جمعرات، 2 جنوری، 2025

تاریخ انسانی کا امیر ترین حاکم-منسا موسیٰ

  


جس طرح کھیلوں کی دنیا میں ہر کچھ عرصہ بعد کھلاڑیوں کی کارکردگی کی رینکنگ (درجہ بندی)متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری ہوتی رہتی ہے اسی طرح دولت کی دنیا میں بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر کے دولت مندوں کے اثاثوں کی درجہ بندی جاری ہوتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف بین الاقوامی جریدے ''فور بز‘‘ نے دنیا کے موجودہ دس امیر ترین لوگوں کی درجہ بندی کی ایک فہرست جاری کی تھی جس کے مطابق'' ایمیزون‘‘ کے مالک جیف بیزوز 131 بلین ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص قرار پایا ہے جبکہ مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس 96.5بلین ڈالرز کے ساتھ دوسرے نمبر پر،برک شائیر ہیتھ وے کے واران بفے 82.5 بلین ڈالرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے پر ایسے لوگوں کا پتہ بھی ملتا ہے جو دور جدید کے ارب پتیوں سے کہیں زیادہ اثاثہ جات کے مالک رہے ہیں۔مثال کے طور پر لیبیا کے آنجہانی صدر معمرقذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کے اثاثے عالمی طور پر منجمد کر دئیے گئے تھے جنکی مالیت 200بلین ڈالر بنتی ہے، اسی طرح رومن سلطنت کے مارکس لیسینس کراسس کے اثاثوں کی مالیت آج کے حساب کے مطابق 201ملین ڈالر بنتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ سنکر حیرت ہوگی کہ موجودہ دور کے ارب پتیوں کے مقابلے میں تاریخ میں ایک ایسے مسلم حکمران کا نام بھی ملتا ہے جس کی دولت کا اندازہ موجودہ اور سابقہ ادوار کے اشخاص سے کئی گنا زیادہ بتایا جاتا ہے۔


تاریخ کے اس امیر ترین شخص کا اصل نام موسیٰ کیٹا تھا لیکن تخت نشینی کے بعد یہ منسا موسیٰ کہلایا ۔منسا مقامی زبان میں بادشاہ کو کہتے تھے۔ یہ سن 1312 سے 1337 تک سلطنت مالی کا حکمران تھا۔ منسا موسی تاریخ کا امیر ترین شخص مانا جاتا ہے۔اس نے مالی سلطنت پر جس زمانے میں حکومت کی اس وقت سلطنت مالی معدنیات کے خزانوں جن میں گرینائیٹ ، یورینیم، فاسفورس چونا،نمک اور سونے سے مالا مال تھی بالخصوص سونے کے ذخائر کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودھویں صدی کے اوائل میں سلطنت مالی دنیا میں سونے کی کل ترسیل کے نصف کی مالک تھی۔یہی وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں سونے کی مانگ عروج پر تھی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بقول بی بی سی ، منسا موسیٰ کی سلطنت کی حد کسی کو معلوم نہیں تھی۔اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ آج کے موریطانیہ، سینی گال، گیمبیا ، گنی، برکینیا فاسو، مالی، نائیجیر ، چاڈ اور نائیجیریا وغیرہ کے علاقے اس زمانے میں منسا موسی کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔


اس زمانے میں ٹمبکٹو Tomboucto مالی کا سب سے بڑا علاقہ تھا جو سلطنت کے شمال میں واقع تھا اور دنیا کے سب سے بڑے صحرا صحارا کے جنوب مغرب میں واقع تھا۔ٹمبکٹو کی وجۂ شہرت زمانہ ء قدیم میں افریقہ سے ہونے والی سونے کی ساری تجارت تھی اور یہی شہر سونے کی تجارت کا مرکز تھا۔منسا موسیٰ ایک دویش صفت،نیک اور سخی حکمران کی شہرت رکھتا تھا۔اس کے عدل و انصاف کے متعدد قصے تاریخ میں درج ہیں۔منسا موسی کے دور حکومت کا مشہور ترین واقعہ سن 1324 میں اس کا منفرد سفر حج تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ منسا موسیٰ کی حج کی تیاری کو لگ بھگ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ سونے کی تاروں سے مرصع شاہی خیمے بنائے گئے۔اہل خانہ کے لئے سفری محل بنایا گیا۔موسیٰ کے ذہین ترین درباریوں نے ہزاروں خیموں پر مشتمل ایک بے مثال چلتا پھرتا شہر بنا ڈالا۔منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس سفر حج کی وجہ سے ملی۔یہ سفر اس قدر پر شکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کے نام کے چرچے ہونے لگے۔
 
۔لوگوں نے دیکھا کہ منسا موسیٰ کے قافلے کے ہمراہ ساٹھ ہزار افراد تھے۔جن میں سے بارہ ہزار اس کے غلام اور پیروکار تھے جنہوں نے چار چار پاؤنڈ سونا اٹھا رکھا تھا بقول ابن خلدون منسا موسیٰ کے قافلے میں اتنے زیادہ لوگ تھے کہ ان کاشمار مشکل تھا۔منسا موسی جس گھوڑے پر سوار تھا اس کے لئے سونے کی خصوصی لگامیں تیار کی گئی تھیں۔اسی طرح منسا موسیٰ کے آگے 500 افراد کا دستہ تھا جنہوں نے خوبصورت ریشمی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور ہر ایک کے ہاتھ میں سونے کی ایک ایک چھڑی تھی۔ اس کیساتھ ساتھ اس قافلے میں 80 اونٹوں کا ایک کارواں بھی تھا جس کے ہر اونٹ پر 136کلو سونا لدا ہوا تھا۔دراصل اس وسیع سلطنت میں سلطنت مالی دنیا کے آدھے سونے کی مالک تھی اور ان سب کا مالک منسا موسیٰ تھا۔ایک اندازے کے مطابق منسا موسیٰ نے 125ٹن سونا راہ خدا میں خرچ کیا تھا۔اس سفر کے دوران یہ جہاں سے گزرتا غرباء کی مدد کرتا ہر جمعہ کووہاں ایک مسجد تعمیر کراتا اور وہاں کے حاکم اور تاجروں کو ملتا اور انہیں سونے سے مالا مال کر دیتا۔ کہتے ہیں کہ قاہرہ اور مدینہ کے لوگوں نے اتنا سوناشاید خواب میں بھی نہ دیکھا ہو گا جتنا منسا موسیٰ اپنے ساتھ سفر میں لایاتھا۔


 منسا موسیٰ اس سفر کے دوران مختلف ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی ملتا ہوا جاتا۔مصر کے مملوک سلطان اور النصر محمد سے اس کی ملاقات تاریخ کے اوراق میں آج بھی زندہ ہے۔ابن خلدون کہتا ہے النصر محمد جیسا بادشاہ منساموسیٰ کے جاہ و جلال اور دولت کو دیکھ کر ششدر رہ گیا ‘‘۔اس سفر کے دوران اس نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی برسوں تک گری رہیں۔اس زمانے میں غالباً مغربی افریقہ کے اس علاقے میں سونے کی کثیر تعداد پائی جاتی تھی۔منسا موسی اس قدر فراخ دل، سخی اور شاہ خرچ تھا کہ جب مصر سے گزرا تو کہتے ہیں کہ اس نے غریبوں کو اتنے عطیات دئیے کہ علاقے میں افراط زر کی کیفیت ہو گئی۔ منسا موسیٰ مناسک حج سے جب واپس آ رہا تھا تو اس  نے اپنے  عوام کو یہ باور کروایا کہ  میں ان علاقوں کی معیشت کیسے بہتر کر سکتا ہوں کیونکہ میرا ارادہ تو  بس   لوگوں کی ناداری دور کر کے ان کی  مدد کرنا تھا۔  

ہمارے ہنی مون کا پہلا پڑاؤ،ہنہ جھیل کوئٹہ

 

انیس سو پینسٹھ  اپریل کا مہینہ  موسم بہار کے دن تھے اور آخری ہفتے میں میری شادی انجام پائ اور میرے شوہر نے مجھ سے کہا چلو کوئٹہ چلتے ہیں انہوں نے اس مقصد کے لئے آفس سے چھٹیا ں بھی لے لی تھیں -یہ سفر  میری زندگی میں     پاکستان ہجرت کے سولہویں برس پر آیا تھا اور میری عمر بھی تقریباً اتنی ہی تھی -ہم نے کراچی کینٹ سے دن کے دو بجے اپنے اس خوبصورت سفر کا آغازکیا اور اگلے روز کا وقت یاد نہیں  کہ کس وقت کوئٹہ پہنچے -کوئٹہ میں میرے ماموں جو سارے جگ کے منے ماموں تھے اور ہمارے منے ماموں  میرے شوہر کے خالو تھے -انہوں نے ہماری رہائش کا انتظام کیا ہوا تھا وہاں ہم دونوں نے ناشتہ کیا اور چند گھنٹے آرام کیا پھر  ہم نے  سب سے پہلے ہنہ جھیل کی سیر  کا پروگرام بنا لیا -میں راستے کی خوبصورتی میں محو ہو گئ -میں نے تازہ خوبانیوں سے اور دیگر پھلوں سے لدے باغات دیکھے جو ہمارے دو رویہ سفر میں کافی دیر ہمارے ساتھ رہے پھر جھیل آگئ   -


  پھلوں کے باغات سے آراستہ اس وادی کے بیچوں بیچ زندگی بخش، ہنّہ ندی رواں دواں ہے، جس کا پانی ہنّہ جھیل میں جمع ہوتا ہے اور جب کوہِ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہونے والا سورج ہنّہ جھیل کے گرد واقع پہاڑیوں میں غروب ہونے لگتا ہے، تو اس کی کرنیں نیلگوں پانی میں سنہرا رنگ بَھر دیتی ہیں۔ ہنّہ جھیل کی سیر کے لیے سیّاح دُور دُور سے آتے ہیں۔گرچہ ہنّہ جھیل کی تاریخ کے حوالے سے کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ پہاڑپر پگھلنے والی برف اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے چھائونی میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی حکومت نے ایک بند تعمیر کر کے اسے جھیل کی شکل دی۔ بند کی تعمیر 1901ء میں شروع ہوئی اور 1908ء میں اس کی تکمیل کے بعد اسے جھیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ بند کے ساتھ ہی موجودہ کلی حاجی عطا محمد کے مقام پر ایک ہیڈ ورکس بھی تعمیر کیا گیا، جسے ’’سرپل‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر طویل نہر کے ذریعے ہنّہ ندی کا پانی جھیل تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ وادیٔ اُڑک کی ہنّہ جھیل قدرتی حُسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشرق میں کوہِ زرغون ہے۔


۔ برطانوی حکومت نے ہنّہ ندی سے پائپ لائن کے ذریعے چھائونی کو پانی مہیا کیا تھا اور اس پائپ لائن کا ذکر بلوچستان کے تاریخی گزیٹیر میں بھی موجود ہے۔ ماضی میں ہنّہ ندی کوئٹہ کے مضافات میں واقع، نواں کلی سے ملحقہ کلی کوٹوال اور کلی ترین شار میں موجود باغات کو سیراب کرتی تھی۔ ندی کے ارد گرد 20سے 25آٹے کی چکّیاں بھی موجود تھیں، جو کوئٹہ کے عوام کی آٹے کی ضروریات پوری کرتی تھیں ہنّہ جھیل کے درمیان ایک ٹیلے نُما چھوٹا سا مصنوعی جزیرہ بھی بنایا گیا ہے اور اس کی چوٹی پر نگرانی کے لیے ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں جھیل کی خُوب صُورتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سڑک اور جھیل کے درمیان ایک جنگلا نصب کیا گیا ہے۔ہنّہ جھیل میں سیّاحوں کے لیے واٹر اسپورٹس کی سہولتیں اور جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کشتیاں بھی موجود ہیں۔ ہنّہ جھیل اور وادیٔ اُڑک کے قدرتی نظّاروں کو دیکھنے کے بعد عقلِ انسانی اپنے پروردگار کے جمالیاتی ذوق پر دنگ رہ جاتی ہے۔ جھیل کی چاروں جانب بلند و بالا پہاڑ واقع ہیں، جن کے درمیان یہ ایک بہت بڑے پیالے کی مانند دِکھائی دیتی ہے۔ موسمِ سرما میں ہونے والی بارشوں اور برف باری کی بہ دولت یہ سارا سال پانی سے بَھری رہتی ہے، جسے اطراف میں پھیلے کھیتوں اور باغات تک پہنچایا جاتا ہے۔ یوں اس جھیل کو سیّاحت کے علاوہ زراعت اور باغ بانی کے لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ گرچہ ہنّہ جھیل، مشہور جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے، لیکن اس کے گرد سبزے سے ڈھکے پہاڑ موجود نہیں۔ تاہم، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جھیل کنارے شجرکاری کی گئی ہے اور یہاں کافی تعداد میں کوئٹہ پائن، چنار اور ایش کے درختوں کے علاوہ پَھل دار درخت بھی لگائے گئے ہیں، جس کی بہ دولت جھیل کی دِل کَشی میں مزید اضافہ ہواہے۔ اپنے اس خوبصور سفر کے دوران میرے شوہر مجھے دو بار ہنہ جھیل لے کر گئے اور بوٹ کی سواری بھی کروائ اور جھیل کے قلب میں  جزیرے کی سیر بھی کروائ


 اصل جھیل سڑک سے تقریباً 30فٹ نیچے واقع ہے اور سڑک اور جھیل کے درمیان موجود ڈھلوان سطح پر سیّاحوں کے لیے سیڑھیاں، راہ داریاں اور ایک پختہ سائبان بنایا گیا ہے۔ ہنّہ جھیل کو ایک قدرتی سیر گاہ اور سیّاحتی مرکز کے طور پر ترقّی دینے کے لیے باضابطہ ترقّیاتی ادارہ قائم کیا گیاہے۔ اس ادارے نے سیّاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ جھیل کی صفائی کا بھی خصوصی انتظام کیا اور اس سلسلے میں جدید مشینز کے ذریعے خطرناک جھاڑیوں اور دلدلی مٹی کا صفایا کیا گیا۔ یوں غرقابی کا خطرہ ختم ہو گیا اور جھیل، پیراکی کا شوق رکھنے والوں کی توجّہ کا مرکز بن گئی۔ جھیل میں کشتی رانی کا انتظام بھی کیا گیا ہے، لیکن نجی کشتیاں چلانے کی بہ جائے ترقّیاتی ادارے ہی کے زیرِ اہتمام کشتیاں اور موٹر بوٹس چلائی جاتی ہیں ، جو سیّاحوں کو نہ صرف جھیل بلکہ اُس کے وسط میں واقع جزیرے کی بھی سیر کرواتی ہیں۔ جھیل پر ہر موسم میں سیّاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ موسمِ گرما میں سیّاح یہاں نسبتاً سرد اور خوش گوار ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما میں برف باری کے نظارے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں، کیوں کہ برف باری کے موسم میں اس جھیل کی دِل کشی مزید بڑھ جاتی تھی ۔-ہنی مون سے واپس آ کر بڑے عرصے ہنہ جھیل میرے دل میں بسیرا کئے رہی

منگل، 31 دسمبر، 2024

پاکستان کی ہیلن کیلر صائمہ سلیم

 

    اکتوبر 15کوبصارت سے محرومین کا عالمی دن تمام دنیا میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس دن کا اغاز  1964ءمیں اکتوبر کی 15 یو۔ این۔ او۔  ایک قرارداد سے ہوا تھا، جس کا مفہوم یہ ھے کہ وہ لوگ جو بینائی سے محروم ہیں ان کی ہمتیں بڑھائی جائیں۔ انہیں زیور علم سے آراستہ کیا جائے اور اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسی طرح جی سکیں جیسے سب ذی حیات جیتے ہیں۔ " وائٹ کین سیفٹی ڈے" اسی عہد کی یاد دہانی ہے۔یاد رہے کہ یہ تصور محض کسی دیوانے کی بڑ نہیں۔ بینائی سے محروم افراد نے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے وہ جھنڈے گاڑے ہیں کہ کبھی کبھی بینائی بھی ان سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔ ہیلن کیلر  جو اپنے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی نابینا ہو گئ تھی  انہوں نے  اپنے سماج میں ایسے نقش قدم چھوڑے جو رہتی دنیا تک ایک مثال بن گئےپاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ، ڈاکٹر اقبال نے 1979ءسے قائم کر رکھی ہے، جس کا ہیڈ آفس 13۔لالہ زار پارک فاروق کالونی یونیورسٹی روڈ سرگودھا میں ہے۔ یہ ضلع بھر کے نابیناؤں کی نمائندہ اور رجسٹرڈ تنظیم ہے جو گزشتہ 45 برس سے نابینا افراد کی تعلیم، بحالی اور ان کے مختلف مسائل کو حل کرنے کی حتی المقدور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے -اس ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ، ڈاکٹر اقبال نے 1979ءسے قائم کر رکھی ہے


 - ۔ اب میں قارئین کو ایک ایسی پاکستانی باہمت  بیٹی کے متعلق  بتانا چاہوں گی جس کو دنیا  پاکستان کی ہیلن کیلر کہتے ہیں  صائمہ سلیم اگست 1984ء کو پیدا ہوئی۔ انہیں بچپن سے ہی پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر ایک موروثی مرض نے ان کی آنکھوں کی بینائی چھیننا شروع کردی اور وہ 13 سال کی عمر میں دیکھنے جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوگئیں۔ان کے والدین اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار کرتے تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور عزیز جہاں ٹرسٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم دلوائی۔ انہوں نے بی اے کا امتحان انگلش لٹریچر میں فرسٹ ڈویژن میں کنرڈ کالج فار وومن یونیورسٹی سے پاس کیا اور وہیں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اپنے ملک کی خدمت کا خواب دیکھا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہیں بہت جدوجہد کرنی پڑی۔سی ایس ایس کے امتحانات کا انعقاد کروانے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) نامی ادارے نے کمپیوٹر کے ذریعے ان کا امتحان لینے سے انکار کردیا۔

 تاہم ان کی کاوشیں رنگ لائیں اور 2005ء میں صدرِ پاکستان کی طرف سے ایک آرڈیننس منظور ہوا جس میں نابینا افراد کو کمپیوٹر کے ذریعے امتحان دینے کی اجازت دے دی گئی۔اسی قانون کے تحت انہوں نے سی ایس ایس 2007ء کا امتحان دیا اور انہوں نے مجموعی طور پر چھٹی اور خواتین میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد جب ان کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو ایف پی ایس سی نے صرف 4 گروپس (اکاؤنٹس، کامرس، انفارمیش اور پوسٹل) میں تعیناتی کا آپشن دیا۔ مگر وہ تو فارن سروس میں جانا چاہتی تھیں، جس کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔انٹرویو کے دوران پینل کی طرف سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ، 'کیا وہ ان کی تعیناتی کے لیے پیش کیے گئے گروپس سے مطمئن ہے؟' تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ ’نہیں، میں مطمئن نہیں ہوں۔ مقابلے کے امتحان کے بعد حاصل کردہ پوزیشن کی بنا پر مجھے گروپ میں تعینات کیا جائے'۔ان کی درخواست کو اس وقت کے وزیرِاعظم نے منظور کرلیا۔ اس طرح وہ 2009ء میں پاکستان کی پہلی قوتِ بینائی سے محروم سفارت کار بن گئیں۔

 آج کل وہ سیکریٹری برائے انسانی حقوق جنیوا، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ہم انہیں 'صائمہ سلیم' کے نام سے جانتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقعے پر انہوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات کا جواب بھرپور طریقے سے دیا۔ جنرل اسمبلی میں پہلی بار کسی پاکستانی نے 'بریل' کے ذریعے پڑھ کر جواب دیا۔ بے شک پاکستان کو صائمہ سلیم جیسی باہمت خاتون پر فخر ہے۔ انہیں پاکستان کی 'ہیلن کیلر' بھی کہا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ہمیں ایسے رول ماڈلز کی تشہیر ملکی و غیر ملکی سطح پر کرنی چاہیے تاکہ دیگر لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھے۔ صائمہ سلیم کی تعلیم کے ساتھ لگن جاری رہی اور 2019ء میں انہوں نے ایل ایل ایم کی ڈگری بین الاقوامی قانون (اسپیشلائزیشن اِن انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لا اینڈ انٹرنیشنل ہیومنٹیرین لا) میں یونیورسٹی آف جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حاصل کی۔

اس سے پہلے وہ 2012ء میں فل برائٹ اسکالر شپ پر جارج ٹاؤن یونیورسٹی آف فارن سروس بھی گئیں۔ وہ لکھاری اور موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ انہیں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور بہترین تعلیمی کارکردگی پر قائدِاعظم گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔بے شک پاکستان کو صائمہ سلیم جیسی باہمت خاتون پر فخر ہے

جون ایلیا ' اپنے زمانے کا یگانہ شاعر

 

چاہتا ہوں بھول جاؤں تمہیں

اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں

جیسے تم صرف اک کہانی تھیں

جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

 جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ، ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، شفیق حسن ایلیا، ادب اور فلکیات کے اسکالر تھے جو عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور برٹرینڈ رسل جیسے معروف دانشوروں کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے۔ جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔جون ایلیا کا  نام سید حسین سبطِ اصغر نقوی ہے،عام طور پر اپنے قلمی نام جون ایلیا سے پہچانے جاتے ہیں،آپ ایک پاکستانی شاعر تھے۔ جدید ترین اردو شاعروں میں سے ایک، جو اپنے غیر روایتی طریقوں کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے "فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، مسلم صوفی روایت، مسلم مذہبی علوم، مغربی ادب اور قبالہ کا علم حاصل کیا۔" وہ اردو، عربی  ، سندھی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی۔میں روانی رکھتے تھے۔ پاکستان کے مشہور صحافی، ماہر نفسیات رئیس امروہی اور جنگ اخبار کے پہلے ایڈیٹر اور فلسفی سید محمد تقی جون ایلیا کے بھائی تھے، جب کہ مشہور خطاط اور مصور صادقین، فلمساز کمال امروہی ان کے کزن تھے۔


   ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیاہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء  میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔ وہ شاعری میں‌ اپنے منفرد لب و لہجے اور روایت شکنی کے سبب خاص و عام میں مقبول ہوئے،انہوں نے اپنے کلام میں‌ محبوب کو براہِ راست اورنہایت بے تکلفی سے مخاطب کیا، ان کی شاعری ہر عمر اور طبقے میں‌ پسند کی گئی ۔ جون ایلیا کی شاعری میں علامتی نظام کے جائزے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جدید شاعری میں رائج  لفظوں کو ہی اپنی شاعری میں برتا ہے اور جدید شعراء کی طرح ہی بہ طور علامت نظم کیا ہے۔ ان علامتوں میں کوئی نیا پن محسوس نہیں ہوتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان علامتوں میں ان کا انداز بیان نمایاںہے۔ جو الفاظ عموماً غزل میں استعمال نہیں ہوتے ہیں   ان الفاظ کوبھی جون ایلیا نے اپنی غزلوں میں علامت بنا کر پیش کیاہے۔  کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ جون ایلیا  نے اپنی  شاعری کو  فکروفن کا حسین امتزاج جو دیا تو شاعری کی دنیا میں وہ ایک بلکل الگ  اور  انوکھی شناخت لے کر وارد ہوئے  اور اپنے ہم عصر شعراء کو پیچھے چھوڑ دیا

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

،،

میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے

اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو

پاکستانی سینئر اداکار منور سعید بھی جون ایلیا کے رشتے دار ہیں۔   جون ایلیا کی تعلیم امروہہ کے مدرسوں میں ہوئی جہاں انہوں نے اردو، عربی اور فارسی سیکھی۔ اسے نصابی کتابوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ بڑے ہونے کے بعد وہ فلسفہ اور ادب میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی اور عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی بھی جانتے تھے۔ جوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہو گئے۔سنہ ء۱۹۵۶ میں اپنے والدین کی وفات کے بعد وہ جبراً پاکستان آئے۔ لیکن امروہہ تمام زندگی ان کے دل میں آباد رہا ۔وہ کراچی میں آباد ہو گئے تھے لیکن   امروہے کے گلی کوچوں میں ہی اپنے شب و روز بسر کرتے تھےجون ایلیا کو کام میں مشغول کرنے اور انہیں ہجرت کے دباؤ سے آزاد کرنے کے لیے،ان کے بڑے بھائ  رئیس امروہوی نے ایک علمی اور ادبی جریدہ "انشا" شروع کیا، جس میں جون ایلیا نے اداریے لکھے۔


بعد میں اس رسالے کو "ورلڈ ڈائجسٹ" میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران جان نے قبل از اسلام مشرق وسطیٰ کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنیت اور فلسفہ پر کتابوں کا انگریزی، عربی اور فارسی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے کل 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ڈویلپمنٹ بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انہوں نے ایک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔جون ایلیا کا مزاج بچپن سے ہی رومانوی تھا۔ وہ اکثر اپنے تصور میں اپنے محبوب سے باتیں کیا کرتے تھا۔ جون ایلیا جس زمانے میں ’’انشا‘‘ میں کام کر رہے تھے اس دوران ان کی ملاقات مشہور صحافی اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔سال  1970 میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ زاہدہ حنا نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ آپس میں خوش تھے لیکن دونوں کے مزاج میں فرق نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھایا۔ آخر کار تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں میں طلاق ہو گئی۔ انکی دو بیٹیاں سنینا ایلیا، فینانا فرنام ، اور ایک بیٹا زریون ایلیا ہیں۔


جون ایلیا کی شخصیت کو ان کے دوست نے کچھ یوں پیش کیا ہے۔ "ایک تیز مزاج لیکن انتہائی مخلص دوست، ایک مہربان اور صاف گو استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہگیر، ایک دلچسپ بحث کرنے والا، ایک مغرور فلسفی، ایک جلد باز سوگوار، غیر معقول طور پر خودغرض اور سرکش۔ ایک عاشق، ایک ویران۔ جو ہر وقت تمباکو نوشی کرتا ہے، ایک محفل پسند، بہت کمزور لیکن جھگڑا کرنے کا شوقین ایک ہی وقت میں پوری دنیا کے ساتھ، ایک غیر محرم جو ہر وقت کو اپنا محرم سمجھتا ہے، انتہائی غیر ذمہ دار، بیمار، شدید جذبے کا شاعر، یہ فنکار ہے جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔ جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کا جھنڈا گاڑ دیا تھا، شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوئےان کی شرکت ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ ممتاز شعراء ان مشاعروں میں شرکت سے گھبراتے تھے جن میں جون ایلیا بھی شامل تھے۔ جان کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر باہر نکلنا، رات کو دھوپ کا چشمہ لگانا اور لمبے جوتے پہن کر لوگوں سے ملنے نکلنا ان کا عام تھا۔ زاہدہ حنا سے علیحدگی جون کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ نیم تاریک کمرے میں اکیلے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ سگریٹ  نے بھی ان کی صحت کو متاثر کیا۔ ان کا انتقال 8 نومبر (2002) کو ہوا

ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں

ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا




اتوار، 29 دسمبر، 2024

اور حضرت زکریا ّٗع 'کا قلم پانی میں ٹہر گیا

 

 از روئے  قران   قصہ بی بی مریم سلام اللہ علیہا ' بنتِ عمران علیہ السلام

 

حضرت مریم ؑ کی والدہ  حنّہ بنتِ فاقوذ بن قبیل نہایت برگزیدہ خاتون تھیں۔ آپ کا حضرت دائود علیہ السلام کے خانوادے سے تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سمیت ہر طرح کی آسائش سے نوازا، لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ اُن کے شوہر عمران بن ہاشم بھی عابدوزاہد، متقّی و پرہیزگار شخص تھے، جن کا شمار بنی اسرائیل کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ گرمیوں کی ایک سہ پہر کا ذکر ہے، بی بی حنّہ اپنے گھر کے صحن میں درختوں کے نیچے آرام کررہی تھیں کہ اچانک اُن کی نظر درخت کی ایک ٹہنی پر پڑی، جہاں ایک چڑیا اپنے معصوم بچّے کو دانہ کِھلانے میں مصروف تھی۔ بچّے سے ماں کی بے لوث محبّت کے اس منظر نے حنّہ کی ماں بننے کی خواہش کو  دل میں  جگا دیا۔ بے اختیار ربّ ِذوالجلال کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کردیئے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ دُعا گو ہوئیں، ’’اے پروردگار! اسی طرح مجھے بھی اولادعطافرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی نیک بندی کی دُعا قبول فرمائی اور بی بی حنّہ   کو گود ہری ہونے کی نوید مل گئ    


اس خُوش خبری کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے منّت مان لی، جس کا ذکر قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ نے یوں فرمایا، ترجمہ: ’’جب عمران کی بیوی نے کہا، اے میرے ربّ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، سب سے آزاد کرکے مَیں نے تیری نذر کیا۔ سو، تُو مجھ سے قبول فرما، بے شک تُو ہی سُننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘ اور جب بچّی پیدا ہوئی، توکہنے لگیں کہ ’’اے میرے ربّ! مَیں نے تو وہ لڑکی جَنی ہے۔ اور جو کچھ اُس نے جنا ہے، اللہ اُسے خُوب جانتا ہے، اور بیٹا، بیٹی کی طرح نہیں ہوتا، اور مَیں نے اِس کا نام مریم رکھا اور میں اِسے اور اِس کی اولاد کو شیطان مردود سے بچا کر تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیات نمبر 35،36)حضرت مریم   کی ماں نے جو نذر مانی تھی، وہ بیت المقدس کی خدمت تھی اور بیت المقدس کی خدمت کے کام لڑکے ہی کرسکتے تھے۔ بیت المقدس کی خدمت کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کے لینے کا رواج نہیں تھا۔ 


لیکن جب حضرت  عمران کی بیوی کو لڑکی پیداہوگئی تو انھوں نے بڑی حسرت و یاس سے اپنے رب کو پکارا اور فرمایاخدایا! میں تو اسے تیرے نام وقف کرچکی تھی، لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے۔ نذر مانتے وقت ان کے خیال میں یہی تھا کہ لڑکاہوگا مگر لڑکی پیدا ہوگئی۔ معذرت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اب میری نذر کا کیا ہوگا؟ اللہ نے انھیں تسلی دی اور اطمینان دلایاکہ نذر مانتے ہوئے تمہیں اس کا علم نہیں تھا کہ کیا پیدا ہوگا مگر اللہ تعالیٰ تو جانتاتھا کہ تمہیں لڑکی پیدا ہوگی اور وہ لڑکی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والا لڑکا دونوں ہی اللہ کی نشانیوں میں سے ہوں گے۔ تمہیں اس لڑکی کی ابھی قدر معلوم نہیں ہے، اس لیے تم حسرت کررہی ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے پھر جب بچی اس کے یہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا: مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ حالانکہ جو کچھ اس نے جناتھا اللہ کو اس کی خبر تھی۔ اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ خیر، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیاہے اور اسے اور اس کی آیندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہیں۔  


خرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرمالیا۔ اُسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اُٹھایا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنادیا۔ زکریا جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتے تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان ہوتا۔آپ  پوچھتے مریم! یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتیں اللہ کے پاس سے آیا ہے۔ اللہ جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔مریمؑ   حضرت زکریا ؑ  کی کفالت  میں اللہ کی طرف سے نذر قبول ہوگئی اور حضرت مریم بیت المقدس کی خدمت اور اس میں عبادت کے لیے خاص کردی گئیں تو اب سوال اٹھاکہ ان کی کفالت کون کرے۔ پہلے ذکر ہوچکاہے کہ ان کے والد عمران بن ماثان کا ان کی ولادت سے پہلے ہی انتقال ہوچکاتھا۔ اللہ کی طرف سے والدۂ مریم کی نذر اس لڑکی کی شکل میں قبول ہوجانے کے بعد اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہوگئی تھی۔ بیت المقدس کے خدمت گاروں اور کارندوں میں اس بات پر جھگڑا ہونے لگا اور ہر کوئی چاہیے لگاکہ یہ عظیم لڑکی اس کی کفالت میں دی جائے۔جب کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوتو پھر ایک شرعی طریقہ یہ ہے کہ قرعہ اندازی کی جائے اور اس میں جو نکل جائے اسی کو فیصلہ مان لیاجائے۔ حضرت مریم کی کفالت کے سلسلہ میں بھی قرعہ اندازی ہوئی، لیکن یہ قرعہ اندازی دوسری شکل میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:


ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَ آئِ الغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَاکُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَاکُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ ﴿اٰل عمران: ۴۴﴾

وَکَفَّلَھَازَکَرِیَّا  ﴿اٰل عمران: ۳۷﴾        ’’اور زکریا کواس کا سرپرست بنادیا’’


حضرت زکریاؑ   حضرت مریمؑ  کے سگے خالو تھے اور اپنے اس رشتہ اور قرابت کی وجہ سے انھوں نے دعویٰ کیاکہ اس لڑکی کی سرپرستی مجھے ملنی چاہیے۔ لیکن ان کی اس دلیل کو لوگوں نے تسلیم نہیں کیا تو پھر فیصلے کے لیے قرعہ ڈالاگیا۔ قرعہ ڈالنے کی شکل یہ ہوئی کہ بیت المقدس کے خدمت گاروں نے اپنے وہ قلم جن سے وہ توریت لکھتے تھے، سب نہراردن میں ڈال دیے اور کہاکہ جس کا قلم پانی کے بہائو کے ساتھ نہیں بہے گا، وہی اس لڑکی کا کفیل اور سرپرست ہوگا۔ چنانچہ سب کے قلم پانی کے بہائو کے ساتھ بہہ گئے۔ حضرت زکریاؑ  کا قلم پانی کے بہائو کے ساتھ نہیں بہا اور ٹھہرا رہ گیا۔ اس طرح حضرت مریمؑ   حضرت زکریا کی کفالت و سرپرستی میں دے دی گئیں ۔ ‘‘یہ بھی اللہ کاخاص فضل ہواکہ ان کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری حضرت زکریاؑ   نے اٹھائی جو حضرت مریم کے خالو تھے اور اس دور میں بیت المقدس کے اسرائیلی اصطلاح میں کاہنِ اعظم بھی‘‘۔ ﴿تدبر قرآن ، ج ۲، ص:۷۷﴾

ہفتہ، 28 دسمبر، 2024

دیو مالائ حسین وادی میں شندور پولو میلہ

 

 شندور میلہ اور شندور پولو کی تاریخ ۔۔۔ قدرتی حسن سے مالا مال دیو مالائ حسین  وادی میں   چاند کی   روشنی میں کھیلا   جانے والا یہ منفرد کھیل اب پوری دنیا میں  پاکستان کے خو بصورت چہرے سے روشناس کروا رہا ہے -آئے پہلے اس کھیل اور اپنے جنت  گمان گلگت بلتستان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں 

 بنیادی طور پر گلگت  بلتستان دو خطوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔ سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں انمول ہیرے کی طرح جگمگاتا گلگت  بلتستان کا خطہ پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور تھا۔ تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، قدرت کی رعنائیوں،نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت  بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا،  فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔

چترال میں واقع شندور ٹاپ جہاں مشہور شندور پولو میچ کھیلا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے شندور میلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں ، چنار کے درختوں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شندور میلے کے دوران چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے جس کو دیکھنے کیلئے ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور ہر حملے پر داد وتحسین کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں یہ روایت سینکڑوں سالوں سے اسی طرح چلی آرہی ہے ۔ پولو کا یہ میدان3734 میٹر کی بلندی پر شندور پاس کے پاس واقع ہے ۔ تین روزہ میچ کے دوران میدان کے گرد سیاح ٹینٹ لگاتے ہیں اور رہائش اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس دوران مختلف علاقوں اور ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے ۔ اس میلے میں پہنچنے کیلئے عمومی طور پر سیاحوں کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے ،’’فور ویلر‘‘ گاڑ ی میں سوات اور دیر کی وادیوں سے گزرتے ہوئے لواری پاس سے ہوتے چترال پہنچتے ہیں۔


کیلاش کی وادی بھی رستے میں پڑتی ہے ، کیلاش کے قبائل تین علاقوں میں منقسم ہیں جن میں بھمبورٹ، رمبر اور بھر شامل ہیں جنہیں سکندر اعظم کی فوج کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے ۔کو ہ ہندوکش میں ترچ میر کی برف میں ڈھکی خوبصورت چوٹی کو بھی یہیں سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ سفر کے دوران آپ کے پاس کیا ہونا چاہیے:پانی کی بوتل، ٹارچ، کیپ، ہلکے اور گرم کپڑے، واٹرپروف جیکٹس، کیمرہ، نوٹ بک، تولیہ، جاگنگ شوزیا ٹریکنگ شوز، چھتری، واکنگ چھڑی ، صابن۔شندور تک پہنچنے کیلئے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک یا اسلام آباد ٹو گلگت بذریعہ ہوائی جہاز سفر اختیار کیا جاسکتا ہے ۔گلگت شہر سے خضر شندور تک سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے اور رستے میں بہت سے قدرتی مناظر کو دیکھتے ہوئے انسان کی آنکھیں اللہ پاک کی کبریائی کے آگے جھک جاتی ہیں۔خلتی و پھنڈر جھیل اور شندور جھیل کے دل کو موہ لینے والے مناظر سے متاثر ہوئے بنا کو ئی سیاح رہ نہیں پاتا۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں جولائی اگست کے مہینے میں شندور میلا منعقد ہوتا ہے جو کہ تین روز تک جاری رہتا ہے ۔


 شندور کو عام طور پر دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔پنجی کے مقام پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو الگ کرنے والی پٹی بھی واقع ہے ۔ شندور ٹاپ پر ہموار میدان ہے جو کہ شندور جھیل کے ساتھ واقع ہے جہاں گرائونڈ پر پولو میچ کھیلا جاتا ہے ۔یہ گرائونڈ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے تعمیر کروائی تھی ۔ پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے ہر سال کھیلا جاتا ہے جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں ۔ شندور فیسٹیول میں پولو میچ کے لئے فائنل ٹیمیں منتخب کرنے کیلئے ضلع چترال اور ضلع گلگت کی ٹیموں کے درمیان متعدد میچز ہوتے ہیں ۔میچ کا وقت ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے اور اس میںدو وقفے ہوتے ہیں ۔گرائونڈ کو دو سو میٹر لمبا اور56 میٹر چوڑا رکھا جاتا ہے ۔ دونوں اطراف کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے ان کے سپورٹر ز جمع ہوتے ہیں اورمیچ نہایت جوش و جذبہ اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مقامی فوک میوزک، بار بی کیو اور کیمپنگ کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔شندور میں پولو کی شروعات برطانوی باشندوںنے رکھی ۔


 یہ کہا جاتا ہے کہ 1935 ء میں، شمالی علاقوں کے لئے برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایولین ہے کوب نے نیات قبول حیات کاکا خیل کو شندور میں ایک اچھی پولیو گرائونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں کی مدد سے پولو گرائونڈ بنائی۔ بعد میں اس پولو زمین کو’’ماس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ۔ ’’ماس جنالی‘‘ لفظ کھوار زبان سے حاصل کیا گیا ہے ۔لفظ ’’ماس‘‘ کا مطلب چاند اور ’’جنالی‘‘ کا مطلب ہے پولو گرائونڈ۔میجر ہے کوب پورے چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقین تھا اور شندور جھیل کے قریب پورے چاند کی رات میں پولو کھیلنے کا اپنا ہی لطف تھا جس کیلئے اس نے 37 سو میٹر کی بلندی پر پولو گرائونڈ بنواکر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تفریحی مقام بنا دیا۔ کاکاخیل کی خدمات کے صلہ میں ہے کوب نے انہیں انعامات سے نوازنے کا اعلان کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ لینے سے انکار کرتے ہوئے ٹرائوٹ مچھلی مقامی جھیلوں میں ڈالنے کی فرمائش کی جسے پورا کرتے ہوئے ہے کوب نے انگلینڈ سے زندہ ٹرائوٹ منگوائی اور انہیںدریائے خضر میں ڈلوادیا۔اس طرح محکمہ فشریز قائم ہوا اور سینکڑوں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔اب ان مچھلیوں کی پیداوار ہدراب جھیل میں اور بہا جھیل میں خاصی ہو چکی ہے ۔ اس طرح ماس جنالی گلگت اورخیبرپختونوا کے لوگوں کے درمیان ایک تعلق کا ذریعہ بن گیا۔خضر اور چترال کی ٹیموں کے درمیان میچ ابھی تک ایک دلچسپ مقابلے اور میلے کی صورت اختیار کرچکا ہے

میں نے یہ آرٹیکل انٹر نیٹ کی مدد سے   لکھا ہے 

شکریہ گوگل

جمعہ، 27 دسمبر، 2024

دیوسائی نیشنل پارک-بھورے ریچھوں کی سر زمین-parT -1

 

  دیوسائی نیشنل پارک-بھورے ریچھوں کی سر زمین

دیوسائی نیشنل پارک دنیا کے خوبصورت اور بلند ترین سطح مرتفع سے 13 ہزار 500 فٹ بلند اور 3 لاکھ 58 ہزار 400 ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔دیوسائی کو دنیا کی چھت اور لینڈ آف جائینٹز ‘land of the giants’ بھی کہا جاتا ہے۔ نانگا پربت کے برفیلے پہاڑ، شفاف ندی نالے، مچھلیاں، پرندے، سیکڑوں اقسام کے پودے (150 کے قریب ادویاتی پودے) اور کہیں کہیں بکری اور بھیڑ دیکھ کر دیوسائی پر جنت کا گماں ہونے لگتا ہے۔دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہے اور پھر بہار میں اس کے میدانوں میں دنیا کے نایاب رنگوں کے پھول کھل اٹھتے ہیں اور سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔اس خوبصورت مقام دیوسائی کو 1993ء میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اس میدان میں پھلتے پھولتے تمام جاندار محفوظ قرار پائے اور اس میں سب سے اہم فلیگ شپ نوع بھورے ریچھ کا تحفظ تھا، لیکن اسی تحفظ یافتہ بھورے ریچھ کے حوالے سے کمیونٹی میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔یہ ریچھ ہمارے جانوروں کو کھا جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم اس بھورے ریچھ کو مار ڈالیں‘، مقامی نوجوان نے ناراضی کا اظہار کیا۔ہم اسکردو سے 30 کلومیٹر دُور سدپارہ گاؤں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گاؤں دیوسائی نیشنل پارک کے بفرزون میں آتا ہے۔ گاؤں والوں کی ناراضی کی وجہ ان کا یقین ہے کہ دیوسائی کا بھورا ریچھ جسے ہمالین براؤن بیئر یا ursus arctos بھی کہا جاتا ہے ان کے جانوروں کا شکار کرتا ہے جبکہ نیشنل پارک کی انتظامیہ اس سے انکار کرتی ہے۔دیوسائی نیشنل پارک کی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے مابین ریچھ کے حوالے سے ابتدا ہی سے یہ تنازع موجود ہے اور 26 سال گزرنے کے باوجود یہ جھگڑا طے نہیں ہوسکا کہ براؤن بیئر جانور کھاتا ہے یا نہیں؟


دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے۔ ریچھوں کی یہ قسم پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکا میں بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ الپائن میڈو اینڈ سب الپائن اسکرب میں پائی جاتی ہے۔ چند ریچھوں کو راما اور بیافو گلیشئرز جبکہ چند ایک چترال اور خنجراب نیشنل پارک میں بھی دیکھے گئے لیکن ان کا اصل مسکن دیوسائی کے میدان اور برفیلے پہاڑ ہیں۔دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے—فوٹو: کامران سلیمنیشنل پارک کے قیام سے پہلے ریچھوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد سے وابستہ وقار ذکریا نے دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دلوانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وقار ذکریہ پیشے کے اعتبار سے تو انجینئر ہیں لیکن جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ان کی خدمات 38 سالوں پر محیط ہیں۔وقار ذکریہ بتاتے ہیں کہ جب 20، 25 سال پہلے ہم یہاں ٹریکنگ کرتے تھے تو ہمیں کوئی ریچھ نظر نہیں آتا تھا۔ 


لیکن جب ہم نے سروے کیا تو صرف 17 ریچھ ملے تھے لہٰذا ہم نے کوشش کرکے دیوسائی کو نیشنل پارک ڈیکلیئر کروایا اور اب تازہ ترین سروے کے مطابق یہ تعداد 76 ہوچکی ہے۔ یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔لیکن مقامی آبادی نیشنل پارک میں ریچھوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جانوروں کے ایک مقامی ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ریچھوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور نیشنل پارک میں ان کے لیے خوراک کافی نہیں رہی اس لیے اب یہ شکار کے لیے آبادیوں کے قریب نالوں میں آجاتے ہیں‘۔سدپارہ کے عباس جان کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کا یہ رقبہ ریچھوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے بہت کم ہے۔ اس لیے اب یہ نیشنل پارک کے حدود کے باہر موجود نالوں میں آجاتے ہیں جہاں ہمارے جانور چرتے ہیں تو اب ہم اپنے جانور کہاں لے جاکر چرائیں؟ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال صرف میلپن نالے میں 8 بکریاں شکار ہوئیں۔ اگر ایک گائے یا بکری بھی ماری جاتی ہے تو غریب آدمی کا ہزاروں کا نقصان ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے نقصان کا ازالہ کیا جانا چاہیے لیکن ڈپارٹمنٹ کے لوگ ہماری بات سننے کے بجائے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔


عباس جان نے مزید کہا کہ پچھلے سال جہاں جانور مرا تھا وہاں نہ صرف ریچھ کے قدموں کے نشانات موجود تھے بلکہ اس کا فضلہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تمام ثبوت ڈپارٹمنٹ کو دیے مگر انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا-دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہےایک اور گاؤں چلم استور کے فدا علی سلطانی جن کا ہوٹل بھی ہے، وہ عباس کی تائید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریچھ شدید سردیوں سے پہلے خوراک کی تلاش میں دیوسائی سے نیچے اتر کر نالوں میں آجاتے ہیں۔ اس سال 50 سے 60 جانور ریچھ کی خوراک بن چکے ہیں۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے۔اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ  مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔


 بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ دیوسائی میں اور بھی تو جانور ہیں مثلاً بھیڑیے ہیں اور اسنو لیوپرڈ بھی دیکھا گیا ہے لیکن چونکہ نیشنل پارک بننے کے بعد ریچھ کی اہمیت بڑھ چکی ہے اس لیے ریچھ پر الزام لگایا جاتا ہے۔ ۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے-اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ وہ مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔ بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ 


شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی  نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔میں شبینہ فراز بیٹی کا مضمون ان کے شکرئیے کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر دے رہی ہوں


 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر