فرنگی محل لکھنؤ میں چوک نامی آبادی کے وسط سے گزرتی وکٹوریہ روڈ کے مغرب میں واقع ایک تاریخی عمارت ہے، جسے ماضی میں ایک عظیم درسگاہ کا درجہ حاصل رہا ہے اور اس نے برصغیر کے مسلمان حلقوں میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔غیر منقسم ہندوستان میں یورپی اقوام کے لوگوں کو فرنگی کہتے تھے۔ چنانچہ اس عظیم الشان عمارت کا نام فرنگی محل اس لیے پڑا کیونکہ اس کےپہلے فرانسیسی تھے۔کہا جاتا ہے کہ فرانس سے آنے والے ایک شخص نے اودھ کی حکومت سے تجارتی اغراض سے ایک عمارت بنانے کی اجازت لی اور ایک بہت ہی دیدہ زیب عمارت بنا ئ ا س عمارت میں تین رہائشی حصے تھے جن میں وہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے لگا خدا کی شان ہے کہ عمارت تو ایک فرانسسی آدمی نے بنائ لیکن اس سے استفادہ مسلمان قوم نے کیا اور اس عمارت میں عظیم درس گاہ مدرسہ نظامیہ نے پرورش پائ تاریخی پس منظر-پھر یوں ہوا کہ کسی سبب سے ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے اس عمارت کو ضبط کر لیا گیا اور غیر ملکی اپنے وطن واپس لوٹ گئے ۔
اسی زمانے بھارت کے صوبہ اترپردیش کے قصبے سہالی سے تعلق رکھنے والے مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے وزیر مذہبی امور ملا قطب الدین سہالوی انصاری خاندانی دشمنی کے زیر اثر قتل ہو گئے۔ان کے بیٹوں نے سہالی کے نامساعد حالات کے پیش نظر بادشاہ وقت سے درخواست کی کہ انھیں لکھنؤ منتقل ہونے میں مدد دی جائے، چنانچہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر چار عمارتوں پر مشتمل کمپلیکس فرنگی محل ملا قطب الدین سہالوی کے بیٹوں ملا اسعد سہالوی، ملا سعید سہالوی، ملا نظام الدین محمد سہالوی اور ملا رضا سہالوی بن ملا قطب الدین شہید کی تحویل میں دے دیا گیا۔ملا قطب الدین کی اولاد کے فرنگی محل میں منتقل ہونے کے بعد یہ عمارت اس خاندان کے لیے صرف ایک گھر نہیں رہی، بلکہ یہ علم و ثقافت کا ایک ایسا ادارہ بن گئی، جس کا تابناک عرصہ تین صدیوں پر محیط ہے۔ فرنگی محل اسلامی ثقافت اور روایات کے تحفظ اور ترویج میں اہم حصہ ادا کرتا آیا ہے۔ ملا نظام الدین نے عمارت میں ایک ایسی مشہور دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں کئی اہم علما پیدا کئے۔ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا، جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے مشابہ تھا۔
عہدِ اورنگ زیب میں جب بارہ بنکی کے ایک قصبے کے عثمانی شیخ زادوں نے مناقشات کی بنا پر قصبہ سہالی کے ممتاز عالم اور صوفی بزرگ ملا قطب الدین انصاری کے مکان پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر دیا تھا تو اس برگزیدہ خاندان کے لیے اپنے علاقے میں قیام کرنا بہت دشوار ہو گیا تھا۔ملا صاحب کے صاحبزادے ملا سعید نے دکن جا کر اورنگ زیب کو جو اس وقت وہاں برسرکارزار تھا، ایک محضر پیش کیا تھا جس کو شرف قبول حاصل ہوا، بادشاہ نے یکے بعد دیگرے دو فرامین جاری کیے۔ پہلا فرمان ملا قطب الدین انصاری کے خونِ ناحق کا قصاص لینے سے متعلق تھا اور دوسرے فرمان میں ان کے خاندان کو لکھنؤ میں سکونت پذیر ہونے کی اجازت دی گئی تھی اور یہی چاروں مکانات موسومۂ فرنگی محل اقامت کے لیے مرحمت ہوئے تھے۔ بعد میں بعض اور ملحقہ عمارتیں شامل ہوتی گئیں، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا محلہ فرنگی محل کے نام سے آباد ہو گیا۔ یہ پورا علاقہ علمائے فرنگی محل کی اقامت رہا اور اسی دائرہ میں وہ مہتم بالشان درسگاہ قائم ہوئی تھی جس کے بانی ملا نظام الدین تھے۔
آپ کے دوسرے تین بھائی درس و تدریس میں کمال رکھتے تھے۔ ان کی مختلف شاخوں میں بعض جید عالم اور گراں قدر صوفی گزرے ہیں لیکن ملا نظام الدین کا نامِ نامی زندۂ جاوید ہے۔ آپ کی عمر اپنے والد مرحوم کی ہلاکت کے وقت صرف 14 برس تھی لیکن آپ اس وقت شرحِ ملا جامی ختم کر چکے تھے، دل میں ذوقِ علم اور سر میں تکمیل کا سودا تھا۔ آپ نے دیوا، بنارس اور جائس جا کر بڑے بڑے علما کے آگے زانوے ادب تہ کیا اور بالآخر لکھنؤ آ کر ملا غلام علی نقشبندی سے درس لے کر مدارج تکمیل پر فائز ہوئے۔ علم وفضل کی برکتوں نے آپ کے دل میں تصوف کا بھی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ چنانچہ 40 برس کی عمر میں آپ نے شاہ عبدالرزاق بانسوی کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی تھی۔ تدریس کے ساتھ آپ کو فطری تعلق تھا۔ اسی صلاحیت کی بدولت آپ نے ایک ایسا نصابِ تعلیم مرتب کیا جو شہرۂ آفاق ہوا۔ آج بھی اس کی افادیت تسلیم ہے اور درس نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نصاب میں آپ نے صَرف و نحو، منطق و حکمت، فقہ و اصولِ فقہ، علمِ تفسیر و حدیث، علمِ کلام اور علمِ ریاضی سے متعلق مخصوص کتابیں شامل کر دی تھیں جن کی تعلیم بہترین و فضلا سے متعلق تھی۔
عہدِ آصف الدولہ میں جب انہوں نے لکھنؤ کو اپنا دارالحکومت بنایا، اس تعلیم گاہ کے مدرسین مسلم ممالک میں بڑی بڑی شہرتوں کے مالک ہو چکے تھے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلبا برصغیر کے گوشے گوشے میں علم کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ اودھ کے فرماں روا وسیع النظر تھے۔ پاس دار اور روادار تھے۔ علم دوست اور مخیر بھی تھے۔ فرنگی محل کی قدر شناسی کرتے ہوئے انہوں نے اس ادارے کے بیشتر علما کو مسند قضا و افتا پر مامور بھی کیا تھا۔ لیکن کسی مؤرخ یا واقعہ نگار کی زبانی یہ پتہ نہیں چلتا کہ اودھ کے کسی بادشاہ نے بھی فرنگی محل کی کبھی کوئی نمایاں سرپرستی کی ہو۔ اسی طرح دلی کے دربار مغلیہ سے بھی اورنگ زیب کے دو متذکرہ بالا فرامین کے بعد فرنگی محل کے حق میں کسی داد و دہش کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
اس عمارت کا اولین مالک مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں نیل (Niel) نامی ایک فرانسیسی یا ڈچ شخص تھا، جو دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ یہاں رہائش پزیر تھا۔ یہ عمارت ایک شاندار رہائش گاہ تھی، جسے کسی سبب سے ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے ضبط کر لیا گیا تھا۔
جواب دیںحذف کریں