اتوار، 24 نومبر، 2024

حضرت یوسف علیہ السلام اور مصر کا بازار

 دنیا میں غلامی اور غلاموں کی خریدو فروخت کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرا زہن اچانک  حضرت   یوسف علیہ السلام کی جانب چلا گیا  آپ  علیہ السلام  با زارمصر میں بہ  طور غلام  اس طرح بیچے گئے کہ  جب ان کے بھائیوں نے آپ کو کنوئیں میں ڈال دیا تو ایک شخص جس کا نام مالک بن ذعر تھا جو مدین کا باشندہ تھا۔ ایک قافلہ کے ہمراہ اس کنوئیں کے پاس پہنچا اور اپنا ڈول کنوئیں میں ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس ڈول کو پکڑ لیا اور مالک بن ذعر نے آپ کو کنوئیں میں سے نکال لیا تو آپ کے بھائیوں نے اُس سے کہا کہ یہ ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے۔ اگر تم اس کو خرید لو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ بیچ دیں گے۔ چنانچہ اُن کے بھائیوں نے صرف بیس درہم میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بیچ ڈالا مگر شرط یہ لگا دی کہ تم اس کو یہاں سے اتنی دور لے جاؤ کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ مالک بن ذعر نے ان کو خرید کر مصر کے بازار کا رخ کیا اور بازار میں ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ان دنوں مصر کا بادشاہ دیان بن ولید عملیقی تھا اور اس نے اپنے وزیراعظم قطفیر مصری کو مصر کی حکومت اور خزانے سونپ دیئے تھے اور مصر میں لوگ اس کو ''عزیز مصر'' کے خطاب سے پکارتے تھے۔ جب عزیز مصر کو معلوم ہوا کہ بازارِ مصر میں ایک بہت ہی خوبصورت غلام فروخت کے لئے لایا گیا ہے اور لوگ اس کی خریداری کے لئے بڑی بڑی رقمیں لے کر بازار میں جمع ہو گئے ہیں


حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں   یہ سنا  کہ بازار مصر میں ایک انتہائ  پُر جمال  اور شکیل نوجوان فروخت کے لئے آیا ہے   عزیز  مصر  بہت سا سونا  چاندی  اور دیگر قیمتی اشیاء لے کر بازار میں آن پہنچا     اور  اس نے  ان کے  وزن  کے مساوی  سونا، اور اتنی ہی چاندی، اور اتنا ہی مشک، اور اتنے ہی حریر قیمت دے کر خریدلیا اور گھر لے جا کر اپنی بیوی ''زلیخا''سے کہا کہ اس غلام کو نہایت ہی اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھو۔ اس وقت آپ کی عمر شریف تیرہ یا سترہ برس کی تھی۔ ''زلیخا''حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی اور ایک دن خوب بناؤ سنگھار کر کے تمام دروازوں کو بند کردیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہائی میں لبھانے لگی۔ آپ نے معاذ اللہ کہہ کر فرمایا کہ میں اپنے مالک عزیز مصر کے احسان کو فراموش کر کے ہرگز اُس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرسکتا۔ پھر جب خود زلیخا آپ کی طرف لپکی تو آپ بھاگ نکلے۔ اور زلیخا نے دوڑ کر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑ لیا جو پھٹ گیا اور آپ کے پیچھے زلیخا دوڑتی ہوئی صدر دروازہ پر پہنچ گئی۔ اتفاق سے ٹھیک اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں داخل ہوا۔


اور دونوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا تو زلیخا نے عزیز مصر سے کہا کہ اس غلام کی سزا یہ ہے کہ اس کو جیل خانہ بھیج دیا جائے یا اور کوئی دوسری سخت سزا دی جائے کیونکہ اس نے تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عزیز مصر!یہ بالکل ہی غلط بیانی کررہی ہے۔ اس نے خود مجھے لبھایا اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگا تو اس نے میرا پیچھا کیا۔ عزیز مصر دونوں کا بیان سن کر حیران رہ گیا اور بولا کہ اے یوسف علیہ السلام میں کس طرح باور کرلوں کہ تم سچے ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں چار مہینے کا ایک بچہ پالنے میں لیٹا ہوا ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے۔ اس سے دریافت کرلیجئے کہ واقعہ کیا ہے؟ عزیز مصر نے کہا کہ بھلا چار ماہ کا بچہ کیا جانے اور وہ کیسے بولے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور میری بے گناہی کی شہادت دینے کی قدرت عطا فرمائے گا کیونکہ میں بے قصور ہوں۔ 


چنانچہ عزیز مصر نے جب اُس بچے سے پوچھا تو اُس بچے نے باآوازِ بلند فصیح زبان میں یہ کہا کہ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿26﴾وَ اِنْ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنۡ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿27﴾ (پ12،یوسف:26،27)ترجمہ کنزالایمان:۔گواہی دی اگر ان کا کرتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے۔بچے کی زبان سے عزیز مصر نے یہ شہادت سن کر جو دیکھا تو ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ تو اس وقت عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا:۔اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ﴿28﴾یُوۡسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ٜ وَ اسْتَغْفِرِیۡ لِذَنۡۢبِکِ ۚۖ اِنَّکِ کُنۡتِ مِنَ الْخٰطِـِٕیۡنَ ﴿٪29﴾ (پ12،یوسف:28،29)ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک یہ تم عورتوں کا (فریب)ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب)بڑا ہے اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بے شک تو خطا واروں میں ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن،صفحہ 128-126)


چترال میں غلاموں کی خرید و فروخت کس پیمانے پر کی جاتی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1880 میں انگریزوں نے ’گزیٹیئر آف ایسٹرن ہندوکش‘ کے نام سے ایک دستاویز مرتب کی تھی جس میں چترال میں غلاموں کی تجارت کو ریاست کی آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ’چترال اور یاسین میں اپنے ہی رعایا کو غلام بنا کر بیچنے کا عمل وہاں کے حکمرانوں کے لیے ان لوگوں کے درمیان میں بھی شدید بدنامی کا باعث بن گیا ہے جہاں ابھی تک غلامی کو اس طرح برا نہیں سمجھا جاتا جس طرح یورپ میں سمجھا جاتا ہے (گزیٹ، 93)۔ غلاموں کی لین دین مہتر کے وزیرِ خزانہ جسے دیوان بیگی کہا جاتا تھا، کی سرکاری ذمہ داریوں میں شامل تھی (بڈلف، 67)۔اسی طرح چترال سے متعلق انگریز افسروں اور مہم جوؤں کی لکھی اکثر یادداشتوں، رپورٹوں اور کتابوں میں چترال غلامی اور ان کی تجارت کا ذکر ملتا ہے۔ چترال پر تحقیق کرنے والے اطالوی محققین، کاکو پارڈو برادران کے مطابق اٹھارویں صدی کے آخر میں ہر سال چترال سے 500 لوگ بطورِ غلام چترال سے باہر بیچے جاتے تھے اور چترال کے اندر کوئی بھی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں سے کسی کو اٹھا کر فروخت نہ کیا گیا ہو۔ (گیٹس آف پرستان، 59 )۔چترال کے غلاموں کو جن منڈیوں میں لے جایا جاتا تھا ان میں خیوہ، یارقند، خوقند، بخارا، ترکستان، قندوز، فیض آباد، جلال آباد اور کابل شامل تھے (منشی 132، فیض، 10)۔

 


چترال کے مشہور شاعر بابا سیئر کی منظوم تاریخِ چترال ’شاہ نامہ سیئر‘ جو کہ غالباً 1810 میں لکھی گئی تھی اور چترال کی تاریخ پر اولین کتاب ہے، سے واضح ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں واخان کے والی جہان خان نے چترال پر حملہ کیا اور کئی باشندوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گیا تھا۔اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے چترالی حکمران محترم شاہ کٹور ثانی نے بروغول سے گزر کر واخان پر چڑھائی کی، دیہات کو نذرِ آتش کیا اور دوسرے مالِ غنیمت کے ساتھ کئی لوگ بھی غلام بنا کر ساتھ لے آیا۔ ان میں سے دو غلام عورتوں کو محترم شاہ نے اپنے حرم میں شامل کیا جن سے اولادیں بھی ہوئیں

مضمون انٹر نیٹ سے استفادہ کر کے لکھا گیا ہے

ہفتہ، 23 نومبر، 2024

پاڑہ چنار قتل عام -مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا

 

 جمعرات 22 نومبر 2024ء کو ضلع کرم میں لوئر کے علاقے اوچت میں کانوائے میں شامل  200مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 44 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں  جبکہ ایک پولیس اہلکار سمیت   62 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔پولیس حکام کے مطابق پارا چنار سے پشاور جانے والے کانوائے میں شامل مسافر گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی۔جبکہ راستے میں موجود  مسجد سے شر پسند فائرنگ  اور پتھراؤ کر رہے تھے حکام نے بتایا کہ واقعہ میں زخمی ہونے والوں میں 3 خواتین بھی شامل ہیں جبکہ ایک خاتون سمیت 5 افراد کی لاشیں علی زئی پہنچادی گئی ہے ۔پولیس اور ہسپتال ذرائع کے مطابق پاراچنار سے مسافر گاڑیوں کا کانوائے پشاور جا رہا تھا اسی طرح پشاور سے مسافر گاڑیوں کا کانوائے پاراچنار جا رہا تھا جونہی 200 گاڑیوں کا یہ قافلہ لوئر کرم کے علاقے مندوری چار خیل اور اوچت کے علاقے میں پہنچا تو وہاں پر مسلح افراد نے مسافر گاڑیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 44  افراد جاں بحق اور  62 مسافر  زخمی ہو گئے ہیں۔حملہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران ہلکا اور بھاری ہر قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔قافلے کے  آگے ایک فیلڈر گاڑی تھی، ایک راکٹ اس گاڑی کو آ کر لگا اور زور کا دھماکہ ہوا اورگاڑی اپنے مسافروں سمیت  تباہ ہو گئٍ


جاں بحق افراد میں ایک نو سالہ بچی  دو شیر خوار بچوں سمیت 7 خواتین بھی شامل ہیں۔2 خواتین سمیت 12 زخمیوں کو سی ایم ایچ ٹل پہنچایا گیا ہے جبکہ 16 زخمی تحصیل ہسپتال علیزئی لائے گئے ہیں۔طوری بنگش قبائل کے رہنما بنگش کا کہنا ہے کہ اب بھی علاقے میں درجنوں کی تعداد میں مسافر پھنسے ہوئے ہیں فورسز فوری طور پر کاروائی کر کے ان کو محفوظ طریقے سے علاقے سے نکالیں اور زخمیوں کی جان بچانے کے لیے بھی فوری اقدامات کیے جائیں ۔قبائلی رہنما جلال بنگش اور علامہ تجمل حسین نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے وہ حکومت سے آمد و رفت کے راستے محفوظ بنانے کی التجا کر رہے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد افراد نے دو ہفتے قبل پارا چنار سے پشاور اسلام آباد کے لیے احتجاج کے طور پر امن واک کیا جس کے بعد کانوائے شروع کی گئی تا ہم آمدورفت کے راستے محفوظ بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی وجہ سے اس قسم ناخوشگوار اور افسوسناک واقعات پیش آ رہے ہیں۔صدر مملکت کا اظہار افسوس-صدر مملکت آصف علی زرداری نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا-اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ نہتے مسافروں پر حملہ انتہائی بزدلانہ اور انسانیت سوز عمل ہے، معصوم شہریوں پر حملے کے ذمے داران کو کیفر کردار پہنچایا جائے۔صدر مملکت نے زخمی افراد کو بروقت طبی امداد کی فراہمی اور ذمے داران کے خِلاف کاروائی کی ضرورت پر زور دیا۔


وزیر اعظم کی مذمت-وزیرِاعظم شہباز شریف نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد کے جاں بحق ہونے پر اظہار افسوس کیا اور جاں بحق افراد کے بلندی درجات اور اہلخانہ کیلئے صبر کی دعا کی۔شہباز شریف نے حملے میں زخمی افراد کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے اور حملہ آوروں کی نشاندہی کر کے قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی۔ان کا کہنا تھا کہ امن دشمنوں نے معصوم شہریوں کے قافلے پر حملہ کیا جو حیوانیت ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ تخریب کار ایسی بزدلانہ کاروائیوں سے قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے، شہریوں کا خون بہانے والے شرپسند مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں۔وزیر داخلہ کی مذمت-وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا۔محسن نقوی کا کہنا تھا کہ معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے  کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام تر ہمدردیاں جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا مالی امداد کا اعلان -وزراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے حملے کا نوٹس لیتے ہوئے مذمت کی اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے لئے مالی امداد کا بھی اعلان کیا۔


اپنے پیغام میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کرم میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے پہلے والے جرگے کو پھر سے فعال کیا جائے، اور صوبے میں تمام شاہراہوں کو محفوظ بنانے کے لئے پراونشل ہائی ویز پولیس کے قیام پر کام کیا جائے۔علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ علاقے میں امن وامان کو بہتر بنانے کے لئے حکومت پولیس اورمتعلقہ ادارے مل کرسنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے، واقعے میں ملوث عناصر قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔وزیر اعلیٰ نے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس اور سوگوار خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا جبکہ جاں بحق افراد کی معفرت اور پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی دعا کی۔انہوں نے صوبائی وزیر قانون ، متعلقہ ایم این اے، ایم پی اے اور چیف سیکرٹری پر مشتمل وفد کو فوری کرم کا دورہ کرنے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی  


جمعہ، 22 نومبر، 2024

بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ملکہ چاند بی بی

 

  مغلیہ دور   کےہندوستان میں مسلمانوں کے دور حکومت میں کئ ایسی خواتین کا ذکرملتا ہے جنہوں نے میدان جنگ میں  اپنی نڈر اورقائدانہ سلاحیتوں کی بدولت   اپنی فوجوں سے  کہیں بڑی فوجوں کو نہ صرف شکست دی بلکہ برسوں تک ان کے نام کا دبدبہ قائم رہا ۔ سولہویں صدی کی ایک ہندوستانی بہادراور زیرک مسلمان حکمران چاند بی بی کا نام بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے جس کی جنگجویانہ صلاحیتوں نے مغل شہنشاہوں کے تخت و اقتدار کو چیلنج کردیااور مغل شہزادوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا ۔ چاند بی بی کو اسلامی تعلیمات  پر مکمل عبور تھا ۔ چاند بی بی نے 1550 ءکو احمد نگر میں آنکھ کھولی۔ والد حسین نظام شاہ اوّل احمد نگر کے حکمراں تھے۔ 14 سال کی عمر میں اسکا بیاہ بیجا پور کے حکمراں علی عادل شاہ کے ساتھ اس ایما پر ہوا کہ احمد نگر اور بیجا پور کی پرانی دشمنی اور عداوت کو ختم کردیا جائے ۔بدلے کی اس شادی میں چاند بی بی کی شادی علی عادل شاہ سے اور چاند بی بی کے بھائی مرتضیٰ کی شادی  علی عادل شاہ کی بہن ہدیہ سلطان سے ہوئی۔علی احمد کے مطابق ان شادیوں سے احمد نگر اور بیجا پور میں پرانی دشمنی ختم ہوئی۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پرانھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔چاند بی بی کے والد نے اس کی سپاہیانہ تربیت کی تھی   -


اور اورنگ زیب کے بہمنی سلطنت کے خاتمہ کے بعد پانچ چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں   ان میں احمد نگر اور بیجا پور  میں دشمنی    بہت بڑھ گئ تب ا  ن کے یہاں ایک بدلے کی شادی کر کے اس دشمنی کا خاتمہ کیا گیا  ۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔ان ہی کے مشوروں اور کوششوں سے بیجا پور کے احمد نگر سے تعلقات اچھے رہے، سلطنت مضبوط ہوئی اور بغاوتیں ختم ہوئیں۔ایک مرتبہ علی عادل شاہ کو اپنے قتل کی سازش کی خبر ملی۔ چاند بی بی نے شوہر کو تسلی دی اور کہا کہ وہ رات کو ان کی حفاظت کریں گی۔ ایک رات اچانک بالا خانے پر کسی کے کودنے کی آواز آئی۔ چاند بی بی خود تلوار سونت کر تن تنہا بالا خانے پر چڑھ گئیں۔تلواریں لیے دونقاب پوش ان پر جھپٹے۔ پھرتی سے پیچھے ہٹ کر چاند بی بی نے تلوار کا ایسا بھر پور وار کیا کہ ایک وہیں ڈھیر ہوگیا۔ دوسرا آگے بڑھا تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔


شور سن کرعلی عادل شاہ جاگ اٹھےاور بھاگتے ہوئے اوپر آئے۔ انھوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی بہادر ملکہ کی تلوار چوم لی اور بولے ’چاند بیگم اگر تمام دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں۔‘جب علی عادل شاہ نے وفات پائی تو چاند بی بی کی عمر 28 سال تھی مگرمورخین کہتے ہیں کہ وہ رزم و بزم کے تمام قواعد و فنون سے واقف تھیں۔اولاد نہ ہونے کے باعث، علی عادل شاہ کے قتل پرحکومت ان کے بھتیجے ابراہیم کو منتقل ہوئی جو تاریخ میں ابراہیم عادل شاہ ثانی کے لقب سے جانے گئے۔ مغلیہ فوج نے کئی بار احمد نگر کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ چاند بی بی تھی جس نے اپنی ذہانت،دلیری اور ہمت سے مغلوں کو منہ توڑ جواب دیا۔چاند بی بی نے فن حرب اور سپہ گری اور گھڑ سواری کی سخت تربیت حاصل کی تھی ۔میدان جنگ میں وہ فوجیوں کے لباس میں ہوتی تھیں۔ ایسی جنگی چالیں چلتی اور بہادری و شجاعت کے ایسے جوہر دکھاتی کہ کہ بڑے بڑے جنگی سورما بھی خوفزدہ ہو کر پیچھ ہٹ جایا کرتے تھے 

 اکبر کی سلطنت میں احمد نگر شامل نہیں تھا۔ اکبر نے اس اہم قلعہ کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کیلئے شہزادہ مراد کی زیر قیادت بھاری لشکر کو احمد نگر کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ 1595 کی بات ہے۔ جب شہزادہ مراد بڑے لشکر کے ساتھ احمد نگر پہنچا مگر چاند بی بی نے اس لشکر کا راستہ روک دیا اور ایسی جنگی چالیں چلیں کہ شہزادہ بے نیل ومرام واپس لوٹ گیا پھر دوسرے سال مغل شہزادہ دانیال کی سرکردگی میں مغلوں کی فوج احمد نگر کی تسخیر کیلئے پہنچی مگر اس بار بھی اس عظیم جنگجو خاتون نے مغل فوج کے چھکے چھڑا دےئے۔ اپنی شجاعت اور بہادری سے نہ صرف احمد نگر قلعہ کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا بلکہ مغل فوج کو بے مراد واپس کوچ کرنا پڑا۔آخر کار اکبر نے 1598ء کو لشکر کے ساتھ خود احمد نگر پہنچا۔ چاند بی بی نے مغل فوج کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور احمد نگر قلعہ کی حفاظت کی۔ اس نے اکبر کو تگنی کا ناچ نچوادیاتھا ۔ اس قلعہ کی تسخیر کیلئے مغل فوج کے تمام جنگی منصوبے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے تھے ۔

اس کے باوجود اکبر ڈٹا رہا اور اس کے خلاف چاند بی بی بھی عزم و حوصلہ کے ساتھ برابر ڈٹی رہیں۔محقیقین کے مطابق چاند بی بی کو عربی،فارسی،ترکی مراٹھی اور کنڑا پر زبردست عبور تھا۔ ستار بجانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مصوری ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ پھولوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔بھارت میں چاند بی بی کو جرات و ہمت کی علامت سمجھا جاتا ہے    -ایک بار بہمنی سلطنت سے نکلی باقی تین سلطنتوں کی فوجوں نے احمدنگرپر اکٹھے حملہ کر دیا۔ جتنے دن محاصرہ رہا چاند بی بی برابر ایک مورچے سے دوسرے مورچے پر جاتی رہیں۔ ایک موقع پر جب شدید بارش تھی اورایک جگہ شگاف بھی پڑ گیا تھا، وہ حفاظت کے لیے بذاتِ خود کھڑی رہیں اور اپنی نگرانی میں شگاف بند کروایا۔   اس دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ چاند بی بی نے مغل فوج سے مفاہمت کرلی ہے۔ یہ افواہ پھیلانے میں خود اس کے امراء اور وزراء ملوث تھے۔ آخر کار 1599ءکووہ منحوس گھڑی آگئی،جب چاند بی بی اپنے محل میں تھی،اس وقت اس کے سپاہیوں کے ایک دستہ نے محل پر دھاوا بولا اور چاند بی بی کو قتل کر دیا ۔ بتایا جاتا ہی کہ اس غدار گروپ کو قلعہ دار حمید خان کی تائید و حمایت حاصل تھی اس کی غداری اور سازش سے احمد نگر کا قلعہ مغلوں کی فوجوں کے ہاتھ چلا گیا مگر حقیقت میں مغل فوج نے اس قلعہ کو فتح نہیں کیا۔ - 

جمعرات، 21 نومبر، 2024

فرنگی محل جہاں عظیم درس گاہ مدرسہ نظامیہ نے پرورش پائ



فرنگی محل لکھنؤ میں چوک نامی آبادی کے وسط سے گزرتی وکٹوریہ روڈ کے مغرب میں واقع ایک تاریخی عمارت ہے، جسے ماضی میں ایک عظیم درسگاہ کا درجہ حاصل رہا ہے اور اس نے برصغیر کے مسلمان حلقوں میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔غیر منقسم ہندوستان میں  یورپی اقوام کے لوگوں کو فرنگی کہتے تھے۔ چنانچہ اس عظیم الشان عمارت کا نام فرنگی محل اس لیے پڑا کیونکہ اس کےپہلے فرانسیسی تھے۔کہا جاتا ہے کہ  فرانس سے آنے والے ایک شخص نے اودھ  کی حکومت سے تجارتی اغراض سے ایک عمارت بنانے کی اجازت لی اور ایک بہت ہی  دیدہ زیب  عمارت بنا ئ ا س عمارت میں تین رہائشی   حصے تھے جن میں وہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے لگا خدا کی شان ہے کہ عمارت تو ایک فرانسسی آدمی نے بنائ لیکن اس سے استفادہ مسلمان قوم نے کیا  اور اس عمارت میں  عظیم درس گاہ مدرسہ نظامیہ نے پرورش پائ  تاریخی پس منظر-پھر یوں ہوا کہ کسی سبب سے ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے  اس عمارت کو  ضبط کر لیا گیا  اور غیر ملکی اپنے وطن واپس لوٹ گئے ۔


اسی زمانے بھارت کے صوبہ اترپردیش کے قصبے سہالی سے تعلق رکھنے والے مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے وزیر مذہبی امور ملا قطب الدین سہالوی انصاری خاندانی دشمنی کے زیر اثر قتل ہو گئے۔ان کے بیٹوں نے سہالی کے نامساعد حالات کے پیش نظر بادشاہ وقت سے درخواست کی کہ انھیں لکھنؤ منتقل ہونے میں مدد دی جائے، چنانچہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر چار عمارتوں پر مشتمل کمپلیکس فرنگی محل ملا قطب الدین سہالوی کے بیٹوں ملا اسعد سہالوی، ملا سعید سہالوی، ملا نظام الدین محمد سہالوی اور ملا رضا سہالوی بن ملا قطب الدین شہید کی تحویل میں دے دیا گیا۔ملا قطب الدین کی اولاد کے فرنگی محل میں منتقل ہونے کے بعد یہ عمارت اس خاندان کے لیے صرف ایک گھر نہیں رہی، بلکہ یہ علم و ثقافت کا ایک ایسا ادارہ بن گئی، جس  کا تابناک  عرصہ تین صدیوں پر محیط ہے۔ فرنگی محل اسلامی ثقافت اور روایات کے تحفظ اور ترویج میں اہم حصہ ادا کرتا آیا ہے۔ ملا نظام الدین نے   عمارت  میں  ایک ایسی مشہور دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں کئی اہم علما پیدا کئے۔ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا، جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے مشابہ تھا۔

  عہدِ اورنگ زیب میں جب بارہ بنکی کے ایک قصبے کے عثمانی شیخ زادوں نے مناقشات کی بنا پر قصبہ سہالی کے ممتاز عالم اور صوفی بزرگ ملا قطب الدین انصاری کے مکان پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر دیا تھا تو اس برگزیدہ خاندان کے لیے اپنے علاقے میں قیام کرنا بہت دشوار ہو گیا تھا۔ملا صاحب کے صاحبزادے ملا سعید نے دکن جا کر اورنگ زیب کو جو اس وقت وہاں برسرکارزار تھا، ایک محضر پیش کیا تھا جس کو شرف قبول حاصل ہوا، بادشاہ نے یکے بعد دیگرے دو فرامین جاری کیے۔ پہلا فرمان ملا قطب الدین انصاری کے خونِ ناحق کا قصاص لینے سے متعلق تھا اور دوسرے فرمان میں ان کے خاندان کو لکھنؤ میں سکونت پذیر ہونے کی اجازت دی گئی تھی اور یہی چاروں مکانات موسومۂ فرنگی محل اقامت کے لیے مرحمت ہوئے تھے۔ بعد میں بعض اور ملحقہ عمارتیں شامل ہوتی گئیں، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا محلہ فرنگی محل کے نام سے آباد ہو گیا۔ یہ پورا علاقہ علمائے فرنگی محل کی اقامت رہا اور اسی دائرہ میں وہ مہتم بالشان درسگاہ قائم ہوئی تھی جس کے بانی ملا نظام الدین تھے۔


آپ کے دوسرے تین بھائی درس و تدریس میں کمال رکھتے تھے۔ ان کی مختلف شاخوں میں بعض جید عالم اور گراں قدر صوفی گزرے ہیں لیکن ملا نظام الدین کا نامِ نامی زندۂ جاوید ہے۔ آپ کی عمر اپنے والد مرحوم کی ہلاکت کے وقت صرف 14 برس تھی لیکن آپ اس وقت شرحِ ملا جامی ختم کر چکے تھے، دل میں ذوقِ علم اور سر میں تکمیل کا سودا تھا۔ آپ نے دیوا، بنارس اور جائس جا کر بڑے بڑے علما کے آگے زانوے ادب تہ کیا اور بالآخر لکھنؤ آ کر ملا غلام علی نقشبندی سے درس لے کر مدارج تکمیل پر فائز ہوئے۔ علم وفضل کی برکتوں نے آپ کے دل میں تصوف کا بھی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ چنانچہ 40 برس کی عمر میں آپ نے شاہ عبدالرزاق بانسوی کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی تھی۔ تدریس کے ساتھ آپ کو فطری تعلق تھا۔ اسی صلاحیت کی بدولت آپ نے ایک ایسا نصابِ تعلیم مرتب کیا جو شہرۂ آفاق ہوا۔ آج بھی اس کی افادیت تسلیم ہے اور درس نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نصاب میں آپ نے صَرف و نحو، منطق و حکمت، فقہ و اصولِ فقہ، علمِ تفسیر و حدیث، علمِ کلام اور علمِ ریاضی سے متعلق مخصوص کتابیں شامل کر دی تھیں جن کی تعلیم بہترین و فضلا سے متعلق تھی۔


عہدِ آصف الدولہ میں جب انہوں نے لکھنؤ کو اپنا دارالحکومت بنایا، اس تعلیم گاہ کے مدرسین مسلم ممالک میں بڑی بڑی شہرتوں کے مالک ہو چکے تھے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلبا برصغیر کے گوشے گوشے میں علم کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ اودھ کے فرماں روا وسیع النظر تھے۔ پاس دار اور روادار تھے۔ علم دوست اور مخیر بھی تھے۔ فرنگی محل کی قدر شناسی کرتے ہوئے انہوں نے اس ادارے کے بیشتر علما کو مسند قضا و افتا پر مامور بھی کیا تھا۔ لیکن کسی مؤرخ یا واقعہ نگار کی زبانی یہ پتہ نہیں چلتا کہ اودھ کے کسی بادشاہ نے بھی فرنگی محل کی کبھی کوئی نمایاں سرپرستی کی ہو۔ اسی طرح دلی کے دربار مغلیہ سے بھی اورنگ زیب کے دو متذکرہ بالا فرامین کے بعد فرنگی محل کے حق میں کسی داد و دہش کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

بدھ، 20 نومبر، 2024

لداخ خوبصورت اور زمینی حسن کا امتزاج

 

،  لداخ پاکستان سے ملحقہ ہندوستان کے شمالی ترین مقام پر واقع ایک خطہ ہے۔ یہ خطہ شمال میں کونلون پہاڑوں اور جنوب میں ہمالیہ سے گھرا ہوا ہے اور اس کی آبادی ہندوستانی اور تبتی نژاد کا مرکب ہے۔ یہ علاقہ کشمیر کے سب سے کم گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ لیکن چینی حکومت نے 1960 کی دہائی میں اس خطے کو بلاک کر دیا۔ 1974 سے حکومت ہند لداخ میں سیاحت کی صنعت کو کامیابی سے بحال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ چونکہ لداخ ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ ہے اور پاکستان کے ساتھ تنازعہ کا شکار ہے، اس لیے اس خطے میں ہندوستانی فوج کی موجودگی واضح ہے۔ لداخ کا قدیم ترین شہر اور اس ضلع کا مرکز لیہہ شہر ہے، جو آج جنوبی ایشیا کی چند باقی رہ جانے والی ہندو اور بدھ بستیوں میں سے ایک ہے۔ لداخ کی زیادہ تر جمعیت ہندو بدھ مت ہیں اور باقی جمعیت را اور شیعہ بارہویں امام بناتے ہیں۔لداخ کی تاریخ (بخش کرزم)۔چورٹن۔لداخ کے بہت سے حصوں میں پائے جانے والے نقش و نگار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ علاقہ نوع قدیم کے دور سے بنی نوع انسان کے ذریعہ آباد ہے - لداخ کے قدیم ترین باشندے ہند آریائی اور مون اور درد کے ایک گروہ کا مرکب تھے   جو کہ ہیروڈوٹس سمیت متعدد یونانی مورخین کی کتابوں میں موجود ہے۔ , Nerchus, Magasthenes, Pliny اور Ptolemy کے ساتھ ساتھ قدیم ہندوستانی پران میں مذکور جغرافیائی علاقے۔   پہلی صدی عیسوی میں لداخ کشان سلطنت کا حصہ تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں کشمیر کے راستے بدھ مت لداخ پہنچا اور تب سے لداخ کے لوگوں کی اکثریت بون مذہب پر یقین رکھتی تھی۔ 7ویں صدی عیسوی میں ایک چینی بدھ مت سیاح ژوانگ ژانگ نے اس علاقے کی تفصیل دی تھی۔

8ویں صدی عیسوی میں لداخ چین اور تبت کے درمیان جنگ میں شامل تھا۔ چین اور تبت کے درمیان اس خطے کی خودمختاری کئی بار تبدیل ہوئی۔ سال 842 میں، نیاما گون نامی شاہی تبت کے نمائندوں میں سے ایک نے تبتی سلطنت میں افراتفری کے بعد لداخ کو ایک مستقل سرزمین کے طور پر لے لیا اور ایک مستقل لداخی خاندان قائم کیا۔ اس عرصے کے دوران لداخ میں تبتیوں کی خاصی آبادی تھی۔ یہ سلسلہ بدھ مت کے دوسرے وسیع پھیلاؤ کا باعث بنا اور شمال مغربی ہندوستان، خاص طور پر کشمیر سے، مختلف مذہبی نظریات کو بدھ مت میں متعارف کرایا۔ بدھ مت کا پہلا پھیلاؤ پہلے خود تبتیوں کے ذریعے ہوا۔13ویں صدی عیسوی میں، ایشیا میں اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ، لداخ اسلام کی تبلیغ کے لیے ایک خطہ بن گیا۔ شمالی ہند کی اسلامی ریاستیں تقریباً 1600 عیسوی تک لداخ پر حملہ آور تھیں۔ ان مہمات نے ایک طرف لداخ کی اندرونی حالت کو کمزور کیا اور دوسری طرف اسلام کے پھیلاؤ کا باعث بنا۔ 1470 عیسوی میں، شاہ بگن نے پادشاہ لیہ کو ختم کر دیا اور لداخ میں ایک مستقل اور جامع خاندان قائم کیا۔ اور اس کا نام "نمگیال" ہے جس کا مطلب ہے فاتح۔ڈوڈمان نامگیال کے بادشاہوں میں سے ایک شاہ تاشی (1555-1576) وسطی ایشیا سے حملہ آور قوموں کے لشکر کو کامیابی سے پسپا کرنے میں کامیاب رہا۔ جانشین، خاص طور پر سوانگ، لداخ کے علاقے کو نیپال کی سرحدوں تک پھیلانے میں کامیاب رہے۔ تاہم، لداخی سیاست دان کشور کی آزادی کو تھوڑی دیر کے لیے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔17ویں صدی میں، تبت اور بھوٹان کے درمیان لڑائی میں، لداخ کو بھوٹان کی طرف قرار دیا گیا اور تبت میں شدید مہمات ہوئیں۔ گورکن مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہندوستان اور ہندوستان کی جنگ سہ رخی جنگ بن گئی۔ آج، اس جنگ کو تبت-لداخ-گورکانی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو 1679 سے 1684 تک جاری رہی۔ کشمیری سیاست دانوں نے لداخی زنجیر کی حفاظت کی کوشش کی اور اس حمایت کو اس میں تعمیر ہونے والی مسجد کے تحفظ سے مشروط کر دیا۔ لداخ کے شاہ نے اسلام قبول کیا۔  جنگ 1684 میں تبت اور لداخ کے درمیان امن معاہدے پر ختم ہوئی۔ اس کی وجہ سے لداخ کی آزادی محدود ہو گئی۔ 1834 میں شمالی ہند کے سکھوں نے لداخ کو ان کے علاقے میں شامل کر لیا تھا۔ 1850 میں لداخیان میں سکھوں کے خلاف بغاوت شروع ہوئی۔ اسی وقت یورپیوں نے لداخ کی اہمیت اور اس کی خوبصورتی کو دریافت کیا۔ موراوین چرچ 1885 میں لداخ میں قائم کیا گیا تھا۔1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد، مہاراجہ ہری سنگھ نے ابھی تک ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ پاک فوج نے لداخ پہنچ کر فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ہندوستانی فوج نے بھی مداخلت کی اور بالآخر لداخ کو دراس اور کارگل جیسے دیگر علاقوں کے ساتھ ہندوستان کے دائرہ اختیار میں قرار دے دیا گیا۔ 1955 میں چینیوں نے ترکستان چین کے صوبے (سن کیانگ) اور تبت کے درمیان ایک رابطہ سڑک بنانا شروع کی جو اس خطے سے گزرتی تھی۔ پاکستان چین مشترکہ شاہراہ، جسے قرہ قرم ہائی وے بھی کہا جاتا ہے، نے اس علاقے کو عبور کی  

بلتستان میں تاریخ عزاداری حصہ دوئم

 بعد میں حیدر خان حیدر، مراد خان اماچہ، بوا عباس، بوا جوہر، اخوند خدایار، سلطان شاہ، حاتم خان حاتم، ظفر علی خان ظفر، بوا اسفندیار، راجہ محمد علی شاہ بیدل، اخو بعد میں حیدر خان حیدر، مراد خان اماچہ، بوا عباس، بوا جوہر، اخوند خدایار، سلطان شاہ، حاتم خان حاتم، ظفر علی خان ظفر، بوا اسفندیار، راجہ محمد علی شاہ بیدل، اخوند حسین، اخوند حسن، محمد علی خان واحد، بوا شجاع، غلام مہدی مرغوب سمیت بے شمار شعرا نے نوحوں سمیت دیگر کئی اصناف میں بلتی شاعری کے حسن میں اضافہ کیا ۔1948ء میں اہالیان بلتستان نے ڈوگرہ فوج سے آزادی حاصل کر لی تو اس دوران بلتیوں کی بڑی تعداد ہندوستان کے کئی شہروں سے ہجرت کر کے بلتستان آئی۔ ان میں سےبعض نے سکردو میں عَلم، تعزیے اور ذوالجناح کے ماتمی دستے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور بعض جوانوں نے 1951ء، 1952ء میں اردو نوحہ خوانی اور ماتم کا سلسلہ شروع کیا۔


 انہیں میں سے ایک موضع سکمیدان سے تعلق رکھنے والے جناب ذاکر علی جو ملک تھے جنہوں نے 1952ء میں محلہ سکمیدان میں باقاعدہ اردو نوحہ خوانی شروع کی انہوں نے دستہ آل عبا کے نام سے اردو ماتمی دستہ نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں بلتستان میں جلوسوں اور اردو نوحہ خوانی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بلتستان میں جلوس عاشورا اور جلوس اسد کوترویج دینے اور پھیلانے میں علامہ سید علی الموسوی اعلی اللہ مقامہ نے نمایاں کردار ادا کیا ان سے پہلے صرف کھر گرونگ ،گنگوپی،سکمیدان،چھومیک اور سزگرکھور کے عوام ہی شرکت کرتے تھے۔ آج ماہ اسد میں ۲۵ سے زیادہ جلوس عزا نکالے جاتے ہیں۔شیعیان بلتستان نواسہ رسول مظلوم کربلا سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کا عزاداری بے حد عقیدت و احترام سے سال میں دو بار مناتے ہیں۔ایک ماہ محرم الحرام میں اور دوسرا شمسی ماہ اسد میں۔


  بعض جگہوں پر لوگ اول سال سے ہی محرم کی مجالس کے لئے تبرکات کا انتظام کر رکھتے ہیں لوگ آٹا وغیرہ جدا کئے رکھ دیتے ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجلس کے وقت یہ ختم ہوجائے اور ہم تبرک دینے سے محروم رہ جائے۔آداب عزاداری کے اعتبار سے بلتستان کو ایک خاص مقام حاصل ہےیہاں شروع میں آداب مجلس ایرانی طرز کے تھے، بعد میں ان میں کشمیری روایات بھی شامل ہو گئیں۔ مجلس کی ابتدا درج ذیل فارسی اشعار سے ہوتی ہےازما سلام برتن صد پارہ حسین بر ہمراہان کشتہ و آوارہ حسین- بر خفتگان ماریہ و رفتگان شام آن اختران ثابت وسیارہ حسین  ایں خدمت وصال برایشان قبول باد صلوٰۃ بر رسول و بر آل رسول بادبرآں دو دست دادہ براہِ وفائے دوست عباس ؑ تشنہ کام جگر پارہ حسین ؑجب نوحہ خوانی اور سینہ زنی اپنے عروج کو پہنچ جائے تومجلس کو ختم کروانے کی خاطر کوئی فارسی کے یہ کلام بلند آواز میں پڑھ لیتے ہیں۔


داد از قتل حسین ؑ بیداد از زہر حسینؑ  -یوں اس کلام کے ختم ہونے پر سینہ زنی تمام ہو جاتے ہیں اور دعاوزیارت ابا عبداللہ الحسین کے بعد مجلس ختم ہوجاتی ہے۔محرم کے مجالس کی تقسیم بندی بھی کچھ خاص انداز میں ہے تین محرم تک اصحاب امام عالی مقام کا ذکر کیا جاتا ہےچہار محرم کو حضرت مسلم ابن عقیل کی شہادت ،پانچ محرم کو طفلان مسلم کی شہادت، چھے محرم کو علی اصغر کی شہادت ،سات کو شہزادہ قاسم کی شہادت ، آٹھ محرم کو علی اکبر کی شہادت ،نویں محرم کو حضرت عباس کی شہادت اور دس محرم کو مظلوم کربلا نواسہ رسول امام حسین کی شہادت پرھی جاتی ہیں ۔نویں محرم کی رات مختلف امام بارگاہوں سے جلوس اور شبیہ علم برآمد ہوتی ہے جب کہ شب عاشور کو بھی تمام عزاخانوں میں مجالس منعقد کی جاتی ہیں اور بعد میں ماتمی جلوس برآمد کیے جاتے ہیں اور رات بھر ماتم کا سلسلہ جاری رہتا ہے-


 عاشور کی صبح سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر امام بارگاہوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں مجالس کے بعد تعزیہ، عَلم اور ذوالجناح کے جلوس نکالے جاتے ہیں اور جلوس کے ہمراہ نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتے ہوئے اپنے علاقے میں موجود مقدس مقام کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب نماز ظہر کا وقت آئے تو باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے نماز کے فورا بعد دوبارہ جلوس کی صورت میں عزاداری کرتے ہوئے جاتے ہیں ۔جلوس کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا کر دوبارہ شام غریبان منانے امام بارگاہوں کا رخ کرتے ہیں ۔جہاں انتہائی درد اور سوز کے ساتھ مرثیے اور مصائب پڑھے جاتے ہیں ۔اس طرح ایام عزاء کا اختتام ہوتا ہے


منگل، 19 نومبر، 2024

بلتستان میں تاریخ عزاداری-حصہ اول

 

بشکریہ 

بلتستان میں تاریخ عزاداری

تحریر: سید قمر عباس حسینی حسین آبادی

تلخیص (بلتی اسلامی ثقافت پاکستان)

بلتستان میں چودہویں صدی عیسوی سے قبل اسلام کا نام و نشان نہ تھا -لیکن چودہویں صدی کے بعد اسلام اس شان وشوکت سے پھیلا کہ اب یہاں علوی اورحسینی تہذیب و تمدن جا بجادکھائی دیتا ھے ۔یہاں اسلام تشیع کی صورت میں پھیلا ھے کیونکہ جنہوں یہاں نوراسلام کو پھیلایا وہ  نور ولایت محمد وآل محمد  سے منور تھے۔یہی وجہ ہے کہ صد ھا سال بعد بھی اس علاقے میں محبان اہلیبیت اطہار علیہم السلام کی اکثریت موجود ہیں جن کے دل محبت آل محمد سے سرشار ہیں ۔آل محمد کی محبت میں یہ لوگ اپنا جان مال سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں ۔جب بھی محرم کا چاند افق عالم پر نمودار ہوتا ہے بلتستان کے لوگ سیاہ لباس میں غم حسین منانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ان ایام میں کام کاج چھوڑ کر صرف سیدہ زہرا کو ان کے دلبند کا ماتم وپرستہ دیتے ھیں۔جس دن بلتستان میں پہلا مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی پہنچے اسی دن سے عزاداری کی ابتداء ہو چکیلیکن باقاعدہ آداب اسلامی کے ساتھ فرھنگ و تمدن اسلامی کو ملحوظ نظر رکھ کر انجام پانے والے عزاداری کی تاریخ کو اس سرزمین میں دیکھنا ہو تو ہمیں میرشمس الدین عراقی کے دور (1490ء سے 1515ء)کا مطالعہ کرنا ہوگا۔


جس عصر میں میر شمس تبلیغ دین اور ترویج مذہب تشیع کی خاطر آئےتویہاں مقپون بوخا کی حکومت تھی۔مقپون بوخا کا بیٹا شیر شاہ میر شمس الدین عراقی معتقد تھابعد میں 1515ء میں جب وہ خود برسر اقتدار آیا تو اس نے اسلامی رسومات کے فروغ اور اشاعت اسلام کے لیے خدمات انجام دینے والوں کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومتی سطح پر انہیں پروٹوکول دئیے بہت سے علماکرام ،مبلغین دین اور ذاکرین کو مختلف علاقوں میں بھیجے تاکہ زیادہ سے زیادہ ترویج دین ہو سکے بہت سوں کو زمین بخش دئیے۔ان علما کرام کی کوششوں سے دیگر اسلامی آداب و رسوم کے ساتھ عزاداری بھی باقاعدگی سے شروع ھوئی۔بعد میں بلتستان کے معروف راجہ علی شیر خان انچن (1588ء تا 1625ء) کے دور میں رسمِ عزاداری اور فن شاعری کو بھی عروج ملنا شروع ہو گیا۔اس وقت عزاداری حکمرانوں کے درباروں میں ھوتی تھیں -اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مذہب تشیع کی ترویج اور فرھنگ وتمدن شیعی کو بلتستان اور گردو نواح میں مرائج کرنے میں مقپون راجاوں نے بڑا اہم کردار ادا کیاھے ۔


جب سید حسین رضوی کشمیر سے تبلیغ دین کے لئے کھرمنگ پہنچے تو وہاں کے راجہ نے از خود استقبال کئےاور اس سید بزرگوار کے حکم پر راجہ نے پولوگراونڈ میں ہی عزا خانہ بنایا گیا جہاں اب بھی عزاداری ابا عبداللہ ہوتی ہیں۔امام بارگاہ پاک و ہند میں مذہبی رسومات انجام دینے کے جگے کا نام ہے اسی کو خانقاہ بھی کہتے ہیں جنوب ہندوستان میں اسے عاشور خانہ بھی کہتے ہیں ۔پہلی بار نواب صفدر جنگ نے ۱۷۵۴م میں دھلی میں ایک مکان عزاداری کی خاطر تعمیر کروایا جسے پاک و ہند کا اولین امام بارگاہ مانا جاتا ہے اس کے بعد آصف الدولہ کا امام باڑہ ۱۷۸۴ میں تعمیر ہوا جس کے بعد سے امام باڑ تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔داءرۃ المعارف بزرگ اسلامی،ص۱۳۶، جلد دھم۔]احمد شاہ مقپون کی دور حکومت 1840ء میں سکردو میں امام بارگاہ کلاں کے نام سے پہلی امام بارگاہ بنی جس کے بعد امام بارگاہ لسوپی اور امام بارگاہ کھرونگ تعمیر ہوئیں۔ امام بارگاہوں کی تعمیر کے ساتھ ہی باقاعدہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوا آج بلتستان کے ہر ہر علاقے میں امام بارگاہیں موجود ہیں جہاں لوگ اپنے علاقوں میں مسجد کو ضروری سمجھتے ہیں وہاں غم ابا عبداللہ الحسین منانے کے لئے عزاخانے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں


 اس وقت  بلتستان کی سرزمین پر کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں محرم اور صفر میں عزاداری نہ ہوتی ہو ۔لوگ امام بارگاہوں کے علاوہ اپنے گھروں میں بھی عزاداری کرتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام رات باری باری لوگوں کے گھروں میں جا کر سیدہ زہرا کو ان کے لال حسین کا پرسہ دیتے ہیں ۔اہل بلتستان کے رگوں میں خون حسینی دوڑ رہا ہے یہ لوگ نام حسین پر سب کچھ فدا کرنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔عقیدت کی انتہا یہ ہے کہ بعض اہل معرفت لوگ سال بھر میں ہر روز نماز صبح کے بعد ایک مرثیہ پڑھ کرکربلا والوں پر چند قطرے آنسو بھاتے ہیں ۔نہ صرف مرد حضرات ایسا کرتے ہیں بلکہ بعض خواتین کا بھی یہی روش رہتا ھے۔ڈوگروں کا 108 سالہ دور بلتستان والوں کے لیے ایک سیاہ ترین دور تھا لیکن عزاداری کے حوالے سے ڈوگرہ حکمرانوں نے بھی خصوصی سہولیات فراہم کیں۔ جب جلوسِ عزا امام بارگاہ کلاں کے نزدیک پہنچتا تھا تو ڈوگرہ فوج کا ایک خصوصی دستہ تعزیہ اور عَلم کو سلامی پیش کرتا تھا اور جلوس کے اختتام تک احتراماً اپنی سنگینوں کو سرنگوں رکھتا تھا۔


جب بلتستان میں آزادی کی تحریک چلی تو کربلا کی روایت بلتی شاعری میں پھولی پھلی، 1840ء میں بلتستان کے حکمرانوں سے حکومت چھین لی گئیں اور ہر قسم کے مظالم ان پر ڈھائے گئے اور تو اور اپنے ساتھ ہونے والے مظالم پر گلہ شکوہ یا احتجاج کرنے کو بھی ناقابل معافی جرم قرار دیا گیاتو یہاں کے لوگوں نے مرثیہ اہل بیت کے ذریعے اپنے دکھوں کا مداوا شروع کئےیوں مرثیہ نگاری کو فروغ ملا ۔بلتستان میں مرثیہ نگاری کو اوج کمال تک پہنچانے میں بلتستان کے آخری حکمران کے جلاوطن شہزادے حسین علی خان محب اور محمد علی خان ذاکر کا نام آتا ہےان دو ہستیوں کے علاوہ لطف علی خان عاشق، ملک حیدر بیدل اور امیر حیدر مخلص نے کشمیر میں قید اور نظر بندی کے دوران بے مثال شاعری تخلیق کی۔ محب اور ذاکر کو آج بھی بلتستان میں رثائی ادب کے حوالے سے انیس اور دبیر کا درجہ حاصل ہے۔ ان شعرا نے دیگر موضوعات کے علاوہ خصوصی طور پر بلتی ادب کے دامن کو نوحہ، مرثیہ اور منقبت کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر