مغلیہ دور کےہندوستان میں مسلمانوں کے دور حکومت میں کئ ایسی خواتین کا ذکرملتا ہے جنہوں نے میدان جنگ میں اپنی نڈر اورقائدانہ سلاحیتوں کی بدولت اپنی فوجوں سے کہیں بڑی فوجوں کو نہ صرف شکست دی بلکہ برسوں تک ان کے نام کا دبدبہ قائم رہا ۔ سولہویں صدی کی ایک ہندوستانی بہادراور زیرک مسلمان حکمران چاند بی بی کا نام بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے جس کی جنگجویانہ صلاحیتوں نے مغل شہنشاہوں کے تخت و اقتدار کو چیلنج کردیااور مغل شہزادوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا ۔ چاند بی بی کو اسلامی تعلیمات پر مکمل عبور تھا ۔ چاند بی بی نے 1550 ءکو احمد نگر میں آنکھ کھولی۔ والد حسین نظام شاہ اوّل احمد نگر کے حکمراں تھے۔ 14 سال کی عمر میں اسکا بیاہ بیجا پور کے حکمراں علی عادل شاہ کے ساتھ اس ایما پر ہوا کہ احمد نگر اور بیجا پور کی پرانی دشمنی اور عداوت کو ختم کردیا جائے ۔بدلے کی اس شادی میں چاند بی بی کی شادی علی عادل شاہ سے اور چاند بی بی کے بھائی مرتضیٰ کی شادی علی عادل شاہ کی بہن ہدیہ سلطان سے ہوئی۔علی احمد کے مطابق ان شادیوں سے احمد نگر اور بیجا پور میں پرانی دشمنی ختم ہوئی۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پرانھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔چاند بی بی کے والد نے اس کی سپاہیانہ تربیت کی تھی -
اور اورنگ زیب کے بہمنی سلطنت کے خاتمہ کے بعد پانچ چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں ان میں احمد نگر اور بیجا پور میں دشمنی بہت بڑھ گئ تب ا ن کے یہاں ایک بدلے کی شادی کر کے اس دشمنی کا خاتمہ کیا گیا ۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔ان ہی کے مشوروں اور کوششوں سے بیجا پور کے احمد نگر سے تعلقات اچھے رہے، سلطنت مضبوط ہوئی اور بغاوتیں ختم ہوئیں۔ایک مرتبہ علی عادل شاہ کو اپنے قتل کی سازش کی خبر ملی۔ چاند بی بی نے شوہر کو تسلی دی اور کہا کہ وہ رات کو ان کی حفاظت کریں گی۔ ایک رات اچانک بالا خانے پر کسی کے کودنے کی آواز آئی۔ چاند بی بی خود تلوار سونت کر تن تنہا بالا خانے پر چڑھ گئیں۔تلواریں لیے دونقاب پوش ان پر جھپٹے۔ پھرتی سے پیچھے ہٹ کر چاند بی بی نے تلوار کا ایسا بھر پور وار کیا کہ ایک وہیں ڈھیر ہوگیا۔ دوسرا آگے بڑھا تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔
شور سن کرعلی عادل شاہ جاگ اٹھےاور بھاگتے ہوئے اوپر آئے۔ انھوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی بہادر ملکہ کی تلوار چوم لی اور بولے ’چاند بیگم اگر تمام دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں۔‘جب علی عادل شاہ نے وفات پائی تو چاند بی بی کی عمر 28 سال تھی مگرمورخین کہتے ہیں کہ وہ رزم و بزم کے تمام قواعد و فنون سے واقف تھیں۔اولاد نہ ہونے کے باعث، علی عادل شاہ کے قتل پرحکومت ان کے بھتیجے ابراہیم کو منتقل ہوئی جو تاریخ میں ابراہیم عادل شاہ ثانی کے لقب سے جانے گئے۔ مغلیہ فوج نے کئی بار احمد نگر کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ چاند بی بی تھی جس نے اپنی ذہانت،دلیری اور ہمت سے مغلوں کو منہ توڑ جواب دیا۔چاند بی بی نے فن حرب اور سپہ گری اور گھڑ سواری کی سخت تربیت حاصل کی تھی ۔میدان جنگ میں وہ فوجیوں کے لباس میں ہوتی تھیں۔ ایسی جنگی چالیں چلتی اور بہادری و شجاعت کے ایسے جوہر دکھاتی کہ کہ بڑے بڑے جنگی سورما بھی خوفزدہ ہو کر پیچھ ہٹ جایا کرتے تھے
اکبر کی سلطنت میں احمد نگر شامل نہیں تھا۔ اکبر نے اس اہم قلعہ کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کیلئے شہزادہ مراد کی زیر قیادت بھاری لشکر کو احمد نگر کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ 1595 کی بات ہے۔ جب شہزادہ مراد بڑے لشکر کے ساتھ احمد نگر پہنچا مگر چاند بی بی نے اس لشکر کا راستہ روک دیا اور ایسی جنگی چالیں چلیں کہ شہزادہ بے نیل ومرام واپس لوٹ گیا پھر دوسرے سال مغل شہزادہ دانیال کی سرکردگی میں مغلوں کی فوج احمد نگر کی تسخیر کیلئے پہنچی مگر اس بار بھی اس عظیم جنگجو خاتون نے مغل فوج کے چھکے چھڑا دےئے۔ اپنی شجاعت اور بہادری سے نہ صرف احمد نگر قلعہ کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا بلکہ مغل فوج کو بے مراد واپس کوچ کرنا پڑا۔آخر کار اکبر نے 1598ء کو لشکر کے ساتھ خود احمد نگر پہنچا۔ چاند بی بی نے مغل فوج کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور احمد نگر قلعہ کی حفاظت کی۔ اس نے اکبر کو تگنی کا ناچ نچوادیاتھا ۔ اس قلعہ کی تسخیر کیلئے مغل فوج کے تمام جنگی منصوبے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے تھے ۔
اس کے باوجود اکبر ڈٹا رہا اور اس کے خلاف چاند بی بی بھی عزم و حوصلہ کے ساتھ برابر ڈٹی رہیں۔محقیقین کے مطابق چاند بی بی کو عربی،فارسی،ترکی مراٹھی اور کنڑا پر زبردست عبور تھا۔ ستار بجانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مصوری ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ پھولوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔بھارت میں چاند بی بی کو جرات و ہمت کی علامت سمجھا جاتا ہے -ایک بار بہمنی سلطنت سے نکلی باقی تین سلطنتوں کی فوجوں نے احمدنگرپر اکٹھے حملہ کر دیا۔ جتنے دن محاصرہ رہا چاند بی بی برابر ایک مورچے سے دوسرے مورچے پر جاتی رہیں۔ ایک موقع پر جب شدید بارش تھی اورایک جگہ شگاف بھی پڑ گیا تھا، وہ حفاظت کے لیے بذاتِ خود کھڑی رہیں اور اپنی نگرانی میں شگاف بند کروایا۔ اس دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ چاند بی بی نے مغل فوج سے مفاہمت کرلی ہے۔ یہ افواہ پھیلانے میں خود اس کے امراء اور وزراء ملوث تھے۔ آخر کار 1599ءکووہ منحوس گھڑی آگئی،جب چاند بی بی اپنے محل میں تھی،اس وقت اس کے سپاہیوں کے ایک دستہ نے محل پر دھاوا بولا اور چاند بی بی کو قتل کر دیا ۔ بتایا جاتا ہی کہ اس غدار گروپ کو قلعہ دار حمید خان کی تائید و حمایت حاصل تھی اس کی غداری اور سازش سے احمد نگر کا قلعہ مغلوں کی فوجوں کے ہاتھ چلا گیا مگر حقیقت میں مغل فوج نے اس قلعہ کو فتح نہیں کیا۔ -
چاند بی بی جنوبی ہندوستانی علاقے دکن میں، اورنگ زیب نے سنہ 1347 میں قائم ہونے والی 180 سال بعد ختم کی تھی اور اس سے جن پانچ چھوٹی سلطنتوں نے جنم لیا تھا ان میں سے ایک بیجا پور کے پانچویں حکمران علی عادل شاہی تھے اور چاند بی بی نظام شاہی احمد نگر کے تیسرے سلطان، حسین نظام شاہ کی بیٹی تھیں۔