Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعہ، 21 فروری، 2025
پنشن کٹوتی کا ظالمانہ فیصلہ -معذور بچے بیوائیں کہاں جائیں
جہانگیر کوٹھاری پریڈ
تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہوئے پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلفٹن کا وسیع و عریض علاقہ پاکستان بننے سے پہلے ایک پارسی معزز شخصیت کی ملکیت میں ہوا کرتا تھا جن کا نام جہانگیر ایچ کوٹھاری تھا۔اس عمارت کی اہمیت کیا ہے۔ در اصل یہ لیڈی لائیڈ تھیں جو ہر سہ پہر کو جب سمندر سے خنک ہوا کلفٹن کی ریت سے گذرتی، تو وہ وکٹوریہ میں سوار، اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے ایک چکر لگاتی تھیں۔ سمندر کو جانے والی راہ پتھریلی تھی اور کہیں بھی ہموار نہیں تھی۔ پانی تک فاصلہ بھی بہت طویل تھا۔ جہانگیر کوٹھا ری پریڈ کی تعمیر سے پہلے جب ہم ہم کلفٹن کراچی کے ساحلی علاقے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے - درحقیقت یہ سمندر اتنا قریب بھی نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے کوٹھاری پریڈ کی خوب صورت اور تاریخی عمارت کے پاس سے گزر کر تھوڑا نیچے اترنا پڑتا تھا۔
کوٹھاری پریڈ کی عمارت کی تعمیر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی ۔ جہانگیر کوٹھاری پریڈ جوبرطانوی عہد کی ایک شاندار یادگارہےاان دنوں کلفٹن کے علاقے میں گورنر کی اہلیہ لیڈی لائیڈ اپنی خوبصورت سواری وکٹوریہ میں سوار ہو کر کلفٹن کی خنک ہوا سے لطف اندوز ہونے ساحل کا چکر لگایا کرتی تھی - ایک دن سیر کے دوران لیڈی لائیڈ کو پارسی رئیس سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا نام سر جہانگیر ہرمز جی کوٹھاری تھا۔ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ کوٹھاری صاحب سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر شان دار بنگلے میں رہتے تھے۔ لیڈی لائیڈ اور سر جہانگیر اس بنگلے کی بالکونیوں میں چائے پیتے۔ یہاں ہوا کا بہت زور ہوتا تھا۔ ایک دن دونوں یہیں بیٹھے تھے، لیڈی لائیڈ پتھریلے راستے پر لوگوں کو چلتے دیکھ رہی تھیں، اس نا خوشگوار نظارے کے بعد انھوں نے سر جہانگیر سے کہا کہ اگر یہاں باقاعدہ سڑک ہو تو ان بے چارے بے شمار لوگوں کو تکلیف نہ ہو، جو یہاں تازہ ہوا کی تلاش میں آتے ہیں۔قابل احترام پارسی نے لیڈی کی بات مان لی۔ اب وہ اس فکر میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو۔
لیڈی نے سمجھایا کہ صرف ایک پریڈکی ضرورت ہے جو نیچے ساحلِ سمندر تک جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اُن کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔سر جہانگیر کو یہ تجویز پسند آ گئی حد نگاہ تک چوکڑیاں بھرتے سمندر کے کنارے یہ پریڈ ایک تفریح گاہ کے طور پر تعمیر ہونا شروع ہو ئ تھی۔پریڈ کی تعمیر کے لئے جودھ پور راجستھا ن سے سرخ پتھر لائے گئے اور کوٹھاری صاحب نے تین لاکھ روپے کی لاگت سے پیویلین بھی تعمیر کروایا-ور اس کا نام اپنے نام کی بجائے اپنی دوست کے نام پر رکھا۔یہ پریڈ1921 کو کھول دی گئی جہاں سے قدرتی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساحل سمندر کے دلفریب نظارہ بھی کیا جا سکتا تھا۔کلفٹن کے ساحل کو جاتے راستے پر ایک کتبے پر سیاح یہ الفاظ پڑھ سکتے ہیں، "Lady Lloyd Piar"۔
جودھ پور، راجستھان کے سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ ’جہانگیر کوٹھاری پریڈ‘ کی افتتاحی تقریب کی مہمان خصوصی گورنر جارج لائیڈ کی اہلیہ تھیں،جنہوں نے اس کا افتتاح21 مارچ 1921 میں کیا۔ سنگ بنیاد کے موقع پر نصب کی جانے والی تختی آج بھی یہاں نصب ہے۔ لیکن یہاں آنے والے لاکھوں لوگوں میں سے کچھ ہی کی نگاہ اس پر پڑی ہوگا- اسی جگہ قدیم تختی کے قریب ایک جدید تختی بھی لگی ہے ،جس پر آج کے دور کی تاریخ لکھی ہے۔ بعد ازاں ساحل دور ہوتے ہوتے کافی آگے چلا گیا تو جون 2005 میں کراچی کی ضلعی حکومت نے اس تاریخی تفریح گاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ کرتے ہوئے تعمیری پراجیکٹ کا آغاز کیا اور عمارت کے رقبے میں توسیع کرتے ہوئے اطراف کی جگہ بھی شامل کرتے ہوئے بن قاسم پارک بنیاد رکھی۔
جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی طرف کھنچ لاتی ہے۔ اس کے سامنے بنی ہوئی خوبصورت سڑک دل میں اترتی ہے۔ یہ جگہ باغ ابن قاسم کلفٹن کراچی کی تزئین وآرائش کے بعد رات کو دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔اس کے وسیع و عریض چبوترے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگی تھیں جو نیچے سڑک تک آتی تھی -چبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں جو نیچے سڑک تک آتی ہیں ۔ اسی عمارت کے دوسری طرف سے چوڑی پتھریلی سیڑھیاں نیچے ایک وسیع و عریض راہداری پر اترتی ہیں ، جو آہستہ آہستہ آگے چلتی جاتی ہیں ۔ کچھ فاصلے کے بعد ایک بار پھرچند سیڑھیاں کچھ اور نیچے اترتیں اور پھر راہداری کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا تھا ۔ یہ بہت ہی خوب صورت راہداری تھی، جس کے دونوں طرف دلکش باغات اور گھاس کے تختے لگے ہوئے ہوتےتھے۔ آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی ہوئی یہ راہ گزر اپنے سفر کے اختتام پر بالکل ہی سمندر کے قریب پہنچا دیتی تھی، جہاں سے لوگ آخری سیڑھی سے ساحل کی ریت پر چھلانگ لگا دیتے تھے۔
بدھ، 19 فروری، 2025
ہمارے خون میں سفید خلیات کی اہمیت
منگل، 18 فروری، 2025
بلوچستان کے مختلف شہروں میں کتاب میلہ لگا یا گیا
بلوچستان کے مختلف شہروں میں کتاب فیسٹیول میں ’لاکھوں روپے کی‘ کتابوں کی فروخت -بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غفور شاد کہتے ہیں کہ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے توقع سے بڑھ کر شرکت کی اورریکارڈ تعداد میں کتب کی خریداری کی غفور شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ پروگرام ضلع کیچ میں ایک نئی طرز کے فیسٹیول کی شروعات ہے، جس طرح پنجاب میں فیض اورسندھ میں ایاز میلو ہوتا ہے (عبدالغفار اور اسد بلوچ)بلوچستان کے شہر تربت میں ایک تعلیمی ادارے کے تحت کتب میلے کا انعقاد ہوا، جس کے بارے میں منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ میلہ ’لاکھوں‘ کی تعداد میں کتابوں کی فروخت کا باعث بھی بنا۔ ایک اور قابل زکر بات یہ ہے کہ یہاں آنے والوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کیونکہ بلوچستان میں کتاب میلہ بلوچستان میں ایک نئ صبح کا آغاز ہے
بلوچستان اکیڈمی آف لٹریچر اینڈ ریسرچ کے زیراہتمام ایک ادبی، ثقافتی اور علمی فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غفور شاد کہتے ہیں کہ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے توقع سے بڑھ کر شرکت کی اورریکارڈ تعداد میں کتب کی خریداری کی۔ان کے خیال میں یہ اس سے پہلے نہیں ہوا۔‘ اس پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں ادبی شخصیات کے علاوہ ماہر معاشیات، گلوکاروں، دانشوروں سمیت سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی، اس کے علاوہ کتب میلہ، ثقافتی سٹال، فن پاروں کی نمائش، میوزیکل نائٹ اور مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ غفور شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ پروگرام ضلع کیچ میں ایک نئی طرز کے فیسٹیول کی شروعات ہے، جس طرح پنجاب میں فیض اورسندھ میں ایاز میلو ہوتا ہے۔ غفورکے بقول: ’میں اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ کسی بھی ادبی فیسٹیول میں لوگ پینل ڈسکشن میں کم دلچسپی رکھتے ہیں، تاہم ہمارے پروگرام میں جب یہ سلسلہ چلا تو 15 سو کے قریب کرسیاں رکھی تھیں، جو تمام بھر گئی تھیں اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کامیابی ہے۔
‘ اس فیسٹیول میں سیاسی رہنماؤں میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، ماہرمعیشت قیصربنگالی نے بھی شرکت کی اور شرکا کو معیشت کے حوالے سے آگاہی دی۔ غفورنے بتایا: ’اس فیسٹیول میں ہم نے مقامی کتب فروشوں کے علاوہ کراچی اور لاہور سے بھی پبلشرز کو دعوت دی تھی، جن کی تعداد 30 سے زائد تھی، جنہوں نے کتب کے سٹال لگائے تھے، ہمارے جمع کردہ اعداد وشمار کے مطابق لوگوں نے تقریباً 35 لاکھ کی کتابیں تین روز کے دوران خریدیں جو ایک ریکارڈ ہے۔بلوچستان کے ضلع کیچ کا شمار شورش سے متاثرہ علاقوں میں ہوتا ہے۔غفور کہتے ہیں کہ فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد یہاں کے لوگوں کو ادب اور کتب سے قریب کرنا اور علم دوستی کا فروغ تھا، جس کا نتیجہ ہر پروگرام میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی شرکت کے ذریعے سامنے آیا، جب کہ اس میں مردوں اور خواتین کی شرکت کا تناسب آدھا آدھا رہاان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل اس قسم کی تقریبات کا ان کے ہاں رواج نہیں تھا۔ہم نے اس کی شروعات کی ہے، آئندہ بھی ہماری کوشش ہوگی کہ اس قسم کی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔‘
غفورنے بتایا کہ کتب فروشوں نے بتایا اورہم نے خود بھی مشاہدہ کیا کہ لوگوں نے کتب میں بہت زیادہ دلچسپی لی اور مختلف موضوعات کی کتابیں جن میں ثقافت، بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور سائنس بھی شامل ہیں۔ اس فیسٹیول میں کتابوں کا سٹال لگانے والےعبدالغفار بھی شامل تھے، جنہوں نے بتایا کہ یہ دوسرے کتب میلوں سے اس وجہ سے مختلف تھا کہ طلبا اور عام لوگوں کی دلچسپی کتب میں زیادہ تھی، کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا جو کتب سٹال سے خالی ہاتھ گیا ہو۔ کتب فروش عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لوگوں نے نصابی کتب کے علاوہ ناولوں کی زیادہ خریداری کی، جن میں اکثر وہ شامل تھے جو انگریزی زبان میں ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا اس کے علاوہ فکشن، سائنس، سیاست، نان فکشن، شاعری، پرانے کلاسیکل ناول خریدے گئے۔ غفارنے بتایا: ’ہمارے سٹالوں پر وہ طلبہ زیادہ تعداد میں آتے رہے، جو لٹریچر پڑھ رہے تھے اوران کے اساتذہ نے انہیں ایسی کتابیں خریدنے کی تلقین کی تھی، اس کے علاوہ خواتین کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے جو تبدیل شدہ ماحول اس وجہ سے بھی لگا کہ جو طلبہ آتے تھے وہ مخصوص کتابوں کے بارے میں پوچھتے تھے، جیسے ان کو ان کے بارے میں پہلے سے آگاہی تھی۔میں بلوچستان کے ہر علاقے میں کتب کے سٹال لگاتا رہا ہوں لیکن تربت کا ماحول اس وجہ سے مختلف تھا کہ کتب کے شوقین جنرل کتابوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔‘ غفار نے بتایا کہ اس نے تین دنوں کے دوران اپنے سٹال سے تین لاکھ کی کتابیں فروخت کیں جو اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوئی تھیں، ۔اس فیسٹیول کا نام بلوچستان کے بلوچی، اردو کے معروف شاعر عطا شاد کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اس پر غفور شاد نے بتایا: ’عطا شاد نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی سطح پر ایک بڑا نام ہیں، دوسرا اگر کیچ میں اہم شخصیات کا ذکر کیا جائے تو عطا شاد سرفہرست نظرآتے ہیں، اس لیے ہم نے ان کے نام پرفیسٹیول رکھا۔‘
عطا شاد کون تھے؟ ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے اردو اور بلوچی زبان کے شاعرمحمد اسحاق جو بعد میں عطا محمد اورپھرعطا شاد سے مشہور ہوئے، وہ یکم نومبر 1939 کو سنگانی سر کیچ مکران میں پیدا ہوئے۔-بلو چستان کے شہروں کے کتب میلے بمقابلہ کڑوڑوں کی آبادی اور اعلی تعلیم یافتہ افراد کے کراچی اور لاہور شہر کے کتب میلے:بات شروع ہوتی ہے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کے کتب میلے سے جو دنیا کے عظیم ترین کتب میلوں میں صف اول کا کتاب میلہ مانا جاتا ہے۔کوئی دس برس قبل فرینکفرٹ کے میلے میں شرکت کی تو وہاں اکلوتا پاکستانی اسٹال بھی مل گیا ۔اسٹال کا تفصیلی جائزہ لیا تو کوئی بیس فیصد سے زائد کتب مذہبی موضوعات سے متعلق تھیں۔ شام کو واپسی پر دوبارہ پاکستانی اسٹال پر جانے کا ارادہ کیا۔ راستے میں ایک ہال میں انڈیا کا پویلین آیا جو بائیس اسٹال پر مشتمل تھا ۔ اکثر انڈیا کے نامور ناشرین کے اسٹال تھے جن کی اکثریت کی اشاعت انگریزی میں تھی ۔ ان کے فکشن اور نان فکشن کے نامور ناشرین شامل تھے۔ کتابوں کے موضوعات میں ایک بڑا تنوع تھا۔ یہی تنوع ہندی کتابوں میں بھی تھا جو کہ ہندی اسٹال والوں سے گفت وشنید سے واضح ہوا۔ ایک اور بات بڑے گر کی ایک انڈین انگریزی ناشر نے بتائی کہ ہندوستان میں ناول کا اصل قاری انگلش ریڈر ہی ہے۔
پیر، 17 فروری، 2025
گلیات پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا خوبصورت مقام ہے
فرینکفرٹ میں عظیم الشّان کتب میلہ بمقا بلہ بلوچستان میں قیدی کتابیں
فرینکفرٹ میں کتابوں کے سب سے بڑے میلے کا انعقاد
آج کا اخباریورپ سے19 اکتوبر ، 2019
فرینکفرٹ(سیّد اقبال حیدر) اکتوبر کے ماہ میں ہر سال دنیا کا سب سے بڑا ’’بک فیئر‘‘ فرینکفرٹ میں ہوتا ہے ،یہ کتابی میلہ1949 میں پہلی مرتبہ ہوا۔پچھلے 70 برس سے فرینکفرٹ میں ہونے والے اس کتابی میلے میں امسال دنیا بھر سے 100 ملکوں سے آئے 7500 کتاب اور نشر و اشاعت سے متعلقہ اداروں نے 4 لاکھ علمی شہ پارے اپنے خوبصورت اسٹالز پر دیدہ زیب انداز میں پیش کئے۔ جنہیں دلچسپی رکھنے والے لگ بھگ2,85,000 افراد نے دیکھا اور سراہا،دنیا کہ اس بڑے کتابوں کے میلے میں پاکستان کی مایوس کن نمائندگی سے پاکستانی شرکاء نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرینکفرٹ کے اس بک فیئر سے دیگر ایشین ممالک ہر سال کروڑوں یورو کا بزنس اپنے ممالک میں لیکر جاتے ہیں مگر پاکستان حکومت اس اہم صنعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہی،یورپ اور امریکہ کے بڑے ادارے اپنی کتابیں چین ہندوستان اور دیگر ممالک میں چھپوا کر فروخت کر رہے ہیں،کتابی میلے میں دنیا بھر سے شاعر، ادیب، پبلشرز، بک سیلیز، لائیبریوں کے منتظمین و مالکان کے علاوہ معروف فنکاروں کی شرکت نے میلے کی رونق کو چارچاند لگا دیئے، کاغذ کی کتاب سے آن لائن کتابوں کی فراہمی کے لئے اسٹالز پر آفرز نے مشاہدین کو بہت متاثر کیا، دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اوراخباروں نے بھی میلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مارکیٹنگ کی۔ پاکستان سے پرائیویٹ پبلشنگ کے صرف دو اسٹالز تھے جن میں پیرامائونٹ بُکس پرائیویٹ لمیٹڈ نے اپنی انگلش اور اردو کتابوں کو خوبصورت انداز میں سجا کر آنے والوں کو متاثر کیا
، پڑوسی ممالک سے ہندوستان، چین اور بنگلہ دیش سے کثیر تعداد میں پبلشنگ اور متعلقہ شعبوں کی بڑی تعداد میں اسٹالز کتابوں سے سجا کر ان کے نمائندے مغربی ممالک کے خریداروں سے لمبے آرڈرز لینے میں کامیاب نظر آ رہے تھے، میلے میں ہر قسم کی ایجوکیشن کے علاوہ کچن اور بچوں کی کہانیوں اور کارٹون کی کتابوں کی بھی خوب مارکیٹنگ ہوئی۔ ************
’انتشار پھیلانے‘ والی کتابوں کا سٹال لگانے کے الزام میں 4 بلوچ طالبعلم گرفتارلاہور(جدوجہد رپورٹ)گوادر کی ایک مقامی عدالت نے بلوچستان کتاب کارواں میلے میں ’انتشار پھیلانے‘ والی کتابوں کا اسٹال لگانے کے الزام میں گرفتار 4طلبہ کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 40ہزار کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔’وائس پی کے‘ کے مطابق بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی(بساک) نے نئے سال کے آغاز پر بلوچستان بھر میں ’بلوچستان کتاب کاروان‘ میلے منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اسی سلسلہ میں منگل کے روز گوادر میں ڈھوریہ اسکول کے باہر کتابوں کا میلہ لگایا گیا۔ پولیس نے چھاپہ مار کر کتابیں ضبط کر لیں اور سٹال پر موجود 4طالبعلموں کو حراست میں لے لیا تھا۔ گوادر پولیس کے مطابق طلبہ ’انتشار پھیلانے‘ والی کتابیں فروخت کر رہے تھے۔گرفتار طلبا ء کے خلاف پولیس کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 158 بی (طلبہ کو تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر اکسانا)، 188 (سرکاری احکامات کی خلاف ورزی)، 147 (ہنگامہ آرائی) اور 149 (غیر قانونی اجتماع) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ’ڈھوریہ اسکول کے سامنے شاہراہ عام پر ایک بہت بڑا مجمع کھڑا تھا جس کی وجہ سے شاہراہ عام مکمل طور پر بند ہو چکی تھی اور عام عوام کو آمد ورفت کیلئے شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ ڈھوریہ اسکول کے سامنے روڈ پر بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلباء ایک اسٹال لگا کر انتشار پھیلانے والی کتابیں فروخت کر رہے ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا پابندی کے باوجود غیر قانونی طور پر بک اسٹال لگا کر لوگوں میں انتشار پھیلانے والی کتاہیں سرعام فروخت کر کے طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، امن و امان میں خلل ڈالنے اور علاقہ میں انتشار پھیلانے کی فضاء پروان چڑھا ارہے تھے۔‘جبکہ طالب علموں کا کہنا تھا کہ یہی کتابیں کراچی میں بھی فروخت ہو رہی ہیں تو ان میں انتشار کہاں سے آ گیا -پولیس نے طالبعلموں سے کہا کہ اوپر سے آرڈر ہے کہ یہ تماشہ بند کرواور پھر علم کے شیدائ معصوم طلبہ اور کتابیں دونو ں حوالات کی سلاخوں کے پیچھے تھے -ٹوئٹر پر تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں -کیا کہا جائے سوائے اس کے کہ وائے رے تیرے نصیب بدقسمت بلوچستان
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں واقع کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ’گوادر کتب میلے سے غیر قانونی طور پر گرفتار بلوچ نوجوانوں سمیت کتابوں کو قید کرنا بلوچ دشمن اور علم دشمن عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔‘پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گودار کی طرح بلوچستان کے دوسرے علاقے ڈیرہ مراد جمالی، اوستہ محمد، جھل مگسی، جعفر آباد، سبی، بارکھان،تونسہ، حب چوکی سمیت دیگر کچھ کتب میلوں پر پولیس اور سول وردی والے افراد نے دھاوا بول کر ہراساں کیا اور سٹالز کو بلاجواز بند کیاگیا۔‘دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے تربت یونیورسٹی میں طلبا ء کی گرفتاری اور کتب کو ضبط کرنے کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی -
اتوار، 16 فروری، 2025
الوداع 'غلامان جنت الوداع
خواجہ علی کاظم کی گاڑی کوحادثہ کیسے پیش آیا
معروف کمسن ثناء خواں خواجہ علی کاظم اور نوحہ خوان سید جان علی و زین ترابی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے، خواجہ علی کاظم کی اسکردو اور علی جان کی شگر میں تدفین کردی گئی-خواجہ علی کاظم، جو ایک ننھا سا معصوم پھول تھا، ابھی تو کھلنے والا تھا، ابھی تو اس نے خوشبو بکھیرنی تھی مگر تقدیر نے اسے ہم سے چھین لیا وہ نعت خوانی 'منقبت پڑھ کر مجمع پرسحر طاری کر دیتا تھا ۔خواجہ علی کاظم، جان علی رضوی اور زین ترابی کراچی جاتے ہوئے مانجھند نزد سہون شریف کے قریب ایک المناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے۔سہون میں انڈس ہائی وے پر دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں-(یہ خیانت ہے الفاظ کی) پولیس وین نے سامنے سے رانگ سائڈ سے ایک سو چالیس کی اسپیڈ سے آ کر ٹکر مار کر شہید کیا ہے ،) حادثے میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے، 6 زخمی ہیں، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔جاں بحق ہونے والوں میں کم عمر نعت خواں اور منقبت خواں خواجہ علی کاظم اور علامہ حسن ترابی کے بھائی زین علی ترابی بھی شامل ہیں۔کاظم خواجہ اپنے احباب کے ہمراہ انجمن حیدری خیرپور سے سالانہ جشنِ امامِ زمانہ میں شرکت کے بعد کراچی جا رہے تھے۔خواجہ علی کاظم نے اپنی موت سے قبل فیس بک پر کراچی آنے کی اطلاع اپنے چاہنے والوں کو دی تھی۔سوشل میڈیا پر لوگ خواجہ کاظم علی کے پڑھے ہوئے کلام کو شیئر کررہے ہیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت بھی کررہے ہیں۔
پولیس کے مطابق سہون میں سن کے قریب انڈس ہائی وے پر دو گاڑیوں میں تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں کار میں سوار 5 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے، جبکہ 6 افراد زخمی ہیں۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثہ کار ڈرائیور کی جانب سے غلط سائیڈ پر کراسنگ کرنے کے باعث پیش آیا، جاں بحق افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔جاں بحق ہونےوالوں کی شناخت خواجہ علی کاظم، زین علی ترابی،خواجہ ندیم، عبدالغنی اور جان علی شاہ کےناموں سے ہوئی، حادثے کی شکار کار سیہون سے حیدرآباد جا رہی تھی جان علی کاظم کی گاڑی کو رانگ سائڈ سے ۱یک سو چالیس کی اسپیڈ سے آنے والی پولیس وین نے کچل دیاگلگت بلتستان کے معروف نعت خواں کاظم علی خواجہ، سید جان علی اور شہید علامہ حسن ترابی کے فرزند زین ترابی ایک افسوسناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں، ان کی المناک حادثے میں وفات پر گلگت بلتستان بھرمیں سوگ کا سماں ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نعت خواں کاظم علی خواجہ، سید جان علی اور شہید علامہ حسن ترابی کے فرزند زین ترابی سندھ کے علاقے خیرپور میں منعقدہ میلاد کی تقریب میں شرکت کے بعد کراچی واپس جارہے تھے کہ جامشورو کے قریب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا،
جس کے نتیجے میں تینوں موقع پر ہی جاں بحق ہوگئےمرحومین کے انتقال پر گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جارہا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کی مغفرت کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے، مختلف مذہبی و سماجی شخصیات نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے ننھے نعت خواں خواجہ علی کاظم جو اپنی آواز سے سماں باندھ دیتے تھے، وی نیوز مہمان بھی بن چکے ہیں۔وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، وہ جتنے اچھے نعت خواں ہیں اتنے ہی اچھے کرکٹر بھی ہیں۔، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں،۔کیا یہ عجیب پُر اسرار حادثات نہیں۔۔؟ ایسے حادثے صرف ہمارے مقاومتی جوانوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں۔
22 جنوری 1998 کو علامہ عرفان حیدر عابدی بمعہ اہلیہ ٹریفک حادثے میں شہید ہو گئے جب وہ خیرپور سے سپر ہائی وے کے راستے کراچی آ رہے تھے۔علامہ شہنشاہ حسین نقوی کی گاڑی کا بھی اندرون سندھ میں خیرپور جاتے اسی مقام پر پراسرار حادثہ ہوا مشہور نوحہ خواں عرفان حیدر و فرزند بھی کراچی سے خیرپور جاتے اسی مقام پر حادثے کا شکار ہوئ- علامہ سید سفیر شیرازی نجفی بھی اپنے گن مین و ڈرائیور کے ہمراہ پراسرار حادثے میں شہید کر دیئے گےشہید حسن ترابی جن پر دو مرتبہ بم دھماکہ سے حملہ کیا گیا آخری خودکش دھماکے میں آپ شہید ہوگئےاور اب آج صبح آپ کے عظیم مقاومتی جوان بیٹے زین ترابی اپنے مقاومتی ساتھیوں سمیت خیرپور سے کراچی جاتے اسی مقام پر بظاہر ٹریفک حادثے میں شہید کردئیے گےکیا سارے اتفاق ہیں ۔؟ اور ہم اہل عزاء اپنے شہید وں ' علی کاظم اور علی نادم سید عزیز جان آغا زین ترابی ان شاء الله ہم اس حادثے کی تحقیقات اب مولا امام زمانہ کے سپرد کرتے ہیں وہی ہماری آخری امید ہے۔۔۔ اب تعزیت کے الفاظ ختم ہوچکے ہیں اورآخری الفاظ ہیں الوداع غلامان جنت الوداع '
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...