم کرنے والے پراجیکٹ بند ہونے سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوجائیں  گے-ہینڈز کے مطابق اس پراجیکٹ کی مدد سے روزانہ 1.5 ملین گیلن (5.7 ملین لیٹر) پمپ کیا جاتا ہے اور جیکب آباد جیسے علاقے جہاں عوام کو پہلے ہی غربت کا سامنا ہے، ساڑھے تین لاکھ شہریوں کو مفت پانی فراہم کیا جاتا ہے۔اس این جی او کے مطابق بغیر کسی پیشگی انتباہ اس پراجیکٹ کی فنڈنگ بند کر دی گئی اور انہیں میڈیا رپورٹس سے اس معاملے کا علم ہوا۔ہینڈز کے سی ای او شیخ تنویر احمد نے  اے ایف پی کو بتایا، ’’چونکہ فنڈنگ روک دی گئی ہے، ہمیں اپنا عملہ اور شہر کو میہا کی جانے والی خدمات معطل کرنا ہوں گی۔‘‘ اس پراجیکٹ کی مستقل بندش کی صورت میں 47 افراد پر مشتمل ان کا عملہ بھی بے روزگار ہوجائے گا۔ احمد کے مطابق یہ پراجیکٹ اگلے چند ہفتوں میں مکمل غیر فعال ہوجائے گا اور فنڈز بحال ہونے تک اس کے دوبارہ شروع ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔


 اس علاقے کے رہائشی سمجھتے ہیں کہ پانی کی سپلائی نا کافی ہونے کے باوجود علاقے کے لیے ایک بڑی نعمت تھی اور اس کا متبادل گدھا گاڑیوں پر لاد کر لایا جانے والا پانی ہے، جسے یہاں کی غریب عوام خریدنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں لوگ گدھا گاڑیوں پر رکھی ٹینکیوں میں پانی بھر کر بیچتے ہیں۔ ہینڈز کا کہنا ہے کہ نجی طور پر پانی فراہم کرنے والے اپنے طہ شدہ معاوضے سے تقریباﹰ دس گنا زیادہ رقم وصول کرتے ہیں اور ان کی جانب سے مہیا کیا جانے والا پانی آلودہ بھی ہوتا ہے۔ جیکب آباد کے 55 سالہ رہائشی صدرالدین لاشاری نے کہا، ''ہم جو گندا پانی خریدتے تھے وہ ہماری صحت کے لیے نقصان دہ تھا اور بیمار پڑنے سے ہمیں اور بھی زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘ایک غیر سرکاری تنظیم  جرمن واچ کے رواں برس اور 2022ء میں جاری کیے گئے اعدادو شمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔لاشاری نے کہا، "یہاں سال کے زیادہ تر حصے میں ناقابل برداشت حد تک گرمی پڑتی ہے۔ ہمیں صاف پانی کی اشد ضرورت ہے۔‘


لاوہ ازیں ضلع جیکب آباد قومی شاہراہ کے ذریعے ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہے۔ یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ کے لیے ریل گاڑیاں اور بسیں وغیرہ چلتی ہیں۔جیکب آباد کا شہباز فضائی اڈا پاک فضائیہ کے زیر انتظام ہے لیکن یہاں سے مسافر پروازیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی کی حیثیت سے پاکستان سے یہ فضائی اڈا امریکی افواج کے حوالے کیا ہے جنھوں نے جنگ افغانستان میں مخالفین کے ٹھکانوں کو نشانے بنانے اور اپنے فوجیوں کو رسد کی فراہمی کے لیے اس فضائی اڈے کا بھرپور استعمال کیا۔ آج بھی امریکی فوجی اہلکاروں اور ہوائی جہازوں کی بڑی تعداد اس اڈے پر موجود ہے۔مشہور شخصیات-جیکب آباد سیاسی حوالے سے سندھ میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور یہاں سے تعلق رکھنے والی کئی سیاسی شخصیات اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہوئیں جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:

الٰہی بخش سومرو - سابق اسپیکر قومی اسمبلی

محمد میاں سومرو - چیئرمین سینیٹ (بمطابق 2009ء)، سابق قائم مقام صدر و نگراں وزیر اعظم-عبد الرزاق تھہیم - سابق جج سندھ ہائیکورٹ و وفاقی وزیر بلدیات

اعجاز جکھرانی - موجودہ وفاقی وزیر کھیل (بمطابق 2010ء)

عبد الحفیظ شیخ - سابق وفاقی وزیر تجارت

عبد الکریم گدائی - سندھی زبان کے معروف شاعر

عبد اللطیف مہر

 

ر ب/ ش خ (اے ایف پی)


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر